کینیڈا: تیل کی بڑھتی قیمتیں اور کمپنیوں کی منافع خوری Share Tweetکینیڈا میں تیل کی قیمتیں تقریباً 2 ڈالر فی لیٹر تک بڑھ گئی ہیں۔ سال کے آغاز سے اب تک 50 فیصد اضافہ ہوا ہے اور یہ محنت کش طبقے کے خاندانوں پر ایک بہت بڑا بوجھ ہے۔ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ اخراجات صوابدیدی ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ زیادہ تر مزدوروں کے پاس ان بلند قیمتوں کو ادا کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ کینیڈین عوام اپنی آمدنی کا بڑا حصہ کام پر آنے جانے کے لیے خرچ کر رہے ہیں۔ مزدوروں کو اب تیل کی مہنگی قیمتوں سے جان چھڑانے کیلئے ایک منصوبہ بند معیشت کی اشد ضرورت ہے۔[Source]انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریںگلوبل نیوز نے ایک سروے کیا جس میں یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ عوام موجودہ صورتحال میں کیسے اپنی عادات تبدیل کر رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے نتائج کو ایک ’خوبصورت‘ عنوان والے مضمون میں جاری کیا جو یہ تھا: ”جیسے جیسے افراط زر میں اضافہ ہوتا ہے، عوام اخراجات کو بچانے اور کم کرنے کے تخلیقی طریقے تلاش کرتے ہیں“۔ مضمون میں ان تخلیقی طریقوں کی فہرست دی گئی ہے جن سے کینیڈین محنت کش اخراجات کم کر رہے ہیں: 54 فیصد لوگوں نے گھر سے باہر کھانا کھانا کم کر دیا ہے، 47 فیصد لوگ کپڑے وغیرہ کی نئی خریداری سے گریز کر رہے ہیں، اور 46 فیصد لوگ تفریحی اخراجات میں کمی کر رہے ہیں۔ 17 فیصد والدین اپنے بچوں کے کھیلوں کے اخراجات میں کمی کر رہے ہیں، 24 فیصد نے کہا کہ وہ کم گوشت کھا رہے ہیں، اور 22 فیصد نے کہا کہ وہ کم تازہ پھل اور سبزیاں خرید رہے ہیں۔ سروے میں شامل 8 فیصد لوگوں نے کہا کہ انہوں نے اخراجات کو کم کرنے کے لیے طبی نسخے حذف کردیے ہیں یا پھر انہیں دوبارہ شروع نہیں کیا۔ محنت کشوں کو زندگی کو قابل برداشت بنانے والی ’آسائشوں‘ کو کم کرکے ”تخلیقی“ بننا پڑا ہے، اور واقعی ”تخلیقی“ لوگوں نے ادویات جیسی ضروری اشیاء کی خریداری کو کم کر دیا ہے۔بھاری بھرکم منافعےجہاں محنت کش زندگی گزارنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، وہاں پچھلے سال کے آخر سے تیل کی کمپنیاں چشم کشا منافع کما رہی ہیں۔ امپیریل آئل نے 2021ء کی تیسری سہ ماہی میں 908 ملین ڈالر منافع ریکارڈ کیا، جو اس کی 30 سالوں میں سب سے بڑی سہ ماہی خالص آمدنی ہے۔ 2022ء میں، کینیڈا کی سب سے بڑی تیل اور گیس پیدا کرنے والی کمپنی کینیڈین نیچرل ریسورسز لمیٹڈ نے گزشتہ سال کے مقابلے میں دُگنا منافع ریکارڈ کیا، جس سے صرف پہلی سہ ماہی میں 3.1 بلین ڈالر کمائے گئے۔ سینووَس کا منافع پہلی سہ ماہی میں سات گنا بڑھ کر 1.6 بلین ڈالررہا۔ سنکور کا پہلی سہ ماہی میں منافع تین گنا بڑھ کر 2.95 بلین ڈالر رہا، جس سے اس کے سرمایہ کاروں کے منافعے تاریخی اونچائی پر پہنچے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ منافع کمانے کے دوران سنکور نے پہلی سہ ماہی میں پیداوار میں کمی کی تھی۔ جہاں عوام تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے پریشان ہیں وہیں تیل اور گیس کی بہت سی کمپنیاں ریکارڈ منافع کما رہی ہیں اور کچھ تو کم پیداوار کے ساتھ ایسا کر رہی ہیں۔حالات یہاں تک کیسے پہنچے؟2022ء میں کرونا وبا نے تیل کی ڈیمانڈ میں تیزی سے کمی کی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لاک ڈاؤن کے دوران مینوفیکچرنگ میں کمی ہوئی (جس میں تیل کی ضرورت ہوتی ہے) اور سڑک پر گاڑیاں بھی کم تھیں۔ تیل کی مانگ میں کمی آئی لیکن مارکیٹ میں سپلائی وہیں رہی جس کی وجہ سے قیمتوں میں واضح کمی آئی۔ مسافروں کو یاد ہوگا جب تیل کی قیمت 70 سینٹ فی لیٹر سے کم تھی! تیل تاجر اس سے خوش نہیں تھے۔ اس کے جواب میں انہوں نے تیل کی عالمی سپلائی کو کم کرتے ہوئے پیداوار میں کمی کردی۔ اس سے قیمتیں کم و بیش کرونا سے پہلے کی سطح تک پہنچ گئیں۔ انہوں نے اس عمل میں دسیوں ہزار ملازمین کو فارغ کر دیا، لیکن نظم بحال ہو گیا!تیل تاجروں نے اس واضح ناگزیریت کو نظر انداز کیا کہ آخر کار لاک ڈاؤن ختم ہو جائے گا اور مزدور اپنے روزمرہ کے سفر پر واپس آجائیں گے اور تیل کی مانگ دوبارہ بڑھ جائے گی۔ اس سال کے شروع میں بالکل ایسا ہی ہوا۔ تیل کی مانگ وبائی مرض سے پہلے کی سطح تک پہنچ گئی لیکن تیل تاجرپیداوار کو بڑھانے اور ایندھن کی فراہمی میں اضافہ کرنے سے گریزاں تھے۔ نتیجہ؟ سپلائی کی کمی، جس کے نتیجے میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔ یوکرین پر روس کے حملے نے عالمی سپلائی چینز میں خلل ڈال کرتیل کی سپلائی میں کمی کو مزید بڑھا دیا، لیکن تیل تاجر بالآخر سپلائی کی کمی کے ذمہ دار ہیں جس کی وجہ سے قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے اور جس سے وہ فی الحال فائدہ اٹھا رہے ہیں۔قیمتوں کو دوبارہ کرونا وبا سے قبل کی سطح پر پہنچا نے کے لیے ضروری ہے کہ توانائی کا شعبہ تیل کی پیداوار میں اضافہ کرے۔ اگر وہ پیداوار کو بڑھاتے ہیں تو سپلائی کی کمی ختم ہو جائے گی اور قیمتوں میں بھی کمی آئے گی۔ یہ مجموعی طور پر معاشرے کے لیے تو بہت اچھا ہوگا لیکن توانائی کے اجارادار وں کے لئے برا۔ اس اقدام کا مطلب ان کے بے پناہ منافعوں کا خاتمہ ہے۔ حیرت کی بات نہیں کہ وہ ایسا کرنے سے گریزاں ہیں۔ رائٹرز نے ایک جگہ لکھا ہے کہ: ”کینیڈین نیچرل، جو ملک کا سب سے بڑا پروڈیوسر ہے، اس سال تیل اور گیس کی پیداوار میں 5 فیصد اضافہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، جبکہ سینووَس، ملک کے دوسرے بڑے تیل اور گیس پروڈیوسر نے کہا کہ دسمبر میں شائع ہونے والی 2022ء کی پیداواری رہنمائی میں کوئی تبدیلی نہیں لائی گئی۔ توانائی کی کمپنیاں اس بحران کو حل کرنے کا فی الحال کوئی ارادہ نہیں رکھتیں، اور وہ کریں گے بھی کیوں؟ جہاں عوام اس سب سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں، وہیں یہ بڑے منافع کما رہے ہیں!توانائی کی کمپنیاں صرف اس صورت میں تیل کی قیمتوں کو کم کرنے کے لیے اقدامات کریں گی جب بڑھتی قیمتوں کے نتیجے میں تیل صارفین کی کمی ان کے منافعوں پر اثر اانداز ہونا شروع ہو جائے گی۔ لیکن تیل صارفین کی اس مقدار میں کمی کا کوئی سنجیدہ امکان نہیں ہے۔ عوام کیا کریں؟ کیا سائیکل پر کام پر جائیں؟ پر وہ لوگ کیا کریں جن کی کام کی جگہیں دور ہیں۔ یا کسی سواری کے ذریعے کام پر جائیں؟ جس کا مطلب ہے کے انہیں کام پر پہنچنے کے لئے ایک گھنٹہ یا اس سے بھی زیادہ وقت لگے گا۔ یا پھر سب لوگ اپنی موجودہ گاڑیاں بیچ کر مہنگی الیکڑک گاڑیاں خرید لیں؟ اس سوال میں ہی اس کا جواب مل جاتا ہے۔ زیادہ ترمحنت کشوں کے لیے ان میں سے کوئی بھی متبادل ممکن نہیں ہے۔ قیمت سے قطع نظر، عوام تیل کی خریداری کو جاری رکھیں گے کیونکہ ہمیں کام پر جانے کے لیے تیل کی ضرورت ہے اور ہم دوسرے ضروری اخراجات میں کٹوتی کرکے اس کی ادائیگی کریں گے۔کینو فنانشل کیلگری کے پورٹفولیو منیجر رفیع تہمازیان جو تیل کی پیداوار میں حصہ بھی رکھتا ہے، نے بہترین خلاصہ کیا ہے۔ تہمازیان نے توانائی کی کمپنیوں کے بارے میں کہا، ”وہ ابھی بالکل سکون سے بیٹھے ہیں اور دھڑا دھڑ ان کی جیبوں میں پیسہ آتا جا رہا ہے“، مزید یہ کہا کہ ”وہ بھلا کیوں مزید پیداواری عمل میں اضافہ تیزی لانا چاہیں گے؟“بحران کو کیسے حل کریں؟دیکھو ہم کتنے خوش قسمت ہیں کہ اب ہمارے سیاستدان ہمیں بچانے کیلئے خود میدان میں آگئے ہیں۔ پورے کینیڈا کے ٹوری سیاست دان تیل کے ٹیکسوں سے چھٹکارا حاصل کرکے بحران کو حل کرنے کی تجویز پیش کر رہے ہیں۔ اونٹاریو میں ڈگ فورڈ نے جولائی سے دسمبر تک تیل اور گیس پر ٹیکس کم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ ٹیکسوں میں پانچ سینٹ کی کمی کی جائے گی یعنی 14 سینٹ فی لیٹر سے 9 سینٹ فی لیٹر۔ اس کے پیچھے سوچ یہ بتائی جا رہی ہے کہ اس سے قیمتوں میں پانچ سینٹ فی لیٹر کمی ہوگی لیکن سرمایہ دارانہ نظریہ ہمیشہ حقیقت سے میل نہیں کھاتا۔ ایسا تب ہو گا اگر توانائی کی کمپنیوں نے ٹیکس کمی کے جواب میں قیمتوں میں پانچ سینٹ اضافہ نہ کیا۔ فرض کریں کہ فورڈ کا منصوبہ کام کرتا ہے اور تیل کی قیمت پانچ سینٹ فی لیٹر کم ہو جاتی ہے تو ہمیں پھر بھی ایک لیٹر کے لیے کم از کم 1.90 ڈالر ادا کرنے ہوں گے۔ ٹیکسوں کو کم کرنا کوئی حل نہیں ہے بلکہ یہ عوامی خدمات کی فراہمی میں کمی کا باعث بنتا ہے۔اونٹاریو این ڈی پی نے تیل کی قیمت کے ضوابط متعارف کروا کر بحران کو حل کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔ او این ڈی پی نے اس سلسلے میں ”پرائیویٹ ممبر بل“ (تین بار) تجویز کیا۔ تجویز میں وضاحت کی گئی ہے کہ ”اونٹاریو انرجی بورڈ کو تیل کی خوردہ قیمت اور ہول سیل مارک اپ کو ریگولیٹ کرنا چاہیے تاکہ قیمتیں منصفانہ، مستحکم اور مسابقتی ہوں چاہے آپ کہیں بھی رہتے ہوں۔ مزید وضاحت دی گئی کہ ”کیوبیک سمیت پانچ دیگر صوبوں میں تیل کی قیمت برقرار رکھنے کے لیے ضابطے لاگو کیے گئے ہیں“۔ بدقسمتی سے کیوبیک کے پرائس کنٹرول کام نہیں کررہے ہیں۔ فی الحال قیمت کے کیوبیک جہاں قیمتوں کو کنٹرول کیا جاتا ہے، میں تیل اونٹاریو کی نسبت زیادہ مہنگا ہے! یہ واضح ہے کہ مصنوعی طور پر لاگوکردہ قیمتوں کے کنٹرول عملی طور پر کام نہیں کرتے۔ تیل کی قیمتوں کو حقیقی طور پر کم کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ ملازمین کی خدمات حاصل کی جائیں، مزید رگوں (Rigs) کی کھدائی کی جائے اور پیداوار کو بڑھایا جائے، یا متبادل توانائی کے بنیادی ڈھانچے کو بڑے پیمانے پر پھیلایا جائے۔ بدقسمتی سے حکومت ایسا نہیں کر سکتی کیونکہ توانائی کا شعبہ نجی ملکیت میں ہے۔ جو آپ کا نہیں ہے اس پر آپ قابو نہیں رکھ سکتے۔ریاستی فلاح کے نام پر دھوکہسیاستدانوں کے تجویز کردہ حل موجودہ بحران کا خاتمہ نہیں کر سکتے۔ توانائی کے اجارہ دار جو چاہیں کر سکتے ہیں کیونکہ وہ رِگوں، کانوں اور ریفائنریوں کے مالک ہیں۔ وہ اس طاقت کو ہم سے زیادہ سے زیادہ فائدہ نچوڑنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ایک طرف وہ پیٹرول پمپ پر ہماری جیبوں سے پیسے لوٹتے ہیں، اور دوسری طرف وہ حکومت سے ہینڈ آؤٹ بھی لے رہے ہیں جو ہمارے ٹیکسوں سے ہی ادا کیے جاتے ہیں۔ 2020ء میں 18 ارب دالر ہینڈ آؤٹ لینے کے بعد دسیوں ہزار ملازمین کو کام سے نکال دیا گیا تھا۔ 2022ء میں، یعنی اس سال، وہ اپنی خود ساختہ تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے منافع کما رہے ہیں اور اس کے اوپر حکومتی ہینڈ آؤٹ حاصل کر رہے ہیں۔فوسل فیول انڈسٹری کئی دہائیوں سے سالانہ اربوں کی سبسڈی لے رہی ہے لیکن شفافیت کی کمی کی وجہ سے ہم سبسڈی کی حقیقی رقم نہیں جانتے۔ 2014 میں جاری کردہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی ایک رپورٹ میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ کینیڈا میں فوسل فیول انڈسٹری کو سالانہ اوسطاً 34 ارب ڈالر کی سبسڈی ملتی ہے۔ اکثریت کو درحقیقت یہ معلوم نہیں کہ داسل فیول کی صنعت نے عوام کی جیبوں سے آنے والے ٹیکسوں سے کتنی رقم سبسڈی کے طور پروصول کی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ صحیح رقم سرمایہ دارانہ ریاست اور فوسل فیول انڈسٹری کے درمیان ایک راز ہے۔ اگر اس کا ریکارڈ ساری عوام کے سامنے ہوتا تو یقیناً لوگ سوال کرتے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔سرمایہ داروں کی دولت ضبط کرو!جب تک توانائی کا شعبہ نجی ہاتھوں میں رہے گا فیصلہ ساز ی ان سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں رہے گی جو ان کمپنیوں کے مالک ہیں۔ ان کے فیصلے صرف ایک چیز پر کارفرما ہوتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ منافع کیسے کمایا جائے۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ وہ اس کے پیچھے کس حد تک جانے کے لیے تیار ہیں۔ انہوں نے کرونا وبا کے دوران دسیوں ہزارملازمین کونوکریوں سے فارغ کیا۔ بڑھتی مہنگائی کے اس ماحول میں وہ محنت کشوں کو مزید تکلیفیں پہنچانے میں مصروف ہیں اور انکا رُکنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ اس سب کے دوران وہ اپنی جیبوں کو مزید بھرنے کے لیے ٹیکس دہندگان کے اربوں ڈالر لے رہے ہیں۔ وہ یہ سب کرنے کی طاقت رکھتے ہیں کیونکہ وہ توانائی کے شعبے کے مالک ہیں۔ ٹیکسوں میں کٹوتیوں اور قیمتوں پر کنٹرول جیسی اصلاحات سے بحران حل نہیں ہوگا کیونکہ بالآخر اقتدار پھر بھی سرمایہ داروں کے ہاتھ میں ہے۔تیل ایک بنیادی ضرورت ہے جس کی ہمیں معاشرے کو چلانے کے لیے ضرورت ہے، اسے نجی ہاتھوں میں نہیں ہونا چاہیے۔ محنت کشوں کو صنعت کا کنٹرول سنبھالنے، اسے مشترکہ ملکیت میں لانے اورجمہوری طریقے سے خود چلانے کی ضرورت ہے۔ ہم اجتماعی طور پر فیصلہ کر سکتے ہیں کہ ہمیں کتنے تیل کی ضرورت ہے اور ہم اسے کیسے تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔ ایک اجتماعی ملکیت اور جمہوری طور پر چلنے والے توانائی کے شعبے کے ذریعے ہی پیداوار کے نئے آلات اور فاسل فیول سے کسی پائیدار متبادل کی صورت میں چھٹکارا حاصل کرنے جیسے اقدامات ممکن ہیں۔ کینیڈین ریاست واضح طور پر فاسل فیول کی صنعت کے ساتھ کھڑی ہے، جیسا کہ جسٹن ٹروڈو نے اپنے بیان میں اعتراف کیا کہ ”کینیڈا تیل پیدا کرنے والی ایک بڑی کمپنی ہے!“ اجتماعی ملکیت کے تحت نوکریوں کے تحفظ کی ضمانت بھی حاصل کی جا سکتی ہے۔ نجی ملکیت کے تحت اس شعبے میں ملازمتیں مسلسل خطرے میں ہیں، کیونکہ سرمایہ دار ہمیشہ پیسہ بچانے اور زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کرنے کے طریقے تلاش کرتے رہتے ہیں۔ ہمیں صنعتی مزدوروں اور بڑھتی قیمتوں کا سامنا کرنے والے وسیع تر محنت کش طبقے کے لیے سوشلسٹ حل کی ضرورت ہے۔ سرمایہ داری ان مسائل کا کوئی حل نہیں دے سکتی۔