فرانس: صدر میکرون کا اقتدار لرزنے لگا، 35 لاکھ لوگ سڑکوں پر! Share Tweet23 مارچ 2023ء کو فرانس میں منعقد ہونے دیو ہیکل احتجاجوں نے میکرون کے خلاف جدوجہد کو نئی بلندیوں پر پہنچا دیا ہے۔ پچھلے دو مہینوں سے (پنشنوں پر نئے حملوں کے بعد) تحریک مسلسل آگے بڑھ رہی ہے۔ حکومتی نمائندوں کو امید تھی کہ جمعرات کے احتجاجوں کے بعد تحریک مدہم ہونی شروع ہو جائے گی اور ہفتہ وار چھٹی تک حالات معمول کے مطابق ہو جائیں گے۔ ان کی امیدوں پر پانی پھر چکا ہے۔ 23 مارچ کو 35 لاکھ محنت کش اور نوجوان فرانس کی بیشتر سڑکوں پر اُمڈ آئے اور ہڑتالیں اور احتجاج اب مزید جنگجوانہ روش اختیار کر رہے ہیں۔[Source]انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریںمیلینشون سمیت کچھ لوگ 23 مارچ کو مئی 1968ء کے بعد عوام کا عظیم ترین تحرک قرار دے رہے ہیں۔ پیرس میں 8 لاکھ افراد نے احتجاج کیا۔ مارسئی (2 لاکھ 80 ہزار)، ٹولوز (1 لاکھ 50 ہزار)، بورڈو (1 لاکھ 10 ہزار)، نانتیز (80 ہزار)، لیون (55 ہزار) اور گرینوبل (55 ہزار) میں ریکارڈ لوگ احتجاجوں میں شریک ہوئے۔ چھوٹے قصبوں اور شہروں میں تحریک مسلسل آگے بڑھ رہی ہے۔ ڈراگوئگنان میں 5 ہزار، مولنز اور آرلیز میں 6 ہزار، کاستریز میں 8 ہزار، مونتلوشون میں 9 ہزار، پیری گیو میں 15 ہزار اور بریو میں 17 ہزار افراد احتجاجوں میں شریک ہوئے۔ گویریٹ (سریوز) میں 6 ہزار 700 افراد نے احتجاجی ریلی نکالی جبکہ اس چھوٹے قصبے کی کل آبادی مشکل سے 13 ہزار ہے۔درحقیقت سڑکوں پر اتنا شدید ہیجان اور باغیانہ موڈ ہے کہ شاہ چارلس سوم کا ایک طے شدہ دورہ منسوخ کرنا پڑا کیونکہ ریاستی نمائندوں کے مطابق سڑکوں پر ”تشدد“ پریشان کن سطح تک پہنچ چکا ہے۔ شائد چارلس نے بھی تاریخ پڑھ رکھی ہے کہ فرانسیسی عوام کا شاہوں سے متعلق رویہ کیا ہے!فرانسیسی سرحدوں سے باہر ذرائع ابلاغ میں جدوجہد کی محدود رپوٹنگ کے باوجود میکرون کے خلاف جدوجہد کا عالمی اثر بہرحال پھیل رہا ہے۔ مبینہ طور پر برطانوی ٹوری حکومت نے طے شدہ پنشن اصلاحات پلان کو سرد خانے میں ڈال دیا ہے۔ فنانشل ٹائمز کے مطابق ”وہ پنشن عمر میں اضافے کے لئے بہت پرجوش تھے۔ لیکن اب ان کے اوسان خطا ہو گئے ہیں“۔ آج صبح برطانیہ میں ”فرانسیسیوں کی طرح جدوجہد کرو“ ٹوئٹر ٹرینڈ چل رہا تھا جس سے واضح ہوتا ہے کہ برطانوی محنت کش طبقہ فرانسیسی محنت کشوں اور نوجوانوں کی پرعزم جدوجہد سے مستقبل میں اپنی جدوجہد کے لئے قیمتی اسباق حاصل کر رہا ہے۔بڑھتی ریڈیکلائزیشنپچھلے ہفتے میکرون حکومت نے فرانسیسی آئین کے بدنام زمانہ 49.3 آرٹیکل کو استعمال کرتے ہوئے پارلیمنٹ سے بالا اپنی پنشن اصلاحات جبراً لاگو کر دی ہیں جبکہ عوام کی دیو ہیکل اکثریت ان کی شدید مخالف ہے۔ اس قدم نے پورے ملک میں خوفناک غم وغصے کو جنم دیا ہے جس کے بعد سے ہر رات خودرو احتجاج ہو رہے ہیں۔ ایک حالیہ رائے شماری کے مطابق 82 فیصد فرانسیسی عوام 49.3 آرٹیکل سے نفرت کرتے ہیں اور 65 فیصد کی خواہش ہے کہ قانون لاگو ہونے کے باوجود احتجاج جاری رہیں۔مظاہرین کو ڈرانے کی کوششوں میں سڑکوں پر پولیس تشدد بہیمانہ ہو چکا ہے اور کلیدی شہروں میں احتجاجوں پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ پچھلے ایک ہفتے میں 800 سے زائد افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے جن میں سے زیادہ تر کو بغیر کسی وجہ کے گرفتار کیا گیا ہے۔۔۔پیرس میں پولیس نے سیاحوں کو بھی گرفتار کیا ہے۔ مظاہرین کو ڈرانے کے برعکس ان کا اشتعال اور بھی تیزی سے بڑھ رہا ہے۔23 مارچ کا ملک گیر احتجاج حجم اور ریڈیکلائزیشن میں معیاری جست کے حوالے سے بھی بہت متاثر کن ہے۔ ایک پلے کارڈ پر لکھا تھا کہ ”پانی 100 ڈگری پر ابلتا ہیں، عوام 49.3 پر (ابلتی ہے)“۔ کئی محنت کشوں اور نوجوانوں نے نعرہ لگایا کہ ”تم نے ہمیں 64 پر پہنچایا ہے، ہم نے تمہیں مئی 68 میں پہنچا دیا ہے“۔ عوام کا عزم اس گلی سڑی غلیظ حکومت کے خاتمے کے حوالے سے اٹل ہو چکا ہے۔ ڈنکرک سے ایک لوہا مزدور کا کہنا تھا کہ ”ہم اس وقت تک جدوجہد کریں گے جب تک یہ حکومت گھٹنے نہیں ٹیک دیتی“۔ سڑکوں پر سب سے بڑا نعرہ ”میکرون مردہ باد!“ تھا جس کی حمایت 28 فیصد تک گر چکی ہے یعنی پیلی واسکٹ تحریک (Gilets Jaunes Movement) کی انتہاوں پر موجود حمایت کے مساوی ہو چکی ہے۔سڑکوں پر احتجاجوں کے ساتھ جمعرات کو ہڑتالوں میں بھی شدت آئی۔ پیرس میں چارلس ڈی گال ائرپورٹ تک رسائی احتجاجی محنت کشوں کی موجودگی میں محدود رہی۔ ملک کی تیز رفتار ٹرینیں 50 فیصد بند رہیں۔ لی ہاورے بندرگاہ کے محنت کشوں نے ہڑتال کر دی۔ 11 فیصد صحت کا شعبہ ہڑتال پر تھا جو اپنے آپ میں ایک ریکارڈ ہے۔ توانائی سیکٹر میں 27 فیصد ہڑتال رہی ہے۔ ایفل ٹاور اور ورسائی محل جیسے مشہور مقامات بند تھے۔ ائر ٹریفک کنٹرولرز، ٹرک ڈرائیورز اور دیگر بھی کل ہڑتال پر تھے۔7 مارچ سے کوڑا اٹھانے والے محنت کش مسلسل ہڑتال پر ہیں۔ پورے ملک میں تقریباً 12 فیصد سٹیشنوں پر پیٹرول یا ڈیزل میں سے ایک ختم ہو چکا ہے اور 6 فیصد مکمل طور پر خالی ہو چکے ہیں۔ اس کی وجہ اس مہینے کے آغاز سے آئل ریفائنریوں اور ڈیپوؤں میں مسلسل ہڑتالیں ہیں۔ ہڑتالوں کو توڑنے کی کوشش میں حکومت ریکوئزیشن (ریاست کی جانب سے کام پر واپسی کا حکم جس کی نافرمانی کی سزا 10 ہزار یورو جرمانہ یا چھ ماہ قید ہے) کرنے کی کوششیں کر رہی ہے۔ لیکن محنت کش مزاہمت کر رہے ہیں۔کئی ہفتوں سے دارالحکومت کی سڑکوں پر کوڑا کرکٹ اکٹھا ہو رہا ہے اور حکومت نے حکم دیا کہ مقامی انتظامیہ محنت کشوں کو واپس کام پر آنے کے لئے مجبور کرے۔ لیکن ریکوئزیشن کی کوششوں کا طبقاتی جدوجہد کے ذریعے مقابلہ کیا جا رہا ہے۔۔۔جس میں بڑے احتجاج اور محنت کشوں کی دیگر پرتوں سے حمایت شامل ہے۔