میانمار: آئی ایم ٹی کے حامیوں ’’جدوجہد‘‘ کی تاسیسی دستاویز Share Tweetدرج ذیل میانمار کے مارکسی انقلابی میگزین ’جدوجہد‘ کا تاسیسی اداریہ ہے، جو عالمی مارکسی رجحان کے حامی ہیں۔ ملک کے سخت ترین حالات کے باوجود مارکسی انقلابیوں کا ایک گروہ پی ڈی ایف میگزین شائع کرنے میں کامیاب ہوا ہے، جسے وہ اپنے فیس بک پیج ”ریولوشنری مارکسزم“ (جس کے ابھی 7 ہزار سے زائد لائکس ہو چکے ہیں) کے ذریعے تقسیم کرتے ہیں۔ میگزین کی کاپی حاصل کرنے کے لیے آپ پیج پر رابطہ کر سکتے ہیں۔ قارئین کے لیے بعض نکات کی وضاحت کی خاطر مندرجہ ذیل ترجمہ برمی زبان کی اصل تحریر سے تھوڑا مختلف ہے۔[Source]انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریںہم ماہانہ ڈیجیٹل میگزین ’جدوجہد‘ کی اشاعت کا سلسلہ شروع کرتے ہوئے فخر محسوس کر رہے ہیں۔ میانمار میں بائیں بازو سے وابستہ کئی افراد شاید سوال کریں گے: کیا اس دور میں بھی ایک خصوصی سیاسی میگزین شائع کرنے کی ضرورت ہے؟ آج ہر بندے کو انٹرنیٹ پر بے شمار مضامین تک رسائی حاصل ہے۔ مگر ہمارے نزدیک ان کے ذریعے میانمار کی صورتحال کو سمجھا نہیں جا سکتا، خاص کر ان کی مدد سے سوشلسٹ انقلاب کے لیے درکار قوتوں کی تعمیر تو بالکل نہیں کی جا سکتی، جو برما کے محنت کشوں اور نوجوانوں کے لیے آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے۔’مین سٹریم‘ میڈیا میں بریکنگ نیوز کی کوئی کمی نہیں، اور اس طرح کی دیگر مختلف آن لائن مطبوعات موجود ہیں۔ مگر ’جدوجہد‘ اور دیگر مطبوعات کے بیچ اہم فرق یہ ہے کہ ہم مارکسی نظریے کی اہمیت پر زور دیتے ہیں۔ ’جدوجہد‘ کے ذریعے سماج میں موجود نا انصافیوں کے خلاف محض غصّے کا اظہار نہیں کیا جاتا، اس میں موجودہ بحران سے نکلنے کا راستہ بھی فراہم کیا جاتا ہے۔جیسا کہ ”کیا کِیا جائے؟“ میں لینن کا مشہور قول ہے، ”انقلابی نظریے کے بغیر انقلابی تحریک ممکن نہیں ہو سکتی“۔ یہ محض ایک نعرہ نہیں ہے۔ کئی بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے ان الفاظ کو طوطے کی طرح دہراتے رہتے ہیں مگر کم افراد ہی حقیقی معنوں میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ لینن کا اس سے مراد کیا تھی۔ سب سے اہم عنصر ’انقلابی‘ کا لفظ ہے۔پرودھون اور باکونن کے انارکسٹ ’نظریات‘ سے لے کر مِشل فوکو کے ما بعد جدیدیت والے خیالات اور بیل ہوکس کے فیمینسٹ تصورات تک، ہزاروں کی تعداد میں ایسے عجیب و غریب نظریات موجود ہیں جو لڑاکا اور انقلابی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ مگر انقلابی نظریے سے لینن کی مراد ایک ایسا نظریہ تھا جو سماج کی مکمل تبدیلی کی خاطر عملی قدم اٹھانے میں رہنمائی کر سکے۔ کوئی بھی نظریہ اگر ایسا کرنے کے قابل نہ ہو تو اسے انقلابی نہیں کہا جا سکتا۔لینن اپنے مشہور قول کے بعد لکھتا ہے: ”اس تصور پر ایک ایسے وقت میں حد سے زیادہ پُر زور اصرار نہیں کیا جا سکتا جبکہ موقع پرستی کا پرچار اور عملی سرگرمی کی محدود ترین صورتوں کے لیے وقتی جوش و جذبہ دکھانا ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم بن چکے ہوں۔“آج میانمار میں بالکل یہی کچھ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ مایوس پیٹی بورژوازی، بشمول دانشور، محدود عملی سرگرمیوں کے لیے وقتی جوش و جذبہ دکھاتے نظر آتے ہیں۔ نتیجتاً، وہ فوجی حکومت کے خلاف شہری گوریلا جدوجہد کو کامیاب انقلابی تحریک چلانے کے لیے کافی سمجھتے ہیں۔ وہ یہ سمجھنے میں نا کام رہے ہیں کہ میانمار کے اندر موجودہ صورتحال میں طبقاتی جدوجہد پیچھے کی جانب گئی ہے۔روس میں جن دنوں ایسے ہی حالات تھے، تب لینن نے انقلابیوں کا اپنا مطالعہ دوگنا کرنے اور مارکسی نظریے کے دفاع کی اہمیت پر شدید زور دیا تھا۔ لینن نے یہ وضاحت بھی کی تھی کہ تین خصوصی اسباب کے باعث نظریے کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ (نوٹ: جب 1902ء میں لینن ”کیا کِیا جائے“ لکھ رہا تھا، روسی مارکسزم کی قوتیں ابھی چھوٹی اور کمزور تھیں، جن کی شعوری سطح بحث مباحثوں کے چھوٹے گروہوں تک محدود تھی۔) یہ اسباب مندرجہ ذیل ہیں:”اول، اس حقیقت کی وجہ سے کہ ہماری پارٹی محض تشکیل کے دور میں ہے، اس کے خد و خال ابھی واضح ہونے شروع ہی ہوئے ہیں اور وہ ابھی تک انقلابی فکر کے ان دیگر رجحانات کے مد مقابل آنے سے دور ہے جو تحریک کو صحیح راستے سے بھٹکانے کے درپے ہیں۔۔۔دوم، سوشل ڈیموکریٹک تحریک اپنی اساس میں ایک بین الاقوامی تحریک ہے۔ مطلب یہ کہ ہمیں نہ صرف اپنے ملک میں قومی شاؤنزم کے خلاف لڑنا ہوگا، بلکہ ایک نوخیز ملک میں ابتدائی تحریک صرف دوسرے ملکوں کے تجربات سے استفادہ کرتے ہوئے ہی کامیاب ہو سکتی ہے۔ ان تجربات سے استفادہ کرنے کے لیے محض ان سے روشناس ہونا یا محض تازہ ترین قراردادوں کو نقل کرنا کافی نہیں ہوتا۔ جس چیز کی ضرورت ہوتی ہے وہ ان تجربات کا تنقیدی جائزہ لینے اور اپنے طور پر ان کو استعمال کرنے کی صلاحیت ہے۔ جس شخص کو یہ علم ہوگا کہ جدید محنت کش طبقے کی تحریک کس قدر بڑے پیمانے پر پھیل گئی ہے، وہی سمجھ پائے گا کہ اس فریضے کو سر انجام دینے کے لیے نظریاتی قوتوں اور سیاسی (و انقلابی) تجربے کا کتنا بڑا ذخیرہ درکار ہوتا ہے۔ سوم۔۔۔ہر اول دستے کے جنگجو کے فرائض کی تکمیل وہی پارٹی کر سکتی ہے جس کی رہنمائی سب سے زیادہ ترقی یافتہ نظریہ کر رہا ہو۔