ہمیں ایک کمیونسٹ انٹرنیشنل کی ضرورت کیوں ہے؟ Share Tweetجون میں IMT ایک نئی انقلابی کمیونسٹ انٹرنیشنل (RCI) کی بنیاد رکھے گی جو بہادری اور الول العزمی سے ہر براعظم پر کمیونزم کا بے داغ پرچم لہرائے گی۔ اس مضمون میں ایلن ووڈز تفصیل سے بتاتے ہیں کہ اس تاریخی قدم کے کیا معنی ہیں اور پچھلی عالمی انقلابی تنظیموں کے قیام و انہدام کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے آج کمیونزم کی جدوجہد کے لئے RCI کی اہمیت اجاگر کرتے ہیں۔ ہماری تاسیسی کانفرنس کی رجسٹریشن کیلئے یہاں کلک کریں![Source]انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریںکمیونزم عالمگیریت کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔ ہماری تحریک کے آغاز میں ہی ”دی کمیونسٹ مینی فیسٹو“ میں مارکس اور اینگلز نے بیان کیا تھا کہ محنت کشوں کا کوئی ملک نہیں ہوتا۔سائنسی سوشلزم کے بانی ایک جرمن پارٹی کے قیام کی بجائے ایک عالمی تنظیم کی جدوجہد کر رہے تھے۔ لینن، ٹراٹسکی، روزا لکسمبرگ اور کارل لائب نیخت نے اپنی تمام زندگی اسی مقصد میں صرف کر دی۔ان کی عالمگیریت کوئی ذہنی اختراع یا جذباتی نتیجہ نہیں تھی۔ اس کی بنیاد یہ حقیقت تھی کہ سرمایہ داری بطور ایک عالمی نظام ارتقا پذیر ہے۔ مختلف قومی معیشتوں اور منڈیوں سے ایک واحد، غیر منقسم اور باہمی ادغام والی کلیت کا جنم ہوتا ہے، یعنی ایک عالمی منڈی۔آج مارکسزم کے بانی اساتذہ کی یہ پیش گوئی شاندار حقیقت میں ایسے تبدیل ہو چکی ہے جیسے کسی تجربہ گاہ میں کوئی تجربہ کامیاب ہو چکا ہو۔ ہمارے عہد کی سب سے بڑی، واضح اور ٹھوس حقیقت عالمی منڈی کا غلبہ ہے۔مارکس اور اینگلز کے ”مینی فیسٹو“ سے زیادہ جدید کوئی کتاب موجود نہیں ہے۔ اس میں سماج کی مختلف طبقات میں تقسیم، عالمگیریت کے مظہر، زائد پیداوار کے بحران، ریاست اور تاریخی ارتقا کی بنیادی قوتوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔لیکن سب سے بہترین اور ٹھوس نظریات بھی اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتے جب تک ان کا ایک تنظیمی اور عملی اظہار نہ ہو۔ اس لئے سائنسی سوشلزم کے بانی اساتذہ نے ہمیشہ محنت کش طبقے کی ایک انٹرنیشنل تنظیم کی جدوجہد کی۔مارکس اور اینگلز نے انٹرنیشنل ورکنگ مینز ایسو سی ایشن (International Working Men’s Association – IWA) کی تعمیر میں کلیدی کردار ادا کیا جسے پہلی انٹرنیشنل کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ آغاز میں اس تنظیم کی ساخت انتہائی متفاوت تھی۔ مارکس اور اینگلز کو ہر قدم پر نظریاتی وضاحت کی جدوجہد کرنی پڑی۔نظریاتی جدوجہد کے دو مرکزی محاذ تھے۔۔۔