برطانیہ: ریفارم پارٹی کیوں مقبول ہو رہی ہے؟ Share Tweetفاراج کی ریفارم برطانیہ (Reform UK) پارٹی نے حالیہ رائے شماریوں میں لیبر اور ٹوری پارٹیوں پر سبقت حاصل کر لی ہے۔ لیفٹ میں کچھ کا دعویٰ ہے کہ ریفارم کی بڑھتی مقبولیت کی وجہ برطانوی محنت کشوں میں بڑھتی نسل پرستی اور انتہائی دائیں بازو کی پسندیدگی ہے۔ لیکن اس رائٹ ونگ پاپولزم کے ابھار کی حقیقی وجہ کیا ہے؟[Source]انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریںتازہ رائے شماریوں کے مطابق ریفارم برطانیہ پارٹی نے 26 فیصد برتری کے ساتھ ووٹروں میں سبقت حاصل کر لی ہے۔ کنزرویٹیو اور لیبر پارٹیاں 23 فیصد اور 22 فیصد پر کھڑی ہیں۔اقتدار میں محض آٹھ مہینوں بعد لیبر پارٹی کی حمایت میں تاریخی گراوٹ واقع ہوئی ہے۔کیئر سٹارمر کی مقبولیت بھی گر چکی ہے، حکومت کے آغاز میں مثبت 28 فیصد (61 فیصد مقبولیت، 33 فیصد غیر مقبولیت) سے حیران کن طور پر منفی 32 (30 فیصد مقبولیت، 62 فیصد غیر مقبولیت)۔پچھلے عام انتخابات میں ریفارم پارٹی کو 14 فیصد ووٹ اور چار نشستیں حاصل ہوئیں۔ اس کے برعکس آج رائے شماریاں بتا رہی ہیں کہ ریفارم پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل کر سکتی ہے، 650 نشستوں میں سے 209نشستیں حاصل کر کے۔لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ریفارم پارٹی مقبول عام ہے۔ کیئر سٹارمر کی طرح نائجل فاراج کی منفی 25 فیصد مقبولیت ہے۔ اس کو قبول کرنے والوں کے مقابلے میں ناپسند کرنے والوں کی تعداد دگنی ہے۔کئی افراد ریفارم کی اس لیے حمایت کر رہے ہیں کیونکہ اس میں انہیں اسٹیبلشمنٹ کا رد نظر آتا ہے۔ لیکن اس سے زیادہ تعداد ان افراد کی ہے جو فاراج اور ریفارم سے شدید نفرت کرتے ہیں۔درحقیقت آبادی کی ایک بھاری اکثریت ریفارم، ٹوریز، سٹارمر کی لیبر پارٹی اور تمام سرمایہ دارانہ سیاسی پارٹیوں سے نفرت کرتی ہے۔البتہ ریفارم کا ابھار قابل ذکر ہے اور اس کا درست تجزیہ لازم ہے۔ لیکن یہ کام پورے عمل کے ایک یا دوسرے پہلو کے برعکس پوری تصویر کو دیکھ کر ہی کیا جا سکتا ہے۔یہ ایک طرف کا سیاسی جھکاؤ نہیں ہے بلکہ ایک ڈرامائی پولرائزیشن ہے جو لیفٹ اور رائٹ دونوں کے درمیان جھول رہی ہے۔یہ درست ہے کہ فاراج اور اس کے مختلف رجعتی مظاہر ایک دہائی سے زیادہ برطانوی سیاست پر مسلسل اثر انداز ہو رہے ہیں۔ لیکن اس دوران ہم نے سکاٹ لینڈ کی آزادی کے لیے دیو ہیکل تحریک، کوربن تحریک، 2022-23ء کی ہڑتالی لہر اور حالیہ دیوہیکل فلسطین یکجہتی تحریکیں بھی دیکھی ہیں۔ان تمام مظاہر میں سب سے اہم مشترک قدر سٹیٹس کو سے بے تحاشا نفرت ہے، سماج کی ریڈیکل تبدیلی کی خواہش یہاں تک کہ اس کی جانب شدید ہیجان کا اظہار ہے۔آج برطانیہ میں اس موڈ کا سب سے بڑا اظہار فاراج اور ریفارم برطانیہ پارٹی کی شکل میں رائٹ ونگ پاپولزم ابھرنا ہے۔ لیکن ایسا ہمیشہ نہیں رہے گا۔