امریکہ: آگ میں جھلستے لاس اینجلس اور سرمایہ داری Share Tweetاس آرٹیکل کو لکھتے وقت، لاس اینجلس اور اس کے آس پاس کے علاقے چھ جنگلات کی بے قابو آگ کی لپیٹ میں ہیں۔ اس ہولناک آفت میں کم از کم دس افراد جاں بحق ہو چکے ہیں اور لاس اینجلس کے کاؤنٹی شیرف (Los Angeles County Sheriff) ڈیپارٹمنٹ کو توقع ہے کہ یہ تعداد مزید بڑھ سکتی ہے۔[Source]انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریںگھنا دھواں شہر کے بیشتر حصے کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے اور آسمان نارنگی روشنی سے چمک رہا ہے۔ لاکھوں ایکڑ زمین شعلوں کی نذر ہو چکی ہے، جبکہ 100 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی طوفانی ہوائیں آگ کو مزید بھڑکا رہی ہیں۔ سوشل میڈیا پر شیئر کیے جانے والے قیامت خیز مناظر دانتے کے زیرِ زمین دوزخ کے شہر ”سٹی آف ڈِس“ (City of Dis) کی منظر کشی کی یاد دلاتے ہیں۔تقریباً ایک لاکھ اسی ہزار رہائشیوں کو انخلا کے احکامات جاری کیے گئے ہیں اور پندرہ لاکھ سے زائد افراد بجلی سے محروم ہو چکے ہیں۔ ٹریفک جام میں پھنسے ہوئے انخلا کرنے والوں نے اپنی گاڑیاں چھوڑ کر پیدل فرار کا راستہ اختیار کر لیا ہے، جس کی وجہ سے اہم نقل و حمل کے راستے بند ہو گئے ہیں، جبکہ ہزاروں مزید افراد انخلا کی تیاری کر رہے ہیں۔ آگ پر قابو پانے کی کوششیں بری طرح ناکام ہو چکی ہیں؛ پالیسیڈز (Palisades) کی آگ پر صرف 6 فیصد قابو پایا جا سکا ہے، جبکہ ایٹن (Eaton) کی آگ پر بالکل بھی قابو نہیں پایا جا سکا۔گرم ترین سال کا ریکارڈگرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں نئی بلندی پر پہنچنے کے ساتھ، 2024ء گرم ترین سال ریکارڈ ہوا ہے۔ سطحی درجہ حرارت صنعتی دور سے پہلے کے مقابلے میں اوسطاً 1.6 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ رہا اور ایسا پہلی بار ہوا کہ سرمایہ دار سیاستدانوں کی جانب سے 2015ء کے پیرس ماحولیاتی معاہدے (Paris Climate Agreement) میں تعین کردہ 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ کی حد عبور ہوئی۔ 2015ء سے 2024ء کے درمیان کے دس سال گرم ترین سال کے طور پر ریکارڈ ہوئے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ شدت اختیار کرتے ہوئے اور غیر متوقع موسم کے پیچھے ماحولیاتی بحران کا ہاتھ ہے، جس میں سینتا آنا (Santa Ana) سے آنے والی غیر معمولی طور پر تیز ہوائیں بھی شامل ہیں جو موجودہ آگ کو مزید بھڑکا رہی ہیں۔ گیارہ ماہ پہلے ایک موسمی دریا جنوبی کیلیفورنیا میں تباہ کن سیلاب اور مٹی کے تودے گرنے کا سبب بنا تھا۔ آج اسی خطے میں غیر معمولی خشک حالات غالب ہیں۔