برطانیہ: بڑھتی مزدور تحریک اور انقلابی متبادل کی ضرورت Share Tweetحکمران طبقے کے حملوں کے خلاف ہڑتالوں اورتحریکوں کے ذریعے بڑے پیمانے پر جنگ کا آغاز ہو رہا ہے۔ جیتنے کے لیے محنت کشوں اور نوجوانوں کو لڑاکا حکمت عملی، جرات مندانہ سوشلسٹ پالیسیوں اور واضح انقلابی تناظر سے مسلح ہونا ہوگا۔[Source]انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریںپچاس سال قبل، 1972ء میں ’ٹی یو سی (TUC)‘ نے یونین مخالف قوانین کی خلاف ورزی کرنے پر پانچ بندرگاہ کے مزدوروں المعروف ’پینٹون ویلے فاؤ‘، کو قید کیے جانے کے جواب میں عام ہڑتال کی دھمکی دی تھی۔اس وقت برطانیہ قبل از انقلابی صورتحال میں تھا، اور تیزی سے نئی پرتیں طبقاتی جدوجہد میں شامل ہورہی تھیں۔آج برطانیہ ایک بار پھر ہڑتالی لہر کی لپیٹ میں ہے۔ جس میں محنت کش طبقے کی دوبارہ بیداری دیکھی جا سکتی ہے جو کئی دہائیوں سے نظر نہیں آئی۔ یہاں تک کہ ایمازون کے بغیر یونین کے ملازمین بھی احتجاجوں میں حصہ لے رہے ہیں۔ایک بار پھر ملک میں لڑاکاپن کے بادل منڈلا رہے ہیں اور ٹوری پارٹی کی یونین مخالف دھمکیوں کے جواب میں عام ہڑتال کی بات ہو رہی ہے۔آر ایم ٹی کے جنرل سیکرٹری مِک لنچ نے کہا ہے کہ یہ مزاحمت ”1926ء کی عام ہڑتال، سفراگیٹس، اور چارٹزم جیسی ہوگی“۔ یہاں تک کہ سن اخبار نے بھی ’طبقاتی جنگ‘ کا انتباہ دیا ہے۔عام ہڑتالتاہم گزشتہ ادوار کے مقابلے میں اب برطانوی سرمایہ داری کا بحران سو گنا زیادہ شدید ہے۔ بینک آف انگلینڈ نے طویل کساد بازاری اور افراط زر میں بے تحاشا اضافے کی سنگین صورتحال کی پیش گوئی کی ہے۔ اس کا مطلب محنت کش طبقے کے معیار زندگی میں بڑے پیمانے کی کٹوتی ہے۔رابرٹ جینرک، سابق ٹوری وزیر نے کہا کہ ”میرے خیال میں ہمیں معیار زندگی کی ایسی شدید گراوٹ کیلئے تیار رہنا ہوگا جو شاید پہلے ہم سے کسی نے کبھی بھی نہیں دیکھی ہوگی“۔ایسی صورتحال میں عام ہڑتال کا سوال ناگزیر بن چکا ہے۔ نہ صرف ٹریڈ یونین قیادت بلکہ اسٹیبلشمنٹ بھی ایسے امکان سے آگاہ ہے۔ایک وزیر نے حال ہی میں اعلان کیا کہ حکومت ایک ’نازک رسی‘ پر چل رہی ہے، سرکاری شعبے کی تنخواہوں پر حملہ کرنے کی کوشش بھی ہے جبکہ ہڑتالوں سے بھی بچنے کی کوششیں کی جار ہی ہیں۔گمنام ٹوری ایم پی نے کہا کہ ”اگر ہم کوئی غلطی کرتے ہیں تو ہم بلاشبہ عام ہڑتال کا خطرہ مول لیں گے جو مزید ہنگامہ آرائی پیدا کرے گی جس سے پوری معیشت کے رُک جانے کا خطرہ ہے“۔ایک اور ایم پی نے کہا کہ ”اس عمل کو روکنا ہوگا چاہے یہ کتنا ہی مشکل ہو جائے“۔