ایک طرف موقع پرست ٹریڈ یونین قائدین کے اصلاح پسند نظریات اور دوسری طرف انارکسٹ، انتہائی بائیں بازو اور فرقہ پرست رجحانات۔ان دونوں محاذوں پر مارکس اور اینگلز نے ساری عمر انتھک جدوجہد جاری رکھی۔ آج بھی کچھ زیادہ تبدیل نہیں ہوا ہے۔ کمیونسٹوں کو آج بھی انہی مسائل اور دشمنوں کا سامنا ہے۔ آج نام تبدیل ہو گئے ہوں گے لیکن جوہر وہی پرانا ہے۔لیکن مارکس اور اینگلز صرف نظریاتی جدوجہد تک ہی محدود نہیں تھے۔ انٹرنیشنل محنت کش طبقے کی روزمرہ جدوجہد کے ساتھ بھی جڑی ہوئی تھی اور محنت کش تحریک میں مسلسل عملی کام جاری رہتا تھا۔کمیونزم کے سرمایہ دارانہ دشمنوں کے گھٹیا جھوٹ اور بہتان تراشی کے باوجود کارل مارکس کے طریقہ کار میں آمریت کا کوئی شائبہ تک موجود نہیں تھا۔ اس کے برعکس اصلاح پسندی کی جانب مائل محنت کشوں سے متعلق اس کا رویہ انتہائی صابر اور تدبرانہ ہوتا تھا۔ اس نے اینگلز کو ایک خط میں لکھا کہ:”اس چیز کو ایسے تشکیل دینا بہت مشکل تھا کہ ہمارا موقف محنت کش تحریک کی موجودہ سوچ کے سامنے ایک قابل قبول شکل میں موجود ہو۔۔۔تحریک کی نئی بیداری کی صورت میں ہی ماضی کی طرح دو ٹوک الفاظ اور لہجے کا استعمال ممکن ہو پائے گا۔ اس لئے ہمارا رویہ نرم جبکہ مواد واضح اور دو ٹوک ہونا لازمی ہو گا“۔آج کے کمیونسٹوں کے لئے یہ انتہائی آزمودہ نصیحت ہے جو محنت کش طبقے کی عوامی تنظیموں میں کام کرنے کے خواہش مند ہیں۔پہلی انٹرنیشنل کا خاتمہانٹرنیشنل نے دیوہیکل پیش قدمی کی۔ لیکن 1871ء میں پیرس کمیون کی شکست نے تنظیم کو جان لیوا زخم دیا۔ اس کے بعد رجعتیت کا جو کھلواڑ شروع ہوا اس سے فرانس میں کام کرنا ناممکن ہو گیا اور ہر جگہ انٹرنیشنل کو ریاستی جبر کا نشانہ بنایا گیا۔لیکن اس کے مسائل کی حقیقی بنیاد کمیون کی شکست کے بعد پوری دنیا میں سرمایہ داری کی تاریخی اٹھان ہے۔ ان حالات میں سرمایہ داری نے محنت کش تحریک پر شدید دباؤ ڈالا جس کے نتیجے میں اندرونی لڑائیاں اور گروہ بندیوں نے جنم لیا۔عمومی مایوسی اور تھکاوٹ کی موجودگی میں باکونن اور اس کے حامیوں کی سازشیں شدت اختیار کرتی چلی گئیں۔ ان وجوہات نے مارکس اور اینگلز کو مجبور کیا کہ پہلے انہوں نے انٹرنیشنل کا مرکزی دفتر نیویارک منتقل کرنے کی تجویز پیش کی اور بالآخر فیصلہ کیا کہ انٹرنیشنل کو کم از کم وقتی طور پر تحلیل کر دینا ہی بہتر ہے۔ IWA کو 1876ء میں تحلیل کر دیا گیا۔ ایک وقت تک پوری دنیا میں کوئی انٹرنیشنل موجود نہیں تھی۔دوسری انٹرنیشنلIWA نے ایک کامیابی ضرور حاصل کی کہ ایک حقیقی انقلابی انٹرنیشنل کی نظریاتی بنیادیں تعمیر ہو گئیں۔ لیکن یہ کبھی بھی محنت کشوں کی ایک حقیقی عالمی اور عوامی انٹرنیشنل نہیں تھی۔ بہرحال یہ مستقبل کی نوید ضرور تھی۔