ماحولیاتی بحران اور اس کے نتیجے میں آنے والی تباہیوں کے لیے ناکافی اور غفلت پر مبنی ردعمل کی بنیادی وجہ ایک ہی ہے؛ بوسیدہ اور فرسودہ سرمایہ دارانہ نظام۔پولیس کے لیے کروڑوں، فائر فائٹرز کے لیے کٹوتیاںجنوبی کیلیفورنیا میں آٹھ ماہ سے بارش نہیں ہوئی۔ اس کے باوجود لاس اینجلس کی میئر کیرن باس نے فائر ڈیپارٹمنٹ کے بجٹ میں تقریباً 18 ملین ڈالر کی کٹوتی کر دی۔ اس کے برعکس اس نے LAPD (Los Angeles Police Department) کے بجٹ میں، جس کا پہلے ہی بھاری بھرکم بجٹ تھا، 138 ملین ڈالر کا اضافہ کیا۔ یہ سرمایہ دار سیاستدان جو عوام کو تباہیوں سے بچانے میں ناکام ہیں، در حقیقت اپنے طبقے کو اس نظام کی تباہی اور اس سے پیدا ہونے والے سماجی نتائج سے بچانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ان کی ترجیحات ماحولیاتی بحران اور عوامی تحفظ کے بجائے اپنے مفادات کے تحفظ پر مرکوز ہیں۔ جیسا کہ کیلیفورنیا کے سیاستدانوں نے آگ سے بچاؤ کے لیے فنڈنگ میں کٹوتی کی ہے، ویسے ہی وہ آگ بجھانے کے لیے سستے قیدی مزدوروں کی محنت پر انحصار زیادہ کر رہے ہیں، قیدیوں کو جان لیوا کام کے لیے دن میں چند ڈالر دیے جاتے ہیں۔ لاس اینجلس میں آگ بجھانے والے ایک تہائی فائر فائٹر قیدی ہیں، غلام مزدور جو ایک قیدی کی کم سے کم اجرت سے تھوڑی سی زیادہ اجرت کما رہے ہیں۔ حکمران طبقے کے لیے یہ بھی ناکافی ہے اور ریاست اس کو درست کرنے کے لیے ایک مجوزہ یوتھ اوفینڈر پروگرام (youth offender program) کے تحت نوجوانوں قیدیوں کو آگ بجھانے کے لیے بھیجنے کی تیاری کر رہی ہے۔ہائیڈرنٹس خشک ہورہے ہیںصرف فائر ڈیپارٹمنٹس میں لوگوں کی کمی نہیں ہے، بلکہ ہائیڈرنٹس بھی خشک ہو چکے ہیں۔ یہ 1994ء کے مونٹری پلس معاہدے (Monterrey Plus Agreement) کا براہ راست نتیجہ ہے، جس نے ٹیکس دہندگان کے پیسوں سے چلنے والے پانی فراہم کی فراہمی کے اداروں کو نجی تحویل میں دے دیا اور پانی خریدنے اور بیچنے کے لیے مارکیٹ کو غیر منظم کر دیا۔ اس معاہدے نے خشک سالی کے دوران ”شہری ترجیح“ کی پالیسی کو ختم کر دیا، جس کے تحت کیلیفورنیا کے پانی کو پہلے شہروں میں پینے اور آگ بجھانے کے لیے مختص کیا جاتا تھا۔اب ریاست کے کم آبادی والے سینٹرل ویلی میں براجمان زرعی اجارہ داروں کو پانی پر پہلی ترجیح حاصل ہے۔ حالانکہ یہ زرعی سرمایہ دار ریاست کے مجموعی جی ڈی پی کا صرف دو فیصد حصہ بناتے ہیں، لیکن یہ کیلیفورنیا کے دستیاب پانی کا 80% سے زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ پانی پر نجی کنٹرول ہی اس بات کا ذمہ دار ہے کہ مہینوں کی بارش کے بغیر لاس اینجلس کو وہ ذخائر فراہم نہیں کیے گئے جو کہ کسی بھی ہنگامی آگ کو بجھانے کے لیے ضروری تھے۔