انڈیا: انتہا پسندی کے خلاف ابھرتی طلبہ تحریک Share Tweetجنوبی بھارت کی ریاست کرناٹک میں بی جے پی حکومت کی جانب سے حجاب پر پابندی عائد کرنا، بھارتی حکمران طبقے کی عوام کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرنے کی گھناؤنی پالیسی کا تسلسل ہے۔ یہ برطانوی سامراج کے ’تقسیم کرو اور راج کرو‘ کے طریقہ کار کی میراث ہے، جس نے پورے خطے میں مذہبی منافرت پھیلائی ہے، اور جسے مودی حکومت نے ایک نئی انتہا پر پہنچا دیا ہے۔ کانگریس کی حکومت کے دوران اس نے بھی ملک میں سرمائے کی حکمرانی کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لیے یہی حربہ استعمال کیا تھا۔ مودی حکومت صرف حکمران طبقے کے سفاک چہرے کی نمائندگی کرتی ہے، جو حالیہ گہرے بحران کے نتیجے میں مکمل طور پر بے نقاب ہو چکا ہے۔ جمہوریت، قانون کی حکمرانی اور اظہار رائے کی آزادی کا جھوٹا پردہ بھی گرتا جا رہا ہے۔[Source]انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریںایک طرف مودی حکومت قیمتوں میں بے مثال اضافہ، بے روزگاری، نجکاری اور مزدوروں کے حقوق کے خلاف سخت اقدامات کے ذریعے محنت کش طبقے پر حملے کر رہی ہے، تو دوسری طرف وہ محنت کش طبقے کو مذہبی بنیاد پر تقسیم کرنے کے لیے تعصب اور شاؤنزم کی سیاست کا استعمال کررہی ہے۔ تعلیمی اداروں میں مورل پولیسنگ (اخلاقی اقدار کا زبردستی تسلط) اور ملک بھر میں جنونی بھیڑ کے ہاتھوں مذہبی اقلیتوں کا شکار معمول بن گیا ہے۔ یہ سب مذہبی تقسیم اور نفرت کے ایجنڈے کو فروغ دینے کا حصہ ہے، جس کا مقصد محنت کش طبقے کی زندگیوں کو متاثر کرنے والے معاشی بحران کے سلگتے ہوئے مسائل سے توجہ ہٹانا ہے۔ملک کی اپوزیشن جماعتیں، ملکی یا ریاستی سطح پر، اس موقع پر مذہبی اقلیتوں کی حالتِ زار پر مگرمچھ کے آنسو بہا کر اپنے ووٹوں میں اضافے کی امید کر رہی ہیں۔ لیکن ان جماعتوں نے بھی اپنی باری میں بڑے سرمایہ داروں اور حکمران طبقے کے مفادات کے دفاع کے لئے مذہبی نفرت کا استعمال کیا ہے۔ یہ اس ملک کی حکمران طبقے کی باقاعدہ خصوصیت رہی ہے: اس کے سیاسی نمائندوں کا ایک دھڑا مذہبی نفرت کے شعلوں کو ہوا دیتا ہے، جبکہ دوسرا مگرمچھ کے آنسو بہاتا ہے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور امن کی تبلیغ کرتا ہے۔ یہ طریقے ہمیشہ ملک میں طبقاتی جدوجہد کو کمزور کرنے اور فرقہ وارانہ منافرت کے ایجنڈے کو آگے لانے کے لیے استعمال ہوتے رہے ہیں۔کسانوں کی حالیہ تحریک کے خلاف بھی یہی حربہ استعمال کیا گیا، جس کا کسانوں کے قائدین نے کامیابی سے مقابلہ کیا اور بالآخر جیت ان کی ہوئی۔ بی جے پی حکومت معاشی قتلِ عام کی اپنی پالیسیوں کے خلاف عوامی تحریک کے بھڑکنے سے خوفزدہ ہے، اور اسی لیے وہ اپنے معمول کے طریقے استعمال کر رہی ہے؛ یعنی آنے والی تحریک کو رجعت اور تعصب کی طرف موڑنے کے لیے اقلیتوں کی مذہبی آزادی پر حملہ۔مسکان، ایک 19 سالہ طالبہ جو کرناٹک کے اڈوپی کالج میں ”جے شری رام“ کے نعرے لگانے والے رجعتی گروہ کے خلاف بے خوف کھڑی ہوئی، کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لیے ملک بھر میں طلبہ کا احتجاج یہ ظاہر کرتا ہے کہ عوام پر مذہبی نفرت مسلط کرنے کی پالیسی اب کام نہیں کرے گی۔طلبہ پہلے ہی فیسوں میں اضافے، بے روزگاری اور عمومی معاشی بحران کے نتیجے میں مشکلات کا شکار ہیں۔ انہیں تاریک مستقبل کا سامنا ہے۔ استحصال اور ناانصافی پر مبنی اس نظام کے خلاف ملک بھر کے لاکھوں نوجوانوں کے دلوں میں بغاوت پہلے ہی بھڑک رہی ہے۔ اس تناظر میں، مسکان کی بے خوف سرکشی نے انہیں اس رجعت پسند حکمران طبقے کے خلاف لڑنے کی امید دی، جو ان کے لیے ایک مثال بن گئی۔ آنے والے دور میں، اس تعصب اور رجعت کے خلاف مزید مزاحمت کے واقعات دیکھنے کو ملیں گے، جن میں محنت کش طبقے کی طرف سے یکجہتی کا زبردست اظہار ہوگا۔اس بدحالی اور تعصب سے نکلنے کا واحد راستہ معاشرے کی سوشلسٹ تبدیلی کی لڑائی میں اس ملک کے حکمران طبقے کے خلاف طبقاتی جڑت کا قیام ہے۔ یہ بحران زدہ سرمایہ دارانہ نظام خواتین، اقلیتوں اور نچلی ذاتوں کے جمہوری حقوق کی ضمانت نہیں دے سکتا، اور نہ ہی اس نظام کے تحت فرقہ وارانہ ہم آہنگی ممکن ہے۔ یہ نظام محنت کش طبقے کے استحصال پر مبنی ہے۔ یہ انہیں طبقاتی بنیادوں پر متحد ہونے سے روکنے کے لیے مختلف بنیادوں پر تقسیم کرنے کے لیے ہر حربہ استعمال کرتا ہے۔ لیکن طلبہ اور محنت کشوں کو اس بربریت کے خلاف لڑنے اور اس ڈراؤنے خواب کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کے لیے طبقاتی بنیادوں پر متحد ہونا ہوگا۔مودی حکومت کے خلاف طلبہ اور مزدور اتحاد کی طرف بڑھو!ہمارے مطالبہ کرتے ہیں کہ:۔ دائیں بازو کی بسواراج بومائی حکومت کا استعفیٰ!۔ تعلیمی اداروں میں فرقہ واریت اور ہندو قوم پرست ایجنڈے کے فروغ کا خاتمہ!۔ اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک اور جبر کے خلاف جنگ کی جانب بڑھو!۔ تعلیمی اداروں میں طلبہ یونینز بنانے کے حق کی بحالی!۔ تعلیم کی نجکاری بند کرو!دنیا بھر کے محنت کشو، ایک ہو جاؤ!