سوشلسٹ انٹرنیشنل (دوسری انٹرنیشنل) کی بنیاد 1889ء میں رکھی گئی اور اس کا آغاز پہلی انٹرنیشنل کی ٹوٹی کڑی کے ساتھ جڑ کر ہوا۔ پہلی عالمی انٹرنیشنل کے برعکس اس کی عوامی بنیادیں موجود تھیں۔ اس کی صفوں میں جرمنی، فرانس، برطانیہ، بلجیئم اور دیگر ممالک کی عوامی پارٹیاں اور ٹریڈ یونینز شامل تھیں۔1871-1914ء کا دورانیہ سوشل ڈیموکریسی کا کلاسیکی دور تھا۔ کم از کم الفاظ میں اس کی بنیادیں انقلابی مارکسزم تھیں۔ لیکن یہ ایک بدقستی تھی کہ نئی انٹرنیشنل کی بنیادیں سرمایہ داری کی تاریخی اٹھان کے دور میں پختہ ہوئیں۔معاشی نمو کے ایک طویل دور میں سرمایہ داری کے لئے یہ ممکن ہوا کہ محنت کش طبقے یا پھر زیادہ درست الفاظ میں اس کی اوپری پرتوں کو کچھ نوازا جا سکے۔ ان حالات میں بتدریج ایک مراعت یافتہ لیبر اشرافیہ کا تاریخی جنم ہوا۔سوشل ڈیموکریٹک قائدین کو یقین ہو گیا کہ اپنے مقاصد ایک انقلاب کے بغیر بھی حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ ان کو یقین ہو گیا کہ آہستہ، پرامن، بتدریج اصلاحات کے ذریعے محنت کش طبقے کے مسائل حل کئے جا سکتے ہیں۔انہوں نے اس ”عملی“ سیاست کو، ان کے مطابق، مارکسزم کے تاریخی طور پر متروک نظریات کے مقابلے میں کھڑا کر دیا اگرچہ یوم مئی پر طبقاتی لفاظی کی روایت جاری رہی۔مارکس کے سابق شاگرد ایڈورڈ برنسٹائن جیسے افراد نے اس نظریاتی پسپائی کو نظریاتی بنیادیں فراہم کرنے کے لئے مارکسزم میں ترمیم کرنے کی کوشش کی۔لیکن دوسری (سوشلسٹ) انٹرنیشنل کی قومی اصلاح پسند تنزلی کی بنیاد سرمایہ داری کے معروضی حالات میں پیوستہ تھی جس سے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ترمیم پسند درست ہیں۔لیکن اصلاح پسندی کی ساری عمارت 1914ء میں زمین بوس ہو گئی جب انٹرنیشنل کے قائدین نے پہلی عالمی جنگ کے لئے فنڈ مختص کرنے کے حق میں ووٹ دیا اور ”اپنے“ حکمران طبقات کے سامراجی قتل عام کی حمایت کر دی۔جنگ اور اس میں سے جنم لینے والے روسی انقلاب نے انقلاب اور رد انقلاب کے ایک نئے دور کو جنم دیا۔ ان مادی بنیادوں پر ایک نئی محنت کش انٹرنیشنل کا جنم ہوا۔کمیونسٹ انٹرنیشنل1914ء میں ہی لینن نے نتیجہ اخذ کر لیا تھا کہ سماج کی تبدیلی کیلئے دوسری انٹرنیشنل ایک آلہ کار سے آلہ بیکار بن چکی ہے۔ اس نے نئی تیسری انٹرنیشنل کا اعلان کیا اگرچہ اس وقت عالمگیریت پر قائم انقلابیوں کی تعداد مٹھی برابر تھی۔عالمگیریت پر مبنی رجحان عوام سے کٹا ہوا تھا جو سوشل شاونسٹ قائدین کے زیر اثر تھے اور حب الوطنی کے نشے میں دھت تھے۔ دیوہیکل واقعات ہی اس صورتحال کو تبدیل کر سکتے تھے۔ صورتحال کی تبدیلی کا آغاز 1917ء میں روسی انقلاب سے ہوا۔