برطانیہ: سماجی دھماکوں کے خوف سے ریاست لرزاں Share Tweetمہنگائی اور دیگر معاشی حملوں سے بھرپور دہائی کے بعد آنے والی وباء نے عوام کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے، جو محنت کشوں اور نوجوانوں کے کندھوں پر رکھے بوجھ میں دن بہ دن اضافہ کر رہی ہے۔ سماج پھٹنے کے لیے تیار ہو چکا ہے۔ ہمیں اس توانائی کو سوشلسٹ جدوجہد کے راستے پر گامزن کرنا پڑے گا۔[Source]انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریںحالیہ عرصے میں برطانیہ کے اندر سماجی ہلچل کے حوالے سے بار بار شدید تنبیہات دی جا چکی ہیں۔ یہ کوئی حیرت انگیز بات نہیں ہے۔ ہم ایک شدید طوفان سے گزر رہے ہیں اور سرمایہ داری صدیوں کے سب سے گہرے ترین بحران کا شکار ہے۔اس کا ساتھ کورونا وباء اور بریگزٹ کی آفت نے دیا ہے، جس نے سب کچھ گویا پہاڑ کے کنارے پر لا کھڑا کر دیا ہے۔ برطانوی سرمایہ داری کو ایک کے بعد دوسرے دھچکے کا سامنا ہے، جس سے محنت کش طبقہ خصوصی طور پر متاثر ہوا ہے، جن کو سارا بوجھ اٹھانے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔دباؤ میں اضافہنوجوان طوفانی بھنور کے بیچ پھنسے ہوئے ہیں۔ کچھ عرصے تک سکولوں کی بندش، نوجوانوں کے مراکز کی بندش، کیمپسز کے قید خانوں میں تبدیل ہو جانے، کم اجرتی غیر مستقل کام اور بے روزگاری میں اضافے کی وجہ سے انہیں اس بحران نے سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔نوجوانوں نے ہمیشہ سے سماج کے بیرومیٹر کا کردار ادا کیا ہے۔ آج کی صورتحال بھی کچھ مختلف نہیں ہے، حالیہ برسوں میں نوجوان بارہا سڑکوں پر نکلے ہیں؛ چاہے طلبہ کے ماحولیاتی تبدیلیوں کے خلاف احتجاج ہوں، یا بلیک لائیوز میٹر تحریک، یا پھر پچھلے موسمِ گرما میں اے لیول کے نتائج کے خلاف ہونے والے احتجاج۔ریاست کے مختلف عناصر اس حوالے سے خبردار ہو رہے ہیں۔ مثال کے طور پر یارک کے آرک بشپ سمیت مانچسٹر اور لیڈز کے بشپس کی جانب سے ٹوری حکومت کو ایک انتباہ جاری کیا گیا، جس میں ”بے اطمینانی اور انتشار“ کے خطرات کے حوالے سے خبردار کیا گیا۔یارک کے آرک بشپ سٹیون کاٹریل نے کہا کہ کورونا بحران کے سماجی اثرات آخری تجزیے میں خود وائرس سے ”زیادہ خطرناک اور عدم استحکام لانے والے“ ہوں گے۔اس دوران ویسٹ مڈلینڈ کے پولیس اور کرائم کمشنر (پی سی سی) ڈیوڈ جیمیسن، جو انگلستان کی بڑی فورسز میں دوسرے نمبر پر ہے، نے اس بات پر زور دیا کہ وباء ”تشدد کے لیے بنیادیں فراہم کر رہی ہے“۔جیمیسن نے کہا کہ ”میرے خیال میں ہمیں ایک سونامی کا سامنا ہے، جسے فی الوقت تو ہم نے روکا ہوا ہے۔ اگر ہم عارضی طور پر برطرف کیے گئے لوگوں کے مسائل پر بات نہیں کریں گے، جن کو اپنے مستقبل سے کوئی امید نہیں ہے، تو ہم خطرے میں پڑ جائیں گے۔ میرے خیال میں آخرکار اس کا نتیجہ کسی نہ کسی قسم کے سماجی انتشار کی صورت میں ہی نکلے گا۔“نظام کا قصورہم ایک خوفناک گھن چکر میں پھنس چکے ہیں، جہاں ہر ہفتے لوگوں کو کام سے برطرف کیا جاتا ہے۔ جن کے پاس کام ہے، وہ بھی دباؤ کا شکار ہیں، کیونکہ مالکان کی جانب سے بحران کا بوجھ ان کے کندھوں پر منتقل کیا جاتا ہے۔ نتیجتاً سب سے زیادہ کمزور اور غیر محفوظ وہی ہوتے ہیں جو سب سے زیادہ تکلیف اٹھاتے ہیں۔نوجوانوں کیلئے سارے دروازے بند کر کے پھر ان پر الزام لگایا جاتا ہے کہ ان کا رویہ سماجی بے زاری (اینٹی سوشل) پر مبنی ہے۔ ٹوری سیاستدان اور دائیں بازو کے تجزیہ نگار سخت تر پالیسیوں اور قوانین کے نفاذ کا مطالبہ کرتے نظر آتے ہیں۔ مگر نوجوانوں سے ان کا مستقبل چھین کر اور کس چیز کی توقع کی جا سکتی ہے؟ان میں سے بعض کو کہا جاتا ہے کہ وہ روزگار حاصل کرنے کے لائق نہیں رہیں گے اور ساری زندگی محض بے روزگاری، غیر مستقل کام اور عدم تحفظ کا شکار رہیں گے۔ اگلی نسل کو سرمایہ داری اس کے علاوہ اور کچھ دینے کے قابل بھی نہیں ہے۔ہمیں اس بات کا علم ہونا چاہیئے کہ سارا قصور اسی نظام کا ہے۔ در حقیقت یہ تو حیرانی کی بات ہے کہ لوگ اب بھی سماج سے اتنا زیادہ بے زاری کا اظہار نہیں کر رہے جتنا کہ کرنا بنتا ہے۔مشکلاتاعداد و شمار کے مطابق نومبر 2020ء تک تین مہینوں کے اندر برطانیہ میں بے روزگاری پچھلے چار سالوں کی نسبت بلند ترین سطح پر موجود ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت کا فرلو سکیم (عارضی برطرفیوں کا منصوبہ)، جس کی وجہ سے لاکھوں لوگوں کی تنخواہیں رُکی ہوئی ہیں، اپریل میں ختم کر دیا جائے گا، جس کی وجہ سے مشکلات میں بے پناہ اضافہ ہوگا۔آفس فار بجٹ رسپانسی بلٹی کے مطابق فرلو سکیم ختم ہو جانے کے بعد اس سال کے اواخر میں بے روزگاری 7.5 فیصد تک بڑھنے کا امکان ہے، جو 26 لاکھ لوگ بنتے ہیں۔ مگر بحران کے شدید ہونے کے ساتھ اس تعداد میں کافی اضافہ ہو سکتا ہے۔مشکلات کے اوپر مزید مشکلات آتی جا رہی ہیں اور نجات کا کوئی راستہ دکھائی نہیں دے رہا۔ اب ٹوریز کا کہنا ہے کہ یونیورسل کریڈٹ (کم اجرت پر کام کرنے والے اور بے روزگاروں کو دی جانے والی امداد) میں ہفتہ وار 20 پاؤنڈ کی کٹوتی کی جائے گی، جس کی وجہ سے گھرانوں کو مزید غربت اور قرضوں میں دکھیل دیا جائے گا۔بڑھتا ہوا غصّہبہت سے لوگوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے کو ہے۔ مگر ان کا غصّہ نیا نہیں ہے۔ اس کے برعکس ریاست کے خلاف نفرت پچھلے کچھ عرصے سے پروان چڑھ رہی ہے۔ حکمران اشرافیہ کو ایک الگ طبقے کے طور پر دیکھا جاتا ہے جو کہ بالکل صحیح ہے؛ ایک ایسا مراعات یافتہ طبقہ جسے کوئی چھو نہیں سکتا۔یہ خیال سماج میں بڑھتے ہوئے عمومی غصّے کا ہی تسلسل ہے جو سرمایہ دار سیاستدانوں، خونخوار بینکاروں اور عوام کو بے دردی کے ساتھ لوٹنے والے مالکان کے خلاف پایا جاتا ہے۔ بورس جانسن کی جانب سے ’قومی اتحاد‘ کی کوششیں ناکام ہو چکی ہیں اور سماج میں بڑے پیمانے پر سرمایہ داروں کے خلاف جذبات پائے جاتے ہیں۔ رائے عامہ پر کیے جانے والے سرویز چاہے جو بھی کہیں، عدم اطمینان بڑی تعداد میں موجود ہے اور مزید بڑھتا جا رہا ہے۔