غزہ کو کچلنے کی ناکام کوشش اور اسرائیل کا مستقبل

فی الحال غزہ میں خاموشی ہے۔ پندرہ مہینوں کے بعد ایک جنگ بندی معاہدہ ہو چکا ہے جس کے بعد اسرائیلی ریاست کے ہاتھوں ہزاروں فلسطینیوں کی مسلسل نسل کشی اور فلسطینی علاقے کی مکمل تباہی رک چکی ہے۔

[Source]

انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ فلسطینی دنیا کی ایک طاقتور ترین عسکری مشینری کی مسلسل مسلط کردہ تباہی و بربادی کے سامنے بے یار و مددگار ہونے کے باوجود جھکے نہیں اور شکست قبول نہیں کی۔ اسرائیل اپنے تمام تر جنگی ہوائی جہازوں، بمباروں، میزائلوں، ٹینکوں، ڈرونز اور تمام تر امریکی اور مغربی عسکری حمایت کے باوجود اپنا کوئی ایک جنگی ہدف حاصل نہیں کر سکا ہے۔ ہنری کسنجر کے الفاظ میں وہ اس لیے ہار گئے کیونکہ وہ جنگ نہیں جیت سکے۔ اس صورتحال کے دور رس نتائج ہیں جن کا تجزیہ بہت اہم ہے۔

سب سے پہلے تو یقینا جنگ بندی فلسطینیوں اور پوری دنیا کے لاکھوں کروڑوں محنت کشوں اور نوجوانوں کے لیے سکھ کا سانس ہے جو فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی میں کھڑے رہے۔ پھر کئی اسرائیلی بھی خوش ہوں گے کہ جنگ اور اس کا پیدا کردہ انتشار رک گیا ہے اور مغوی واپس آ رہے ہیں۔ لیکن سکھ کے اس لمحے میں ایک سوال انتہائی اہم ہے کہ آخر اس سب کا مقصد کیا تھا؟ اور کیا اس کے بعد دہائیوں سے ظلم و جبر کی شکار فلسطینی عوام کو دیر پا امن اور چین نصیب ہو گا؟

تباہی و بربادی

پندرہ مہینوں اسرائیلی جنگی مشینری کو سہارا، اسلحہ اور فنڈ دینے کے بعد جو بائیڈن اور دیگر یورپی قائدین سنگ دلی اور سرد مہری سے اپنے آپ کو اور ایک دوسرے کو امن کی مبارک باد دے رہے تھے۔ لیکن یہ امن کیا ہے جو فلسطینی عوام کو ”تحفہ“ کیا جا رہا ہے؟

ایک سال کی مسلسل بمباری کے بعد غزہ کی تباہی و بربادی کسی قیامت سے کم نہیں ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 46 ہزار سے زائد افراد قتل ہو چکے ہیں جن میں 13 ہزار بچے ہیں۔ لیکن یہ اعداد و شمار حقیقی تباہی و بربادی کو بیان نہیں کر رہے۔ ایک معروف میڈیکل جرنل دی لانسٹ (The Lancet) نے ایک تحقیق شائع کی تھی کہ اکتوبر 2024ء تک براہِ راست اور بلاواسطہ اموات 70 ہزار سے تجاوز کر چکی ہیں اور جرنل کا تجزیہ تھا کہ یہ 1 لاکھ 86 ہزار سے بھی زیادہ ہو سکتی ہیں۔

فوری موت کے علاوہ جنگ نے غزہ کی سماجی زندگی کو تار تار کر دیا ہے۔ 90 فیصد سے زیادہ آبادی، تقریباً 19 لاکھ افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ صحت عامہ کی سہولیات کو مسلسل نشانہ بنایا گیا جس میں 650 سے زائد حملے ریکارڈ ہوئے ہیں جس کے نتیجے میں 1 ہزار سے زائد شعبہئ صحت کے محنت کش قتل ہو چکے ہیں۔ تعلیمی نظام تباہ و برباد ہو چکا ہے اور 95 فیصد سے زیادہ اسکول اور یونیورسٹیاں مکمل یا جزوی طور پر نیست و نابود ہو چکی ہیں جس کے بعد 6 لاکھ 60 ہزار بچے رسمی تعلیم سے محروم ہو چکے ہیں۔

