Urdu

اگست کے مہینے میں، یکم سے آٹھ تاریخ کے درمیان، اٹلی میں انقلابی کمیونسٹ انٹرنیشنل کی پہلی کانگریس منعقد ہو گی۔ اس میں دنیا بھر سے سینکڑوں مندوبین شرکت کریں گے جو کہ ہزاروں کمیونسٹوں کی نمائندگی کر رہے ہوں گے جو دنیا کے ہر براِعظم سے اس کو آن لائن دیکھیں گے۔ آج سے پہلے کبھی نہ دیکھے گئے عالمی انتشار کے عہد میں یہ کانگریس اپنی نوعیت میں منفرد حیثیت کی حامل ہو گی۔

ہم دنیا میں تند و تیز تبدیلیوں کے عہد سے گزر رہے ہیں۔ امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کا بطور صدر انتخاب اور اس کی پالیسیوں نے عالمی سیاست، معیشت اور تعلقات میں دیوہیکل عدم استحکام پیدا کر دیا ہے۔

ہفتہ کے دن صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ترتھ سوشل پر لکھا کہ ”امن کا یہی وقت ہے“۔ اسی دن امریکہ نے ایران پر جدید تاریخ کا سب سے بڑا عسکری حملہ کیا۔ یورپی قائدین نے ٹرمپ کی حمایت کی، جن میں اس کا ڈاؤننگ سٹریٹ کا وفادار غلام بھی شامل تھا۔ سب نے ایران پر دباؤ ڈالا کہ ”ضبط“ کا مظاہرہ کرو، ”اشتعال انگیزی ختم کرو“ اور مذاکرات کی میز پر واپس آ بیٹھو۔

یہ تحریر لکھتے وقت پوری دنیا کی توجہ کا مرکز ایک شخص ہے۔ اس کا ہر لفظ حیران کن تفصیل سے اس امید پر پرکھا، تولا اور تجزیہ کیا جا رہا ہے کہ کچھ سمجھ لگے اس کے کچھ معنی ہیں بھی یا نہیں۔

گزشتہ مہینے جنگ کے ایک مختصر دورانیے کے بعد انڈیا اور پاکستان کے بیچ ایک ناپائیدار امن قائم ہو چکا ہے۔ اگرچہ بم خاموش ہو چکے ہیں لیکن جنگ کے بعد ابھرنے والی حب الوطنی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مودی حکومت اختلاف رائے رکھنے والوں کی گرفتاری، ہراسانی اور (چھتیس گڑھ میں ماؤاسٹ جنگجؤں کو) ماورائے عدالت قتل کروا رہی ہے۔

جمعہ، 13 جون کی صبح اسرائیل نے ایران پر ایک شدید حملہ کیا، جس میں اُس نے ایرانی عسکری قیادت کے کچھ لوگوں کو نشانہ بنایا اور بعض جوہری تنصیبات کو نقصان پہنچایا۔ یہ حملہ دو مراحل پر مشتمل تھا۔ اسرائیلی حملوں کی دوسری لہر بوقتِ تحریر جاری ہے، جن کا ہدف تہران (Tehran)، کرَج (Keraj)، قُم (Qom) کے ساتھ ساتھ نطنز (Natanz) میں جوہری افزودگی کی تنصیبات (Nuclear Enrichment Facility) ہیں، جنہیں دوسری بار نشانہ بنایا گیا ہے۔ یہ کھلی جارحیت مشرقِ وسطیٰ کو ایک مہلک آگ میں جھونکنے کا خدشہ پیدا کر رہی ہے، جس کے نتائج دور رس اور سنگین ہو سکتے ہیں۔

جون کے پہلے ہفتے کے آخری ایام میں لاس اینجلس میں امیگریشن کسٹمز انفورسمنٹ (ICE) کی جانب سے چھاپے مارنے کی ایک منظم کاروائی کی گئی۔ اس کاروائی میں رائفلز اور آنسو گیس بم لانچرز سے لیس مسلح وفاقی ایجنٹوں کے ساتھ لاس اینجلس پولیس ڈیپارٹمنٹ (LAPD) بھی شانہ بشانہ موجود تھی۔