لینن اور ٹراٹسکی نے روسی محنت کش طبقے کی قیادت کرتے ہوئے محنت کشوں کی پہلی تاریخی ریاست کی تعمیر کا آغاز کیا اور 1919ء میں تیسری (کمیونسٹ) انٹرنیشنل کا باضابطہ اعلان کیا۔اسے ’کو کمنٹرن (کمیونسٹ انٹرنیشنل)‘ کے نام سے جانا جاتا تھا اور یہ اپنے دو پیش روؤں سے تاریخی طور پر بلند تر معیار پر کھڑی تھی۔ IWA کی طرح اس کا ایک واضح انقلابی انٹرنیشنل پروگرام تھا۔ دوسری انٹرنیشنل کی طرح اس کی لاکھوں کروڑوں محنت کشوں میں بنیادیں موجود تھیں۔لینن اور ٹراٹسکی کی قیادت میں کمیونسٹ انٹرنیشنل درست انقلابی راہ پر گامزن رہی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ عالمی انقلاب کی قسمت اب محفوظ ہاتھوں میں ہے۔لیکن خوفناک مادی اور ثقافتی پسماندگی کی موجودگی میں روسی انقلاب کی تنہائی نے انقلاب کی افسر شاہانہ انحطاط پذیری میں اپنا اظہار کیا۔سٹالن کی قیادت میں افسر شاہی کا دھڑا خاص طور پر 1924ء میں لینن کی وفات کے بعد حاوی ہو گیا۔ روس میں سٹالن ازم کا ابھار تیسری انٹرنیشنل کے دیوہیکل انقلابی امکانات کے لئے زہر قاتل ثابت ہوا۔سوویت یونین کی سٹالنسٹ تنزلی نے پوری دنیا میں موجود کمیونسٹ پارٹیوں کی ناتجربہ کار اور نادان قیادتوں کا گلا گھونٹ دیا۔”ایک ملک میں سوشلزم“1928ء میں ٹراٹسکی نے پیش گوئی کی کہ ایک ملک میں سوشلزم کی ”تھیوری“ کا ناگزیر انجام قومی بنیادوں پر کمیونسٹ پارٹیوں کی انحطاط پذیری میں ہو گا۔ تاریخ اس پیش گوئی پر سچائی کی مہر ثبت کر چکی ہے۔اس نام نہاد تھیوری نے لینن ازم کی عالمگیریت سے واضح طور پر ناطہ توڑ دیا۔ یہ افسر شاہی کی تنگ نظر قوم پرستی کا اظہار تھی جو کمیونسٹ انٹرنیشنل کو ماسکو کی خارجہ پالیسی کا محض ایک آلہ کار سمجھتی تھی۔ کومنٹرن کو سفاکی سے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنے کے بعد سٹالن نے 1943ء میں ایک کانگریس منعقد کرنے کا تردد کئے بغیر ہی اسے ہمیشہ کے لئے تحلیل کر دیا۔ٹراٹسکی اور لیفٹ اپوزیشن نے سٹالنسٹ رد انقلاب کے خلاف اکتوبر انقلاب کی بے داغ روایات کا پرچم بچانے کی کوشش کی۔ وہ محنت کشوں کی جمہوریت اور عالمگیریت کے بنیادی اصولوں پر مبنی لینن ازم کی روایات کا دفاع کر رہے تھے۔ لیکن وہ تاریخ کے بے رحم بہاؤ کے سامنے خش و خاک ثابت ہوئے۔1938ء میں ٹراٹسکی نے چوتھی انٹرنیشنل کی بنیاد رکھی جو ایک نئی نسل کے لئے بے داغ انقلابی روایات کی امین تھی۔ لیکن ٹراٹسکی کے قتل کے بعد اس کے قائدین کی فاش غلطیوں نے اسے تباہ و برباد کر دیا۔ٹراٹسکی کی رہنمائی کے بغیر چوتھی انٹرنیشنل ختم ہو گئی۔ دہائیوں بعد اس تنظیم میں ایک سے بڑھ کر ایک عجیب و غریب اور لایعنی تقسیم اور گروہ بندی بچی ہے۔