6 اپریل کو یونان بھر سے لاکھوں محنت کشوں نے جنرل کنفیڈریشن آف گریک ورکرز (جی ایس ای ای) اور سول سرونٹ کنفیڈریشن (اے ڈی ای ڈی وائے) کی کال پر 24 گھنٹے کی عام ہڑتال میں حصہ لیا۔ 70 سے زائد شہروں میں نکالی گئی ہڑتالی ریلیوں میں بے روزگار شہریوں اور نوجوانوں سمیت ہزاروں افراد نے شرکت کی۔

[Source]

انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

لیبر منسٹر کوسٹس ہیٹزیڈاکس کے مزدور مخالف قانون کے خلاف گزشتہ جون میں 24 گھنٹے کی عام ہڑتال کے بعد یہ مزدور تحریک کی دوسری بڑی ہڑتال تھی، اور اس نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ محنت کش طبقہ بتدریج لیکن یقینی طور پر عوامی جدوجہد کی طرف بڑھ رہا ہے۔

ملک کی دو سب سے بڑی یونین کنفیڈریشنز کی طرف سے ہڑتال کی کال کا مرکزی نعرہ یہ تھا: ”ہماری تنخواہیں کافی نہیں ہیں، بل ادا نہیں کیے جا سکتے“؛ اور بنیادی مطالبات میں ”تنخواہوں میں اضافہ اور مہنگائی کے خلاف اقدامات، تاکہ سب کا معیار زندگی بہتر ہو“ شامل تھے۔

مزید برآں، یونینز کے مطالبات میں ہیٹزیڈاکس کے مزدور مخالف قانون اور نام نہاد ’یکجہتی شراکت‘ (2016 میں متعارف کرایا گیا ایک ہنگامی ٹیکس اقدام) کے خاتمے؛ سال 2016-17ء میں کئے گئے تنخواہوں میں اضافے کی ادائیگی، ٹیکس فری آمدنی کو 12 ہزار یوروز تک بڑھانے، 13-14 ویں ماہ کی تنخواہ کی بحالی (یعنی سالانہ دو اضافی پے چیک)، خطرناک اور مضر صحت کام کی تنخواہوں میں اضافے، ای ایس وائے (صحت کی دیکھ بھال کے قومی نظام) کی فراخدلانہ مالی مدد، پبلک سیکٹر کی ہزاروں اسامیوں کو پرُ کرنا، اور ریاستی اداروں اور کمپنیوں کی نجکاری کو منسوخ کرنا شامل تھے۔

آل ورکرز ملیٹینٹ فرنٹ (پی اے ایم ای) نے یوکرین میں سامراجی جنگ کی مخالفت کا اضافی مطالبہ اور یونانی جنگ میں مداخلت نہ کرنے کا نعرہ بھی لگایا۔

محنت کش طبقے کو متحرک کرنے والا فوری مسئلہ بلاشبہ حالیہ مہینوں میں اشیاء خردونوش کی قیمتوں میں بے انتہا اضافہ تھا۔ 31 مارچ کو شائع ہونے والی INE-GSEE تحقیق کے مطابق، نجی شعبے میں کام کرنے والے 60 فیصد لوگوں کا کہنا ہے کہ انہیں مجبوراً بنیادی غذائی اشیاء کے استعمال میں کمی لانی پڑی ہے، جبکہ 74 فیصد کا ہیٹنگ اور 80 فیصد کا تفریح پر یہی کہنا ہے۔

رجعت پسند ’نئی جمہوریت‘ حکومت نے محنت کشوں کے معیار زندگی میں اس گراوٹ پر بے حسی کا اظہارکیا ہے۔ کرونا وبا کے مالی نتائج سے نمٹنے کے نام پر پچھلے دو سالوں میں اس حکومت نے کمپنیوں کو براہ راست فنانسنگ یا وارنٹی کی صورت میں کل 42 بلین یورو فراہم کیے ہیں۔ 2026ء تک یورپی یونین کے ’ریکوری فنڈ‘ سے ان کمپنیوں کو براہ راست سبسڈیز اور سستے یا سود سے پاک قرضوں کی صورت میں 32 بلین یوروز تک فراہم کرنے کا امکان ہے۔ جب مہنگائی اور قیمتوں میں اضافے کی بات آتی ہے تو حکومت خود کو مضحکہ خیز اقدامات تک محدود رکھتی ہے، جیسے بجلی اور پٹرول کی فراہمی کے لیے تھوڑی سی سبسڈیز۔ پھر ڈھٹائی سے یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ خسارے اور عوامی قرضوں کی بڑھتی سطح کی وجہ سے مزید ریلیف کی گنجائش نہیں ہے۔

