ایران: اساتذہ کی غیر معینہ مدت ہڑتال کی دھمکی اور سماج میں پنپتا آتش گیر غصّہ Share Tweet30 اور 31 جنوری 2022ء کو ایران بھر کے 300 سے زائد شہروں میں اساتذہ نے ٹیچرز کوآرڈینیٹنگ کمیٹی کی قیادت کے تحت ہڑتال کی۔ جلسوں میں لگائے جانے والے نعرے یہ تھے: ”اساتذہ اس بے عزتی کو برداشت کرنے کی بجائے مرنا پسند کریں گے“، ”اگر انصاف ہوتا تو اساتذہ سڑکوں پر نہ نکلتے“، اور ”ہمارے پاس توپیں اور بندوقیں نہیں مگر ہمارے پاس لوگوں کی حمایت ضرور ہے“۔ ہڑتال کی پاداش میں ٹریڈ یونین کے درجنوں اراکین کو گرفتار کیا گیا۔ مگر اساتذہ کا حوصلہ برقرار ہے، جنہوں نے اس مہینے ہفتہ وار ہڑتالیں منظم کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور دھمکی دی ہے کہ اگر ان کے مطالبات پورے نہ کیے گئے تو وہ غیر معینہ مدت کی ہڑتال کی طرف جائیں گے۔[Source]انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریںٹیچرز کوآرڈی نیٹنگ کمیٹی: ایران کی سب سے بڑی غیر سرکاری یونین2018ء سے اساتذہ مسلسل احتجاج کر رہے تھے۔ بالآخر، ان کے خود رو احتجاجوں کے نتیجے میں ٹیچرز کوآرڈینیٹنگ کمیٹی ایک غالب قوت کے طور پر ابھر کر سامنے آئی جو کہ ایک غیر سرکاری ٹریڈ یونین ہے۔ اس نے 2021ء کے موسمِ خزاں سے ملک گیر احتجاج منظم کیے ہیں، اور 10 سے لے کر 13 دسمبر تک کی ملک گیر ہڑتال بھی منعقد کی۔ حالیہ ہڑتال دسمبر میں ہونے والی ہڑتال کا تسلسل تھا، مگر اب اساتذہ تمام مقید ٹریڈ یونین اراکین اور اساتذہ کی رہائی کے مطالبے کے ساتھ ساتھ بلیک لسٹ کیے جانے والے افراد کی بحالی کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔30 اور 31 جنوری کی ہڑتال میں ٹیچرز کوآرڈینیٹنگ کمیٹی نے مندرجہ ذیل مطالبات سامنے رکھے:1۔ اساتذہ کی تنخواہوں کو یونیورسٹی کے لیکچرار کی تنخواہ کا کم از کم 80 فیصد مقرر کرنا۔2۔ مساوی پنشن کا نفاذ۔3۔ سال 1400 (حالیہ ایرانی سال) کے لیے ریٹائرمنٹ پنشن کی ادائیگی۔4۔ آئین کے آرٹیکل 30 کے مطابق مفت تعلیم کا اجراء۔5۔ بلیک لسٹ کیے گئے ٹریڈ یونین کے تمام اراکین اور تمام مقید اساتذہ کی رہائی۔6۔ سٹافنگ ایجنسیوں کے ذریعے اساتذہ کو نوکری دینے کے عمل کا خاتمہ7َ اساتذہ کے سوشل سیکورٹی فنڈ (جس سے پنشن، معذوری اور بیماری کی امداد فراہم کی جاتی ہے) سے لیے گئے تمام پیسوں کی واپسی۔ٹیچرز کوآرڈینیٹنگ کمیٹی نے 31 جنوری کو جاری کیے گئے اپنے اعلامیے میں وضاحت کی: ”استحصال کی چھری ہماری ہڈیوں تک پہنچ گئی ہے۔ ریٹائرڈ اور فعال اساتذہ کے ذریعہ معاش کو بھی سماج کی اکثریت جیسے مسئلہ کا ہی سامنا ہے، یعنی باقی محنت کش طبقے کی طرح بحران کا شکار ہے۔