انہوں نے بے تحاشہ انتشار اور مبہوس الہواسی کے علاوہ اور کچھ نہیں حاصل کیا حتیٰ کہ کئی جنگجو محنت کشوں کی نظر میں ٹراٹسکی ازم کا خیال ہی بدنام ہو چکا ہے۔آج چوتھی انٹرنیشنل سے بس اس کے بانی لیون ٹراٹسکی کے نظریات ہی بچے ہیں جو اپنی تمام تر تاریخی افادیت اور اہمیت سمیت موجود ہیں۔ ان نظریات کو انتھک محنت اور کوششوں کے ساتھ کامریڈ ٹیڈ گرانٹ مرحوم نے زندہ رکھا اور آج عالمی مارکسی رجحان انہی روایات کا امین ہے۔کمیونسٹ پارٹیوں کی انحطاط پذیریہم اپنی نظریاتی وراثت پر فخر کرتے ہیں۔ لیکن ہمیں حقائق کا ادراک بھی ہے۔ آج پہلی انٹرنیشنل کی تاسیس کے 150 سال بعد معروضی اور موضوعی وجوہات کی بنیاد پر انقلابی تحریک پسپا ہے اور حقیقی مارکسزم کی قوتیں ایک چھوٹی اقلیت بن کر رہ گئی ہیں۔اس کی زیادہ تر وجوہات معروضی حالات میں تلاش کی جا سکتی ہیں۔ ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک میں دہائیوں کی معاشی خوشحالی اور ترقی نے محنت کشوں کی عوامی تنظیموں کو تاریخی طور پر انحطاط پذیر کر دیا ہے۔ اس نے انقلابی رجحان کو تنہا کر دیا ہے اور ہر جگہ یہ رجحان اقلیت میں بھی اقلیت بن چکا ہے۔سوویت یونین کا انہدام سابق سٹالنسٹ قائدین کے انحطاط پر آخری مہر ثابت ہوا جن میں سے زیادہ تر نے سرمایہ داری کے دباؤ کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہوئے اعلانیہ اصلاح پسندی کا راستہ اپنا لیا۔لیکن اس سکے کا دوسرا رُخ بھی ہے۔ موجودہ بحران نے سرمایہ داری کا رجعتی کردار ننگا کر دیا ہے اور عالمی کمیونزم کا احیاء ایک مرتبہ پھر سرفہرست ہو چکا ہے۔تاریخ کا دھارادہائیوں ہم تاریخ کے بہاؤ کے خلاف جدوجہد کرنے پر مجبور رہے ہیں۔ لیکن اب تاریخ کا دھارا تبدیل ہو رہا ہے۔ہر جگہ سکون اور استحکام کی سطحی ملمع کاری کے نیچے دیوہیکل غم وغصہ، خفگی، عدم اطمینان اور سب سے بڑھ کر مروجہ سماجی اور سیاسی حالات کے حوالے سے شدید پریشانی موجود ہے۔امریکہ میں بھی آبادی کی اکثریت عدم اطمینان کا شکار ہے اور موجودہ حالات پر سوالات اٹھا رہی ہے۔ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔حکمران طبقہ معاشی توازن قائم کرنے کی سر توڑ کوششیں کر رہا ہے لیکن اس کے نتیجے میں سماجی اور سیاسی توازن تباہ و برباد ہو رہا ہے۔ حکمران طبقہ ایک ایسے بحران میں پھنس چکا ہے جس کا حل اس کے پاس موجود نہیں ہے۔ موجودہ حالات کو اسی تناظر میں سمجھا جا سکتا ہے۔بحران ہر پہلو اور ہر مظہر میں عدم استحکام کے ذریعے اپنا اظہار کر ہا ہے۔۔۔معاشی، فنانس، سماجی، سیاسی، سفارتی اور عسکری۔اس نظام کے پاس اب انسانیت کو دینے کے لئے مسلسل اذیت، مایوسی، بیماری، جنگ اور موت کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ لینن کے الفاظ میں سرمایہ داری لامتناہی تباہی و بربادی ہے۔