مہنگائی کی اس لہر کے نتیجے میں پچھلے چند مہینوں میں محنت کشوں کے موڈ میں آنے والی تبدیلیوں کو واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کامیاب عام ہڑتال سے پہلے مزدوروں کی دیگر فاتح تحریکیں بھی سامنے آئیں جن میں سی او ایس سی او ڈاک ورکرز (COSCO) اور گزشتہ خزاں میں ڈیلیوری رائیڈرز کی ہڑتالیں شامل ہیں۔

ہڑتال میں شرکت

زیادہ تر بڑے کام کی جگہوں پر ہڑتال میں بھرپور حصہ لیا گیا۔ ملک بھر میں کئی کارخانوں میں پیداوار رُک گئی، تعمیراتی جگہیں بے کار رہیں، دارالحکومت میں زیادہ تر پبلک ٹرانسپورٹ بند رہی، ملک کی بڑی بندرگاہوں سے کوئی جہاز نہیں نکلے، اور تقریباً تمام سرکاری سکول بھی بند رہے۔

پریس اور میڈیا سیکٹر کی بڑی فیکٹریوں سے شرکت 70 فیصد سے تجاوز کر گئی۔ میندرا میں جانسن جیسی دوائیوں کی بڑی دکانیں اور فیکٹریاں بند کر دی گئیں، جبکہ فارماسوٹیکل سیکٹر سے انتھوسا، بوہرنگر اور لاویفارم سمیت دیگر فیکٹریوں میں بڑی تعداد میں ہڑتالیں ریکارڈ کی گئیں۔ خوراک کے شعبے کی بڑی فیکٹریاں، جن میں ای وی جی اے، ٹیسٹی اور ایم ایسٹیل شامل ہیں، سے شرکت تقریباً 100 فیصد تھی۔

تعمیرکے شعبے میں تمام بڑی سائٹس کو بند کر دیا گیا۔ جہاز سازی کے شعبے اور مرمت اور مکینیکل سائٹس میں بھی ایسا ہی تھا۔ کوسکو کنٹینر سٹیشن پر بھی مزدوروں کی اجتماعی ہڑتال کے نتیجے میں کوئی نقل و حرکت نہیں ہوئی۔

بڑی تعداد کی ہڑتال میں شمولیت نے سابقہ اور خاص طور پر موجودہ حکومت کے قائم کردہ یونین مخالف قانونی ہتھیاروں کو ناکام بناتے ہوئے یہ ثابت کر دیا ہے کہ محنت کش طبقے میں لڑاکاپن کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ یہ مالکان کی طرف سے بڑھتے ہوئے جبر کے ساتھ بھی جڑا ہوا ہے۔

او ایس وائے انتظامیہ (ایتھنز ماس ٹرانزٹ سسٹم کے ذمہ دار) نے عدالتوں میں اپیل کی، جس نے ہڑتال کو غیر قانونی قرار دیا لیکن اس کے باوجود ٹرالی بسوں کے مزدور ہر جگہ ہڑتال میں شامل ہوئے۔ ان مزدورون کو اس فیصلے کی اطلاع ہڑتال سے ایک دن پہلے دی گئی تھی۔ ٹرانسپورٹ اور شپنگ میں یونینوں نے ریاست اور آجروں کو ’ہاٹزیڈاکس قانون‘ کے تحت ”کم سے کم گارنٹی شدہ آپریشن“ کی تعداد پر عملہ فراہم کرنے سے انکار کر دیا، جس سے بنیادی طور پر ہڑتال کا اثر ہی ختم ہو جاتا۔