عدم اطمینانی کا ماحول1920ء کی دہائی میں جب برطانیہ نے آخری بار عام ہڑتال دیکھی تو محنت کش طبقے کوسرمایہ دار طبقے کی جانب سے بے تحاشہ حملوں کا سامنا تھا۔ ملک انقلاب کی طرف بڑھ رہا تھا۔ آج ہم ایک بار پھر زبردست انقلابی تبدیلیوں کے دور میں داخل ہو رہے ہیں۔جدلیاتی طور پر، برطانیہ سب سے زیادہ مستحکم ممالک سے اب سب سے زیادہ غیر مستحکم ممالک میں سے ایک بن گیا ہے۔حکمران طبقہ خوف و ہراس کا شکار ہے۔ لِز ٹرس کی بطور وزیر اعظم ترقی کے امکانات ان کے اعصاب کے مستحکم ہونے کے امکانات کو کم کرتے ہیں۔ اس کے برعکس، یہ عدم استحکام کے ایک نئے دور کا آغاز کرے گا۔سر کیئر سٹارمر کی قیادت میں لیبر پارٹی حکمران طبقے کا آلہ بن چکی ہے۔ اس کی قیادت بڑے کاروباریوں کے وفادار نوکر ہیں جو ان کے قدموں میں جھکے ہوئے ارب پتیوں کے ذرخرید غلام ہیں۔اس کے برعکس، محنت کش طبقے کی لڑاکا آواز کا اظہار بائیں بازو کے ٹریڈ یونین لیڈروں کی طرف سے کیا جا رہا ہے، خاص طور پر ’آر ایم ٹی‘ کے مِک لنچ اور یونائیٹ کے شیرون گراہم محنت کش طبقے کے اندر بے اطمینانی کی عکاسی کر رہے ہیں، جو تیزی سے بے تاب ہو رہے ہیں۔اصلاحات اور رد اصلاحاتبائیں بازو کی مختلف شخصیات اور تنظیموں کے تعاون سے ایک مہم کا آغاز ہوا ہے جس کا نام ’بس بہت ہو گیا!‘ ہے، جس کا مقصد زندگی گزارنے کی لاگت کے بحران سے نمٹنا ہے۔مہم میں تنخواہ میں حقیقی اضافے اور 15 پاؤنڈ فی گھنٹہ کم از کم اجرت سمیت توانائی کے بلوں میں بڑی کمی؛ غذائی غربت کا خاتمہ؛ اور سب کے لیے اچھے گھروں کے مطالبات شامل ہیں۔ ان کا آخری مطالبہ یہ ہے کہ ”امیرترین لوگوں اور بڑے کاروباروں کے منافع پر ٹیکس بڑھا کر امیروں کو اپنا منصفانہ حصہ ادا کرنا ہوگا“۔ہم یقیناً معیار زندگی کے دفاع اور بہتری کے لیے تمام اقدامات کی حمایت کرتے ہیں۔ لیکن یہ سوچنا کہ صرف امیروں پر ٹیکس لگا کر، جبکہ سرمایہ دارانہ نظام کو برقرار رکھ کر، ہمارے مسائل حل ہو جائیں گے، بنیادی طور پر غلط ہے۔ پھربھی اب تک مہم کے پروگرام میں سرمایہ داری کا کوئی ذکر نہیں ہے۔معیار زندگی کے متاثر ہونے کی وجہ سرمایہ داری کا بحران ہے۔ یہ دیوالیہ نظام مزید اصلاحات کا حامل نہیں ہو سکتا، بلکہ صرف رد اصلاحات اور کٹوتیوں کا حامل ہو سکتا ہے۔مارکیٹ کی معیشت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے سے کچھ بھی حل نہیں ہوگا۔ کوئی ”اچھی“ اور ”خراب“ سرمایہ داری نہیں ہے۔ بلکہ سارا نظام بوسیدہ ہے۔ سرمایہ داری کی بنیاد پر آگے بڑھنے کا کوئی راستہ نہیں جو سوائے مصائب، مشقت، غربت اور جنگ کے کچھ نہیں دے سکتی۔