بنگلہ دیش: کنٹینر ڈپو میں آگ لگنے سے درجنوں افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی

4 جون 2022ء بروز ہفتہ بنگلہ دیش کے چٹاگانگ ڈسٹرکٹ میں ڈچ-بنگالی ملکیت میں BM Inland Container Depot میں ایک بڑے دھماکے بعد آگ لگ گئی جس میں 49 افراد شہید اور تقریباً 300 زخمی ہو گئے۔ ابھی تفصیلات آ رہی ہیں لیکن یہ واضح ہو رہا ہے کہ مالکان کے منافعوں کے لیے مرنے والے محنت کشوں کے لاتعداد واقعات میں ایک اور کا اضافہ ہو چکا ہے۔

[Source]

جس رات ڈپو میں آگ لگی اس وقت وہاں 3 ہزار کنٹینر موجود تھے جن میں سے 33 میں ہائیڈروجن پیرآکسائیڈ گیس تھی۔ لیکن کنٹینروں پر درست لیبل نہیں لگائے گئے اور فائر فائٹرز کو اس حوالے سے کوئی معلومات فراہم نہیں کی گئیں۔ فائر سروس اینڈ سول ڈیفنس (FSCD) کے ڈائریکٹر محمد رضاالکریم نے بتایا کہ ”جب آگ لگی تو ہمیں بتایا گیا کہ ڈپو میں صرف تیار شدہ کپڑے ہیں۔ اگر ہمارے فائر فائٹرز کو پتہ ہوتا کہ یہاں کیمیائی مواد بھی موجود ہے تو وہ زیادہ بہتر تیاری کر لیتے“۔

کنٹینروں کے حوالے سے غلط معلومات کی بنیاد پر فائر فائٹرز آگ کو جھاگ کے برعکس پانی سے بجھانے کی کوشش کرتے رہے۔ نتیجتاً کیمیائی مواد سے لبریز کنٹینر یکے بعد دیگرے پھٹنا شروع ہو گئے اور ایک دیوہیکل دھماکہ ہوا۔ دھماکہ اتنا خوفناک تھا کہ قریب کی عمارات کے شیشے چکنا چور ہو گئے اور کئی کلومیٹر دور تک اس کا جھٹکا محسوس کیا گیا۔

شروع میں 26 فائر فائٹرز آگ بجھانے کے لئے پہنچے۔ ان میں سے تین شہید ہو چکے ہیں، تین غائب ہیں اور 14 شدید زخمی حالت میں ہسپتال میں داخل ہیں۔ ڈھاکہ ٹریبون کی ایک رپورٹ میں ہولناک منظر کشی کی گئی ہے کہ ”جسم کے اعضاء بکھرے پڑے ہیں، چہرے جھلس چکے ہیں اور ہاتھ پیر ڈراؤنا خواب بنے ہوئے ہیں“۔

زاہدالاسلام چٹاگانگ یونیورسٹی کا ایک طالب علم ہے جس نے متاثرین کے لئے خون کا عطیہ دیا۔ اس نے بتایا کہ کتنے زخمی درد سے چلا رہے تھے کیونکہ ان کے اعضاء ضائع ہو چکے تھے۔ ”ہر پانچ منٹ بعد ایمبولینس آ رہی تھیں۔ ایمرجنسی کھچا کھچ بھری ہوئی تھی۔ کوئی ایک بستر خالی نہیں تھا۔ جو جگہ خالی ملی ڈاکٹر وہاں علاج کر رہے تھے“۔

علاقائی چیف ڈاکٹر الیاس چودھری نے میڈیا کو بتایا کہ 49 اموات ہوئی ہیں لیکن ان میں اضافہ ہو گا کیونکہ 20 افراد کے جسم 60 سے 90 فیصدجل چکے ہیں اور ان کی حالت انتہائی نازک ہے۔ زخمیوں کو علاقے کے مختلف ہسپتالوں میں پہنچا دیا گیا ہے اور تمام ڈاکٹروں کی چھٹیاں منسوخ کر دی گئیں ہیں۔

اگرچہ اس سانحے کی تفصیلات مسلسل آ رہی ہیں لیکن یہ واضح ہے کہ ایک مرتبہ پھر سرمایہ دار طبقے کی سفاک لالچ اور منافعوں کی بھوک کا نتیجہ ہولناک موت بنا ہے۔ ڈپو پر کام کرنے والے محنت کش جو آگ اور دھماکے کے نتیجے میں زخمی ہوئے اب صحت یاب ہو رہے ہیں، اور صحافیوں کو بتا رہے ہیں کہ کس قدر خوفناک ماحول میں انہیں کام کرنا پڑتا ہے۔ بارہ گھنٹے کی شفٹیں معمول ہیں جبکہ ہفتے کے دن جب شفٹ تبدیل ہوتی ہے تو عام طور پر محنت کشوں کو ڈبل شفٹ کام کرنا پڑتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں جس رات یہ سانحہ رونما ہوا اس رات کئی محنت کش 24 گھنٹوں سے کام پر لگے ہوئے تھے!