یہ تاریخ کی ستم ظریفی ہے کہ محنت کش پارٹیوں کی قیادت تباہ و برباد سرمایہ داری اور منڈی کی معیشت سے چمٹی پڑی ہے اگرچہ یہ سب کچھ ان کی آنکھوں کے سامنے ملیا میٹ ہو رہا ہے۔واحد حلکلیدی مسئلہ ایک ہی ہے۔ مسئلہ قیادت کا ہے۔ 1938ء میں ٹراٹسکی نے لکھا تھا کہ انسانیت کا بحران سمٹ کر محنت کش طبقے کی قیادت کا بحران بن چکا ہے۔ یہ بات آج کی موجودہ صورتحال کا مکمل احاطہ کرتی ہے۔مارکسی نظریات پر ٹھوس عبور کی عدم موجودگی میں نام نہاد لیفٹ سرمایہ داری کے آگے مکمل طور پر لیٹ چکا ہے اور سوشلزم کی جدوجہد ترک کر چکا ہے۔ اس کی جگہ ایک دیوہیکل خلا موجود ہے۔ لیکن سائنس ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ فطرت خلا برداشت نہیں کرتی۔ اس بنیاد پر ہمیں ایک ٹھوس چیلنج کا سامنا ہے۔محنت کش اور نوجوان سماج کی بنیادی تبدیلی کے لئے تڑپ رہے ہیں۔ لیکن اپنی جدوجہد کے لئے انہیں کوئی منظم اظہار نہیں مل رہا۔ ہر قدم پر ان کا راستہ پرانی افسر شاہی تنظیمیں اور قیادتیں روک کر بیٹھی ہوئی ہیں جو عرصہ دراز پہلے سوشلزم کی جدوجہد کا دکھاوا بھی ترک کر چکے ہیں۔پوری دنیا میں سرمایہ داری کے بحران کی بنیاد پر طبقاتی جنگجوؤں کی ایک نئی نسل تیزی سے پھیل رہی ہے۔ اس سے عوام اور خاص طور پر نوجوانوں کا شعور تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔برطانیہ، امریکہ، آسٹریلیا اور دیگر ممالک میں حالیہ رائے شماریاں وضاحت کر رہی ہیں کہ کمیونزم کے نظریات تیزی سے پھیل رہے ہیں۔ان نوجوانوں کو قائل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ پہلے ہی کمیونسٹ ہیں۔ لیکن انہیں موجودہ تنظیموں کا کوئی متبادل نظر نہیں آ رہا۔ اس کے برعکس انہیں ان سے گھن آتی ہے۔وہ ایک بے داغ پرچم کی تلاش میں ہیں، ایک ایسی تنظیم جو اصلاح پسندی کی غداری اور بزدل ”لیفٹ“ موقع پرستی سے مکمل طور پر علیحدہ، ممتاز اور منفرد ہو۔کمیونزم کے لئے دیوہیکل امکانات موجود ہیں۔ ہمارا کام ان امکانات کو حقیقت کے روپ میں دھارنا ہے۔ لیکن یہ فریضہ کیسے سرانجام ہو گا؟ہمیں ایک شدید تضاد کا سامنا ہے۔ مارکس کے نظریات کی آج جس قدر اہمیت اور افادیت بن چکی ہے اتنی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں تھی۔ لیکن نظریات اپنے آپ میں ناکافی ہیں۔ہمیں کمیونسٹوں کی اس نئی نسل کو تلاش کر کے اس کے ساتھ جڑنے کے لئے عملی اقدامات کرنا ہوں گے تاکہ وہ ہمارے پرچم تلے متحد ہوں۔ اس کا ناگزیر مطلب ہے کہ ہم ان نظریات کو ٹھوس تنظیمی شکل دیں۔ایک نئی انٹرنیشنل کی ضرورت کوئی خام خیالی نہیں ہے اور نہ ہی یہ کسی موضوعی خواہش یا ناسمجھ بے صبری کا اظہار ہے۔ یہ واضح طور پر ایک نئے عہد کے نئے تکازوں سے ہم آہنگی کا سوال ہے۔کیا آج ایسا بے باک قدم اٹھانے کے لئے وقت موزوں ہے؟ یقینا کچھ افراد کے لئے کوئی بھی وقت کبھی بھی موزوں نہیں ہوتا۔ وہ ہمیشہ ایک ہزار ایک بہانے تراش لاتے ہیں کہ ہمیں فیصلہ کیوں موخر کرنا چاہیے۔ لیکن ہم تذبذب اور غیر یقینی کی صورتحال میں کوئی پروگرام یا پالیسی تشکیل نہیں دے سکتے۔یہ اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ اس وقت یہ قدم اٹھانے کے لئے ہماری تعداد انتہائی قلیل ہے۔ لیکن تاریخ میں ہر انقلابی تحریک کا آغاز ایک چھوٹی اور غیر اہم اقلیت کے طور پر ہی ہوا ہے۔1914ء میں لینن کے پاس موجود قوتیں مضحکہ خیز حد تک چھوٹی تھیں۔ لیکن وہ ایک نئی کمیو نسٹ انٹرنیشنل کی ضرورت کا اعلان کرنے سے لمحہ بھر تذبذب کا شکار نہیں ہوا۔ اس وقت بھی کئی خدشات موجود تھے جن کا اظہار اس کے اپنے حامیوں نے بھی کیا لیکن تاریخ وضاحت کرتی ہے کہ اس کا فیصلہ درست تھا۔یہ درست ہے کہ آج درپیش تاریخی فرائض کے مقابلے میں ہماری قوتیں انتہائی قلیل ہیں اور اس حوالے سے ہمیں کسی قسم کی غلط فہمی نہیں ہے۔ لیکن صورتحال ابھی سے تیزی کے ساتھ تبدیل ہو رہی ہے۔ہم نے اہم کام کرنا ہے اور یہ کام، جو اب فیصلہ کن مرحلے پر پہنچ رہا ہے، ابھی سے اہم کامیابیاں حاصل کر رہا ہے۔ اس کا واضح اظہار ”کیا تم کمیونسٹ ہو“ کمپئین سے ہورہا ہے۔ہم ہر جگہ تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ یہ کوئی حادثہ نہیں ہے۔ ہم اب تاریخ کے دھارے کے ساتھ تیر رہے ہیں۔ سب سے بڑھ کر ہمارے نظریات درست ہیں۔ حتمی طور پر یہی کامیابی کی سب سے بڑی ضمانت ہے۔اس وقت ایک حقیقی کمیونسٹ پارٹی کی ضرورت ہے جس کی بنیادیں لینن اور دیگر عظیم مارکسی اساتذہ کے نظریات ہوں اور ایک ایسی انٹرنیشنل موجود ہو جو کمیونسٹ انٹرنیشنل کے پہلے پانچ سالوں کی طرز پر منظم ہو۔ہم نے اپنے لئے یہ ہدف متعین کیا ہے۔ یہ انتہائی اہم اور ناگزیر فریضہ ہے جس کے لئے لمحہ بھر تاخیر نہیں کی جا سکتی۔سخت ترین حالات میں، ایک چھوٹی اور معمولی سی ابتدا سے IMT آج ایک ایسی تنظیم بن چکی ہے جس کے کئی ممالک میں ہزاروں محنت کش اور نوجوان ممبر ہیں۔یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔لیکن یہ آغاز ہے۔ اب وقت آ چکا ہے کہ فیصلہ کن قدم اٹھایا جائے، یعنی کہ انقلابی کمیونسٹ انٹرنیشنل کو قائم کیا جائے۔ہم ہر اس محنت کش اور نوجوان سے اپیل کرتے ہیں جو ہمارے اس مقصد سے متفق ہو کہ ہم نے عالمی سوشلزم کو فتح یاب کرنا ہے۔سرمایہ داری اور سامراج مردہ باد!سماج کی سوشلسٹ تبدیلی زندہ باد!عالمی انقلاب کی جدوجہد میں ہمارا ساتھ دو!دنیا بھر کے محنت کشو ایک ہو جاؤ!لندن، 11 مارچ 2024