انتہائی اہم حقیقت یہ ہے کہ ہڑتال ان علاقوں میں بڑے پیمانے پر دیکھی گئی جہاں مالکان کی جانب سے جبر خاص طور پر شدید ہے، جیسے کہ پراکٹیکر ڈپارٹمنٹ سٹورز، جہاں ملکی سطح پر شرکت 70 فیصد سے زیادہ تھی۔ معروف ملٹی نیشنل سپر مارکیٹ لِڈل کے مرکزی گوداموں میں ہڑتال میں شرکت 90 فیصد سے تجاوز کر گئی۔ یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ عام ہڑتال کے فوراً بعد، لڈل کے مزدوروں نے اجتماعی سودے بازی کے معاہدے اور تنخواہوں میں اضافے کے لیے 48 گھنٹے کی ہڑتال میں بھی حصہ لیا۔

تاہم، کافی اور کیٹرنگ سیکٹرکے دفاتر (جہاں ملازمیں کا بڑا حصہ نوجوان ہے) میں ہڑتال میں شرکت بہت محدود تھی، ٹرن آؤٹ کی شرح نہ ہونے کے برابر تھی۔ عام طور پر، زیادہ تر نجی شعبے کے دفاترجہاں مضبوط یونینیں قائم نہیں ہیں وہاں شرکت کم تھی۔

اس کم شرکت کی وجہ صرف مالکان کا خوف نہیں، بلکہ مزدوروں کے معیار زندگی پر بہت بڑا دباؤ بھی ہے، جو نجی شعبے میں اجرتیں کم ہونے کی وجہ سے اور بھی شدید ہے۔ اس اضافی دباؤ کا مطلب ہے کہ ملازمین، اور خاص طور پر وہ لوگ جن کے اہل خانہ ہیں، ایک دن کی اجرت کھونے کو بھی برداشت کرنے سے قاصر ہیں۔ ہڑتال میں شرکت میں رکاوٹ اس حقیقت سے کئی گنا بڑھ جاتی ہے کہ محنت کشوں کے لیڈروں کی جانب سے ایسی کوئی حکمت عملی ہی سامنے نہیں جا رہی جس سے ٹھوس فتوحات حاصل کی سکیں۔

عام مزدور بھی جانتا ہے کہ یونینوں کی بیوروکریٹک قیادتیں برسوں سے 24 گھنٹے کی عام ہڑتال کو ”بلینک شاٹس“ کی طرح استعمال کر رہی ہیں، وہ فتح تک لڑنے کے عزم کے بغیر، صرف ’کچھ کرنے‘ کا تماشا لگاتی ہیں۔ اس ہتھکنڈے کی تازہ ترین مثال گزشتہ جون میں ’ہاٹزیڈاکس قانون‘ کے خلاف 24 گھنٹے کی ہڑتال تھی، جو اگرچہ بڑے پیمانے پر تھی، لیکن بہت دیر سے شروع ہوئی اور اس پر کوئی عملدرآمد نہیں ہوا۔ کم تنخواہوں اور نوکری سے نکالے جانے کے خطرے سے دوچار، مہنگائی کے بوجھ تلے دبے نجی شعبے کے ملازمین ہڑتال میں شرکت کا خطرہ مول لینے کا کوئی فائدہ محسوس نہیں کرتے۔

ریلیاں

سب سے بڑی ریلیاں اور مظاہرے یقیناً ایتھنز میں منعقد کیے گئے جہاں تین مختلف اجتماعات تھے۔ ’جی ایس ای ای‘ اور ’اے ڈی ای ڈی وائے‘ کی قیادت نے کلفتھمونوس سکوائر میں اجتماع کیا، ’پی اے ایم ای‘ نے سنتاگما سکوائر، جبکہ غیر پارلیمانی بائیں بازوکی ٹریڈ یونین فورسز کا ایک گروپ پروپیلیا میں جمع ہوا۔ تاہم، تین مختلف اجتماعی مقامات کے درمیان بہت کم فاصلے کا مطلب یہ تھا کہ تین الگ الگ کالوں نے دارالحکومت میں مزدوروں کی قوتوں کو تقسیم نہیں کیا۔

ایتھنز میں، ہڑتالی ریلیاں اور مظاہرے پی اے ایم ای کی طرف سے تین پری ریلیوں کے ساتھ صبح 10:30 بجے شروع ہوئے۔ یہاں تک کہ دو بجے کے بعد، جب مظاہرین کا آخری حصہ سنٹاگما سکوائر سے گزرا، یعنی تقریباً 4 گھنٹے بعد، تب بھی ایتھنز کی مرکزی سڑکیں مظاہرین سے بھری ہوئی تھیں۔

