فریڈرک اینگلز کے دو سوسال Share Tweet(28 نومبر 2020ء کو فریڈرک اینگلز کی 200ویں سالگرہ منائی گئی۔ اس موقع پر سوشلسٹ اپیل کے مدیر راب سیول، اینگلز کی اہم خدمات پر روشنی ڈالتے ہیں جو اس نے مارکسزم کے نظریات کو پروان چڑھانے میں ادا کیے اور جس کے لیے ہم ہمیشہ اس کے مشکور رہیں گے۔)[Source]فریڈرک اینگلز، جو کارل مارکس کے ہمراہ سائنسی سوشلزم کے بانی تھے، کی 200ویں سالگرہ کے موقع کی مناسبت سے ہمیں اس نابغہئ روزگار کی زندگی اور کار ہائے نمایاں پر نظر دوڑانی چاہیے۔اگرچہ، مارکسزم کو مارکس کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے، ہمیں اینگلز کی اہم خدمات اور مارکس کے ساتھ اس کے نامیاتی تعلق کو کبھی نہیں بھولنا چاہیے۔ بلاشبہ، اینگلز ایک ہمہ گیر ذہن کا مالک تھا، جو گو ناگوں قسم کے علوم جیسے فلسفہ، معیشت، تاریخ، فزکس، علم لسان اور جنگی سائنس میں طاق تھا۔ آخر الذکر کے بارے میں علم رکھنے کی وجہ سے اسے ’جنرل‘ کے نام سے بھی پکارا جانے لگا۔اکثر اوقات اینگلز کو مارکس کے مقابلے میں ثانوی حیثیت دی جاتی ہے۔ اگرچہ مارکس بذات خود ایک ہمہ گیر عالی دماغ تھا مگر اینگلز بھی کسی طور پیچھے نہ تھا۔ ہمیشہ کسر نفسی سے کام لیتے ہوئے اینگلز نے مارکس کو مقدم رکھا۔ مگر جب ہم دونوں کے بیچ ہونے والی ضخیم خط و کتابت کا مطالعہ کرتے ہیں تو اینگلز کی شاندار خدمات ہمارے سامنے آشکار ہوتی ہیں جن کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ مارکس سمیت وہ خود بھی ایک عظیم سیاستدان تھا۔ابتدائی زندگیاینگلز کی متعدد سوانح حیات لکھی جا چکی ہیں جن میں سے کچھ اچھی ہیں اور کچھ بری۔ ا س فہرست میں حال ہی میں شامل ہونے والی ایک کتاب برطانوی تاریخ دان ٹرِسٹرام ہنٹ کی ’The Frock-Coated Communist‘ ہے، جو کہ ایک انتہائی بھونڈی تحریر ہے۔ایسے لوگوں سے اور کیا توقع کی جاسکتی ہے۔ بورژوا تاریخ دان جب خاص کر مارکس اور اینگلز کے بارے میں لکھتے ہیں تو حقائق کو پس پشت ڈال کر اپنی ذاتی آراء مسلط کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ٹرسٹرام ہنٹ بھی ایک ایسا ہی نیچ لکھاری ہے۔ ان نام نہاد دانشوروں کی بکواس سے ہم کچھ نہیں سیکھ سکتے۔اینگلز کا جنم مغربی جرمنی کے ایک شہر بارمین کے اندر کپڑے کے صنعتکار خاندان میں ہوا۔ وہ نوجوانی میں ہی اپنے طبقاتی پس منظر سے رشتہ توڑ کر محنت کش طبقے کے ساتھ جا کھڑا۔ اس وقت سے اس نے اپنی زندگی سرمایہ داری کے خاتمے اور محنت کش طبقے کی آزادی کے لیے وقف کر دی۔ مارکس، جس کا تعلق خود بھی بورژوا خاندان سے تھا، کے ہمراہ وہ محنت کشوں کے عظیم قائدین میں سے ایک بن کر ابھرا۔اینگلز کی عمر بیس کے لگ بھگ ہی تھی جب وہ انقلابی چارٹزم ]سیاسی حقوق کے لیے برطانوی محنت کشوں کی 1838ء سے 1857ء تک چلنے والی ایک تحریک[ کی کھلی حمایت کرنے لگا اور اپنی مشہور کتاب ”انگلستان میں محنت کشوں کے حالات“ لکھی۔ اس نے برطانوی مزدور تحریک کے ساتھ براہِ راست رابطے استوار کیے اور یہی وہ وقت تھا جب اینگلز ایک پکا کمیونسٹ بن گیا۔