اقوام متحدہ کے مطابق جنوری میں دو سال سے کم عمر کے 96 فیصد بچے مطلوبہ غذا سے محروم تھے۔ 3 لاکھ 45 ہزار افراد کو خوفناک غذائی قلت اور 8 لاکھ 76 ہزار افراد کو ایمرجنسی بنیادوں پر غذائی قلت کا سامنا ہے۔

بی بی سی کے ایک حالیہ پروگرام میں غزہ کی روز مرہ کی زندگی کی ہیبت ناک منظر کشی کی گئی ہے جہاں خاندان کچرے کے ڈھیروں میں سے کچھ تلاش کرتے ہیں تاکہ اسے بیچ کر روٹی حاصل کر سکیں اور بچے کھلے آسمان کے نیچے رفع حاجت پر مجبور ہیں جہاں انہیں جنگلی کتوں کے حملوں کا مسلسل ڈر رہتا ہے۔

جنگ کا مجموعی اثر مادی تباہی سے بہت زیادہ ہے۔ دیوہیکل غذائی قلت، صفائی اور نکاس کے نظام کا خاتمہ اور عوام کے ذہنوں پر نفسیاتی اثرات آنے والی نسلوں پر دہائیوں گہرے نقوش ڈالتے رہیں گے۔

معاہدہ

جنگ، جنگ بندی معاہدہ اور جس طرح یہ سب کچھ ہوا اس کا احاطہ کرتے ہوئے اندازہ ہوتا ہے کہ اسرائیلی سامراج اور اس کے مغربی حامی حیوانیت کے کس درجے پر بیٹھے یہ فیصلے کر رہے ہیں۔

تین مراحل پر محیط اس معاہدے کا مقصد کلیدی مسائل کا حل اور استحکام کی بحالی ہے۔ پہلے مرحلے میں قیدیوں کا تبادلہ ہو گا جس میں 33 اسرائیلوں کو 1 ہزار 700 فلسطینیوں کے بدلے میں رہا کیا جائے گا۔ اس میں رہا ہونے والوں میں 1 ہزار سے زائد وہ ہیں جنہیں 7 اکتوبر کے بعد بغیر کسی فردِ جرم یا مقدمہ کے گرفتار کیا گیا تھا۔ لیکن مغربی پریس حماس کی قید میں افراد کو ”یرغمال“ اور اسرائیلی قید میں افراد کو ”قیدی“ کہہ رہا ہے اگرچہ یہ بھی یرغمال ہیں۔ اسرائیل غزہ کی آبادیوں سے فوجی انخلاء کا آغاز کرے گا اور مصر کے ساتھ سرحد پر رفح (Rafah) کے راستے کو انسانی امداد کے لیے کھول دیا جائے گا۔

دوسرے مرحلے میں اسرائیل مکمل طور پر غزہ سے فوجی انخلاء کر لے گا اور باقی تمام اسرائیلی قیدی بھی رہا ہو جائیں گے۔ اور بالآخر تیسرے مرحلے میں، اگر یہ مرحلہ نصیب ہوتا ہے!، اسرائیلی قیدی جو ہلاک ہو چکے ہیں ان کی لاشیں واپس کر دی جائیں گی اور غزہ کے لیے ایک طویل مدت تعمیر نو کا منصوبہ شروع کر دیا جائے گا۔

لیکن یہاں کچھ اہم سوال جنم لیتے ہیں۔ اس معاہدے کے تمام کلیدی نکات وہی ہیں جن پر حماس مئی 2024ء میں راضی تھی! اسرائیل لیت و لعل سے کام لیتا رہا اگرچہ دونوں فریقین اس پر متفق تھے لیکن آخری وقت میں نتن یاہو نے یہ معاہدہ اس ضد میں ڈبو دیا کہ اسرائیل غزہ اور مصر کے درمیان فیلاڈیلفی (Philadelphi) راہداری نہیں چھوڑے گا۔

نتن یاہو کا دعویٰ تھا کہ یہ اسرائیلی سیکیورٹی کے لیے ناقابل قبول ہے۔ لیکن اس ہفتے کے اختتام میں جس معاہدہ پر سمجھوتہ ہوا ہے اس میں فیلاڈیلفی (Philadelphi) راہداری سے انخلاء بھی موجود ہے۔ یہ ایک عذر سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔ اس سے اسرائیلی وزیراعظم کی سفاک چالبازیاں عیاں ہوتی ہیں جو سرد مہری سے اپنی ذاتی اور سیاسی بقاء کے لیے یہ سب کچھ کر رہا تھا۔ یہ حقیقت اسرائیلی قیدیوں کے خاندانوں پر فاش ہو چکی ہے۔