ایتھنز میں سب سے بڑا اجتماع اور مظاہرہ بلاشبہ ’پی اے ایم ای‘ کا تھا، جس میں تقریباً 20 ہزار لوگ شامل تھے۔ جبکہ ’جی ایس ای ای‘ اور ’اے ڈی ای ڈی وائے‘ کی ریلیوں میں تعداد اور لڑاکا رجحان کم تھا۔ یہ حقیقت اس بے اطمینانی کا مزید ثبوت دیتی ہے جویونین قیادتوں کے حکومت اور سرمایہ داروں کے اشتراکی رویے کے خلاف مزدورتحریک کے نچلے درجات میں موجود ہے۔ محنت کش طبقہ حکومت کی طرف سے انتہائی گہرے معاشی بحران اور کرونا وبا کے مجرمانہ انتظامات کے اثرات سے دوچار ہے اس کے باوجود بھی جی ایس ای ای کی قیادت نے دو سال سے احتجاج یا دھرنے کی کوئی کال نہیں دی تھی۔ جس کے نتیجے میں یونان میں فی کس شرح اموات سب سے زیادہ ریکارڈ کی گئیں۔ غیر پارلیمانی بائیں بازو کی ٹریڈ یونین فورسز کا اجتماع تعداد اور لڑاکاپن کے لحاظ سے قابل ذکر تھا۔ یہ ایک حد تک محنت کش طبقے کی نوجوان پرت میں پیدا ہونے والے انقلابی جذبات اور یونینوں کی تمام پرانی قیادتوں بشمول ’پی اے ایم ای‘ کی قیادت پربے اعتمادی کی عکاسی کرتا ہے۔

تھیسالونیکی، پیٹراس، لاریسا، وولوس وغیرہ سمیت ملک کے تمام بڑے شہروں میں بڑی ریلیاں نکالی گئیں۔ یہاں، پی اے ایم ای کے جلسے تعداد اور لڑاکا رجحان میں آگے رہے۔ تھیسالونیکی میں ’پی اے ایم ای‘ کے مظاہرے میں مزدور تحریک کے ان حصوں کی موجودگی تھی جنہوں نے حال ہی میں زبردست لڑاکاپن کا مظاہرہ کیا ہے، جن میں ’ای فوڈ‘ اور ’وولٹ‘ کمپنیوں کے ڈلیوری رائیڈرز شامل ہیں۔ ریلی کا واضح سامراج مخالف کردار بھی تھا۔ مظاہرہ امریکی قونصل خانے سے ”عوام کے قاتلوں کو نہ زمین نہ پانی“ کے نعرے لگاتے ہوئے شہر کی بندرگاہ پر ختم ہوا، جہاں سے نیٹو کا ایک جہاز فوجی ساز و سامان یوکرین لے کر گیا تھا۔ وہاں مظاہرے پر پولیس نے حملہ کیا اور گیارہ کارکنوں کو گرفتار کر لیا، جن میں سے آٹھ کو ایک دن سے زیادہ حراست میں رکھا گیا اور ’پی اے ایم ای‘ کی جانب سے ایتھنز اور تھیسالونیکی میں احتجاجات کے بعد رہا کیا گیا۔

یہ جرات مندانہ سامراج مخالف کارروائی یونان میں ٹرینوز کے ملازمین کا نیٹو کے جنگی سازوسامان کو یوکرین لے جانے کے لیے کام کرنے سے انکار کے فطری ردعمل کے طور پر سامنے آئی۔

تعداد کیوں زیادہ نہیں تھی؟

ہڑتال، ریلیوں اور مظاہروں میں شرکت سے عام تاثر یہ ملتا ہے کہ، اگرچہ یہ گزشتہ جون کی عام ہڑتال کے بعد محنت کش طبقے میں بڑھتے ہوئے لڑاکا رجحان کا ایک اہم اظہار تھا، لیکن بڑھتی مہنگائی سے معیار زندگی پر ہونے والے اثرات کے مدنظر اس سے بھی زیادہ تعداد کی شرکت کی امید تھی۔ اس کی وضاحت بنیادی طور پر محنت کش طبقے کی عوامی تنظیموں (سیاسی اور صنعتی) کی قیادت کے کردار کو دیکھ کرکی جا سکتی ہے۔