اپنی ابتدائی تحریروں میں ہی، جیسا کہ مارکس لکھتا ہے کہ وہ ”سائنسی سوشلزم کے بعض عمومی اصول مرتب کرچکا تھا“ اگرچہ ان کو حتمی شکل دینا باقی تھا۔مارکساینگلز کی مارکس سے ملاقات اور دوستی کا آغاز اگست 1844ء میں ہوا۔ اس ملاقات سے دونوں کے بیچ عمر بھر پر محیط ایسی سیاسی اور نظریاتی رفاقت کا آغاز ہوا جو دنیا کو تبدیل کرکے رکھ دینے والی تھی۔ پرانے وقتوں کو یاد کرتے ہوئے اینگلز کہتا ہے:”جب 1845ء کے موسم بہار میں برسلز کے اندر ہماری دوسری ملاقات ہوئی تو اس وقت مارکس اپنے تاریخ کے مادی نقطہئ نظر کے اہم خدوخال مرتب کر چکا تھا۔۔۔اور ہم نے اس نئے نقطہ نظر کی مختلف پہلوؤں سے تفصیلی وضاحت کا تہیہ کر لیا۔“اس رفاقت کے ثمرات نظریاتی کام کے ایک سلسلے کی صورت میں نکلے، جیسا کہ جرمن فلسفہ، اور جس کا اختتام کمیونسٹ مینی فیسٹو پر ہوا۔ اس دوران وہ دونوں تذبذب بھرے خیالات و تصورات کے مالک لوگوں کے خلاف جدوجہد کرتے رہے۔اینگلز لکھتا ہے کہ: ”آج بھی اس درجے کی بکواس کے خلاف لڑنا پڑتا ہے۔ یہ بہت ذلت آمیز ہے۔ میں ان حضرات کا پیچھا اس وقت تک نہیں چھوڑوں گا جب تک گرن (ایک خیالی سوشلسٹ) کو میدان سے بھگا نہ دوں اور ان کے ذہنوں سے جالے صاف نہ کر دوں۔“مارکس اور اینگلز کا قریبی رشتہ اور تعلق وقت گزرنے کے ساتھ مزید مضبوط ہوتا گیا۔ لینن کے الفاظ میں:”پرانی حکایتوں میں دوستی کی کئی متاثر کن مثالیں ملتی ہیں۔ یورپی پرولتاریہ وثوق سے کہہ سکتا ہے کہ ان کے نظریے کو دو ایسے عالموں اور جنگجوؤں نے تخلیق کیا جن کے آپسی تعلقات انسانی دوستی کی قدیم کہانیوں سے بھی بڑھ کر تھے۔“ٹراٹسکی، جس نے اینگلز کی زندگی اور خدمات کے ہر پہلو کا مطالعہ کیا، اینگلز کی شخصیت کے بارے میں بجا طور پر لکھتا ہے کہ:”بلاشبہ اینگلز عظیم آدمیوں کے گلدستے میں سب سے کامل اور عالی مرتبت شخصیات میں سے ایک ہے۔ اس کے خیالات کی تجدید کرنا ایک خوش آئند کام ہے اور یہ تاریخی فریضہ بھی ہے۔۔۔”وہ دونوں (مارکس اور اینگلز) کتنے احسن طریقے سے ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں! یا یوں کہنا چاہیے کہ اینگلز شعوری طور پر مارکس کی تکمیل کرنے کی کوشش کرتا ہے؛ جس کے لیے اس نے اپنی ساری زندگی وقف کر دی تھی۔ وہ اسے اپنا مقصد سمجھتا تھا اور اسی میں اسے سکون ملتا تھا۔ اور اس عمل میں اینگلز کی اپنی شخصیت بھی نمایاں طور پر برقرار رہی جو ہمیشہ اپنے ہوش و حواس میں رہتا، زندگی سے بھرپور تھا، اپنے ماحول اور عمر کے لحاظ سے ہمیشہ دور اندیش تھا، بے پناہ دانشورانہ دلچسپیوں کا مالک تھا، اور جس کی ذہانت کے شعلے سوچ کی بھٹی میں ہمیشہ بھڑکتے رہتے تھے۔”اپنی روزمرہ زندگیوں کے پس منظر میں، جب اینگلز کا موازنہ مارکس سے کیا جاتا ہے تو اس کی قدرومنزلت میں غیر معمولی اضافہ ہو جاتا ہے، اور اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ اس سے مارکس کے قدوقامت میں ذرا برابر بھی کمی ہوتی ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ اپنی فوجی ٹرین پر مارکس اور اینگلز کے بیچ خط و کتابت کا مطالعہ کرنے کے بعد میں نے لینن سے اینگلز کی شخصیت کے بارے میں اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا۔ میرا نقطہ یہ تھا کہ جب عظیم المرتبت مارکس کے ساتھ اینگلز کے مخلصانہ رشتے کو دیکھا جائے تو اس کی قدرومنزلت کم ہونے کی بجائے مزید بڑھ جاتی ہے۔”لینن نے خوشی کے ساتھ اس خیال کو فوری طور پر تسلیم کر لیا۔ اسے اینگلز سے بہت گہری محبت تھی، خصوصاً اس کے کامل کردار اور ہمہ گیر انسانی جذبات سے لبریز شخصیت کے ساتھ۔ مجھے یاد ہے کہ ہم نے کس قدر گرمجوشی کے ساتھ اینگلز کی جوانی کے خاکے کو پرکھا اور اس میں وہ خصائل دریافت کیے جو اس کی بعد والی زندگی میں نمایاں بن کر ابھرے۔”جب آپ کا دل بلمز، کاچنز اور تھورزس (اصلاح پسند اور سٹالنسٹ لیڈران) کی تحریروں سے بھر جائے، جب کمینے پن، بد تمیزی، چاپلوسی اور جہالت کے جراثیم نگل نگل کر آپ کا معدہ پُر ہو جائے تو اس کی صفائی کا سب سے بہترین طریقہ مارکس اور اینگلز کی خط و کتابت کا مطالعہ کرنا ہے جو ان دونوں کے بیچ اور دیگر لوگوں کے ساتھ ہوئی۔ ان کے پر لطف کنایے اور کردار نگاری بعض دفعہ مشکل سے سمجھ آتے ہیں مگر ہمیشہ سوچ سمجھ کر اور ضرورت کے عین مطابق لکھے ہوتے ہیں۔ وہ بہت ساری ہدایات سے بھرپور ہیں اور ان میں ذہنی تازگی اور بلندی کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ وہ ہمیشہ بلندی پر رہتے تھے۔“ٹراٹسکی مزید لکھتا ہے:”اینگلز کی پیش گوئیاں ہمیشہ امید افزاء ہوتی ہیں۔ اکثر اوقات یہ (پیش گوئیاں) واقعات کے حقیقی تسلسل سے بھی آگے جا نکلتیں۔ عمومی طور پر تاریخی پیش گوئیاں کرنا عین ممکن ہے مگر جیسا کہ فرانسیسی محاورہ ہے کہ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہوتا کہ درمیانی مراحل ختم ہو کر رہ جائیں گے۔”آخری تجزیے میں اینگلز ہمیشہ درست ٹھہرتا ہے۔ مادام و چنیوٹسکی کو لکھے گئے خطوط میں وہ برطانیہ اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے ارتقا کے بارے میں لکھتا ہے جس کی تصدیق جنگ کے زمانے کے بعد ہوئی، یعنی چالیس پچاس سال بعد۔ مگر بلاشبہ اس کی تصدیق ہوئی! بڑے بڑے بورژوا سیاستدانوں میں سے کس کو اینگلوسیکسون طاقتوں کے موجودہ حالات کے بارے میں ذرہ برابر بھی کوئی اندازہ ہے؟ آج بھی (درحقیقت، کل سے زیادہ) لائیڈ جارج، بالڈونز، روزویلٹس اور میکڈونلڈز دور اندیش اینگلز کے مقابلے میں اندھے نظر آتے ہیں۔ اور پھر موٹی عقل والے یہ سارے کینیشئین اسٹ آ جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مارکسسٹ پیشگوئیاں مسترد ہو چکی ہیں!“ (جلاوطنی میں لکھی گئی ٹراٹسکی کی ڈائری، صفحہ 27 تا 29)مادیت پسندیمارکس اور اینگلز، دونوں نوجوانی میں عظیم جرمن فلسفی ہیگل کے پیروکار تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کی تعلیمات انقلابی تھیں۔ ہیگل کا جدلیاتی طریقہ کار ہی ان کے نقطہ نظر کی بنیاد بنا، جسے انہوں نے خیال پرستی سے پاک کر کے پاؤں کے بل کھڑا کر دیا۔ فیورباخ کے ذریعے وہ مادیت پسندی تک پہنچ گئے۔ مادی فلسفہ وضاحت کرتا ہے کہ مادہ ہی اولین ہے اور یہ کہ خیالات مادی دنیا کے عکس ہیں۔انہوں نے پہلی مرتبہ وضاحت کی کہ سوشلزم خیالی پلاؤ پکانے والوں کی ایجاد نہیں بلکہ پیداواری قوتوں کی ترقی اور طبقاتی جدوجہد کا نتیجہ ہے۔ سوشلزم آخرکار سائنس بن گیا۔ اینگلز نے وضاحت کی کہ ”جرمن فلسفے کے بغیر سائنسی سوشلزم کا جنم ناممکن ہوتا۔“اینگلز نے عمر کے آخری حصے میں لکھی گئی کتابوں کے ذریعے خصوصی طور پر مارکسی فلسفے کی بڑھوتری میں اپنا حصہ ڈالا، جس میں لڈوگ فیورباخ اور کلاسیکی جرمن فلسفے کا خاتمہ، قاطع ڈوہرنگ، اور فطرت کی جدلیات شامل ہیں۔مارکس کے ہمراہ اینگلز بھی محنت کش طبقے کی اہمیت کو سمجھتا تھا۔ 1845ء میں شائع ہونے والی اپنی کتاب ’انگلستان میں محنت کش طبقے کے حالات‘ میں وہ لکھتا ہے کہ پرولتاریہ محض اذیت جھیلنے والا طبقہ نہیں بلکہ ایک ایسا طبقہ ہے جو اپنی آزادی کی لڑائی خود لڑتا ہے۔ ’کمیونسٹ مینی فیسٹو‘ کی شکل میں مارکس اور اینگلز کی مشترکہ کاوش سے یہ نظریات بار آوری کو پہنچے۔جدلیات1848ء کے انقلاب کی ناکامی کے بعد مارکس اور اینگلز برطانیہ میں آ مقیم ہوئے۔ مارکس لندن میں تھا اور اینگلز مانچسٹر میں۔ مارکس کی مالی امداد کی خاطر اینگلز مانچسٹر میں ”منحوس پیشے“ میں ملوث ہو گیا، یعنی اپنے والد کے کارخانے میں کام کرنے لگا۔دونوں کے بیچ تقریباً روزانہ کے معمول پر خط و کتابت ہونے لگی۔ وہ خطوط کے ذریعے بہترین شکل میں اپنے خیالات، سوچ و بچار اور دریافتوں کا تبادلہ کرنے لگے۔آخرکار 1870ء میں اینگلز لندن منتقل ہو گیا تاکہ مارکس کے ساتھ مل کر نظریاتی کام میں براہِ راست حصّہ لے سکے اور اس کے ساتھ ساتھ پہلی انٹرنیشنل کے کام میں بھی سرگرم کردار ادا کر سکے۔ یہ انتہائی اہمیت کا حامل کام تھا جس کے ذریعے دنیا بھر کے محنت کشوں کی ہر اول پرتیں ایک تنظیم کے سائے تلے جمع ہونے لگے۔تب تک مارکس ’سرمایہ‘ کی پہلی جلد مکمل کر چکا تھا اور مزید دو جلدوں کے لیے مواد اکٹھا کر رہا تھا۔ اگست 1867ء میں پہلی جلد مکمل کرنے کے بعد اس نے اینگلز کو لکھا:”تو یہ جلد تو مکمل ہو گئی۔ صرف اور صرف تمہاری وجہ سے ایسا ممکن ہو سکا! تمہاری قربانی کے بغیر میں اس کے لیے درکار بے پناہ محنت کبھی نہیں کر پاتا۔۔۔“جب مارکس اپنا زیادہ تر وقت ’سرمایہ‘ پر لگا رہا تھا، اینگلز دوسرے نظریاتی بحثوں میں مشغول رہا جس کی وجہ سے اسے مارکسزم کے بنیادی خیالات کو ترتیب دینے میں مدد ملی۔ اس میں ’قاطع ڈوہرنگ‘ شامل تھی، جس کے اندر فلسفے، فطری سائنس اور سماجی سائنس پر گہری بحث کی گئی ہے۔ اس نے ’خاندان، نجی ملکیت اور ریاست کا آغاز‘ بھی لکھی جس میں اس نے مادی نقطہ نظر سے انسانی تاریخ کے قدیم ماضی کی وضاحت کی۔ اس کی تصنیفات میں ’لڈوگ فیورباخ اور کلاسیکی جرمن فلسفے کا خاتمہ‘ بھی شامل ہے۔اینگلز لکھتا ہے:”صرف میں اور مارکس ہی وہ لوگ تھے جو کہ تعقلی مادیت کو (عینیت پرستی بشمول ہیگلئنزم کی تباہ کاری سے) بچانے والے اور فطرت کے مادیت پسند تصور پر اس کا اطلاق کرنے والے تھے۔۔۔ فطرت جدلیات کا ثبوت ہے، اور جدید فطرتی سائنس کے متعلق لازمی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس کے پاس اس بات کی تحقیق کرنے کے لیے انتہائی شاندار اور روز افزون بہتر ہوتی کارکردگی کے حامل آلات موجود ہیں، اور ابھی تک کے آخری تجزیے میں یہی ثابت ہوا ہے کہ فطرت کا جاری عمل مابعدالطبعیاتی نہیں بلکہ جدلیاتی ہے۔”