وائٹ ہاؤس میں پریس کانفرنس کے دوران اس معاہدے پر بات کرتے ہوئے جو بائیڈن نے ڈونلڈ ٹرمپ کے کردار کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے سوال کیا کہ ”کیا یہ مذاق ہے؟“۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ اس معاہدے میں بائیڈن کا کوئی کردار نہیں ہے۔ صدارت کی کرسی سنبھالنے سے پہلے ہی یہ خالصتاً ڈونلڈ ٹرمپ کی مداخلت کا نتیجہ ہے۔

ٹرمپ کی نمائندگی سٹیفن ویٹکوف کر رہا تھا جو ایک ارب پتی پراپرٹی ٹائیکون اور قریبی اتحادی ہے۔ ویٹکوف کے پاس کوئی سرکاری عہدہ نہیں ہے لیکن اس نے قطر میں مذاکرات کے دوران نہ صرف معاہدہ منظور کرایا بلکہ اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نتن یاہو کو بدتمیزی اور اکھڑپن سے فوری طور پر دستخط کرنے پر مجبور بھی کیا۔

ہم ایک مرتبہ پھر بنیادی حقائق دہرا رہے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ایسا معاہدہ دنوں میں منظور کروا لیا ہے جس پر بائیڈن حکومت آٹھ مہینوں میں کوئی پیش رفت نہیں کر سکی۔ یہ واضح ہے کہ بائیڈن کی کوئی خواہش یا مقصد ہی نہیں تھا کہ اسرائیل کو سنجیدگی سے جنگ بندی پر مجبور کیا جائے۔

وہ امن کا پرچار کرتے ہوئے اسرائیل کو مسلح کر رہے تھے اور ہر منہ بولی مانگ پوری کر رہے تھے۔ کلی طور پر امریکہ نے اکتوبر 2023ء سے اکتوبر 2024ء تک اسرائیل پر عسکری مد میں 17.9 ارب ڈالر خرچہ کیا۔ امریکی اور برطانوی عسکری مشینری نے اسرائیل کی انٹیلی جنس معلومات اور اہداف کی کھوج میں حتی الامکان مدد کی۔ مغربی حکومتوں نے اسرائیل کے دفاع میں ایک متحد سیاسی حصار بنا لیا۔

اس لیے غیر اعلانیہ طور پر واشنگٹن اور اس کے یورپی غلام اسرائیلی جنگی اتحاد کا پہلے دن سے حصہ تھے اور نتن یاہو پر معاہدے کے لیے دباؤ ڈالنے کے حوالے سے ان کا کوئی پروگرام نہیں تھا۔ یہ بائیڈن کی خارجہ پالیسی کا ستون تھا جس کے مطابق پوری دنیا میں جہاں کہیں امریکہ یا اس کے کسی اتحادی کے تسلط کو کسی قسم کا بھی چیلنج ہو تو اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جائے۔

یعنی کچھ بھی ہو جائے، یہ ناقابل قبول ہے کہ امریکہ کو پسپا ہوتا دیکھا جائے اور اگر کبھی کہیں سے کوئی دباؤ آتا ہے تو اس کا شدت کے ساتھ منہ توڑ جواب دینا ہے۔ لیکن اس ڈھٹائی سے اڑے رہنے کا نتیجہ امریکی سامراج کی محدودیت اور کمزوری کی صورت میں اپنا اظہار کر رہا ہے۔

فتح یا شکست

غزہ میں دیوہیکل فوج کشی کے باوجود حماس کی تباہی اور قیدیوں کی بازیابی میں سے اسرائیل اپنا کوئی ایک کلیدی جنگی ہدف حاصل نہیں کر سکا ہے۔ حماس ابھی بھی ایک مضبوط قوت ہے جو اسرائیلی فوج پر کاری وار کرنے اور راکٹ لانچ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس دوران جنگ نے فلسطینی نوجوانوں میں بغاوت شدت سے پھیلا دی ہے جو اس تنظیم کی عددی قوتوں کو کم نہیں ہونے دے رہی۔

ایک سابق اسرائیلی بریگیڈیئر جنرل عامر آویوی نے وال سٹریٹ جرنل کو بتایا کہ ”ہم ایک ایسی صورتحال میں ہیں کہ حماس اپنے آپ کو IDF کی قتل و غارت سے زیادہ تیزی سے تازہ دم کر رہی ہے“۔

