یورپی سرمایہ داری کا بڑھتا بحران اور کار ساز صنعت کی بندش Share Tweetاس وقت یورپی معیشت پچھلی ایک دہائی میں سب سے زیادہ گہرے بحران کا شکار ہے۔ پچھلے چند مہینوں سے فرانس اور جرمنی میں جبری برخاستگیوں کے اعلانات کی بارش ہو رہی ہے۔ کمپنیاں اپنے اخراجات کم کرنے کے چکر میں لاکھوں محنت کشوں کو بیروزگار کر رہی ہیں۔ اس دوران یورپی سنٹرل بینک (ECB) شرح سود اور شرح نمو کی پیشگوئی کو کم کر رہا ہے۔ یہ یورپی سرمایہ داری کے تاریخی بحران کا اظہار ہے جس کے پاس مستقبل میں جبری کٹوتیوں اور مایوسی کے علاوہ اور کچھ نہیں۔[Source]جرمن کار سازی کی صنعت میں دیوہیکل جبری برطرفیاںاس وقت بحران کا مرکز کار ساز صنعت ہے۔ اس موسم خزاں میں کار ساز کمپنی Volkswagen نے ہزاروں جبری برطرفیوں اور تین فیکٹریوں کی بندش کا اعلان کیا جس کے بعد BMW نے 8 ہزار اور کار کے پرزے بنانے والی کمپنی Bosch نے 10 ہزار نوکریاں ختم کرنے کا اعلان کیا۔ Ford کمپنی نے بھی 4 ہزار نوکریوں کو ختم کرنے کا اعلان کیا ہے جن میں سے زیادہ تر نوکریاں جرمنی میں ہیں۔فیکٹریوں کی بندش کے ساتھ Volkswagen ایگزیکٹیوز نے مطالبہ کیا ہے کہ بقایا مزدور اپنی تنخواہوں میں 10 فیصد کٹوتی برداشت کریں اور دو سال تک تنخواہوں میں اضافہ نہ مانگیں۔ ظاہر ہے کمپنی ایگزیکٹیوز نے اس طرح کی کسی قربانی کو اپنے سر لینے سے انکار کر رکھا ہے۔ اس لیے Volkswagen میں 1 لاکھ محنت کشوں نے انتظامیہ کی ان تجاویز کے خلاف ہڑتال کر دی۔کار ساز صنعت یورپ کے لیے انتہائی اہم ہے اور یورپ کے لیے 1 ٹریلین ڈالر سے زیادہ دولت پیدا کرتی ہے جو یورپ کی کل معیشت کا 6 فیصد بنتا ہے۔ اس صنعت سے 1 کروڑ 40 لاکھ سے زیادہ محنت کش منسلک ہیں جو کل یورپی محنت کش طبقے کا 6 فیصد بنتا ہے۔ پوری دنیا میں اس وقت کار ساز صنعت بحران کا شکار ہے لیکن خاص طور پر یورپ میں یہ بحران بہت شدید ہے۔عمومی طور پر اس وقت عالمی کار ساز صنعت اپنی کل پیداواریت کا اوسطاً 62 فیصد استعمال کر رہی ہے۔ یعنی فیکٹریاں جتنی پیداوار کر سکتی ہیں اس کا محض 62 فیصد استعمال ہو رہا ہے کیونکہ منڈی میں اتنی سکت ہی موجود نہیں ہے کہ پوری پیداواری صلاحیت کی کھپت ہو سکے۔ 2018ء میں یہ شرح 70 فیصد تھی اور 70 فیصد سے نیچے کی شرح کو جان لیوا تصور کیا جاتا ہے۔ لیکن یورپ میں یہ بحران اور بھی گھمبیر ہے کیونکہ یہاں پیداواری صلاحیت کا محض 58 فیصد استعمال ہو رہا ہے جبکہ امریکہ میں یہ شرح 66 فیصد ہے۔ یہ منڈی کے اندر یورپی حصے میں آنے والی کمی کے ساتھ بھی منسلک ہے جو 2008ء میں 31 فیصد سے 2023ء میں 20 فیصد رہ گیا ہے۔اب ٹرمپ کے نشانے پر یورپی کار ساز صنعت ہے۔ وہ بضد ہے کہ کار ساز کمپنیاں اگر امریکہ میں گاڑیاں بیچنا چاہتی ہیں تو وہ گاڑیوں کی پیداوار بھی امریکہ کے اندر ہی کریں۔ اس کام کے لیے محصولات کا ہتھیار استعمال کیا جا رہا ہے۔ وہ اصرار کر رہا ہے کہ وہ امریکی تجارتی خسارہ کم کرنے کی کوشش کر رہا ہے جو یورپ کے ساتھ تقریباً 150 ارب یورو بنتا ہے (EU کی امریکہ کو برآمدات کا ایک تہائی حصہ)۔ یہ یورپی پیداوار اور خاص طور پر کمبشن انجنوں (combustion engines) کے لیے دیوہیکل خطرہ ہے۔ یہ کوئی حادثہ نہیں کہ جرمن کار ساز ٹرمپ کی تیاری میں ابھی سے اخراجات کم کر رہے ہیں۔لیکن یورپی صنعت کو در پیش بحران کا آغاز ٹرمپ سے نہیں ہوا۔پیچھے رہ گئےتاریخی طور پر جرمن کار مینوفیکچرنگ کو ڈیزل انجن کی پیداوار میں دیوہیکل سبقت حاصل تھی جس سے انہوں نے بے پناہ پیسہ بنایا اور آج بھی کمائی کر رہے ہیں۔ لیکن جدلیاتی طور پر اب یہی سبقت نئی ٹیکنالوجی کے سامنے ان کی ناکامی کا سبب بن رہی ہے۔سابق فنانشل ٹائمز کالم نگار ولف گینک منچاؤ نے جرمن معیشت پر درست عنوان سے ایک کتاب ”کاپوٹ“ (Kaput) (برباد) لکھی ہے جس میں اس نے نشاندہی کی ہے کہ جرمنی نے ڈیزل انجن میں جو مہارت حاصل کی اس کی بنیاد پر انہوں نے ٹیکنالوجی کے اگلے مرحلے پر جانے کے بجائے اسے ہی اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔ اس انجن طرز پر انہیں دیوہیکل سبقت حاصل تھی اور حاصل کردہ منافعوں کو نئی ٹیکنالوجی کے لیے استعمال کرنے کی بجائے انہوں نے ڈیزل انجن کو ایک گرین متبادل (روایتی توانائی متبادل) بنا کر پیش کرنا شروع کر دیا۔ پھر انہوں نے انجن کے دھواں نکالنے کے ٹیسٹ کے عمل میں دھاندلی کرنی شروع کر دی۔اس دوران چینی کمپنیاں الیکٹرک گاڑیوں اور لازمی بیٹری ٹیکنالوجیوں میں دیوہیکل سرمایہ کاری کر رہی تھیں۔ مغربی حکومتوں کی گرین ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کرنے کی تمام تر لفاظی کے باوجود اس حوالے سے کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہوئی۔ لیکن چینی منڈی تیزی سے پھیلنا شروع ہو گئی اور اس وقت وہ الیکٹرک گاڑی کی سب سے بڑی منڈی بن چکی ہے۔ اس وقت پوری دنیا میں بکنے والی تین چوتھائی الیکٹرک گاڑیاں چین میں بکتی ہیں۔ یہ BYD جیسی چینی کمپنیوں کے لیے شاندار موقع تھا کہ وہ تیزی سے اپنی وسعت بڑھاتے ہوئے پوری دنیا میں الیکٹرک گاڑی کی منڈی میں سر فہرست بن جائیں۔جرمن کار ساز صنعت کے لیے یہ صورتحال موت کا پیغام ہے۔ 2022ء میں جرمنی نے چین کو 30 ارب ڈالر کی گاڑیاں اور پرزہ جات برآمدات کی مد میں بھیجے، لیکن ان میں سے شائد ہی کوئی الیکٹرک گاڑی تھی۔ اس کے برعکس یورپی مینوفیکچرر چین کو کمبشن انجن گاڑیاں بیچ رہے ہیں۔ EU (European Union) کی جانب سے لاگو کردہ محصولات سے یورپ کو بیچی جانے والی چینی الیکٹرک گاڑیوں پر شاید کچھ اثر پڑے لیکن اس سے چین کو برآمد کئے جانے والے کمبشن انجن پر کوئی اثر نہیں پڑے گا کیونکہ کار ساز صنعت اسی پر تکیہ کیے بیٹھی ہے۔ اس وجہ سے جرمن کار ساز محصولات کے شدید خلاف ہیں۔ جوابی کاروائی میں ان پر بھی چینی ریاست محصولات بڑھا سکتی ہے اور وہ ایسا ہر گز برداشت نہیں کر سکتے۔لیکن یہ معاملہ صرف یہاں تک رکا ہوا نہیں ہے۔ یورپی کمپنیوں نے چین میں الیکٹرک کارسازی کے حوالے سے دیوہیکل سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ مثلاً Volkswagen کمپنی نے 2022ء میں 30 لاکھ گاڑیاں بنائیں۔ لیکن اب جرمن کار ساز تیزی سے منڈی میں اپنا حصہ گنوا رہے ہیں۔ وہ ابھی بھی چینی منڈی کا 15 فیصد ہیں لیکن یہ شرح وباء سے پہلے 25 فیصد تھی۔اس وقت چینی معیشت سست روی کا شکار ہے اور یورپی کار ساز چینیوں سے زیادہ مہنگے ہیں۔ اس لیے چین میں بننے والی الیکٹرک کار کی فیکٹریاں جن کا مقصد چینی منڈی کی ضرورت کو پورا کرنا تھا اب EU کو گاڑیاں برآمد کر رہی ہیں۔ یورپ کو بیچی جانے والی 22 فیصد الیکٹرک گاڑیاں چین سے آئی تھیں جنہیں غیر چینی کمپنیوں نے بنایا تھا (Tesla، Volkswagen وغیرہ)۔ یورپ کو بیچی جانے والی صرف 8 فیصد گاڑیاں چینی کمپنیوں کی تھیں۔ یہ ایک اور وجہ ہے کہ یورپی کار ساز محصولات کے خلاف تھے کیونکہ اس طرح ان کی یورپ کو اپنی ہی برآمد کردہ گاڑیوں پر اثر پڑنا تھا۔برآمدات کے مسئلے کو یورپی منڈی کے سکڑتے حجم نے اور بھی گھمبیر بنا دیا ہے۔ پچھلے ایک سال میں معیشت کی سست روی نے سب سے زیادہ الیکٹرک کار کی صنعت کو متاثر کیا ہے کیونکہ یہ زیادہ مہنگی ہیں۔ محنت کشوں کے اخراجات پہلے ہی پورے نہیں ہو رہے اور وہ مہنگی الیکٹرک گاڑی کے بجائے ہمیشہ سستی روایتی گاڑی ہی خریدیں گے۔ اس صورتحال کو جرمن حکومت نے اس وقت اور بھی پیچیدہ کر دیا جب نئی گاڑیوں کے لیے سبسڈیوں کا خاتمہ کر دیا گیا جس کے نتیجے میں، خاص طور پر جرمنی میں، فروخت بہت زیادہ گر گئی ہے۔EU نے تمام کمپنیوں کو اگلے سال 20 گرام CO2 (کاربن ڈائی آکسائڈ) فی کلومیٹر کا ہدف دیا ہے۔ زیادہ تر کار ساز کمپنیاں یہ ہدف حاصل کرتی ہوئی نظر نہیں آ رہیں، جس کا نتیجہ جرمانہ ہو گا۔ اب توقعات کے مطابق کمپنیاں مطالبہ کر رہی ہیں کہ ان اہداف کو مؤخر کیا جائے اور یورپ کو ایک ”صنعتی پالیسی“ بنانی چاہیے، جس سے ان کی مراد بالواسطہ یا بلا واسطہ سبسڈیوں کی فراہمی ہے۔وہ یورپی حکومتوں کی کنپٹی پہ بندوق لگائے کھڑے ہیں اور دھمکیاں دے رہے ہیں کہ بے تحاشہ نوکریاں ختم ہو جائیں گی۔ اٹلی اور فرانس سمیت کئی حکومتیں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو چکی ہیں۔یہ زیادتی کی انتہاء ہے کیونکہ یہ کمپنیاں دیوہیکل منافع لوٹ رہی ہیں، شراکت داروں کو حیران کن منافع بانٹ رہی ہیں (ایشیاء اور امریکہ کی کمپنیوں سے کئی گنا زیادہ) اور اربوں ڈالر بینکوں میں جمع کیے بیٹھی ہیں۔ اس پیسے سے نیا کاروبار پیدا کرنے اور جرأت مندانہ فیصلے کرنے کے برعکس وہ اپنے شراکت داروں پر پیسے نچھاور کر رہے ہیں۔ اسی لیے انٹرنیشنل یونین کنفیڈریشن IndustriAll کے سیکرٹری جنرل نے کہا تھا کہ یہ ”اثاثوں کی لوٹ مار“ ہے۔لیکن ایک سرمایہ دار کمپنی کا کام نوکریوں کو یقینی بنانا یا الیکٹرک گاڑیوں کو اپنانا نہیں ہے بلکہ اپنے شراکت داروں کے لیے منافع لوٹنا ہے۔ اس حوالے سے یورپی کار ساز کمپنیاں آج بھی بہت کامیاب ہیں۔نئی فیکٹریاں لگانے میں سرمایہ کاری کیوں کریں اگر پیدا کردہ گاڑیاں خریدنے کی محنت کشوں میں سکت نہیں ہے؟ ابھی سے کئی فیکٹریاں فارغ پڑی ہیں۔ بہتر ہے کہ سکون کیا جائے اور شراکت داروں کے منہ میں پیسے ٹھونس ٹھونس کر انہیں خوش رکھا جائے۔یہ دلیل دی جا سکتی ہے کہ انہیں مستقبل کی تیاری کرنی چاہیے تھی لیکن سچ یہ ہے کہ الیکٹرک انجن نے گاڑی اور اس کے استعمال کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ اس لیے اب نئی کمپنیاں جن کا ماضی سافٹ ویئر، بیٹری سازی، سمارٹ فون وغیرہ سے منسلک ہے، اس وقت اس نئی منڈی میں جوق در جوق شامل ہو رہی ہیں جبکہ پرانے صنعتی دیو بیٹھے منہ دیکھ رہے ہیں۔چین اور جنوب مشرقی ایشیاء کی سیمی کنڈکٹر سے متعلق ہر پیداوار میں سبقت ہے جبکہ سافٹ ویئر اور آن لائن سروسز کے حوالے سے امریکہ سر فہرست ہے۔ اس صورتحال میں یورپ کی کوئی جگہ ہے نہ اوقات۔اس وقت سب کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے۔ مشاوراتی فرم میک کنزے (McKinsey) کا تخمینہ ہے کہ یورپ 2035ء تک 400 ارب ڈالر (موجودہ منڈی کا 36 فیصد) سے ہاتھ دھو بیٹھے گا جس میں خاص طور پر گاڑیوں کے پرزہ جات شامل ہیں۔ کئی پرزہ جات اس وقت جنوب مشرقی ایشیاء میں بن رہے ہیں اور یورپی کمپنیوں کے لیے اس منڈی میں داخل ہونا تقریباً ناممکن ہی ہے کیونکہ الیکٹرانکس اور سافٹ ویئر کی تعمیر و ارتقاء میں یورپ زیادہ تر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا رہا ہے۔اگر پچھلے عرصے میں سرمایہ کاری کے اعداد و شمار دیکھے جائیں تو یہ حقیقت واضح ہے۔سرمایہ کاری کا فقدانECB (European Central Bank) کے سابق سربراہ ماریو دراغی نے یورپی معیشت پر ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں سرمایہ کاری کے حوالے سے یورپ کی کمزوریوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔دراغی کا کہنا ہے کہ یورپ کو ہر سال قومی اور نجی سرمایہ کاری کے لیے 800 ارب یورو درکار ہیں جو GDP (کل مجموعی پیداوار) کا 4.5 فیصد بنتا ہے۔ یہ ایسے وقت میں کرنا ہے جب زیادہ تر حکومتیں اور کمپنیاں اخراجات کم کرنے کے ذرائع تلاش کر رہی ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ یورپ کافی عرصے سے امریکہ اور چین سے پیچھے چل رہا ہے۔ 1997-2019ء کے بیس سالوں میں امریکہ میں ہر برسر روزگار فرد کی سرمایہ پیدا کرنے کی قدر میں 1 لاکھ 97 ہزار ڈالر سے 2 لاکھ 93 ہزار ڈالر یعنی 50 فیصد اضافہ ہوا جبکہ چین میں یہ اضافہ 11 ہزار ڈالر سے بڑھ کر 87 ہزار ڈالر ہو گیا۔ مغربی یورپ میں یہ اضافہ محض 10 فیصد رہا۔ وسطی یورپ سمیت چیکیہ، سلوواکیہ اور ہنگری میں 120 فیصد اضافے کے ساتھ حالات بہتر رہے لیکن یہ اتنا زیادہ نہیں کہ پورے یورپ کے خسارے کو پورا کر دے۔ جرمنی میں سرمایہ کاری خاص طور پر بہت کم ہے۔ امریکہ کا کیا حوالہ ہو، یہ تمام بڑے یورپی ممالک سے کم ہے۔2012ء سے امریکہ باقی تمام بڑی یورپی معیشتوں کی نسبت اپنی کل معاشی پیداوار کے سب سے بڑے حصے کی سرمایہ کاری کرتا آیا ہے۔ اس وقت امریکہ سرمایہ کاری کے لیے GDP کا 1 فیصد EU سے زیادہ خرچ رہا ہے۔ لیکن عمومی اعداد و شمار کو اگر تفصیلی دیکھا جائے تو یورپی سرمایہ کاری کا زیادہ تر حصہ پراپرٹی (گھر، آفس وغیرہ) پر خرچ ہوا تھا۔ مشینری اور دانشورانہ ملکیت (تحقیق و تخلیق) پر امریکہ نے ہر سال EU سے GDP کی 2 فیصد سے زیادہ سرمایہ کاری کی۔اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ یورپی حکومتوں نے اپنا قومی سرمایہ کاری کا بجٹ کم کیا ہے لیکن اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ کمپنیاں سرمایہ کاری کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ امریکی کمپنیاں سرمایہ کاری پر 1.6 ٹریلین ڈالر جامد سرمائے (مشینری، فیکٹریاں وغیرہ) یا R&D (تحقیق و تخلیق) پر خرچ رہی ہیں۔ ان کے یورپی مد مقابل محض 900 ارب ڈالر خرچ رہے ہیں۔یورپ کار سازی اور مواد کے علاوہ معیشت کے تمام شعبوں میں پیچھے ہے۔ اس کی ایک مثال یورپی ٹیلی کام کمپنیاں ہیں جو اس شعبے میں امریکی کمپنیوں کی سرمایہ کاری کا پانچواں حصہ خرچ رہی ہیں۔ سیمی کنڈکٹر کمپنیاں نصف خرچ رہی ہیں۔ دوا سازی کے شعبے میں یورپ اتنا کمزور نہیں ہے لیکن وہاں بھی جامد سرمائے اور R&D پر 43 فیصد کم خرچ ہو رہا ہے۔سب سے اہم شعبوں سافٹ ویئر اور کمپیوٹنگ میں امریکہ بہت آگے ہے۔ یورپ میں کہیں بھی کوئی بڑی سافٹ ویئر یا کلاؤڈ کمپیوٹنگ کمپنی موجود نہیں ہے۔ جہاں تک پیداوار بڑھانے میں ایک اہم کردار ادا کرنے والی AI (آرٹیفیشل انٹیلی جنس) کا تعلق ہے، یورپ کا کوڈ رائٹنگ، پراسیسرز کی پیداوار یا سرور فارمز کے حوالے سے شائد ہی کوئی قابل ذکر کردار ہے۔یورپی توانائی منڈی کا بحرانیورپی کمپنیوں کے لیے توانائی کی دیوہیکل قیمتوں نے صورتحال اور بھی گھمبیر کر دی ہے۔ یورپی بجلی کی قیمتیں ہمیشہ ہی زیادہ تھیں لیکن اس وقت صنعت کے لیے یہ قیمت امریکہ سے دگنی ہو چکی ہے (20 vs 8 یورو سینٹ فی kWh)۔ بجلی کی قیمتوں کے تاریخی بلند سطح پہ ہونے کی وجہ سے یورپی صنعت توانائی کے لیے بنیادی طور پر قدرتی گیس پر انحصار کرتی تھی۔ سستی روسی گیس کی دیوہیکل سپلائی انہیں میسر تھی۔لیکن یوکرین جنگ کے آغاز سے یورپ نے اپنے آپ کو روسی گیس سپلائی سے کاٹ دیا ہے اور آغاز میں بے تحاشہ اضافے کے بعد اب گیس کی قیمتیں جنگ سے پہلے کی قیمت کے مقابلے میں 50 فیصد زیادہ پر مستحکم ہو چکی ہیں۔ اس کا خاص طور پر بھاری توانائی استعمال کرنے والی صنعتوں پر بہت گہرا اثر پڑا ہے (دھاتیں، کیمیاء، تیل، پیپر، گلاس وغیرہ) جہاں پیداوار 20 فیصد گر چکی ہے۔ صنعتی طور پر اپنے پیروں پر گولی مارنے کی اس حیران کن مثال سے اندازہ ہوتا ہے کہ قومی ریاست اور سامراج کس طرح سے یورپ کی مستقبل میں تعمیر و ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔لیکن یوکرین جنگ بنیادی وجہ کی بجائے وہ آخری تنکا ثابت ہوئی جس نے توانائی کے شعبے کی کمر توڑ دی۔ کورونا وباء سے پہلے ہی یورپی توانائی کی پیداوار اور انفراسٹرکچر میں قومی اور نجی سرمایہ کاری امریکہ سے تقریباً نصف تھی (2019ء میں 420 ارب ڈالر vs 260 ارب ڈالر)۔ نجی سرمایہ کاری تو اس سے بھی کم ہے اور امریکی سرمایہ کاری کا نصف ہے۔ظاہر ہے کہ امریکہ تیل اور گیس کی پیداوار میں دیوہیکل سرمایہ کاری کرتا ہے لیکن متبادل توانائی کے ذرائع پر مساوی یورپی سرمایہ کاری کی توقع کی جا سکتی تھی، خاص طور پر جب اس حوالے سے یورپی سیاست دانوں نے آسمان سر پر اٹھا رکھا تھا۔ چین نے موازنے میں 2019ء میں توانائی کے شعبے میں 560 ارب ڈالر سرمایہ کاری کی جس میں سے 154 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری متبادل توانائی کے شعبے میں کی گئی اور یہ یورپی سرمایہ کاری سے تین گنا زیادہ تھی۔اپنے آپ کو روسی گیس سے کاٹنے کے بعد یورپی سرمایہ داروں نے توانائی پر سرمایہ کاری 450 ارب ڈالر سالانہ کر دی ہے (2024ء کے اعداد و شمار)۔ لیکن وہ ابھی بھی چین سے بہت پیچھے ہیں جو اس وقت 850 ارب ڈالر خرچ رہا ہے اور متبادل توانائی پر ابھی بھی تین گنا زیادہ خرچ رہا ہے۔اب یہاں سوال یہ ہے کہ یورپ کے پاس مستقبل میں توانائی کے کیا ذرائع ہیں؟ یورپی حکومتیں صنعتوں پر دباؤ ڈال رہی ہیں کہ وہ گیس کو ترک کر کے بجلی سے توانائی حاصل کریں۔ وہ کار مالکان کو بیٹری والی گاڑی استعمال کرنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ پھر وہ AI اور کلاؤڈ کمپیوٹنگ کے لیے سرور انفرسٹرکچر میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری بھی کرانا چاہتے ہیں۔ لیکن ان سب کاموں کے لیے بڑے پیمانے پر بجلی درکار ہے اور ایسی سرمایہ کاری موجود ہی نہیں ہے جو یہ کام سستے داموں کروا سکے۔توانائی میں سرمایہ کاری کا فقدان بھی ایک وجہ ہے کہ یورپی مینوفیکچررز چائنہ کے پیمانے پر پیداوار کو نہیں بڑھا سکے۔ ان کی مصنوعات کے لیے منڈی میں جگہ ہی نہیں تھی اور اس لیے پیداوار کا حجم چھوٹا اور زیادہ مہنگا رہا ہے جبکہ چینی مینوفیکچرنگ کو پیداوار کو دیوہیکل سطح پر بڑھانے کا بے تحاشہ فائدہ ہوا ہے۔ یہ بنیادی وجہ ہے کہ یورپ کے برعکس چین سولر پینلز اور ان کے پرزہ جات کے حوالے سے منڈی میں 60 فیصد حصہ رکھتا ہے۔ چائنہ منڈی بہت زیادہ بڑی تھی اور اس نے اپنی کمپنیوں کی دیوہیکل اجارہ داریاں بننے میں مدد کی جن کا یورپی کمپنیاں خواب میں بھی مقابلہ نہیں کر سکتی تھیں۔نارتھ وولٹ مہم جوئیچین نے الیکٹرانکس اور کار سازی میں لیتھیئم بیٹریوں پر تقریباً مکمل اپنی اجارہ داری بنا لی ہے جو گرین ٹیکنالوجی کے لیے ریڑھ کی ہڈی ہے۔ یہ بیٹریاں سمارٹ فون سے لے کر شمسی اور ہوائی توانائی سے منسلک دیوہیکل اسٹوریج کے نظام تک، ہر چیز میں استعمال ہوتی ہیں۔چینی کمپنیوں نے سرفہرست اپنی پوزیشن بنا لی ہے جس میں دو کمپنیوں BYD اور CATL کا خاص طور پر کلیدی کردار ہے۔ Tesla کا بھی اس منڈی میں ایک چھوٹا حصہ ہے۔لیکن اس منڈی سے یورپی بورژوازی کو بالکل ہی خارج کر دیا گیا۔ اس لیے جب بیٹری مینوفیکچرر نارتھ وولٹ (Northvolt) نے نمودار ہو کر بلند و بانگ دعوے کیے تو پوری یورپی بورژوازی نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ بینکوں، حکومتوں اور کار سازوں نے 4 ارب یورو کی سرمایہ کاری کی۔ گولڈ مین ساکس (Goldman Sachs) نے اس کمپنی میں 20 فیصد حصص خریدے اور Volkswagen نے بھی 20 فیصد حصص خریدے۔ یہ کمپنی سکیلیف تی (Skellefteå)، سویڈن میں اپنی ایک فیکٹری سے جرمنی اور امریکہ میں موجود فیکٹریوں تک پھیل گئی تھی۔لیکن وہ کوئی پیسہ نہیں بنا سکے۔ پچھلے سال کمپنی نے ہر 1 یورو کی فروخت پر 5 یورو کا نقصان برداشت کیا اور اس میں ابھی انتظامی اور تحقیقی اخراجات شامل نہیں ہیں۔ جو بیٹریاں بنا کر بیچی جا رہی تھیں ان کی پیداواری لاگت کی قیمت بھی وصول نہیں ہو رہی تھی۔اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے انہیں دیوہیکل سطح پر پیداوار کرنے کی ضرورت تھی تاکہ چینی کمپنیوں کے پیمانے کی معیشت حاصل ہو سکے۔ نارتھ وولٹ نے پچھلے سال 1.2 ارب ڈالر کا نقصان برداشت کیا۔ اس کے مقابلے میں Tesla کو 710 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے، یہ نقصان 2017ء میں اس وقت ہوا جب کمپنی نے منڈی میں وسعت حاصل کرنے کی کوشش میں لازمی پیمانے کی معیشت حاصل کرنے کی کوشش کی۔ یہ سال Tesla کی زندگی اور موت کے فیصلے کا سال تھا اور کمپنی زندگی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کی نارتھ وولٹ کی موت واقع ہو چکی ہے۔اگر سچ کہا جائے تو جس میدان میں سویڈش سرمایہ دار کھیلنے کی کوشش کر رہے ہیں اس میں ان کے لیے 1 ارب ڈالر کی رقم کچھ بھی نہیں ہے۔ چینی بیٹری کمپنی CATL نے حال میں اسپین میں 4.1 ارب یورو کی فیکٹری لگانے کا اعلان کیا ہے۔ نارتھ وولٹ نے ثابت کیا ہے کہ وہ اربوں کی اضافی سرمایہ کاری کے بغیر یہ کھیل نہیں کھیل سکتا اور اتنی سرمایہ کاری فی الحال ناممکن نظر آ رہی ہے۔CATL کی سرمایہ کاری بھی یورپ میں چینی سرمایہ کاری کی ایک نئی شکل ہے۔ محصولات سے بچنے کے لیے چینی کمپنیاں یورپ کو ایک اسمبلی پلیٹ فارم بنانے میں سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔ یعنی ایک شے کے پرزہ جات میں زیادہ سے زیادہ قدر انہیں فیکٹری میں جوڑنے کے لیے لانے سے پہلے ہی شامل ہو چکی ہوتی ہے، جس کا مطلب ہے کہ یورپ میں روزگار کی فراہمی انتہائی محدود ہو گی۔ اشیاء کی زیادہ تر سپلائی کا نیٹ ورک یورپ سے باہر ہے۔نارتھ وولٹ کی کہانی ان تمام نئی کمپنیوں کے لیے ایک تنبیہ ہے جو بڑے کھلاڑیوں کی موجودگی میں منڈی میں جگہ بنانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ اس کہانی کے نتیجے میں نئی یورپی بیٹری ساز کمپنیوں نے منڈی چینیوں کے حوالے کر دی ہے اور دیگر منڈیوں جیسے کہ دیوہیکل اسٹوریج کی سہولیات پر توجہ دے رہی ہیں۔یہ ہے اجارہ داری پر مبنی سرمایہ داری کا نظام۔ ایک صنعت جس میں پہلے ہی دیوہیکل سرمایہ کاری کی جا چکی ہے، جامد سرمائے اور تحقیق و تخلیق کی مد میں، کسی بھی نو وارد کو باہر رکھتی ہے۔ دنیا میں کہیں بھی کوئی کمپنی ایک مرتبہ اجارہ داری کی حیثیت اختیار کر لے تو محصولات کی بھرمار اس کو اس پوزیشن سے نہیں ہلا سکتی۔یورپ کا مستقبل کیا ہے؟سرمایہ داری سب سے پہلے یورپ میں ارتقاء پذیر ہوئی۔ پوری دنیا سے دولت لوٹ کر گھر لے جا کر یورپی سرمایہ داری نے دن دگنی اور رات چگنی ترقی کی۔ انیسویں صدی کے اختتام پر برطانیہ، فرانس اور جرمنی عالمی معیشت کا مرکز تھے۔لیکن سامراجی قوتوں کے درمیان دنیا کے بٹوارے پر دو عالمی جنگوں نے یورپی طاقتوں کی ہوا ہمیشہ کے لیے اکھاڑ کر رکھ دی۔ امریکہ کا دیوہیکل طاقت نمودار ہوئی اور پھر وہ سرمایہ دارانہ دنیا کا سب سے بڑا خدا بن گیا۔جنگ سے تباہ و برباد یورپی قوتوں نے نئی صنعتوں کی بنیاد پر اپنے سماج کو از سر نو تعمیر کیا جس میں ہر قسم کی گاڑیاں اور صنعتی مشینری شامل تھی۔ انہوں نے بحالی کے ساتھ ایک مخصوص مرحلے پر امریکہ کے مساوی پیداوار بھی حاصل کر لی۔ یہ سب کچھ امریکہ کی ”چَھتر چھایا“ میں حاصل کیا گیا۔آزاد تجارت کے ماحول اور امریکی سامراج کی حفاظت میں یورپی کمپنیاں سرمایہ دارانہ دنیا میں کہیں بھی برابری کی سطح پر مقابلہ کر سکتی تھیں۔ امریکی بورژوازی تھوڑا بہت بڑبڑاتی رہی کہ وہ حفاظت کا یہ دیوہیکل عسکری خرچہ برداشت کر رہے ہیں لیکن مغربی یورپ میں سرمایہ داری کی تعمیر نے ایک پورے تاریخی دور کے لیے سیاسی استحکام پیدا کیا اور عالمی انقلاب کی مزید پرورش وقتی طور پر رک گئی۔ اور ظاہر ہے کہ امریکی بینکوں اور عالمی اجارہ داریوں کو اس بڑھتے کیک میں سے حصہ بقدرِ جُثہ بھی ملا۔آزاد تجارت کے عہد میں یورپ کو چھوٹی اقوام میں کاٹنے والی سرحدیں پیداواری قوتوں کی تعمیر و ترقی کے حوالے سے نرم تھیں۔ مشترکہ منڈی اور بعد میں EU نے ان رکاوٹوں کو مزید کم کر دیا جس کے بعد ایئر بس، کچھ کار ساز کمپنیاں اور بینکوں جیسی اجارہ داریاں نمودار ہوئیں جو عالمی سطح پر مقابلہ کر سکتی تھیں۔لیکن مشترکہ منڈی (Common Market) کا اجراء امریکی سامراج کی خوشگوار چھاؤں میں ہوا تھا جو ایک طویل عرصے تک EU اور اس کے پیش روؤں کو تزویراتی مفادات کے حوالے سے اہم سمجھتا تھا۔ چھوٹی یورپی اقوام اپنے دیوہیکل امریکی کزن کے کندھوں پر سوار ہو کر پوری سرمایہ دارانہ دنیا میں آزادی سے گھوم پھر سکتی تھیں۔ ان میں سے کچھ جیسے فن لینڈ، سویڈن اور آسٹریا مشرقی بلاک کی افسر شاہی کے ساتھ تجارت کر کے اچھے پیسے بھی کما سکتے تھے۔سوویت یونین کے انہدام کے ساتھ یہ سب کچھ بدلنے لگا۔ ابتداء میں ہر جگہ بہت گرم جوشی تھی کہ نئی منڈیاں مغربی سامراج کی مشترکہ لوٹ مار کے لیے کھل رہی ہیں۔ وہ سابق ریاستی کمپنیوں کی لوٹ مار میں پیش پیش رہے جبکہ مغرب میں محنت کشوں کے استحصال میں بھی شدید اضافہ ہوا۔ چین کی منڈی بھی دیوہیکل منافعوں کے لیے شاندار سرمایہ کاری ثابت ہوئی جس میں فرنیچر، ٹیکسٹائل، بنیادی تیار شدہ اشیاء اور اسمبلی پلیٹ فارم وغیرہ شامل تھے۔لیکن 2008ء میں یہ مرحلہ بھی اپنی حدود کو پہنچ چکا تھا۔ عالمگیریت کے تانے بانے کھلنے کا عمل شروع ہو چکا تھا اور اب اس کو نئی دیوہیکل مہمیز مل گئی۔ ایک نئی زیادہ تکلیف دہ حقیقت روپ دھار رہی تھی جس میں مسلسل اور بڑھتی ہوئی ریاستی مداخلت درکار تھی تاکہ اپنی اجارہ داریوں کے مفادات کا ہر وقت مدمقابل سے تحفظ کیا جا سکے۔2015ء میں امریکی اور یورپی سرمایہ داروں کو ہوش آئی کہ چین اب وہ پرانی کمزور قوت نہیں رہا جو فرنیچر اور مغربی الیکٹرانکس کی اسمبلی کیا کرتا تھا۔ چین کے بہت بڑے عزائم تھے جن کا ”Made in China 2025” دستاویز میں احاطہ کیا گیا اور جس کے لیے درکار تمام وسائل موجود تھے۔ایک طرف امریکہ ٹرمپ اور بائیڈن کی قیادت میں چینی تعمیر و ترقی کے خلاف مہم چلا رہا تھا اور نئی ٹیکنالوجی اور منڈیوں کا راستہ کاٹ رہا تھا تو دوسری طرف یورپ منقسم رہا اور مختلف اطراف میں زور آزمائی کرتا رہا۔ ڈچ اور نارڈک ممالک کی پشت پناہی کے ساتھ جرمنی سمیت یہ ممالک اپنی سخت مالیاتی پالیسیوں پر کاربند رہے اور مشترکہ قرضوں کے حوالے سے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے۔