Urdu

غزہ اور اسرائیل میں خوشیاں منائی جا رہی ہیں کیونکہ ٹرمپ نے ٹروتھ سوشل پر اعلان کیا ہے کہ اسرائیلی اور حماس کے مذاکرات کاروں کے درمیان مصر میں ایک امن معاہدہ طے پا گیا ہے۔

اس ہفتے اسرائیل میں ایک ”ملکی سطح پر یومِ جنگ بندی“ بھڑک اُٹھا جب نتن یاہو نے غزہ کی فتح اور قبضے کا اعلان کیا، جو دراصل باقی ماندہ یرغمالیوں کی موت کے پروانے پر دستخط کرنے کے مترادف تھا۔

نوجوانوں اور طلبہ نے اس انقلابی تحریک میں قائدانہ کردار ادا کیا ہے۔ لاکھوں غریب مزدور پورے ملک میں سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ یہ مزدور طبقے کی طاقت دکھانے اور حکمران طبقے کو لرزا دینے کے لیے کافی ہے۔ لیکن یہ ہماری مطالبات جیتنے کے لیے کافی نہیں ہے، ہمارے حتمی مقصد کو حاصل کرنا تو دور کی بات ہے جو کہ ہماری زندگیوں اور معاشرے کی بنیادی تبدیلی ہے اور مزدور طبقے کے استحصال، جبر اور غربت کا خاتمہ ہے جبکہ امیر لوگ مزید امیر ہوتے جا رہے ہیں۔

پیر کے دن، اچانک ہی ہزاروں نوجوان انڈونیشیا کی سڑکوں پر نکل آئے۔ وہ پارلیمنٹ کی عمارت کے سامنے جمع ہوئے اور بہادری کے ساتھ پانی کی توپوں سے لیس سینکڑوں پولیس اہلکاروں کا سامنا کرتے ہوئے ”پارلیمنٹ مردہ“ کا نعرہ لگاتے رہے۔ مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپیں آدھی رات کے بعد تک جاری رہیں۔ صبح تک 400 افراد کو گرفتار کر لیا گیا، جن میں تقریباً 200 سکول کے طلبہ بھی شامل تھے۔

ہم سرمایہ داری کے آج تک کے سب سے بڑے بحران سے گزر رہے ہیں۔ عدم مساوات اپنی نئی حدوں کو چھو رہا ہے۔ موجودہ دور میں دوسری عالمی جنگ کے بعد کی سب سے زیادہ جنگیں جاری ہیں، اور عالمی معیشت سُست روی، مہنگائی اور بھاری قرضوں میں دبی ہوئی ہے۔ ٹرمپ دوبارہ منتخب ہو چکا ہے، اورعالمی جنگ کے بعد امریکہ کی بالادستی میں بننے والے ورلڈ آرڈر کی بنیادیں لرز رہی ہیں۔

اگست کے مہینے میں، یکم سے آٹھ تاریخ کے درمیان، اٹلی میں انقلابی کمیونسٹ انٹرنیشنل کی پہلی کانگریس منعقد ہو گی۔ اس میں دنیا بھر سے سینکڑوں مندوبین شرکت کریں گے جو کہ ہزاروں کمیونسٹوں کی نمائندگی کر رہے ہوں گے جو دنیا کے ہر براِعظم سے اس کو آن لائن دیکھیں گے۔ آج سے پہلے کبھی نہ دیکھے گئے عالمی انتشار کے عہد میں یہ کانگریس اپنی نوعیت میں منفرد حیثیت کی حامل ہو گی۔

ہم دنیا میں تند و تیز تبدیلیوں کے عہد سے گزر رہے ہیں۔ امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کا بطور صدر انتخاب اور اس کی پالیسیوں نے عالمی سیاست، معیشت اور تعلقات میں دیوہیکل عدم استحکام پیدا کر دیا ہے۔