حماس برباد نہیں ہوئی بلکہ اس وقت غزہ کا جو علاقہ اسرائیل چھوڑنے پر آمادہ ہوا ہے، اس پر اس کا مکمل قبضہ ہے۔ فیلاڈیلفی راہداری سے اخراج، تجارت اور امداد کی بحالی کے بعد جو بھی غزہ پر حکمران ہو گا، اس کے نکتہ نظر سے صورتحال دوبارہ 6 اکتوبر 2023ء پر بحال ہو چکی ہے۔ یعنی اسرائیلی مشن مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے اور اسرائیلی ریاست کو ذلت آمیز شکست ہوئی ہے۔ ایک مخصوص مرحلے پر اسرائیل کے اندر اس حوالے سے سنجیدہ سوالات ابھریں گے۔

سرکاری طور پر نتن یاہو کا دعویٰ تھا کہ جنگ قیدیوں کی بازیابی کے لیے ناگزیر ہے لیکن ابھی تک کوئی ایک قیدی آزاد نہیں کرایا جا سکا۔ یہ واضح ہو چکا ہے کہ جنگ کی طوالت اور خونخواری کا زیادہ مرکزی ہدف نتن یاہو کا اقتدار پر مسلسل قبضہ اور اپنے خلاف کرپشن کیسوں سے حتی الامکان جان چھڑانا تھا۔

اس صورتحال میں اسرائیل نے بہت بھاری قیمت ادا کی ہے۔ سرکاری طور پر کم از کم 400 اسرائیلی فوجی ہلاک اور 6 ہزار تک زخمی ہو چکے ہیں۔ حقیقی اعداد و شمار کہیں زیادہ ہیں اور ان میں PTSD (Post-Traumatic Stress Disorder) اور دورانِ جنگ فوجیوں میں تیزی سے بڑھتے دیگر ذہنی مسائل کا ذکر نہیں ہے۔ یہ بھی واضح ہے کہ ایک طرف نتن یاہو ہر معاہدے کی کوشش کو سبوتاژ کر رہا تھا جبکہ کئی قیدی اس دوران ہلاک ہو رہے تھے۔

دفاع میں دراڑیں

یہ واضح ہے کہ اگر ٹرمپ نے دباؤ ڈالا ہے تو دوسری طرف جنگی بیزاری نے IDF کے عزم پر بھی اثر ڈالا ہے۔ اگرچہ جنگ کے لیے وسیع حمایت موجود رہی لیکن ابتدائی جنگی جنون جلد ہی ختم ہو گیا۔ یہ اس وقت واضح ہو چکا تھا جب جنگ کے آغاز پر تقریباً 100 فیصد فوجی (Reservists) جنگ کے لیے تیار تھے جبکہ پچھلے سال نومبر میں 75-85 فیصد فوجی ہی لڑائی میں شمولیت کے لیے آمادہ تھے۔

ہاریتز (Haaretz) اخبار نے عام فوجیوں میں بڑھتی بے چینی پر ایک حیران کن رپورٹ شائع کی ہے۔ ایک سروے کے مطابق ”صرف 56 فیصد یہودی اپنے خاندان میں کسی فوجی کی دوبارہ جنگ پر جانے کے لیے حوصلہ افزائی کریں گے“۔ در حقیقت اگست میں ہونے والے اسی سروے کے مطابق صرف ”57 فیصد اسرائیلی یہودی اپنے بچوں کو فوج میں بھیجنے کی حوصلہ افزائی کریں گے۔“ اور ”جون سے نومبر کے دوران حوصلہ افزائی نہ کرنے والوں کی تعداد تقریباً دگنی ہو چکی تھی (7.5 فیصد سے بڑھ کر 13 فیصد تک)“۔

اس اخبار نے ایک اعلیٰ افسر کا انٹرویو کیا جس نے اعتراف کیا کہ غزہ جانے پر فوجیوں کو آمادہ کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ ”مسئلہ بڑھتا جا رہا ہے۔۔ جنگ کے کسی اختتام کے حوالے سے مایوسی بڑھتی جا رہی ہے“۔

تین مرتبہ ڈیوٹی دینے والے ایک فوجی نے کئی انکشافات کیے کہ:

”ایک عمومی سوچ موجود ہے کہ یہ ڈھانچہ اب مضبوط نہیں رہا۔ ڈسپلن وہ نہیں جو ہونا چاہیے۔ ہمیں محسوس نہیں ہو رہا کہ کل اور اس کے بعد کے لیے کوئی منصوبہ بندی موجود ہے۔ یہ واضح نہیں ہے کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔۔ ایک سوچ موجود ہے کہ ہر ڈویژن کمانڈر وہ کر رہا ہے جو اسے سمجھ آ رہا ہے کیونکہ ایک قسم کا خلاء موجود ہے۔ اگر فوجی سوال کرتے ہیں تو ان کا جواب ہوتا ہے کہ ’یہ پیچیدہ مسئلہ ہے، تمہیں اس کی سمجھ نہیں ہے۔“

یہ ان فوجیوں کے سنجیدہ الفاظ ہیں جن پر فوج میں اتحاد برقرار رکھنے کے لیے بے تحاشہ دباؤ ہو گا۔ سرکاری طور پر جنگ کا مقصد حماس کا خاتمہ اور قیدیوں کی بازیابی تھا لیکن میدان جنگ میں فوجیوں کو ایک مختلف حقیقت کا سامنا تھا:

”موسم گرما تک فوجیوں میں جنگ کے بڑے اہداف کے حوالے سے اعتماد بہت کم ہو چکا تھا اور قیدیوں کے حوالے سے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی تھی۔“

در حقیقت IDF کی سرگرمیوں سے قیدیوں کی اموات ہو رہی تھیں۔ ”ہمیں ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ ہم کچھ بھی اچھا نہیں کر رہے۔ پھر ہم ایسے آپریشن کر رہے تھے جن کا مقصد ہمیں سمجھ نہیں آ رہا تھا۔۔ ان آپریشنوں میں افراد ہلاک ہوتے ہیں اور ہمیں طریقہ کار یا لائحہ عمل کی کچھ سمجھ بوجھ تھی۔“

یہ اسرئیلی حکمران طبقے کے لیے سنجیدہ تنبیہ ہے جو اپنی ریاست اور خاص طور پر یہودی قوم کے دفاع کے لیے اپنی فوج کے قادر مطلق ہونے کے واہمے میں مبتلا ہے۔ پچھلے پندرہ مہینوں میں یہ دونوں مفروضے اپنی افادیت بہت حد تک کھو چکے ہیں۔

IDFغزہ میں حماس کو شکست فاش نہیں دے سکی بلکہ اس کی جارحیت نے لبنان میں حزب اللہ، یمن میں حوثیوں اور ایران کی جانب سے انتقامی کاروائیوں کا راستہ کھول دیا اور ایرانی میزائلوں نے اکتوبر میں طاقت کے ایک سنجیدہ اظہار میں اسرائیل کے میزائلی دفاعی نظام کی کمزوریاں عیاں کر دیں۔ در حقیقت اسرائیلی دفاع حماس کے راکٹ تک نہیں روک سکا جو پوری جنگ میں برستے رہے۔

اس دوران اسرائیلی معیشت پر شدید اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ بینک آف اسرائیل کے مطابق 2023-25ء کے دوران اسرائیل کے جنگی اخراجات 55.6 ارب ڈالر تک پہنچ سکتے ہیں جو GDP کا 10 فیصد بنتا ہے۔ طویل مدت میں اسرائیل کی جدید ٹیکنالوجی معیشت کے لیے بڑھتے عدم استحکام میں حالات خوشگوار نظر نہیں آ رہے۔ اس سیکٹر کا دار و مدار تعلیم یافتہ نوجوانوں پر ہے جنہیں جنگ میں جھونکا جا رہا ہے اور اس سیکٹر پر تباہ کن اثرات واضح ہو رہے ہیں۔ یہ ساری صورتحال اسرائیل کو مسلسل گہرے بحرانوں میں گھسیٹتی جائے گی جس سے ایک وقت آنے پر اسرائیلی سماج کی اکائی تار تار ہو جائے گی۔

اس لیے کوئی ایک مسئلہ نہیں حل ہوا ہے۔ اسرائیل جنگ کے بعد زیادہ کمزور اور ننگا ہو چکا ہے۔ یہ ایک شکست ہے۔ لیکن نقصان صرف مادی نہیں ہے۔ سب سے زیادہ نقصان اس رجعتی نظریے کو ہوا ہے کہ ایک جدید ترین عسکری ریاست ہی اسرائیلی یہودیوں کی حفاظت اور خوشحالی کی ضامن ہے۔ اس جھوٹ کے بغیر اسرائیلی حکمران طبقہ آٹھ دہائیاں اپنا اقتدار برقرار نہیں رکھ سکتا تھا۔

