فلسطین: غزہ پر اسرائیلی فوج کشی نامنظور! جدوجہد آخری فتح تک!

7 اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کا حملہ ایک حیران کن جھٹکا ثابت ہوا جس نے اسرائیلی انٹیلی جنس اور عسکری قیادت کو حیران و پریشان کر دیا لیکن ہمارے لئے یہ کوئی انہونی واقعہ نہیں ہونا چاہیے۔ یہ نیتن یاہو کی اسرائیلی تاریخ کی سب سے زیادہ عوام دشمن دائیں بازو حکومت کی جانب سے فلسطینیوں پر جابرانہ ظلم و ستم کا براہ راست نتیجہ ہے۔

[Source]

انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

اس حملے میں غزہ سے ہزاروں راکٹ داغے گئے جن میں سے درجنوں اسرائیلی ’آئرن ڈوم‘ میزائیل کش دفاعی نظام کو پار کر گئے جبکہ حماس کے کئی سو جنگجو دنیا کی سب سے زیادہ حفاظتی اقدامات سے لیس سرحدی باڑ کو روندتے ہوئے اسرائیلی سرزمین پر سرحدی قصبوں اور اسرائیلی فوجی تنصیبات پر حملہ آور ہو گئے۔ نتیجتاً کئی سو اسرائیلی ہلاک ہو چکے ہیں (اس تحریر کے وقت 600 سے زائد ہلاک اور 2 ہزار سے زائد زخمی)۔ ابتدائی حملے کے چوبیس گھنٹوں بعد بھی لڑائی جاری ہے جس میں 22 اہداف میں سے 8 مقامات پر فلسطینی کمانڈوز کا قبضہ جاری ہے۔ نئے کمانڈوز غزہ سے اسرائیل میں داخل ہو رہے ہیں جبکہ درجنوں اسرائیلی فوجیوں اور شہریوں کو قیدی بنا کر غزہ لے جایا جا چکا ہے۔ حماس کے جنگجوؤں نے ایک عسکری اڈہ روند ڈالا ہے، اسرائیلی ٹینک اور دیگر عسکری سازوسامان تباہ کئے گئے ہیں، اسرائیلی عسکری کمانڈروں جن میں اسرائیلی ڈیفنس فورسز (IDF) کے ایک میجر جنرل نمرود الونی کا نام بھی لیا جا رہا ہے، قیدی بنا لئے گئے ہیں۔

اسرائیلی ریاست پوری دنیا میں رسوا ہو چکی ہے اور اس کا ردعمل انتہائی وحشی اور خوفناک ہو گا۔ نتین یاہو نے ایک ”جنگی صورتحال“ کا اعلان کر دیا ہے اور جوابی بمباری کر رہا ہے جس کے نتیجے میں تاحال 300 فلسطینی ہلاک اور 1 ہزار 600 زخمی ہو چکے ہیں۔ اسرائیل نے فوراً غزہ پٹی کی بجلی کاٹ دی ہے جس کے 21 لاکھ فلسطینی شہریوں پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے اور پہلے سے تباہ حال انفراسٹرکچر اور صحت کا نظام مکمل طور پر برباد ہو جائے گا۔

مغربی سامراجی حکومتوں کی منافقت

مغربی سامراجی حکومتیں اس وقت ”اسرائیل کو اپنا دفاع کرنے کا حق ہے“ کی بات کر رہی ہیں۔ امریکی صدر، فرانسیسی صدر اور برطانیہ میں سٹارمر جیسے اصلاح پسند قائدین مل کر اسرائیل پر حملے کی مذمت کرنے کا منافقانہ رونا دھونا کر رہے ہیں لیکن کئی دہائیوں سے جاری اسرائیلی جارحیت پر منہ بند کئے بیٹھے ہیں۔