پوری صورتحال طبقاتی جدوجہد سے حاملہ ہے اور اس کے نتیجے میں محنت کشوں اور نوجوانوں کا شعور تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔پاپولزم اور ’رجائیت پسندی‘اگر آج کی سیاسی پولرائزیشن کو دیکھیں تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ 2008ء کا مالیاتی بحران ایک اہم سنگ میل تھا۔نیو لیبر حکومت نے بینکوں کو دیوالیہ ہونے سے بچایا۔ اس عمل میں فنانس سٹہ بازوں اور منڈی کے جواریوں کے نقصانات کو قومیا لیا گیا۔ پس پھر سماجی جبری کٹوتیوں کا عہد شروع ہو گیا۔2010ء سے اگلے چودہ سال تک ٹوریز سماجی اخراجات میں خوفناک کٹوتیاں کرتے رہے جس میں کرپشن اور اقرباء پروری کا راج رہا، غلاظت اور اسکینڈلوں کے چرچے ہوئے۔ لیکن کوئی ایک عمل برطانوی سرمایہ داری کو بحال نہیں کر سکا۔اس کے برعکس مالکان مسلسل محنت کشوں سے منافعے کا آخری قطرہ تک نچوڑ رہے ہیں جس کا ہتھیار کام کے بدترین ہوتے حالات، روزگار کے بدترین معاہدے اور اجرتوں میں افراط زر سے کم اضافہ ہے۔اس دوران بجلی کے بِل، پانی کا بل اور ٹرانسپورٹ کے اخراجات آسمان کو چھو رہے ہیں کیونکہ نجی منافع خوروں کی بدانتظامی اور بدمعاشی عروج پر ہے۔ رہائش کے کرائے 80 فیصد سے زیادہ ہو چکے ہیں، کونسل ٹیکس بڑھ چکے ہیں اور مقامی سہولیات کا گلا گھونٹا جا چکا ہے۔حکمران طبقے اور اس کے نمائندوں نے محنت کش طبقے کو پچھلی ڈیڑھ دہائی سے اس جہنم میں تباہ و برباد کر رکھا ہے۔اس پورے عہد میں سیاست، میڈیا اور اکیڈمیا میں مغرور خود ساختہ ’رجائیت پسند‘ مسلسل محنت کشوں اور خاص طور پر سفید فام مردوں کو بتا رہے ہیں کہ درحقیقت وہ مراعت یافتہ ہیں!یہ خواتین و حضرات ڈھٹائی سے مہنگائی کے بوجھ تلے دبے محنت کش خاندانوں کو سمجھا رہے ہیں کہ انہیں ماحولیات کا ’خیال‘ رکھتے ہوئے اپنے اخراجات کو اور بھی کم کرنا ہے!شرمناک طور پر اس اخلاقی بکواس اور لبرل (ووک) شخصی سیاست کو زیادہ تر نام نہاد ’لیفٹ‘ نے حرفِ آخر بنا لیا ہے۔ حالیہ سالوں میں کوئی بھی قابل ذکر حقیقی طبقاتی متبادل موجود نہیں رہا اور محنت کش تحریک کے قائدین گونگے بہرے بنے بیٹھے ہیں۔اس مکمل سیاسی خلاء میں یہ کوئی حادثہ نہیں ہے کہ رائٹ ونگ پاپولسٹ اور بھڑک باز سیاستدان محنت کشوں کے غم و غصے اور مایوسی کو اپنی جانب مبذول کر رہے ہیں۔”تمہارے حالات مالیاتی اور ثقافتی حوالے سے برباد ہو چکے ہیں۔ اجرتیں منجمد ہیں، ہمیں رہائشی بحران کا سامنا ہے، ہماری نوجوان نسل پراپرٹی بنانے کی تگ و دو کر رہی ہے، جرم مسلسل بڑھ رہا ہے، بجلی کے بِل یورپ میں مہنگے ترین ہو چکے ہیں، NHS کام نہیں کر رہی، قانونی اور غیر قانونی ہجرت تاریخی سطح پر ہے اور ووک نظریات (Woke Ideology) نے ہمارے قومی اداروں اور اسکولوں کو یرغمال بنا رکھا ہے۔“یہ ریفارم پارٹی کی ویب سائٹ پر نائجل فاراج کے الفاظ ہیں جو کروڑوں محنت کشوں کے جذبات کی ترجمانی کر رہے ہیں کہ، ”برطانیہ برباد ہو چکا ہے“ اور ہم پر ”بیگانہ سیاسی طبقہ حاکم ہے“ جو عام افراد کو درپیش حقیقی مسائل حل کرنے سے قاصر ہے۔