برطانیہ: تیسرا لاک ڈاؤن اور تاریخ کا بدترین بحران Share Tweetبورس جانسن اور ٹوریز نے بڑھتی ہوئی تباہی کا الزام کورونا وائرس کی نئی قسم پر لگانے کی کوشش کی ہے۔ مگر جن حالات میں عوام گھر چکے ہیں، اس کی اصل وجہ حکمران طبقے کی لاپرواہی ہے۔ ہمیں وباء کے حوالے سے ایک بے باک سوشلسٹ مؤقف اپنانے کی ضرورت ہے۔[Source]انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریںابھی نئے سال کا ایک ہفتہ بھی نہیں گزرا اور برطانوی سماج پھر سے پچھلے سال کے تاریک دنوں میں دھکیلا جا چکا ہے۔ کورونا کے بڑھتے ہوئے کیسز کے پیش نظر بورس جانسن نے 4 جنوری کو ملک گیر سطح پر ایک نئے لاک ڈاؤن کا اعلان کر دیا، جس میں لگائی گئی پابندیاں نو مہینے پہلے لگائے جانے والے لاک ڈاؤن کی طرح ہیں جب برطانیہ میں پہلی دفعہ وباء پھیلی تھی۔در حقیقت تب کی نسبت صورتحال زیادہ بد تر ہے۔ اتوار کے دن انگلستان کے ہسپتالوں میں کورونا متاثرین کی تعداد تقریباً 25 ہزار تھی جو پہلی لہر کے عروج سے تین گنا زیادہ ہے۔ محض ایک ہفتے کے اندر تعداد میں 29 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔اموات کی شرح بھی اپریل والی تعداد کو پہنچ رہی ہے۔ حالیہ اعداد و شمار کے مطابق پورے برطانیہ میں روزانہ کی بنیاد پر تقریباً 500 اموات واقع ہو رہی ہیں، جس سے مجموعی اموات کی تعداد 75 ہزار تک پہنچ چکی ہے۔ ماہرین کی پیش گوئی کے مطابق یہ تعداد جلد ہی ایک لاکھ تک پہنچنے کا امکان ہے۔بورس اور اس کے وزراء حالیہ بربادی کے لیے کورونا وائرس کی نئی قسم کو موردِ الزام ٹھہرا رہے ہیں جو زیادہ آسانی سے پھیلتی ہے۔ مگر حقیقت میں یہ ٹوریز ہی ہیں جو اس کے ذمہ دار ہیں۔ وباء کا بار بار قابو سے باہر ہو جانا اور اس کے مہلک اثرات بوسیدہ حکومت کی لاپرواہی، انا اور نا اہلی کا نتیجہ ہے۔حکومت کی لاپرواہیحالیہ لاک ڈاؤن میں بھی ماضی کی طرح تاخیر کی گئی۔ پچھلے دونوں لاک ڈاؤن کی طرح وزیراعظم صاحب سائنسی ماہرین کے مشوروں کو نظر انداز کرتے ہوئے سستی کا مظاہرہ کرتا رہا اور آخرکار مجبوری کی حالت میں لاک ڈاؤن نافذ کرنا پڑا۔مارچ کے دوران پہلی لہر کے شروع میں بورس کا ماننا تھا کہ وائرس کو پھیلنے دینا چاہیئے کیونکہ اس کے پھیلاؤ سے نتیجتاً لوگوں کی قوتِ مدافعت پر مثبت اثرات پڑیں گے اور وباء کی شدت میں خود بخود کمی آ جائے گی۔ اس حکمتِ عملی کے پیشِ نظر لاک ڈاؤن میں ہفتہ بھر کی تاخیر کی گئی جس کا نتیجہ ہزاروں اموات کی صورت میں نکلا، جن سے بصورتِ دیگر بچا جا سکتا تھا۔خزاں میں بورس ایک دفعہ پھر الجھن کا شکار ہوا۔ ابتدائی طور پر وہ ہنگامی حالات کے لیے سائنسی مشاورت کے حکومتی ادارے (SAGE) کی تجاویز کو مسترد کرتا رہا، جو انہوں نے 21 ستمبر کو حالات کی مزید ابتری روکنے کے لیے دیے تھے۔ آخرکار اسے اپنی ضد چھوڑنی پڑی اور چھ ہفتے کی تاخیر کے بعد نومبر کے اوائل میں لاک ڈاؤن نافذ کر دیا۔مگر تب تک دوسری لہر پھیل چکی تھی۔ جس کے بعد ملک بھر میں وباء کی شدت میں اضافہ ہوا ہے۔سکولوں کی بندشاس دفعہ SAGE نے 22 دسمبر کو ہی بتا دیا تھا کہ سردی کی چھٹیوں کے بعد سکولوں کو متواتر بند رکھنا چاہیئے تاکہ وائرس کے پھیلاؤ کو کم کیا جا سکے۔ SAGE نے دلائل دے کر ثابت کیا کہ کورونا وائرس کی نئی قسم کے پھیلاؤ میں پرائمری اور سیکنڈری سکولوں کے بچوں کا اہم کردار رہا ہے۔ مگر بورس اور وزیرِ تعلیم گیوِن ولیمسن نے ان کی ایک بھی نہیں سنی۔حکومت سکولوں کو اس لیے نہیں کھلا رکھنا چاہ رہی تھی کہ اس کو تعلیم کی فکر ہے، بلکہ یہ سب کوششیں منافعوں کی خاطر کی جا رہی تھیں۔ طلبہ کی بھلائی کے لیے مگرمچھ کے آنسو بہانا در حقیقت کاروباروں کو جاری رکھنے کی ایک سوچی سمجھی چال ہے۔ کیونکہ سکولوں کی بندش کی صورت میں تقریباً بیس لاکھ والدین اوقاتِ کار میں سے بچوں کی دیکھ بھال کے لیے وقت نکالیں گے۔ جس کا نتیجہ مالکان کے منافعوں میں کمی ہوگی۔یہی وجہ تھی کہ بورس جانسن 4 جنوری سے ہزاروں انگلستانی سکولوں کو کھول دینے پر بضد تھا۔ مگر اس فیصلے کو اساتذہ اور والدین نے مسترد کیا اور ساتھ میں کورونا واقعات کے اضافے میں بھی شدت آ رہی تھی، جس کی وجہ سے حکومت 24 گھنٹوں کے اندر یو ٹرن لینے پر مجبور ہو گئی اور فروری تک آن لائن کلاسز کے انعقاد کا فیصلہ کر دیا۔برائے نام لاک ڈاؤنٹوری حکومت حالیہ لاک ڈاؤن سے پہلے بھی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کر رہی تھی۔ بورس جانسن کرسمس کے موقع پر پابندیوں میں نرمی کی منصوبہ بندی کر رہا تھا جسے سائنسدانوں نے شروع سے تنقید کا نشانہ بنایا۔ آخرکار بورس نے اس منصوبے کو ترک کر دیا مگر تب تک بہت دیر ہو چکی تھی اور لوگوں نے کرسمس کے حوالے سے اپنی تیاریاں کر لی تھیں، جس سے پورے ملک میں انتشار کی کیفیت پیدا ہو گئی۔نومبر لاک ڈاؤن کے بعد بڑے کاروباروں کے مفاد کی خاطر حفاظتی اقدامات میں بہت زیادہ نرمی کی گئی۔ پرچون مالکان کے دباؤ میں آ کر کرسمس کے موقع پر حکومت نے دکانوں کو 24 گھنٹے کھلے رہنے کی اجازت دے دی، تاکہ زیادہ سے زیادہ گاہکوں کے ذریعے منافعوں میں بڑھوتری کی جا سکے۔اس سے مضحکہ خیز صورتحال نے جنم لیا۔ ایک طرف رشتے داروں اور دوست احباب کو ایک دوسرے کے گھروں میں اکٹھے ہونے کی اجازت نہیں تھی مگر دوسری جانب مارکیٹوں اور بازاروں میں قدم دھرنے کی جگہ بھی میسر نہیں ہوتی تھی۔اسی طرح حالیہ لاک ڈاؤن میں بھی سرمایہ دار یہی کوشش کر رہے ہیں کہ حکومت کسی طرح ان کے لیے پابندیوں میں نرمی پیدا کرے۔ مثال کے طور پر تعمیراتی کام وباء کے سارے عرصے کے دوران جاری رہا، جس کا وائرس پھیلانے میں اہم کردار تھا۔ایسے بہت سارے کاروبار جن کو ماضی میں بند رہنے پر مجبور کر دیا گیا تھا، اس دفعہ خود کو ’ضروری نوعیت کے کاروبار‘ کے طور پر منوانے میں کامیاب رہے ہیں۔ بہ الفاظ دیگر یہ لاک ڈاؤن محض برائے نام ہی ہے۔جہاں تک محنت کشوں اور یونینوں کی بات ہے تو انہیں ان فیصلوں کے بارے اعتماد میں نہیں لیا گیا اور ان کے اوپر مالکان کے یکطرفہ فیصلے مسلط کیے جا رہے ہیں۔