یہ عظیم بنیادی خیال کہ دنیا کو بنی بنائی اور مکمل چیزوں پر مشتمل نہیں بلکہ پیچیدہ عوامل کا ایسا مجموعہ سمجھنا چاہئے جس میں بظاہر بالکل غیر مبدل چیزیں اور ہمارے دماغوں میں ان کی شبیہیں یعنی تصورات، بلا کسی وقفے کے برابر پیدا ہونے اور ختم ہونے کی تبدیلی سے گزرتی ہیں جس میں تمام ظاہر ناگہانیت اور تمام عارضی رجعت کے باوجود بالآخر ایک ترقی پسند عمل اپنا راستہ بنالیتا ہے_یہ عظیم بنیادی خیال خاص طور سے ہیگل کے وقت سے عام شعور میں اس طرح سرایت کر گیا ہے کہ اب اس کلیت کی مشکل سے ہی تردید کی جا سکتی ہے۔ لیکن اس بنیادی خیال کو لفظی طور پر ماننا ایک بات ہے اور اس کو تحقیقات کے ہر شعبے میں تفصیل کے ساتھ حقیقتاً استعمال کرنا دوسری بات۔۔۔“”جدلیاتی فلسفے کے لئے کچھ بھی مختتم، قطعی اور مقدس نہیں ہے۔ وہ ہر چیز میں اور ہر چیز پر لازمی زوال کی چھاپ دیکھتا ہے۔ ہستی اور نیستی کے متواتر عمل، نیچے سے اوپر کی طرف بلند ہونے کے لامحدود عمل کے سوا اور کوئی چیز اس کے سامنے نہیں ٹھہر سکتی۔ اور خود جدلیاتی فلسفہ سوچنے والے دماغ میں اس عمل کے عکس کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔“چنانچہ مارکس اور اینگلز کے مطابق جدلیات ”حرکت کے عمومی قوانین کی سائنس ہے، وہ حرکت جو بیرونی دنیا اور انسانی سوچ دونوں کے اندر وقوع پذیر ہے۔“سرمایہمحنت کش طبقے کی بڑھتی ہوئی تحریک کے ساتھ مارکس اور اینگلز کے جوش و خروش میں بھی اضافہ ہوا۔ مارکس کی وفات کے بعد بھی اینگلز یورپی سوشلسٹ تحریک کا مشیر اور قائد رہا جو ایک عوامی قوت بن چکی تھی۔ اس کے مشوروں کا بیتابی سے انتظار کیا جاتا تھا اور وہ رسیدہ عمر میں اپنے وسیع علم اور تجربے کو بروئے کار لاتا تھا۔اینگلز کو مارکس کی طرح کئی زبانوں پر عبور حاصل تھا اور خط و کتابت کے ذریعے بے شمار سوالات کے جوابات دینے میں مشغول رہتا تھا۔ ناقابلِ یقین طور پر یہ خطوط 13 جلدوں پر مشتمل ہیں جس میں 3,957 خطوط شامل ہیں۔ اس سے ان کے بیچ دلچسپ قریبی تعلق اور مشترکہ کام کا اظہار ہوتا ہے۔سیاسی معیشت پر اپنے وسیع کام کو سمیٹنے سے پہلے ہی مارکس وفات پا گیا۔ اینگلز نے اپنی تحقیقات کو بالائے طاق رکھ کر مارکس کے چھوڑے ہوئے مسودوں کو استعمال کرتے ہوئے مارکس کا کام پورا کرنے کی بھاری ذمہ داری اپنے سر لے لی اور ’سرمایہ‘ کی دوسری اور تیسری جلد شائع کروائی۔ مارکس کی ناقابلِ فہم لکھائی کو صرف اینگلز ہی سمجھ سکتا تھا۔جیسا کہ اس نے لاوروف کو لکھا: ”میں انتہائی پریشان ہوں کیونکہ زندہ لوگوں میں سے صرف میں ہی ہوں جو مارکس کے ہاتھ کی لکھائی اور الفاظ اور جملوں کے مخففات کو سمجھ سکتا ہے۔“اس ذمہ داری کو نبھانے کے لیے اس نے ہر روز صبح دس بجے سے لے کر شام پانچ بجے تک کے وقت کو مختص کر دیا تھا۔ اسے تحریروں میں درستگی اور اضافہ بھی کرنا پڑتا تھا۔ یوں اس کی کوشش رہتی تھی کہ ان تحریروں کو ”مصنف کے انداز کے عین مطابق“ تکمیل تک پہنچایا جا سکے۔