رائٹ کی جانب جھکاؤ؟اس کا مطلب یہ ہے کہ برطانوی محنت کش طبقہ ’انتہائی دایاں بازو‘ بن چکا ہے؟اس سوال کو ایک اور طرح سے دیکھتے ہیں، کیا مندرجہ بالا بات اس سے زیادہ دائیں طرف ہے جو ٹوری حکومتیں پچھلے دور میں مسلسل مسلط کرتی رہی ہیں؟ کیا یہ اس سے بھی زیادہ دائیں طرف ہے جو اِس وقت سٹارمر کی لیبر پارٹی محنت کشوں پر مسلط کر رہی ہے؟ٹوری اور لیبر پارٹیاں مسلسل بڑے کاروباریوں کے جوتے چاٹتی رہتی ہیں۔ اس میں وہ مسلسل باریاں لیتے ہیں تاکہ محنت کشوں کا معیارِ زندگی برباد کیا جائے اور برطانوی سامراج کے بیرونی جرائم کی حمایت جاری رہے۔ وہ مسلسل اس دنیا کو برباد کر رہے ہیں، تارکین وطن کو ملک بدر کر رہے ہیں اور سماج کو تقسیم در تقسیم کر رہے ہیں۔ریفارم برطانیہ پارٹی کو ’انتہائی دایاں‘ بازو کہنے کا مطلب ہے کہ وہ اس نفرت زدہ سرمایہ دارانہ اسٹیبلشمنٹ سے زیادہ بری ہے جو دہائیوں سے محنت کشوں پر حملے کر رہی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ٹوریز اور سٹارمر کی لیبر پارٹی، جنہوں نے محنت کشوں، غرباء اور کمزور کو تباہ و برباد کرنے والے ہیں، کسی طرح ’کم تر برائی‘ ہیں۔’انتہائی دائیں‘ بازو کا لیبل ویسے ہی گمراہ کن ہے جب ان محنت کشوں کا ذکر ہو جو ریفارم پارٹی کی جانب اس لیے راغب ہو رہے ہیں تاکہ اسٹیبلشمنٹ کا منہ توڑا جا سکے۔درحقیقت زیادہ تر افراد شعوری طور پر اپنے آپ کو ’رائٹ ونگ‘ یا ’لیفٹ ونگ‘ نہیں سمجھتے۔ زیادہ تر محنت کش اپنا دن سیاست پر مغز ماری کرتے نہیں گزارتے اور انتخابات میں ایک مکمل سیاسی پروگرام مرتب کر کے حصہ نہیں لیتے۔ظاہر ہے فاراج اور ریفارم پارٹی کی باتوں سے غیر ملکیوں سے نفرت اور نسل پرستی کی غلیظ تعفن زدہ بو آتی ہے۔ لیکن مالیاتی مسائل، استحصالی کام کے حالات، غیر معیاری رہائش، تباہ حال عوامی سہولیات اور محنت کشوں کو درپیش افراط زر ’انتہائی دائیں‘ بازو کی لفاظی نہیں ہے۔عوام کی اکثریت پُرتضاد خیالات اور خواہشات کا مجموعہ رکھتی ہے۔ کچھ میں سطحی تعصب موجود ہو گا جس کی بنیاد جزوی طور پر حکمران طبقے اور اس کے حواریوں کی جانب سے سماج میں پھیلایا ہوا زہریلا پروپیگنڈہ ہوتا ہے۔ لیکن اسی عوام کے اندر امیر ترین افراد، ارب پتیوں اور ان کے گھٹیا انسان دشمن نظام کے خلاف کھولتا ہوا غم و غصہ موجود ہے۔پچھلے عام انتخابات میں منعقد ہونے والی ایک رائے شماری کے مطابق ریفارم برطانیہ پارٹی کے لیے ووٹ دینے کا ارادہ کرنے والے افراد میں سے 87 فیصد لوگ برطانیہ میں پانی کے نظام کو دوبارہ قومیانے کے حق میں تھے۔ 77 فیصد ریلوے کو دوبارہ قومیانے کے حق میں تھے۔ 75 فیصد کا کہنا تھا کہ بجلی بنانے والی کمپنیوں کو دوبارہ قومیانا چاہیے۔ 30 فیصد نے تو بینکاری نظام کو قومیانے کی بھی حمایت کی۔