چین اور امریکہ دیوہیکل حکومتی خسارے برداشت کر رہے تھے جس کی بنیاد پر مانگ اور سرمایہ کاری چل رہے تھی جبکہ یورپ 2010-12ء کے یوروزون بحران کے بعد قومی اخراجات میں شدید کفایت شعاری کرنے پر مجبور تھا۔ نیم کلاسیکی معیشت دانوں کی تھیوریوں کے مطابق اس کے بعد سرمایے کو نجی سرمایہ کاری کے لیے آزاد کھول دینا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔اب ٹرمپ واپس اقتدار میں آچکا ہے۔ وہ یورپی ممالک کے درمیان چپقلش پھیلانے کی کوشش میں کچھ کو ڈنڈا اور کچھ کو گاجر دکھائے گا۔ اس کے نکتہ نظر سے EU ”سب سے پہلے امریکہ“ کے راستے میں رکاوٹ ہے۔ چینی اور روسی حکومتیں ابھی سے مختلف یورپی ممالک کو اپنے حلقہء اثر و رسوخ میں کھینچنے کی کوششیں کرر ہی ہیں۔ جرمنی اور فرانس سیاسی بحران میں دھنسے ہوئے ہیں اور EU کی ساکھ یورپی عوام میں مسلسل ختم ہو رہی ہے۔ سرمایہ داری کی بنیاد پر یورپی اتحاد کا مستقبل بہت تاریک نظر آ رہا ہے۔ماضی کی یادوں پر زندہایک یورپی سیاست دان ہونے کے باوجود ماریو دراغی نے اپنی ایک رپورٹ میں کافی صاف گوئی کا مظاہرہ کیا ہے۔ یہ رپورٹ اب یورپی بورژوازی کے بحث مباحثے کا حصہ بن چکی ہے۔ لیکن گفتگو ان گہرے مسائل کو حل نہیں کر پائے گی جن کی اس نے نشاندہی کی ہے اور کسی کے پاس کوئی منصوبہ نہیں ہے کہ اس کے مطلوبہ 800 ارب یورو کہاں سے لے کر آنے ہیں۔اگر یہ پیسہ کہیں سے دستیاب ہو بھی جائے تو یورپی سرمایہ داروں کو امریکی اور چینیوں سے خوفناک مقابلہ کرنا پڑے گا جو اسی پروگرام پر گامزن ہیں کہ اپنا بحران دوسرے کے سر لاد دو۔ یہ تجارتی جنگ ہے اور اس میں یورپ کی حالت بہت پتلی ہے۔دراغی اپنی رپورٹ میں خبردار کرتا ہے کہ اگر معیشت میں لازمی سرمایہ کاری نہیں کی گئی تو یورپی ”سماجی ماڈل“ غیر پائیدار ہے۔ایک طرف وہ محنت کشوں اور ان کے نمائندوں کو دھمکی دے رہا ہے کہ اگر وہ اپنا معیارِ زندگی نہیں گراتے تو انہیں اور بھی زیادہ سخت حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ دوسری طرف وہ مالکان کو بھی ڈرا رہا ہے کہ اگر انہوں نے کوئی حرکت نہ کی تو پھر انقلابی نتائج کے لیے تیار رہیں۔کئی دہائیوں سے یورپی محنت کش طبقہ ایک قدرے تہذیب یافتہ زندگی گزارتا آیا ہے۔ لیکن اس کے لیے درکار مادی شرائط تیزی سے ختم ہو رہی ہیں۔ یہ بھی واضح ہے کہ یورپی بورژوازی اس عمل کو روکنے میں مکمل طور پر بانجھ ہے۔ یوکرین جنگ نے جرمن صنعت کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے اور اب اس کے بعد ایک دوسری نئی بلا ٹرمپ صدارت کی شکل میں نازل ہو رہی ہے۔یورپی ”سماجی ماڈل“ سرمایہ داری کی بنیا پر ناقابل عمل ہے۔ یورپی سرمایہ داری ایک وقت میں صحت مند تھی لیکن آج قبر رسیدہ اور بیمار ہے۔ مستقبل میں کسی قسم کی تعمیر و ترقی کی راہ میں قومی ریاست سب سے بڑی رکاوٹ بن چکی ہے۔ مختلف قومی سرمایہ دار طبقات پرانی روایتوں اور ماضی کی سرمایہ کاریوں پر زندہ ہیں۔ یہ صورتحال یورپی اقوام کے لیے مشعل راہ نہیں بلکہ موت ہے۔یورپ اس وقت ایک صنعتی قبرستان بننے جا رہا ہے۔ محنت کش طبقہ ہی آگے بڑھنے کی راہ روشن کر سکتا ہے۔ یورپ کے حکمران طبقات کو تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک کر محنت کش طبقہ یورپ کو متحد کر سکتا ہے اور اس براعظم کے دیوہیکل وسائل کو استعمال کرتے ہوئے ایک نیا مستقبل تعمیر کر سکتا ہے۔ یورپ کی ایک سوشلسٹ فیڈریشن ان تمام امکانات کو حقیقت میں تبدیل کر دے گی جو سرمایہ داری کے بس میں کبھی بھی نہیں تھا۔ یہی آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے۔