سرمایہ کی دوسری اور تیسری جلد کے حوالے سے لینن نے بجا طور پر لکھا کہ: ”سرمایہ کی یہ دونوں جلدیں دو آدمیوں کی محنت کا نتیجہ ہیں: یعنی مارکس اور اینگلز کی۔“جس طرح ٹراٹسکی نے وضاحت کی تھی کہ:”اینگلز محض ایک ذہین و فطین شخص ہی نہیں بلکہ فرض شناسی کی منہ بولتی تصویر بھی تھا۔ تحریری کام کے ساتھ ساتھ وہ عملی کام میں بھی لاپرواہی، غلطیوں اور نقائص کو برداشت نہیں کرتا تھا۔ مارکس کی وفات کے بعد اس کی زیر تکمیل تحاریر میں اس نے واقعتا ایک ایک کوما کی خود جانچ پڑتال کی اور ثانوی نوعیت کی املا کی غلطیوں کے حوالے سے خط و کتابت میں مشغول رہا۔“قائدمارکس کی وفات کے ایک سال بعد لکھی جانے والی کتاب ”خاندان، نجی ملکیت اور ریاست کا آغاز“، اینگلز کے نزدیک مارکس کی ”وصیت کی تعمیل“ تھی۔ اس تصنیف کو جدید سوشلزم میں بنیادی حیثیت حاصل ہے۔مارکس کے بعد اینگلز عالمی سوشلزم کا براہِ راست اور تسلیم شدہ قائد بن کر ابھرا حتیٰ کہ وہ بارہ سال بعد خود وفات پا گیا۔جون 1884ء میں جب برنسٹائن اور کاؤتسکی نے اسے شکایت کی کہ پارٹی میں شامل رنگا رنگ قسم کے ”دانشوروں“ کی جانب سے دباؤ کا سامنا ہے تو اینگلز نے جواب دیا کہ: ”بنیادی چیز یہ ہے کہ ان کی جانب سے کچھ بھی قبول نہ کیا جائے اور، مزید یہ کہ، مکمل پر سکون رہا جائے۔“اس عرصے میں اینگلز سائنسی سوشلزم کا دفاع کرتا رہا اور تمام تر تحریفات اور غلط فہمیوں کا جواب دیتا رہا۔ستمبر 1890ء میں اس نے جوزف بلوک کو لکھا کہ ”تاریخ کے مادی نقطہ نظر کے مطابق، تاریخ کا تعین کرنے والا حتمی عنصر حقیقی زندگی کی پیداوار اور باز پیداوار ہے۔ اس سے زیادہ نہ تو مارکس نے اور نہ ہی میں نے کبھی کوئی دعویٰ کیا ہے۔”چنانچہ اگر کوئی اس بات کو توڑ مروڑ کر یہ کہے کہ تعین کرنے والا محض معاشی عنصر ہے تو وہ اس بات کو ایک بے معنی، مجرد اور احمقانہ جملے میں بدل دے گا۔ بنیاد معاشی صورتحال ہی ہے مگربالائی ڈھانچے کے مختلف عناصر – طبقاتی جدوجہد کی سیاسی اشکال اور اس کے نتائج، یعنی؛ جنگ میں کامیابی کے بعد فتحیاب طبقے کی جانب سے تشکیل دئیے گئے آئین وغیرہ، قانونی اشکال، اور حتیٰ کہ ان حقیقی جدوجہدوں میں حصّہ لینے والوں کے اذہان پر منقش اثرات، سیاسی، فقہی، فلسفیانہ نظریات، مذہبی خیالات جو مزید پروان چڑھنے کے بعد عقیدوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں – بھی تاریخی جدوجہدوں پر اثر انداز ہوتے ہیں اور کئی موقعوں پر ان کی ہیئت کا تعین کرنے میں غالب کردار ادا کرتے ہیں۔“کسرِ نفسیاینگلز ان ’جدید مارکس وادیوں‘ کے خلاف شدید غصّے کا اظہار کرتا تھا جن کا خیال تھا کہ وہ مارکسزم کو سمجھتے ہیں اور اس کے اصولوں پر گرفت حاصل کیے بنا ہی اسے آزادی کے ساتھ ہر جگہ پر لاگو کرسکتے ہیں۔جوہان فلپ بیکر کو اینگلز نے لکھا کہ:”مارکس کی زندگی میں، مجھے جو کرنا پڑا میں نے کیا – میں نے ثانوی کردار نبھایا – اور میرے خیال میں ایسا میں نے بہت اچھے طریقے سے کیا۔ یہ بات میرے لیے مسرت کا باعث تھی کہ مجھے مارکس جیسا شاندار قائد میسر تھا۔”