انقلابی کمیونسٹ انٹرنیشنل (RCI) کا مینی فیسٹو Share Tweetدرج ذیل متن انقلابی کمیونسٹ انٹرنیشنل کا مینی فیسٹو ہے جسے تفصیلی بحث کے بعد انٹر نیشنل سیکرٹریٹ نے 7مارچ2024ء کو متفقہ طور پر منظور کیا تھا۔ یہ دستاویز منظوری کے لئے جون میں منعقد ہونے والی ہماری عالمی کانفرنس میں پیش کی جائے گی، جہاں ہم ایک نئی انقلابی کمیونسٹ انٹرنیشنل کی تخلیق کا اعلان کریں گے۔مینی فیسٹو1938ء میں روس کے عظیم انقلابی لیون ٹراٹسکی نے کہا تھا کہ ”نوع انسان کا تاریخی بحران قیادت کے بحران میں سمٹ کر رہ گیا ہے“۔ یہ الفاظ آج بھی اتنے ہی درست ہیں جتنے اپنے لکھے جانے کے وقت تھے۔اکیسویں صدی کی تیسری دہائی میں سرمایہ دارانہ نظام ایک تباہ کن نامیاتی بحران کا شکار ہے۔ ایسا تاریخ میں کوئی پہلی دفعہ نہیں ہو رہا۔ یہ امر اس حقیقت کی غمازی کرتا ہے کہ ایک سماجی تاریخی نظام اپنی حدود کو پہنچ چکا ہے اور مزید کوئی بھی ترقی پسندانہ کردار ادا کرنے سے قاصر ہے۔تاریخی مادیت کا مارکسی نظریہ ہمیں اس مظہر کی سائنسی وضاحت فراہم کرتا ہے۔ ہر سماجی معاشی نظام مخصوص وجوہات کے کارن تشکیل پاتا ہے۔ وہ ارتقا پذیر ہوتا ہے، پھلتا پھولتا ہے، اپنے عروج کو چھوتا ہے اور پھر اپنے زوال کے عہد میں داخل ہو جاتا ہے۔ سلطنت روم اور غلام دارانہ سماج کے زوال کی بھی یہی کہانی تھی۔اپنے ترقی پسندانہ عہد میں سرمایہ داری نے صنعت، زراعت، سائنس اور ٹیکنالوجی کو بے مثال ترقی دی تھی۔ ایسا کرتے ہوئے سرمایہ داری غیر شعوری طور پر مستقبل کے غیر طبقاتی سماج کی مادی بنیادیں بھی ڈال رہی تھی۔مگر اب یہ تمام عمل اپنی حدود کو پہنچ چکا ہے اور ہر چیز اپنے الٹ میں بدل رہی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کا تاریخی پوٹینشیل کب کا ختم ہو چکا ہے۔ سماج کو مزید ترقی دینے میں ناکام یہ نظام اب تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔موجودہ بحران سرمایہ داری میں آنے والا کو ئی روٹین کا گردشی بحران نہیں ہے۔ یہ ایک ایسا بحران ہے جس سے سرمایہ داری کے وجود کو خطرہ لاحق ہے، جس کا اظہار نہ صرف پیداواری قوتوں کے جمود بلکہ ثقافت، اخلاقیات، سیاست اور مذہب کے عمومی بحران کی صورت میں بھی ہو رہا ہے۔امیر اور غریب کے درمیان موجود طبقاتی خلیج۔۔۔جہاں چند طفیلیوں کے ہاتھوں میں بے تحاشہ دولت سمٹ کر اکٹھی ہو چکی ہے جبکہ نوع انسان کی بھاری اکثریت کے پاس غربت، ذلت اور مایوسی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔۔۔جتنی گہری آج ہے، اتنی ماضی میں کبھی نہیں تھی۔یہ ایک ایسے بیمار سماج کی نشانیاں ہیں جو خاتمے کے لئے نہ صرف تیار ہے بلکہ اب ضرورت سے زیادہ پک کر گلنے سڑنے بھی لگا ہے۔اس کا حتمی زوال ناگزیر ہے اور اس سے بچا نہیں جا سکتا۔ مگر اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ سرمایہ دار طبقہ وقتی طور پر بحران کو ٹالنے یا اس کے اثرات کو تھوڑا کم کرنے کی بھی صلاحیت نہیں رکھتا۔لیکن اس قسم کے تمام اقدامات صرف نئے ناقابل حل تضادات کو ہی جنم دیتے ہیں۔ 2008ء کامالیاتی بحران ایک انتہائی غیر معمولی واقعہ تھا اور حقیقت تو یہ ہے کہ عالمی سرمایہ داری کبھی بھی اس جھٹکے سے سنبھلنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔دہائیوں تک بورژوا معیشت دان یہ راگ الاپتے رہے تھے کہ ”منڈی کا نادیدہ ہاتھ“ تمام مسائل حل کر لے گا اور حکومت کو معاشی معاملات میں دخل دینے کی کوئی ضرورت نہیں۔ مگر پھر منڈیاں کریش کر گئیں اور صرف بھاری ریاستی مداخلت کے ذریعے ہی انہیں بچایا گیا۔ اس بحران کے دوران حکومتوں اور مرکزی بنکوں نے نظام کی رگوں میں بے تحاشہ سرمایہ انجیکٹ کیا تا کہ ایک مکمل انہدام سے بچا جا سکے۔سرمایہ دار طبقہ وقتی طور پر نظام بچانے میں تو کامیاب ہو گیا مگر ایسا کرنے کے لئے اسے نظام کو اس کی قدرتی حدودسے باہر دھکیلنا پڑا۔ حکومتوں نے ایسی بے تحاشہ دولت خرچ کی جو کہ درحقیقت ان کے پاس تھی ہی نہیں۔ کرونا وبا کے عرصے میں بھی یہی پاگل پن دہرایا گیا۔ان غیر معمولی اقدامات کا ناگزیر نتیجہ بے قابو افراطِ زر اور حکومتی، کاروباری اور گھریلو قرضوں کے ایک عظیم پہاڑ کی صورت میں برآمد ہوا جس نے حکومتوں کو بریکیں لگانے پر مجبور کر دیا۔ اب یہ پورا عمل الٹ سمت میں چلنا شروع ہو چکا ہے۔غیر معمولی طور پر کم شرح سود اور آسان قرضوں کا دور اب قصہ پارینہ بن چکا ہے۔ اگر بالفرض وہ دور کبھی واپس آیا بھی تو ایسا مستقبل قریب میں تو ہرگز نہیں ہونے والا۔عالمی معیشت کا تناظر ایک خوفناک طوفان کا منظر نامہ پیش کرتا ہے جس میں ہر عنصر دوسرے کو بڑھاوا دیتے ہوئے ایک تیز ترین زوال کو جنم دے رہا ہے۔دنیا ایک انتہائی غیر یقینی مستقبل میں داخل ہو رہی ہے جس کا خاصہ نہ ختم ہونے والی جنگیں، معاشی انہدام اور بڑھتی ہوئی غربت ہے۔یہاں تک کہ امیر ترین ممالک میں بھی بڑھتے افراطِ زر نے اجرت کی قوت خرید کو دیمک کی طرح چاٹ لیا ہے جبکہ صحت اور تعلیم جیسی عوامی سہولیات پر لگنے والی زبر دست کٹوتیوں نے انہیں عوام کی پہنچ سے دور کر دیا ہے۔یہ سب اقدامات محنت کشوں اور درمیانے طبقے کے معیار زندگی پر ایک براہ راست حملہ ہیں۔ مگر یہ سب بحران کو مزید گہرا کرنے کا موجب بن رہے ہیں۔ بورژوازی کی طرف سے معاشی بحران کو حل کرنے کے لئے کی جانے والی تمام کو ششیں سماجی اور سیاسی بحرانوں کو جنم دے رہی ہیں۔ بورژوازی ایک ایسے بحران میں پھنسی ہوئی ہے جس کا کوئی حل اس کے پاس موجود نہیں۔ یہ موجودہ صورتحال کو سمجھنے کی کنجی ہے۔لیکن لینن نے عرصہ پہلے وضاحت کی تھی کہ سرمایہ داری کا کوئی بھی بحران حتمی نہیں ہوتا۔ نوع انسان کی ہڈیوں پر ہی سہی لیکن سرمایہ دارانہ نظام گہرے ترین بحران سے بھی بچ نکلنے میں کامیاب ہو جائے گا جب تک کہ اسے اکھاڑ پھینکا نہ جائے۔گلوبلائزیشن کی حدودسرمایہ داری کے بحران کی دو اہم ترین وجوہات ہیں۔ ایک تو ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت اور دوسری قومی منڈی کی دم گھونٹ دینے والی حدود و قیود جو کہ سرمایہ داری کی تخلیق کردہ پیداواری قوتوں کے لئے نہایت تنگ ہیں۔ایک عرصے تک سرمایہ دار طبقہ عالمی تجارت اور عالمی تقسیم محنت کی بڑھوتری پر مبنی ”گلوبلائزیشن“ نامی عمل کے ذریعے قومی منڈی کی تنگ حدود و قیود کو جزوی طور پر پھلانگتا رہا ہے۔سوویت یونین کے انہدام کے بعد چین، روس اور انڈیا کی سرمایہ دارانہ عالمی منڈی میں شمولیت نے اس عمل کو مزید مہمیز دی تھی۔ یہ وہ بنیادی وجہ تھی جس کے کارن سرمایہ دارانہ نظام پچھلی چند دہائیوں میں بحران سے بچنے اور مزید پھیلنے کے قابل ہوا تھا۔ماضی کے کیمیا گروں، جنہیں یقین تھا کہ انہوں نے کسی بھی دھات کو سونے میں بدلنے کا خفیہ طریقہ دریافت کر لیا ہے، کی طرح بورژوا معیشت دانوں کو بھی یہ لگتا تھا کہ انہوں نے سرمایہ داری کے تمام مسائل کا خفیہ حل ڈھونڈ لیا ہے۔اب یہ سب غلط فہمیاں خشک پتوں کی طرح تیز ہوا میں بکھر چکی ہیں۔ یہ واضح نظر آ رہا ہے کہ گلوبلائزیشن کا عمل اپنی حدود کو پہنچ کر اب واپس پلٹ رہا ہے۔ معاشی قوم پرستی اور تحفظاتی پالیسیاں آج کی دنیا کے غالب رجحانات ہیں۔ یاد رہے کہ یہ وہی رجحانات ہیں جنہوں نے 1930ء کی دہائی کے معاشی بحران کو ایک خوفناک انہدام میں بدل دیا تھا۔یہ پوری صورتحال میں ایک فیصلہ کن تبدیلی ہے۔ اس کا ناگزیر نتیجہ بین الاقوامی تعلقات میں تضادات میں اضافے، جنگوں اور تحفظاتی پالیسیوں میں شدت کی صورت میں نکل رہا ہے۔یہ سب امریکی سامراج کی طرف سے مچائے جانے والے ”سب سے پہلے امریکہ!“ جیسے شور وغل سے واضح ہے جس کا صاف صاف مطلب ہے کہ باقی ساری دنیا بھاڑ میں جائے۔ اس سب کا نتیجہ مزید تضادات اور تجارتی جنگوں کی صورت میں ہی نکل سکتا ہے۔ایک نہ ختم ہونے والی وحشتبحران اپنا اظہار معاشی، مالیاتی، سماجی، سیاسی، سفارتی، فوجی غرضیکہ ہر شعبے میں عدم استحکام کی صورت کر رہا ہے۔ سامراجی سود خوروں کی گرفت میں پھنسے غریب ممالک میں آبادی کی ایک بڑی اکثریت بھوک کے ہاتھوں ایک سست اور تکلیف دہ موت کا سامنا کر رہی ہے۔ اقوام متحدہ کے جون 2023ء کے ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں جنگوں، قحط اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے ہاتھوں بے گھر ہو جانے والے افراد کی تعداد 11 کروڑ تھی جو کہ کرونا وبا سے پہلے کے عرصے کے مقابلے میں بہت زیادہ تھی۔ اور یہ ابھی اسرائیل کے غزہ پر حملے سے پہلے کی باتیں ہیں۔لوگوں کی ایک بڑی تعداد ان ہولناکیوں سے بچنے کی خاطر پناہ کی تلاش میں امریکہ اور یورپ کی طرف بھاگ رہی ہے۔ جو ہجرت کی خاطر بحیرۂ روم یا پھر ریو گراندے کے اس پر خطر سفر پر روانہ ہوتے ہیں، انہیں راستے میں ناقابل بیان تشدد اور زیادتیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہر سال دسیوں ہزاروں لوگ اس کوشش میں مارے جاتے ہیں۔یہ سب ناقابل یقین پیمانے پر موت اور بربادی پھیلانے والے سامراج اور نام نہاد آزاد منڈی کی معیشت کی دست درازیوں کے نتیجے میں ہونے والے معاشی اور سماجی زوال کے ہولناک نتائج ہیں۔سوویت یونین کے انہدام کے بعد کچھ عرصے کے لئے امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور بن گیا تھا۔ بے تحاشہ طاقت نے بے تحاشہ غرور کو جنم دیا۔ امریکی سامراج نے اپنی معاشی اور فوجی طاقت کے بلبوتے پر پوری دنیا پر اپنی مرضی کو بزور طاقت مسلط کیا۔بلقان اور سابق سوویت یونین کے حلقہ اثر میں موجود دیگر خطوں پر اپنا تسلط جمانے کے بعد امریکہ نے بغیر کسی جواز کے عراق پر حملہ کیا جس میں دس لاکھ سے زائد لوگ مارے گئے۔ افغانستان پر حملہ بھی ایسی ہی خونریز کہانی ہے۔