چین: لاک ڈاؤن کا جلد بازی میں خاتمہ اور طبقاتی کشمکش کا اُبھار Share Tweetنئے قمری سال کے قریب آتے ہی گزشتہ چند ہفتوں سے چین میں محنت کش طبقہ معاشی ہڑتالوں اور مظاہروں کی لہر میں مصروف ہے۔ اگرچہ یہ مظاہرے پیمانے اور لڑاکا پن کے لحاظ سے مختلف ہیں لیکن اجتماعی طور پر یہ گہرے ہوتے ہوئے سماجی و اقتصادی بحران اور طبقاتی جدوجہد کی دلیرانہ بنیادوں کا واضح اشارہ ہیں جو سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف اٹھنے کا سبب بن رہے ہیں۔[Source]گزشتہ سال دسمبر میں چینی ریاست نے کرونا وبا کی سخت گیرپالیسیوں کو اچانک ترک کر دیا اور کرونا وائرس تیزی سے چین میں پھیل گیا، جس کے نتیجے میں خوفناک مصائب اور بے تحاشہ اموات ہوئیں، جس کے حقیقی پیمانے کو چھپانے کی حکومتہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔ پیکنگ یونیورسٹی کے مطابق 11 جنوری تک کم از کم 64 فیصد چینی آبادی کرونا سے متاثر ہو چکی ہے۔ کچھ جگہوں (جیسے صوبہ ہینان، شمالی چین، یونان، اور جنوب مغربی چین) میں کرونا انفیکشن کی شرح مبینہ طور پر 80 فیصد سے زیادہ ہے۔ ان اعداد و شمار سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ چین میں کرونا وبا کی موجودہ لہر کا عروج اب گزر چکا ہے۔ اس طرح، ریاست نے 8 جنوری کو باقی دنیا کے لیے اپنی سرحدیں کھولنے کا اعلان کیا۔لیکن کرونا وبا کی اس شدید لہرکا خاتمہ چینی معاشرے کے اندر طبقاتی تناؤ کو کم نہیں کرے گا-اس کے برعکس یہ ان میں شدت پیدا کرے گا۔ ’زیرو کووڈ‘ پالیسی کے خاتمے سے وہ صنعتیں جنہوں نے اس پالیسی سے بے تحاشہ فائدہ اٹھایا تھا، دیوالیہ پن میں ڈوب گئی ہیں۔ مزید براں، ریاستی پالیسی میں بے کراں تبدیلیوں نے صورتحال کو مزید گھمبیر بنا دیا ہے۔ صنعت کا بتدریج خاتمہ نہیں ہوا بلکہ ہزاروں محنت کشوں نے سالانہ چھٹیوں کے موقع پر برطرفی کا سامنا کیا ہے، جس کے نتیجے میں مختلف مقامات پر سرمایہ دارانہ نظام اور حکومت کے خلاف بڑے پیمانے پر غصہ پیدا ہوا ہے۔7 جنوری کو ایک بڑی طبی کمپنی (زائے بیو) کے 10 ہزار سے زیادہ لڑاکا اور بہادر محنت کشوں نے چونگ کنگ (جنوب مغربی چین میں ایک صنعتی شہر، جس کی آبادی دسیوں ملین میں ہے) میں ایک فیکٹری کا محاصرہ کیا اور اس پر قبضہ کر لیا۔ اس کے ساتھ ہی اجرتوں اور معاوضوں کی فوری ادائیگی کے لیے ایک عوامی تحریک کا آغازہوا۔ یہ جدوجہد کمپنی کے اچانک اعلان کے بعد شروع ہوئی کہ 3 جنوری سے وہ 7 ہزار سے زائد عارضی ملازمین کو بغیر معاوضے کے برطرف کر دیں گے۔یہ سرمایہ داروں کی طرف سے مسائل کو خود سے ہٹا کر مزدوروں تک منتقل کرنے کی ایک عام مثال ہے۔ طبی مواد (جیسے اینٹی جن ٹیسٹ کٹس) کے آرڈرز کے خاتمے کے بعد، سرمایہ داروں نے ’منصفانہ‘ اور ’مناسب‘ سمجھا کہ انہیں دیوالیہ ہونے سے بچنے کے لیے مزدوروں کو معاوضے کے بغیر نوکری سے نکال دینا چاہیے۔’