منگل کے دن ریاستی اہلکاروں نے فساد کش پولیس (CRS) کو فاس سر میر کے آئل ڈپو کے محنت کشوں کو ریکوئزیشن کے لئے بھیجا۔ آنسو گیس اور جسمانی تشدد کے بہیمانہ استعمال کے باوجود انہیں یونین مزدوروں سے شدید مزاہمت کا سامنا کرنا پڑا جنہوں نے عارضی طور پر پولیس کو پیچھے دھکیل دیا۔ ان کی مدد ہڑتالی بجلی اور گیس محنت کشوں نے کی جنہوں نے اپنی وینیں ڈپو کے باہر کھڑی کر کے رکاوٹیں بنا لیں۔ بوشیز ڈو رہون ڈیپارٹمنٹ کے جنرل کنفیڈریشن آف لیبر (CGT) یونین قائد اولیویور ماتیو (یونین کنفیڈریشن میں بائیں بازو کا اہم قائد) نے موقع پر پہنچ کر اعلان کیا کہ:”ہم انہیں یہ ہڑتال نہیں توڑنے دیں گے، ہم کسی صورت انہیں یہ اصلاحات جبر اور تشدد کے ذریعے لاگو نہیں کرنے دیں گے۔ انہیں ملک کے محنت کش منہ توڑ جواب دیں گے جو اپنا حق واپس چھیننے کے لئے آخری حد تک جدوجہد کرنے کے لئے پرعزم ہیں“۔لی ہاورے کے نزدیک گونفریویل میں نارمنڈی ریفائنری محنت کشوں اور پولیس کے درمیان کشمکش کا اکھاڑا بن چکی ہے۔ یہ انتہائی اہم تنصیب ہے جو دارلحکومت کے مرکزی ائرپورٹس کو ایندھن فراہم کرتی ہے جس وجہ سے یہ خاص طور پر حکومت کے نشانے پر ہے۔ ریاستی قوتیں شدید جبر کے ذریعے عارضی طور پر ہڑتال توڑنے میں کامیاب ہو گئی تھیں لیکن 24 مارچ کو CGT محنت کشوں نے اعلان کیا کہ انہوں نے دوبارہ ہڑتال شروع کر دی ہے۔ انہوں نے جارحانہ اعلامیہ جاری کیا کہ:”تحرک کو اور تیز کرو!۔۔۔غیر معینہ مدت ہڑتالوں کا آغاز کرو تاکہ معیشت کی کمر توڑ دی جائے اور (محنت کشوں کا) مثالی سماج تعمیر کیا جائے جو ایک انسان کے دوسرے انسان پر استحصال سے آزاد ہو۔ اب جبر ناکارہ ہو چکا ہے۔۔۔عوام کھڑی ہو چکی ہے اور ہم شکست نہیں مانیں گے!“24 مارچ کی صبح ماتیو نے ٹویٹ کیا کہ ”ہم جیتیں گے، ہم اس وقت رُکیں گے جب محنت کش فیصلہ کریں گے اور اس وقت وہ جیتنا چاہتے ہیں۔ اس لئے ایک ہی حل موجود ہے۔۔ ہڑتال“۔ یہ ریڈیکل طبقاتی الفاظ اور جدوجہد کی آرزو محنت کشوں کی وسیع پرتوں میں مقبول ہو رہی ہے۔ یونینز میں اس کا اظہار بائیں بازو کے یونائٹ CGT دھڑے میں ہو رہا ہے جو ہر گزرتے دن کے ساتھ زیادہ بے باک اور ممتاز ہو رہا ہے۔جبر اور مزاہمتاحتجاجوں اور ہڑتالوں میں ماضی کے ”ڈے آف ایکشن“ کے برعکس عمومی موڈ زیادہ باغیانہ اور ریڈیکل ہو رہا ہے۔ ڈے آف ایکشن کا کردار ملک گیر ہڑتالوں سے زیادہ ریلیوں جیسا ہوتا تھا۔ عوام تحریک کو کچلنے کی حکومتی کوششوں کا نئے طریقوں سے مقابلہ کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر لی ہاورے میں محنت کشوں نے فورک لفٹوں کے ذریعے پولیس کے خلاف جلتی گاڑیوں کا انبار لگا کر رکاوٹیں کھڑی کر دیں۔مشترکہ لائحہ عمل کے تحت سرگرمیاں بھی بڑھ رہی ہیں۔ مثال کے طور پر لورینٹ میں CGT کے منظم کردہ بندرگاہ کے محنت کشوں نے توانائی کے محنت کشوں کے ساتھ مل کر بندرگاہ کی بجلی کاٹ دی اور راف سے آئے ایک آئل ٹینکر کی 30 ہزار ٹن ایندھن ترسیل کرنے کی کوشش روک دی جس کا مقصد آئل، پیٹرو کیمیکل اور ٹرانسپورٹ سیکٹروں میں ہڑتال کو توڑنا تھا۔