کوئی ٹھیک سے نہیں جانتا کہ اس بد قسمت سر زمین پر کتنے انسانوں کا قتل عام ہوا۔مگر امریکی طاقت کی حدودو قیود شام میں واضح ہو گئیں جہاں ایران اور روس کی مداخلت کے نتیجے میں امریکہ کو شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ یہ صورتحال میں ایک غیر معمولی تبدیلی کا اظہار تھا۔ اس وقت سے لے کر آج تک امریکی سامراج کو ایک کے بعد دوسرے محاذ پر عبرتناک شکستوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔یہ امر بذات خود سرمایہ دارانہ نظام کے عالمی بحران کا شاندار ثبوت ہے۔ 19ویں صدی میں برطانوی سامراج نے دنیا میں غالب طاقت ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بے تحاشہ دولت اکٹھی کی تھی۔مگر اب چیزیں اپنے الٹ میں تبدیل ہو چکی ہیں۔سرمایہ داری کا بحران اور مختلف ممالک کے مابین بڑھتے تضادات دنیا کو ایک انتہائی خطرناک جگہ بنا رہے ہیں۔ دنیا کا ٹاپ پولیس مین ہونا اب ایک انتہائی مشکل اور مہنگا کام بن چکا ہے کیونکہ ہر جگہ لڑائیاں اور مسائل ابھر رہے ہیں جبکہ پرانے اتحادی سامراجی آقا کی کمزوری کو بھانپتے ہوئے حکم عدولی پر اترے ہوئے ہیں۔امریکی سامراج آج بھی دنیا کی سب سے طاقتور اور رجعتی قوت ہے۔ اس کے فوجی اخراجات فہرست میں موجود اگلے دس ممالک کے مجموعی فوجی بجٹ کے برابر ہیں۔ مگر اس کے باوجود وہ اب دنیا کے کسی بھی خطے میں ایک فیصلہ کن انداز میں اپنی مرضی مسلط نہیں کر پا رہا۔غزہ میں ہونے والی ہولناکیوں نے امریکی سامراج کی سفاکی اور قابل نفرت منافقت کو پوری دنیا کے سامنے عیاں کر دیا ہے۔ وہ وحشیانہ اسرائیلی ریاست کے ہولناک جنگی جرائم میں برابر کا شریک ہے۔امریکی حکمران طبقے کی حمایت کے بغیر اسرائیل ایک دن کے لئے بھی غزہ کے معصوم عوام پر یہ خونریز جنگ مسلط نہیں کر سکتا تھا۔ مگر واشنگٹن ایک طرف غزہ میں معصوم لوگوں کے قتل عام پر مگر مچھ کے آنسو بہاتا رہا ہے جبکہ دوسری طرف نیتن یاہو نامی قصائی کو ہتھیاروں اور پیسوں کے انبار بھیجتا رہا ہے۔مگر سب سے حیران کن یہ ہے کہ امریکہ اسرائیلی ریاست کو اپنے سامراجی مفادات کے مطابق فیصلے لینے پر مجبور کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہا ہے۔ اس نے بہت ڈوریاں ہلائیں ہیں مگر کٹھ پتلی اپنی ہی مرضی کے مطابق ناچتا گیا ہے۔یہ امر صرف مشرق ِوسطیٰ میں ہی نہیں بلکہ ہر جگہ امریکی طاقت کے عمومی زوال کی غمازی کرتا ہے۔ایک قوم کی دوسروں پر حاکمیت مسلط کرنے کی صلاحیت مطلق نہیں بلکہ نسبتی ہوتی ہے۔ صورتحال کبھی بھی ساکت و جامد نہیں ہوتی بلکہ ہمیشہ بدلتی رہتی ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ کس طرح ماضی کی پسماندہ اور محکوم اقوام نے طاقت پکڑنے پر جارحیت کا راستہ اختیار کرتے ہوئے اپنے ہمسائیوں کو جھکانے اور انہیں لوٹنے کی کوشش کی۔آج ترکی مشرق ِوسطیٰ میں ایک بڑی طاقت بن چکا ہے۔وہ ایک علاقائی سامراجی قوت ہے۔ جبکہ سرمایہ دارانہ نظام اختیار کرنے کے بعد روس اور چین عالمی سطح کی سامراجی قوتیں بن چکے ہیں۔ اسی کارن ان کا امریکی سامراج کیساتھ براہ راست تصادم بن رہا ہے۔چین اور روس اگرچہ ابھی تک معاشی و فوجی طاقت میں امریکہ کے ہم پلہ نہیں بن سکے ہیں مگر وہ اتنے طاقتور مد مقابل ضرور بن چکے ہیں جو واشنگٹن کیساتھ منڈیوں، حلقہ اثر، خام مال اور منافع بخش سرمایہ کاری کے مواقعوں کے لئے محاذ آرائی میں مصروف ہیں۔ یوکرائن اور غزہ کی جنگوں نے امریکی سامراج کی طاقت کی حدود وقیود کو پوری دنیا کے سامنے عیاں کر دیا ہے۔اگر عہدِ حاضر کے تضادات ماضی کے کسی دور میں موجود ہوتے تو بڑی عالمی طاقتوں کے مابین ایک بڑی جنگ چھڑ چکی ہوتی۔ مگر تبدیل شدہ معروضی حقائق نے کم از کم فی الحال کے لئے ایسے کسی امکان کا خاتمہ کر دیا ہے۔سرمایہ دار طبقہ حب الوطنی، جمہوریت اور ایسے دیگر بلند وبالا اصولوں کی خاطر جنگ نہیں چھیڑتا۔ وہ منافعوں کی خاطر، بیرونی منڈیوں پر قبضے،خام مال کے حصول اور حلقہ اثر بڑھانے کی خاطر جنگیں کرتے ہیں۔کیا یہ بالکل واضح نہیں ہے کہ ایک ایٹمی جنگ کے نتیجے میں ایسا کچھ بھی حاصل نہیں ہو گا بلکہ ایسی جنگ تمام فریقین کو مکمل طور پر برباد کر دے گی۔ سامراجیوں نے ایسی ہی صورتحال کے لئے ”دو طرفہ یقینی تباہی“ جیسی اصطلاح بنا رکھی ہے۔عالمی سامراجی قوتوں کے مابین ایک کھلی جنگ کی روک تھام میں ایک اور عنصر بھی اہم ہے اور وہ ہے عوامی سطح پر جنگ کی شدید مخالفت، خاص طورپر امریکہ میں (لیکن دیگر ممالک میں بھی)۔ ایک حالیہ سروے کے مطابق صرف پانچ فیصد امریکی آبادی نے یوکرائن میں براہ راست فوجی مداخلت کی حمایت کی۔عراق، شام اور افغانستان میں امریکہ کو ہونے والی شرمناک شکستوں کے تناظر میں یہ امر ہر گز بھی حیرت انگیز نہیں۔یہ سب کچھ امریکہ میں عوامی شعور کا حصہ بن چکا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ خوف کہ روس کیساتھ براہ راست تصادم جلد ہی ایک ایٹمی جنگ میں بدل سکتا ہے ایک کھلی جنگ چھڑنے کے راستے میں بڑی رکاوٹ ہیں۔اگرچہ کہ موجودہ صورتحال میں ایک عالمی جنگ کے امکانات نہیں ہیں لیکن یوکرائن جیسی بیشمار ”چھوٹی“ اور پراکسی جنگیں لڑی جائیں گی۔ اس تمام جنگ وجدل کے عالمی صورتحال پر انتہائی اہم اثرات مرتب ہوں گے۔ اس سے عالمی انتشار میں مزید اضافہ ہو گا۔ غزہ کی حالیہ جنگ سے یہ سب بہت واضح ہو جاتا ہے۔یہ نظام نوع انسان کو صرف ذلت، غربت، بیماری، جنگوں اور بربادی پر مشتمل مستقبل دے سکتا ہے۔ لینن کے الفاظ میں سرمایہ داری ایک نہ ختم ہونے والی وحشت ہے۔بورژوا جمہوریت کا بحرانآنے والے عرصے میں معاشی صورتحال دوسری عالمی جنگ کے بعد کے عرصے کی بجائے 1930ء کی دہائی کیساتھ کہیں زیادہ مماثلت رکھے گی۔ لہٰذا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسی صورتحال میں کیا بورژوا جمہوریت خود کو بچا پائے گی؟درحقیقت بورژوا جمہوریت چند امیر ممالک کی اجارہ داری ہے جہاں محنت کش طبقے کو کچھ رعایات دے کر طبقاتی جنگ کو مانند رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ وہ مادی بنیادیں تھی جن پر امریکہ اور برطانیہ جیسے ممالک میں دہائیوں تک اس نام نہاد جمہوریت کو قائم رکھا گیا تھا۔ ریپبلیکن اور ڈیموکریٹ، ٹوریز اور لیبر پارٹی کسی بنیادی فرق کے بغیر باری باری اقتدار میں آتے رہتے تھے۔حقیقت تو یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ جمہوریت محض ایک مسکراتا ہوا مکوٹھا ہے۔۔۔ایک پردہ ہے جس کے پیچھے بینکوں اور بڑی کمپنیوں کی آمریت چھپی ہوئی ہے۔ جیسے جیسے بحران کے کارن حکمران طبقہ عوام کو تھوڑی بہت رعائیتیں دینے کی گنجائش بھی کھوتا جا رہا ہے، ویسے ویسے یہ خوش کن مکوٹھا اتر رہا ہے اور سرمائے کی آمریت کا جابر چہرہ واضح ہوتا جا رہا ہے۔کہا جاتا تھا کہ آزاد منڈی جمہوریت کی گارنٹی دیتی ہے۔ مگر سرمایہ داری اور جمہوریت تو ایک دوسرے کے متضاد ہیں۔ سرمائے کے پالیسی ساز اب کھلے عام بورژوا جمہوریت اور بذات خود سرمایہ دارانہ نظام کی بقا کے متعلق سوالات اٹھا رہے ہیں۔اکثر سنائی جانے والی پرانی کہانی کہ سرمایہ دارانہ نظام میں ہر ایک شہری کے پاس برابر کے مواقع ہوتے ہیں اب بے تحاشہ دولت اور بے تحاشہ غربت کی دو انتہاؤں، بیروزگاری، بے گھری اور امرا کی جانب سے غربا کے سامنے اپنی دولت کے شرمناک مظاہروں کے کارن دم توڑ چکی ہے۔ یہاں تک کہ امیر ممالک میں بھی۔گہرا ہوتا معاشی بحران صرف محنت کش طبقے کو ہی نہیں بلکہ درمیانے طبقے کی وسیع پرتوں کو بھی متاثر کر رہا ہے۔ معاشی جھٹکوں، گرتے معیار زندگی، بڑھتے افراطِ زر اور بڑھتی ہوئی شرح سود نے چھوٹے کاروباریوں کو بالکل برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ امرا اور ان کے چند ہمنواؤں کے علاوہ پورے سماج میں عمومی بے چینی، عدم تحفظ اور مستقبل کا خوف رچ بس چکا ہے۔نظام کا جواز سب کے لئے خوشحالی کے امکانات پر قائم تھا۔ لیکن سرمایہ محض چند ارب پتیوں، بڑے بینکوں اور کمپنیوں کے ہاتھوں میں مرتکز ہو چکا ہے۔جمہوریت کے نام پر ہم پر چند امرا کی حکومت قائم ہے۔ سب جانتے ہیں کہ دولت اقتدار خرید لیتی ہے۔ جمہوریت کا مطلب تو ایک شہری، ایک ووٹ ہے۔ مگر سرمایہ داری میں جمہوریت کا مطلب ایک ڈالر، ایک ووٹ ہے۔ چند ارب ڈالر کا خرچہ آپ کو وائیٹ ہاؤس کا باسی بنا دیتا ہے۔یہ حقیقت زیادہ سے زیادہ لوگوں کے سامنے عیاں ہوتی جا رہی ہے۔ عوام رائج الوقت سیاست سے شدید بیگانگی کا شکار ہیں اور حکمران اشرافیہ اور اس کے تمام اداروں سے نفرت کرتے ہیں۔بذات خود پارلیمانی طرز حکومت کی بنیادیں ہل چکی ہیں۔ منتخب ادارے محض گپ شپ کی جگہیں بن کر رہ گئے ہیں جبکہ حقیقی طاقت پارلیمان کے ہاتھ سے نکل کر چھوٹی سی کابینہ اور پھر کابینہ سے ہوتی ہوئی غیر منتخب شدہ حکام اور ”مشیروں“ کے ہاتھوں میں مرتکز ہو چکی ہے۔یہ ننگا جھوٹ کہ پولیس اور عدلیہ ”آزاد“ ہوتے ہیں اب سب کے سامنے عیاں ہو چکا ہے۔ جیسے جیسے طبقاتی جنگ میں شدت آئے گی یہ ادارے مزید عریاں ہوں گے اور ان کی رہی سہی عزت اور ساکھ کا بھی خاتمہ ہو جائے گا۔حتمی طور پر سرمایہ دار طبقہ یہ نتیجہ اخذ کرے گا کہ انتشار،احتجاج،مظاہرے،ہڑتالیں حد سے زیادہ بڑھ چکے ہیں اور وہ سختی کیساتھ ”لا اینڈ آرڈر“ کا مطالبہ کریں گے۔ ہم پہلے ہی احتجاج کے حق، ہڑتال کے حق، آزادی تحریر و تقریر اور دیگر جمہوری حقوق پر قدغنیں لگتی دیکھ رہے ہیں۔یہ ممکن ہے کہ کسی مرحلے پر سرمایہ دار طبقہ کسی نہ کسی شکل میں سماج پر ننگی آمریت مسلط کرنے کی کوشش کرے۔ مگر یہ امکان حقیقت کا روپ تبھی دھار سکتا ہے اگر پہلے محنت کش طبقے کو پے در پے شدید شکستوں کا سامنا کرنا پڑے،جیسا کہ پہلی عالمی جنگ کے بعد جرمنی میں ہوا تھا۔