لیکن تلخ حقیقت واضح ہے کہ اس وقت یہ نظریہ اپنے الٹ میں تبدیل ہو چکا ہے۔ اسرائیل کی جارحیت خود اسرائیل کے اندر جارحیت اور بدامنی کو مسلسل بڑھا رہی ہے۔ ہاریتز (Haaretz) نے سنجیدہ تنبیہ کی ہے کہ:

”جنگ کے تھپیڑے طویل عرصے میں جوش و جذبے کو برباد کر دیں گے۔ اگر آج جنگ بند ہو جاتی ہے تو اسرائیل کو کئی سال اپنا سماجی اور بظاہر عسکری معاہدہ دوبارہ بحال کرنے میں کئی سال لگ جائیں گے۔ اگر کل جنگ دوبارہ شروع ہو جاتی ہے تو جوش و جذبے میں گراوٹ وسعت اختیار کر جائے گی۔“

ریاست کا بحران

نتن یاہو اور اس کا حامی اسرائیلی حکمران طبقے کا دھڑا اس وقت خود اپنے ہی ہاتھوں شکست خوردہ ہو چکا ہے۔ اس کا منصوبہ خاکستر ہو چکا ہے اور ڈونلڈ ٹرمپ نے اس کی شدید بے عزتی کر دی ہے جسے وہ اپنا پکا اتحادی گردانتا تھا۔

ایسا ہو سکتا ہے، لیکن ڈونلڈ ٹرمپ سب سے پہلے اپنا اور امریکی سامراج کا اتحادی ہے اور مشرق وسطیٰ میں ایک لامتناہی جنگ اس کے مفاد میں نہیں ہے۔ نتن یاہو چاہے جتنا بھی غصے کا اظہار کرے، ٹرمپ نے اسے واضح کر دیا ہے کہ اس تعلق داری میں حقیقی آقا کون ہے۔ امریکہ کی عسکری اور معاشی حمایت کے بغیر اسرائیلی ریاست کا تیزی سے شیرازہ بکھر جائے گا۔

یقینا ٹرمپ نے نتن یاہو کو کچھ مراعات کا وعدہ کیا ہے تاکہ وہ جنگ بندی معاہدے کی کڑوی گولی نگل لے لیکن اس سے یہ حقیقت تبدیل نہیں ہو گی کہ اسرائیلی سامراج کو شرمناک پسپائی اختیار کرنی پڑی ہے۔

یقینا ایسی کوئی ضمانت موجود نہیں ہے کہ اسرائیل اپنے وعدوں پر قائم رہے گا۔ ایک مخصوص مرحلے پر نتن یاہو کی حامی رجعتی آباد کار تحریک اور اس کی نمائندہ پارٹیاں جنگ دوبارہ شروع کرنے کے لیے شدید دباؤ ڈالیں گی۔

ان کا ایک مرکزی نمائندہ انتہائی دائیں بازو کا وزیر برائے قومی سیکیورٹی ایتمار بن گویر ہے جو بنیامین نتن یاہو کی مخلوط حکومت سے مستعفی ہو چکا ہے۔ اس کے بعد نتن یاہو کے پاس انتہائی باریک پارلیمانی اکثریت رہ گئی ہے اور اس لیے باقی ماندہ اتحادی پارٹیوں کا اس پر دباؤ شدت اختیار کرے گا۔ انتہائی دائیں بازو کا وزیرِ خزانہ بیزالیل سموتریچ حکومت میں ہی ہے لیکن اس نے دھمکی دی ہے کہ اگر 42 دن کے ابتدائی جنگ بندی کے مرحلے کے بعد جنگ دوبارہ شروع نہیں ہوتی تو وہ مستعفی ہو جائے گا۔ لیکن اگر یہی معاملہ اسی طرز پہ جاری رہے گا تو مجتمع شدہ تضادات مسلسل بڑھتے جائیں گے اور مستقبل میں ایک زیادہ دیو ہیکل بحران جنم لے گا۔