ہمیں سب سے پہلے اس طرح کے معاملات میں مزدور تحریک کے اندر اور باہر مختلف ”ڈیزاسٹر تجزیہ کاروں“ کی طرف سے دی گئی سادہ تشریح کو مسترد کرنا چاہیے کہ ”عوام لڑنا نہیں چاہتے“، یا اس سے بھی بدتر، کہ ”مزدور قدامت پسند ہو گئے ہیں“۔ دس میں سے نو بار، یہ تشریحات محنت کش طبقے پر انفرادی قنوطیت اور قدامت پسندی کے باعث کی جاتی ہیں۔ یہ افراد ترقی پذیر محنت کش طبقے کے حقیقی، مجموعی مزاج، اس کی وضاحت کرنے والے گہرے عمل، اور اس کے تضادات کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ دوسرے لفظوں میں، یہ مبصرین ایک بیہودہ تجربہ پرستی میں پھنسے ہوئے ہیں۔

پچھلے ڈیڑھ سال میں ہم نے اس بات کے کافی شواہد دیکھے ہیں کہ محنت کش طبقہ اور نوجوان زیادہ لڑاکا اور انقلابی بن رہے ہیں۔ 24 گھنٹے کی دو بڑی عام ہڑتالوں کے ساتھ ساتھ، ہم نے کئی امید افزا، اور یہاں تک کہ فاتح ہڑتالیں دیکھی ہیں، جیسے کہ ڈیلیوری رائڈرز کوسکو ملازمین، اور خزاں میں اساتذہ کی بڑے پیمانے پر ہڑتال اور ریلی۔ ہم نے نوجوانوں کی بڑے پیمانے پر تحریکیں دیکھی ہیں، جیسے کہ 2020ء کے موسم خزاں میں اپیل کورٹ میں گولڈن ڈان کو مجرم قرار دینے کے حق میں فاشسٹ مخالف ریلی، اور بہار 2021ء میں ’این سمیرنی‘ میں ریاستی تشدد کے نتیجے میں پولیس کریک ڈاؤن کے خلاف شروع ہونے والی تحریک۔

وہ لوگ جو محنت کش عوام کی قدامت پرستی کی بے وقوفانہ بات کرتے ہیں، ہم ان کی محنت کش طبقے میں پروان چڑھنے والے انقلابی رجحانات کی طرف توجہ مبذول کراتے ہیں، جس کا ثبوت 6 اپریل کو 24 گھنٹے کی اس ہڑتال سے ملتا ہے۔ اسے آجر اور ریاستی جبر پر قابو پانے (ٹرالی بس اور ٹرانسپورٹ ورکرز جنرل کے ساتھ ساتھ لڈل اور دیگر ڈپارٹمنٹل سٹورز کے ملازمین میں) اور سامراج مخالف مطالبات کو اپنانے (ٹرینوز کے کارکنوں، اور تھیسالونیکی مظاہرے کے شرکاء میں) کے رجحان میں دیکھا جا سکتا ہے۔

کرونا وبا نے واضح طور پر اس لڑاکا رجحان کی بڑھوتری کو سست کیا۔ معیار زندگی کو لگنے والے حالیہ جھٹکے نے یقیناً محنت کش اور غریب عوام کے شعور پر نمایاں اثر ڈالا ہے۔ لیکن اسی وجہ سے وہ علامتی ہڑتالوں میں حصہ لینے سے زیادہ ہچکچاتے بھی ہیں، کیونکہ آمدنی کا معمولی سا نقصان اور برخاستگی کی دھمکیاں ہی ناقابل برداشت ہیں۔ یہ پبلک سیکٹر اور پرائیویٹ کام کی جگہوں پر جہاں مضبوط یونینیں ہیں، میں ہڑتال میں زیادہ شرکت، اور پرائیویٹ سیکٹر جیسے کیفے اور ریستوران، جہاں کم طاقتور ٹریڈ یونینیں ہیں، میں کم شرکت کی وضاحت کرتا ہے۔ تاہم، محنت کش طبقے نے تاریخی طور پر بڑے پیمانے پر تنظیمیں، ٹریڈ یونینز اور پارٹیاں، ضروری ’آلات‘ کے طور پر تخلیق کی ہیں جو اسے ان معروضی مشکلات پر قابو پانے میں مدد فراہم کریں گی، جس سے وہ اپنے معیار زندگی کا مؤثر طریقے سے دفاع کر سکے گا۔ اگر نام نہاد بائیں بازو کے یونینز اور پارٹیاں زیادہ انقلابی اور پرعزم حکمت عملی استعمال کرتے تو ہڑتال سے ہچکچاہٹ کو بخوبی دور کیا جا سکتا تھا۔