وہ اس حقیقت سے انکاری ہیں کہ نیتن یاہو کی سفاک حکومت میں مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم کی فلسطینی آبادیوں پر انتہائی دائیں بازو کے یہودی آبادکاروں کا ظلم و جبر مکمل طور پر بے لگام ہو چکا ہے جس کو اسرائیلی سیکورٹی فورسز کی جانب سے ہر قسم کی درپردہ اور پس پردہ معاونت اور گارنٹی حاصل ہے۔ فلسطینی نوجوانوں کی جانب سے غاصبانہ قبضے کے خلاف مزاحمت کی ہر کوشش کا جواب اسرائیلی ڈیفنس فورسز نے منصوبہ بند دیوہیکل تباہی اور جبر کے ذریعے دیا ہے جس میں لامتناہی حملے اور ٹارگٹ قتل شامل ہیں جن کا انجام جولائی میں جنین پر ہولناک فوج کشی پر منتج ہوا۔ اس سب کے ساتھ مسلح آبادکار مسلسل بھیڑیوں کی طرح فلسطینی عوام کو نوچ رہے ہیں۔ مغربی پٹی، مشرقی یروشلم اور اسرائیل سے ہزاروں فلسطینی نوجوان، جن میں کئی کمسن شامل ہیں، گرفتار ہیں اور کسی عدالتی کاروائی کے بغیر جیلوں میں پڑے گل سڑ رہے ہیں۔ لیکن دوسری طرف ایک بھی مجرم آبادکار گرفتار نہیں ہوا اور نہ ہی کسی ایک فرد کو کسی قسم کی سزا دی گئی ہے۔

2023ء کے آغاز سے اسرائیل ایک سیاسی بند گلی میں پھنسا ہوا ہے اور نیتن یاہو کی عدالتی اصلاحات کے خلاف دیوہیکل احتجاجوں نے پورے ملک کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے جبکہ صیہونی حکمران طبقہ شدید اختلافات میں ڈوبا ہوا ہے۔ نیتن یاہو کی اپنی سیاسی بقاء کی جنگ نے یہودی دائیں بازو کے شدید انتہاء پسندوں اِتامار بن گویر اور بازالیل سموتریچ کو تاریخی موقع دیا کہ وہ اپنے بِلوں سے نکل کر اسرائیلی ریاست میں طاقتور عہدے حاصل کر لیں۔ ان کا پروگرام ایک ”نیا نقبہ“ (1948ء میں فلسطینیوں کی وسیع پیمانے پر نسل کشی جس کے بعد فلسطین میں اسرائیل کے قیام کا اعلان کر دیا گیا تھا) برپاء کر کے مغربی پٹی، مشرقی یروشلم، گولان ہائٹس اور غزہ پر قبضہ کر کے اس خطے سے پوری فلسطینی عوام کا صفایا کرنا ہے۔

نیتن یاہو اور صیہونی ڈسٹوپیائی ریاست کے حامیوں نے ایک پوری قوم پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے، ان کی اپنی ہی زمین پر نسل کشی کی جا رہی ہے جبکہ اسرائیل کو اس ہولناک تسلط کے کھیل سے بچانے کی ہر ممکن کوشش بھی کی جاتی ہے، یہ سب موجودہ صورتحال کے ذمہ دار ہیں۔ ایک قوم کے بنیادی جمہوری حقوق صلب کر کے، انہیں تباہ و برباد کر کے، مسلسل ان کی زمینوں اور گھروں پر قبضے کر کے، انہیں قتل و غارت، گرفتار، ٹارچر اور مسلسل غربت کی چکی میں پیس کر یہ امید نہیں کی جا سکتی کہ جلد یا بدیر اس ساری تباہ کاری کا دیوہیکل جواب نہیں ملے گا۔