مگر اس سے پہلے محنت کش طبقے کے پاس بے شمار مواقع آئیں گے کہ وہ سرمایہ دار طبقے کیخلاف اپنی طاقت کو آزمائے اور اقتدار پر قبضہ کرنے کے لئے آگے بڑھے۔کیا فاشزم آ سکتا ہے؟پوری دنیا میں سطحیت پسند نام نہاد بایاں بازو ٹرمپ کے ابھار کو فاشزم کے طور پر دیکھتا ہے۔اس طرح کی گڈ مڈ سوچ کبھی بھی اہم مظاہر کی حقیقی اہمیت سمجھنے میں ہماری مدد گار نہیں ہو سکتی۔یہ احمقانہ نقطہ نظر انہیں فوری طور پر طبقاتی سمجھوتے بازی پر مبنی سیاست کی طرف لے جاتا ہے۔”کمتر برائی“ کے گمراہ کن نظریے کے تحت وہ محنت کش طبقے اور اس کی تنظیموں کو بورژوازی کے ایک رجعتی دھڑے کیخلاف دوسرے رجعتی دھڑے کیساتھ اتحاد کرنے کے لئے اکساتے ہیں۔اسی غلط پالیسی کے تحت انہوں نے لوگوں کو جو بائیڈن اور ڈیموکریٹس کو ووٹ دینے کے لئے قائل کیا تھا اور یہ ووٹ دینے پر بہت سے لوگ آج شدید پچھتاوے کا شکار ہیں۔اس نام نہاد بائیں بازو کے مسلسل”فاشزم“ کا راگ الاپنے کا ایک نقصان یہ ہو گا کہ اگر کہیں مستقبل میں محنت کش طبقے کو واقعی ایک فاشسٹ خطرے کا سامنا کرنا پڑا تو وہ اس کے لئے بالکل بھی تیار نہیں ہو گا۔مگر فی الوقت کے لئے کہنا عین مناسب ہو گا کہ یہ لوگ معروضی حقائق سے بالکل نابلد ہیں۔دنیا میں دائیں بازو کی لفاظی کرنے والے بیشمار سیاستدان ہیں اور ان میں سے کئی ایک اقتدار میں بھی آ جاتے ہیں۔مگر اس کا مطلب ایک فاشسٹ حکومت کا قیام نہیں ہے جس کی بنیاد میں محنت کش طبقے کی تنظیموں کو بزور طاقت کچل ڈالنے کے لئے غصے اور ہیجان سے بھری پیٹی بورژوازی کی ایک بڑی تحریک ہوتی ہے۔1930ء کی دہائی میں تضادات بہت تیزی سے آگے بڑھ رہے تھے اور ان کا نتیجہ یا تو پرولتاریہ کی فتح یا پھر فاشزم یا بونا پارٹزم کی فتح کی صورت میں نکل سکتا تھا۔مگر حکمران طبقے نے بھی ماضی میں فاشزم کی حمایت کر کے اپنی انگلیاں بری طرح جلائی ہوئیں ہیں۔وہ دوبارہ اس راستے پر چلنے کے لئے آسانی سے آمادہ نہیں ہوں گے۔اس سے زیادہ اہم وجہ یہ ہے کہ آج طبقاتی قوتوں کا توازن 1930ء کی دہائی سے بہت مختلف ہے۔ رجعت کی سماجی بنیاد نہایت محدود ہو چکی ہے اور سماج میں محنت کش طبقے کے نسبتی وزن میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔یہ سب فاشزم کے کسی فوری ابھار کے راستے میں ایک فیصلہ کن رکاوٹ ہے۔ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک میں کسانوں کی تعداد نہایت ہی کم رہ گئی ہے جبکہ ماضی میں خود کو مڈل کلاس کہنے والی سماج کی وسیع پرتیں (جیسے کہ ڈاکٹر،نرسز،پروفیسر،ہنر مند لوگ،انجئنیرز وغیرہ) آج محنت کش طبقے کے زیادہ قریب ہیں اور یونینز کی شکل میں منظم ہو رہے ہیں۔طلبہ،جو کہ 1920ء اور1930ء کی دہائیوں میں فاشزم کا ہر اول دستہ تھے،آج واضح طور پر بائیں طرف جھکاؤ رکھتے ہیں اور انقلابی نظریات کے متلاشی ہیں۔زیادہ تر ممالک میں پچھلی کئی دہائیوں میں محنت کش طبقے کو کوئی سنجیدہ شکست نہیں ہوئی اور اس کی طاقت محفوظ ہے۔بورژوازی کو بلاشبہ اپنی تاریخ کے سب سے خوفناک بحران کا سامنا ہے مگر ماضی کی نسبت آج محنت کش طبقے کے انتہائی بڑے حجم کے کارن وہ فوراً سے کھلی رجعت مسلط کرنے کے قابل نہیں ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ جب حکمران طبقہ محنت کشوں سے ماضی کی حاصلات واپس چھیننے کی کوشش کرے گا تو اسے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔مگر بحران کی شدت تو محنت کش طبقے پر شدید حملوں کا تقاضا کر رہی ہے اور حکمران طبقے کو ایسا ہی کرنا پڑے گا۔مگر اس کے نتیجے میں ایک کے بعد دوسرے ملک میں سماجی دھماکے ہوں گے۔ماحولیاتی تباہیمعاشی بحران اور مستقل جنگ وجدل کے ساتھ ساتھ نوع انسان کے مستقبل کو سرمایہ داری کے ہاتھوں کرۂ ارض کے مسلسل بلاد کار کے کارن بھی شدید خطرہ لاحق ہے۔منافعوں کی اندھی ہوس میں سرمایہ داری نے اس ہوا کو جس میں ہم سانس لیتے ہیں،اس خوراک کو جسے ہم کھاتے ہیں اور اس پانی کو جسے ہم پیتے ہیں زہر آلود کر کے رکھ دیا ہے۔وہ ایمازون کے جنگلوں سے لیکر قطبین کے گلیشئیرز تک سب کو برباد کر رہی ہے۔دنیا کے سمندر زہریلے صنعتی فضلے اور پلاسٹک کے کوڑا کرکٹ سے بھرے پڑے ہیں۔جانوروں کی بیشمار انواع انتہائی تیزی کیساتھ معدوم ہو رہی ہیں۔بیشمار اقوام کا مستقبل داؤ پر لگ چکا ہے۔محنت کش طبقے اور سماج کی غریب ترین پرتیں اس آلودگی اور ماحولیاتی تباہی سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہی ہیں۔مگر ظلم تو یہ ہے کہ حکمران طبقہ سرمایہ داری کے پیدا کردہ اس ماحولیاتی بحران کی قیمت بھی محنت کش طبقے سے ہی وصول کرنا چاہتا ہے۔مارکس نے وضاحت کی تھی کہ نوع انسان کے سامنے دو راستے ہیں،سوشلزم یا بربریت۔ بربریت کے عناصر پہلے ہی سماج میں موجود ہیں،حتیٰ کہ سب سے ترقی یافتہ ممالک میں بھی،اور یہ تہذیب کے لئے ایک خطرہ ہیں۔مگر اب ہم میں یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام نوع انسان کی بقا کے لئے ایک خطرہ بن چکا ہے۔یہ تمام عوامل لوگوں،خاص کر نوجوانوں، کے ضمیر کو جھنجوڑ رہے ہیں۔مگر محض اخلاقی بنیادوں پر نکتہ چینی اور غصیلے احتجاجوں سے کچھ نہیں ہونے والا۔اگر ماحولیاتی تحریک اپنے آپ کو کھوکھلی نعرے بازی تک ہی محدود رکھے گی تو بہت جلد اس کا خصی پن کھل کر لوگوں کے سامنے آ جائے گا۔ماحول پرست اصل بیماری کی علامات کی تو درست نشاندہی کرتے ہیں مگر ان کی تشخیص درست نہیں ہے اور اس کے بنا علاج کرنا ناممکن ہے۔ماحولیاتی تحریک صرف اسی صورت میں اپنے مقاصد میں کامیاب ہو سکتی ہے اگر وہ ایک واضح سرمایہ داری مخالف انقلابی مؤقف اختیار کرے۔ہمیں لازمی طور پر بہترین عناصر تک پہنچنے اور انہیں قائل کرنے کی بھرپور کوشش کرنی ہو گی کہ اصل مسئلہ بذات خود سرمایہ دارانہ نظام ہے۔ماحولیاتی تباہی منڈی کی معیشت کے پاگل پن اور منافعوں کی ہوس کا ناگزیر نتیجہ ہے۔نام نہاد آزاد منڈی کی معیشت کے پاس نوع انسان کو درپیش کسی بھی مسئلے کا کوئی حل موجود نہیں۔بے تحاشہ ضیاع کا باعث بننے والی یہ معیشت انتہائی تباہ کن اور غیر انسانی ہے۔اس کی بنیاد پر کوئی بہتری نہیں کی جا سکتی۔مسائل کا واحد حل ایک منصوبہ بند معیشت ہے۔لازمی ہے کہ بینکاروں اور سرمایہ داروں کی نجی ملکیت کا خاتمہ کیا جائے۔اور منڈی کی معیشت کے انتشار کی جگہ ایک تعقلی اور ہم آہنگ منصوبہ بندی پر مبنی معیشت کو رائج کیا جائے۔سرمایہ دار انہ نظام معدومیت کے دہانے پر کھڑے اس درندے کی طرح ہے جو اپنے وجود کا تمام تر ارتقائی جواز کھو چکا ہو۔مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اسے اپنی تاریخی متروکیت کا ادراک ہے،بلکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔یہ بیمار اور زوال پذیر نظام اس بوڑھے بیمار آدمی کی طرح ہے جو ہر قیمت پر زندگی کیساتھ چمٹا رہنا چاہتا ہے۔یہ اس وقت تک گھسٹتا چلا جائے گا جب تک کہ اسے محنت کش طبقے کی ایک انقلابی تحریک کے ذریعے اکھاڑ پھینکا نہیں جاتا۔یہ محنت کش طبقے کا فریضہ ہے کہ وہ ایک انقلاب کے ذریعے اس بیمار سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کرے اور اوپر سے لیکر نیچے تک سماج کی از سر نو تعمیر کرے۔سرمایہ دارانہ نظام کا وجود اب کرۂ ارض کے لئے ایک واضح اور تباہ کن خطرہ بن چکا ہے۔نوع انسان کی بقا کے لئے اس کا خاتمہ کرنا ضروری ہو چکا ہے۔موضوعی عنصرسرمایہ داری کے عمومی بحران سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ حتمی طور پر اس کا انہدام ناگزیر ہے اور اس کا بچنا ناممکن ہے۔اسی طرح یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ سوشلزم کی فتح ایک تاریخی ناگزیریت ہے۔یہ عمومی طور پر بالکل درست ہے۔لیکن اس عمومی مؤقف سے حقیقی واقعات کی ٹھوس وضاحت نہیں کی جا سکتی۔اگر ایسا ہونا ناگزیر ہے تو پھر انقلابی پارٹی،ٹریڈ یونینز،ہڑتالوں،مظاہروں،تھیوری پڑھنے وغیرہ کی بھلا کیا ضرورت ہے۔مگر تمام تاریخ ہمیں اس کے برعکس بتاتی ہے۔ اور تاریخ کے فیصلہ کن لمحات میں موضوعی عنصر،قیادت کا کردار انتہائی بنیادی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔مارکس نے وضاحت کی تھی کہ تنظیم کے بغیر محنت کش طبقہ محض استحصال کے لئے خام مال ہے۔منظم ہوئے بغیر ہم کچھ بھی نہیں ہیں،منظم ہو کر ہم سب کچھ ہیں۔مگر یہاں ہم مسئلے کی جڑ تک پہنچ گئے ہیں۔اصل مسئلہ قیادت کے مکمل فقدان کا ہے۔۔۔یعنی محنت کشوں کی قیادت کی مکمل زوال پذیری کا۔ایک تاریخی عمل میں تشکیل پانے والی محنت کش طبقے کی بڑی تنظیموں کو سرمایہ داری کے نسبتی استحکام اور خوشحالی کی دہائیوں میں حکمران طبقے اور پیٹی بورژوازی کے دباؤ کا سامنا کرنا پڑا ہے۔اس کے نتیجے میں ان تنظیموں پر یونین افسر شاہی کی گرفت مضبوط ہوئی ہے۔سرمایہ داری کا بحران ناگزیر طور پر اصلاح پسندی کا بحران بھی ہے۔دائیں بازو کی جانب جھک جانے والی مزدور قیادتیں ان نظریات کو چھوڑ چکی ہیں جن پر ان تنظیموں اور تحریکوں کی تعمیر ہوئی تھی۔ وہ اس طبقے سے مکمل طور پر کٹ چکے ہیں جس کی نمائندگی کا وہ دعویٰ کرتے ہیں۔ماضی میں کبھی بھی محنت کش طبقے کی قیادت بورژوازی کی اس درجے تک ہمنوا نہیں رہی ہے جتنی کہ وہ آج ہے۔امریکہ میں سوشلسٹ تحریک کے ایک بانی ڈینئیل ڈی لیون کے الفاظ میں،جنہیں لینن بھی اکثر دہراتا تھا،یہ مزدور تحریک میں محض”سرمائے کے پٹھو“ ہیں۔ وہ حال یا مستقبل کی نہیں بلکہ ماضی کی نمائندگی کرتے ہیں۔آنے والے طوفانی عرصے میں ان کا صفایا ہو جائے گا۔مگر مسئلہ دائیں بازو کے اصلاح پسندوں سے شروع ہو کر وہیں ختم نہیں ہو جاتا۔”بائیں بازو“ کا دیوالیہ پنہر جگہ دائیں بازو اور مقتدر قوتوں کے سامنے جھک جانے والے نام نہاد بائیں بازو نے ایک نہایت زہریلا کردار ادا کیا ہے۔