برطانیہ: ریل مزدوروں کا ملک گیر ہڑتال کرنے کا فیصلہ Share Tweetریلوے ملازمین نے ملازمتوں اور حفاظت کے لیے ہڑتال کے حق میں بھاری اکثریت سے ووٹ دیا ہے۔ جبکہ، ٹوری پارٹی یونین مخالف قوانین کو پر فیصلہ کن حملہ کرنے کی تیاری میں ہے۔ ٹریڈ یونین تحریک کو لڑاکا اور متحدہ جدوجہد کے ساتھ جواب دینا ہوگا۔[Source]انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریںریل، میری ٹائم، اور ٹرانسپورٹ (آر ایم ٹی) یونین ملکی سطح پر ہونے والے انتخاب میں کامیاب رہیں۔ 71 فیصد ٹرن آؤٹ پر 89 فیصد نے ہڑتال کے حق میں ووٹ دیا۔ اس سے ہزاروں ریل کارکنوں کوبرسوں میں ملک کی سب سے بڑی ہڑتال کا مینڈیٹ ملے گا۔ اور ہر جگہ ملازمین کومالکان اور ٹوریز کے خلاف کارروائی کرنے کا حوصلہ ملے گا۔کٹوتیاںیونین برطانیہ کی ریلوے میں 2 ارب یورو مالیت کی کٹوتیوں کے خلاف لڑ رہی ہے۔ اس کے نتیجے میں آسمان کو چھوتی مہنگائی میں ریلوے ملازمین کی تنخواہوں کے منجمد ہونے کے ساتھ ساتھ ہزاروں ملازمتوں میں کٹوتیاں کی جائیں گی۔ جبکہ نیٹ ورک ریل اور ٹرین آپریٹنگ کمپنیوں کے منافعے مسلسل بڑھ رہے ہیں جن کا حالیہ برسوں میں بالترتیب 174 ملین اور 329 ملین یورو منافع ریکارڈ کیا گیا ہے۔آر ایم ٹی کا تنازعہ حفاظت پر ہے۔ بہت سی مجوزہ ملازمتیں جن میں کٹوتی کی جائے گی وہ حفاظتی لحاظ سے اہم ہیں۔ لہٰذا یہ ’ٹوری کٹوتیاں‘، ملازمین اور مسافروں کی حفاظت کے لیے یکساں خطرناک ہیں۔دھمکیاںانتخابات کے اس نتیجے نے واضح طور پر حکومت کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ٹوری ٹرانسپورٹ منسٹر گرانٹ شیپس، وزیر اعظم بورس جانسن اور چانسلر رشی سنک سے ملاقات کرنے والے ہیں تاکہ اس بات پر تبادلہ خیال کیا جا سکے کہ حکومت کیا جواب دے گی۔صنعتی کارروائی کے حق میں ووٹ کی توقع کرتے ہوئے ٹوریز نے پہلے ہی اشارہ دے دیا ہے کہ وہ ریل ہڑتالوں کو مؤثر طریقے سے غیر قانونی بنانے کے لیے اقدامات کریں گے۔22 مئی کو شیپس نے سنڈے ٹیلی گراف کو بتایا کہ حکومت ایسے قوانین کو منظور کرنے پر غور کر رہی ہے جو ریلوے پر سروس کی کم از کم ضروریات کی قانون سازی کریں گے۔ٹوریز کے منشور میں انتخابی حق کا وعدہ شامل ہے۔ مگر دراصل اس طرح کے اقدام کا مطلب یہ ہوگا کہ ریل عملے کی کم از کم تعداد کو ریلوے روٹس کو جاری رکھنے پر مجبور کیا جائے گا یعنی ہڑتال پر پابندی۔پہلے ہی برطانیہ میں یورپ کے سب سے سخت ترین ٹریڈ یونین مخالف قوانین موجود ہیں اور یہ اقدام ملازمین کے حقوق کو مزید محدود کرنے میں ایک سنگین اضافہ ہیں۔اس دھمکی سے شاپس اور اس کے ساتھی ٹوریز واضح طور پر آر ایم ٹی اور درحقیقت پوری ٹریڈ یونین تحریک کو گرانے اور ان کو سبق سکھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔مزاحمتآر ایم ٹی کے رہنماؤں نے ان دھمکیوں کا جواب مزاحمت سے دیا ہے۔ جنرل سیکرٹری مک لنچ نے کہا کہ ”گرانٹ شاپس کی طرف سے ریلوے میں مؤثر ہڑتال کو غیر قانونی بنانے کی کسی بھی کوشش کو آر ایم ٹی اور وسیع تر ٹریڈ یونین تحریک کی طرف سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔“دیگر یونین رہنماؤں نے بھی یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔ یونائٹ کی جنرل سیکرٹری شیرون گراہم نے قابل ستائش طور پر یہ بیان دیا ہے کہ اس کی یونین ہرطریقے سے ہڑتال کے حق پر حملوں کا پرزور مقابلہ کرے گی۔