“لینن کا ”سب سے زیادہ ترقی یافتہ“ نظریے سے کیا مراد ہے؟ اس سوال کے پیشِ نظر ہمیں یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ اس دور میں متعدد نظریات، تحریکیں اور تصورات لڑاکا اور انقلابی ہونے کا دعویٰ کرتے تھے (نوٹ: مثلاً نرودنزم، جو کسانوں کے اندر سرگرم تھے اور انفرادی دہشتگردی کے طریقوں کو صحیح سمجھتے تھے)۔ لینن کی سب سے ترقی یافتہ نظریے سے مراد مارکسزم تھی، جسے ’سائنسی سوشلزم‘ بھی کہا جاتا ہے۔آج مارکسزم کا دعویٰ کرنے والے بہت سارے طرزِ فکر اور روایات موجود ہیں جن میں سٹالنزم، ماؤ ازم اور نام نہاد تجزیاتی مارکسزم کا فرینکفرٹ سکول، جس کی بنیاد جی اے کوہن نے رکھی تھی، شامل ہیں۔ البتہ، ہم کھلے عام کہیں گے کہ ان میں سے کوئی بھی حقیقی مارکسزم سے تعلق نہیں رکھتا۔ حقیقی مارکسی اور سائنسی سوشلزم کے نظریات مارکس، اینگلز، لینن اور ٹراٹسکی کی تصانیف میں موجود ہیں۔اسی لیے ’جدوجہد‘ مارکسزم کی کسی مسخ شدہ شکل کو قبول نہیں کریں گے۔ جیسا کہ لینن نے اِسکرا (روسی سوشل ڈیموکریٹک لیبر پارٹی کا اخبار) کے اداریے میں اعلان کرتے ہوئے لکھا تھا، ”اس سے پہلے کہ ہم متحد ہو سکیں، ہمارے اتحاد کی خاطر، ہمیں سب سے پہلے اپنی تفریق کی واضح اور مضبوط حد بندی کرنی پڑے گی۔ بصورتِ دیگر، ہمارا اتحاد محض برائے نام ہوگا، جو بڑھتی ہوئی الجھن پر پردہ ڈالے گا اور اس کے خاتمے میں رکاوٹ بنے گا۔“لینن کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے، ہم اپنے میگزین سے فیمینزم، ماؤ ازم اور انارکزم وغیرہ جیسے نام نہاد ’لڑاکا‘ اور ’ترقی پسند‘ خیالات کا پرچار نہیں کریں گے۔ ہماری بنیاد مارکسزم کی حقیقی روایات کے اوپر کھڑی ہے۔برما میں، جہاں ماضی میں سٹالنزم اور ماؤ ازم کی مضبوط روایت رہی ہیں، ہمیں مارکس، اینگلز، لینن اور ٹراٹسکی کے انقلابی نظریات کے لیے مضبوط بنیاد قائم کرنے کی خاطر نظریاتی جدوجہد کرنی پڑے گی۔ اینگلز کی کتاب ”جرمنی میں کسانوں کی جنگ“ کے دیباچے سے لمبا اقتباس نقل کرتے ہوئے، لینن نظریاتی جدوجہد کی اہمیت پر زور دیتا ہے: ”اینگلز کے نزدیک سوشل ڈیموکریسی کی جدوجہد کی فقط دو قسمیں (سیاسی اور معاشی) نہیں ہیں، جیسا کہ ہمارے ہاں رواج ہے، بلکہ اس کے نزدیک اس کی تیسری قسم یعنی نظریاتی جدوجہد بھی اتنی ہی اہمیت کی حامل ہے۔“ نظریاتی جنگ کے میدان میں ’جدوجہد‘ میگزین اولین صفوں میں شامل ہوگا۔مستقبل کی انقلابی پارٹی کے لیے مضبوط نظریاتی بنیادیں ڈالنے کا یہی واحد راستہ ہے۔ حتمی تجزیے میں، یہ بم اور راکٹ لانچرز نہیں، بلکہ مارکسی نظریہ ہی ہے جو سرمایہ داری کی خونریزی سے نجات حاصل کرنے کے لیے درکار انقلابی تنظیم کی تعمیر کر سکتا ہے۔