افغانستان: جنگ کے دوران برطانوی افواج کے جرائم کی لرزہ خیز داستان؛ سفاک سامراجیت مردہ باد! Share Tweetغمزدہ افغان خاندانوں نے SAS (برطانوی سپیشل ائر سروسز)پر ”لڑائی لڑنے کی سکت رکھنے کی عمر کے تمام مردوں۔۔۔چاہے وہ خطرہ ہوں یا نہ ہوں“ پالیسی کے تحت 2010-13ء کے دورانیے میں 80 افراد کو سفاکی سے قتل کرنے کا الزام لگایا ہے۔ افغان جنگ کے دوران برطانوی سپیشل فورسز پر اس تازہ جنگی جرم کا الزام ایک گلی سڑی اسٹیبلشمنٹ کی ساکھ پر کاری ضرب ہے۔ اس الزام نے سامراجیت اور سرمایہ دارانہ نظام کی ننگی بربریت کو سر عام ننگا کر دیا ہے۔انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں[Source]ان الزامات کی سرکاری تفتیش کی جار ہی ہے اور یہ الزامات برطانیہ کے نام نہاد تین چوٹی کے جنگجو یونٹس کی جانب سے جبر اور ماورائے عدالت قتل عام کے مربوط رواج کا انکشاف کرتے ہیں۔ ایک سپیشل فورسز سپاہی پر صرف چھ مہینوں میں 35 نہتے افغان قتل کرنے کا الزام ہے۔”مشکوک واقعات“یہ مبینہ قتل اکثر راتوں کو شہریوں کے گھروں پر چھاپوں کے دوران کئے جاتے تھے جن کا نام نہاد مقصد چھپے طالبان ممبران کو ختم کرنا تھا۔ متاثرہ خاندانوں کی نمائندہ قانونی فرم لی ڈے نے نشاندہی کی ہے کہ ان چھاپوں کے دوران ”کم از کم 30 مشکوک واقعات“ رونما ہوئے جن سے متعلق اعلیٰ فوجی حکام نے بھی اس وقت کہا تھا کہ ان سے چوٹی کے برطانوی سپاہیوں میں ”زندگیوں کے حوالے سے لاپرواہی“ کی نشاندہی ہوئی ہے۔ان ”مشکوک واقعات“ میں اکثر افغانوں کو انہی کے گھروں میں خاندانوں سے الگ کر کے قتل کیا گیا تھا۔ برطانوی فوج نے قتل کے ہر واقعے کے بعد ایک ہی کہانی رپورٹ بنا کر پیش کی۔۔۔غیر مشکوک گھروں پر غیر منصوبہ بند چھاپے، ایک رہائشی ناگزیر طور پر کوئی ہتھیار تان لیتا اور برطانوی سپاہی ”مناسب“ جوابی کاروائی کرتے۔ لیکن ان واقعات کی ٹھوس تفصیلات ایک مختلف کہانی پیش کرتی ہیں، جیسے کہ ایک ایسے ہی واقعے میں چار مرد قتل ہوئے اور دو بچے شدید زخمی ہوئے، ایک ایسے گھر میں جہاں ایک ہی دستی بم برآمد ہوا۔پچھلے سال کے اختتام میں بی بی سی کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے شیش آبا کے ایک رہائشی عبدالعزیز ازبک زئی، جو ایک دادا بھی ہے، نے اپنے گھر پر برطانوی سپیشل فورسز کے ایک چھاپے کا واقعہ سنایا ہے۔ اس نے بتایا کہ اس کی آنکھ گولیاں چلنے کی آواز سے کھلی جس کے بعد اس کی آنکھوں پر پٹی اور ہاتھوں کو ہتھکڑی لگا دی گئی:”میں ان کی منتیں کرتا رہا کہ مجھے وہاں جانے دو جہاں میرا بیٹا، میری بہو اور ان کے بچے سو رہے ہیں۔۔۔