گراہم نے مزید کہا کہ ”اب ہم حکومت کو نوٹس دینے پر مجبور ہیں۔ اگر آپ ہماری جائز سرگرمیوں کو قانون سے باہر نکالنے پر زور دیں گے تو پھر ہم سے قوانین کے مطابق چلنے کی توقع بھی نہ کریں۔“ٹریڈ یونین لیڈروں کی جانب سے آنے والا ردعمل قابل ستائش ہے۔یکجہتیآر ایم ٹی نے انتخابات کے نتائج تو حاصل کر لیے ہیں، اب انہیں اپنی جدوجہد میں وسیع تر تحریک سے یکجہتی کی ضرورت ہوگی۔ یونین رہنماؤں کو اب اپنے جراتمندانہ الفاظ کو عمل میں بھی ثابت کرنا ہوگا۔ ایک کا دکھ، سب کا دکھ ہے۔آر ایم ٹی کو دھمکانے کے بعد اب دوسرے ملازمین کے خلاف بھی اسی طرح کے اقدامات لیے جا رہے ہیں۔ مثال کے طور پر، وزیر تعلیم نا دھم زہاوی نے ’ایمپلائمنٹ ریلیشنز ایکٹ‘کو دوبارہ لکھنے کی تجویز دی ہے جس کا خاص مقصد ٹیچنگ یونینوں کے اختیارات کو محدود کرنا ہے۔تجویز یہ ہے کہ تدریسی عملے کی مالکوں کے ساتھ ملاقاتوں میں یونین نمائندوں کے بجائے وکلاء موجود ہوں گے۔ اس کا مقصد ’این ای یو‘ جیسی ایجوکیشن یونینز کے اثر و رسوخ کو کم کرنا ہے۔یہ دیکھتے ہوئے کہ این ای یو نے حال ہی میں اپنی قومی کانفرنس میں ہونے والے انتخابات میں تنخواہوں میں کم از کم 8 فیصد اضافے کی مہم چلانے کے حق میں ووٹ دیا ہے، یونین پر مزید ٹوری حملوں کی توقع کی جا سکتی ہے۔لڑائیبے شک آنے والے سال میں ارب پتیوں کی اس حکومت اور ان کے بڑے کاروباری ساتھیوں اورمنظم محنت کش طبقے کے مابین مسلسل جھڑپیں دیکھنے کو ملیں گی۔دیگر یونینیں بھی ملک گیرسطح پر لڑائیوں کی تیاری کر رہی ہیں۔اسی ہفتے ’پبلک اینڈ کمرشل سروسز یونین‘ نے اپنی سالانہ کانفرنس میں پنشن اور تنخواہوں میں حکومتی کٹوتیوں کے خلاف ملک گیر سطح پر تحریک چلانے کے حق میں ووٹ دیا ہے تاکہ حکومت کے ساتھ لڑائی کا آغازکیا جائے، جس میں ستمبرمیں ’صنعتی کارروائی‘ کے لیے الیکشن کرانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔یہ اس سال کے شروع میں ایک اشاراتی بیلیٹ کے بعد ہوا ہے، جہاں پی سی ایس کے 80 فیصد اراکین نے ہڑتال کی حمایت کی تھی۔اور آج، کمیونی کیشن ورکرز یونین، حقیقی تنخواہ میں اضافے کے مطالبے کے لیے بی ٹی گروپ کے اراکین کے درمیان ملکی سطح کے الیکشن کے لیے اپنا ٹائم ٹیبل پیش کر رہی ہے۔کمیونی کیشن ورکرز یونین، جس کے 2 لاکھ سے زیادہ ممبران ہیں، رائل میل کے ملازمین کو بھی متحرک کر رہی ہے۔ جس کے لیے اس ہفتے ’ورک پلیس میٹنگز‘ ہو رہی ہیں، تاکہ تنخواہ کے لیے رائل میل کے مالکان کے خلاف ممکنہ لڑائی کی تیاری کی جا سکے۔”ہمارے اراکین شیر ہیں، اور اگر آپ شیر کو چھیڑیں گے تو وہ حملہ کرے گا“، سی ڈبلیو یو کے ڈپٹی جنرل سیکرٹری برائے پوسٹل سیکٹر ٹری پلنجر نے خبردار کیا۔حملےروزمرہ کے اخراجات کا بحران بدستور شدت اختیارکررہا ہے، توانائی کی قیمتوں میں اضافے سے موسم خزاں تک افراط زر 10 فیصد تک پہنچ جائے گا۔ اس کے برعکس سرمایہ دار طبقہ زبردست منافع ریکارڈ کر رہا ہے۔برطانیہ اور بین الاقوامی سطح پرمحنت کش طبقے کو ہر طرف سے تیزی سے نیچے دھکیلا جا رہا ہے۔