جی ایس ای ای (اور ایک حد تک اے ڈی ای ڈی وائے) کے بیوروکریٹک ٹریڈ یونین لیڈروں نے محنت کش طبقے کو یہ باور کرایا ہے کہ جب وہ حکمران طبقے کے بڑھتے حملوں سے مجبور ہو کر متحرک ہوتے ہیں، تب بھی نہ وہ آخر تک لڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور نہ ہی تحریک کی بنیادی بڑھوتری کا کوئی منصوبہ بناتے ہیں۔ وہ اتنے پروقار نہیں ہیں کہ معاشرے کی وسیع تر پرت پر محیط محنت کشوں کی اس اجتماعی جدوجہد کی قیادت کر سکیں۔

ان کے لیے، اس لمحے کہ جب محنت کش طبقے کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے کو ہوگا، تو پی اے ایم ای کے گرد موجود وہ مظبوط حزب اختلاف طاقتیں جو درجنوں مزدور مراکز اور فیڈریشنز کوکنٹرول کرتی ہیں، مزدور تحریک کی اکثریت کو لڑاکا عوامی جدوجہد کی فتح تک جیت سکتی ہیں۔ لیکن پی اے ایم ای کے رہنما ایک مخصوص، طویل المدت اور قابل اعتماد پروگرام سامنے لانے سے انکار کر کے اس امکان کو کمزور کر دیتے ہیں۔ وہ صرف اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ وہ مرکزی ٹریڈ یونین بیوروکریسی کی تجاویز سے ایک قدم آگے ہیں۔ ان کی اصل تجاویز کمزور اور مبہم ہیں، اوروہ محنت کشوں کی وسیع تر پرت کو بڑی ہڑتالوں کے نتیجے میں ہونے والی مالی قربانیاں دینے کے لیے قائل نہیں کرسکتے۔

ہمیں اس بات پر زور دینا چاہیے کہ ہڑتالوں میں بڑے پیمانے پر شرکت یقینی بنانے کا بنیادی طریقہ یہ نہیں ہے کہ صرف ایک ’کامل‘ اور تفصیلی لائحہ عمل پیش کیا جائے، بلکہ مزدوروں کو اس بات پر قائل کرنا بھی ضروری ہے کہ اس لائحہ عمل سے کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔ پی اے ایم ای کے پاس یونینوں میں اس نقطہ نظرپرکارکنوں کو قائل کرنے کے لیے کافی قوتیں ہیں لیکن بدقسمتی سے قیادت ایسی کسی منصوبہ بندی کے تحت آگے بڑھنے پر آمادہ نظر نہیں آتی۔

پی اے ایم ای کے رہنما کسی ایسے لائحہ عمل پر غور نہیں کر رہے جس کے ذریعے کارکنوں کو مسلح کیا جائے، اور منظم طریقے سے دوسرے ملازمین کو قائل کیا جائے۔ 6 اپریل کی ہڑتال کے فوراً بعد پی اے ایم ای کی جانب سے جاری کردہ اعلان کا ذکر کرنا ہی کافی ہے۔ جس کے شروع میں ”فوری طور پرآگے بڑھنے“ کی بات کی گئی ہے، لیکن اختتام صرف یوم مئی کی ریلی کی کال کے ساتھ کیا گیا ہے۔ لیکن خوفناک مہنگائی کے خلاف چوبیس گھنٹے کی عام ہڑتال کے بغیر بھی یوم مئی کا جلسہ تو بہرحال کیا ہی جانا تھا۔

دوسرے لفظوں میں، ایک کارکن پی اے ایم ای کی قیادت سے یہ پوچھنے کا مکمل حق رکھتا ہے کہ؛ کامریڈز، ’فوری طور پر آگے بڑھنے‘ کے لیے آپ کا کیا منصوبہ ہے، جب آپ عام ہڑتال کے 25 دن بعد یوم مئی پر ایک اجتماع کی تجویز دیتے ہیں؟ مزدور چھوٹے بچے نہیں ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ اعلان ’فوری‘ تو دور، کسی لائحہ عمل کی تجویز تک نہیں دیتا۔