ہر سطح پر حکومت کے عہدیدار ذمہ داری سے جان چھڑاتے نظر آتے ہیں۔ جب گورنر گیوِن نیوزم سے یہ سوال کیا گیا کہ پیسیفک پالیسیڈز میں، جہاں کا بڑا حصہ اب زمین بوس ہو چکا ہے وہاں ہائیڈرنٹس کیوں خشک ہیں، تو انہوں نے ”مقامی لوگوں“ یعنی اپنے ماتحت مقامی حکام کو تیار نہ رہنے کے لیے ذمہ دار ٹھہرا دیا۔فوری ایمرجنسی پر ردعمل انتہائی ناقص رہا ہے، لیکن اس کے بعد کے اثرات بھی تباہ کن ہوں گے۔ جیسے ہی ماحولیاتی بحران شدت اختیار کرتا جا رہا ہے، نجی انشورنس کمپنیاں ”خطرے والے“ (یعنی، غیر منافع بخش) علاقوں میں کوریج کم کر رہی ہیں۔ سٹیٹ فارم (امریکہ کی ایک انشورنش کمپنی) نے اپریل 2024ء میں کیلیفورنیا کی 72 ہزار سے زیادہ پالیسیوں کو منسوخ کر دیا، جن میں پیسیفک پالیسیڈز کے سولہ سو گھروں کی پالیسیاں بھی شامل ہیں جہاں تقریباً بیس ہزار ایکڑ اراضی اور پانچ ہزار سے زائد عمارتیں جل کر خاکستر ہو چکی ہیں۔ انشورنس کمپنیاں بھاری رقم وصول کرتی ہیں اور واجبات کی ادائیگی سے بچنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتی ہیں۔ وہ ایسے علاقوں کا انتخاب کرتی ہیں جہاں سب سے زیادہ منافع کمایا جا سکے، اور ان لوگوں کو بے یار و مددگار چھوڑ دیتی ہیں جنہیں سب سے زیادہ تحفظ کی ضرورت ہوتی ہے۔زندگی اور موت کی لڑائیامریکہ کے دوسرے سب سے بڑے شہر کو نگلنے والی خطرناک آگ سرمایہ دارانہ نظام کا نتیجہ ہے جو اپنے آخری مراحل میں ہے۔ نجی ملکیت اور منافع کے لیے پیداوار اس بات کا باعث بنتے ہیں کہ ایک چھوٹے سے سرمایہ دار گروہ کے مفادات کو انسانیت کے مجموعی مفادات پر فوقیت دی جائے۔ لبرلز کی ”انسانوں کی پیدا کردہ“ ماحولیاتی تبدیلی کے بارے میں بلند و بانگ آوازوں کے باوجود، صرف 100 کارپوریشنز 1988ء کے بعد سے گرین ہاؤس گیسوں کے 70 فیصد اخراج کی ذمہ دار ہیں۔ یہی انارکی نظام کیلیفورنیا کی ریاستی حکومت کی مجرمانہ غفلت اور پوری طرح متوقع اس آفت کے لیے تیاری نہ کرنے کے پیچھے بھی کار فرما ہے۔یہ خدا کا کوئی ناقابلِ فہم عمل نہیں ہے، اس کے پیچھے حقیقی مجرم موجود ہیں جنہیں الزام دینا چاہیے۔ سرمایہ داری کے خلاف محنت کشوں کی جدوجہد زندگی اور موت کا مسئلہ بن چکی ہے۔ مزدوروں کی حکومت کے تحت، بڑے بینکوں اور اجارہ داریوں کو بغیر کسی معاوضے کے ضبط کر لیا جائے گا۔ جب پیداوار منافع کے لیے نہیں بلکہ انسانوں کی ضروریات کے مطابق منصوبہ بندی کے تحت ہو گی، تو ہم ایمرجنسی صورت حال کے لیے وسیع سطح پر تیاری کے منصوبے شروع کریں گے اور ماحولیاتی تبدیلی کو کم کرنے اور آخر کار اس کو بدلنے کی کوشش کریں گے۔ آر سی اے وہ انقلابی کمیونسٹ پارٹی بنا رہی ہے جو ماحولیاتی آفات کو ماضی کی بات بنانے کے لیے ضروری ہے۔