بورژوا ذرائع ابلاغ میں ہڑتالیوں کے ”پرتشدد“ طریقہ کار پر بہت شور مچایا جا رہا ہے جس میں جلتی گاڑیوں اور عمارات (ان میں بورڈو کا ٹاؤن ہال بھی شامل ہے)، دکانوں کی ٹوٹی کھڑکیاں اور پولیس پر عوامی پتھراؤ کی ویڈیوز مسلسل دکھائی جا رہی ہیں۔ میکرون نے بھی ”ہجوم کے تشدد“ کی مذمت کی ہے جبکہ وزیر داخلہ جیرالڈ دارمانین کا کہنا تھا کہ ”یہ سب بدمعاش ہیں، جن میں سے اکثر کا انتہائی بائیں بازو سے تعلق ہے جو ریاست کو گرانا اور پولیس افسروں کو قتل کرنا چاہتے ہیں“۔ان خواتین و حضرات کی اس دوغلی سفاکی پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے جو مسلسل پولیس اور پیراملٹری فورسز سے ہڑتالی محنت کشوں اور احتجاجی نوجوانوں پر تشدد کروا رہے ہیں۔ کتنے پیلی واسکٹ تحریک میں شامل احتجاجیوں کی انگلیاں اور آنکھیں ”فساد کش“ ہتھیاروں نے ضائع کیں؟ اور آج سوشل میڈیا احتجاجیوں اور نوجوانوں پر مسلح پولیس کے تابڑ توڑ حملوں سے بھرا پڑا ہے۔ ایک وائرل ویڈیو میں ایک صحافی کے منہ پر ایک مسلح پولیس افسر نے پستول تانی ہوئی ہے اور اسے بار بار ”پریس! پریس!“ چیخنے کے باوجود پسپا ہونا پڑ رہا ہے۔کروڑوں فرانسیسی عوام کی نظر میں فرانسیسی ریاست کا خوفناک جبر، جس میں میکرون نے جمہوریت کا ڈھونگ رچانابھی چھوڑ دیا ہے، پنشنوں پر حملوں کے خلاف زیادہ جنگجو مزاہمت کو جائز بنا رہا ہے۔ پھر پیلی واسکٹ تحریک نے اسی طریقہ کار کے ذریعے کچھ مراعات حاصل کر لی تھیں اور تحریک شرو ع کرنے والے ایندھن پر ٹیکس اضافے کو ختم کروا دیا تھا۔ دوسرے الفاظ میں زیادہ سے زیادہ لوگ ”قانون کی بالادستی“ کی دھجیاں اڑانے کو تیار ہیں جس سے براہ راست ریاست کی قانونی حیثیت چیلنج ہو رہی ہے۔ پولیس بڑھتی تحریک کو تشدد کے ذریعے کنٹرول نہیں کر پا رہی اور کئی مواقع پر پسپا بھی ہو رہی ہے۔پھر یہ بھی واضح ہے کہ عوام نہ صرف پنشن اصلاحات کو نشانہ بنا رہے ہیں بلکہ ان کا ہدف امراء کی نفرت آمیز میکرون حکومت ہے۔ ایک احتجاجی نے انٹرویو میں کہا کہ ”ہم جنوری سے احتجاج کر رہے ہیں اور اس کا آغاز پنشن اصلاحات سے ہوا تھا۔ اب یہ ہمارے ملک میں موجود جمہوریت پر غم و غصے میں تبدیل ہو چکی ہے“۔ حکومت کے لئے یہ انتہائی خطرناک صورتحال ہے۔ اگر وہ پیچھے ہٹتے بھی ہیں تو اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ احتجاج ختم ہو جائیں گے۔ عوام میکرون سے جان چھڑانے کا عزم کر چکی ہے۔سڑکوں پر بڑھتی ریڈیکلائزیشن اور یونینز کی ملک گیر قیادت میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ محنت کشوں اور نوجوانوں میں اس بڑھتے غم و غصے پر تحریک کو مزید تعمیر اور وسعت دینے کے برعکس یونین قیادت جدوجہد کو پنشن اصلاحات کی مخالفت تک محدود کر رہی ہے۔ غیر معینہ مدت عام ہڑتال کی طرف تحریک کی قیادت سے انکار کرتے ہوئے انہوں نے ایک مرتبہ پھر 28 مارچ کو دسویں ”ڈے آف ایکشن“ کا اعلان کر دیا ہے۔لیکن یونین قیادت اب پہلے کی طرح پر اعتماد نہیں ہے کہ وہ تحریک کی دیو ہیکل موجوں کو کنٹرول کر لیں گے۔ زیادہ قدامت پرست CFDT یونین کنفیڈریشن کے قائد لارینٹ برگر نے خبردار کیا ہے کہ حکومت پیلی واسکٹ تحریک کی طرز پر تحریک بننے کا خطرہ مول رہی ہے۔ CGT کے فابریس کودور کا کہنا ہے کہ ”مستقبل میں زیادہ سخت اقدامات ہو سکتے ہیں، زیادہ سنجیدہ اور زیادہ وسیع پیمانے پر جو ہماری مشترکہ فیصلہ سازی کی حدودتوڑ سکتے ہیں“۔یونین قیادت کو محنت کش طبقے کی تحریکوں اور غم و غصے کو محفوظ راستوں پر چلانے کی عادت پڑی ہوئی ہے جو ”ڈے آف ایکشن“ جیسے کنٹرولڈ طریقہ کار کو استعمال کرتے ہوئے حکومت کے ساتھ بند کمروں میں معاہدے کرتے ہیں۔ یہ قیادت اس وقت میکرون کو خبردار کر رہی ہے کہ اس کے اقدامات اس ”سماجی پارٹنر شپ“ کا گلا گھونٹ دیں گے۔حکمرانوں میں خوف و ہراسحکومت پہلے شدید پریشان تھی کہ تحریک کا دم ٹوٹے لیکن اب اس میں خوف و ہراس پھیل رہا ہے۔ حکمران طبقے میں تضادات تیزی سے واضح ہو رہے ہیں۔میکرون کا سارا دارومدار دائیں بازو کی ری پبلیکن پارٹی ہے اور اب یہ پارٹی اندرونی خلفشار کا شکار ہو رہی ہے۔ پارٹی میں بحث مباحثہ شروع ہو گیا کہ جن 19 ممبران نے پیر کے دن حکومت کے خلاف عدم اعتماد تحریک کی حمایت میں ووٹ دیا تھا انہیں پارٹی سے نکالنا چاہئیے کہ نہیں۔ حکومت محض 9 ووٹوں سے عدم اعتماد تحریک سے بچ پائی۔ میکرون کے اپنے گروہ سے اسمبلی ممبران نے تحفظات کا اظہار کیا ہے اور ایک نے اپنا نام ظاہر نہ کرتے ہوئے لی پیریسین اخبار کو بتایا کہ ”ہم بارود کی ڈھیری پر بیٹھے ہوئے تھے اور اب ہم نے فیوز کو آگ لگا دی ہے“۔ذرائع ابلاغ اور ٹی وی میں بورژوازی کے تنخواہ دار حکومت کے مخالف ہونا شروع ہو گئے ہیں اور یونینز کے ساتھ مذاکرات کر کے تحریک کو زائل کرنے پر زور دے رہے ہیں۔ فرانسیسی مالکان کی تنظیم MEDEF کے صدر جیفری رو دی بیزیس نے میکرون سے مذاکرات شروع کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ مستقبل میں اصلاحات کا ”طریقہ کار مختلف ہونا چاہئیے“۔لیکن اس وقت کسی قسم کی مفاہمت کا شائبہ بھی میکرون کے اعلانات اور باتوں میں موجود نہیں ہے بلکہ اس کی باتوں سے عوام مزید بھڑک رہی ہے۔ وہ بضد ہے کہ ہر قیمت پر اصلاحات ہوں گی اور اسے ”کسی چیز کا ملال نہیں“۔ بدھ کو تحریک کے آغاز کے بعد پہلی مرتبہ قومی ٹی وی پر آ کر اس نے اپنی پنشن ”اصلاحات“ کے خلاف تحریک کا 2021ء میں ٹرمپ کے رجعتی حامیوں کے امریکی کانگریس پر حملے کے ساتھ موازنہ بنا ڈالا۔فرانسیسی عوام کے لئے اس حقارت نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ درحقیقت میکرون کی پوزیشن انتہائی کمزور ہے اور اس کی حکومت بند گلی میں پھنس گئی ہے۔ ایک طرف اس نے دو مہینے یونینز کے خلاف سخت رویہ رکھتے ہوئے کسی قسم کے مذاکرات اور مفاہمت کو خارج از مکان بنا رکھا ہے۔ اگر آج وہ اپنی پوزیشن سے پیچھے ہٹتا ہے تو یہ تحریک کی کامیابی ہو گی اور عوام مزید معاشی حملوں کا مقابلہ کرنے کے لیے پہلے سے کہیں زیادہ پرعزم اور پرجوش ہو جائے گی جو آج فرانسیسی سرمایہ داری کا خاصہ بن چکے ہیں۔ اس نے پچھلے جمعے وزیروں کو کہا کہ ”شکست کے فنانشل اور معاشی خطرات ناقابل برداشت ہیں“۔دوسری طرف میکرون کا تکبرانہ رویہ اور حکومت چلانے کا طریقہ کار حکومت کے غیر جمہوری جوہر کو ننگا کر رہا ہے جس کے نتیجے میں پورے نظام کے خلاف غم و غصہ مسلسل بڑھ رہا ہے۔ اس سب سے بڑھ کر بمشکل عدم اعتماد تحریک سے بچ جانے کے بعد وہ ایک دیو ہیکل آئینی بحران کو دعوت دے رہا ہے۔ درحقیقت حکومت کے پاس کوئی چال چلنے کی گنجائش بہت محدود ہے اور ہر چال غلط ثابت ہو گی۔ نہ وہ آگے بڑھ سکتی ہے نہ پیچھے ہٹ سکتی ہے۔فنانشل ٹائمز کے مطابق ”بہت ساری چیزوں کا دارومدار میکرون کے کنٹرول سے باہر عوامل، جیسے جنوری سے مسلسل بڑھتے احتجاجوں اور ہڑتالوں پر ہے“۔ یہ اہم نکتہ ہے۔ میکرون سڑکوں پر موجود کسی بھی احتجاجی تحریک کے باوجود بچ سکتا ہے، چاہے اس کا حجم اور ریڈکلائزیشن کچھ بھی ہو۔ یونینز کے ہاتھوں میں دیو ہیکل طاقت ہے کیونکہ ان کے ایک حکم پر معیشت اور پورے فرانسیسی سماج کا پہیہ جام ہو سکتا ہے۔ اگر اس ہتھیار کو پوری قوت کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے تو میکرون زیادہ عرصہ مقابلہ نہیں کر پائے گا۔ سوال یہ ہے کہ کیا یونینز یہ ہتھیار استعمال کریں گی؟نوجوان تحریک میں شامل ہو چکے ہیںابھی تک طلبہ اور نوجوانوں کی تحریکیں اس تحریک سے باہر تھیں۔ اس کی منطقی وجہ ہے کہ پنشن کا سوال نوجوانوں کے لئے ایک مستقبل بعید کا سوال ہے۔ تحریک کے آغاز میں یونیورسٹیوں اور کالجوں میں پچھلی تحریکوں کے مقابلے میں اکٹھ کم اور چھوٹے تھے۔ لیکن اب یہ صورتحال تبدیل ہو رہی ہے کیونکہ تحریک کا کردار میکرون کے خلاف ایک عمومی جدوجہد میں تبدیل ہو رہا ہے۔جب تک یونین قیادتیں پرانے بوسیدہ طریقہ کار سے چمٹی ہوئی تھیں، عوام کی ساری توجہ پنشن اصلاحات پر مرکوز کروائی ہوئی تھی اور نوجوان تحریک میں شامل نہیں تھے، اس وقت تک اسٹیبلشمنٹ محفوظ تھی۔ پیر کے دن ٹی وی پر ایک سرمایہ دارانہ تجزیہ نگار تک نے اعلان کیا کہ ”جب نوجوان سڑکوں پر ہوں گے تو حکومت قائم نہیں رہے گی“۔تمام صورتحال سے لاتعلقی کے برعکس فرانسیسی نوجوان بڑی دلچسپی سے ساری صورتحال کا مشاہدہ کرتے رہے ہیں۔ عدم اعتماد تحریک سے پہلے ہزاروں لاکھوں نوجوان ٹوئٹر پر پارلیمانی چینل پر لائیو بحث مباحثہ دیکھ رہے تھے۔ اس وقت پورے ملک میں یہ چینل سب سے زیادہ لائیو ویوز والا پلیٹ فارم تھا۔ پارلیمنٹ کو بائی پاس کرنا، عدم اعتماد تحریک کا ناکام ہونا، میکرون کی اشتعال انگیزی اور سڑکوں پر پولیس تشدد نے بالآخر نوجوانوں کو متحرک کردیا۔