ساتھ ہی کرپشن اور بدعنوانی پر مبنی ٹوری حکومت ہمیں ’اپنی کمر کسنے (بچت)‘ کی ضرورت پر لیکچر دے رہی ہے، اورعام محنت کش کو بتا رہی ہے کہ اس بحران میں ان کی مدد کے لیے ’کچھ نہیں کیا جا سکتا‘۔اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ محنت کش مالکان کی جانب سے نوکریوں اورتنخواہوں پرحملوں کے خلاف اور تنخواہوں میں حقیقی اضافے کے لیے اپنی ٹریڈ یونینوں کا رُخ کر رہے ہیں۔ٹوریز اور سرمایہ دارانہ اسٹیبلشمنٹ، جس کی وہ نمائندگی کرتے ہیں، یہ سب دیکھ رہے ہیں۔ اس لیے ان کے یونین مخالف حملے زور پکڑ رہے ہیں۔روایاتٹریڈ یونین رہنماؤں کو یہ ثابت کرنا چاہیے کہ دنیا کے تمام ٹریڈ یونین مخالف قوانین محنت کش طبقے کو پیچھے نہیں ہٹا سکتے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس رجعتی قانون سازی جو مالکوں کے منافع کے تحفظ کے لیے بنائی گئی ہے، کے خلاف ملازمین کو منظم اور متحرک کیا جائے۔جیسا کہ شیرون گراہم نے کہا، یونین تحریک کو سرمایہ داروں کے اصولوں کے مطابق نہیں چلنا چاہیے۔برطانیہ میں محنت کش طبقے کے پاس ایسے قوانین کی خلاف ورزی کرنے کی ایک قابل فخر روایت موجود ہے، جیسے ’پاپلر بغاوت‘ کے رہنما جارج لینسبری نے کہا تھا کہ ”قانون کو توڑنا غریب کو توڑنے سے بہتر ہے“۔ایسی لڑاکا روایات کو دوبارہ زندہ کرنا ہوگا۔پی اینڈ او میں ’نوکریوں کا قتل عام‘ اور ’فائر اینڈ ریہائر‘ کی بے شمار مثالیں ان حملوں کی محرک ہیں جس کا ہر صنعت اور شعبے کے ملازمین آنے والے مہینوں اور سالوں میں سامنا کر سکتے ہیں۔مالکان نے دکھایا ہے کے وہ اپنے منافعوں کے دفاع کے لیے ہر حد تک جانے کو تیار ہیں۔ منظم محنت کش طبقے کو بھی اپنی زندگی اور معاش کے دفاع کے لیے اسی طرح کے لڑاکا اقدامات کرنے چاہئیں۔ ہمیں آگ کا مقابلہ آگ سے کرنا ہوگا۔سوشلزمچاہے وہ واقف ہوں یا نہ ہوں، ٹریڈ یونین لیڈروں کے کندھوں پر ایک تاریخی ذمہ داری ہے۔ انہیں متحدہ مزاحمت کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ٹی یو سی 18 جون کو ”بہتر مطالبے“ اور ”ملازمین کے لیے ایک نئی ڈیل“ کے لیے ایک ملک گیر مظاہرے کے لیے متحرک ہو رہی ہے۔یہ ایک وسیع تر لڑائی کا ابتدائی وار ہونا چاہیے۔ محنت کش طبقے کے لیے درکار ’نئی ڈیل‘ عوام کو درپیش مسائل کے حل کے لیے ایک جرات مندانہ سوشلسٹ پروگرام ہے۔اس میں ٹرانسپورٹ سسٹم، توانائی کی اجارہ داریوں، اور بڑے بینکوں کی بغیر کسی معاوضے کے نیشنلائیزیشن کا مطالبہ شامل ہونا چاہیئے جن کو سوشلسٹ اقتصادی منصوبے کے تحت مزدوروں کے جمہوری کنٹرول میں دیا جائے گا۔پوری یونین تحریک میں مربوط، متحدہ لڑائی کی تیاری کی جانی چاہیے اور اس پروگرام کے لیے جدوجہد کا آغاز کرنا چاہیے: بوسیدہ ٹوری حکومت کو گرانا؛ سرمایہ داری کا خاتمہ اور محنت کش طبقے کو اقتدار میں لانا۔اگر موجودہ صورت حال کو عظیم روسی انقلابی لیون ٹراٹسکی کی نظر سے دیکھا جائے تو، اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ وہ وقت قریب ہے جب برطانیہ میں محنت کش طبقہ، بورس جانسن، اس کے آقا، اور ظالم اور غدار سرمایہ دار طبقے کے خلاف جنگ لڑے گا۔ اس آنے والے عظیم طوفانی بجلی کی پہلی کڑک ابھی سے سنی جا سکتی ہے۔