ہندوستان انتخابات: BJP کو ایک غیر معینہ مدت ہڑتال کے ذریعے شکست دو! سوشلسٹ انقلاب ہی واحد حل ہے! Share Tweet[یہ تحریر 10 اپریل 2024ء کو لکھی گئی تھی۔ اُس وقت ہندوستانی الیکشنز کا آغاز نہیں ہوا تھا۔][Source]انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں!19 اپریل سے ہندوستانی پارلیمنٹ کے لئے انتخابات کا آغاز ہو رہا ہے۔ مودی کی سربراہی میں قدامت پرست BJP (بھارتیا جنتا پارٹی) مسلسل دو مرتبہ اقتدار میں رہی ہے جس دوران اس نے عوام سے کیا ایک بھی وعدہ پورا نہیں کیا۔ اس نے عالمی اجارہ داریوں کو عوامی زمین کے دیوہیکل ٹکڑے بیچے ہیں، اقلیتوں اور خواتین کے خلاف خوفناک شاونزم کو بھڑکایا ہے اور غزہ میں اسرائیلی قتل عام کی بھرپور حمایت کی ہے۔حزب اختلاف پارٹیاں گل سڑ رہی ہیں۔ سٹالنسٹ کمیونسٹ پارٹیاں لینن ازم ترک کر چکی ہیں اور عوام سے مسلسل غداری کر رہی ہیں۔ ہندوستانی محنت کش، کسان اور نوجوان اپنی قوتوں پر انحصار کرتے ہوئے ہی مودی اور اس کے محبوب سرمایہ دارانہ نظام کو شکست فاش دے سکتا ہے۔2014ء میں پہلی مرتبہ منتخب ہونے کے بعد مودی نے وعدہ کیا تھا کہ وہ ہر سال 2 کروڑ نوکریاں دے گا اور ہر ہندوستانی کے اکاونٹ میں 1 کروڑ 50 لاکھ ہندوستانی روپیہ ڈالے گا تاکہ پیٹرول کی بڑھتی قیمتوں سے تحفظ حاصل ہو۔ اس کے بعد مودی کی اپنی کابینہ کے وزرا نے شیخی ماری کہ یہ وعدے عوام سے ووٹ لے کر دھوکہ دینے تک ہی محدود تھے! بی جے پی سرکار میں ڈی مونیٹائزیشن (کسی کرنسی نوٹ جیسے ہندوستان میں 5 ہزار روپے کے نوٹ کی گرد ش کو ختم کرنا۔ مترجم)، عوامی اداروں کی نجکاری اور گڈز اینڈ سروسز ٹیکس (GST) کو لاگو کر کے محنت کش طبقے کو مزید نچوڑا گیا اور اڈانی اور امبانی جیسے سرمایہ داروں نے دن رات اپنی تجوریاں بھریں۔ مودی سرکار میں افراط زر اور بیروزگاری کی شرح دیوہیکل ہو چکی ہے۔شدید انسان دشمن پالیسیوں سے دھیان ہٹانے کے لئے بی جے پی سرکار نے نسل، مذہب اور ذات پات کو بے دریغ استعمال کرتے ہوئے طبقاتی اتحاد کو برباد کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ اس زہر قاتل کے خوفناک نتائج مرتب ہوئے ہیں۔ بی جے پی سرکار کے تحت منی پور میں نسلی بنیادوں پر خوفناک بلوے ہوئے جن میں کئی سو اموات ہوئیں اور متعدد خواتین پر ہولناک حملے ہوئے۔اترپردیش میں یوگی ادیتیاناتھ کی قیادت میں بی جے پی سرکار نے بلڈوزروں کے ذریعے مسلم مخالف شہری قانون (CAA) کی مخالفت کرنے والے سرگرم کارکنوں اور حکومت مخالف مظاہرین کے گھروں کو مسمار کر دیا۔ CAA مخالف سرگرم کارکنوں کو مودی حکومت چُن چُن کر جبر کا نشانہ بنا رہی ہے جن میں عمر خالد جیسے افراد کئی سالوں جیلوں میں سڑتے رہے ہیں۔ ان کو انسان دشمن UAPA قانون (غیر قانونی سرگرمیوں کا سدباب ایکٹ) کے تحت چارج کیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں انہیں کئی سال ضمانت لینے کے لئے انتظار کرنا پڑتا ہے۔امن پسند مظاہرین کو جیل میں ڈال دیا جاتا ہے جبکہ اعلانیہ پرتشدد جبر (انوراگ ٹھاکر جیسے وزرا) کے حامیوں اور فسطائی RSS (راشٹریا سوایام سیوک سنگھ: دائیں بازو کی ہندو قوم پرست پیراملٹری تنظیم جس کا سیاسی ونگ BJP ہے۔ مترجم) کے غنڈے دندناتے پھر رہے ہیں۔ نریندرا مودی منی پور کے مسئلے اور اقلیتوں پر تشدد کے معاملے پر خاموش ہے اور درحقیقت CAA اور مذہبی بنیادوں پر امتیاز کے معاملات پر ہٹ دھرمی سے ڈٹا ہوا ہے۔مودی کی پالیسیوں کے خلاف شدید غم و غصہ ہے جس کا اظہار متعدد مرتبہ جدوجہد میں ہوا ہے۔ ہندوستان میں کارپوریٹ نواز زرعی قوانین کے خلاف اور زرعی اجناس کے لئے MSP (کم از کم سپورٹ قیمت) کے حق میں کسانوں کا دیوہیکل احتجاج ہوا۔ اس طاقتور جدوجہد کو محنت کشوں کی وسیع پرتوں کی حمایت حاصل تھی جس نے مودی کو پسپا ہونے پر مجبور کر دیا۔ حال ہی میں ہندوستانی محنت کشوں نے ایک نئے لیبر قانون کے خلاف ہڑتال منظم کی۔ اس قانون کے تحت محنت کش طبقے کا مزید خون چوسنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔جبر اور کرپشنانتخابات سے پہلے مودی فتح حاصل کرنے کے لئے ہر قسم کی سازشیں اور چالاکیاں کر رہا ہے جن میں حزب اختلاف کے افراد کے خلاف جھوٹی قانونی کاروائیاں بھی شامل ہیں۔ اس سال کے آغاز میں جھارکھنڈ کے وزیر اعلیٰ اور حزب اختلاف ’انڈیا‘ الائنس کے ممبر شیبو سورن اور دہلی کے وزیر اعلیٰ ارویند کیجریوال کو مبینہ کرپشن الزامات میں گرفتار کیا گیا ہے۔ حزب اختلاف کی مرکزی پارٹی کانگریس کو بھی 18 ارب ہندوستانی روپے کا قانونی نوٹس انکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ نے بھیجا ہے جسے ”ٹیکس دہشت گردی“ کہا جا رہا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ بورژوا حزب اختلاف کرپٹ ہے (BJP بھی دودھ کی دھلی نہیں ہے) لیکن ایک انتخابی سال میں ان گرفتاریوں اور ٹیکس نوٹس نے لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات ڈال دی ہے کہ مودی سرکار دانستہ دھاندلی کر رہی ہے۔اب ہم یہ بھی سیکھ چکے ہیں کہ ہندوستان میں سیاسی طاقت کس بھاؤ بک رہی ہے۔ پہلے الیکٹورل بانڈ سکیم کے تحت لوگوں کو سیاسی پارٹیوں کو چندہ دینے کی اجازت تھی جبکہ ان کی تفصیلات پوشیدہ رہتی تھیں۔ سپریم کورٹ کے ایک حالیہ فیصلے نے سکیم کو ووٹروں سے دھاندلی قرار دے دیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ SBI (ہندوستانی سٹیٹ بینک) سیاسی پارٹیوں کو ملنے والی تمام رقوم کی تفصیلات 13 مارچ تک الیکشن کمیشن کو جمع کرائے۔SBI کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق تمام سرمایہ دار پارٹیوں کو بڑی اجارہ داریوں سے دیوہیکل پیسے ملے ہیں۔ BJP کو الیکٹورل بانڈز کے ذریعے سب سے زیادہ 6 ہزار 986 کروڑ (10 ملین سے ضرب) ہندوستانی روپے (وصول شدہ فنڈ کا 47 فیصد)، ترینامول کانگریس کو 1 ہزار 397 کروڑ روپے (13 فیصد) اور کانگریس کو 1 ہزار 334 کروڑ روپے (11 فیصد) ملے ہیں جبکہ چھوٹی پارٹیوں جیسے بھارتیہ راشٹرا سامیتی کو 1 ہزار 322 کروڑ روپے، بیجو جنتا دل کو 944 کروڑ روپے اور DMK (ڈراویڈا مونیترا کازہاگام) کو 644 کروڑ روپے ملے ہیں۔ان رشوتوں (یہی سچ ہے) نے خاص طور پر مودی سرکار کی کرپشن کو ننگا کر دیا ہے جو مکمل طور پر سرمایہ داروں کی جیب میں پڑی ہے۔ جس پارٹی کو جتنی رشوت ملی ہے وہ عوام کو اتنی ہی کم جواب دہ ہے اور ان کے دیوہیکل مہربانوں کی توقع یہی ہے کہ وہ امراء کے مفاد میں پالیسیاں لاگو کریں گے۔ یہ ”دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت“ کی اوقات ہے!بورژوا حزب اختلاف کوئی متبادل نہیں ہےپوری دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام شدید بحران کا شکار ہے اور ہندوستان پر بھی اس کے واضح اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ بی جے پی قیادت میں مودی سرکار نے پچھلے دس سالوں میں عوام کی تباہی و بربادی کو نئی بلندیوں پر پہنچا دیا ہے جو بورژوا UPA (یونائیٹڈ پروگریسو الائنس) کی شدید کٹوتیوں اور حملوں سے نڈھال عوام کے غم و غصے کے نتیجے میں اقتدار تک پہنچنے میں کامیاب ہوئی۔BJP نے اپنی پوزیشن کو ہندو قومی شاونزم کی بنیاد پر قائم رکھا ہوا ہے۔ مثلاً ان انتخابات میں ایک بہت بڑی کامیابی رام مندر کی تعمیر بتائی جا رہی ہے اگرچہ یہ ایک مکمل تباہی اور عوامی پیسوں کا دیوہیکل ضیاع ثابت ہوا ہے۔اسی طرح پاکستان مخالف جذبات کو ایک مرتبہ پھر ابھار کر حمایت پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پچھلے 76 سالوں میں ہندوستانی حکمران طبقہ اسی حکمت کو استعمال کرتا آیا ہے اور یہ اب ہر انتخاب سے پہلے ایک طرح کی روایت بن چکی ہے۔ یہ شعلہ بیانی غربت اور بیروزگاری کے سلگتے مسائل سے دھیان ہٹانے کی ایک بھونڈی کوشش ہوتی ہے اور ہمیشہ بٹوارے کے دونوں اطراف عوام کا خون چوسنے والے حکمرانوں کی گرفت مزید مضبوط کرنے میں معاونت کرتی ہے۔لیکن مودی کو حزب اختلاف کی بانجھ کمزوری کا بھی مسلسل فائدہ ہو رہا ہے جو کوئی بنیادی متبادل پیش کرنے سے قاصر ہے۔ حزب اختلاف کی مرکزی پارٹی کانگریس آزادی کے بعد سے ہندوستانی سرمایہ داری کی روایتی پارٹی رہی ہے۔ یہ ایک دائیں بازو کی پارٹی ہے جو بی جے پی کی طرح نجکاری کی سرمایہ دارانہ پالیسیوں کی حامی ہے جنہیں اسی ہندو شاونزم کی مختلف پیکنگ میں لپیٹ کر پسماندہ مذہبی پرتوں کی حمایت جیتنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ان انتخابات میں کانگریس نے پھٹے پرانے پیوند اکٹھے کر کے ایک کثیر پارٹی نام نہاد ”انڈیا الائنس“ بھی بنایا ہے۔ اس فرینکنسٹائن دیو میں کانگریس کے ساتھ علاقائی سرمایہ دارانہ پارٹیاں جیسے DMK (ڈراویڈا منیترا کازاگام)، شیو سینا، TMC (ترینامول کانگریس)، سماج وادی پارٹی، AAP (عام آدمی پارٹی) اور VCK (ویدوتھالائی چیروتھائگال کچی) اور کئی سٹالنسٹ پارٹیاں (CPI، CPI-M،CPI-ML) شامل ہیں۔ اس کا پروگرام یہ ہے کہ مودی کی مخالفت کرنی ہے (اگرچہ اس میں موجود کچھ پارٹیاں پہلے BJP کے ساتھ اتحاد میں شامل تھیں)، ”ہندوستان کے آئین اور جمہوریت“ کا دفاع کرنا ہے اور نام نہاد قومی اتحاد کو قائم رکھنا ہے۔ لیکن محنت کشوں اور سرمائے کے درمیان کوئی ”اتحاد“ نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ دونوں ایک دوسرے کی موت ہیں۔نام نہاد ”کمیونسٹ“ سرمایہ داروں کی روایتی پارٹی کانگریس اور انتہائی رجعتی شیو سینا جیسی پارٹی کے ساتھ بغل گیر ہیں اور تاریخی طور پر ہندوستانی سرمایہ داری کے محافظ رہے ہیں۔ ان کو ویسے ہی شرم سے ڈوب مر جانا چاہیے۔ اس نام نہاد ”الائنس“ کے پیچھے ہندوستانی سرمایہ داری کے مفادات کارفرما ہیں جو عوام کو کوئی متبادل دینے سے قاصر ہیں۔ ہندوستانیوں کو ایک آزاد، بہترین معیار صحت اور تعلیم کی سہولیات، نوکریاں اور مناسب رہائش وغیرہ کی اشد ضرورت ہے۔ انڈیا الائنس میں موجود پارٹیوں کے پاس اس حوالے سے کوئی پروگرام موجود نہیں ہے اور سرمایہ داری کے نامیاتی بحران میں ان کی پالیسیاں محنت کش طبقے کو مزید کچلنے کا کردار ہی ادا کریں گی۔ہندوستانی سرمایہ داریاگرچہ کانگریس اور انڈیا الائنس مودی سے پہلے ”اچھے دنوں“ کی طرف واپسی کا پرچار کر رہے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ بٹوارے کے 76 سالوں میں سرمایہ دارانہ بنیادوں پر عوام کے حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ آئین میں سوشلزم اور سیکولرزم کی طرف اشارہ عوام کو دھوکہ دینے کی ایک چال تھی۔آئین سمیت ہندوستان کے تمام بورژوا اداروں (عدلیہ، پارلیمنٹ اور نتظامیہ) کو برطانوی سامراج نے تعمیر کیا تھا۔ آزادی کے بعد نئی ہندوستانی ریاست سامراجیوں کی بنائی ہوئی بورژوا ریاست اور سرمایہ دارانہ نظام کا تسلسل تھی جس کا مقصد استحصال تھا اور ہے۔ محنت کش طبقہ کبھی بھی اس ریاست کی حدود میں رہتے ہوئے فائدہ نہیں اٹھا سکتا اور جب تک سرمایہ داری جاری رہے گی اس وقت تک استحصال جاری رہے گا۔مودی کی دس سالہ حکومت درحقیقت ہندوستانی سرمایہ داری کے بڑھتے ہوئے بحران کا شاخسانہ ہے جس میں حکمران طبقے کے سب سے زیادہ مفاد پرست اور تنگ نظر نمائندے اپنی طاقت کو قائم و دائم رکھنے کے لئے جمہوری اقدار اور خوبیوں کو پیروں تلے روند رہے ہیں۔ ہندوستانی بورژوازی نہرو اور پھر اس کے بعد آنے والی تمام حکومتوں میں محنت کشوں کا بدترین استحصال کرتی رہی ہیں۔ لیکن ماضی میں ریاستی اداروں اور ”جمہوریت“ کے مکروہ چہروں پر ”عزت“ کا پردہ پڑا ہوا تھا جسے مودی سرکار نے نوچ کر پرے پھینک دیا ہے۔ہندوستانی جمہوریت کے تمام ستون اس وقت سرمایہ دارانہ حکمرانی کے کارندوں کے طور پر ننگے ہو چکے ہیں جنہیں زیادہ سے زیادہ منافعوں کے لئے جوڑ توڑ، سرکشی اور نظر اندازی کے ذریعے پامال کیا جا سکتا ہے۔ مودی اپنی پوزیشن کو قائم رکھنے کے لئے سماج میں موجود رجعتی ترین اور پسماندہ ترین تعصبات کا بے شرم سہارا لے رہا ہے۔ ماضی میں بھی مذہبی اقلیتوں اور کشمیر سے شمال مشرق تک مظلوم قومیتوں پر حملے ہوتے تھے اور صف اول سیاست دانوں پر مسلسل کرپشن کیس بنائے جاتے تھے لیکن اب اس سارے کھلواڑ میں بے مثال تاریخی شدت آ چکی ہے۔اس وقت مجموعی طور پر ہندوستان جتنا امیر ہو چکا ہے اس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ یہ پرانے سامراجی آقاؤں کو پیچھے چھوڑ کر دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بن چکا ہے۔ دنیا کے امیر ترین افراد یہاں بستے ہیں۔ لیکن عوامی غربت کی انتہاوں میں اضافے کی کوئی تاریخی مثال محال ہے، کمائی میں عدم مساوات دیوہیکل ہے اور عالمی ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس میں ہندوستان 134 ویں نمبر پر شرمندہ بیٹھا ہے۔ بیروزگاری اور بے قابو افراط زر زندگی کا معمول بن چکے ہیں۔امرا کی ثروت کا کوئی اندازہ نہیں جن کے قہقہوں میں غربا کی چیخیں دب رہی ہیں۔ دہلی کی جھونپڑ پٹیوں کو پچھلے سال G20 اجلاس سے پہلے خالی کرا لیا گیا تھا تاکہ مودی کو شرمندگی نہ ہو۔ 2020ء میں گجرات میں بھی اسی طرح کے اقدامات کے ذریعے کچی آبادیوں کو صدر ٹرمپ کے دورے اور امبانی کے بیٹے کی 1 ہزار کروڑ روپے مالیت کی منگنی تقریب کے لئے ”صاف“ کیا گیا تھا۔قصہ مختصر پور پور سے خون رستی سرمایہ داری کا مکروہ چہرہ اب سب کے سامنے ننگا ہو چکا ہے۔ حکمران طبقے کا ایک دھڑاپریشان ہے کہ مودی سرکار جمہوری فریب کی جس تیزی سے دھجیاں اڑا رہی ہے وہ پوری بورژوا حکمرانی کی ساکھ تباہ و برباد کر رہا ہے۔ حالیہ مہینوں میں سپریم کورٹ نے بی جے پی سرکار کے خلاف فیصلے دیے ہیں (چندوں کی تفصیل وغیرہ) جو حکمران طبقے میں بڑھتی لڑائیوں کا اظہار ہے۔ یہ پھر عمومی بحران کا شاخسانہ ہے۔کمیونسٹ پارٹیاںہندوستان میں لبرلز، نام نہاد لیفٹ اور کمیونسٹ حکمران طبقے کے ”مودی مخالف“ دھڑے کی نوکری کر رہے ہیں۔ وہ ہر وقت سینہ پیٹ کر ”فسطائیت“ کا رونا روتے رہتے ہیں۔ وہ روایتی انداز میں محنت کش طبقے کا استحصال چاہتے ہیں تاکہ وہ لبرل اقدار کے پرچار، سیکولرزم اور بورژوا جمہوریت کا ڈھونگ جاری رکھ سکیں۔سٹالنسٹ کمیونسٹ پارٹیوں کا استدلال ہے کہ انڈیا الائنس بی جے پی کی ”فسطائیت“ کو شکست دینے اور آئین کو بچانے کے لئے ناگزیر ہے۔ ناامیدی اور خوف و ہراس کا یہ پروپیگنڈہ ان کی موقع پرستی کے لئے محض ستر پوشی ہے۔ جدوجہد اور سوشلسٹ انقلاب کے انقلابی پروگرام کے برعکس یہ ”جمہوری“ سرمایہ دارانہ پارٹیوں کی دم چھلا بنی ہوئی ہیں اور محنت کش طبقے میں آئینی دھوکے کے بیج بو رہی ہیں۔مودی دائیں بازو کا ایک قدامت پرست ہے۔ اس کے ذاتی طور پر کچھ فسطائی خیالات ہوں گے اور اس کی حمایت فسطائی RSS کرتی ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہندوستان اس وقت فسطائیت کے بوٹ تلے کچلا جا رہا ہے۔ اس وقت سرمایہ داری کا حقیقی ننگا چہرہ سب کے سامنے واضح ہے جس سے لبرلز اور ”لیفٹ“ مسلسل انکاری ہیں۔ ہاں مودی سرکار میں رجعتیت کی ایک نیم لہر موجود ہے لیکن اسے فسطائیت کا نام دینا عقلی اور سیاسی، ہر حوالے سے بددیانتی ہے۔ہندوستان میں ٹریڈ یونینز نہ صرف قائم ہیں بلکہ سرگرم بھی ہیں جس کا اظہار ہر سال 25 کروڑ محنت کشوں کی منظم کردہ عام ہڑتالوں میں ہوتا ہے۔ کمیونسٹ پارٹیاں ملک کے طول و عرض میں آج بھی سرگرم ہیں اور انتخابات میں حصہ لینے کے ساتھ ریاستی سطح پر اقتدار میں بھی ہیں۔ حقیقی فسطائیت کی موجودگی میں یہ ناممکن ہے۔لبرلز اور کمیونسٹ پارٹیاں یہ جھوٹ اور منافقت اپنی کمزوریوں، خصی پن اور موقع پرستی کو چھپانے کے لئے کرتی ہیں۔ نام نہاد کمیونسٹ ایک انقلابی پروگرام پیش کرنے سے قاصر ہونے کے ساتھ کسان تحریک کے خلاف بھی تھے جس میں کروڑوں کسانوں نے سال بھر سرگرم اور ولولہ انگیز جدوجہد کر کے مودی سرکار کو شرمناک شکست سے دوچار کیا۔ یہ بی جے پی سرکار پر کاری وار تھا لیکن اس تحریک کی کوئی سیاسی قیادت نہیں تھی اور نہ ی کوئی واضح سیاسی پروگرام موجود تھا۔ کسان تحریک کو محنت کشوں کی جدوجہد سے منسلک کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔ اگر ایسا کر لیا جاتا تو مودی سرکار کا سالوں پہلے ہی خاتمہ ہو چکا ہوتا۔اس صورتحال کا سارا قصور انحطاط شدہ سٹالنسٹ پارٹیوں کے سر ہے جو مسلسل محنت کش طبقے کو دھوکہ دے رہی ہیں۔ ہندوستان میں سٹالنسٹ پارٹیوں نے ماضی میں زیادہ تر کانگریس اور دیگر سرمایہ دار پارٹیوں کی حمایت کی ہے۔ جب بھی وہ کسی ریاست یا مرکزی اتحاد میں اقتدار حاصل کرتی تھیں تو ہمیشہ بورژوا حکومت اور اس کی پالیسیوں کی اعلانیہ حمایت کرتی تھیں۔ سٹالن ازم کی بانجھ دو مرحلہ ”تھیوری“ (جس کے مطابق ہندوستان میں ابھی بورژوا جمہوری انقلاب مکمل نہیں ہوا ہے جو سوشلزم کے امکانات سے پہلے لازم ہے!) کی بنیاد پر کمیونسٹ پارٹیاں تقریباً ایک صدی سے ہندوستانی سرمایہ داری کی حمایت کر رہی ہیں۔ان انتخابات میں ان کی موقع پرستی اور کرپشن سب کے سامنے ہے کیونکہ وہ ایک مرتبہ پھر ملک کی سب سے کرپٹ اور رجعتی پارٹیوں کا دم چھلا بنی ہوئی ہیں اور محنت کش طبقے کے لئے کوئی واضح انقلابی پروگرام پیش نہیں کر رہی ہیں۔ فسطائیت سے مقابلے کے فریب میں وہ انتہائی دائیں بازو کی پارٹیوں (شیو سینا اور TMC) سے بغل گیر ہوئی بیٹھی ہیں جنہیں وہ ایک زمانے میں فسطائی کہا کرتی تھیں!یہ نام نہاد کمیونسٹ پارٹیاں ماضی میں زندہ ہونے کے ساتھ بورژوا آئین اور ریاستی اداروں کا فریب بھی طاری کرنے کی کوشش کرتے ہوئے یہ مہم کر رہی ہیں کہ ان سب کو مودی کے چنگل سے آزاد کرانا حقیقی جدوجہد ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اگر وہ حکومت میں آئیں تو صورتحال ”معمول“ پر آجائے گی اور ماضی کے جمہوری حقوق ایک مرتبہ پھر بحال ہو جائیں گے۔ انہیں محنت کش طبقے پر رتی برابر اعتماد نہیں ہے کہ وہ سماج کو منظم کر سکتا ہے اور اس لئے اپنے آپ کو سرمایہ داروں کی نوکری میں پیش پیش رکھ کر ان کے نظام کو استحکام دیتی ہیں۔پھر ان پارٹیوں کے کئی قائدین کے اپنے مفادات سرمایہ داری سے جڑے ہوئے ہیں۔ ان کے پاس حکومتی عہدے ہیں اور حکمران طبقے سے ان کے گہرے تعلقات ہیں۔ وہ نظام کو اس لئے قائم رکھنا چاہتے ہیں تاکہ محنت کش طبقے کا بورژوازی استحصال کرتی رہے اور وہ اپنا حصہ وصول کرتے رہیں۔اس صورتحال میں اہم ہے کہ حقیقی کمیونسٹ سٹالن ازم کے گلے سڑے نظریات کے خلاف ایک جنگ لڑیں اور محنت کش طبقے کے سامنے ایک واضح انقلابی پروگرام بطور متبادل رکھیں۔ کمیونسٹ پارٹیوں کی قیادت محنت کش طبقے کی اعلانیہ دشمن ہو چکی ہیں اور ان کے خاتمے میں ہی حقیقی نجات ہے۔آگے بڑھنے کا راستہ کیا ہے؟ان انتخابات میں کارپوریٹ میڈیا اور پریس مودی سرکار کو ایک مرتبہ پھر منتخب کرانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ لیکن مودی سرکار کے خلاف بے پناہ غم و غصہ موجود ہے جس کا اظہار کرناٹکا اور تلنگانہ جیسی ریاستوں میں بی جے پی کی شکست میں ہوا ہے اور پھر پچھلے کئی سالوں سے ہڑتالیں اور احتجاج بھی مسلسل بڑھ رہے ہیں۔