ترکی: اردگان کو شکست دینے کے لیے محنت کش طبقے کو واضح انقلابی متبادل دینے کی ضرورت ہے ترکی کے صدارتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں کوئی واضح فاتح سامنے نہیں آیا ہے۔ اے کے پی (جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی) سے تعلق رکھنے والا موجودہ صدر اردگان (جس نے 49.3 فیصد ووٹ حاصل کیے) پہلی بار دوسرا مرحلہ لڑنے پر مجبور ہوگا۔ اس کا حریف سی ایچ پی (ریپبلکن پیپلز پارٹی) کا کمال قلیج دار اوغلو ہوگا۔ یہ انتخابات اے کے پی کے لیے انتہائی دشوار سفر تھا، جس نے 20 سال تک ترکی پر حکمرانی کی ہے، مگر پھر بھی اردگان کو برطرف نہیں کیا جا سکا۔[Source]انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں معاشی بحران نے آبادی کو شدید متاثر کیا ہے: سرکاری اعداد و شمار کے مطابق افراطِ زر میں سالانہ 80 فیصد اضافہ ہوا ہے، ترکی لیرا مسلسل گراوٹ کا شکار ہے، جبکہ جی ڈی پی میں 3 فیصد سے زیادہ بڑھوتری کے امکانات نہیں۔ بڑے پیمانے کی ہڑتالوں نے 2021ء کے اختتام اور 2022ء میں ملک کو ہلا کر رکھ دیا تھا، جو 1970ء کی دہائی کے بعد سب سے بڑی ہڑتالیں تھیں۔ پھر 6 فروری کو تباہ کن زلزلہ بھی آیا، جس نے محض ترکی میں 50 ہزار جانیں لیں اور لاکھوں افراد کو بے گھر کیا۔یہ تباہی فقط ایک قدرتی آفت نہیں تھی۔ اردگان حکومت نے 20 سالوں میں تعمیراتی کام کے حوالے سے 12 مرتبہ ایمنیسٹی (سرکاری معافی) دی، آخری 2019ء میں دی گئی تھی، نتیجہ ناقص تعمیرات کی صورت نکلا جو تباہی کا حجم بڑھانے کا باعث بنا۔ ترکی کی معاشی ترقی کے ستونوں میں سے ایک تعمیراتی شعبہ ہے، اور کنسٹرکشن مافیا ہمیشہ سے اے کی پی کی حمایت کرتا رہا ہے۔حالیہ مہینوں میں حکومت اور بلڈرز کے خلاف غصہ کافی بڑھ گیا ہے، جو معاشی صورتحال کے بارے میں غیر یقینی کے ساتھ ملکی صورتحال پر اثر انداز ہونے والا ایک اور عنصر بن گیا ہے۔ مگر اس کے باوجود اس کا اظہار انتخابات میں اردگان کی شکست کی صورت نہیں ہوا۔ درحقیقت، اگرچہ اے کے پی تقریباً 20 نشستیں کھو دے گی، اردگان کے اتحاد پیپلز الائنس نے پارلیمنٹ میں پختہ اکثریت حاصل کی ہے۔سب اردگان کے خلاف؟یہ واضح دکھائی دے رہا ہے کہ ”سب اردگان کے خلاف“ والی حکمتِ عملی ناکام ہو گئی ہے۔ قلیج دار اوغلو نیشن الائنس کی جانب سے کھڑا ہوا، جو چھے پارٹیوں پر مشتمل اتحاد ہے۔ ان میں سے زیادہ تر کا ترقی پسندی سے دور دور کا کوئی واسطہ نہیں: گُڈ پارٹی (جی پی) نیو فاشسٹ ایم ایچ پی پارٹی سے الگ ہوئی ہے، جس کا مؤقف نسبتاً زیادہ مغربی ہے۔ دی ہیپینیس پارٹی (ایس پی) ایک اسلامی پارٹی ہے جس سے اے کے پی نے الگ ہو کر نسبتاً معتدل مؤقف اپنایا تھا۔سی ایچ پی کو سرمایہ دارانہ پریس میں سوشل ڈیموکریٹک کہا جاتا ہے۔ در حقیقت، یہ بورژوازی کی تاریخی کمال اسٹ (جدید ترکی کا بانی کمال اتاترک سے منسوب) پارٹی ہے۔ قلیج دار اوغلو نے انتخابات کی کمپین کے دوران کرپشن اور شدید مہنگائی کے خلاف باتیں کیں، اور اس کے خلاف لڑنے کے لیے بورژوازی کے پرانے ’حل‘ پیش کیے۔ مثال کے طور پر، قلیج دار اوغلو نے ”روایتی مالیاتی پالیسیوں“ اور ”مرکزی بینک کی آزادی“ کی تجویز دی۔ اس کا مطلب ہے: افراطِ زر کا مقابلہ کرنے کے لیے ریاستی اخراجات میں کٹوتی اور بینکوں کا مکمل طور پر بورژوازی کے قبضے میں چلے جانا۔خارجہ پالیسی کے حوالے سے اس نے وعدہ کیا کہ ”ان عالمی معاہدوں کی تعمیل کی جائے گی جس پر ترکی نے دستخط کیے ہیں۔“ یعنی: ”میری جیت کی صورت، میں واشنگٹن اور ماسکو سے برابر فاصلہ رکھوں گا“ (یاد رہے کہ نیٹو کی دوسری بڑی فوج ترکی کی ہے)، جس سے ترکی کے خطے میں اپنے اثر و روسوخ کو بڑھانے کے طاقتور عزائم محدود ہوں گے۔ شامی مہاجرین (تقریباً 36 لاکھ) کے حوالے سے سی ایچ پی کہتی ہے کہ وہ ان سب کو واپس بھیجنا چاہتی ہے۔اپنے حریفوں کے مقابلے میں اردگان نے سب طریقے استعمال کیے۔ اس نے میڈیا، ٹی وی اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے اوپر اپنے ریاستی قبضے کو خوب استعمال کیا۔ اس کی یہ خواہش بھی ضرور رہی ہوگی کہ انتخابات کے نتائج کو ناقابلِ عمل قرار دے، جیسا کہ 2019ء میں استنبول کے بلدیاتی انتخابات میں کیا گیا تھا۔ مگر ابھی کے لیے، اس کی ضرورت نہیں پڑی۔اس نے کم از کم اجرت جنوری میں 55 فیصد بڑھا دی تھی اور انتخابات سے قبل سرکاری ملازمین کی اجرتوں میں مزید 45 فیصد اضافہ کیا گیا۔ اس نے گیس بل کی قیمتوں میں بھی کمی کی اور ریٹائرمنٹ کی عمر میں کمی کرتے ہوئے 20 لاکھ محنت کشوں کو فوری طور پر ریٹائر ہونے دیا۔ اس نے اس قسم کی رشوتیں پہلے بھی استعمال کی ہیں، مگر یکساں معاشی بڑھوتری کے بغیر ان اقدامات سے افراطِ زر اور ترکی کے دیوہیکل قرضوں میں اضافہ ہوتا رہے گا: احمد کی پگڑی محمود کے سر۔اس نے امریکہ مخالف بیان بازی کا استعمال کیا، جو ترکی میں بڑی مشہور ہے، اور اپنے آخری جلسے میں بائیڈن پر الزام لگایا کہ وہ اس کی شکست چاہتا ہے۔ ممکن ہے اس الزام میں کسی حد تک سچائی ہو، جیسا کہ نیویارک ٹائمز نے تصدیق کی:”امریکی سرکاری عہدیداران اور تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ امریکہ اور ترکی کے تزویراتی مفادات یکساں ہیں لہٰذا ترکی میں قیادت کی تبدیلی کی صورت میں ان کے تعلقات بہتر ہوں گے اور ترکی کو مغرب کی جانب دوبارہ واپس کھینچا جا سکتا ہے۔“جیتنے کے لیے ایک اور چال چلتے ہوئے لاکھوں شامی اور افغان مہاجرین کو ووٹ ڈالنے کی اجازت دی گئی۔ اپوزیشن کا نسل پرستانہ مؤقف دیکھتے ہوئے، یہ تصور کرنا مشکل نہیں کہ انہوں نے کس کو ووٹ ڈالا ہوگا!