چند دن پہلے یروشلم میں الاقصیٰ کمپلیکس پر کئی سو یہودی انتہاء پسندوں نے دھاوا بول دیا جن کا اعلان کردہ عظم ہے کہ مسجد کو ریزہ ریزہ کر کے اس کی جگہ ایک یہودی مندر بنانا ہے۔ یہ ایک سوچی سمجھی اشتعال انگیزی تھی۔ الاقصیٰ مسجد اسلام میں تیسرا سب سے مقدس مقام ہے اور اس لئے اس پر صیہونی انتہاء پسندوں کا قبضہ کھلے عام اشتعال انگیزی ہے۔ اس سارے کھیل میں اسرائیلی پولیس نے کھلے عام معاونت اور حفاظت فراہم کی۔ مقدس مقام کی اس شرمناک تحقیر نے موجودہ حملے کا فوری جواز فراہم کر دیا جسے حماس نے چند دن بعد لانچ کر دیا ہے۔ عالمی میڈیا نے دانستہ طور پر اس سارے واقعے کو پس پشت ڈال دیا ہے تاکہ سارا الزام ”پاگل پن پر مبنی فلسطینی پر تشدد اقدامات“ پر ڈال دیا جائے۔

مثال کے طور پر بی بی سی کی کوریج بہت دلچسپ ہے۔ بی بی سی نے کسی سیاق و سباق کا حوالہ دیے بغیر حماس کی جانب سے راکٹ حملوں کے بارے میں بتانا شروع کر دیا جس میں یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ فلسطینی عوام کو کن حیوانی حالات کا سامنا ہے۔ بی بی سی مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں فلسطینیوں پر صیہونی آبادکاروں کے حملوں کی رپورٹنگ بھی نہیں کرتا اور کہیں بھی یہ نہیں بتایا گیا کہ صرف اس سال 200 سے زائد فلسطینیوں کو قتل کیا جا چکا ہے۔

جو ”فلسطینی دہشت گردی“ کا واویلا مچا رہے ہیں انہیں یاد ہونا چاہیے کہ جب 2018ء میں فلسطینیوں نے مزاحمت کی پرامن تحریک ”واپسی کا عظیم مارچ“ کا آغاز کیا تھا تو اسرائیلی ریاست نے گولیاں مار مار کر کئی سو نہتے فلسطینیوں کو قتل کر دیا تھا جن میں 46 کمسن بھی شامل تھے۔ وہی لوگ جو آج ”دہشت گردی“ کا رونا رو رہے ہیں اس وقت کہاں تھے جب 2008-09ء میں ”آپریشن کاسٹ لیڈ“ کے دوران اسرائیل نے 1 ہزار 391 فلسطینیوں کو قتل کر دیا تھا جن میں 318 کمسن بھی شامل تھے، 3 ہزار 500 گھر تباہ کر دیے تھے جس کے بعد ہزاروں بے گھر ہو گئے تھے اور غزہ کے دیگر انفراسٹرکچر اور کلیدی تنصیبات کو زمین بوس کر دیا تھا۔ اس وقت یہ انسانیت کے علمبردار کہاں تھے جب 2014ء میں ”آپریشن پروٹیکٹیو ایج (Operation Protective Edge)“ کے دوران اسرائیل نے 2 ہزار 203 فلسطینیوں کو قتل کر دیا تھا جن میں 528 کمسن شامل تھے، 18 ہزار سے زیادہ گھر تباہ یا ناکارہ کر دیے تھے جس سے 1 لاکھ سے زائد فلسطینی بے گھر ہو گئے تھے۔ یہ صرف حالیہ مثالیں ہیں۔

کارل مارکس نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ’فرانس میں خانہ جنگی‘ میں لکھا تھا کہ:

”پارٹی آف آرڈر (1848ء میں فرانسیسی جمہوریہ دوئم کے وقت شاہ پرستوں اور قدامت پرستوں کی پارٹی) اپنے مظلوموں کے ساتھ خونی کھلواڑ میں تباہی و بربادی کا واویلا کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی۔ یہ ثابت کرتا ہے کہ ہمارے زمانے کا سرمایہ دار اپنے آپ کو پرانے بیرن (شاہی اشرافیہ کا ممبر) کا حقیقی وارث سمجھتا ہے، جو یہ سمجھتا تھا کہ عوام کے خلاف اس کے ہاتھ میں ہر ہتھیار جائز ہے جبکہ عوام کے ہاتھ میں کسی قسم کا ہتھیار ہونا ہی جرم ہے“۔