بی جے پی نے کئی ریاستوں میں انتخابات جیتے بھی ہیں جسے بڑھا چڑھا کر پارٹی کی دیرینہ عوامی حمایت بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ لیکن بی جے پی کی سب سے بڑی طاقت ایک انتہائی کمزور حزب اختلاف ہے۔ جب بھی مخالف پارٹیاں بی جے پی کے خلاف مظبوط پوزیشن اور واضح پروگرام پیش کرنے پر مجبور ہوئیں تو وہ فاتح رہیں۔ مثلاً کرناٹکا میں کانگریس کو فتح اس لئے ہوئی کہ وہاں حجاب پابندی کی مخالفت میں ایک عوامی تحریک موجود تھی اور کانگریس عوامی دباؤ کے تحت مجبور ہوئی کہ ہندوتوا سیاست کی مخالفت میں ایک مظبوط پوزیشن سامنے لائے۔ انہوں نے ووٹروں کو مائل کرنے کے لئے کچھ فلاحی سکیموں کا بھی اعلان کیا۔ پنجاب میں بی جے پی، کانگریس اور اکالی دل کو تاریخی کسان تحریک کے بعد ریاستی انتخابات میں شرمناک شکست ہوئی جس کے نتیجے میں عام آدمی پارٹی کو پہلی مرتبہ فتح حاصل ہوئی کیونکہ اسے کرپٹ اور نفرت زدہ نظام سے باہر کی پارٹی سمجھا جارہا تھا۔لیکن زیادہ تر حزب اختلاف پارٹیاں مقامی گھٹیا سیاست کے ذریعے بی جے پی کو شکست دینے کی کوشش کرتی ہیں جبکہ بی جے پی اپنا انتہائی لبرل معاشی پروگرام ہندوتوا کی زہریلی ملاوٹ کے ساتھ ببانگ دہل پیش کرتی ہے۔ حزب اختلاف پارٹیاں زیادہ تر ذات پات اور قبائلی یا کچھ علاقوں میں مذہبی بنیادوں پر حمایت جیتنے کی کوشش کرتی ہیں۔ وہ مقامی غنڈہ عناصر پر انحصار کرتی ہیں جو اپنے خاندانی روابط یا ذات پات اور قومیت کی بنیاد پر اثرورسوخ رکھتے ہیں جس کا مطلب بی جے پی کے زہریلے پروپیگنڈے کا موثر متبادل پروگرام یا سیاسی لائن کا فقدان ہوتا ہے۔ درحقیقت حزب اختلاف کی اکثر پارٹیاں، خاص طور پر کانگریس، کچھ علاقوں میں بی جے پی سے اس لئے ہار رہی ہیں کیونکہ وہ اپنے آپ کو زیادہ بڑا ہندو انتہا پسند بنا کر پیش کرنے کی کوشش کر رہی ہیں تاکہ مودی کی حمایت کو توڑا جا سکے۔ یہ پالیسی 2019ء میں فیل ہوئی اور اس سال بھی اس کا مقدر شرمناک شکست ہی ہے۔کچھ حزب اختلاف پارٹیاں سیکولرزم اور ”جمہوری اقدار“ کو بی جے پی کی لاگو کردہ لبرل معاشی پالیسیوں کے ساتھ ملا کر بیچنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ محنت کش طبقہ اس چورن پر بھی مائل نہیں ہو رہا ہے جو پہلے ہی ماضی میں کانگریس اور دیگر علاقائی پارٹیوں کی حکومت میں غربت اور مایوسی کی چکی میں پس چکا ہے۔ بورژوا حزب اختلاف پر اعتماد کیا ہی نہیں جا سکتا کہ وہ مودی، بی جے پی اور اس کے فسطائی RSS غنڈوں کے خلاف کوئی سنجیدہ جدوجہد منظم کرے گی۔ محنت کش طبقہ ”جمہوریت“ کے کھوکھلے وعدوں سے اپنا پیٹ بھر سکتا ہے اور نہ اپنا جسم گرم رکھ سکتا ہے۔ اسے روٹی، کپڑا اور مکان چاہیے۔ انہیں اپنے اور اپنے خاندان کے لئے صحت اور تعلیم چاہیے جو کسی سیاسی پارٹی کے منشور میں شامل نہیں ہے۔ اس لئے حزب اختلاف پارٹیوں کو کوئی خاص حمایت حاصل نہیں ہو رہی اور ان انتخابات میں ان کے امکانات اگر مسدود نہیں تو انتہائی محدود ضرور ہیں۔ہندوستان میں محنت کش طبقے کے روشن مستقبل کی ایک ہی ضمانت ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کا ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے خاتمہ کیا جائے۔ آزادی اظہار رائے اور دیگر جمہوری حقوق بھی بورژوا حکمرانی کے خلاف سنجیدہ جدوجہد کے بغیر جیتے نہیں جا سکتے۔ ذات پات، قومی جبر اور مسلمانوں سمیت مذہبی اقلیتوں پر جبر کو سماج کی ایک سوشلسٹ تبدیلی کے ذریعے ہی ختم کیا جا سکتا ہے۔ لیکن ابھی تک لیفٹ پر کوئی انقلابی متبادل تعمیر نہیں ہوا جو یہ تاریخی فریضہ سرانجام دے۔ہندوستانی عوام کی دیوہیکل انقلابی روایات ہیں اور حالیہ سالوں میں انہوں نے انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ہڑتالیں منظم کی ہیں۔ جدوجہد کے لئے ان کے عزم پر کسی کو شک نہیں لیکن ان کے پیروں میں رجعتی مفاد پرست ٹریڈ یونین قیادتیں اور انحطاط زدہ نام نہاد لیفٹ پارٹیاں بیڑیاں بنی ہوئی ہیں۔ ان انتخابات میں کوئی آگے بڑھنے کا راستہ نہیں دکھا رہا۔ محنت کشوں، کسانوں اور نوجوانوں کو مودی کے خلاف جدوجہد خود کرنی پڑے گی۔اس وقت محنت کشوں اور کسانوں کی ہندوستان گیر غیر معینہ مدت عام ہڑتال منظم کرنا ناگزیر ہو چکا ہے جس کی بنیاد کسانوں کی فاتح جدوجہد ہو تاکہ مودی سرکار کا خاتمہ کرتے ہوئے ایک سوشلسٹ انقلاب کی بنیادیں تعمیر کی جائیں۔ بڑی اجارہ داریوں، بینکوں، انشورنس کمپنیوں، صنعتوں اور معیشت کے تمام کلیدی شعبوں کو محنت کش جمہوری کنٹرول میں لے کر ہی ہندوستانی محنت کشوں، نوجوانوں اور غربا کو وہ حقیقی آزادی دلا سکتے ہیں جس میں ملک کے دیوہیکل اور بیش بہا وسائل کو تمام انسانوں کی زندگیاں خوبصورت بنانے کے لئے استعمال کیا جائے گا۔اس کے ذریعے نسلی، ذات پات، مذہبی، خواتین مخالف شاونزم غرضیکہ ہر قسم کی سماجی غلاظت اور تفریق کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ ہندوستانی بورژوازی کو عرش سے فرش پر پٹخ کر ہی ان کی بیرون ملک سامراجی قتل عام کی حمایت کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے اور متبادل میں پوری دنیا کے محنت کشوں کی قومیت سے بالاتر حقیقی یکجہتی اور جڑت تعمیر کی جا سکتی ہے۔ ایک سوشلسٹ ہندوستان ایک دیوہیکل قوت ہو گا۔۔۔صرف برصغیر میں ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر۔ لیکن اس سب کو حاصل کرنے کے لئے حقیقی کمیونسٹ قیادت درکار ہے!ایسی جدوجہد کی فتح کے لئے ایک حقیقی انقلابی پارٹی کی بالشویک پارٹی کی طرز پر تعمیر لازم ہے جس نے 1917ء میں لینن اور ٹراٹسکی کی قیادت میں روس کے محنت کشوں اور کسانوں کا اقتدار قائم کیا تھا۔ اس پارٹی کی بنیادیں آج سے تعمیر کرنا ہوں گی جس کا مطلب محنت کش طبقے اور نوجوانوں کی ہراول پرتوں کو مارکسزم اور بالشویزم کے بے داغ پرچم کے لئے جیتنا ہے۔ہم ہندوستان میں طبقاتی جنگجوؤں سے اپیل کرتے ہیں، وہ بہادر اور قربانی کے جذبے سے سرشار لڑاکا جو لینن اور عظیم کمیونسٹ شہید بھگت سنگھ کی روایات کے امین ہیں۔۔۔اس پارٹی کی تعمیر میں ہماری مدد کریں! بالشویک IMT ہندوستان کے ممبر بنیں!اگر آپ ایک نئی انقلابی کمیونسٹ انٹرنیشنل کی تعمیر میں ہماری مدد کرنا چاہتے ہیں جو پوری دنیا کے محنت کشوں کو فتح سے ہمکنار کرے تو RCI کی تاسیسی کانگریس میں رجسٹریشن کروائیں