تیز رفتار بڑھوتریوائرس کی تیزی سے پھیلنے والی نئی قسم نے حالات کو مزید بگاڑ دیا ہے۔ اس حادثے سے ایک بنیادی ضرورت کا اظہار ہوتا ہے۔تغیر زندگی کا لازمی جز ہے۔ مگر وائرس کی نئی قسموں کا امکان تب مزید بڑھ جاتا ہے جب پہلے سے ہی ایک بڑی آبادی وائرس کا شکار رہی ہو۔ ٹوریز نے بار بار پابندیاں ہٹا کر اور لاک ڈاؤن میں تاخیر یا نرمی کے ذریعے وائرس پھیلنے میں مدد کی ہے۔جب وائرس کے واقعات کو نظر انداز کیا جائے تو اس کی تیز رفتار بڑھوتری مزید شدت اختیار کر جاتی ہے۔ اگر شروع سے مناسب حفاظتی اقدامات کیے جائیں تو تیز رفتار بڑھوتری سے بچا جا سکتا ہے۔ مگر بڑھتی ہوئی تعداد کو نظر انداز کرنے سے اس کی رفتار میں تیزی آتی جاتی ہے، جیسا کہ اب ہو رہا ہے۔تباہی کے دہانے پرسرکاری شعبہ صحت (این ایچ ایس) تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ ہسپتال میدانِ جنگ کا نقشہ پیش کر رہے ہیں۔ کئی ہسپتالوں میں 50 فیصد تعداد کورونا کے مریضوں کی ہے۔ یہ صورتحال دن بہ دن مزید بگڑتی جا رہی ہے۔مگر این ایچ ایس کے حالیہ بحران کی وجہ کورونا وائرس نہیں ہے۔ وباء نے تو محض پہلے سے سطح کے نیچے موجود کمزوریوں اور خستہ حال نظام پر سے پردہ ہٹایا ہے۔برطانیہ میں سالوں سے این ایچ ایس کو بجٹ میں کمی، کٹوتیوں اور نجکاری کے ذریعے لوٹا گیا ہے۔ سال 2000ء سے اب تک برطانوی ہسپتالوں میں 75 ہزار بستروں کی کٹوتی کی گئی ہے، جو 30 فیصد کمی ہے۔ سب سے بڑھ کر ناقص انتظامات اور تنخواہوں میں کمی کی وجہ سے نرسوں اور دیگر اہم ملازمین کی بڑی تعداد اپنی نوکریاں چھوڑ گئی ہے۔نتیجتاً آج ہنگامی صورتحال میں این ایچ ایس کے اندر عملے کی شدید کمی ہے۔ جس کی وجہ سے ہنگامی بنیادوں پر بنائے گئے بہت سارے عارضی مراکز، جیسا کہ نائٹنگیل ہسپتال، خالی پڑے ہوئے ہیں۔بی بی سی کے ایک پروگرام، جس کا نام ’اینڈریو مار شو‘ ہے، پر بات کرتے ہوئے فیکلٹی آف انٹینسیو کیئر میڈیسن (مہلک امراض سے نبردآزما ہونے والا ادارہ) کے افسر اعلیٰ ایلیسن پیٹارڈ نے بتایا کہ: ”ہم راتوں رات عملہ تخلیق نہیں کر سکتے۔ ادویات، بستروں اور طبی ساز و سامان کو فوری طور پر حاصل کرنا ممکن ہے مگر عملہ اس طرح جلدی میں تخلیق نہیں کیا جا سکتا۔“نا قابلِ اعتماد ٹوریزکورونا کیسز کی تعداد میں مسلسل بڑھوتری کی ایک اور وجہ تشخیص اور علاج کے لیے قابلِ اعتماد ماحول مہیا کرنے میں ٹوری حکومت کی ناکامی ہے۔تشخیص کے طریقہ کار کا پورا انتظام بری طرح ناکام رہا ہے۔ شروع میں بورس جانسن نے دنیا کا بہترین انتظام متعارف کرانے کا وعدہ کیا۔ مگر اس کے بر خلاف یہ سارے انتظامات ٹوریز کے قریبی یار دوستوں کے ہاتھ میں ہونے کی وجہ سے شروع سے ہی مسائل کا شکار رہے ہیں اور ستمبر کے اوائل میں جب کورونا واقعات کی تعداد بڑھ رہی تھی، تب سے ہی بری طرح ناکام ہوئے ہیں۔