جمعرات کو نوجوان بھرپور تعداد میں سڑکوں پر نکلے اور کئی جگہوں پر دیوہیکل جنرل اسمبلیاں بن گئی ہیں۔ 400 سے زائد ہائی سکولوں کے طلبہ متحرک ہوئے ہیں۔ پورے ملک میں 80 یونیورسٹیوں میں دھرنے شروع ہو گئے جن میں روایتی طور پر دائیں بازو کی پیرس پینتھیون یونیورسٹی بھی شامل ہے جسے تاریخ میں پہلی مرتبہ بند کیا گیا ہے۔ طلبہ یونینز کے مطابق 23 مارچ کو پورے ملک میں 5 لاکھ نوجوانوں اور مزدوروں نے احتجاج کیا۔ پیرس کے مرکزی احتجاج میں ایک بڑا اور واضح بینر ”سوربون یونیورسٹی جدوجہد میں موجود ہے“ تھا۔اس سے پہلے ہی ہم محنت کشوں اور نوجوانوں کے درمیان متحدہ تحرک کی کوششوں کو دیکھ رہے تھے۔ مثال کے طور پر پیرس میں ایک طلبہ جنرل اسمبلی نے ایک مارچ کی کال دی جس کا مقصد ایک ہڑتالی آئل ریفائنری کو ایک کوڑا کرکٹ ڈسپوزل پلانٹ کے ساتھ جوڑنا تھا۔ یہ صورتحال میں ایک اہم پیش رفت ہے۔ آخری کامیاب ہڑتالی تحریک 2006ء میں شیراک حکومت کے خلاف تھی جس میں رجعتی ’پہلا نوکری کانٹریکٹ (CPE)‘ کے ذریعے محنت کشوں کے حقوق پر حملہ کرنے کی کوشش کی گئی تھی اور اس تحریک کی کامیابی میں محنت کشوں اور طلبہ کے مشترکہ تحرک نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ اگر ہڑتالوں کے ساتھ منسلک ہونے کی طلبہ کی نومولود کوششیں مزید آگے بڑھتی ہیں تو حکومت کے خلاف تحریک تیزی سے کامیابی کی جانب بڑھ سکتی ہے۔لیکن ایک چیز بالکل واضح ہے کہ تحرک کے دنوں کا طریقہ کار ہمیشہ جاری نہیں رہ سکتا۔ تحریک کے کسی مرحلے پر اس کے مایوس کن اثرات ہوں گے جس کے نتیجے میں تحریک پسپائی اختیار کرے گی۔ اس وقت سب سے اہم کام جدوجہد میں موجود تمام سیکٹروں کی مرحلہ وار ہڑتالوں کو مکمل اور غیر معینہ مدت ہڑتال میں تبدیل کرتے ہوئے نئی پرتوں کے ساتھ زیادہ وسیع اور ریڈیکل مطالبات کے ساتھ جوڑنا ہے۔یونائٹ CGT کے بائیں بازو کے قائدین درست طور پر اس اہم ترین کام کو سمجھ رہے ہیں اور معیشت کے کلیدی سیکٹروں میں غیر معینہ مدت ہڑتال کے ذریعے آگے بڑھنے کا راستہ دکھا رہے ہیں۔ لیکن ان سیکٹرز کی تعداد محدود ہے اور تنہائی کا شکار ہو جانا ایک حقیقی خطرہ ہے۔ فنانشل ٹائمز نے درست طور پر نشاندہی کی ہے کہ ”صرف سڑکیں ہی(صدر کا) راستہ روک سکتی ہیں۔۔۔یہ ملک کو احتجاجوں اور ہڑتالوں کے ذریعے بند کر کے کیا جا سکتا ہے۔ سڑکوں اور صدر کے درمیان شاذونادر ہی مفاہمت ہوتی ہے۔ ایک کی فتح دوسرے کی شکست ہے“۔دوسرے الفاظ میں تحریک اسی وقت کامیاب ہو گی جب پوری حکومت کے خلاف جدوجہد پرعزم اور منظم ہو گی۔ یونائٹ CGT کے حالیہ اعلامیے سے واضح ہے (ترجمہ مندرجہ ذیل) کہ محنت کشوں کی سب سے شعور یافتہ پرتیں ضروری اسباق سیکھ رہی ہیں۔ انہیں ہر صورت ایک ایسی جدوجہد کی تلوار بننا ہے جو میکرون حکومت کا سر قلم کر دے!23 مارچ: عوام کا میکرون کو جواب۔۔۔