“ قریباً تین چوتھائی ایرانی آبادی غربت میں زندگی گزار رہی ہے، جن میں اساتذہ بھی شامل ہیں، جنہیں 40 لاکھ تومان ماہانہ تک کی کم اجرت دی جاتی ہے۔ حتیٰ کہ کم از کم اجرت، یعنی 1 کروڑ تومان، سے بھی ایک اوسط گھرانے کے ماہانہ اخراجات کا کم از کم 10 فیصد پورے ہو پاتے ہیں!اس دوران، ایرانی سرمایہ دار خونخوار درندوں کی طرح عوام کی اذیتوں پر اپنی دولت میں اضافہ کر رہے ہیں۔ صدر رئیسی نے آنے والے سال (جو 20 مارچ کو شروع ہوگا) کے لیے حکومتی بجٹ میں 20 فیصد کٹوتی کی ہے، جس میں تعلیمی بجٹ کی 16 فیصد سے زائد کٹوتی بھی شامل ہے۔آئین میں مفت تعلیم کی فراہمی کا وعدہ کرنے کے باوجود، ریاست تعلیمی اداروں کی نجکاری کی جانب گئی ہے، حتیٰ کہ سرکاری سکولوں پر بھی منافعوں کے نفرت انگیز منصوبے لاگو کیے ہیں۔ ان منافعوں سے حاصل ہونے والا پیسہ مزید اساتذہ کو نوکری دینے یا ان کی اجرتوں میں بڑھوتری کرنے کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا بلکہ یہ ایرانی سرمایہ داروں اور ریاستی افسر شاہی کی جیبوں میں جاتا ہے۔ نتیجتاً محنت کش طبقے کے لاکھوں بچے تعلیمی سلسلہ ترک کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ملک گیر مزدور تحریک کی جانب بڑھو!اساتذہ کے مطالبات بنیادی طور پر ان مطالبات سے مشابہ ہیں جو ایران بھر میں جاری ہڑتالوں اور احتجاجوں میں کیے جا رہے ہیں۔ صرف اس سال جنوری کے مہینے میں 330 سے ذائد ہڑتالیں اور احتجاج دیکھنے کو ملے ہیں۔ ٹیچرز کوآرڈی نیٹنگ کمیٹی کی جدوجہد نے تمام ایرانی محنت کش طبقے کو متاثر کیا ہے، جسے بے شمار مزدور تنظیموں نے یکجہتی کے پیغامات بھیجے ہیں۔شعبہ تیل کے محنت کشوں کی احتجاجی کونسل نے لکھا: ”اساتذہ ملک بھر میں ہماری آواز کی نمائندگی کر رہے ہیں، جو محنت کش طبقے اور ان کے بچوں کی آواز نہایت خوبصورتی سے بلند کر رہے ہیں۔“ نیشنل سٹیل کے محنت کشوں نے ایک قدم آگے بڑھ کر تمام محنت کشوں اور ٹریڈ یونین اراکین سے اساتذہ کے احتجاجوں کی حمایت کرنے اور اس میں شامل ہونے کی اپیل کی۔ریاست ان احتجاجوں اور ہڑتالوں میں جڑت قائم ہونے کے امکانات سے خوفزدہ ہے۔ ٹیچرز کوآرڈی نیٹنگ کمیٹی کے اراکین کو گرفتار کرنے کی یہی وجہ ہے۔ ریاست اس سے اس لیے خوفزدہ ہے کیونکہ اسے اس کی اہلیت کا اندازہ ہے کہ یہ تمام محنت کش طبقے کو متاثر اور متحد کر سکتی ہے۔ جیسا کہ کوآرڈی نیٹنگ کمیٹی نے وضاحت کی:”ایران کے عوام، اور خصوصاً اساتذہ، آج سے پہلے اپنے حقوق کے بارے میں اتنے شعور یافتہ کبھی نہیں ہوئے، اور جب بھی حکومت نے جبر اور ڈرا دھمکا کر ان کے شعور کو مسخ کرنے کی کوشش کی ہے تو محنت کش طبقے کی جانب سے شاندار مزاحمت دیکھنے کو ملی ہے۔