میں اپنی دونوں بیٹیوں کو چیختے چلاتے اور مدد کی بھیک مانگتے سن رہا تھا۔ کوئی ان کی مدد کے لئے نہیں آیا۔ میں اپنے بچوں کے لئے کچھ نہیں کر سکا“۔مار پیٹ اور تفتیش کے بعد عبدالعزیز اپنے آپ کو اسی وقت آزاد کر سکا جب سپاہی چلے گئے۔ اپنے گھر کی تلاشی لینے کے بعد اسے اپنا بیٹا اور بہو ملے جن کے سروں میں سوتے ہوئے گولی مار دی گئی تھی جبکہ ان کے شیر خوار بچے شدید زخمی تھے۔ ”ہر جگہ خون تھا۔۔ چادریں اور گدے خون سے بھیگے ہوئے تھے“۔ ہمسائے میں رہنے والے دو جوان مردوں کو بھی قتل کر دیا گیا تھا۔ ان کو بھی سروں میں گولیاں ماری گئی تھیں۔ایک معصوم برادری میں اس خونی حملے کا جواز یہ تھا کہ دو مشتبہ طالبان ممبران جن کا کسی خاندان کو نہیں پتا تھا، دن کے وقت عبدالعزیز کے گھر کچھ دیر سستانے کے لئے رُکے تھے۔۔۔اس خطے میں یہ روایت عام ہے۔سالہا سال سے جاری مجرمانہ پردہ پوشیچوٹی کے برطانوی سپاہیوں کا قاتلانہ رویہ سامراجیت کے سفاک جرائم کا اظہار ہے لیکن نظام کی بنیادی غلاظت کا یہاں پر اختتام نہیں ہوتا۔ متاثرہ خاندانوں کے وکلا نے نشاندہی کی ہے کہ اہم سپیشل فورسز کے حکام، فوجی پولیس اور برطانوی ریاست کی وسیع پرتیں ”سالہا سال سے وسیع پیمانے اور کئی مراحل پر پردہ پوشی“ کر رہے ہیں۔2014ء میں برطانوی فوجی پولیس نے آپریشن نارتھ مور کا آغاز کیا جس کا مقصد افغانستان میں جنگ کے دوران برطانوی افواج سے سرزد 600 ممکنہ جنگی جرائم اور غیر قانونی اقدامات کی تفتیش کرنا تھا۔ پانچ سالوں کی تفتیش کے بعد اس سرگرمی کو پہلے نظر انداز کیا گیا اور پھر بند کر دیا گیا۔ وزارت دفاع نے دعویٰ کیا کہ کسی جرم کا کوئی ایک بھی سراغ نہیں ملا ہے۔ظاہر ہے کہ ہمیں فوری طور پر مطمئن ہو جانا چاہیے کہ برطانوی سپیشل فورسز نے اپنے گریبان میں بغور اور انتہائی ذمہ داری سے جھانکا ہے اور ان پر انکشاف ہوا ہے کہ انہوں نے کوئی ایک کام غلط نہیں کیا ہے۔فوجی پولیس پانچ سال سے کیا کھوج رہی تھی ابھی تک واضح نہیں ہوا ہے کیونکہ حال ہی میں پتا چلا ہے کہ تفتیش کے آغاز سے کچھ عرصہ پہلے مبینہ طور پر سپیشل فورسز ہیڈکوارٹرز نے ”مستقل طور پر نامعلوم مقدار میں ڈیٹا“ تمام احکامات کی ”براہ راست“ خلاف ورزی کرتے ہوئے ضائع کر دیا ہے۔متاثرہ خاندانوں کے لئے موجودہ تحقیقات میں بھی ریاست نے ان تمام جرائم جو کو جو ثابت کئے جا سکتے ہوں، چھپانے یا ان کے اثرات زائل کرنے کے لئے مداخلت کی ہے۔ وزارت دفاع نے بیان دیا ہے کہ کوئی بھی ایسی معلومات جو افغانستان میں برطانوی سپیشل فورسز کی ”کسی بھی قسم کی مبینہ شمولیت کی تصدیق یا تردید“ کرتی ہیں، انہیں عوام سے خفیہ رکھا جائے۔