دوسری طرف شہری علاقوں کی ایک قابل ذکر آبادی ہمیشہ نتن یاہو، آباد کاروں اور دائیں بازو سے نفرت کرتی رہی ہے۔ دھول چھٹنے اور جنگی جنون کے قدرے ٹھنڈے ہونے کے بعد اس پرت میں موجود کئی افراد پر ایک نئی حقیقت آشکار ہو گی۔ اس حوالے سے کچھ متبادل راستہ تلاش کریں گے۔۔ جو عسکریت اور سامراجیت سے مختلف ہو۔۔ اور پھر ناگزیر طور پر ان کا اسرائیلی صیہونیت کے ٹھوس مفادات سے ٹکراؤ ہو گا۔

یہاں ہمیں سماجی لڑائی کی دراڑیں نظر آتی ہیں جو مستقبل میں ایک کھائی کی شکل اختیار کریں گی اور ایک مخصوص مرحلے پر ایک طبقاتی شکل بھی اختیار کریں گی۔

مغربی سامراج کا بحران

اس جنگ کے آغاز سے ہم مسلسل ایک بات کر رہے ہیں کہ مغرب مکمل طور پر ملوث ہے اور اسرائیلی سامراج کے جرائم میں براہ راست شامل ہے۔ انہوں نے غزہ جنگ میں مالیاتی، عسکری اور سیاسی ہر طریقے سے مدد کی ہے۔ انہوں نے اسرائیل کی مکمل حمایت کی تاکہ پوری دنیا پر مغربی سامراج کی طاقت واضح ہو جائے۔ لیکن اس کا نتیجہ بالکل الٹ نکلا ہے۔ اس وقت اسرائیل ہی نہیں بلکہ امریکی سامراج، پورا مغرب اور لبرل سیاسی افسر شاہی، سب شرمناک شکست سے دوچار ہو چکے ہیں۔

تمام کوششوں کے باوجود اسرائیلی عسکری مشین اپنے طاقتور اتحادیوں کی مکمل حمایت کے ساتھ فلسطینی مزاحمت کو کچل نہیں سکی ہے۔ یہ مغربی سامراج کی محدودیت کا واضح اظہار ہے جسے عراق اور افغانستان میں بھی شرمناک شکست ہوئی اور اب اس سے بڑی شکست یوکرین میں منتظر ہے۔

اس جنگ نے امریکہ میں وسیع پیمانے پر بے چینی کو جنم دیا ہے جہاں لاکھوں کروڑوں محنت کشوں اور نوجوانوں نے ڈیموکریٹس کے جنگی جنون سے منہ موڑ لیا۔ ڈیموکریٹس کی شرمناک شکست اور ٹرمپ کی فتح میں یہ ایک بہت بڑا عنصر تھا جس نے تمام لامتناہی جنگیں ختم کرنے کا وعدہ کر رکھا تھا۔ وہ ایسا کر پائے گا یا نہیں یہ ایک الگ سوال ہے۔

ٹرمپ کی خارجہ پالیسی امریکی سامراج کی محدودیت کا اعلان ہے۔ لاحاصل اور نقصان دہ عسکری جارحیت کے برعکس اس کا رجحان پسپائی، مراعات اور امریکی سامراج کے کلیدی مفادات کا تحفظ ہے۔ غزہ میں ایک لاحاصل جنگ اور مشرق وسطیٰ میں عدم استحکام اس میں شامل نہیں ہے۔ سب سے پہلے امریکہ پھر باقی دنیا۔ کم از کم اس کا ہدف تو یہی نظر آ رہا ہے۔ وہ کامیاب ہو گا یا نہیں ایک الگ سوال ہے۔

اپنے جوہر میں یہ امریکی سامراج کی جزوی پسپائی ہے جس کے دیو ہیکل اور دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ سب سے اہم یہ ہے کہ امریکہ اور مغرب میں کروڑوں افراد کے شعور پر اس کا خاطر خواہ اثر پڑے گا۔ مغربی اخلاقی برتری اور قوت کی دیو مالا ہر پسپائی کے ساتھ ننگی ہو رہی ہے۔ اس سے لبرل افسر شاہی کے بحران میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جو دوسری عالمی جنگ کے بعد واشنگٹن اور یورپی دارالحکومتوں پر قابض رہی ہے۔

