عالمی خشک سالی اور منافعوں کی ہوس Share Tweetکرونا وباء کے باعث ماحولیاتی بحران پر لوگوں کی توجہ کسی حد تک کم ہوئی ہے۔ البتہ اس کے شدید اثرات اب بھی جاری ہیں۔ آج ہم ماحولیاتی تبدیلی کے نتائج بھگت رہے ہیں، جبکہ شدید موسمیاتی تبدیلیاں معمول بنتی جا رہی ہیں۔ خصوصاً اس سال، دنیا بھر کے مختلف خطوں کو خشک سالی نے متاثر کیا ہے جو تباہ کن مستقبل کا پیش خیمہ ہے۔[Source]انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریںکیلیفورنیا، برازیل اور تائیوان میں تاریخ کی سب سے بڑی خشک سالی دیکھنے کو ملی ہے۔ یورپ، افریقہ اور مشرقِ وسطیٰ کے تمام خطوں میں بھی پانی کی شدید قلت دیکھنے کو مل رہی ہے۔ دہائیوں سے جاری سرمایہ دارانہ بد نظمی، کرپشن اور ماحولیاتی تبدیلی نے پانی کا شدید بحران پیدا کر دیا ہے، جو انسانیت کو دو راستوں میں سے ایک چننے کا اختیار دے رہی ہے؛ یا تو ہم ہنگامی بنیادوں پر منصوبہ بند اقدامات کریں، یا پھر اپنی زمین کے بڑے حصوں کو نہ رہنے کے قابل بنتا ہوا دیکھیں۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق، دنیا بھر میں ہر سال 5 کروڑ 50 لاکھ افراد خشک سالی سے متاثر ہو رہے ہیں۔ اس صورتحال سے دنیا کے تقریباً ہر حصے میں مال مویشیوں اور فصلوں کو شدید خطرہ درپیش ہے۔ یہ لوگوں کے ذرائع معاش کے لیے خطرہ ہے، اس سے امراض کی بڑھوتری کا خدشہ بڑھ رہا ہے، اور دیوہیکل پیمانے پر لوگوں کی نقل مکانی کا سبب بن رہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 2030ء تک، خشک سالی کے نتیجے میں 70 کروڑ افراد نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوں گے۔ ’نیچر جیو سائنس‘ میں شائع کی گئی ایک حالیہ تحقیق کے مطابق، یورپ میں موسمِ گرما کے دوران دیکھی جانے والی خشک سالی کی شدت نے پچھلے 2 ہزار 1 سو سالوں کا ریکارڈ توڑ دیا ہے۔یہ صورتحال مزید بد تر ہوتی جا رہی ہے۔ نقصان دہ گیسوں کے اخراج کے باعث، خاص کر زیرِ زمین ایندھن کے ذریعے، زمین روز بروز گرم ہوتی جا رہی ہے، جس کی وجہ سے خشک سالی میں مزید شدت اور طوالت آنے کے امکانات موجود ہیں۔ حتیٰ کہ ’ماحولیاتی دفاعی فنڈ‘ (ای ڈی ایف) نے طویل عرصے پر محیط خشک سالی کے معمول بن جانے کے امکانات کا ذکر کیا ہے، جو دو یا دو سے زیادہ دہائیوں تک جاری رہے گی۔سرمایہ داری ذمہ دار ہےدریا، جھیل اور پانی کے ذخائر خشک ہو رہے ہیں، اور ’ناسا‘ نے انکشاف کیا ہے کہ دنیا میں زیرِ زمین پانی کے 37 اہم ترین ذخائر میں سے 13 اتنی تیزی کے ساتھ خالی ہو رہے ہیں کہ ان کا دوبارہ بھرنا مشکل ہو رہا ہے۔ زمین کا 70 فیصد میٹھا پانی زراعت میں، اور 20 فیصد صنعت میں استعمال ہوتا ہے، جو مجموعی طور 90 فیصد بنتا ہے۔ ان اعداد و شمار سے واضح طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ پانی کے ذاتی استعمال میں احتیاط برتنے کی انفرادی کوششوں سے اس مسئلے کا ذرہ برابر خاتمہ بھی ممکن نہیں ہے۔