“2018ء سے طبقاتی جدوجہد کی تربیت گاہ میں رہتے ہوئے، محنت کشوں کے شعور میں دیوہیکل جست آئے ہیں، جنہوں نے خود رو احتجاجوں اور ہڑتالوں سے گزر کر ایسی غیر سرکاری مزدور تنظیمیں قائم کی ہیں جو ملک گیر سطح پر ہڑتالیں منظم کرنے کی اہل ہیں۔محنت کش طبقہ قومی سطح پر اپنے بڑھتے ہوئے اتحاد کی قوت اور پُر اعتمادی کو محسوس کر رہا ہے۔ جیسا کہ کوآرڈی نیٹنگ کمیٹی نے وضاحت کی، اس جدوجہد میں ”ٹریڈ یونین کے اراکین (گرفتار ہو کر) انصاف اور آزادی کی قیمت چکانے کو تیار ہیں“۔اس کے ساتھ ٹیچرز کوآرڈی نیٹنگ کمیٹی نے 6-7 اور 13-14 فروری کو دوبارہ ہڑتال کا منصوبہ بنایا ہے۔ اور اگر بھمن مہینے کے آخر (20 فروری) تک ان کے مطالبات پورے نہ کیے گئے تو غیر معینہ مدت کی ہڑتال کا اعلان کیا جائے گا۔ یہ تیزی کے ساتھ ایک بڑی تحریک کو جنم دے سکتی ہے، جو ریاست کے ڈر کو حقیقت میں تبدیل کر دے گی۔ دوسری جانب، اگر تحریک ختم کرنے کی غرض سے سنجیدہ رعایتیں دی گئیں تو وہ سیاسی و معاشی خطرے سے بھرپور ہوں گی، جو متحرک ہونے کے لیے محنت کش طبقے کی دیگر پرتوں کی حوصلہ افزائی کا باعث بنے گا۔ایرانی ریاست مردہ باد!فقط 2021ء میں ایران کے اندر 2 ہزار 410 ہڑتالیں اور احتجاج ہوئے ہیں۔ 2018ء سے پروان چڑھتی طبقاتی جدوجہد ایرانی مزدور تحریک کو طاقتور قوت بنا رہی ہے۔ ایسا ناگزیر طور پر جاری رہے گا، چاہے فوری طور پر جو بھی تبدیلیاں واقع ہوں۔موجودہ صورتحال میں شدت آتی جا رہی ہے، جبکہ صدر رئیسی کی جانب سے عوام کے ذرائع معاش کے اوپر مسلسل حملے عوام کو مزید لڑاکا بنانے کا باعث بن رہے ہیں۔ جواباً، مختلف مزدور تنظیموں نے ہڑتالوں اور احتجاجوں کا سلسلہ مزید بڑھانے کی دھمکی دی ہے۔ ان میں شعبہ تیل کے محنت کشوں کی احتجاجی کونسل بھی شامل ہے، جنہوں نے 31 جنوری کو اعلامیہ جاری کر کے پیغام دیا کہ ”محنت کش طبقے کی تمام پرتیں اجرتوں میں اضافے اور نئے بجٹ میں سبسڈیوں کی کٹوتی کی واپسی کی جدوجہد کے لیے ایک ہو جائیں۔“پچھلے پانچ سالوں میں، ایرانی ریاست نے ملک گیر ہڑتالوں کی بے مثال تحریک، تین بغاوتوں اور بے شمار خود رو ہڑتالوں اور احتجاجوں کا سامنا کیا ہے۔فی الحال اس تحریک کے آگے بڑھنے میں واحد رکاوٹ ایک ایسی ملک گیر سطح کی قیادت کا فقدان ہے جو ان جدوجہدوں کو یکجا کرنے کی اہل ہو۔ ایسی قیادت طبقاتی جدوجہد کے اثرات کے نتیجے میں پروان چڑھ رہی ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ عوام کا لڑاکا عزم پختہ ہوتا جا رہا ہے۔ ایک دفعہ جب وہ فیصلہ کن انداز میں متحرک ہو گئے تو ریاست کو زمین پر موجود کوئی قوت بچا نہیں پائے گی۔