پوری صورتحال کو ایسے پیش کیا جا رہا ہے جیسے یہ دو متوازن قوتوں کے درمیان جنگ ہے۔ یہ سفاک جھوٹ ہے۔ یہ ایک طاقتور اور جارحانہ سامراجی ریاست اور ایک کمزور محکوم قوم کے درمیان جدوجہد ہے جو اپنا دفاع کرتے ہوئے اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہی ہے۔

اسرائیلی حکمران ٹولہ اپنے جارحانہ اقدامات کو ”دفاع“ کے فریب میں لپیٹ کر پیش کرتا ہے۔ وہ انجیل کا حوالہ دیتے ہیں کہ ”آنکھ کے بدلے آنکھ، دانت کے بدلے دانت، زندگی کے بدلے زندگی“۔ لیکن یہ کبھی بھی زندگی کے بدلے زندگی کا سوال نہیں ہوتا۔ اسرائیلی اپنے ایک شہری کی موت کے بدلے سینکڑوں فلسطینیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں۔ موجودہ جنگ میں بھی یہی ہو گا۔ اسرائیلی حکمران اپنی حالیہ بے عزتی کی بہت بھاری اور خونی قیمت وصول کریں گے۔ قتل عام کا ابھی محض آغاز ہوا ہے۔

اسرائیلی ڈیفنس فورسز غزہ کی سرحد پر ہزاروں فوجیوں کو مجتمع کر رہی ہیں تاکہ کمانڈوز کا صفایا کر کے دوبارہ کنٹرول حاصل کیا جا سکے۔ لیکن یہ کام توقعات سے زیادہ مشکل ثابت ہو رہا ہے۔ نیتن یاہو نے ”دیوہیکل بدلہ“ لینے اور غزہ کو ایک ویران جزیرہ بنانے کی دھمکی دی ہے۔ اس کے لئے اسرائیلی غزہ پر فوج کشی کر سکتے ہیں تاکہ حماس کو تباہ و برباد کر دیا جائے جس کے نتیجے میں مزید ہزاروں بے گناہ شہری قتل ہوں گے۔ فلسطینیوں پر اسرائیلی خونی جبر کی ناکامی کا نتیجہ یہ ہے کہ مزید جبر کیا جائے!

لبنان کے ساتھ شمالی اسرائیلی سرحد پر حزب اللہ کے ساتھ ممکنہ نیا محاذ اسرائیلی عسکری حکمت کاروں کے لئے پریشانی بنا ہوا ہے۔ حزب اللہ نے شیبا فارمز پر میزائیل داغے ہیں جن پر لبنان اور اسرائیل دونوں کے درمیان جھگڑا ہے اور فی الحال یہ علاقہ اسرائیل کے قبضے میں ہے۔ اسرائیل کے محدود اور ہوشیار جواب کا مقصد ہی یہ تھا کہ صورتحال مزید آگے نہ بڑھے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حزب اللہ بھی فی الحال علامتی مزاحمت سے آگے بڑھنا نہیں چاہتی۔ اگر اسرائیل غزہ پر فوج کشی کرتا ہے تو پھر ممکنہ طور پر حزب اللہ اپنا موقف تبدیل کرنے پر مجبور ہو جائے گی۔

بہرحال ایک بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے۔ اگرچہ اسرائیل غزہ پر بمباری کر سکتا ہے، اس کا گلا گھونٹ سکتا ہے، فوج کشی کر کے اسے ریزہ ریزہ کر سکتا ہے، جیسے ماضی میں بھی کئی دفع کیا جا چکا ہے، لیکن اس پر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے قبضہ نہیں کیا جا سکتا۔ 2005ء میں ایرئل شیرون کی غزہ سے پسپائی اور 2014ء میں غزہ پر ہزیمت آمیز فوج کشی نے ثابت کر دیا ہے کہ 21 لاکھ سے زائد آبادی کو عسکری جبر کے ذریعے زیادہ عرصہ دبایا نہیں جا سکتا۔