ہم نے یہ سب یونان میں سائیریزا میں ہوتے ہوئے دیکھا۔یہی سب کچھ سپین میں پوڈیموس،برطانیہ میں کوربن اور امریکہ میں برنی سینڈرز نے کیا۔ایسی ہر صورتحال میں پہلے بائیں بازو کے ان لیڈروں نے عوام میں امید جگائی اور بعد ازاں انہوں نے دائیں بازو کے سامنے سر جھکا کر ان امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ان لیڈروں پر بزدلی اور کمزوری کا الزام عائد کرنا بہت آسان ہے۔مگر یہاں معاملہ انفرادی اخلاقیات اور ذاتی جرات کا نہیں بلکہ پرلے درجے کی سیاسی کمزوری کا ہے۔بائیں بازو کے اصلاح پسندوں کا سب سے بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کئے بغیر عوامی مانگوں کو پورا کیا جا سکتا ہے۔اس حوالے سے وہ دائیں بازو کے اصلاح پسندوں سے بالکل مختلف نہیں ہیں سوائے اس کے کہ دائیں بازو کے اصلاح پسند اپنی سرمائے کی پرستش کو چھپاتے نہیں ہیں۔اب تو ”بایاں بازو“ سوشلزم کی لفاظی کرنا بھی چھوڑ چکا ہے۔وہ 1930 ء کی دہائی کے اصلاح پسند لیڈروں کی پرچھائی بھی نہیں ہیں۔ان کے برعکس یہ بس کچھ بہتر معیار زندگی اور چند جمہوری حقوق جیسی کمزور سی مانگوں تک ہی محدود رہتے ہیں۔یہ تو اب سرمایہ داری کا نام تک نہیں لیتے بلکہ بس ”نیو لبرلزم“ کی تکرار کرتے رہتے ہیں۔۔۔جس سے مراد ”اچھی“ کے برعکس”بری“ سرمایہ داری ہے اگرچہ کہ وہ کبھی یہ نہیں بتاتے کہ ان کی یہ خیالی”اچھی“ سرمایہ داری کیسی ہو گی۔چونکہ بائیں بازو کے اصلاح پسند نظام کا خاتمہ نہیں چاہتے لہٰذا وہ ناگزیر طور پر حکمران طبقے کیساتھ سمجھوتہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔وہ یہ ثابت کرنے کی کوشش میں جتے رہتے ہیں کہ وہ نظام کے لئے خطرہ نہیں ہیں اور انہیں سرمائے کے مفادات کی نگہبانی کے لئے حکومت سونپی جا سکتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ اتحاد قائم رکھنے کا جواز بنا کر دائیں بازو،جو کہ مزدور تحریک میں حکمران طبقے کا ننگا دلال ہے،کیساتھ قطع تعلق کرنے کو ہرگز تیار نہیں ہیں۔اس سب کا حتمی نتیجہ ہمیشہ ان کے دائیں بازو کے سامنے سجدہ ریز ہو جانے کی صورت میں ہی نکلتا ہے۔لیکن جب دایاں بازو اقتدار میں آتا ہے تو وہ کسی جھجھک کا مظاہرہ کئے بغیر بائیں بازو پر وحشیانہ حملے کرتا ہے۔لہٰذا یہاں بزدلی کسی لیڈر کے ذاتی کردار کی کمزوری کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ بائیں بازو کی اصلاح پسندی کے خمیر میں شامل ہے۔جبر کیخلاف جدوجہدسرمایہ داری کا بحران اپنا اظہار موجودہ سماج،اس کی اقدار،اس کی اخلاقیات،اس کی ناقابل برداشت ناانصافیوں اور جبر کیخلاف موجود گہری نفرت اور مخالفت کی صورت میں کر رہا ہے۔سماج کا بنیادی تضاد بلاشبہ سرمائے اور اجرتی محنت کا تضاد ہے۔لیکن جبر کی مختلف شکلیں ہوتی ہیں اور ان میں سے چند ایک اجرتی غلامی سے کہیں زیادہ قدیم ہیں۔جبر کی سب سے آفاقی اور تکلیف دہ اشکال میں سے ایک پدر شاہانہ سماج میں خواتین پر ہونے والا جبر ہے۔بحران خواتین کی معاشی محکومی کو بڑھا رہا ہے۔ریاست کے سماجی اخراجات میں کٹوتیاں بچوں اور بوڑھوں کی نگہداشت کی بڑھتی ہوئی ذمہ داریوں کی صورت سب سے زیادہ خواتین کو متاثر کر رہی ہیں۔پوری دنیا میں خواتین کیخلاف تشدد ایک وبا کی صورت اختیار کر چکا ہے۔اسقاط حمل جیسے حقوق حملوں کی زد میں ہیں۔اس سب کا بڑا سخت رد عمل بھی آ رہا ہے اور خاص کر نوجوان خواتین جدوجہد کرنے کے لئے بہت زیادہ آمادہ ہیں۔اس خوفناک جبر کیخلاف خواتین کی بغاوت سرمایہ داری کیخلاف جدوجہد میں نہایت اہم ہے۔خواتین کی بھر پور شمولیت کے بنا ایک کامیاب سوشلسٹ انقلاب کا تصور بھی محال ہے۔جبر اور امتیاز کی تمام اشکال کیخلاف جدوجہد سرمایہ داری کیخلاف لڑائی کا ایک لازمی حصہ ہے۔ہمارا مؤقف بہت سادہ سا ہے:ہم ہر لڑائی میں ظالم کیخلاف مظلوم کی حمایت کرتے ہیں۔مگر یہ عمومی جملہ ہماری پوزیشن کی مکمل وضاحت نہیں کرتا۔اس میں یہ اضافہ کرنا ضروری ہے کہ ایسے معاملات میں ہمارا مؤقف لازمی طور پرمنفی ہوتا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم جبر کی ہر شکل اور قسم کی مخالفت کرتے ہیں چاہے اس کا نشانہ خواتین بن رہی ہوں یا ں پھر سیاہ فام،ہم جنس پرست،ٹرانس جینڈرز یا کوئی بھی دوسرا گروہ۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم شناخت کی سیاست کو سختی کیساتھ رد کرتے ہیں جو کہ کسی بھی گروہ کے حقوق کے دفاع کے نام پر ایک رجعتی اور منقسم کرنے والا کردار ادا کرتی ہے جو حتمی طور پر محنت کش طبقے کو کمزور کرکے حکمران طبقے کو زبردست فائدہ پہنچاتا ہے۔مزدور تحریک ہر قسم کے بیگانے نظریات سے متاثر ہو رہی ہے:پوسٹ ماڈرنزم،شناخت کی سیاست،”سیاسی درستگی“ اور دیگر اس قسم کی بیکار بکواسیات جنہیں ”بائیں بازو“ کے پیٹی بورژوا عناصر کے ذریعے یونیورسٹیوں سے مزدور تحریک میں اسمگل کیا جاتا ہے۔یہ عناصر بیگانے اور رجعتی نظریات کی ترسیل کے لئے ایک ٹرانسمیشن بیلٹ کا کام کرتے ہیں۔شناخت کی سیاست،جو درحقیقت پوسٹ ماڈرنزم کی ہی ایک بائی پراڈکٹ ہے،طلبہ کو ذہنی پراگندگی کا شکار کر رہی ہے۔ان بیگانے نظریات کو مزدور تحریک میں بھی متعارف کروایا گیا ہے جہاں یہ یونین افسر شاہی کے ہاتھوں میں محنت کشوں کے سب سے لڑاکا عناصر کیخلاف بطور ہتھیار استعمال ہو رہے ہیں۔لینن نے کمیونسٹوں کے ہر محاذ پر لڑنے کی ضرورت اور اہمیت پر زور دیا تھا۔صرف معاشی اور سیاسی محاذوں پر ہی نہیں بلکہ نظریاتی محاذ پر بھی۔ہم مارکسی نظریات اور جدلیاتی مادیت کے فلسفے کی انتہائی مضبوط بنیادوں پر کھڑے ہیں۔ہم فلسفیانہ خیال پرستی کی مخالفت کرتے ہیں چاہے وہ مذہب کی شکل میں ہو یا پوسٹ ماڈرنزم کے شوگر کوٹڈ زہریلے نظریات کی صورت میں۔لہٰذا ان بیگانے مزدور دشمن نظریات اور ان کے پیٹی بورژوا پرچارکوں کیخلاف جدوجہد نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ تقسیم ڈالنے والے ان رد انقلابی نظریات،جو ”لڑاؤ اور حکومت کرو“ کے قدیم اصول کے تحت سیدھا مالکان کے فائدے میں جاتے ہیں، کو کوئی بھی گنجائش ہرگز نہیں دی جا سکتی۔حقیقت تو یہ ہے کہ کمیونزم کا رخ کرنے والی نوجوانوں کی پرت میں ان نظریات کیخلاف ایک صحت مند رد عمل جنم لے چکا ہے۔کمیونسٹ طبقاتی سیاست کی مضبوط بنیادوں پر کھڑے ہیں اور رنگ،نسل،مذہب،فرقہ،قوم غرضیکہ ہر قسم کی تقسیم کیخلاف محنت کش طبقے کے طبقاتی اتحاد کا ناقابل مصالحت دفاع کرتے ہیں۔ہمیں پروا نہیں کہ آپ سیاہ فام ہیں یا سفید فام،مرد ہیں یا عورت۔نا ہی ہمیں آپ کے لائف اسٹائل یا کون آپ کا پارٹنر ہے اور کون نہیں، میں ذرا برابر بھی دلچسپی ہے۔یہ خالصتاً ذاتی معاملات ہیں اور کسی کو بھی ان سے کوئی سروکار نہیں ہونا چاہئے۔۔۔افسرشاہی،پادریوں اور سیاستدانوں کو بھی نہیں۔ہمارے ساتھ شامل ہونے کا واحد تقاضا یہ ہے کہ آپ اس مقصد کے لئے لڑائی لڑنے کو تیار ہوں،جس کا حصول ہی حقیقی آزادی،مرد و عورت کے بیچ حقیقی برابری پر مبنی انسانی رشتوں وغیرہ کو ممکن بنا سکتا ہے۔۔۔یعنی کہ آپ محنت کش طبقے کی نجات کے مقدس مشن کی خاطر جدوجہد کرنے کو تیار ہوں۔مگر کمیونسٹوں میں شامل ہونے کے لئے لازمی ہے کہ آپ شناخت کی سیاست جیسی رجعتی بکواسیات سے مکمل طور پر چھٹکارا حاصل کریں۔ٹریڈ یونینزموجودہ عہد تمام تاریخ کا سب سے طوفانی اور دھماکہ خیز دور ہے۔طبقاتی جنگ کی بڑے پیمانے پر بحالی کے لئے معروض تیار ہو چکا ہے لیکن ایسا آسانی کیساتھ نہیں ہو گا۔محنت کش طبقہ ایک طویل نیند یا غنودگی کی کیفیت سے بیدار ہو رہا ہے۔اسے بہت سے اسباق دوبارہ سیکھنے پڑیں گے،یہاں تک کہ ٹریڈ یونینز میں منظم ہونے کی ضرورت جیسا بنیادی سبق بھی۔مگر ٹریڈ یونینز سے لیکر تمام بڑی عوامی تنظیموں کی قیادتیں نہایت زوال کا شکار ہیں۔وہ محنت کش طبقے کی امنگوں اور مانگوں کے مطابق جدوجہد کو آگے بڑھانے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔وہ تو ٹریڈ یونینز تک کو مزید پھیلانے اور مضبوط بنانے سے قاصر ہیں۔اس کے نتیجے میں روزگار کی غیر یقینی صورتحال سے دوچار نوجوان محنت کشوں کی ایک پوری پرت،جیسے کہ ڈلیوری ڈرائیورز،کال سنٹر ورکرز وغیرہ، محض استحصال کے لئے خام مال بنی ہوئی ہے۔ایمازون کے گوداموں جیسی کام کی جدید جگہوں پر یہ نوجوان محنت کش انتہائی تھوڑی اجرت پر طویل گھنٹے کام کرتے ہیں اور ان کا بدترین استحصال ہوتا ہے۔وہ دن کب کے گزر چکے ہیں جب محنت کش محض ہڑتال کی دھمکی دے کر ہی اپنی اجرت میں قابل ذکر اضافہ کروا لیا کرتے تھے۔مالکان کا کہنا ہے کہ اجرتوں میں اضافہ تو دور کی بات،وہ تو موجودہ اجرتوں سے بھی ناخوش ہیں اور انہیں کم کرنا چاہتے ہیں۔وہ لوگ جو آج بھی طبقاتی امن کے خواب دیکھتے ہیں ماضی میں زندہ ہیں،سرمایہ داری کے ایک ایسے دور میں جو کب کا گزر چکا ہے۔یہ مارکس وادی نہیں بلکہ یونین لیڈر ہیں جو یوٹوپیائی ہیں۔بڑی لڑائیوں کے لئے میدان سج رہا ہے لیکن زوال پذیر قیادت کے کارن محنت کشوں کو شکستیں بھی ہوں گی۔اس سے بچنے کے لئے محنت کشوں کو بھرپور لڑاکا موڈ میں آنا ہو گا اور طبقاتی جنگ کا بڑے پیمانے پر احیا کرنا ہو گا۔ریڈیکلائزیشن کا عمل اور زیادہ تیزی کیساتھ آگے بڑھے گا۔اس کے نتیجے میں ٹریڈ یونینز میں کام کرنے کے لئے کمیونسٹوں کے پاس وسیع مواقع میسر آئیں گے۔آگے بڑھنے کے لئے اصلاح پسندی کیخلاف ناقابل مصالحت جدوجہد کرتے ہوئے محنت کش طبقے کی تنظیموں کی تعمیر نو کرنے کی ضرورت ہے،اور سب سے پہلے ٹریڈ یونینز کی۔انہیں محنت کش طبقے کی لڑاکا تنظیموں میں بدلنا ہو گا۔مگر ایسا کرنے کے لئے اصلاح پسند یونین افسر شاہی کیخلاف ایک ناقابل مصالحت جدوجہد کرنا پڑے گی۔