بائیں بازو کی محدودیتپیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (ایچ ڈی پی)، جو کرد بائیں بازو کی اہم پارٹی ہے، ”سب اردگان کے خلاف“ والی حکمتِ عملی میں پوری طرح شامل تھی، جس نے قلیج دار اوغلو کو ووٹ ڈالنے کا کہا، اس کے باوجود کہ ایچ ڈی پی کو اتحاد سے باہر رکھا گیا تھا، اور اس حقیقت کے باوجود کہ سی ایچ پی نے ماضی میں اردگان کے تمام جابرانہ اقدامات کی حمایت کی تھی۔کم تر برائی کی قربان گاہ میں ایچ ڈی پی قیادت نے اپنے تمام اصولوں کی قربانی دی اور کمال اسٹ امیدوار کی حمایت کی، وہ سیاسی رجحان جس کا جنم قومی اقلیتوں کے حقوق سے انکار کرنے کی بنیاد پر ہوا تھا!ہمیں یقین ہے کہ اوغان، گرے وولز کے رجحان سے مماثلت رکھنے والا انتہا درجے کا قوم پرست (جس نے پہلے مرحلے میں 5.2 فیصد ووٹ لیے)، کی حمایت یقینی بنانے کے لیے قلیج دار اوغلو ”دہشتگردی مخالف جنگ (یعنی کرد مخالف)“ کی بھی حمایت کرے گا اور ایچ ڈی پی سے فاصلہ رکھنے میں نہیں ہچکچائے گا۔ وفاداری بورژوا سیاست کا خاصہ نہیں ہے۔اردگان نے انتخابات میں ایچ ڈی پی پر پابندی کی دھمکی دی تھی، مگر سنسرشپ اور وائی ایس پی (گرین لیفٹ پارٹی) کے ذریعے حصہ لینے کا فیصلہ کرنے کے باوجود اس نے 8.71 فیصد ووٹ اور 61 پارلیمانی نشستیں حاصل کیں، اور تیسری سیاسی قوت کے طور پر ابھری۔ دیگر چار نشستیں ماؤ اسٹ پسِ منظر رکھنے والی ترکی ورکرز پارٹی نے حاصل کیں، اور یہ بھی قلیج دار اوغلو کی حمایت کر رہی تھی۔یہ نتائج ملک میں بائیں بازو کی قوت کے لیے ممکنات کا اظہار ہے، اگر بورژوازی کے مختلف دھڑوں سے مفاہمت کیے بغیر طبقاتی مؤقف اپنایا جائے۔ہمارا کام جیتنے والے کی پیشگوئی کرنا نہیں۔ اگر قلیج دار اوغلو پہلے مرحلے سے زیادہ ووٹ حاصل کرے، جس کے امکانات کم ہیں، تو پارلیمنٹ کے اندر وہ اقلیت میں ہوگا، جو حکومت کرنے کے لیے اردگان سے اپنے اختلافات مزید کم کرنے پر مجبور ہوگا۔ہمارا اصل کام پہلے مرحلے سے تمام اسباق اخذ کرنا ہے۔ 2021ء اور 2022ء میں ہڑتالوں اور بڑی تحریکوں نے اردگان حکومت کو لرزا دیا تھا۔ سکینڈلز اور زلزلے کے حکومتی ردعمل کے باعث رائے شماریوں میں اس کی حمایت کم ہونے لگی تھی۔انتخابات کی بے اصول چال بازیوں کی وجہ سے ’سلطان‘ سے جان چھڑانے کا موقع ضائع ہو گیا۔ کم ترین برائی بھی اردگان کو شکست نہیں دے سکتی۔ محض طبقاتی جدوجہد کے ذریعے ہی اردگان اور سرمایہ دارانہ ترکی کی بوسیدہ پالیسیوں کا صفایا ممکن ہے۔اگر ایچ ڈی پی طبقاتی پروگرام سے لیس ہوتی، شائستہ زندگی کی روزمرہ جدوجہد کو ترکی کے سماج کی سوشلسٹ تبدیلی کے منصوبے سے جوڑ کر، یہ محنت کشوں اور نوجوانوں کے بیچ نسلی و مذہبی تقسیم کا خاتمہ کر کے استحصال زدہ عوام کو متحد کر سکتی تھی۔ترکی اور مشرقِ وسطیٰ کے اندر عالمی مارکسی رجحان (آئی ایم ٹی) اسی انقلابی متبادل کو تعمیر کرنے کے لیے کام کر رہی ہے۔