برمنگھم سے تعلق رکھنے والے ایک سماجی کارکن ڈیسمنڈ جڈو نے کہا کہ ”سماج میں بڑے پیمانے پر عدم اعتماد کا مسئلہ موجود ہے؛ لوگوں کی ایک بڑی تعداد حکومت اور پولیس پر اعتماد نہیں کرتی۔ کورونا وباء کے بعد محض یہی ہوا ہے کہ پہلے سے موجود مسئلے میں مزید شدت آئی ہے۔“قربانیاںاس سارے عمل سے ایک سماجی دھماکہ تیار ہو رہا ہے۔ اکثر اوقات حکومت کے کہنے پر لوگ بڑی قربانیاں دینے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں، مگر ایسا تب ہی ہوتا ہے جب کسی مشترکہ مفاد کی خاطر قربانیاں درکار ہوں۔ وباء کے پھیلاؤ کو کم کرنے کے لیے عام لوگوں نے مہینوں سے خود کو گھروں میں قید کیا ہوا ہے۔ لاکھوں لوگ اپنے اخراجات میں کمی کر رہے ہیں۔ این ایچ ایس (سرکاری شعبہ صحت) کا عملہ اور دیگر ضروری نوعیت کے کاموں سے وابستہ محنت کش بہادرانہ کردار ادا کر رہے ہیں۔مگر اس کے باوجود اعلیٰ افسران، جیسا کہ ڈومینیک کمنگز، نے لاک ڈاؤن کی پابندیوں کی خلاف ورزی کی ہے۔ حکومتی وزراء نے لاپرواہی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بارہا معیشت کو دوبارہ کھولنے کی کوششیں کی ہیں۔ اور ٹوری پارٹی سے ملحقہ لوگوں نے آؤٹ سورسنگ کے ذریعے اپنی دولت میں بے پناہ اضافہ کیا ہے۔سٹارمر اور لیبر پارٹی کی قیادت اس ماحول کا فائدہ اٹھانے کی بجائے ریاست کے سامنے گھٹنے ٹیک رہے ہیں۔ ان کا مقصد بس یہی رہ گیا ہے کہ خود کو ریاست سے بھی بڑھ کر ریاست کے طور پر پیش کریں۔ وہ مزید گرفتاریاں کرنے اور سڑکوں پر مزید پولیس کو تعینات کرنے کی حمایت کر رہے ہیں۔ ان حرکتوں کی وجہ سے اس بے چینی میں مزید اضافہ ہوگا جو سطح کے نیچے پنپ رہی ہے۔سوشلزم ہماری زندگی میںہر روز سرمایہ داری کی بوسیدگی زیادہ سے زیادہ واضح ہوتی جا رہی ہے۔پولیس افسران، چرچ کے قائدین اور دیگر ریاستی اہلکاروں کی جانب سے دی جانے والی سماجی انتشار کی تنبیہات بحران کی نشاندہی کر رہی ہیں؛ یہ سماج میں بڑھتی بے چینی کی عکاس ہیں۔سرمایہ دارانہ نظام کو ٹھیک کرنے کی کوشش بے کار ہے کیونکہ یہ ناقابلِ مرمت ہو چکا ہے۔ بلاشبہ ہم ہر ممکنہ اصلاح کے لیے لڑیں گے، مگر ہمیں لازمی طور پر ان کو سماج کی تبدیلی کی جدوجہد کے ساتھ منسلک کرنا پڑے گا۔ موجودہ صورتحال ایک واضح سوشلسٹ پروگرام اور بے باک سوشلسٹ قیادت کی متقاضی ہے۔ہمارا فریضہ یہ ہونا چاہیئے کہ لیبر پارٹی اور ٹریڈ یونین تحریک کو اسی قسم کے پروگرام اور قیادت سے لیس کریں، اور نوجوانوں کو اسی زندگی میں سوشلزم لانے کا پیغام دے کر اس جدوجہد میں شامل کریں۔لینن نے لکھا تھا کہ ”جس کے پاس نوجوان ہیں، مستقبل اسی کا ہے“۔ بہت سے نوجوان انتہا پسند اور حتیٰ کہ انقلابی نتائج پر پہنچ رہے ہیں۔ ہمیں پورے جوش و خروش کے ساتھ اس نئی نسل کو اس مقصد کے لیے جیتنا پڑے گا؛ سرمایہ داری کا تختہ الٹ کر سماج کو سوشلسٹ طرز پر تبدیل کرنے کا مقصد۔اس معرکے کیلئے مارکسزم سائنسی سمجھ بوجھ، وضاحت اور تناظر فراہم کرتا ہے، اور ایسے انقلابی نظریات فراہم کرتا ہے جو کہ عملی جدوجہد کیلئے مشعل راہ ہیں۔