یونینز کی اوپر سے لیکر نیچے تک تطہیر کرنی پڑے گی اور ان سے طبقاتی سمجھوتے بازی پر مبنی پالیسیوں کا مکمل خاتمہ کرنا پڑے گا۔محض لڑاکا پن کافی نہیں ہےاصلاح پسندی کیخلاف جدوجہد کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ہم اصلاحات کیخلاف ہیں۔ہم یونین قیادتوں پر اس لئے تنقید نہیں کرتے کہ وہ اصلاحات کے لئے لڑتے ہیں،بلکہ اس لئے کہ وہ سرے سے لڑتے ہی نہیں ہیں۔وہ مالکان سے سمجھوتے کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ وہ لڑاکا اقدامات اٹھانے سے گریز کرنے کی حتی المقدور کوشش کرتے ہیں۔اور اگر انہیں محنت کشوں کے دباؤ کے تحت ایسا کرنا بھی پڑے تو وہ تحریک کو محدود رکھنے اور گلے سڑے سمجھوتوں کے ذریعے اسے جلد از جلد ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔کمیونسٹ، محنت کشوں کے معیار زندگی میں معمولی سے معمولی بہتری لانے والی اصلاحات کے لئے بھی لڑیں گے۔مگر موجودہ حالات میں معنی خیز اصلاحات تبھی جیتی جا سکتی ہیں اگر ان کے لئے ہونے والی جدوجہد کو انقلابی بنیادوں پر پھیلایا جائے۔رسمی بورژوا جمہوریت کی حدود و قیود عمل میں سب کے سامنے واضح ہو رہی ہیں۔ہم تما م اہم جمہوری حقوق کی خاطر لڑیں گے تا کہ طبقاتی جدوجہد کی بڑھوتری کی راہ ہموار کی جا سکے۔بحیثیت مجموعی محنت کش طبقہ اپنے تجربات سے ہی سیکھتا ہے۔سرمایہ داری میں محنت کشوں کی اپنے حالات زندگی میں بہتری کی خاطر لڑی جانے والی روز مرہ کی لڑائیوں کے بغیر سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔لیکن حتمی تجزئیے میں ٹریڈ یونین سطح کا لڑاکا پن کافی نہیں۔سرمایہ دارانہ بحران کی موجودہ صورتحال میں اگر محنت کش کوئی اصلاحات جیتتے بھی ہیں تو وہ زیادہ دیر پا نہیں ہوں گی۔مالکان دائیں ہاتھ سے جو دیں گے،وہ بائیں ہاتھ سے واپس لے لیں گے۔اجرتوں میں اضافہ افراطِ زر یا ٹیکسوں میں اضافے کے کارن بے اثر ہو جاتا ہے۔صنعتیں بند ہو رہی ہیں اور بیروزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔جیتی گئی اصلاحات کو مستقل بنانے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ سماج کی انقلابی تبدیلی کی خاطر لڑا جائے۔ایک مخصوص موڑ پر دفاعی لڑائیاں جارحانہ جدوجہد میں بدل جائیں گی۔اقتدار کے لئے حتمی لڑائی کی راہ جزوی مانگوں کے لئے لڑی جانے والی ان چھوٹی چھوٹی لڑائیوں کے ذریعے ہی ہموار ہوتی ہے۔پارٹی کی ضرورتمحنت کش طبقہ سماج کا واحد حقیقی انقلابی طبقہ ہے۔یہ و ہ واحد طبقہ ہے جس کے پاس چند امیر طفیلیوں کی ہوس زر کو پورا کرنے کے لئے ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت اور انسانی قوت محنت کے استحصال پر مبنی سرمایہ دارانہ نظام کے جاری رہنے کی حمایت کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔کمیونسٹوں کا فریضہ ہے کہ وہ محنت کش طبقے کی سماج کو بدل ڈالنے کی غیر شعوری یا نیم شعوری کوششوں کو ایک بھرپور شعوری اظہار دیں۔صرف محنت کش طبقے کے پاس ہی سرمائے کی آمریت کو اکھاڑ پھینکنے کے لئے درکار طاقت موجود ہے۔ہمیں یہ کبھی نہیں بھولنا چاہئے کہ محنت کش طبقے کی اجازت کے بنا نہ تو کوئی بلب روشن ہو سکتا ہے،نہ کوئی پہیہ گھوم سکتا ہے اور نہ ہی کوئی ٹیلی فون بج سکتا ہے۔یہ ایک بہت بڑی طاقت ہے مگر ابھی یہ طاقت صرف ایک پوٹینشیل کی صورت میں موجود ہے۔اس پو ٹینشیل کو حقیقت میں بدلنے کے لئے کچھ اور بھی درکار ہے۔اور وہ ہے ایک تنظیم۔ہم یہاں فطرت سے ایک مثال لے سکتے ہیں۔بھاپ بھی ایک ایسی ہی قوت ہے۔ اس نے صنعتی انقلاب میں ایک کلیدی کردار ادا کیا تھا۔یہ وہ طاقت ہے جو انجنوں کو چلاتی ہے،بجلی پیدا کرتی ہے اور بڑے بڑے شہروں کو زندگی اور حرکت دیتی ہے۔مگر بھاپ یہ طاقت صرف تبھی بنتی ہے جب وہ پسٹن باکس نامی میکینزم میں موجود ہوتی ہے۔اس میکینزم کے بغیر یہ بنا کچھ کئے فضا میں بکھر کر ضائع ہو جائے گی۔اس میکینزم کے بغیر یہ صرف ایک پوٹینشیل ہے،اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ہر شعور یافتہ محنت کش ٹریڈ یونینز کی بنیادی اہمیت کو سمجھتا ہے۔مگر پرولتاری تنظیم کاری کا اعلیٰ ترین اظہار ایک انقلابی پارٹی ہوتی ہے جو سرمایہ داری کو اکھاڑ پھینکنے کی جدوجہد کے لئے محنت کش طبقے کے سب سے لڑاکا اور شعور یافتہ عناصر کو ایک نظم و ضبط میں لے آتی ہے۔ایسی پارٹی کی تخلیق آج ہمارا اہم ترین اور فوری فریضہ ہے۔شعوربڑھتا ہوا معاشی اور سماجی خلفشار نظام کو بنیادوں سے ہلا رہا ہے۔ پچھلے عرصے میں ہونے والے مختلف عام انتخابات کے حیران کن نتائج کی اور کیا توجیح پیش کی جا سکتی ہے؟پنڈولم دائیں جانب،پھر بائیں جانب اور پھر واپس دائیں جانب جھولتا ہوا نظر آتا ہے۔بائیں بازو کے تنگ نظر اصلاح پسند محنت کشوں کو ان کی مبینہ پسماندگی پر طعنے دیتے نظر آتے ہیں۔اس طرح سے وہ اپنے زہریلے اور تباہ کن کردار پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔مگر درحقیقت یہ امر مایوسی اور کسی سنجیدہ متبادل کے فقدان کی غمازی کرتا ہے۔عوام بحران سے چھٹکارا پانے کے لئے بری طرح ہاتھ پیر مار رہے ہیں۔وہ ایک کے بعد دوسرا آپشن آزما رہے ہیں۔ایک حکومت،پارٹی اور قیادت کے بعد دوسرے کو آزمایا جاتا ہے،لیکن ہر کوئی نااہل نکلتا ہے اور نتیجتاً تاریخ کے کوڑے دان میں چلا جاتا ہے۔اس سارے عمل میں اصلاح پسندوں،اور خاص کر بائیں بازو کے اصلاح پسندوں کا کردار نہایت قابل مذمت ہے۔اس سب کے نتیجے میں شعور میں برق رفتار تبدیلیاں برپا ہو رہی ہیں۔اگرچہ اس میں وقت لگتا ہے لیکن مقداری تبدیلیاں ناگزیر طور پر ایک ایسے مقام تک پہنچ جاتی ہیں جہاں پھر برق رفتار معیاری تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔شعور میں تیز ترین تبدیلیاں موجودہ صورتحال کا خاصہ ہیں۔ہم آج کل ایسی ہی تبدیلیوں کو دیکھ رہے ہیں،خاص کر کہ نوجوانوں میں۔حال ہی میں ہونے والے ایک سروے میں ایک ہزار سے زائد برطانوی شہریوں سے پوچھا گیا کہ وہ لفظ”سرمایہ داری“ کے کیا معانی لیتے ہیں۔73فیصد نے کہا ”لالچ“،70فیصد نے کہا”کام کا مسلسل دباؤ“،69فیصد نے کہا”کرپشن“۔42 فیصد نے اتفاق کیا کہ”سرمایہ داری امرا کا نظام ہے اور وہ ہی اس کا سیاسی ایجنڈا طے کرتے ہیں“۔اس تبدیلی کا سب سے واضح اظہار نوجوانوں میں کمیونسٹ نظریات کی طرف بڑھتے ہوئے رجحان کی شکل میں دیکھا جا سکتا ہے۔یہ نوجوان خود کو کمیونسٹ کہتے ہیں حالانکہ ان کی بھاری اکثریت نے نہ تو کبھی کمیونسٹ مینی فیسٹو پڑھا ہے اور نہ ہی وہ سائنسی سوشلزم کے متعلق کچھ جانتے ہیں۔مگر بائیں بازو کی پے در پے غداریوں نے ان کی نظر میں ”سوشلزم“ کے لفظ کو بری طرح داغدار کر دیا ہے۔یہ لفظ سب سے لڑاکا پرتوں کے لئے اپنی کشش کھو چکا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ”ہمیں کمیونزم چاہئے،صرف یہی چاہئے اور اس سے کم کچھ نہیں“۔کمیونسٹ کیا ہوتا ہے؟کمیونسٹ مینی فیسٹو کے سیکشن پرولتاریہ اور کمیونسٹ میں لکھا ہے کہ:”بحیثیت مجموعی پرولتاریہ سے کمیونسٹوں کا کیا تعلق ہے؟”کمیونسٹ،مزدور طبقے کی دوسری پارٹیوں کیخلاف کوئی الگ پارٹی نہیں بناتے۔”بحیثیت مجموعی پرولتاری طبقے کے مفاد کے سوا اور اس سے جدا ان کا کوئی مفاد نہیں۔”وہ اپنے جداگانہ فرقہ پرور اصول قائم نہیں کرتے جس سے مزدور تحریک کوکوئی خاص شکل دی جائے اور کسی خاص سانچے میں ڈھالا جائے۔”کمیونسٹوں کا امتیاز مزدور طبقے کی دوسری پارٹیوں سے صرف یہ ہے کہ(1)مختلف ملکوں کے مزدوروں کی قومی جدوجہد میں وہ بلا امتیاز قومیت پورے مزدور طبقے کے مشترک مفاد پر زور دیتے ہیں اور ان کو نمایاں کرتے ہیں۔۔۔”چناچہ ایک طرف جہاں تک عمل کا تعلق ہے،کمیونسٹ ہر ملک کی مزدور پارٹیوں میں سب سے اگوا اور ثابت قدم دستہ ہیں،وہ دستہ جو ہمیشہ اوروں کو آگے بڑھاتا چلتا ہے،اور دوسری طرف جہاں تک نظریے کا تعلق ہے،عام مزدوروں پر ان کو فوقیت یہ ہے کہ وہ مزدور تحریک کے آگے بڑھنے کا راستہ پہچانتے ہیں۔اس کے حالات اور حتمی عمومی نتائج کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔“یہ سطور بہت عمدگی کیساتھ معاملے کا جوہر بیان کرتی ہیں۔کیا ایک انقلابی کمیونسٹ انٹرنیشنل کی تخلیق کا مناسب وقت آن پہنچا ہے؟نام نہاد آزاد منڈی کی معیشت کیخلاف بڑھتے ہوئے عوامی رد عمل نے سرمائے کے پالیسی سازوں کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں۔وہ ایک پر انتشار اور غیر یقینی مستقبل سے خوفزدہ ہیں۔مایوسی کے اس عمومی موڈ کے ساتھ ساتھ بورژوازی کے سنجیدہ نمائندوں کو اب موجودہ حالات اور 1917ء کی دنیا کے مابین مماثلتیں بھی نظر آنے لگی ہیں۔یہ وہ پس منظر ہے جس میں ایک صاف بینر اور واضح انقلابی پالیسیاں رکھنے والی انقلابی پارٹی کی تخلیق کا سوال ابھر کر سامنے آتا ہے۔ہماری تحریک کا کردار بین الاقوامی اس لئے ہے کیونکہ سرمایہ داری بھی ایک عالمی نظام ہے۔ بالکل ابتدا سے ہی مارکس نے محنت کشوں کی ایک عالمی تنظیم تشکیل دینے کی کوشش کی تھی۔لیکن کمیونسٹ انٹر نیشنل کی سٹالنسٹ زوال پذیری کے بعد سے لیکر اب تک ایسی کوئی بھی تنظیم موجود نہیں تھی۔یہی بہترین وقت ہے ایک انقلابی کمیونسٹ انٹر نیشنل کی تخلیق کا!بعض لوگ کہیں گے کہ یہ فرقہ پروری ہے۔مگر ایسا کچھ بھی نہیں۔ہم میں اور مزدور تحریک کے حاشیوں پر پاگل موروں کی طرح ناچنے والے الٹرا لیفٹ فرقہ پرور گروہوں میں کچھ بھی مشترک نہیں۔ہمارا فرقہ پروروں کیساتھ کچھ لینا دینا نہیں اور ہمارا رخ ان نوجوانوں کی جانب ہے جو کمیونزم سے متاثر ہو رہے ہیں۔ہمارے اس اقدام کی وجہ نہ تو کوئی بے صبری ہے اور نہ ہی ہم موضوعی عنصر کی اہمیت کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے ہیں۔