پھر 73 فیصد ووٹروں کا خیال تھا کہ محنت کش طبقے کو قومی دولت میں جائز حصہ نہیں مل رہا ہے۔ 74 فیصد کا خیال تھا کہ کاروبار عام عوام کا استحصال کر رہے ہیں۔ 78 فیصد کے مطابق امراء کو غیر قانونی اقدامات کرنے کی چھوٹ ہوتی ہے جبکہ غرباء کو نہیں۔یہ اعداد و شمار عمومی عوامی جذبات سے تقریباً مطابقت میں ہیں۔ اس لیے یہاں پھر سوال ہو گا کہ کیا ریفارم پارٹی کی حمایت میں اضافے کا مطلب رائٹ وِنگ کی جانب عوامی جھکاؤ ہے؟کیا محنت کش نسل پرست ہیں؟ریفارم برطانیہ پارٹی کے لیے بھاری حمایت زیادہ پیسے والوں یا درمیانے طبقے سے ہے، یعنی سماج کی نامیاتی رجعتی پرتوں سے۔ریفارم پارٹی کے بیشتر ووٹرز ماضی میں ٹوری پارٹی کی رائٹ ونگ حمایت بنانے والے تھے۔ حالیہ رائے شماریوں کے مطابق پچھلے انتخابات میں کنزرویٹیو پارٹی کی حمایت کرنے والوں میں سے 16 فیصد آج ریفارم پارٹی کی حمایت کر رہے ہیں۔لیکن ان سے بھی کئی زیادہ غصے سے بھرے عام محنت کش ہیں جو نظام اور اس کے وفاداروں سے نفرت کرتے ہیں۔یقینا تارکین وطن اور بین الثقافتی سوالات ریفارم پارٹی کے ایک عام حامی کے لیے محنت کشوں کی اکثریت سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔لیکن یہ خیالات آسمان سے نہیں اترتے۔ اخباروں کا سرسری جائزہ کافی ہے کہ سماج میں یہ تعفن زدہ غلاظت بالائی سطحوں سے نیچے منتقل کی جاتی ہے۔ تارکین وطن کو مورد الزام ٹھہرانا اور اسلام نفرت، اسٹیبلشمنٹ اور سرمایہ دارانہ میڈیا کا محبوب مشغلہ ہیں۔ ٹوری اور لیبر پارٹی، دونوں کی نسل پرستانہ نفرت پھیلانے کی طویل روایت ہے۔یہ واضح ہے کہ تارکین وطن سوال پر حکمران طبقہ دانستہ طور پر کئی سالوں سے تناؤ اور خوف و ہراس پھیلا رہا ہے۔جب بھی بیروزگاری، رہائش اور سروسز کا سوال اٹھتا ہے تو سرمایہ دار اور ان کے حواری فوراً الزام تراشی شروع کر دیتے ہیں۔ جب بھی عوام کی حقیقی مجرموں، دہشت گردوں اور سماجی جونکوں یعنی مالکان، بینکار اور ان کے ویسٹ منسٹر میں بیٹھے بھائی بندوں سے توجہ ہٹانا مقصد ہو تو تارکین وطن اور مہاجرین بہترین نشانہ ہیں۔لیفٹ اور لیبر تحریک کی جانب سے ایک واضح طبقاتی حل کی عدم موجودگی میں میدان موقع پرست بھڑک بازوں کے لیے کھلا پڑا ہے جہاں وہ ہر قسم کے کنفیوژن اور غصے کو ہوا دیتے رہتے ہیں۔محنت کشوں کی بھاری اکثریت متعصب نہیں ہے۔ محنت کشوں کی عوامی تنظیموں کی جانب سے ایک واضح لڑاکا پروگرام کی بنیاد پر ہر قسم کی سطحی نسل پرستی بخارات بن کر اڑ جائے گی۔کوربن اور اس کے لیفٹ ونگ پروگرام کی 2017ء میں عوامی مقبولیت اور حمایت اور 2022-23ء میں لڑاکا صنعتی سرگرمیوں کے لیے عوامی حمایت نے واضح کر دیا تھا کہ اگر لیبر تحریک ایک جرأت مند طبقاتی بنیاد پیش کرے تو اسے فوراً عوامی حمایت حاصل ہو سکتی ہے۔حقیقی دشمن یعنی سرمایہ داروں کے خلاف عملی جدوجہد ہی محنت کشوں میں طبقاتی اتحاد پیدا کر سکتی ہے۔ اس کے برعکس ہر قسم کا تعصب اور امتیاز تحریک کو تقسیم کر دیتا ہے۔حتمی تجزیے میں نسل پرستی اور جھنڈے لہرانے سے بِل ادا نہیں ہوتے۔ مالکان کے حملوں کے خلاف رد عمل کسی بھی قسم کی تقسیم کو پھاڑ کر محنت کشوں کو طبقاتی بنیاتوں پر متحد کر سکتا ہے۔ محنت کش تحریک کے قائدین کا یہی فرض ہے کہ وہ ایک لڑاکا جدوجہد کے لیے جرأت مند سوشلسٹ پالیسیوں پر مبنی پروگرام پیش کریں تاکہ سرمایہ داری کی بند گلی سے باہر نکلا جا سکے۔انقلابی قیادتبدقسمتی سے ایسی لڑاکا قیادت کہیں بھی نظر نہیں آ رہی۔ایک لڑاکا طبقاتی تناظر اور پروگرام پیش کرنے کے برعکس ’لیفٹ‘ قیادت اور ٹریڈ یونینز عام طور پر نام نہاد ’فاشزم کے ابھار‘ کا ڈھنڈورا پیٹتے رہتے ہیں۔ لیبر پارٹی کے عوامی کٹوتی کے پروگرام کو چیلنج کرنے کے برعکس یہ ’قائدین‘ سٹارمر اور اس کے حواریوں کی حمایت کرنے کا ناٹک کرتے ہیں، لبرل اسٹیبلشمنٹ کا سہارا لیتے ہیں اور اس لیے ایک درست آزاد طبقاتی متبادل دینے میں ناکام رہتے ہیں۔اس کے نتیجے میں، یہ ’بائیں بازوں والے‘ نائجل فاراج جیسے رائٹ ونگ پاپولسٹوں کا آلہ کار بن جاتے ہیں اور یہ موقع پرست رجعتی پریشان حال محنت کشوں کے مسیحا بن جاتے ہیں۔ابھی کہنا بہت مشکل ہے کہ آیا ریفارم پارٹی کا ابھار ایسے ہی جاری رہے گا، کیا اگلے انتخابات میں فاراج کوئی فیصلہ کن کردار ادا کرے گا۔ ہم یقین سے یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ اقتدار کا ایک دور ان تمام شاطر دھوکے بازوں کا چہرہ ننگا کر دے گا اور ان کے اسٹیبلشمنٹ مخالف ریاکار، کمزور اور پُرتضاد اتحاد کی حمایت کا شیرازہ بکھر جائے گا۔سٹارمر اور اس سے پہلے ٹوریز کی طرح کوئی بھی رائٹ ونگ پاپولسٹ حکومت برطانیہ اور دنیا کے دیوہیکل سرمایہ دارانہ بحران میں برسر اقتدار ہو گی۔ فاراج اور ریفارم پارٹی عوامی اخراجات میں زیادہ سے زیادہ کٹوتیاں کرنے پر مجبور ہوں گے۔ بینک امیر سے امیر تر ہوتے جائیں گے جبکہ محنت کشوں کے حالاتِ زندگی مسلسل تباہ و برباد ہوتے رہیں گے۔اس کے نتیجے میں محنت کشوں میں نفرت اور دھوکے کا موڈ مزید شدت اختیار کرے گا۔ شعور میں مزید زلزلے آئیں گے جس کے نتیجے میں سیاسی پولرائزیشن اور ریڈیکلائزیشن مزید بڑھے گی اور لیفٹ کی جانب دیوہیکل جھکاؤ جنم لے گا۔محنت کش اپنے مسائل خود حل کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ طبقاتی مطالبات اور جدوجہد کا طریقہ کار منظر نامے پر نمودار ہو گا۔ عوامی احتجاج، ہڑتالیں اور سماجی دھماکے معمول بنیں گے۔ انقلابی تحریکیں پورا سماج جھنجھوڑ کر رکھ دیں گی۔لیکن ان تمام امکانات کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے پہلے ایک انقلابی پارٹی کی تعمیر درکار ہے، ایک ایسی قوت جو محنت کشوں کے غم و غصے کو بحران زدہ سرمایہ داری کے خاتمے کی طرف گامزن کرتے ہوئے اس کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کر دے۔