غم و غصہ کئی گنا بڑھ چکا ہےمیکرون کے ”گھر جاؤ، کام پر واپس آؤ“ اعلان کو ابھی 24 گھنٹے پورے نہیں ہوئے تھے کہ عوام نے سڑکوں پر اور ہڑتالوں کے ذریعے اپنا جواب دے دیا ہے۔ وہ کہہ چکے ہیں کہ ”اس کی اصلاحات اس کا منہ کالا کریں گی“ اور ہم سب کچھ واپس چھینیں گے!پورے ملک میں ”چھوٹے قصبوں“ سے لے کر بڑے شہروں تک، آنسینس سے ٹولوز، پیرس، کیلے، لی ہاورے، روین، والینس، لیون، مارسئی، آرلیز، سینٹ ایتین، رینیز، نانتیز، سینٹ نازائر، ناربون، مونتوبان۔۔۔ہر جگہ پھر سے احتجاج ہو رہے ہیں۔لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں فرانسیسی عوام نے جمہوریہ کی حقارت کا ہڑتالوں اور سڑکوں پر نکل کر جواب دیا ہے۔”مردہ شہروں“ کا آپریشن تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ ہر جگہ خودرو جوش اور ولولہ اپنا اظہار کر رہا ہے۔ کسی جگہ پر قبضہ کر لیا گیا، کہیں رنگ روڈ بند کر دی گئی۔واپسی کا کوئی راستہ نہیں اور تخلیقی صلاحیت تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے۔ اور یہاں پر ہم پیرس میں کوڑے کرکٹ کو لگائی جانے والی آگ کی بات نہیں کر رہے بلکہ غم وغصے کے اس طوفان کی بات کر رہے ہیں جو ناانصافی کے نتیجے میں پھٹ پڑا ہے۔ درحقیقت عملی جدوجہد کے ذریعے ”ہم سب کچھ چھین رہے ہیں“۔پھر پولیس کی خود اپنی حالت بہت پتلی ہورہی ہے کیونکہ اس کے سامنے فرانس کے سب سے چھوٹے گاؤں سے لے کر پیرس شہر تک ہر جگہ عوام کھڑے ہو گئے ہیں۔ یہ کب تک ثابت قدم رہیں گے۔ ابھی سے ان کے پیر اکھڑنا شروع ہو گئے ہیں۔ کیا میکرون احتجاجیوں میں سے کسی کی موت کا انتظار کر رہا ہے؟ ہمارا عمل برحق ہے اور ہم اپنا ملک واپس لے رہے ہیں۔فوس سر میر میں جھڑپ اور پچھلے دو دنوں سے دورافتادہ ایندھن ڈپو میں جھڑپوں نے ثابت کر دیا ہے کہ ایک جنگجو CGT کیا کر سکتی ہے اور اسے کیا کرنا چاہئیے۔۔۔طاقت کے توازن کو فیصلہ کن طور پر تبدیل کیا جائے جس میں خاص طور پر ہڑتال کے حق کا تحفظ اور ریکوئزیشن کا خاتمہ ہے۔کئی سو CGT ٹریڈ یونینسٹوں نے ایک اورویلین پولیس فورس کے سامنے ایک نئی ریلی منظم کی جبکہ فرانس کے دوسرے کنارے پر نارمنڈی ریفائنری کے محنت کش CGT کے ساتھ مل کر 23مارچ کی رات، 24مارچ اور آنے والے کل کے لئے ریفائنری کے سامنے روزانہ ریلیوں کا اعلان کر رہے تھے۔23 مارچ کا دن وہ مرحلہ ثابت ہوا جب طاقتوں کا توازن تبدیل ہو رہا ہے اور سرگرمیاں پرعزم ہو رہی ہیں۔ لی ہاورے، کیلے، رینیز، پیرس، بریست، روین، سینٹ نازائر وغیرہ۔۔۔ہر جگہ عوام حکومت کا خاتمہ چاہتی ہے۔آج ملک گیر ہڑتال کے اس نئے دن نے عوامی عزم کو ثابت کر دیا ہے۔ یونین قیادتوں کی حکمت عملی سے آگے بڑھنا ہو گا۔۔۔اب اہم ہو چکا ہے کہ ہر جگہ تمام سیکٹرز میں غیر معینہ مدت ہڑتالیں کی جائیں جن کا طریقہ کار مختلف ہو سکتا ہے، تاکہ مکمل فتح حاصل ہو۔جدوجہد جاری رکھو!مکمل فتح تک پورا ملک بند کر دو!ہم ہوں گے کامیاب!یونائٹ CGT