ٹریڈ یونین لیڈروں کی لائحہ عمل کے تحت وسیع تر محنت کش عوام کو سامنے آنے پر آمادہ کرنے پر ہچکچاہٹ سیاسی محاذ سے آزاد نہیں ہے۔ درحقیقت یہ پسپائی مزدور تحریک کے اندر بائیں بازو کی جماعتوں کے رویے کا اظہار کرتی ہے۔

’کینال-پاسوک‘ کی قیادت، جس سے جی ایس ای ای بیوروکریسی کا تعلق ہے، کھلے عام حکمران طبقے کی خدمت میں مصروف ہے۔ یہ صرف ریاستی شعبے میں محنت کش طبقے کے زیادہ معاوضہ لینے والی اور قدامت پسند پرتوں کو سائریزا کے خلاف کرکے این ڈی کے ساتھ ایک بار پھر شریک حکومت بنانا چاہتے ہیں۔ کینال-پاسوک کے نئے صدر، اندرولاکیس، جو دائیں بازو کے اصلاح پسند اور سابق رہنما ’کے سیمیٹس‘ کا حامی ہے، کے جلدبازی میں کروائے گئے انتخاب کا یہی مطلب ہے۔ اندرولاکیس کی جانب سے اپریل کی ریلیوں کو ”گرم جوشی سے بھرپور سلام“ بھیجنا اور پاسوک اور این ڈی کے اتحاد پر جاری ہونے والے اعلامیے کا بھی یہی مقصد تھا۔

سائریزا کی قیادت، جس کی صفوں میں مضبوط ترین ٹریڈ یونینوں کے رہنماؤں کا ایک گروپ شامل ہے، ہڑتال میں حصہ لینے اور ایک پارٹی بلاک (500 افراد پر مشتمل) ایتھنز میں ہونے کے باوجود، اپنے عوامی بیانات میں اس بات کی سختی سے تردید کرتے ہیں کہ محنت کشوں کی جدوجہد کو تیز اور مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ محنت کشوں میں انقلابی رجحان پیدا کرنے سے ڈرتے ہیں، اور وہ عوامی تحریک کی پشت پر ایک نئی حکومت کی تشکیل اور اقتدار میں آنے کے امکان سے خوفزدہ ہیں جو حکمران طبقے اور سرمایہ داری کے ساتھ ”پرامن“ سمجھوتہ کرنے کے ان کے منصوبوں کو ناکام بنا دے گی۔ ایسا امن یقیناً سائریزا کے سیاست دانوں اور بورژوا ریاستی آلات کے لیے فائدہ مند ہوگا۔

دریں اثنا، کے کے ای کی قیادت کی عمومی سیاسی لائن، پی اے ایم ای کے رہنماؤں کی حکمت عملی میں تعطل کی ذمہ دار ہے۔ پی اے ایم ای کی قیادت کا محنت کش تحریک کے ”فوری طور پر آگے بڑھنے“ کی حمایت سے انکار پارٹی میں حقیقی انقلابی، مارکسی سیاسی لائن کی عدم موجودگی کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ ”دفاعی جدوجہد“ کی حکمت عملی کا نتیجہ ہے، جس کی بنیاد پارٹی اس خیال پر رکھتی ہے کہ معروضی حالات اور درحقیقت خود محنت کش طبقہ، معاشرے کو تبدیل کرنے کی سنجیدہ لڑائی کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس لیے موجودہ حالات میں صرف محدود جدوجہد کے ذریعے چھوٹی کامیابیاں ہی حاصل کی جا سکتی ہیں۔

یہ سیاسی لائن ایک دفاعی اور جارحانہ (انقلابی) جدوجہد کے درمیان جدلیاتی تعلق کو سمجھنے میں ناکام رہی ہے۔ نا صرف یہ، بلکہ انقلابی جدوجہد میں محنت کشوں کی بڑے پیمانے پر شرکت اور انقلابی پارٹی کی موجودگی کی اہمیت کو سمجھنے سے بھی قاصر ہے۔ نتیجتاً، پارٹی کا موجودہ پروگرام مہنگائی کے خاتمے کے لیے سرمایہ داروں کی ملکیت، یعنی مزدوروں کے کنٹرول کے مطالبات یا بڑی توانائی کمپنیوں پر قبضے کے امکانات کو مسترد کرتا ہے۔ یہ پروگرام بنیادی طور پر محنت کشوں کے لیے ”مزید امدادی اقدامات“ کے مطالبے تک محدود ہے۔