اور اب جبکہ مجھے غیر متوقع طور پر نظریاتی معاملات میں مارکس کی جگہ لینے اور مرکزی قیادت کا کردار ادا کرنے کے لیے کہا جا رہا ہے، میں ایسا چھوٹی چھوٹی غلطیاں سر زد کیے بغیر نہیں کر سکتا جن کے بارے میں مجھ سے زیادہ کوئی نہیں جانتا۔”مگر جب تک حالات مزید ہنگامہ خیز نہیں ہوجاتے، تب جا کر ہمیں درست اندازہ ہوگا کہ مارکس کے کوچ کر جانے سے ہم نے کیا کھویا۔ ہم میں سے کوئی بھی ایسی بصیرت کا مالک نہیں جس کے ذریعے ضرورت پڑنے پر وہ صحیح قدم اٹھاتا اور فیصلہ کن مسئلے کو حل کرتا تھا۔ یہ سچ ہے کہ امن کے عرصے کے بعض واقعات نے مجھے صحیح ثابت کیا ہے، مگر انقلابی لمحات میں اس کے فیصلے ناقابلِ تسخیر ہوا کرتے تھے۔“اسی کسر نفسی سے کے ساتھ اینگلز نے مارکس سے اپنی محبت کا اظہار کیا اور اس کو احترام کے ساتھ یاد کرتا رہا۔ وہ فرانز مہرنگ کو لکھتا ہے کہ:”جب بندہ اتنا خوش قسمت ہو کہ مارکس جیسے شخص کی رفاقت میں زندگی کے چالیس سال بتا سکے، تواس کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ اپنی زندگی میں اس کی اتنی قدردانی نہ کی جائے جس کا کہ وہ حق دار ہے؛ البتہ جب عظیم آدمی وفات پا جاتا ہے، تو ایسا ممکن ہوتا ہے کہ کمتر آدمی کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جانے لگے – اور میرے معاملے میں بھی یہی کچھ ہوا؛ تاریخ اس سارے معاملے کو آخرکار حل کر دے گی، اور اس وقت وہ شخص دنیا سے گزر چکا ہوگا اوراس بابت بے خبر ہوگا۔“ (14 جولائی 1893ء)موقع پرستیدوسری انٹرنیشنل کی قوتوں کی رہنمائی کرنے میں اینگلز نے کلیدی کردار کیا۔ اس نے زیورک میں ہونے والی انٹرنیشنل کی تیسری کانگریس میں شرکت کی۔ اختتامی سیشن میں اس نے منتخب نمائندوں کو پہلے انگریزی میں، پھر فرانسیسی اور پھر جرمن زبان میں مخاطب کیا۔وہ مختلف قومی سیکشنز کے اخبارات اور ہر ملک کی مخصوص صورتحال کا مطالعہ کرتا تھا۔ وہ دوستوں کو خطوط لکھتا رہتا تھا اور ریجنٹ پارک روڈ پر واقع اس کے گھر میں ہمیشہ مہمان آتے رہتے تھے۔ وہ انگریزی، فرانسیسی اور اطالوی زبانوں میں آسانی سے بات کر سکتا تھا، اور ہسپانوی اور تقریباً تمام سلاوی اور سکینڈنیوئین زبانوں کو پڑھ سکتا تھا۔اپنی عمر کے آخری سالوں میں وہ جرمنی اور فرانس کے طاقتور سیکشنز میں سر اٹھانے والے موقع پرستانہ نظریات کو بلا خوف للکارتا رہا۔ مارکس کی کتاب ”فرانس میں خانہ جنگی“ کا نیا تعارف لکھ کر اس نے موقع پرستوں کے اوپر گویا بم گرا دیا۔ اس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ ریاست ”ایک طبقے کے ہاتھوں دوسرے طبقے پر جبر کے آلے کے سوا کچھ نہیں، اور یقینا ایک عوامی جمہوریہ میں بھی کسی بادشاہت کی طرح ایسا ہی ہوتا ہے۔“مثال کے طور پر اس نے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ:”سیاسی جواریوں کے دو بڑے گروہ، جو باری باری ریاستی اقتدار میں آتے ہیں اور اسے انتہائی بد عنوان مقاصد کے لیے انتہائی بد عنوان طریقے سے استعمال کرتے ہیں -اور قوم سیاستدانوں کے ان دو بڑے بدمعاش گروہوں کے سامنے بے بس ہو کر رہ جاتی ہے، جو بظاہر تو اس کے خادم ہیں مگر در حقیقت اس پر غلبہ پا کر لوٹتے جاتے ہیں۔