ناقص انتظامات کی وجہ سے عوام کا حکومت پر اعتماد نہیں رہا، خصوصاً ویکسین کے معاملے میں، جس سے لوگ تھوڑا سا سانس لینے کے قابل ہو پائیں گے۔بلاشبہ ٹوریز پر عوامی اعتماد میں پچھلے نو مہینوں میں بہت بڑی کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ وباء کے شروع میں وزیراعظم کے سابقہ سیاسی مشیر ڈومینیک کمنگز نے لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سفر کیا تھا، جس کی بعد ازاں بورس نے حمایت کی۔ نتیجتاً ’قومی اتحاد‘ کا ڈھنڈورا پیٹنے والا بورس کا اصل چہرہ سامنے آ گیا۔تب سے ٹوری حکومت نے عوام میں اپنی حرکتوں کی وجہ سے شکوک و شبہات اور مایوسی ہی پھیلائی ہے۔ حکومت کی جانب سے متضاد بیانات دیے گئے جیسا کہ”باہر کھانا کھا کر ریستورانوں کی مدد کرو، مگر زیادہ میل ملاپ سے دور رہو“، کبھی دفتر جا کر کام کرنے کا کہا گیا تو کبھی گھر بیٹھے۔ اس کے ساتھ حکمتِ عملی میں اچانک تبدیلیاں اور بورس کی احمقانہ اور متذبذب تقریروں نے عوام کی الجھن میں اضافہ کیا ہے۔اسی طرح ٹوریز کے نہ ختم ہونے والے حیران کن یو ٹرن کے تسلسل سے اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ حالات حکومت کے قابو سے باہر ہو چکے ہیں (جو پہلے بھی ان کے قابو میں نہیں تھے)۔سب سے بڑھ کر اس اُتھل پُتھل سے حکومت کے اوپر دو طرح کے متضاد دباؤ کا اظہار ہوتا ہے، کہ لوگوں کی زندگیاں بچائی جائیں یا سرمایہ داروں کے منافعے۔ سرمایہ داروں کے مطالبات اور پارٹی کے گہرے اندرونی اختلافات کی وجہ سے بورس ہر معاملے میں ٹال مٹول کرتا رہا ہے۔اب بورس جانسن ماضی میں کیے گئے اقدامات کا نتیجہ بھگت رہا ہے۔ کنزرویٹیو پارٹی کی حمایت میں بہت کمی آئی ہے۔ حالیہ سروے سے پتہ چلا ہے کہ اگر آج ہی الیکشن کا انعقاد کیا جائے تو بورس 80 سیٹیں ہار کر حکومت سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔ یہاں تک کہ اس کے اپنے وزراء اس کی مخالفت کر رہے ہیں، جن میں سے دو نے مایوس ہو کر حال ہی میں اس پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ٹوریز ہی ذمہ دار ہیںمختصر یہ کہ ٹوریز کی دیگر عوامل پر الزام لگانے کی تمام تر کوششوں کے باوجود یہ واضح ہے کہ اصل ذمہ دار وہ خود ہی ہیں۔بد قسمتی سے ’سر‘ کیئر سٹارمر ’حزبِ اختلاف‘ ٹوریز کی جانب سے توجہ ہٹانے کا باعث بن رہا ہے جو کنزرویٹیو پارٹی کی بجائے اپنی لیبر پارٹی کے بائیں بازو کے اوپر حملے کرنے میں مصروف ہے۔مثال کے طور پر نیشنل ایجوکیشن یونین (اساتذہ اور دیگر تعلیمی عملے کی یونین) نے ناقص انتظامات کے پیشِ نظر تعلیمی ادارے کھولنے کی مخالفت کی۔ ٹریڈ یونین اور لیبر پارٹی کے بائیں بازو نے بڑے پیمانے پر یونین کی حمایت کی۔ مگر سٹارمر اساتذہ کی حمایت کرنے سے پیچھے ہٹ گیا اور اس کے بجائے اس کا کہنا تھا کہ وہ آن لائن تعلیم کے حق میں نہیں ہے۔ چنانچہ ہمیں یہ دن بھی دیکھنا پڑا کہ ٹوری وزیراعظم نے مجبور ہو کر یونین کا مطالبہ منظور کیا جبکہ لیبر پارٹی کا قائد اس کی مخالفت کر رہا تھا!