موجودہ جنگ اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ 1993ء میں اوسلو معاہدے کے بعد فلسطینی اتھارٹی کا قیام ایک شاطر چال تھی تاکہ فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (PLO) کی صورت میں موجود سابقہ فلسطینی مزاحمت کو ایک ایسی قوت میں تبدیل کر دیا جائے جو اسرائیلی ”امن“ کی ضامن بن کر اپنی ہی قوم پر پولیس بن کر مسلط ہو جائے۔ آج یہ غلیظ اور مکروہ مناظر ہمارے سامنے ہیں کہ فلسطینی صدر محمود عباس اسرائیل کو موجودہ بحران کے لئے مورد الزام ٹھہرا رہا ہے جبکہ اسی دوران اس کی فلسطینی اتھارٹی اسرائیل کے ساتھ اتحاد میں مغربی کنارے میں بغاوت کرنے والے فلسطینی نوجوانوں کو کچلنے کا گھناؤنا جرم کر رہی ہے۔

اگرچہ یہ بھی ممکن ہے کہ نیتن یاہو کے جانی دشمن یائر لاپید اور بینی گانتز ایک ایمرجنسی قومی حکومت میں شامل ہو جائیں بہر حال اسرائیل میں نیتن یاہو اور حزب اختلاف کے درمیان اس تاریخی حملے کے سامنے اتحاد کے مناظر اسرائیلی حکمران طبقے میں مسلسل گہری ہوتی دراڑوں کی پردہ پوشی نہیں کر سکتے۔ یہ مصنوعی اتحاد ناگزیر طور پر واقعات کے ہتھوڑوں میں پاش پاش ہو جائے گا۔ لیکن حزب اختلاف کا سر تسلیم خم کرنا ثابت کرتا ہے کہ صیہونی دائیں اور ”بائیں“ بازو میں فرق اس وقت ناپید ہو جاتا ہے جب سامنے فلسطینی قومی جدوجہد اور غاصبانہ قبضے کا سوال ہو۔

امریکی سامراج اور صیہونی دونوں برابر قصوروار ہیں

امریکی صدر بائیڈن نے فوری طور پر اسرائیل کی مکمل حمایت کا اعلان کرتے ہوئے ”ہر قسم کی معاونت“ کی یقین دہانی کرائی ہے اور کہا ہے کہ اس کی ”۔۔حکومت اسرائیلی سیکورٹی کی غیر متزلزل اور ٹھوس حمایت کرتی ہے“۔ ظاہر ہے کہ اس نے اسرائیلی جبر کے خلاف فلسطینی قوم کے مزاحمتی حق کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ بائیڈن خطرناک پانیوں میں تیر رہا ہے کیونکہ نیتن یاہو کی یہودی بالادستی پسند حکمت عملی نے امریکہ میں صیہونیت اور اسرائیل کے لئے حمایت کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ لیکن بائیڈن سے اور توقع بھی کیا کی جا سکتی ہے کیونکہ امریکہ تو اسرائیل کو سالانہ 3.6 ارب ڈالر کی عسکری امداد فراہم کر رہا ہے۔ امریکی سامراج کے لئے مشرق وسطیٰ میں اسرائیل اس کا حقیقی ضامن ہے اور جب بھی فیصلہ کن گھڑی ہو گی تو وہ ہمیشہ صیہونیوں کے ساتھ ہی کھڑا ہو گا چاہے پوری دنیا میں کتنی ہی تنقید ہو۔

امریکی سامراج موجودہ صورتحال کا اتنا ہی قصوروار ہے جتنا نیتن یاہو اور صیہونی کیونکہ وہ اسرائیل کو ”جمہوریت“ کا قلعہ بیان کر کے مسلسل اس کی حمایت کر رہا ہے (یعنی مشرق وسطیٰ میں یہ امریکی سامراج کی سب سے اہم چوکی ہے)۔

حالیہ سالوں میں بائیڈن نے نیتن یاہو پر نرم تنقید اس لئے کی کیونکہ اس کی پاگل پن پر مبنی پالیسیاں خطے میں استحکام اور اسرائیل کی عالمی حمایت کے لئے خطرہ بن چکی تھیں۔ اب یہ خطرہ سب کے لئے حقیقت بن چکا ہے۔