قربان‘ ہونے والے مزدوروں کو 23-28 یوان (تقریباً 3-4 ڈالر) فی گھنٹہ اور 6 ہزار یوان (تقریباً 880 ڈالر) کے اعلیٰ وظیفے کے وعدے پر فیکٹری میں کام دیا گیا تھا۔ لیکن جلد ہی ان سے اس رقم کا نصف (اور بعض صورتوں میں نصف سے بھی زیادہ) خون چوسنے والی عارضی کام کی ایجنسیوں نے چھین لیا جو اپنا کمیشن مزدوروں کی اجرت سے لیتے ہیں۔ فیکٹری میں مزدوروں کوکام کی جگہ کے غیر معیاری حالات، طویل اوقات کار، اور وحشیانہ استحصال کا نشانہ بنایا گیا۔ اور برطرفیاں اس سلسلے کا آخری عمل تھیں جس سے مزدوروں کے پاس کمپنی کے خلاف جدوجہد کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچا تھا۔مزدوروں نے پہلے عارضی کام کی ایجنسیوں کے ساتھ بات چیت کرنے کی کوشش کی جنہوں نے ان سے کمیشن لیا تھا، لیکن ان ایجنسیوں نے معاوضے میں ابتدائی طور پر وعدہ کیے گئے 6 ہزار یوان کی جگہ 1 ہزار یوان ادا کرنے کی پیشکش دی۔اس دن دیہاڑے سرے عام ڈکیتی نے جدوجہد کو متحرک کیا، اور مزدوروں نے بقایا جات کی فوری ادائیگی کا مطالبہ کرتے ہوئے فیکٹری کا محاصرہ کر لیا۔ لیکن کمپنی کی جانب سے سمجھوتہ کرنے کا کوئی ارادہ نہ دیکھتے ہوئے، مشتعل مزدوروں نے مشینوں اور اینٹی جن ٹیسٹ کٹس کو توڑنا شروع کر دیا، اور عارضی کام کی ایجنسیوں کے نفرت انگیز نمائندوں کو مارنا شروع کر دیا۔زائے بیو کمپنی، چونگ کنگ کے ٹیکس ادا کرنے والوں کی مقامی حکومت میں شامل تھی۔ یہ بڑے پیمانے پر سرکاری ادارے، چونگ کنگ فارماسیوٹیکل (گروپ) کمپنی، لمیٹڈ کے ساتھ ایک سٹریٹجک شراکت داری میں بھی تھا۔ جب ناراض مزدوروں نے فیکٹری کا محاصرہ کیا اور کمپنی کی ملکیتی مشینوں اور اجناس کو تباہ کرنا شروع کیا تو سرمایہ داروں نے فوری طور پرمسلح ’عوامی پولیس‘ کو لاٹھیوں اور شیلڈز سے مزدوروں کو منتشر کرنے کے لیے طلب کر لیا۔8 جنوری کی رات مزدوروں کو زبردستی منتشر کر دیا گیا۔ لیکن منتشر ہونے کے دوران، ان 10 ہزار محنت کشوں نے حکومت کے ہڑتال توڑنے والے جتھے کے خلاف انتہائی بہادری کا مظاہرہ کیا۔ وہ یکجہتی سے مظبوط کھڑے رہے، اور پولیس کے حملوں کی پہلی لہر کو پسپا کیا، جنہیں شیلنگ اور پتھراؤ کے ذریعے پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا گیا۔پولیس کو پسپا کرنے میں مزدوروں کی بے ساختہ تحریک کی کامیابی سے خوفزدہ مالکان نے رعایت دینا شروع کی۔ کچھ عارضی کام کی ایجنسیوں نے 8 جنوری کی صبح بقایا جات کی ادائیگی شروع کردی۔ اور 8 جنوری کی صبح ریاست کی طرف سے کچھ ناکام جوابی مداخلتوں کے باوجود، 9 جنوری تک زیادہ تر مزدوروں کے مطالبات پورے ہو گئے تھے۔چونگ کنگ کے مزدوروں کی جنگجو جدوجہد کے دوران ہی، 5-6 جنوری اور 8-9 کے درمیان، مشرقی چین کے صوبہ ژی جیانگ کے شہر ہانگ زو میں دواسازکمپنی کے مراکز پر بڑے پیمانے پر (اگرچہ اتنی بڑی تعداد میں نہیں) مزدور احتجاج کے لئے اکھٹے ہوئے۔ ان مزدوروں نے بھی وہی مطالبات پیش کیے اوروہ انہی وجوہات کی بناء پر احتجاج کر رہے تھے۔ اور انہوں نے بھی چونگ کنگ کی طرح ہی پولیس کے جبر کا سامنا کیا۔تعمیراتی مزدوروں کی جدوجہددوسرے شعبوں میں بھی چینی سرمایہ داری کے بڑھتے ہوئے بحران کے تناظر میں جدوجہد کا آغازہوا ہے۔ مثال کے طور پر، تعمیراتی کمپنیوں کی طرف سے جمع کیے گئے بڑے، ناقابل ادائیگی قرضوں کے نتیجے میں تعمیراتی صنعت بھی جدوجہد کا گڑھ بن گئی ہے (خاص طور پر منگونگ، تارکین وطن مزدوروں کے ذریعے)۔مجموعی طور پر، بنیادی انفراسٹرکچر کی تعمیر میں چین کا عوامی قرضہ 60 ٹریلین یوان (تقریباً 8.8 ٹریلین امریکی ڈالر) ہے۔ ایک بار پھر، دوا سازی کی صنعت کی طرح، دیوالیہ پن سے بچنے کے لیے سرمایہ داروں کی طرف سے سب سے پہلے مزدوروں کی قربانی دی گئی جس سے مزدوروں کی اجرت کے بھاری بقایا جات رہ گئے۔اورہم نے دیکھا کہ 15 جنوری کو جنوبی چین کے جیانگسی صوبے کے جیو جیانگ میں ریلوے کے تعمیراتی مزدوروں نے تعمیراتی گاڑیوں کے ذریعے سائٹ کے گیٹ کو بلاک کردیا؛گوانگ ڈونگ صوبے کے گوانگ ژو میں میٹرو تعمیراتی مزدوروں نے بقایا جات کی ادائیگی کے مطالبے کے بینرز اٹھائے احتجاج کیا، اوراسی طرح ریلوے مزدوروں نے ہینان صوبے کے سن یانگ میں بقایا جات کی ادائیگی کے لئے نعرے بلند کیے۔ درحقیقت، چائنہ لیبر بلیٹن کے مطابق دسمبر 2022ء سے 17 جنوری 2023ء کے درمیان اجتماعی مظاہروں کے 180 سے زیادہ ریکارڈ کیے گئے کیسز میں زیادہ تر مظاہرے تعمیراتی شعبے میں ہوئے تھے۔بحران گہرا ہو رہا ہے اور محنت کش متحرکپچھلے کچھ مہینوں میں مزدوروں کی دو بڑی اور انتہائی جنگجو تحریکیں دیکھنے میں آئی ہیں-پہلی ژینگزو میں واقع فاکس کان فیکٹری میں، اور دوسری چونگ کنگ میں-اور بہت سے چھوٹے چھوٹے اجتماعی مظاہرے بھی ہوئے ہیں۔ یہ مستقبل میں چینی محنت کش طبقے کے بڑھتے ہوئے لڑاکاپن اور بغاوت کی علامات ہیں۔ شعور تیزی سے بدل رہا ہے۔کرونا پالیسیوں کے خاتمے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی افراتفری اور بحران کی دن بدن شدت میں اضافے نے سی سی پی حکومت کے وقار کو داغدار کر دیا ہے۔ چینی محنت کش طبقے کے سامنے اس حکمران جماعت کی اصلیت واضح ہو گئی ہے جو سرمایہ نوازآمریت ہے، اور جو طبقاتی جدوجہد میں سرمایہ داروں کا تعاون کرے گی۔جیسے جیسے طبقاتی شعور بڑھے گا،محنت کشوں میں لڑاکا پن بھی بڑھے گا۔ محنت کشوں کی ہراول پرتوں پر واضح ہو جائے گا کہ ان کا دشمن یہ یا وہ سرمایہ دار نہیں بلکہ پورا سرمایہ دار طبقہ اور اس کی حفاظت کرنے والی حکومت ہے۔ جدوجہد کی ہر نئی لہر اس باشعور پرت کے ذہنوں میں پورے سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کے لیے وسیع تر جدوجہد کی ضرورت کو جنم دے گی۔ آج پہلے سے کہیں زیادہ عجلت کے ساتھ عالمی سطح پر مارکسزم کی انقلابی قوتوں کو تعمیر کرنے کی ضرورت ہے۔