نظام کو بدلوبدقسمتی سے، ’بائیں بازو‘ کا سماج کی تبدیلی پرکوئی بھروسہ نہیں ہے۔ وہ عملی طور پر سرمایہ داری کو قبول کرتے ہیں۔ اس لیے وہ صرف نظام کی ”اصلاح“ تک محدود رہتے ہیں۔جس طرح آپ گوشت خور شیر کو سبزی خور میں تبدیل نہیں کر سکتے، اسی طرح سرمایہ داری کی اصلاح بھی نہیں ہو سکتی۔اس استحصالی نظام کے تحت جو بھی فائدہ بائیں ہاتھ سے حاصل ہوگا، حکمران طبقہ دائیں ہاتھ سے واپس لینے کی کوشش کرے گا۔ہم برطانیہ میں جو کچھ دیکھ رہے ہیں وہ محنت کش طبقے کی بیداری کا آغاز ہے۔ اور گہرا ہوتا ہوا بحران شعور کو مزید ہلا کر رکھ دے گا۔اس لیے ہمیں ایک ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو صورت حال کی سنگینی کو سمجھے، اور جو جدوجہد کو اپنے منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے تیار ہو۔ہمیں ایک ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو سرمایہ داری کو اکھاڑ پھینکنے کے لیے لڑے، اور اسے ایک جمہوری، قومی، منصوبہ بند معیشت سے بدل دے، تاکہ سماج کے وسائل کو ہماری ضروریات اور مسائل کے حل کے لیے عقلی طور پر استعمال کیا جا سکے۔انقلابی قیادتکچھ لوگ دلیل دیتے ہیں کہ ہمیں لیبر پارٹی کو ایک ’نئی‘ اور ’بہتر‘ لیبر پارٹی سے بدلنے کی ضرورت ہے۔ لیکن جس چیز کی ضرورت ہے وہ ایک اور اصلاح پسند جماعت نہیں جو پرانے نظام کو برقرار رکھنے کی کوشش کرے گی، بلکہ ایک انقلابی پارٹی کی ہے جو سرمایہ داری کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے تیار ہو۔بلاشبہ، ایسی پارٹی کا محض اعلان نہیں کیا جا سکتا۔ اسے تعمیر کرنا ہوگا۔کارل مارکس نے وضاحت کی کہ محنت کش طبقے کی آزادی خود محنت کش طبقے کا کام ہے۔ لیکن محنت کش طبقے کو ایک ایسی پارٹی کی ضرورت ہے جو پرعزم قیادت فراہم کرے۔مزدور تحریک کے دائیں بازو کے رہنما اپنے آپ کو بہت پہلے بیچ چکے ہیں، جبکہ بائیں بازو کے اصلاح پسندوں کے پاس سماج کو بدلنے کا کوئی تناظر نہیں ہے۔صرف مارکسزم ہی چیزوں کو طبقاتی لحاظ سے واضح طور پر دیکھتا ہے یعنی کہ؛ سرمایہ داری کے خلاف جنگ، اور محنت کش طبقے کو سماج کی سوشلسٹ تبدیلی کے لیے ایک پروگرام اور تناظر فراہم کرنا۔برطانیہ کے حالات عوامی انقلابی رجحان کی تعمیر کے لیے پکار رہے ہیں۔واقعات، واقعات اور واقعات محنت کش طبقے کے شعور کو بدل دیں گے، اور انقلابی تبدیلی کی راہیں کھولیں گے۔ یہ وقت کے خلاف ایک دوڑ ہے۔لہٰذا ہم آپ سے اپیل کرتے ہیں کہ ہمارے ساتھ شامل ہوں! اس وقت اس سے زیادہ اہم کام اور کوئی نہیں ہے۔