ہمارا یہ فیصلہ معروضی صورتحال کی واضح سمجھ بوجھ اور تقاضوں کے عین مطابق ہے۔صرف اور صرف اسی کارن یہ قدم اٹھانا انتہائی ضروری اور ناگزیر ہو چکا ہے۔چلیے،ہم کچھ حقائق کا جائزہ لیتے ہیں۔برطانیہ،امریکہ،آسٹریلیا اور کئی دیگر ممالک میں پچھلے کچھ عرصے میں ہونے والے بیشمار سرویز یہ واضح کرتے ہیں کہ کمیونزم کی طرف عوامی رجحان تیزی کیساتھ بڑھ رہا ہے۔اس حوالے سے سماج میں بے تحاشہ پوٹینشیل موجود ہے۔ہمارا فریضہ ہے کہ ہم اس پوٹینشیل کو حقیقت میں بدلنے کے لئے ایک تنظیمی اظہار مہیا کریں۔سماج کی ہر اول پرتوں کو ایک حقیقی انقلابی کمیونسٹ پارٹی میں منظم کرتے ہوئے،انہیں ایک منظم بالشویک تنظیم کیساتھ مدغم کرتے ہوئے،اس کی مارکسی نظریات اور لینن اسٹ طریقہ کار پر تربیت کرتے ہوئے،ہم ایک ایسی قوت تعمیر کر سکتے ہیں جو آنے والے عرصے میں سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد میں ایک فیصلہ کن کردار ادا کر سکتی ہے۔یہ ہے ہمارا فریضہ اور ہمیں اس کی تکمیل کے راستے میں درپیش آنے والی تمام مشکلات کو پھلانگنا ہو گا۔سٹالنزم بمقابلہ بالشویزمایک عرصے تک کمیونزم کے دشمن یہ سمجھتے رہے کہ انہوں نے اکتوبر انقلاب کے بھوت کا خاتمہ کر دیا ہے۔سوویت یونین کے انہدام نے بھی ان کی اس غلط فہمی کو تقویت دی کہ کمیونزم اب قصہ پارینہ ہو چکا ہے۔وہ خوشی سے اعلان کرتے تھے”سرد جنگ کا خاتمہ ہو چکا ہے۔۔۔اور ہم جیت چکے ہیں“۔مگر ہمارے طبقاتی دشمنوں کی طرف سے پھیلائی گئی جھوٹی کہانیوں کے برعکس 1980ء کی دہائی میں کمیونزم کا نہیں بلکہ سٹالنزم کا انہدام ہوا تھا۔۔۔جو کہ کمیونسٹ نظریات کی ہولناک،افسرشاہانہ اور آمرانہ مسخ شدگی کا نتیجہ تھا اور جس کا 1917ء میں لینن اور بالشویکوں کی جانب سے قائم کی گئی مزدور جمہوریت کیساتھ دور دور کا بھی کوئی تعلق نہ تھا۔سٹالن نے لینن کی موت کے بعد انقلاب میں در آنے والی تھکاوٹ کے عرصے میں مراعات یافتہ افسرشاہی کی نمائندگی کرتے ہوئے بالشویزم کیخلاف سیاسی رد انقلاب کی قیادت کی تھی۔اپنی رد انقلابی آمریت کو مضبوط کرنے کی خاطر سٹالن نے لینن کے تمام ساتھیوں اور بیشمار دیگر حقیقی کمیونسٹوں کو قتل کروا دیا تھا۔سٹالنزم اور بالشویزم،نہ صرف ایک دوسرے سے مختلف ہیں بلکہ یہ ایک دوسرے کی مکمل ضد اور جانی دشمن ہیں۔ایک خون کا دریا ہے جو انہیں ایک دوسرے سے جدا کرتا ہے۔کمیونسٹ پارٹیوں کی زوال پذیریکمیونزم کا لفظ بلاشبہ لینن کے نام اور انقلاب روس کی شاندار روایات کیساتھ جڑا ہوا ہے۔مگر آج کی کمیونسٹ پارٹیاں صرف نام کی حد تک کمیونسٹ ہیں۔ان پارٹیوں کی قیادت نے عرصہ پہلے لینن اور بالشویزم کے نظریات کو خیر آباد کہہ دیا تھا۔لینن ازم کے نظریات کیساتھ ان کی فیصلہ کن علیحدگی اس وقت ہوئی جب انہوں نے ”ایک ملک میں سوشلزم“ کی غیر مارکسی پالیسی کو قبول کر لیا۔1928ء میں ٹراٹسکی نے پیش گوئی کی تھی کہ اس کا ناگزیر نتیجہ دنیا کی تمام کمیونسٹ پارٹیوں کی قومی اصلاح پسندانہ زوال پذیری کی صورت میں نکلے گا۔یہ پیش گوئی بالکل درست ثابت ہوئی۔آغاز میں کمیونسٹ پارٹیوں کے لیڈر پوری تابعداری کیساتھ سٹالن اور افسر شاہی کے احکامات بجا لاتے اور ماسکو سے آنے والے ہر اشارے کی غلامانہ پیروی کرتے۔بعد میں انہوں نے سٹالن کو ”ڈس اون“ کر دیامگر ایسا کرتے ہوئے لینن کی طرف پلٹنے کی بجائے وہ دائیں جانب چلے گئے۔ماسکو سے پیچھا چھڑواتے ہوئے،زیادہ تر ممالک میں ان پارٹیوں نے مکمل طور پر اصلاح پسندانہ تناظر اور پالیسیاں اختیار کر لیں۔”ایک ملک میں سوشلزم“ کی تباہ کن پالیسی کی پیروی کرتے ہوئے ہر ملک کی کمیونسٹ پارٹی کی قیادت نے اپنے ملک کی بورژوازی کیساتھ سمجھوتہ کر لیا۔اس کا نتیجہ کمیونسٹ پارٹیوں کی مکمل زوال پذیری اور بربادی کی صورت میں نکلا۔اس حوالے سے اطالوی کمیونسٹ پارٹی کی مثال سب کے سامنے ہے جو کسی زمانے میں یورپ کی سب سے بڑی اور طاقتور کمیونسٹ پارٹی ہوا کرتی تھی۔قومی اصلاح پسندانہ زوال پذیری نے بالآخر اطالوی کمیونسٹ پارٹی کا خاتمہ کر دیا اور وہ ایک بورژوا اصلاح پسند پارٹی میں بدل گئی۔اسی طرح برطانوی کمیونسٹ پارٹی اپنے ماضی کی محض ایک پرچھائی بن چکی ہے۔اس کا تھوڑا بہت اثرو رسوخ اس کے اخبار”مارننگ سٹار“ کی وساطت سے قائم ہے جس کی لائن بائیں بازو کی اصلاح پسندی کا بھی ایک مسخ شدہ ورژن ہے۔درحقیقت وہ صرف یونین افسر شاہی کو بائیں بازو کا کور فراہم کرنے کا کام کرتا ہے۔ہسپانوی کمیونسٹ پارٹی اس وقت مخلوط حکومت کا حصہ ہے جو کہ نیٹو کی روس کیخلاف حالیہ جنگ کے دوران یوکرائن کو ہتھیار سپلائی کر رہی ہے۔اس کے نتیجے میں پارٹی کو تیز ترین زوال کا سامنا ہے۔اس کے یوتھ ونگ نے پارٹی کی آفیشل لائن سے اختلاف کیا اور نتیجتاً اسے پارٹی سے نکال دیا گیا۔امریکی کمیونسٹ پارٹی محض ڈیموکریٹک پارٹی کی الیکشن کیمپئین کرنے والی مشین بن چکی ہے اور”فاشزم کیخلاف ووٹ“ کے نام پر جو بائیڈن کی کیمپئین کر رہی ہے۔جنوبی افریقہ کی کمیونسٹ پارٹی تیس سالوں تک اے این سی کی سرمایہ دارانہ حکومت کا حصہ رہی ہے اور یہاں تک کہ اس نے 2012ء میں ماریکانا میں 34ہڑتالی کانکنوں کے قتل عام کا بھی دفاع کیا تھا۔یہ ایک نہ ختم ہونے والی فہرست ہے۔کمیونسٹ پارٹیوں کا بحرانتاریخ کے اس اہم موڑ پر عالمی کمیونسٹ تحریک مکمل انتشار کا شکار ہے۔دنیا بھر کی کمیونسٹ پارٹیوں نے غزہ پر حملے کے جواب میں ”عالمی قوانین“ اور اقوام متحدہ کی قرار داروں کا احترام کرنے کی اپیلیں کی ہیں،یعنی دوسرے الفاظ میں بڑی سامراجی قوتوں کے سامنے سر جھکا دیا ہے۔مگر یہ فروری2022ء میں روس کا یوکرائن پر حملہ تھا جس نے ایک گہری پھوٹ کو جنم دیا اور زیادہ تر کمیونسٹ پارٹیاں اپنے حکمران طبقے کے سامنے سجدہ ریز ہو گئیں۔خاص کر مغربی ممالک کی کمیونسٹ پارٹیوں نے اپنی نیٹو کی حمایت کو ”مذاکرات“ اور امن کی اپیلوں کے پردے میں لپیٹ کر پیش کیا۔اسرائیل کے غزہ پر حملے نے صورتحال کو مزید بدتر بنا دیا ہے۔فرانسیسی کمیونسٹ پارٹی نے بائیں بازو کے انتخابی اتحاد سے اس کارن علیحدگی اختیار کر لی کیونکہ اس کے لیڈر میلاشون نے حماس کو ایک دہشت گرد تنظیم ماننے سے انکار کر دیا تھا۔دوسری طرف کچھ کمیونسٹ پارٹیاں محض روسی اور چینی وزارت خارجہ کاماؤتھ پیس بن کر رہ گئی ہیں اور ”سامراجی قبضہ گیری اور قرضوں کی غلامی“ کیخلاف کمزوراور مطیع ممالک کی جدوجہد میں ان ممالک(چین،روس) کو ایک ترقی پسند اتحادی کے طور پر پیش کر رہی ہیں۔روس کی کمیونسٹ پارٹی اس حوالے سے ایک شاندار مثال ہے۔وہ کمیونسٹ تو ایک طرف،ایک ایسی پارٹی بھی نہیں رہی جو اپنے فیصلے کرنے میں آزاد ہو۔زیوو گانوف کی پارٹی عرصہ پہلے پیوٹن کی رجعتی حکومت کی کاسہ لیس بن چکی ہے۔ان تمام تضادات کے نتیجے میں ان پارٹیوں میں پے درپے پھوٹ ہوئی ہے۔2023ء میں کیوبا کے دارلحکومت ہوانا میں منعقد ہونے والی کمیونسٹ اور ورکر پارٹیوں کی ایک عالمی میٹنگ میں یوکرائن جنگ پر ایک مشترکہ اعلامیہ تک نہیں جاری کیا جا سکا تھا کیونکہ اختلافات بہت زیادہ تھے۔کمیونسٹ تحریک کا بحران اور کے کے ای کا کردارکئی عام کمیونسٹ کارکنان نے اس بے شرم ترمیم پسندی کیخلاف سخت رد عمل دیا ہے۔یونانی کمیونسٹ پارٹی(کے کے ای) نے بلاشبہ مرحلہ وار انقلاب کے رجعتی سٹالنسٹ-منشویک نظریے کو رد کر کے ایک اہم قدم اٹھایا ہے۔اس نے یوکرائن جنگ پر بھی درست مؤقف اختیار کرتے ہوئے اسے مختلف سامراجی قوتوں کے مابین جنگ قرار دیا ہے۔اس کے نتیجے میں یونانی محنت کشوں نے یونان کی بندرگاہوں سے یوکرائن کو ہونے والی اسلحے کی ترسیل روک دی۔تمام حقیقی کمیونسٹ اس اقدام کا خیر مقدم کرتے ہیں۔لیکن اگرچہ کہ یہ سب کچھ بہت خوش آئند ہے لیکن فوراً سے یہ نتیجہ نکالنا کہ یونانی کمیونسٹوں کا درست مؤقف کی طرف سفر مکمل ہو چکا ہے ٹھیک نہیں ہو گا۔خاص طور پر ایک ملک میں سوشلزم کے غیر مارکسی نظریے سے مکمل قطع تعلق کرنا اور لینن کے یونائیٹڈ فرنٹ طریقہ کار کو اختیار کرنا نہایت اہمیت کا حامل ہے۔کے کے ای دیگر کمیونسٹ پارٹیوں کیساتھ رابطے استوار کرنے اور انہیں یوکرائن جنگ پر اپنا مؤقف پہنچانے کی کوشش کر رہی ہے جو بلاشبہ درست سمت میں ایک قدم ہے۔لیکن اس معاملے میں کامیابی حاصل کرنے کی اولین شرط یہ ہے کہ دنیا بھر کے تمام حقیقی کمیونسٹ رجحانات کیساتھ ایک کھلی اور جمہوری بحث میں اترا جائے۔لینن کے طریقہ کار اور نظریات پر مبنی ایک حقیقی کمیونسٹ انٹرنیشنل کا قیام صرف بحث مباحثے اور جمہوری مرکزیت کے ذریعے ہی ہو سکتا ہے نہ کہ کسی سفارتی شعبدہ بازی کے ذریعے۔یہ ہمارا فریضہ ہے کہ ہم تحریک کو اس کے اصل نظریات تک لے کر جائیں۔بزدلانہ ترمیم پسندی سے مکمل قطع تعلق کرتے ہوئے لینن کا بینر لہرائیں۔اس حوالے سے ہم ہر اس تنظیم اور پارٹی کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہیں جو یہی مقاصد رکھتی ہے۔جب ٹراٹسکی نے عالمی لیفٹ اپوزیشن لانچ کی تھی تو اس کے مطابق یہ عالمی کمیونسٹ تحریک کی لیفٹ اپوزیشن تھی۔ہم حقیقی کمیونسٹ ہیں۔۔بالشویک- لینن اسٹ ہیں،جنہیں سٹالن نے افسرشاہانہ انداز میں کمیونسٹ تحریک سے باہر نکال دیا تھا۔ہم نے ہمیشہ حقیقی لینن ازم اور اکتوبر انقلاب کے سرخ جھنڈے کو قائم رکھنے کی خاطر جدوجہد کی ہے اور اب ہمیں عالمی کمیونسٹ تحریک میں اپنا جائز مقام واپس لینا ہو گا۔وقت آ گیا ہے کہ ہم تحریک میں ماضی کے متعلق ایک دیانت دارانہ بحث کا آغاز کریں جس کے نتیجے میں سٹالنزم کی آخری باقیات سے مکمل قطع تعلقی کرتے ہوئے لینن ازم کی ٹھوس بنیادوں پرکمیونسٹوں کے مابین ایک دیرپا اتحاد قائم کیا جا سکے۔ترمیم پسندی مردہ باد!کمیونسٹوں کے لڑاکا اتحاد کی طرف بڑھو!لینن کی طرف واپس پلٹو!