بنیامین نیتن یاہو کی طرف سے قلیل مدتی جنگ بندی کے معاہدے کو توڑے ہوئے دو ماہ گزرنے کے بعد غزہ کی صورتحال تباہ کن حد تک بگڑ چکی ہے۔ اسرائیل کی مکمل ناکہ بندی کے باعث امداد، ادویات اور بنیادی ضروریاتِ زندگی معدوم ہو چکی ہیں اور اسرائیلی فوج کی بے رحم بمباری ایک بار پھر شروع ہو گئی ہے۔ بے شمار انسانی حقوق کی تنظیموں نے خبردار کیا ہے کہ یہ ناکہ بندی ایک وسیع پیمانے پر قحط کی شکل اختیار کر چکی ہے، جو دسیوں ہزار جانیں نگل سکتی ہے۔

ایک بار پھر، بھارت اور پاکستان جنگ کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ کسی بھی جماعت، اس کے پروگرام اور نظریات کی سب سے کڑی آزمائش جنگ اور انقلاب جیسے سوالات پر ہوتی ہے۔

دیرینہ دشمن انڈیا اور پاکستان کے درمیان ایک مرتبہ پھر جنگ کا آغاز ہو چکا ہے جس میں اب تک دونوں فتوحات کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ 7 مئی کی صبح انڈین ایئر فورس نے پاکستان اور پاکستانی زیر تسلط کشمیر میں 9 مقامات پر حملے کیے۔ پاکستان کا دعویٰ ہے کہ جوابی کاروائی کرتے ہوئے پانچ انڈین لڑاکا طیارے تباہ کر دیے گئے اگرچہ انڈیا تاحال اس سے انکاری ہے۔

ایک ہفتہ منڈی میں کہرام کے بعد ٹرمپ نے اب فیصلہ کیا ہے کہ پسپائی میں ہی حکمت ہے اور ”جوابی“ محصولات کو فی الحال نافذ کرنا مؤخر کر دیا ہے۔ لیکن ابھی بھی تجارتی جنگ اپنے جوبن پر ہے اور منڈیاں خوف سے تھر تھر کانپ رہی ہیں۔

فروری 2025ء میں میونخ سکیورٹی کانفرنس (Munich Security Conference) میں امریکی نائب صدر جے ڈی وینس کے خطاب کو چھ ہفتے گزر چکے ہیں۔ اس کانفرنس میں نائب صدر نے یورپ کو واضح کر دیا تھا کہ امریکہ کے ساتھ دہائیوں پرانا تعلق اب ختم ہو چکا ہے۔ اس وقت سے یورپی قائدین ایک سربراہی کانفرنس سے دوسری سربراہی کانفرنس میں مارے مارے پھر رہے ہیں، ایک آن لائن میٹنگ سے ”رضامندوں کا اتحاد“ تک اور بوکھلائی ہوئی کیفیت میں ہر طرف دیکھ رہے ہیں کہ عالمی تعلقات میں اس دیوہیکل تبدیلی کا کیا کرنا ہے۔

مارچ 1923ء میں فالج کے حملے کے باعث لینن کے معزور ہونے کے بعد بالشویک پارٹی کو از سر نو تعمیر کرنے کی ذمہ داری ٹراٹسکی نے سنبھال لی۔ اس تحریر میں نکلس البن سوینسن نے مستقبل کی لیفٹ اپوزیشن اور سٹالن، زنوثیف اور کامینیف کے گٹھ جوڑ ”تین کا ٹولہ“ کے مابین اختلافات پہلی بار کھل جانے کی وضاحت کی ہے۔ اور ان اختلافات میں آج کے عہد کے کمیونسٹوں کے لیے قیمتی اسباق کی نشاندہی کی ہے۔

مالیاتی منڈیاں ٹرمپ کی جانب سے 2 اپریل 2025ء کے روز نئے محصولات کے اعلان سے ڈگمگا رہی ہیں۔ پورے سرمایہ دار طبقے کے اعتماد کو ان سے شدید دھچکا لگا ہے چونکہ ٹرمپ نے 19ویں صدی کے بعدسے سب سے بلند محصولات عائد کیے ہیں۔