سرمایہ داری کے اندر زراعت کے بہت سارے پہلو مکمل طور پر غیر معقول ہیں۔ مثال کے طور پر کیلیفورنیا کی بات کرتے ہیں۔ یہ امریکی ریاست اتنی خشک ہے کہ اسے صحرا کہنا غلط نہیں ہوگا، جہاں سال میں محض 8 سینٹی میٹر بارش ہوتی ہے۔ پھر بھی یہ امریکہ کی موسمِ سرما والی سبزیوں میں سے 90 فیصد پیدا کرنے والا خطہ ہے۔ کیلیفورنیا میں زمین کا ایک بڑا حصہ برسیم اور بادام پیدا کرنے کے لیے مختص ہے، جو ان فصلوں میں سے ہیں جس کے لیے بہت بڑی مقدار میں پانی درکار ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ میں دوسرے نمبر پر چاول کی سب سے بڑی کاشت بھی کیلیفورنیا میں کی جاتی ہے۔ یہاں کسان اپنے چاول کے کھیتوں کو بہت بڑی مقدار میں پانی فراہم کرتے ہیں، جو اتنی ہی تیزی کے ساتھ بخارات میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ مگر اب، خشک سالی کے باعث، کسان ماضی کی نسبت 1 لاکھ ایکڑ کم چاول کاشت کر سکیں گے، جو اس ریاست میں ہونے والی 5 لاکھ ایکڑ کاشت میں 20 فیصد کمی ہوگی۔یہ کاروباری فصلیں ہیں، جو ان زمینوں کے مالکان اس لیے اگاتے ہیں تاکہ اچھی پیداوار حاصل کر کے زبردست منافعے کما سکیں۔ مگر یہ قریبی شہروں کے رہائشی ہی ہیں جنہیں پانی کی شدید قلت کے نتائج بھگتنے پڑتے ہیں۔ عقلی بنیادوں پر دیکھا جائے تو یہ ساری صورتحال بالکل بکواس لگتی ہے۔ پانی کے انتظامات کے نقطہ نظر سے، یہ فصلیں محض کیلیفورنیا کے محدود ذخائر کو مزید خشک کرنے کا کام کرتی ہیں، جو اس کے مکمل انہدام کا راستہ ہموار کر رہی ہے۔یہ سرمایہ داری کے تحت زمین کی نجی ملکیت کا براہِ راست نتیجہ ہے۔ زرعی کاروباروں کے مالکان کو اپنے کھیتوں پر بے تحاشا پانی صرف کرنا اس لیے ٹھیک دکھائی دیتا ہے کیونکہ اگر ان میں سے کوئی پانی کے استعمال کو کم کرنے کی خاطر مختلف قسم کی فصل کاشت کریں، تو وہ ریاست کے اندر منافع بخش فصل کی کاشت کرنے والے دیگر مالکان کا مقابلہ نہیں کر پائیں گے۔ منڈی کی اندھا دھند مقابلہ بازی کا مطلب یہ ہے کہ پانی کے ذخائر جتنا خشک ہوتے جاتے ہیں، اتنا ہی زرعی کاروباروں کی پیاس مزید بڑھتی جاتی ہے، جو اس کے مکمل خشک ہونے سے پہلے پہلے جتنا زیادہ ممکن ہو ان قیمتی اور محدود وسائل کو لوٹنا چاہتے ہیں۔یہ صرف ایک مثال ہے۔ اس قسم کی حرکتیں دنیا بھر میں ہوتی ہیں؛ چاہے زرعی زمین پر ضرورت سے زیادہ پانی صرف کرنا ہو (جو کھیت سیراب کرنے کا سب سے کم مؤثر طریقہ ہے)، تیز منافعے کمانے کی غرض سے ناسازگار حالات میں فصلیں کاشت کرنا ہو، یا پھر تھوڑی مدت کی زرخیزی کے لالچ سے ایمازون سمیت دیگر برساتی جنگلات کی کٹائی ہو۔بنیادی نکتہ یہ ہے کہ سرمایہ دار فوری منافعوں کی خاطر زمین اور اس کے وسائل کا استحصال کرتے ہیں۔ انہیں محض منافعوں سے مطلب ہے۔ جیسا کہ اینگلز نے 1876ء میں لکھی گئی اپنی شاندار تحریر ”بن مانس سے آدمی تک پہنچنے میں محنت کا کردار“ میں لکھا تھا:”چونکہ سارے سرمایہ دار پیداوار اور تبادلے کے عمل میں فوری منافعوں کی غرض سے شامل ہوتے ہیں، اس لیے وہ اپنی حرکتوں کے محض فوری نتائج پر نظر رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔۔۔یہی بات ان حرکتوں کے قدرتی اثرات پر بھی صادق آتی ہے۔ کیوبا میں کھیت لگانے والے ہسپانوی مالکان، جنہوں نے پہاڑی ڈھلانوں پر جنگلات جلا کر ان کی راکھ سے اتنی کھاد حاصل کر لی جن سے انتہائی منافع بخش کافی کے باغات کی ایک فصل اگائی جا سکتی تھی، کو کوئی فکر نہیں تھی کہ بعد ازاں موسلا دھار بارشیں غیر محفوظ زمین کو تباہ کر کے وہاں محض چٹانیں چھوڑ جائیں گی۔ فطرت کی بات کی جائے یا پھر سماج کی، موجودہ طرزِ پیداوار کی ترجیحات ان دونوں کی بجائے محض فوری اور منافع بخش نتائج ہوتے ہیں؛ اور پھر اس پر تعجب کا اظہار کیا جاتا ہے کہ اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے کیے جانے والے اقدامات کے اثرات کافی مختلف نکلے۔۔۔“احتجاجماحولیاتی تبدیلی کے باعث، خشک سالی کے بڑھتے ہوئے واقعات کی وجہ سے دنیا بھر کے چھوٹے کسان اپنی پرانی طرز کی زندگی کسی بھی صورت برقرار نہیں رکھ پا رہے۔ اس بحران کا نتیجہ ابھی سے مختلف خطوں میں لڑاکا احتجاجوں کی صورت میں نکلا ہے۔ مثال کے طور پر ایران میں، اس سال کسان ایک دفعہ پھر پانی تک مستقل رسائی کا مطالبہ لے کر سڑکوں پر نکلے ہیں۔ان لوگوں کی انتہائی بے چینی اور شدید غصہ حق بجانب ہے۔ کسانوں کو زندہ رہنے کی خاطر اپنا سب کچھ بیچنا پڑ رہا ہے۔ اعداد و شمار سے واضح طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ کسانوں میں بڑھتی ہوئی خودکشیوں کے پیچھے خشک سالی کی وجہ ہے۔پانی کی یہ قلت محض ایران میں نہیں پائی جا رہی۔ دجلہ و فرات کا ذخیرہ دنیا کے تمام پانی کے ذخائر میں سب سے تیزی کے ساتھ خشک ہو رہا ہے، سوائے شمالی بھارت کے۔ شام کے اندر 2006ء میں تباہ کن خشک سالی نے کسانوں کو شہروں کی جانب نقل مکانی کرنے پر مجبور کیا، جس کے باعث بے روزگاروں کی تعداد بڑھتی گئی اور جس نے 2011ء میں پھٹنے والے غصّے کو پروان چڑھانے میں کردار ادا کیا۔اسی خطے کے اندر، پانی کے ذخائر کی خشکی ممالک کے بیچ تناؤ کو اشتعال دے رہی ہے۔ 1975ء سے لے کر اب تک، ترکی میں ہائیڈرو الیکٹرک ڈیموں کی تعمیر کے باعث عراق کو جانے والے پانی میں 90 فیصد جبکہ شام کو جانے والے میں 40 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ دونوں نے ترکی کے اوپر پانی کی ذخیرہ اندوزی کا الزام لگایا ہے۔عراق کے اندر 2019ء میں ابھرنے والی احتجاجی تحریک کی ایک چنگاری بلاشبہ پانی تک رسائی کا فقدان ہی تھا۔ عوام کو موسمِ گرما برداشت کرنے پر مجبور کیا جا رہا تھا، جس میں درجہ حرارت 50 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا اور ان کو پانی یا بجلی دستیاب نہیں ہوتا تھا۔ پھر بھی امیر ترین محلّے بلا کوئی روک ٹوک ایئر کنڈیشن اور تازہ پانی کا لطف اٹھا رہے تھے۔ لینن نے ایک دفعہ کہا تھا کہ ”سرمایہ داری کی وحشت کی کوئی انتہاء نہیں“، جو اس صورتحال سے ظاہر ہوتا ہے۔ بہت سے مزدوروں اور کسانوں کے بیچ انقلابی شعور کے ابھار میں پانی کا بگڑتا ہوا بحران ایک بنیادی عنصر ثابت ہوگا۔مہاجرین کا بحرانماحولیاتی بحران بذاتِ خود اور اس کے نتیجے میں جنم لینے والی پانی کی جنگیں، دونوں مہاجرین کے بحران میں مزید شدت لا سکتی ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے اندازوں کے مطابق، ماحولیاتی تبدیلی کے باعث 2050ء تک تقریباً 20 کروڑ افراد نقل مکانی پر مجبور ہوں گے۔ شدید موسمیاتی حادثات، زرخیز زمینوں کی صحرا میں تبدیلی اور سطحِ سمندر میں اضافہ لوگوں کو اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور کرے گا۔ اگر ساحلی علاقوں میں سیلابوں کی روک تھام کے حوالے سے اقدامات نہ اٹھائے گئے تو وہاں میٹھے پانی کے ذخائر مزید نمکین ہونے کی طرف جائیں گے۔ہالینڈ حکومت کے ادارے ’ڈبلیو پی ایس‘ (پانی، امن اور تحفظ) نے پیشگوئی کی ہے کہ عراق، ایران، مالی، نائیجیریا، بھارت اور پاکستان میں محض اس سال کے اندر پانی سے متعلق پُر تشدد جنگوں کے 86 فیصد امکانات موجود ہیں۔سرمایہ داری کے تحت، ہر انسان اور ہر ملک اپنی بقا کی لڑائی الگ الگ لڑ رہا ہے۔ انسانی ضروریات کو ترجیح دیتے ہوئے ایک عالمی اور منصوبہ بند کارروائی کی بجائے، ہر ایک سرمایہ دارانہ ملک اپنے ہمسایوں کو روندتے ہوئے پانی تک اپنی ذاتی رسائی حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔متبادل موجود ہےاس ماحولیاتی تباہی کے باوجود جس سے ہم گزر رہے ہیں، ہمیں یہ یاد رکھنا ہوگا کہ ہمارے پاس ان مسائل کو حل کرنے کے تمام ذرائع موجود ہیں۔سب سے پہلے جس کی ضرورت ہے، وہ پیداوار کا ایک معقول منصوبہ ہے۔ سرمایہ داروں کو اپنی اپنی زمینوں پر محض منافعوں کی غرض سے کاشت کرنے کی اجازت دینے کی بجائے مٹی کی قسم، نمی، درجہ حرارت اور بارش وغیرہ کو مدنظر رکھتے ہوئے کسی زمین کی فصل مختص کرنے کی ضرورت ہے۔ نیم خشک علاقوں میں ان فصلوں کی نہیں جنہیں بڑی مقدار میں پانی درکار ہوتا ہے، بلکہ ان فصلوں کی کاشت ہونی چاہیے جو ان علاقوں کے لیے موزوں ہوں، جبکہ جن فصلوں کو زیادہ پانی کی ضرورت ہوتی ہے انہیں ان علاقوں میں کاشت کرنا چاہیے جہاں میٹھے پانی کی کثرت ہو۔ جب تک انفرادی سرمایہ دار اور سرمایہ داروں کے قومی ٹولے مقابلہ بازی کرتے رہیں گے، اس قسم کا منصوبہ لاگو کرنا نا ممکن ہے۔ بہ الفاظِ دیگر، ہمیں عالمی سطح کے ایک معقول زرعی منصوبے کی ضرورت ہے، جسے محنت کش طبقہ اپنے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے لاگو کرے۔ ذرا تصور کیجیے کہ ایسا ہونے کے بعد ہم عالمی سطح پر کیا کچھ حاصل کرنے کے اہل ہوں گے۔