اس کمزوری کی اصل وجہ محنت کش طبقے کی انقلابی صلاحیت کوکم تر سمجھنا ہے، جیسا کہ کے کے ای کی قیادت کے ملکی اور بین الاقوامی صورتحال پر بیانات سے ظاہر ہوتا ہے۔ یہ حکمران طبقے اور سامراج کی طاقت کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں، اور ان انقلابی رجحانات کو کمتر سمجھتے ہیں جو آج طبقاتی جدوجہد میں موجود ہیں۔ مزید برآں، کمزوری کے اس اظہار کے پیچھے قیادت کا پوشیدہ خوف ہے کہ شاید جدوجہد کرنے والا محنت کش طبقہ ان پر غالب آجائے، اور کے کے ای کے کارکنان لیڈروں سے آگے نکل جائیں۔

جدوجہد کو فوری طور پر کیسے آگے بڑھایا جائے؟

محنت کش طبقہ مزید انتظار نہیں کر سکتا۔ اسے اپنے معیار زندگی کے تحفظ کے لیے بڑے پیمانے پر جدوجہد میں شامل ہونا ہوگا۔ ’آگے بڑھنے‘ کے غیر فعال اور مبہم اعلانات کی جگہ، ہم درج ذیل اقدامات تجویز کرتے ہیں:

۔ 6 اپریل کو ہڑتال کے نتائج پر بات کرنے اور اگلے اقدامات کا تعین کرنے کے لیے تمام کام کی جگہوں اور یونینوں میں فوری طور پر اسمبلیوں کو طلب کیا جائے۔

۔ مئی کے شروع میں 48 گھنٹے کی عام ہڑتال کی سنجیدہ تیاری کی جائے۔ یعنی ہڑتالوں اور ریلیوں میں مزید ملازمین کو شامل کرنے کے لیے منظم کام کو تیز کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کام کو انجام دینے کے لیے، یونینوں میں بائیں بازو کی قوتوں، جن میں بنیادی قوتیں پی اے ایم ای کی ہیں، کو ہر کام کی جگہ پر ’مزدوروں کی جدوجہد کو بڑھانے کے لیے کمیٹیاں‘ بنانے کے لیے متحدہ انداز میں کام کرنے کی ضرورت ہے، جو فوری طور پر ان کام کی جگہوں پر منظم کارروائی شروع کریں جہاں 6 اپریل کو بہت کم یا کوئی شرکت نہیں ہوئی تھی۔

۔ 48 گھنٹے کی کامیاب عام ہڑتال کا مطلب یہ ہے کہ مزدور یہ سمجھتے ہیں کہ، اگر بڑھتی قیمتوں کے خاتمے جیسے بنیادی مطالبات کو پورا نہیں کیا جاتا تو مکمل عام ہڑتال کی تیاری کے لیے مخصوص اقدامات کیے جائیں گے۔

سب سے بڑھ کر، یونینوں میں بائیں بازو کی قوتوں کو اس بات پر زور دینا چاہیے کہ، مہنگائی کے مکمل خاتمے کو یقینی بنانے کے لیے محنت کشوں کو محنت کشوں کی حکومت کے لیے جدوجہد کرنی چاہیے۔ جو ایک جامع سوشلسٹ اقتصادی پروگرام کے تحت بینکوں اور دیگر تمام بڑے اداروں کو ’نیشنلائز‘ کرے گی۔ مزید برآں، چونکہ توانائی اور دیگر اجناس کی آسمان کو چھوتی قیمتیں بنیادی طور پر بین الاقوامی عوامل کا نتیجہ ہے، لہٰذا صرف سوشلسٹ نقطہ نظر کے تحت سرمایہ داری کے خلاف ایک بین الاقوامی سطح پر مربوط جدوجہد ہی اس ناقابل برداشت زندگی کے بحران کو مستقل طور پر ختم کر سکتی ہے۔