پھر انہوں نے یہ درخواست بھی کر رکھی ہے کہ تمام نامزد سپاہیوں کے نام خفیہ رکھے جائیں تاکہ غیر اطلاع شدہ ”قومی سیکورٹی خطرات“ کا سد باب کیا جا سکے۔ حالانکہ کئی حاضر سروس اور سابق سپیشل فورسز سپاہیوں کی شناختیں لنکڈاِن (LinkedIn) اور یوٹیوب جیسے پلیٹ فارمز پر عوام کی وسیع پرتوں کے لئے موجود ہیں۔وزارت دفاع نے یہاں تک کہا ہے کہ سپاہیوں کی شناخت کو خفیہ رکھنے کی ایک کلیدی وجہ یہ بھی ہے کہ اس عمل سے ”ان افراد کے موجودہ کیریئر ختم ہو جائیں گے“۔ کسی بھی معقول انسان کی یہ اُمید ہو گی کہ غیرقانونی طور پر نہتے شہریوں کا قتل کرنے کے بعد کسی کا بھی کیریئر فوری طور پر ختم ہو جائے گا۔ لیکن معلوم یہی ہوتا ہے کہ برطانوی سامراج کے لئے افغانی زندگیوں سے زیادہ اہم خدشات بھی موجود ہیں۔سپیشل فورسز کا سپیشل بحرانایک لمحے کے لئے ہم سامراجیوں کی غلیظ منافقت کو ایک طرف رکھتے ہیں جو اپنے مخالفین کی انسانی حقوق کی پامالی پر تو مگرمچھ کے آنسو بہاتے ہیں جبکہ ہر موقع پر اپنے ہر جرم کی پردہ پوشی کرتے ہیں۔ یہ واضح ہے کہ کورٹ کاروائیوں کے ذریعے اس نظام کے بنیادی مسائل کو حل نہیں کیا جا سکتا۔برطانوی فوج وہ واحد فوج نہیں ہے جس نے افغانستان میں ماورائے قانون قتل کئے ہیں۔ مشہور زمانہ امریکی جنگی جرائم کے علاوہ حالیہ انکشافات کے مطابق نیو زی لینڈ اور آسٹریلیا کی سپیشل فورسز نے بھی افغان جنگ کے دوران بچوں سمیت معصوم شہریوں کو قتل کیا ہے۔ یہ صرف کسی ایک فوج میں گھٹیا عناصر کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ پورا قاتلانہ نظام ہے جو ان جرائم کی بنیاد ہے۔سامراج کی خدمت پر معمور سپیشل فورسز کے سپاہی اس گلے سڑے نظام کی بربریت زدہ منطق کا عرق شدہ اظہار ہیں۔ تباہی و بربادی کے جدید ترین اوزار اور جنگجوانہ وطن پرستی کے جنون سے لیس ان ذہنی بیماروں کو معصوم آبادیوں اور شہریوں پر بھوکے بھیڑیوں کی طرح چھوڑ دیا جاتا ہے۔ نتیجے پر زیادہ قیاس آرائی کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔برطانوی سپیشل فورسز کے نام نہاد سورماؤں کی بربریت افشاں ہونے کے ساتھ پوری اسٹیبلشمنٹ کی ساکھ پر سوال اُٹھ رہا ہے۔ برطانیہ کی ”آزادی پسند“ اور ”جمہوریت محافظ“ دیو مالا کو حقیقت کا ہتھوڑا چکنا چور کر رہا ہے۔ انصاف کو یقینی بنانے کے لئے سامراجیت کا مکمل طور پر خاتمہ کرنا ہو گا تاکہ اس وحشیانہ قتل عام کی بنیادی وجہ کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا جائے۔