“جرمن سوشل ڈیموکریسی کے موقع پرستوں کو مخاطب کرتے ہوئے اس تعارف کا اختتام اینگلز نے ان الفاظ میں کیا:”حالیہ دنوں میں بعض سوشل ڈیموکریٹس کو پرولتاریہ کی آمریت جیسے الفاظ سے ایک دفعہ پھر خوف آنے لگا ہے۔ اچھا تو کیا آپ حضرات جاننا چاہیں گے کہ یہ آمریت کس طرح دکھتی ہے؟ پیرس کمیون کی جانب دیکھو۔ وہ تھی پرولتاریہ کی آمریت۔“اس کے بعد وہ پارٹی میں موجود اصلاح پسندی اور ”پارلیمانی نرگسیت“ ]کہ سوشلسٹ سماج کو محض پارلیمانی سیاست کے ذریعے پر امن طریقے سے تعمیر کیا جا سکتا ہے[ کو ہدف تنقید بناتا ہے۔ سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی قیادت پر براجمان افسر شاہی نے اس کی تنقید کے جوہر کو زائل کرنے اور اسے امن پسندی کا حامی بناکر پیش کرنے کے لیے کئی حصوں کو تحریر سے حذف کردیا۔اینگلز انقلابی افعال کی نہیں بلکہ چھوٹی اقلیت کے بے موقع ہنگاموں، اور ٹیکنالوجی کے نئے دور میں لڑائی کے پرانے طریقوں کو اپنانے کی مخالفت کرتا تھا۔ جب اسے پتہ چلا کہ اس کے نام پر کیا کچھ کیا جا رہا ہے، وہ غصے سے بپھر گیا۔ بعد میں یہ موقع پرست رجحانات برنسٹائن ازم اور ترمیم پسندی کی شکلوں میں سامنے آئے، جس کا نتیجہ آخرکار اگست 1914ء کی غداری کی صورت میں نکلا ]جب جنگ عظیم کے دوران انہوں نے اپنی اپنی قومی بورژوازی کی حمایت کرنے کا اعلان کر دیا[۔کمیونزمعمر رسیدہ ہو جانے کے باوجود اینگلز دل سے جوان تھا اور حس مزاح سے کام لیتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ اب بھی ”اپنی ٹانگوں پر پھرتی سے دوڑ سکتا ہے“۔ ایک دوسرے خط میں لکھتا ہے کہ:”میری حالت یہ ہے کہ 74 برس کا ہو چکا ہوں، جس کا مجھے شدت کے ساتھ احساس ہونے لگا ہے، اور(باوجود اس کے میں) دو چالیس سالہ آدمیوں کے برابر کام کرتا ہوں۔ اگر میں خود کو 40 سالہ اینگلز اور 34 سالہ اینگلز میں تقسیم کر پاتا تو پھر بھی بات بن جانی تھی۔ مگر ایسا ممکن نہیں اور مجھے اسی جسم کے ساتھ جہاں تک ہو سکے کام چلانا پڑے گا۔“ (لورا لافارج کو لکھا گیا خط، 17 دسمبر 1894ء)اپنے آخری خطوط میں سے ایک میں وہ لاوروف کو لکھتا ہے:”میں شکایت نہیں کر سکتا مگر مجھے اندازہ ہونے لگا ہے کہ 74 برس (کی عمر) 47 برس جیسی نہیں ہوتی۔ البتہ واقعات ہمیں اپنی اہم قوتوں کو برقرار رکھنے میں مدد فراہم کر سکتے ہیں، یورپ بھر میں گہما گہمی چھائی ہے، بحران ہر جگہ پر پنپ رہا ہے، خصوصاً روس میں۔ وہاں موجود حالات زیادہ دیر تک برقرار نہیں رہ پائیں گے۔ ایسا ہونا ہی زیادہ بہتر ہوگا۔“ (18.12.94)بیبل کو لکھے گئے خط میں وہ اس بات کو یوں سمیٹتا ہے: ”اور ان نکات پر قرارداد منظور کراتے وقت اچھی شراب پینا مت بھولنا؛ ایسا میری یاد میں کرنا۔“یہ اینگلز کامخصوص انداز تھا، جس نے بھرپور طریقے سے زندگی گزاری۔اینگلز 5 اگست 1895ء کو وفات پا گیا۔۔۔جو دل کی گہرائیوں سے ایک کمیونسٹ انقلابی تھا۔ ایسٹ بورن کے بیچی ہیڈ میں اس کی راکھ سمندر میں بہا دی گئی۔ بلاشبہ اس کی انقلابی روح عالمی مارکسی رجحان کی صورت زندہ ہے، جو اس کے ورثے کا دفاع کرتے ہوئے عالمی سوشلزم کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