موجودہ جنگ بائیڈن کی اسرائیل اور سعودی بادشاہت کے درمیان ایک معاہدے کی کوششوں پر پانی پھیر دے گی۔ ایسا کوئی بھی معاہدہ، ابراہیم معاہدے اور اسرائیل اور عرب ریاستوں کے درمیان ’معمول‘ کے تعلقات کی خواہش، سب کچھ مستقبل قریب کے لئے کھٹائی کا شکار ہو چکا ہے۔ سفاک سعودی حکمرانوں کو بھی بہرحال سعودی عوام اور عرب دنیا میں اسرائیل مخالف شدید نفرت کو مد نظر رکھنا پڑتا ہے۔

لیکن غزہ پر اسرائیلی فوج کشی کے امکانات، فلسطینی اتھارٹی کا ممکنہ انہدام اور مغربی کنارے پر مکمل اسرائیلی قبضہ پورے مشرق وسطیٰ کو آگ میں جھونک دے گا اور یہی فکر واشنگٹن میں بیٹھے جغادریوں کی نیندیں حرام کر رہی ہے۔ یہ ساری صورتحال لمحہ بھر میں انقلابی کشمکش اور سماجی انتشار میں تبدیل ہو سکتی ہے۔

فلسطینی نوجوانوں کی اولالعزمی اور نظم، جنہوں نے پچھلے دو سالوں میں مغربی کنارے میں فلسطینی جدوجہد کے لئے ایک پوری نئی نسل کھڑی کر دی ہے، نے فلسطینی حقوق کے مکمل اعتراف اور تحفظ کے بغیر فلسطین اور مشرق وسطیٰ کے لئے کسی قسم کے ’امن‘ کے فریب کو ننگا کر دیا ہے۔

حماس کے حملے نے ایک گہرے بحران کو جنم دیا ہو گا لیکن یہ بحران پہلے سے ہی پک رہا تھا۔ درحقیقت حماس کی اسرائیل کے ساتھ براہ راست جنگی حکمت عملی نے واضح کر دیا ہے کہ فلسطینی نوجوانوں میں مزاحمت کا جذبہ شدت اختیار کر رہا ہے۔ نوجوان عمل پر یقین رکھتے ہیں، انہیں کھوکھلی لفاظی یا ایسا کوئی معاہدہ قابل قبول نہیں جو ان کی امنگوں کو کمزور کرتے ہوئے صیہونی پنجہ مضبوط کرے۔ اس دوران نیتن یاہو کی سربراہی میں صیہونی ریاست بھی اپنے قدم جما رہی ہے اور موجودہ صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فلسطینیوں کے خلاف قومی جارحیت کو ابھار رہی ہے تاکہ ایک طرف اپنی سماجی حمایت مضبوط کی جائے اور دوسری طرف ان سماجی پرتوں کو بھی اپنے پیچھے لگایا جائے جو ماضی میں دائیں بازو کے پاگل پن کے خلاف دیوہیکل حجم میں متحرک تھیں۔

اسرائیلی عوام کو ایک مرتبہ پھر صیہونی ریاست اور اس کے غاصبانہ قبضے کی حمایت میں گھسیٹا جا رہا ہے۔ حکومت کی عدالتی اصلاحات کے خلاف تحریک کو فوری طور پر معطل کر دیا گیا ہے۔ نیتن یاہو مخالف سابق فوجی گروہ جس نے پہلے بطور ریزروسٹ فورس خدمات سے انکار کر دیا تھا، آخیم لے نیشیک (مسلح بھائی اور بہنیں)، نے اعلان کیا ہے کہ ”مسلح بھائی اور بہنیں تمام متعلقہ افراد سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اسرائیل کے دفاع کے لئے فوری طور پر بلا جھجک متحرک ہوں“۔