ٹوری حکومت کی چمچہ گیری کرنے کی بجائے لیبر پارٹی کو چاہیئے کہ محنت کشوں اور یونینوں کا ساتھ دے کر بوسیدہ حکومت پر کاری ضرب لگانے کی جانب بڑھیں، تاکہ زندگی اور روزگار دونوں کو بچایا جا سکے۔سوشلسٹ مؤقفیہ بات تو واضح ہے کہ کورونا وائرس کے خاتمے کے لیے لاک ڈاؤن کوئی مستقل حل نہیں ہے۔ بلکہ یہ ان عارضی اقدامات میں سے ایک ہے جو وائرس کے پھیلاؤ اور اموات کو روکنے کے لیے ضروری ہے۔ لاک ڈاؤن کے ذریعے محض یہ موقع میسر آتا ہے کہ ویکسین کے مناسب انتظامات تک وائرس کے پھیلاؤ کو روکا جائے۔پچھلے دونوں لاک ڈاؤنز میں ٹوریز نے یہ مواقع ضائع کیے ہیں۔ سائنسی ماہرین کے مشوروں اور اگلی صفوں میں موجود محنت کشوں کی تجاویز پر غور کرنے کی بجائے حکومت سرمایہ داروں کو مطمئن کرنے اور یونینوں سے لڑنے میں مگن ہے۔کورونا وباء کو شکست دینے کے لیے بے باک سوشلسٹ اقدامات وقت کی اہم ضرورت ہے۔ جس کا مطلب تمام ضروری نوعیت کے شعبہ جات اور اداروں کو عوامی ملکیت میں لینا ہے، محنت کشوں کے ہاتھوں میں اختیار دینا ہے، اور امیر ترین افراد کی دولت کو بحران سے نمٹنے کے لیے استعمال کرنا ہے۔ہم بڑے کاروباروں میں موجود حکومت کے دوستوں کو منافعے کے لیے ویکسین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ اس کی بجائے ویکسین کا اختیار این ایچ ایس، ڈاکٹروں، نرسوں اور شعبہ صحت سے وابستہ لوگوں اور ماہرین کے پاس ہونا چاہیئے۔ تمام مادی، انسانی اور مالی وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے ویکسین کی فراہمی کے عمل کو تیز کر دینا چاہیئے۔ ویکسین بنانے کے سارے متعلقہ کارخانوں میں ریاستی مداخلت کر کے اور بڑی دوا ساز کمپنیوں کو قومیاتے ہوئے ویکسین کی پیداوار کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔کم از کم لیبر پارٹی اور ٹریڈ یونینوں کو متحد ہو کر مندرجہ ذیل مطالبات کے گرد بڑے پیمانے کی کمپئین چلانی چاہیئے:1۔ شعبہ صحت کے تمام موجودہ وسائل کو حالیہ تباہی سے بچنے کے لیے استعمال کیا جائے۔ تمام نجی ہسپتالوں اور شعبہ جات کو عوامی اختیار میں دیا جائے۔ آؤٹ سورسنگ اور نجکاری کے تمام اقدامات کو واپس لیا جائے۔2۔ عملے کی کمی سے نمٹنے کے لیے شعبہ صحت کی یونینوں اور مقامی کونسلوں سمیت ریٹائرڈ ڈاکٹروں اور نرسوں کو بڑے پیمانے پر رضاکاروں کی بھرتیوں اور تربیت کی ذمہ داری دی جائے۔ شعبہ صحت کے تمام محنت کشوں کی تنخواہوں میں اضافے اور بہتر انتظامات کی جدوجہد کی جانب بڑھا جائے، تاکہ این ایچ ایس کو ترک کرنے کے عمل کو روکا جا سکے، اور ان کی واپسی ممکن بنائی جا سکے جو ماضی میں چھوڑ چکے ہیں۔3۔ وباء کے ذریعے منافع خوری نا منظور! بڑی دوا ساز کمپنیوں کو قومی ملکیت میں لیا جائے۔ امداد کے باہمی گروہوں، مقامی سماجی تنظیموں اور مزدور تحریک کے ذریعے کام کیا جائے تاکہ وائرس کی تشخیص اور ویکسین کے عمل میں زیادہ سے زیادہ شرکت یقینی بنائی جا سکے۔4۔ لاک ڈاؤن کو حقیقی طور پر نافذ کیا جائے۔ تعمیراتی اداروں اور پرچون کی دکانوں سمیت ان تمام غیر ضروری کاروباروں کو بند کیا جائے جنہوں نے اپنے آپ کو مکاری سے ضروری نوعیت کے شعبوں میں شامل کیا ہے۔ جن اداروں کو کھلا رکھنے کی ضرورت ہو، وہاں پر محنت کشوں کی کمیٹیاں تشکیل دی جائیں اور تمام ضروری وسائل اور اقدامات کے ذریعے ان کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے۔5۔ رخصت پر بھیجے گئے تمام محنت کشوں کو پوری تنخواہیں دی جائیں۔ ان سارے چھوٹے کاروباروں کو مالی امداد فراہم کرتے ہوئے کرائے اور ٹیکس کو روکا جائے جن کو بند رکھنا ضروری ہو۔ مگر بڑے کاروباروں کو بیل آؤٹ نہ دیا جائے اور ان کو جمع شدہ منافعوں میں سے محنت کشوں کی تنخواہیں ادا کرنے کا کہا جائے۔ بڑی اجارہ داریوں کو ریاستی امداد دینے کی بجائے قومیا لیا جائے تاکہ روزگار اور صنعتوں کو بچایا جا سکے۔6۔ جب تک تعلیمی ادارے کھلنے کے لیے محفوظ نہ ہوں اور اساتذہ کی یونین ان کو کھولنے پر راضی نہ ہو، تب تک آن لائن تعلیم کے سلسلے کو جاری رکھا جائے۔ اگر بچوں کی دیکھ بھال کی وجہ سے والدین کو کام پر جانے کی فرصت نہیں ملتی تو انہیں پوری تنخواہوں سمیت رخصت دی جائے۔ لیپ ٹاپ اور انٹرنیٹ کے بہتر کنیکشن مہیا کرتے ہوئے تمام طلبہ کی آن لائن تعلیم تک رسائی یقینی بنائی جائے۔ اساتذہ یونینوں کی تجاویز پر عمل کرتے ہوئے طلبہ اور تعلیمی عملے کے لیے بڑے پیمانے پر وائرس کی تشخیص کا انتظام کیا جائے، خالی عمارتوں کو استعمال کرتے ہوئے سماجی فاصلے کو یقینی بنایا جائے، اور ہنگامی طور پر مالی امداد کا انتظام کیا جائے تاکہ مزید اساتذہ اور عملے کو بھرتی کیا جا سکے۔7۔ تعلیم مفت ہونی چاہیئے۔ یونیورسٹی کی فیسوں اور کرائے کا خاتمہ کیا جائے۔ بلاشبہ یہ اعلیٰ تعلیم کو کاروبار بنانے اور یونیورسٹی مالکان کی منافعوں کی لالچ ہی تھی جس کی وجہ سے تعلیمی اداروں میں وائرس پھیل گیا۔ طلبہ کو ایسی رہائش کے لیے پیسے ادا نہیں کرنے چاہئیں جس میں وہ بحفاظت نہیں رہ سکتے، یا اگر رہیں بھی تو وہ کسی قید خانے سے کم نہیں ہوتے۔8۔ گھریلو بے دخلی اور قرضوں کو روکا جائے۔ بڑے ہوٹلوں اور ہاسٹلوں کے کمروں کو بے گھر اور وائرس سے متاثرہ افراد کو پناہ دینے کے لیے استعمال کیا جائے۔ سردی کے موسم میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے بجلی کے بل میں اضافہ ہوتا ہے۔ بجلی کے بلوں کو روک دیا جائے، بجلی کا بل ادا نہ کرنے کی وجہ سے کنیکشن کاٹنے پر پابندی لگا دی جائے، اور بجلی کے پورے شعبے کو دوبارہ قومی ملکیت میں لیا جائے۔9۔ شعبہ صحت میں بڑے پیمانے کی سرمایہ کاری سمیت مذکورہ تمام اقدامات پر عمل درآمد، 0.1 فیصدی امیر ترین افراد کی دولت کو استعمال کرتے ہوئے کیا جائے۔ وباء کے دوران ملکی (اور عالمی) ارب پتیوں کے منافعوں میں کوئی کمی نہیں آئی، بلکہ اضافہ ہوتا رہا ہے۔ کورونا وائرس کے بحران سے نمٹنے کے لیے محنت کشوں اور لاچار افراد کے بجائے انہی کا استحصال کیا جائے۔