مزید برآں، موجودہ ٹیکنالوجی کو اس غرض سے سماج کے قبضے میں دینا چاہیے تاکہ جتنا زیادہ ممکن ہو پانی کے ذخائر کا استعمال مؤثر بنایا جائے۔ ہالینڈ کا ترقی یافتہ زرعی شعبہ پہلے سے ہی اس قسم کی ٹیکنالوجی کا استعمال کر رہا ہے۔وہاں زرعی کاروباروں کے مالکان فصلوں کی براہِ راست نگرانی اور زمینوں کی جانچ پڑتال کے ذریعے پانی کے ذخائر، مٹی کے معیار اور نمی کی مقدار وغیرہ کے بارے میں بہتر معلومات حاصل کر لیتے ہیں، جس کے سبب وہ زرعی طریقوں اور آبپاشی کو بہتر بنانے کے اہل ہوتے ہیں۔ پیداوار میں شدید بدلاؤ لانے والی ایک ایجاد ’محفوظ کاشت کاری‘ ہے، جس کے ذریعے کاشت کے ماحول کو قابو میں رکھتے ہوئے پانی کو انتہائی بہتر انداز میں استعمال کیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کے لیے زیادہ توانائی کی ضرورت پڑتی ہے۔ البتہ، سوشلزم کے تحت قابلِ تجدید توانائی کا استعمال کرتے ہوئے ہم اس قسم کی پیداوار کو جاری رکھنے کے ذرائع ڈھونڈنے کے اہل ہوں گے۔آبپاشی کے دوران اوسطاً 70 فیصد پانی بخارات میں تبدیل ہو کر ضائع ہو جاتا ہے، ’محفوظ کاشت کاری‘ کا طریقہ بڑے پیمانے پر اس عمل کو کم کرتا ہے۔ ’ہائیڈرو پونِک‘ طریقے (مٹی کے بغیر فصل اگانے کا طریقہ) سے فصل اگانے کے ذریعے مٹی میں پانی جذب نہیں ہوتا اور اسے دوبارہ استعمال کرنا ممکن ہوتا ہے۔ ہالینڈ کی زراعت میں پانی کا استعمال جس بہتر طریقے سے کیا جاتا ہے، اس طرح پوری دنیا میں کہیں دیکھنے کو نہیں ملتا۔ مثال کے طور پر، ہسپانیہ کے اندر ٹماٹر کے کھیت میں، ایک کسان پانی کے ایک کیوبک میٹر سے تقریباً 20 کلو گرام ٹماٹر پیدا کرنے کا اہل ہوگا۔ جبکہ ہالینڈ کے اندر ’محفوظ کاشت کاری‘ کے ذریعے، پانی کی یہی مقدار 250 کلو گرام ٹماٹر پیدا کر سکتی ہے۔مگر ہالینڈ کے سرمایہ دار طبقے نے اس ٹیکنالوجی کو اپنے استعمال تک محدود رکھا ہے، جو بالکل نہیں چاہتا کہ عالمی منڈی میں اپنے حریفوں کو بھی اس علم اور ٹیکنالوجی سے آگاہ کرے۔ وہ پانی کا با احتیاط استعمال اس لیے کر رہے ہیں کیونکہ یہ منافع بخش ہے۔ ان کا مقصد لوگوں کو کھلانے کی غرض سے خوراک کی پیداوار نہیں، بلکہ عالمی منڈی میں مقابلہ بازی کرنا ہے۔چنانچہ اس قسم کے طریقوں تک ایران، بھارت اور باقی دنیا کے چھوٹے کسانوں کی بالکل رسائی نہیں ہوتی۔ یہ ’ان کا قصور‘ نہیں، بلکہ ان کی بجائے سرمایہ داروں کا قصور ہے۔ پانی کے ذخائر میں کمی کے باعث کسان آبپاشی کے اپنے پرانے طریقے برقرار نہیں رکھ پا رہے، جبکہ سرمایہ دارانہ ریاست بہتر طریقے اپنانے میں ان کی مدد کرنے کی بجائے انہیں اپنا ذرائع معاش ترک کرنے پر مجبور کر رہی ہے، اور پانی کے محدود ذخائر دیوہیکل اجارہ داریوں کے قبضے میں دے رہی ہے۔ آج ہالینڈ جیسے امیر ممالک پانی کے استعمال کے حوالے سے اہم ایجادات کو خود تک محدود کر رہے ہیں۔ اگر وہ انہیں پھیلانا چاہیں بھی تو بڑے بینک ان کے استعمال کے لیے درکار سرمایہ کسانوں کو قرض نہیں دیں گے۔ اس کے برعکس پیداوار کے سوشلسٹ منصوبے کے تحت، یہ بطورِ کُل سماج کے مفاد میں ہوتا کہ تمام انسانیت کو نہ صرف یہ اہم نئی ٹیکنالوجی فراہم کی جائے، بلکہ تمام ضروری سرمایہ اور تجربات چھوٹے کسانوں کو فراہم کرتے ہوئے زراعت کو اجتماعی طور پر معقول بنانے میں ان کی مدد بھی کی جائے۔زراعت کو بھی اسی بنیادی مسئلے کا سامنا ہے جو سرمایہ داروں کو فوری طور پر ماحول دوست ’گرین انرجی‘ اپنانے سے روکتا ہے۔ وہ مسئلہ یہ ہے کہ ایسا کرنا منافع بخش نہیں ہوگا۔پانی کے متعدد قیمتی ذخائر کی حفاظت کے لیے بڑے پیمانے پر معاشی منصوبہ بندی کی ضرورت پڑے گی۔ کسی انفرادی سرمایہ دار کے لیے اس میں فوری منافع نہیں ہوگا کہ زیرِ زمین پانی کو استعمال کے قابل بنائے یا انسانوں کے روزمرہ استعمال، زراعت اور صنعت کے لیے ملکی یا عالمی سطح پر پانی کے انتظامات کا بہتر انفراسٹرکچر تعمیر کرے۔ اس کے برعکس گندگی کو دریاؤں اور سمندروں میں پھینکنے سے منافعوں میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی۔ بلکہ یہ انفرادی سرمایہ دار کے لیے سستا ترین کام ہوتا ہے۔ البتہ اس قیمت کا کوئی شمار نہیں جو انسانیت کو چکانی پڑتی ہے۔ان مسائل میں سے کوئی بھی سرمایہ داری کے تحت حل نہیں کیا جا سکتا۔ اسی بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس لیے ہمیں یہ احساس ہونا چاہیے کہ پہلا موقع ہاتھ لگتے ہی سرمایہ داری کا تختہ الٹنا پڑے گا۔جب سرمایہ داری کا خاتمہ ہو چکا ہوگا، ہم بالآخر ان بے شمار ماحولیاتی تباہ کاریوں کی روک تھام کر سکیں گے جو سرمایہ داری نے اپنے ورثے کے طور پر ہمیں دیے ہیں۔ تب مزدور ایک معقول نظام متعارف کرا سکیں گے، جہاں ہم علم و ٹیکنالوجی کی عظیم دولت استعمال کرتے ہوئے پانی کو بہترین انداز میں استعمال کر پائیں گے۔ کسی کو بھی بھوکا رہنے، ہجرت کرنے، یا ماحولیاتی تبدیلی کے نتائج بھگتنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمارے پاس حالات کو تبدیل کرنے کے ذرائع موجود ہیں، مگر ہم اس چیز کو تبدیل نہیں کر سکتے جس کے اوپر ہمارے اختیارات نہ ہوں، اور اس چیز پر ہمارے اختیارات نہیں ہو سکتے جو ہماری ملکیت نہ ہو۔پانی کے بحران کو حل کرنے کی اولین شرط یہ ہے کہ بڑے زرعی کاروباروں، کان کنی اور پانی کے بڑے پیمانے پر استعمال کرنے والی دیگر صنعتوں سمیت بینکوں کو پیداوار کے جمہوری منصوبے کے تحت قومی ملکیت میں لیا جائے۔سرمایہ داری نے زمین کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ مگر ایک دفعہ جب محنت کش طبقے کے پاس اختیارات آ جائیں، ہم ماحول دوست ٹیکنالوجی کو اپنا کر ماحولیاتی تبدیلی کے دیرپا اثرات کا خاتمہ کر سکیں گے، اور خشک سالی جیسے مسائل کا فوری خاتمہ ممکن ہو سکے گا۔ اس بوسیدہ نظام میں ہر گزرتے دن کے ساتھ ساتھ بحران مزید شدید ہوتا جاتا ہے، جس کی قیمت لوگوں کو اپنی زندگی کی صورت میں چکانی پڑتی ہے۔ ہمیں انقلاب کی شدید ضرورت ہے۔