انہوں نے ہمیشہ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکی ہے کہ وہ جمہوریت، انسانی حقوق، عالمی قوانین وغیرہ کے علم بردار ہیں۔ لیکن زیادہ سے زیادہ افراد پر روزانہ یہ حقیقت آشکار ہو رہی ہے کہ آج کا لبرلزم رجعتیت کا سرچشمہ ہے اور ان کا ”قوانین کی بنیاد پر نظام“ بربریت زدہ سامراجی مفادات کی ستر پوشی کے لیے ایک سفاک چال ہے۔

یہ وہ خواتین و حضرات ہیں جو بھڑکیلے ملبوسات اور اس سے زیادہ میٹھی زبان کے ساتھ دنیا کی چوٹی کی یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہیں جن کی چمکتی مصنوعی مسکراہٹیں اور بناوٹی آداب اندرون اور بیرون ملک میں رجعتی ترین پالیسیوں کا جوہڑ ہیں۔

یہی وہ لوگ ہیں جو برطانیہ میں غریب ضعیفوں کے لیے سردیوں میں ایندھن سبسڈی کاٹنے کے ساتھ یوکرین اور غزہ میں لاکھوں افراد کو قتل کرنے کے لیے اربوں ڈالر خرچ کر رہے ہیں۔ یہ شعبہئ صحت اور دیگر عوامی سہولیات کا گلا گھونٹنے کے ساتھ عسکریت پر ہزاروں ارب ڈالر لٹا رہے ہیں۔ یہ جمہوریت کا راگ الاپتے ہوئے فلسطینیوں کی حمایت میں کھڑے ہونے والے افراد کو قانون گردی کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ یہ حیران کن نہیں کہ دنیا کے ہر ملک میں اس وقت ان کو شدید عوامی غیض و غضب کا سامنا ہے۔

یہی عوامی غم و غصہ، مغرب میں تیزی سے بڑھتی ہوئی طبقاتی جدوجہد، فلسطینی آزادی کی حقیقی ضمانت ہے۔ فلسطینی عوام ثابت کر چکی ہے کہ ان میں قابل ستائش صبر اور جدوجہد کے عزم کی کوئی کمی نہیں ہے۔ لیکن ہمیں حقیقت کو تسلیم کرنا چاہیے۔ اسرائیلی جنگ ناکام ہو چکی ہے جبکہ فلسطینیوں کی آزادی کی جدوجہد ابھی فتح یاب نہیں ہوئی۔ در حقیقت یہ ابھی تک درپیش کوئی ایک مسئلہ حل نہیں کر سکی ہے۔

فلسطینی مزید بربریت میں دھنس چکے ہیں جہاں سے کوئی امن برآمد نہیں ہو گا۔ وہ چھوٹے ہتھیاروں سے مسلح ٹکڑوں میں بکھر چکے ہیں جن کے مدمقابل ایک انتہائی طاقتور جدید ہتھیاروں سے لیس ریاست ہے۔ خالص عسکری مہم میں صیہونی ریاست کو شکست فاش نہیں دی جا سکتی۔

اسرائیل پر حملہ کرنے کا واحد طریقہ کار صیہونی ریاست کو طبقاتی بنیادوں پر تقسیم کرتے ہوئے ان اسرائیلیوں کو اپیل کرنا ہے جو مستقبل میں اسرائیل کی موجودہ راہ پر سوالات کرتے ہوئے اپنے حکمران طبقے کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے اور دوسری طرف مغرب سے آنے والی اسرائیلی مالیاتی، عسکری اور سیاسی حمایت پر کاری وار کرنا ہو گا۔ آج فلسطینیوں کی قسمت ماضی کے برعکس کہیں زیادہ عالمی محنت کش طبقے کی جدوجہد سے منسلک ہو چکی ہے۔ صیہونی اسرائیلی ریاست کے خاتمے اور ایک حقیقی آزاد فلسطین کی جدوجہد اور مغرب، خاص طور پر امریکہ میں سرمایہ داری کے خلاف جدوجہد، ایک ہی ہے۔ ان دونوں جدوجہدوں کو آپس میں جڑنا ہو گا۔

عالمی سرمایہ داری کا بحران طبقاتی جدوجہد کے شعلے ہر طرف بھڑکا رہا ہے۔ اس جدوجہد میں محنت کش اور غربا صرف اپنی قوتوں پر انحصار کر سکتے ہیں۔ ایک آزاد فلسطین کی جدوجہد کا آغاز اپنے ملک میں سرمایہ داری اور سامراج کے خلاف جدوجہد کا آغاز ہے۔