بنگلہ دیش عالمی سرمائے کے ننگے استحصال اور لوٹ مار کا گڑھ ہے۔ بدمعاش حکمرانوں کو عام عوام کی زندگیوں اور حالات کام میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔

اس کا نتیجہ بنگلہ دیش کی حالیہ تاریخ میں سانحوں کی ایک طویل فہرست بن چکا ہے جس میں یہ کنٹینروں میں لگنے والی آگ ایک نیا سانحہ ہے۔ پچھلے بیس سالوں میں آگ لگنے کے 26 واقعات میں 2 ہزار سے زائد محنت کش شہید ہو چکے ہیں۔ پچھلے سال بنگلہ دیش کی ایک فیکٹری میں آگ لگنے کے نتیجے میں جبری مشقت کے شکار بچے جھلس کر شہید ہو گئے تھے۔ 2013ء میں رانا پلازہ کے انہدام میں 1 ہزار 100 ٹیکسٹائل محنت کش شہید ہو گئے تھے۔ یہ واقعہ بنگلہ دیش کی تاریخ کا سب سے المناک واقعہ تھا جس میں آج تک انصاف نہیں ہوا۔ عوام میں یہ تاثر عام ہے کہ چوروں اور ٹھگوں کی اس حکومت میں ان سانحوں کے مجرم سرمایہ دار کبھی بھی کیفر کردار تک نہیں پہنچیں گے۔

ان واقعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ عام محنت کشوں کی اس ملک میں کیا حالت زار ہے۔ یہ واقعات واضح طور پر کارل مارکس کے ان الفاظ کو سچا ثابت کرتے ہیں کہ ”سرمایہ سر سے لے کر پاؤں تک جسم کے پور پور سے خون اور مٹی میں لتھڑے ٹپکتا ہے“۔

ایک طرف سرمایہ داری میں بنگلہ دیش کے محنت کش خون اور تباہی و بربادی میں ڈوب رہے ہیں تو دوسری طرف امراء دیو ہیکل لوٹ مار، ڈاکوں اور منافعوں میں نہا رہے ہیں۔ نیو یارک میں موجود تحقیقی ادارے ویلتھ ایکس کی رپورٹ کے مطابق 2010 تا 2019ء کے دوران بنگلہ دیش میں امراء کی تعداد میں تیز تر تاریخی اضافہ ہوا (امیر کی تشریح یہ ہے کہ ایک ایسا شخص جس کی دولت 50 لاکھ ڈالر سے زیادہ ہو) جو پوری دنیا میں سب سے بڑا ریکارڈ ہے۔ رپورٹ کے مطابق ”پچھلے دس سالوں میں 50 لاکھ ڈالر یا اس سے زیادہ مالیت والے افراد کی شرح میں 14.3 فیصد اضافہ ہوا ہے“۔

یہ سب محنت کش طبقے کے ہولناک استحصال کے ذریعے ہی ممکن ہوا ہے جن کی اُجرت دنیا میں کم ترین میں سے ایک ہے، دل دہلا دینے والے کام کے حالات ہیں اور ٹریڈ یونین کا کوئی حق نہیں ہے۔ خواتین محنت کشوں کا سب سے زیادہ استحصال ہوتا ہے اور وہ تہہ خانوں اور پسماندہ علاقوں میں ساری عمر گزارنے پر مجبور ہوتی ہیں۔ کام کی جگہوں پر حفاظتی سامان اور دیگر حفاظتی اقدامات ناپید ہیں۔ سرمایہ داروں کے لئے محنت کشوں کی زندگیوں سے زیادہ حفاظتی اقدامات پر چونیاں (Pennies) بچانا اہم ہے۔

بنگلہ دیش میں حکمران طبقے نے ٹریڈ یونین حقوق کچل کر رکھ دیے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود محنت کش سڑکوں پر افراطِ زر، منجمد اجرتوں اور ہولناک اوقات کام کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔

محنت کشوں اور نوجوانوں کو کسی قدغن کے بغیر ٹریڈ یونین قیام کے حق کے لئے ہر ممکن جدوجہد کرنا ہو گی۔ محنت کش طبقے کی منظم قوت ہی اجرتوں اور کام کے حالات میں بہتری کی جدوجہد کر سکتی ہے۔

بنگلہ دیش کے سیاسی، معاشی اور سماجی حالات اور بڑھتے ہوئے سانحات محنت کش طبقے اور نوجوانوں کے شعور پر انمول اثرات مرتب کر رہے ہیں۔ بنگلہ دیش میں طبقاتی جدوجہد کے دھماکے کے لئے حالات پک کر تیار ہو رہے ہیں۔ بنگلہ دیش میں محنت کش تحریک اور نوجوانوں کو ایک انقلابی پروگرام اور تناظر سے لیس کرنے کے لئے ایک انقلابی مارکسی تنظیم کی تعمیر وقت کی اہم ترین ضرورت بن چکی ہے۔