ہفتہ کے دن صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ترتھ سوشل پر لکھا کہ ”امن کا یہی وقت ہے“۔ اسی دن امریکہ نے ایران پر جدید تاریخ کا سب سے بڑا عسکری حملہ کیا۔ یورپی قائدین نے ٹرمپ کی حمایت کی، جن میں اس کا ڈاؤننگ سٹریٹ کا وفادار غلام بھی شامل تھا۔ سب نے ایران پر دباؤ ڈالا کہ ”ضبط“ کا مظاہرہ کرو، ”اشتعال انگیزی ختم کرو“ اور مذاکرات کی میز پر واپس آ بیٹھو۔

یہ تحریر لکھتے وقت پوری دنیا کی توجہ کا مرکز ایک شخص ہے۔ اس کا ہر لفظ حیران کن تفصیل سے اس امید پر پرکھا، تولا اور تجزیہ کیا جا رہا ہے کہ کچھ سمجھ لگے اس کے کچھ معنی ہیں بھی یا نہیں۔

گزشتہ مہینے جنگ کے ایک مختصر دورانیے کے بعد انڈیا اور پاکستان کے بیچ ایک ناپائیدار امن قائم ہو چکا ہے۔ اگرچہ بم خاموش ہو چکے ہیں لیکن جنگ کے بعد ابھرنے والی حب الوطنی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مودی حکومت اختلاف رائے رکھنے والوں کی گرفتاری، ہراسانی اور (چھتیس گڑھ میں ماؤاسٹ جنگجؤں کو) ماورائے عدالت قتل کروا رہی ہے۔

جمعہ، 13 جون کی صبح اسرائیل نے ایران پر ایک شدید حملہ کیا، جس میں اُس نے ایرانی عسکری قیادت کے کچھ لوگوں کو نشانہ بنایا اور بعض جوہری تنصیبات کو نقصان پہنچایا۔ یہ حملہ دو مراحل پر مشتمل تھا۔ اسرائیلی حملوں کی دوسری لہر بوقتِ تحریر جاری ہے، جن کا ہدف تہران (Tehran)، کرَج (Keraj)، قُم (Qom) کے ساتھ ساتھ نطنز (Natanz) میں جوہری افزودگی کی تنصیبات (Nuclear Enrichment Facility) ہیں، جنہیں دوسری بار نشانہ بنایا گیا ہے۔ یہ کھلی جارحیت مشرقِ وسطیٰ کو ایک مہلک آگ میں جھونکنے کا خدشہ پیدا کر رہی ہے، جس کے نتائج دور رس اور سنگین ہو سکتے ہیں۔

جون کے پہلے ہفتے کے آخری ایام میں لاس اینجلس میں امیگریشن کسٹمز انفورسمنٹ (ICE) کی جانب سے چھاپے مارنے کی ایک منظم کاروائی کی گئی۔ اس کاروائی میں رائفلز اور آنسو گیس بم لانچرز سے لیس مسلح وفاقی ایجنٹوں کے ساتھ لاس اینجلس پولیس ڈیپارٹمنٹ (LAPD) بھی شانہ بشانہ موجود تھی۔

بنیامین نیتن یاہو کی طرف سے قلیل مدتی جنگ بندی کے معاہدے کو توڑے ہوئے دو ماہ گزرنے کے بعد غزہ کی صورتحال تباہ کن حد تک بگڑ چکی ہے۔ اسرائیل کی مکمل ناکہ بندی کے باعث امداد، ادویات اور بنیادی ضروریاتِ زندگی معدوم ہو چکی ہیں اور اسرائیلی فوج کی بے رحم بمباری ایک بار پھر شروع ہو گئی ہے۔ بے شمار انسانی حقوق کی تنظیموں نے خبردار کیا ہے کہ یہ ناکہ بندی ایک وسیع پیمانے پر قحط کی شکل اختیار کر چکی ہے، جو دسیوں ہزار جانیں نگل سکتی ہے۔