لیکن کچھ تنقیدی آوازیں موجود ہیں جو بہادری سے درست پوزیشن لے رہی ہیں اور اس بحران میں حکومتی ذمہ داری پر شدید تنقید کر رہی ہیں۔ ایک اور سابق اسرائیلی فوجیوں کی تنظیم ’خاموشی کو توڑتے ہوئے‘ نے حماس کی مذمت کرتے ہوئے نشاندہی کی کہ کس طرح ”ہماری یہودی بالادستی پسند حکومت نے ہمیں یہاں لا کھڑا کیا ہے“۔ بائیں بازو کی پارٹی ہاداش کے اسرائیلی ممبر پارلیمنٹ اوفر کاسیف نے بیان دیا ہے کہ ”میں مسلسل سچ بولتا رہوں گا، غزہ کی جابرانہ اور مجرمانہ ناکہ بندی اور یہودی بالادستی کی ریاست ختم کرو، یہی خونریزی کے ذمہ دار ہیں اور ان کا خاتمہ ہی ہم سب کو سیکورٹی، امن اور بہتر مستقبل فراہم کرسکتا ہے“۔

لیکن مذمت کر دینا ہی کافی نہیں ہے۔ صرف فسلطینی عوام کی مغربی کنارے، مشرقی یروشلم، غزہ اور خود اسرائیل میں انقلابی پہل گامی ہی غاصبانہ قبضے کے خلاف ایک کامیاب جدوجہد کے لئے معیاری ضامن بن سکتی ہے۔ ہمسایہ ممالک میں موجود عرب عوام کو بھی اس حوالے سے کلیدی کردار ادا کرنا ہے۔ فلسطینی قومی آزادی کی جدوجہد کی حمایت کا مطلب سب سے پہلے مصر، سعودی عرب، قطر، اردن وغیرہ میں رجعتی سامراج نواز ریاستوں کا خاتمہ ہے۔ یہ تمام سرمایہ دارانہ ریاستیں مختلف طریقوں سے موجودہ سٹیٹس کو کی حامی ہیں اور انہیں ایسی کسی انقلابی تحریک کی خواہش نہیں ہے جو ان کا اپنا تختہ الٹنے کی اہلیت رکھتی ہو۔ اس لئے یکجہتی کی زبانی جمع خرچ کے علاوہ انہوں نے پہلے فلسطینی معاونت کے لئے کچھ کیا ہے اور نہ اس مرتبہ کچھ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

محنت کشوں اور نوجوانوں کی عالمی یکجہتی بھی اس بحران کا نتیجہ تراشنے میں انتہائی اہمیت کی حامل ہے جس کی بنیاد تجریدی ’امن‘ اور ’تناؤ میں کمی‘ جیسے لایعنی مطالبات نہ ہوں۔ اقوام متحدہ میں دہائیوں سے موجود قراردادیں اور عالمی معاہدے گل سڑ کر ردی ہو چکے ہیں لیکن فلسطینی آزادی کی تحریک ایک انچ آگے نہیں بڑھ سکی۔ درحقیقت سب کچھ اس کے الٹ ہوا ہے۔ ان کے ذریعے اسرائیلی ریاست مسلسل فلسطینی زمین ہڑپ کرتی جا رہی ہے۔ تحریک کو مندرجہ ذیل نکات پر بالکل واضح اور اٹل ہونا چاہیے:

۔ غزہ کی بمباری اور فوج کشی نامنظور!
۔ سامراجی مداخلت نامنظور! سامراجی ’امن‘ اور اوسلو معاہدے فلسطینیوں کے پیروں کی بیڑیاں ہیں۔
۔ گرین لائن (مغربی کنارے اور غزہ کے ساتھ سرحد) کے دونوں اطراف غاصبانہ قبضے کے خلاف عوامی بغاوت کی جانب بڑھو!
۔ غاصبانہ قبضہ ختم کرو!
۔ تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کرو!
۔ صیہونی آباد کاروں کا قبضہ ختم کرو اور اصل ملکیت بحال کرو!
۔ جبر نامنظور! نسل اور مذہب سے بالاتر تمام اقوام کے برابر حقوق زندہ باد!
۔ پورے فلسطین کی سوشلسٹ فیڈریشن جو مشرق وسطیٰ کی سوشلسٹ فیڈریشن کا حصہ ہو!
۔ فتح تک انتفادہ!