لینن کی پالیسیہمارا فوری مقصد عوام کو جیتنا نہیں ہے۔یہ کام ہماری موجودہ طاقتوں کی پہنچ سے باہر ہے۔ہمارا مقصد سب سے لڑاکا اور شعور یافتہ عناصر کو جیتنا ہے۔صرف اسی طرح ہم عوام تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔لیکن ہمیں عوام تک رسائی حاصل کرنے کے اس کام کو سنجیدگی کیساتھ لینا ہو گا۔محنت کشوں کی نئی نسل اور نوجوان بحران سے باہر نکلنے کا راستہ تلاش کر رہے ہیں۔بہترین عناصر نے یہ سمجھ لیا ہے کہ سوشلسٹ انقلاب ہی واحد حل ہے۔وہ مسائل کی نوعیت کو سمجھ رہے ہیں اور ریڈیکل اقدامات کی ضرورت کا ادراک حاصل کرنے لگے ہیں۔مگر ان کی بے صبری ان سے غلطیاں بھی سرزد کرا سکتی ہے۔کمیونسٹوں کا کام بہت آسان ہوتا اگر یہ محنت کش طبقے پر انقلابی نعروں کی بوچھاڑ کر دینے پر مشتمل ہوتا۔مگر یہ مکمل طورپر ناکافی ہے اور بعض اوقات نقصان دہ بھی ثابت ہوتا ہے۔حتمی تجزئیے میں محنت کش طبقہ اپنے تجربات سے ہی سیکھتا ہے،خاص کر بڑے واقعات کے تجربے سے۔عمومی طور پر یہ انتہائی سست روی کیساتھ سیکھتا ہے۔اتنی سست روی کیساتھ کہ بعض اوقات کچھ انقلابی بھی فرسٹریٹ ہو کر بے صبرے پن کا شکار ہو جاتے ہیں۔لینن یہ بخوبی سمجھتا تھا کہ اقتدار پر قبضہ کرنے کے لئے بالشویکوں کو پہلے عوام کو جیتنا پڑے گا۔اس مقصد کے لئے لائحہ عمل میں بہت لچک درکار ہوتی ہے۔لینن نے ہمیشہ انقلابیوں کو صبر کی تلقین کی تھی۔1917 ء کے تیز و تند انقلابی سال میں بھی وہ بالشویکوں کو یہی نصیحت کرتا رہا تھا کہ”صبر کیساتھ وضاحت کرو۔“محنت کش طبقے کے ٹھوس تجربے سے اخذ کئے گئے لائحہ عمل کے بغیر انقلابی تحریک تعمیر کرنے کی تمام باتیں محض خالی خول لفاظی ہیں۔یہ پھل کے بغیر چھری کی مانند ہیں۔اسی لئے طریقہ کار اور لائحہ عمل کے سوالات کمیونسٹوں کے لئے نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔لینن اور ٹراٹسکی،دونوں کمیونسٹ ہر اول دستے کے بڑی اصلاح پسند عوامی تنظیموں کیساتھ تعلق کے بارے میں بالکل واضح تھے۔لینن کی کتاب ”بائیں بازو کا کمیونزم،ایک طفلانہ بیماری“ انقلابی طریقہ کار اور لائحہ عمل کے متعلق اس کے نقطہ نظر کا نچوڑ ہے۔ایک صدی سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود نام نہاد قسم کے ٹراٹسکائیٹ فرقوں کے لئے یہ اہم موضوع سات مہروں سے بند کی جانے والی کتاب کی مانند ہے۔ہر جگہ انہوں نے ٹراٹسکی ازم کے نام کو بیحد نقصان پہنچایا ہے اور یوں افسر شاہی کے لئے بہت اعلیٰ خدمات سرانجام دی ہیں۔ان کا خیال ہے کہ بڑی عوامی تنظیموں کو محض تاریخ کی غلطی قرار دے کر رد کیا جا سکتا ہے۔ان کا ان عوامی تنظیموں کی طرف رویہ محض ”غداری،غداری“ کی تیز چیخ و پکار تک ہی محدود ہوتا ہے۔مگر اس قسم کی حرکتیں ہمیں سیدھا ایک بند گلی میں لیجاتی ہیں۔اس سب کا لینن اور ٹراٹسکی کے لچکدار طریقہ کار سے کوئی تعلق نہیں جو اصلاح پسندوں کے اثرورسوخ میں موجود محنت کشوں کی بڑی تعداد تک رسائی حاصل کرنے کی ضرورت کو بخوبی سمجھتے تھے۔ہمارا اس بیہودہ فرقہ پروری سے کچھ لینا دینا نہیں اور ہم پوری جرات کیساتھ محنت کشوں کارخ کررہے ہیں۔عوام کو کمیونسٹ پالیسیوں کی صبر کیساتھ وضاحت دیتے ہوئے اور اصلاح پسند لیڈروں کے سامنے مطالبات رکھتے ہوئے،اصلاح پسند محنت کشوں کو کمیونزم کے لئے جیتنا ممکن ہے۔”تمام اقتدار سوویتوں کو دو“یہاں پر یہ یاد کرانا مناسب ہو گا کہ لینن نے 1917ء میں اس وقت”تمام اقتدار سوویتوں کو دو“ کا نعرہ لگایا تھا جب محنت کشوں اور سپاہیوں کی بھاری اکثریت کی نمائندگی کرنے والی یہ تنظیمیں ابھی اصلاح پسند منشویکوں اور سوشل انقلابیوں کے زیر اثر تھیں۔اس نعرے کے ذریعے درحقیقت لینن سوویتوں کے اصلاح پسند قائدین کو کہہ رہا تھا کہ”بہت خوب حضرات،آپ کے پاس اکثریت ہے۔ہمارا مطالبہ ہے کہ آپ طاقت اپنے ہاتھوں میں لیں اور لوگوں کو وہ دیں جو وہ چاہتے ہیں۔۔۔امن،روٹی اور زمین۔اگر آپ ایسا کرتے ہیں تو ہم آپ کی حمایت کریں گے، یوں خانہ جنگی سے بچت ہو جائے گی اور اقتدار کی لڑائی سوویتوں کے اندر اثرو رسوخ حاصل کرنے کی پر امن جدوجہد تک محدود ہو جائے گی۔“مگر بزدل اصلاح پسند لیڈروں کا اقتدار پر قبضہ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔وہ مکمل طور پر بورژوا عبوری حکومت کے سامنے سجدہ ریز ہوئے ہوئے تھے جو کہ پھر سامراج اور رجعت کے سامنے سر جھکائے کھڑی تھی۔لہٰذا سوویتوں میں موجود محنت کشوں اور سپاہیوں پر اپنے اصلاح پسند قائدین کی غداری کھل کر عیاں ہو گئی اور وہ بالشویکوں کے حامی بن گئے۔صرف اسی طرح ہی بالشویک فروری1917ء میں آٹھ ہزار ممبران پر مشتمل ایک چھوٹی سی پارٹی سے اکتوبر انقلاب سے قبل سوویتوں کی اکثریت کو جیتتے ہوئے ایک عظیم عوامی قوت بننے کے قابل ہوئے۔سب سے بڑھ کر یہ ضروری ہے کہ ہم حقیقت کا درست ادراک رکھیں۔کمیونزم کی حقیقی قوتوں کو ہمارے کنٹرول سے باہر تاریخی عوامل کے ہاتھوں ایک زبردست جھٹکا لگا تھا اور وہ بہت پیچھے دھکیلی گئی تھیں۔ہم مزدور تحریک میں اقلیت کی بھی اقلیت بن گئے تھے۔ہمارے پاس درست نظریات موجود ہیں مگر محنت کش طبقے کی بڑی اکثریت کو ابھی اس بات پر قائل کرنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے نظریات درست اور ضروری ہیں۔وہ بنیادی طور پر ابھی تک روایتی اصلاح پسند تنظیموں کے زیر اثر اس لئے ہیں کیونکہ ان تنظیموں کے لیڈر انہیں بحران سے نکلنے کا ایک آسان اور غیر تکلیف دہ راستہ آفر کرتے ہیں۔لیکن درحقیقت یہ راستہ مزید شکستوں کا موجب بن کر مزید مایوسی اور تباہی پھیلاتا ہے۔کمیونسٹ کسی بھی صورت میں محنت کش طبقے کو اصلاح پسند غداروں اور یونین افسرشاہی کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑ سکتے۔اس کے برعکس ہمیں ان کیخلاف ایک ناقابل مصالحت جدوجہد کرنا ہو گی۔مگر بہرحال محنت کش طبقے کو اصلاح پسندی کے تکلیف دہ سکول سے گزرنا ہی ہو گا۔ہمارا کام حاشیوں سے ان پر جملے کسنا نہیں،بلکہ ہمیں اس تمام تجربے میں ان کے ساتھ شانہ بشانہ رہنا ہے اور انہیں لازمی نتائج اخذ کرنے اور آگے کا راستہ تلاش کرنے میں مدد کرنی ہے،بالکل ویسے جیسے بالشویکوں نے 1917ء میں کیا تھا۔محنت کشوں تک پل تعمیر کرو!ہمیں محنت کش طبقے کیساتھ ایک تعمیری بحث مباحثے میں اترنا ہو گا جس میں وہ ہمیں بیگانے عناصر کے طور پر نہیں بلکہ سرمایہ داری جیسے مشترکہ دشمن کیخلاف جدوجہد میں ساتھی کے طور پر دیکھیں۔ہمیں ان پر کمیونزم کی فوقیت محض الفاظ کے ذریعے نہیں بلکہ عمل میں ثابت کرنا ہو گی۔ہمیں ابھی تک اصلاح پسندی کے زیر اثر موجود محنت کشوں کی اکثریت کیساتھ رابطے استوار کرنا ہوں گے۔لیبر افسر شاہی کمیونسٹوں کو محنت کشوں سے دور رکھنے کے لئے ہر ممکن حربہ استعمال کرے گی۔ہم پر پابندیاں لگائی جائیں گی،الزامات لگائے جائیں گے،ہمیں نکالا جائے گا،غرضیکہ ہم پر ہر طرح کے حملے ہوں گے۔مگر ہمیں ان تمام رکاوٹوں کو عبور کرنا ہو گا۔یہ ناممکن ہے کہ مزدور تنظیموں کی افسرشاہی ہمارا راستہ روک پائے۔لائحہ عمل طے کرنے کے لئے کوئی گولڈن فارمولا نہیں ہے کیونکہ ان کا تعین وقت اور حالات کے مطابق ہوتا ہے۔یہ کوئی اصولی نہیں بلکہ ایک عملی سوال ہوتا ہے۔لینن کا لائحہ عمل کے متعلق رویہ نہایت لچکدار تھا۔وہ لینن جو 1914ء میں سوشل ڈیموکریسی کیساتھ مکمل قطع تعلق کے حق میں تھا اور برطانیہ میں ایک آزاد کمیونسٹ پارٹی کے قیام کا حامی تھا،اسی نے بعد ازاں اپنے پروگرام،بینر اور پالیسیوں کو برقرار رکھتے ہوئے برطانوی کمیونسٹ پارٹی کے لیبر پارٹی کیساتھ الحاق کی تجویز بھی دی تھی۔مخصوص صورتحال میں یہ ممکن ہے کہ ہمیں اپنی تمام تر قوتیں ایک اصلاح پسند تنظیم میں بھیجنا پڑیں تا کہ وہاں بائیں جانب حرکت کرتے ہوئے محنت کشوں کو ٹھوس انقلابی پوزیشن پر جیتا جا سکے۔لیکن موجودہ مرحلے پر فوری چیلنج یہ نہیں ہے۔فی الحال اس کے لئے درکار صورتحال وجود نہیں رکھتی۔لیکن اصول یہ ہے کہ ہمیں ہر صورت میں محنت کشوں تک رسائی حاصل کرنی ہے۔یہ کوئی محض لائحہ عمل کا سوال نہیں ہے بلکہ کمیونسٹوں کے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ایک آزادانہ پارٹی کی صورت میں کام کرتے ہوئے بھی کمیونسٹوں کا فریضہ ہے کہ وہ محنت کشوں کی بڑی تنظیموں کی طرف اپنا رخ کئے رکھیں اور محنت کشوں تک رسائی پانے کے لئے جہاں ممکن ہو وہاں یونائیٹڈ فرنٹ بنائیں۔یہ ہر اس شخص کے لئے اے بی سی ہے جو مارکس،اینگلز،لینن اور ٹراٹسکی کے نظریات اور طریقہ کار کے متعلق ذرا سی بھی جانکاری رکھتا ہے۔ہماری پالیسی کمیونسٹ انٹر نیشنل کی پہلی چار کانگریسوں میں لینن کے پیش کردہ تھیسس پر مبنی ہے۔اگر ہمارے فرقہ پرور ناقد اسے سمجھنے سے قاصر ہیں،تو یہ ان کی بد قسمتی ہے۔ہم کس لئے لڑ رہے ہیں؟اپنے جوہر میں کمیونسٹوں کے مقاصد وہی ہیں جو عمومی طور پر محنت کشوں کے ہیں۔ہم بے گھری اور بھوک کا مکمل خاتمہ چاہتے ہیں،ہم کام کے حالات کار میں بہتری اور روزگار کی ضمانت چاہتے ہیں،ہم کام کے اوقات کار میں قابل ذکر کمی چاہتے ہیں،ہم صحت اور تعلیم کی بہترین سہولیات چاہتے ہیں،ہم سامراجیت اور جنگوں کا خاتمہ چاہتے ہیں اور ہم اپنے سیارے کی ماحولیاتی بربادی کا خاتمہ چاہتے ہیں۔مگر ہم یہ بھی واضح کئے دیتے ہیں کہ سرمایہ داری کی موجودہ بحرانی کیفیت میں ان سب مقاصد کے حصول کے لئے ایک ناقابل مصالحت جدوجہد کرنا پڑے گی جو صرف اسی صورت میں کامیاب ہو سکتی ہے اگر وہ سرمایہ داروں اور بینکاروں کی نجی ملکیت کے خاتمے پر منتج ہو۔اسی لئے ٹراٹسکی نے عبوری پروگرام کا تصور پیش کیا تھا۔کمیونسٹ محنت کشوں کی ہر جدوجہد میں پوری قوت کیساتھ شریک ہوں گے۔