یوکرائن میں روسی جارحیت: روسی انقلابیوں کا اعلامیہ Share Tweetمندرجہ ذیل تحریر عالمی مارکسی رجحان (آئی ایم ٹی) کے روسی کامریڈوں کا اعلامیہ ہے، جس میں 24 فروری کو علی الصبح یوکرائن پر کیے گئے حملے کی مذمّت کی گئی ہے۔ فوجی مداخلت نا منظور! شاؤنزم نا منظور! عوام کے بیچ جنگ مردہ باد! طبقات کے بیچ جنگ زندہ باد![Source]انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں24 فروری کو علی الصبح روسی فوج نے یوکرائن کے خلاف فوجی آپریشن کا آغاز کیا، جس میں فوجی دستوں، فضائی دفاعی نظام اور اسلحہ خانوں کے اوپر فضائی بمباری کی گئی۔ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے آپریشن کے لیے جواز پیش کرتے ہوئے دونباس کی ریاستوں کی جانب سے کی گئی اپیل کا حوالہ دیا جس میں انہوں نے فوجی تحفظ کی درخواست کی تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ آپریشن کا مقصد یوکرائن پر قبضہ کرنا نہیں بلکہ یہاں کی فوج اور نازیوں کا خاتمہ کرنا ہے۔ اس نے یوکرائن کے مسلح افواج کے سپاہیوں کو پیغام دیا کہ ہتھیار ڈال دیں اور ”عوام کو لوٹنے والی عوام دشمن فوجی اشرافیہ“ کے احکامات بجا لانے سے انکار کریں۔ہمارے پچھلے مضامین میں، ہم (آئی ایم ٹی) نے اندازہ لگایا تھا کہ روس اور یوکرائن کے بیچ براہِ راست فوجی جھڑپوں کے امکانات نہایت کم ہیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ہم نے روسی سامراجیت کے مفادات، اس کی اہلیت اور ماضی کے رویے کی بنیاد پر تجزیہ کیا تھا۔ تب یوکرائن کے خلاف بھرپور انداز میں جنگ پیوٹن حکومت کے لیے ایک ایسی انتہائی خطرناک مہم جوئی معلوم ہو رہی تھی جس کے نتائج غیر یقینی ہوں گے، جو روس کے لیے مالی لحاظ سے بھی انتہائی مہنگی ہوگی۔ البتہ صورتحال متواتر بد سے بد تر ہوتی چلی گئی، اور بالآخر اس کا یہ تباہ کُن نتیجہ نکلا۔ پیوٹن نے مہم جوئی کا راستہ چنا، جو یوکرائن کی ریاست کو چند دھکے دے کر زمین بوس کرنے کی امید کر رہا ہے، جس کے بعد ہلہ بول کر آگے بڑھنا اور نئی وفادار حکومت کو اقتدار میں لانا ضروری ہو جائے گا۔ جہاں تک دونوں عوامی جمہوریہ کو تسلیم کرنے کی بات ہے، اس کا فیصلہ بھی حالات کو دیکھتے ہوئے آخری لمحات میں کیا گیا تھا، کیونکہ معلوم ہوا ہے کہ آپریشن شروع کرنے کا ویڈیو پیغام 21 فروری کو فلمایا گیا تھا۔روسی سماج اور روسی بائیں بازو کے ایک بڑے حصے نے دونوں جمہوریہ کو تسلیم کرنے اور یوکرائن کے علاقے میں روسی دستوں کے داخلے کو جائز قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس اقدام سے دونباس پر ہونے والی گولہ باری رُک جائے گی اور لاکھوں لوگوں پر آٹھ سال سے ہونے والی بمباری کا خاتمہ ہوگا۔ اس بات میں کچھ حد تک سچائی ضرور ہے، البتہ ہم نے اپنے پچھلے اعلامیے میں اس بات پر زور دیا تھا کہ آزادی کو تسلیم کرنے کے منفی نتائج برآمد ہوں گے، اور ہم نے تسلیم کرنے اور مداخلت دونوں کی مذمت کی تھی۔ مگر اب جبکہ یوکرائن پر میزائل داغنے شروع کیے جا چکے ہیں، ”جنگ کے خاتمے“ کے لیے دستوں کو بھیجنے کی باتیں کرنا ممکن نہیں رہیں۔’نازیوں کا خاتمہ‘ کرنے کے حوالے سے پیوٹن اور دیگر روسی افسران کے بیانیوں سے شاید ہی کوئی بات زیادہ منافقانہ ہو۔ وہ ذکر تو 1941ء-1945ء کے عظیم حب الوطن جنگ اور نازیوں کے خلاف لڑائی میں سوویت کے لوگوں کی قربانیوں کا کر رہے ہیں، مگر پیوٹن حکومت کا تاریخی ماڈل سوویت یونین کا نہیں ہے۔ اس کے برعکس پیوٹن کا ماڈل روسی سلطنت کا ہے، جیسا کہ اس نے براہِ راست بارہا وضاحت کی ہے۔ 21 فروری کو ایل پی آر (لوہانسک عوامی جمہوریہ) اور ڈی پی آر (دوتنسک عوامی جمہوریہ) میں فوجی دستے بھیجنے کے حوالے سے کی گئی لمبی تقریر واضح طور پر کمیونسٹ مخالف تھی۔ اس میں روسی شاؤنزم کی جھلک دکھائی دے رہی تھی، نہ کہ سوویت بین الاقوامیت کی۔ روس میں، اگرچہ یوکرائن کی سطح پر نہیں، نازیوں کے ساتھیوں کی باقاعدگی سے عزت و تکریم کی جاتی ہے۔ بالشویکوں کے خلاف ابھرنے والی ’سفید تحریک‘ کو شان سے یاد کیا جاتا ہے اور کمیونسٹ پارٹی کے عہدیداران سمیت کمیونسٹوں کو سزائیں دی جاتی ہیں۔ دونباس کے دونوں عوامی جمہوریہ میں بھی کمیونسٹ پارٹیاں غیر قانونی طور پر کام کرتی ہیں۔ روسی اشرافیہ کی پالیسی قومی شاؤنزم، کمیونزم مخالفت، جمہوریت مخالفت اور محنت کشوں کو لوٹنے پر مبنی ہے۔ ایسے حالات کے تحت، محض انتہائی احمق لوگ ہی روس کو ’فاشسٹ مخالف‘ قوت کے طور پر دیکھ سکتے ہیں۔اگر پیوٹن کا دھاوا بولنا کامیاب بھی ہو جائے اور یوکرائن کی موجودہ حکومت منتشر ہو جائے، پھر بھی روس کے آشیرباد سے آنے والی اگلی حکومت اتنی ہی رجعتی ہوگی، فقط اس کی ظاہری شکل مختلف ہوگی۔ اس کے علاوہ اور کچھ نتیجہ نہیں نکل سکتا۔ ہمیں دونباس کے خطے میں موجود ان افواج پر غور کرنے کی ضرورت ہے جن کو روس پچھلے آٹھ سالوں سے پالتا رہا ہے؛ اعتراضات اٹھانے والے کمانڈروں کو قتل کیا گیا ہے؛ اور یوکرائن کے سیاستدانوں کو ردعمل دینے پر مجبور کیا جاتا رہا ہے۔ روس میں موجود بورژوا جمہوریت کے ناٹک کو دیکھتے ہوئے پیوٹن سے یوکرائن تعمیر کرنے کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ نازیوں کا خاتمہ نہیں ہوگا بلکہ انہیں مختلف جھنڈے تلے پروان چڑھایا جائے گا۔جنگ کا تجزیہ کرنا سب سے مشکل کام ہوتا ہے۔ ظاہر ہے، ہم فوجی آپریشن کے نتیجے کی پیشگوئی نہیں کر سکتے۔ مگر روسی فوج کے یوکرائن کی فوج پر مادی اور تکنیکی حوالے سے فوقیت رکھنے کے باوجود اس بات کے امکانات موجود ہیں کہ یوکرائن کی فوج اور ریاست کو محض چند دنوں میں شکست دینا ممکن نہیں ہوگا۔ اگر ایسا ہو تو روس اور یوکرائن کے محنت کش طبقے کو انتہائی بھیانک صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا؛ طویل مدتی اور خونریز جنگ، جس میں محنت کشوں کی قربانی دی جائے گی۔ جنگ کا نتیجہ چاہے جو بھی نکلے، یوکرائنی اور روسی شاؤنزم نئی حدوں کو چھونے کی طرف جائے گا اور یوکرائنی اور روسی محنت کشوں کے بیچ تعلقات کئی دہائیوں تک متاثر رہیں گے۔ چنانچہ، عوام کے بیچ مصالحت کی جدوجہد، ہر قسم کی شاؤنزم کے خلاف بھرپور جدوجہد آج بین الاقوامیت پسند کمیونسٹوں کا اہم اور فوری فریضہ بن چکا ہے۔روسی کمیونسٹوں کا اہم ترین فریضہ روسی فوج کی مداخلت کی براہِ راست مخالفت کرنا ہے۔ ”روسی آبادی کا تحفظ“ اور ”نازیوں کے خلاف لڑائی“ جیسی باتیں کر کے آپریشن کو جائز قرار دینا بین الاقوامیت پسندی کے اصولوں سے براہِ راست غداری ہے۔ اس حوالے سے روسی کمیونسٹ پارٹی کا مؤقف شدید نقصان دہ رہا ہے، جس نے پہلے پیوٹن کی جانب سے دونباس کی ریاستوں کو تسلیم کرنے کا ساتھ دیا اور پھر دستوں کو بھیج کر فوجی آپریشن کرنے کو بھی قبول کیا۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ ایک ایسے عرصے میں کیا جا رہا ہے جب ماسکو سے لے کر ولادیوستوک تک کمیونسٹ پارٹی کے اراکین کو جبر کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پارٹی کی صفوں میں موجود مستقل مزاج کمیونسٹوں کو اس بات کے خلاف شدید احتجاج کرنا چاہیے کہ قیادت نے نہ صرف روسی شاؤنزم کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے ہیں بلکہ اس میں شریکِ عمل بھی ہے۔ یہ تمام حقیقی کمیونسٹوں کے لیے دوسری انٹرنیشنل کے انہدام کے اسباق یاد کرنے کا وقت ہے؛ یہ وقت سوشل شاؤنسٹوں کے خلاف لینن کی جدوجہد اور ان اصولوں کو یاد کرنے کا ہے جس کی بنیاد پر کمیونسٹ انٹرنیشنل قائم کی گئی تھی!ہم یوکرائن، روس اور دونباس کے کمیونسٹوں سے جنگ کی مخالفت کرنے کی اپیل کرتے ہیں۔ ہم روسی فوج کے سپاہیوں سے اپیل کرتے ہیں کہ مجرمانہ احکامات کو بجا لانے سے انکار کریں۔ ہم تمام اقسام کی شاؤنزم کے خلاف لڑائی اور عوام کی بین الاقوامی یکجہتی کی اپیل کرتے ہیں۔فوجی مداخلت نا منظور!روسی سامراجیت نا منظور!ہر طرح کا شاؤنزم نا منظور!عوام کے بیچ جنگ مردہ باد! طبقات کے بیچ جنگ زندہ باد!