کسی بھی تحریک میں کمیونسٹوں کی جانب سے پیش کئے گئے ٹھوس مطالبات بدلتی صورتحال کے مطابق یقیناً تبدیل ہوں گے،اور اسی طرح ہر ملک کی صورتحال کی مناسبت سے بھی ان میں فرق ہو گا۔لہٰذا ایک تفصیلی مطالباتی پروگرام دینا موجودہ مینی فیسٹو کے اسکوپ سے باہر ہے۔مگر ٹراٹسکی نے 1938ء میں چوتھی انٹر نیشنل کی تاسیسی دستاویز میں وہ طریقہ کار جس کے ذریعے تمام ممالک میں کمیونسٹوں کو ٹھوس مطالباتی پروگرام تشکیل دینا چاہئے،بڑے شاندار انداز میں بیان کیا تھا۔اس کا عنوان”قریب المرگ سرمایہ دارانہ نظام اور چوتھی انٹر نیشنل کے فرائض“ ہے یا عام طور پر اسے ”عبوری پروگرام“کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔اس میں پیش کئے گئے مطالبات لینن اور بالشویکوں کے پروگرام اور کمیونسٹ انٹرنیشنل کی پہلی چار کانگریسوں میں ہونے والے بحث مباحثے کا نچوڑ ہیں۔عبوری مطالبات کا بنیادی خیال بہت سادہ ہے۔ٹراٹسکی نے وضاحت کی تھی کہ سرمایہ دارانہ زوال کے عہد میں معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لئے ہونے والی کوئی بھی سنجیدہ جدوجہد ناگزیر طور پر بورژوا ملکیتی رشتوں اور ریاست کی حدود سے باہر نکل جائے گی۔بالکل جیسے جنگ میں دفاعی لڑائیاں جارحانہ حملوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں،ویسے ہی طبقاتی جنگ میں فوری مانگوں کے لئے کی جانے والی جدوجہد مخصوص حالات میں ایک شعوری جست کو جنم دیتے ہوئے اقتدار پر قبضے کی انقلابی جدوجہد میں تبدیل ہو سکتی ہے۔حتمی تجزئیے میں کوئی بھی اصلاحات اس وقت تک مستقل نہیں ہو سکتیں جب تک کہ سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑ پھینکا نہ جائے۔کمیونسٹ محنت کش طبقے کی مکمل نجات کے لئے لڑتے ہیں۔وہ جبر اور استحصال سے مکمل آزادی کے لئے لڑتے ہیں۔یہ سب صرف بورژوا ریاست کو مسمار کر کے،ذرائع پیداوار کو اجتماعی ملکیت میں لے کر انہیں محنت کش طبقے کے جمہوری کنٹرول میں ایک سوشلسٹ منصوبہ بند ی کے تحت بروئے کار لانے سے ہی حاصل ہو گا۔انسانیت کا مستقبل اس پر منحصر ہے۔ عظیم آئرش مارکس وادی جیمز کونولی کے الفاظ میں:”ہماری مانگیں نہایت ہی عاجزانہ ہیں، ہم صرف دنیا مانگتے ہیں۔“کیا کمیونزم ایک یو ٹو پیائی خیال ہے؟سرمایہ داری کے حامیوں کی آخری پناہ گاہ یہ تاویل ہے کہ ان کے دیوالیہ نظام کا کوئی متبادل نہیں۔مگر کیا کوئی سمجھدار آدمی اس پر یقین کر سکتا ہے؟کیا واقعی ایسا ہو سکتا ہے کہ نوع انسان کوئی ایسا نظام رائج کرنے کے قابل ہی نہ ہو جو موجودہ ہولناک صورتحال سے بہتر ہو؟ایسی بیہودہ بات کرنا تو نوع انسان کی ذہانت کی توہین کرنے کے مترادف ہے۔بینکاروں اور سرمایہ داروں کی آمریت کے خاتمے کے نتیجے میں ایک ایسی معیشت تشکیل پائے گی جس میں پیداوار مٹھی بھر ارب پتیوں کی ہوس زر کی خاطر نہیں بلکہ نوع انسان کی ضروریات پوری کرنے کے لئے ایک منطقی منصوبہ بندی کے تحت کی جائے گی۔کسی بھی سوچنے سمجھنے والے سنجیدہ آدمی کے سامنے مسئلے کا حل موجود ہے اور اسے عملی جامہ پہنانا نوع انسان کی پہنچ میں ہے۔یہ غربت،بھوک،جنگوں اور سرمایہ داری کی دیگر تمام تباہ کاریوں کا خاتمہ کرتے ہوئے نوع انسان کے شایان شان سماج تعمیر کرنے کا واحد راستہ ہے۔کمیونزم کے دشمن تاویل دیتے ہیں کہ یہ ایک خیالی پلاؤ ہے۔اس الزام میں ایک ستم ظریفی پنہاں ہے۔اصل خیالی پلاؤ تو ایک ایسے نظام کی بقا کا تصور ہے جو اپنی تاریخی مدت پوری کر چکا ہے اور جس کا وجود سماج کی ہر حقیقی ضرورت کیساتھ ایک پر تشدد ٹکراؤ میں ہے۔ایسے نظام کو قائم رہنے کا کوئی حق نہیں اور اس کا انجام تاریخ کا کوڑے دان ہے۔کمیونزم میں کچھ بھی یوٹوپیائی نہیں۔اس کے برعکس ایک نئے اور بہتر انسانی سماج کی تخلیق کے درکار مادی حالات پہلے ہی عالمی سطح پر موجود ہیں اور تیزی کیساتھ مزید پختہ ہو رہے ہیں۔سائنس اور ٹیکنالوجی میں ہونے والی بے تحاشہ ترقی نے غربت،بھوک اور بے گھری سے پاک دنیاکی تخلیق کے خیال کو عملی جامہ پہنانے کے روشن امکانات کو نہایت واضح کر دیا ہے۔مصنوعی ذہانت اور روبوٹکس کی ترقی کام کے اوقات کار میں بڑے پیمانے پر کمی کا سبب بنتے ہوئے اس نہج تک جا سکتی ہے کہ جہاں لوگ صرف تب ہی کام کریں گے اگر وہ اس کی ضرورت محسوس کریں گے۔اجرتی غلامی کا خاتمہ ہی ایک غیر طبقاتی سماج کی مادی بنیاد ہے۔ایسا کرنا اب عین ممکن ہے۔یہ کوئی یوٹوپیا نہیں بلکہ ایک انتہائی قابل عمل تصور ہے۔پرانی دنیا کے بطن میں خاموشی مگر استقلال کیساتھ ایک نئی دنیا پرورش پا رہی ہے۔مگر سرمایہ داری میں ہر چیز اپنے الٹ میں بدل چکی ہے۔ایک ایسا نظام جس میں ہر چیز منافع خوری کے لئے کی جاتی ہے،سائنس اور ٹیکنالوجی کی ہر ترقی کام کے اوقات کار کو بڑھانے اوراستحصال میں اضافے کا سبب بنتی ہے۔ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ چند امرا کی عیاشیوں کے لئے چلنے والے اس غیر منصفانہ اور غیر منطقی نظام کی جگہ ایک منطقی منصوبہ بند معیشت تعمیر کی جائے جو انسانی ضروریات کی تسکین و تکمیل کے لئے پیداوار کرے۔ایک حقیقی کمیونسٹ انٹرنیشنل کے قیام کی جانب بڑھو!تین دہائیاں قبل سوویت یونین کے انہدام کے موقع پر فرانسس فوکویامانے فاتحانہ انداز میں تاریخ کے خاتمے کا اعلان کیا تھا۔مگر تاریخ سے اتنی آسانی کیساتھ چھٹکارا پانا ممکن نہیں۔وہ ان بیہودہ بورژوا دانشوروں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے آگے بڑھ رہی ہے۔اور اب تاریخ کا پہیہ 180 ڈگری الٹ سمت میں چل رہا ہے۔سوویت یونین کا انہدام بلاشبہ ایک عظیم تاریخی سانحہ تھا۔مگر مستقبل کا مؤرخ لکھے گا کہ یہ محض ایک کہیں زیادہ عظیم الشان تاریخی ڈرامے کا پیش لفظ تھا۔۔۔سرمایہ داری کے حتمی زوال کا ڈرامہ۔اوپر بیان کی گئی وجوہات کے کارن موجودہ بحران طوالت اختیار کرے گا۔موضوعی عنصر کی عدم موجودگی کے باعث یہ اتار چڑھاؤ کیساتھ سالوں حتی کہ دہائیوں تک پر محیط ہو سکتا ہے۔مگر یہ سکے کا صرف ایک رخ ہے۔یہ بحران لمبا ہو گا لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ یہ پر امن اور پر سکون بھی ہو گا۔اس کے بالکل برعکس ہم دور جدید کی تاریخ کے سب سے زیادہ بحران زدہ دور میں داخل ہو چکے ہیں۔ایک کے بعد دوسرا ملک اس بحران سے متاثر ہو گا۔محنت کش طبقے کو اقتدار پر قبضہ کرنے کے کئی مواقع ملیں گے۔صورتحال میں بیشمار تیز اور اچانک تبدیلیاں بھی آئیں گی۔اس وقت دھماکے ہوں گے جب ہم ان کی توقع بھی نہیں کر رہے ہوں گے۔ہمیں تیار رہنا ہو گا۔نوجوانوں کی وسیع پرتوں پر اب کمیونزم کی فوقیت کو ثابت کرنے کی کوئی خاص ضرورت نہیں رہی۔وہ پہلے ہی کمیونسٹ ہو چکے ہیں۔وہ ایک بے داغ بینر کی تلاش میں ہیں،ایک ایسی تنظیم کو ڈھونڈ رہے ہیں جس کا اصلاح پسندی اور”بائیں“ بازو کی بزدلانہ موقع پرستی کیساتھ کوئی تعلق نہ ہو۔ہمیں ان تک رسائی حاصل کرنے اور انہیں ریکروٹ کرنے کی ہر ممکن عملی کوشش کرنی ہے۔ایک نئی پارٹی اور ایک نئی انٹر نیشنل کا ا علان بھی اسی کوشش کا حصہ ہے۔یہ معروضی صورتحال کا تقاضا ہے۔یہ ایک انتہائی ضروری اور فوری فریضہ ہے جس کی ادائیگی میں تاخیر نہیں ہونی چاہئے۔ضرورت ایک ایسی حقیقی کمیونسٹ پارٹی کی ہے جو لینن اور دیگر عظیم مارکسی اساتذہ کے نظریات پر قائم ہو۔اور ایک ایسی انٹرنیشنل کی جو کمیونسٹ انٹرنیشنل کے پہلے پانچ سالوں کی پالیسیوں کی پیروی کرے۔ہمارے عظیم فرائض کے مقابلے میں ہماری تعداد نہایت ہی کم ہے اور ہمیں اس حوالے سے کوئی غلط فہمی نہیں ہے۔مگر تاریخ کی ہر انقلابی تحریک آغاز میں اتنی ہی چھوٹی اور بظاہر غیر اہم لگتی تھی۔ہمیں بہت سا انتہائی اہم کام کرنا ہے اور اس کا م کا پھل ہمیں ابھی سے ملنا شروع ہو چکا ہے اور مستقبل قریب میں یہ ایک فیصلہ کن مقام تک پہنچ جائے گا۔ہم اب تیزی سے بڑھ رہے ہیں کیونکہ اب ہم تاریخ کے دھارے کیساتھ تیر رہے ہیں۔سب سے بڑھ کر یہ کہ ہمارے پاس درست نظریات ہیں۔لینن نے کہا تھا کہ مارکسزم اس لئے اتنا طاقتور ہے کیونکہ یہ سچ ہے۔یہ حقیقت ہمیں مستقبل کے بارے میں انتہائی پر اعتماد بناتی ہے۔عظیم فرانسیسی یوٹوپیائی سوشلسٹ فورئیر نے سوشلزم کی وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ نوع انسان کے پوٹینشیل کو حقیقت میں بدلے کا ذریعہ ہے۔کمیونزم کے تحت انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ عوام کے لئے اعلیٰ ترین ثقافت کے ابھی تک بند رہنے والے دروازے کھل جائیں گے۔آرٹ،موسیقی اور ثقافت میں اتنی ترقی ہو گی کہ دنیا نے پہلے کبھی نہ دیکھی ہو گی۔ایک نئی دنیا تخلیق ہو گی جس میں زندگی کو بالکل نئے معانی ملیں گے۔پہلی مرتبہ مردو زن مکمل برابری کی بنیاد پر نوع انسان کے شایان شان مقام تک پہنچ سکیں گے۔یہ نوع انسان کی ایک عظیم جست ہو گی۔۔۔جبر کی اقلیم سے آزادی کی اقلیم میں۔مرد و زن کو ایک اچھی زندگی کے لئے نہ تو آسمانوں کی جانب دیکھنا پڑے گا اور نہ ہی موت کا انتظار کرنا پڑے گا۔وہ ایک نئی دنیا کا ذائقہ چکھیں گے جس میں استحصال،جبر اور ناانصافی سے چھٹکارا پانے کے بعد انسانی زندگی ایک نئے ہی معانی اختیار کرے گی۔یہ وہ شاندار مستبقل ہے جس کی خاطر ہم جدوجہد کر رہے ہیں:ایک جنت ارضی۔یہ ہے کمیونزم کا حقیقی مطلب۔یہ وہ واحد مقصد ہے جس کی خاطر لڑا،مرا جا سکتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہم کمیونسٹ ہیں!یہ ہر ایک پر لازم ہے کہ ہم بلاجھجھک فوری طور پر یہ فرائض سرانجام دیں،اس بھرپور یقین کیساتھ کہ ہم کامیاب ہوں گے۔ہمارے لڑاکا نعرے درج ذیل ہیں:۔سامراجی لٹیرے،مردہ باد!۔سرمایہ دارانہ غلامی،مردہ باد!۔بینکاروں اور سرمایہ داروں کی نجی ملکیت کا خاتمہ کیا جائے!۔کمیونزم،زندہ باد!۔دنیا بھر کے محنت کشو، ایک ہو جاؤ!۔ایک نئی انٹر نیشنل کی تعمیر کی جانب بڑھو!