کارل مارکس کے ناقابلِ شکست نظریات Urdu Share Tweetنجانے کتنی مرتبہ ہم نے یونیورسٹی پروفیسروں، ماہرینِ معاشیات، سیاست دانوں اور صحافیوں کو یہ دعویٰ کرتے سنا ہے کہ مارکس غلط تھا اوراگرچہ اسے سرمایہ داری کے متعلق تھوڑا بہت علم ضرور تھا لیکن وہ سرمایہ دارانہ نظام کی توانائی اور اسکے بحرانات سے نکل کر ہمیشہ آگے بڑھنے صلاحیت کو سمجھنے میں ناکام ہو گیا تھا۔ لیکن گزشتہ چند برسوں کے دوران جب یہ نظام تاریخ کے بد ترین بحران میں دھنستا چلا جا رہا ہے تو وقتاً فوقتاً ’ماہرین‘ یہ کہتے پائے جارہے ہیں کہ مارکس درست تھا۔ اس کی تازہ ترین مثال جریدہ ٹائم میں 25 مارچ 2013ء کو چھپنے والا ایک مضمون ہے جس کا عنوان ہے ’مارکس کا انتقام:طبقاتی جدوجہد کے ہاتھوں بدلتی دنیا‘۔پہلے تین پیروں کے شروعاتی جملے کچھ یوں ہیں کہ ’’کارل مارکس کب کا مر کر دفن ہو چکا۔ ۔ ۔ لیکن یہ ہماری خام خیالی تھی۔ ۔ ۔ بڑھتے ہوئے شواہد ثابت کر رہے ہیں کہ شاید وہ درست تھا۔‘‘ پہلے پیرے میں لکھا ہے کہ مارکس کو مردہ اور مدفون تصور کیا جاتا تھا اور اس کی وجہ :سوویت یونین کا انہدام، طبقاتی جدوجہد کی شدت میں کمی، عالمی تجارت کا پھیلاؤ، ایشیا میں معاشی عروج وغیرہ وغیرہ۔لیکن دوسرے پیرے میں اس نظام کو لاحق اس طویل بحران کو بیان کیا گیا ہے جو غربت اور بے روزگاری میں اضافے کے ساتھ اجرتوں میں کمی کا باعث بن رہا ہے۔ اس کے ساتھ مارکس کی تحریر نقل کی گئی ہے کہ’’ایک جانب دولت کا ارتکاز درحقیقت عین اسی وقت دوسری جانب بدحالی، مشقت کی اذیت، غلامی، جہالت، ظلم اور ذہنی پسماندگی کا ارتکاز ہے‘‘۔مصنف لکھتا ہے کہ ’’1983ء اور2007ء کے دوران امریکہ میں دولت میں ہونے والے اضافے کا 74 فیصد امیر ترین 5 فیصد کے حصے میں آیا جبکہ غریب ترین 60 فیصد کے پاس جو کچھ تھا اس میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔ ۔ ۔‘‘یہ تسلیم کرنے کے بعد کہ ابھی تک سب کچھ مارکس کے درست ہونے کی نشان دہی کر رہا ہے، مصنف حسب روایت لکھتا ہے کہ ’’ا س کا یہ مطلب نہیں کہ مارکس مکمل طور پر درست تھا۔ اس کی پیش کردہ ’پرولتاریہ کی آمریت ٹھیک طور سے نہیں چل سکی۔ ‘‘ واضح طور پر یہ سوویت یونین کے انہدام کی طرف اشارہ ہے اور ایسا اس امید پر کیا گیا ہے کہ لوگ مارکس کو زیادہ سنجیدہ نہیں لیں گے۔یہ لوگوں کو مارکسزم سے ڈرانے کا پرانا طریقہ ہے۔ لوگوں کو احساس دلایا جاتا ہے اگرچہ مارکس نے سرمایہ داری کے تضادات کا ایک دلچسپ تجزیہ تو کر لیا لیکن وہ کوئی حقیقی اور قابلِ عمل متبادل پیش نہیں کر سکا اور اس لیے ہمیں اپنی قسمت پر صبر شکر کرتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام میں ہی گزارہ کرنا ہو گا۔لیکن یہ صحافی اس حقیقت قصداً نظر انداز کرتے ہیں کہ سوویت یونین میں رائج نظام کمیونزم نہیں تھا۔ مارکس نے کبھی بھی ایسے سوشلزم کی بات نہیں کی تھی جو کہ ایک ملک تک محدود ہو اور وہ بھی 1917ء کے روس جیسا پسماندہ اور غیر ترقی یافتہ ملک۔ انقلابِ روس کی قیادت کرنے والی بالشویک پارٹی کو تعمیر کرنے والے رہنما لینن نے بھی کبھی ایسا نہ سوچا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے کمیونسٹ انٹرنیشنل کی تعمیر میں اپنی تمام تر توانائی ٖصرف کی اور جرمنی کے انقلاب سے اتنی بڑی امیدیں وابستہ کیں۔’’ایک ملک میں شوشلزم‘‘ کا نظریہ پیش کرنے والا سٹالن تھا جس نے اس معاملے پر مارکسزم کے تمام بنیادی نظریات سے انحراف کیا۔ سوویت یونین میں ہونے والے عمل کے بارے میں ٹراٹسکی نے بہت لکھا ہے، خصوصاً اس کی عظیم کتاب ’انقلاب سے غداری‘ میں ایک صحت مند مزدور انقلاب کے طور پرشروع ہونے والے انقلابِ روس کی وحشیانہ سٹالنسٹ حکومت میں زوال پذیری کی معروضی وجوحات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ نصاب کی کتابوں اور میڈیا میں یہ سب نہیں بتایا جاتا۔ سٹالن کے اقتدار کے سوویت یونین کو مارکس کے نظریات کا نا گزیر انجام بنا کر پیش کرنا بہت کار آمد ہے تا کہ نئی اور آنے والی نسلیں مارکس کی تحاریر کو پڑھنے کی جانب نہ جائیں۔ لیکن سرمایہ دار طبقے اور ان کے حواریوں کی بدقسمتی یہ ہے کہ آج شدید بحران کے ہاتھوں محنت کشوں اور نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد ایک متبادل کی جستجو میں ہے۔وہ جو چاہے کہتے رہیں، آج مارکس کے نظریات ماضی کی کئی دہائیوں کی نسبت کہیں زیادہ شدت کے ساتھ لوٹ کر آ رہے ہیں۔ اس کی وجہ عالمی پیمانے پر طبقاتی جدو جہد کا احیا ہے۔ ٹائم میگزین کے مضمون میں لکھا ہے کہ ’’اس بڑھتی ہوئی نا برابری کا نتیجہ مارکس کی پیش بندی کے عین مطابق ہے، یعنی طبقاتی جدوجہد کی واپسی۔ ساری دنیا کے محنت کشوں کا غصہ بڑھ رہا ہے اور وہ عالمی معیشت میں اپنے جائز حصے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ امریکی کانگریس کے ایوان سے لے کر ایتھنز کی سڑکوں اور جنوبی چین کی پیداواری صنعتوں تک، سرماے اور محنت کے درمیان کشیدگی سیاسی اور معاشی واقعات کا تعین کر رہی ہے اور اس کی شدت کی مثال بیسویں صدی کے کمیونسٹ انقلابات کے بعد نہیں ملتی۔‘‘اس مضمون میں بڑے دلچسپ انداز میں ذکر کیا گیا ہے کہ امریکہ میں اوباما اور ری پبلیکنز کے درمیان جاری لفاظی میں بھی طبقاتی تضاد کا اظہار ہوتا ہے اور اس بات پر بحث ہورہی ہے کہ بحران کی قیمت کس طبقے سے کس قدر وصول کی جائے۔ جب بھی اوباما امریکی سماج کے دولت مند حصوں پر ٹیکس بڑھانے کی بات کرتا ہے تو ری پبلکن اس پر طبقاتی جنگ کرنے کا الزام لگاتے ہیں جبکہ وہ خودمحنت کشوں اور غریبوں کے خلاف طبقاتی جنگ میں مصروف ہیں۔لیکن طبقاتی جدوجہد بحران زدہ امریکہ اور یورپ تک محدود نہیں۔ مصنف لکھتا ہے کہ جن ممالک میں حالیہ برسوں کے دوران قابلِ ذکر ترقی ہوئی ہے وہاں بھی طبقاتی جدوجہد میں اضافہ ہو رہا ہے اور اس کی بڑی مثال چین ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ ’’اگرچہ چین کے شہروں میں اجرتوں میں بڑا اضافہ ہو رہا ہے لیکن امیر اور غریب کا فرق بہت وسیع ہے۔ پیو (Pew) کی جانب سے کیے گئے ایک سروے میں تقریباً آدھے چینیوں کے خیال میں امیر اور غریب میں فرق بہت بڑا مسئلہ ہے، جبکہ 10 میں سے 8 افراد اس بات سے متفق ہیں کہ چین میں امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہو رہے ہیں۔‘‘یہ مارکسسٹوں کے لیے قطعاً حیران کن نہیں ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ سرمایہ داری کے اندر معیشت کی ترقی سماج میں محنت کش طبقے کے کردار کو مظبوط بناتی ہے اور دولت کی غیر منصفانہ تقسیم ناگزیر طور پر طبقاتی تناؤ کو جنم دیتی ہے، اگرچہ معاشی عروج ہی کیوں نہ ہو۔ اس کی مثال ہمیں ماضی میں یورپ میں ملتی ہے جہاں عالمی جنگ کے بعد کے معاشی عروج کے دوران فرانس میں 1968ء اور اٹلی میں 1969ء میں طبقاتی جدوجہد کی تحریکیں پھٹ پڑیں۔مضمون کے مطابق ایک چینی محنت کش پینگ مِن کہتا ہے ’’باہر کے لوگوں کو ہماری زندگی میں بہت فراوانی نظر آتی ہے، لیکن در حقیقت کارخانے کے اندر زندگی اس سے بہت مختلف ہے۔ ۔ ۔ امیر محنت کشوں کا استحصال کر کے دولت کما رہے ہیں۔ ۔ ۔ ہم کمیونزم کی راہ دیکھ رہے ہیں۔ ۔ ۔ محنت کش مزید منظم ہوں گے۔ ۔ ۔ تمام محنت کشوں کو متحد ہونا چاہیے۔‘‘امریکہ سے لے کر چین اور سپین سے لے کر یونان سمیت دیگر کئی ممالک میں طبقات کے درمیان بڑھتی ہوئی کشمکش کا ایک جائزہ پیش کرنے کے بعد مصنف نتیجہ نکالتا ہے کہ ’’ہم دیکھ سکتے ہیں کہ مستقبل کی بہتری کے مخدوش امکانات کی وجہ سے دنیا بھر کے محنت کشوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے۔ میڈرِڈ اور ایتھنز جیسے شہروں میں لاکھوں افراد نے آسمان سے باتیں کرتی بے روزگاری اور حالات کو مزید بگاڑنے والی کٹوتیوں کے اقدامات کے خلاف مظاہرے کیے ہیں۔‘‘اس کے بعد وہ اس مضمون کو پڑھنے والے سرمایہ داروں کو تسلی دینے کے لیے لکھتا ہے کہ ’’لیکن ابھی تک مارکس کے انقلاب نے عملی جامہ نہیں پہنا۔ ‘‘ اس بات پر ہم متفق ہو سکتے ہیں۔ ابھی تک سوشلسٹ انقلاب نہیں آیا۔ لیکن مصنف کو امید ہے کہ ایسا کبھی ہو گا بھی نہیں۔ اس بات سے ہم اتفاق نہیں کر سکتے۔مصنف محنت کشوں کو اس انداز میں پیش کر نے کی کوشش کر رہا ہے کہ وہ نظام کی تبدیلی نہیں چاہتے بلکہ اس میں اصلاحات کے خواہاں ہیں۔ اس کا م کے لیے وہ یونیورسٹی آف پیرس کے نام نہاد ’’ماہرِ مارکسزم‘‘ یاک رانسیئے کا سہارا لیتا ہے۔ رانسیئے ان یونیورسٹی پروفیسروں میں سے ہے جوخود کو ترقی پسند ظاہر کرتے ہیں لیکن در حقیقت ہر وقت مارکسزم کے بنیادی نظریات کو جھٹلا رہے ہوتے ہیں۔ مثلاً جب وہ کہتا ہے کہ ’’مظاہرے کرتے ہوئے طبقات موجودہ سماجی و معاشی نظام کا تختہ الٹنے یا اس کی تباہی کا مطالبہ نہیں کر رہے۔ آج طبقاتی جدوجہد کا مطالبہ نظام کو درست کرنے کا ہے تا کہ دولت کی از سر نو تقسیم کر کے اسے طویل مدت کے لیے زیادہ قابلِ عمل اور پائیدار بنایا جا سکے۔ ‘‘پروفیسر رانسیئے کا تجزیہ کہ محنت کش سوشلسٹ انقلاب کا مطالبہ نہیں کر رہے، سرمایہ دارانہ نظام کو قائم رکھنے کے خواہش مندوں کی تسلی کا باعث ہو سکتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ’’لیبر اور سوشلسٹ پارٹیوں اوران کی حکومتوں کی کہیں بھی نئی صف بندی اوران کے ہاتھوں موجودہ معاشی نظام کی تبدیلی کے امکانات بہت ہی محدود ہیں۔ ‘‘اس کے استدلال کی بنیاد ہر جگہ پر مزدور تحریک اور خصوصاً اس کے لیڈروں کی موجودہ کیفیت ہے۔ اگر عالمی محنت کش طبقے کی تحریک کے مستقبل کا انحصار ان ہی لیڈروں پر ہے تو پھر پروفیسر صاحب درست ہیں۔ لیکن سمجھنے کی بات یہ ہے کہ لیڈر ساری زندگی لیڈر نہیں رہتے۔ نظام کا بحران تمام نظریات کا امتحان لے رہا ہے۔ نظام میں اصلاحات کے خیال پر اس نظام کے بند گلی میں پھنس جانے سے سوال اٹھ رہے ہیں۔ اب ماضی کی طرح اصلاحات کی کوئی گنجائش نہیں ہے بلکہ اس کے بر عکس ماضی کی دہائیوں میں طبقاتی جدوجہد کے ذریعے جیتی گئی تمام اصلاحات کو تباہ کیا جا رہا ہے۔ ہر جگہ پر محنت کشوں کو دو نسلوں پہلے کے حالاتِ زندگی میں جھونکا جا رہا ہے۔فرانسیسی پروفیسر کی باتوں سے لگتا ہے کہ انہیں اس بات کی سمجھ نہیں کہ ابتدا میں محنت کش یہ سوچ لے کر نہیں آتے کہ انقلاب ہی واحد راستہ ہے۔ شروعات میں وہ اجرتوں، حالاتِ زندگی اور فلاح و بہبود پر ہونے والے حملوں کے خلاف لڑتے ہیں۔ وہ نظام کے اندر رہتے ہوئے ہی کسی حل کی توقع کر تے ہیں۔ وہ معاشی عروج کے دنوں کی واپسی کا خواب یکھتے ہیں جب اصلاحات ممکن تھیں اور زندگی کچھ قابلِ برداشت لگتی تھی۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ تجربات ان امیدوں کو توڑ ڈالیں گے۔سارے یورپ، امریکہ، عرب، افریقہ اور ایشیا میں بڑے پیمانے کا سیاسی عدم استحکام ہے جس کا اظہار انتخابات میں ہو رہا ہے۔ ایک وقت میں مظبوط رہنے والی پارٹیاں حالات کے دباؤ کے زیرِ اثر برباد ہو چکی ہیں جس کی ایک مثال یونان کی پاسوک (PASOK) پارٹی ہے۔ محنت کش حکومت میں بیٹھ کٹوتی کرنے والی ہر جماعت کے خلاف ووٹ دے رہے ہیں۔ یعنی محنت کش یہ جانتے ہیں کہ وہ کیا نہیں چاہتے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ابھی تک وہ کٹوتیوں کے خلاف لڑائی کے لیے درکار پالیسیوں اور پروگرام کو نہیں جان پائے۔مارکسسٹ ہمیشہ سچی بات کرتے ہیں، تب بھی جب اسے سمجھنا دشوار ہو۔ دنیا بھر کے محنت کشوں اور نوجوانوں کو درپیش مسائل کاسرمایہ دارانہ نظام کے اندر رہتے ہوئے کوئی حل ممکن نہیں ہے۔ جن تک طاقت سرمایہ دار طبقے کے ہاتھ میں ہے وہ اسے اپنی دولت اور مراعات کو بچائے رکھنے کے لیے استعمال کریں گے جس کا بوجھ محنت کش عوام کو اٹھانا پڑے گا۔ اس نظام میں اصلاحات نہیں کی جا سکتیں۔ اسے تبدیل کرنا ہو گا۔ٹائم میگزین کے اس مضمون کا مصنف لکھتا ہے کہ ’’اگر پالیسی ساز منصفانہ معاشی مواقع کو یقینی بنانے کے نئے طریقے دریافت نہیں کرتے تو پھر دنیا بھر کے محنت کش ایک ہو سکتے ہیں۔ مارکس کا انتقام حقیقت بن سکتا ہے۔‘‘ہم سمجھتے ہیں کہ نہ صرف مارکس کامعاشی تجزیہ بلکہ اس سے اخذ کردہ سیاسی نتائج بھی درست تھے۔ نظام کا بحران نا گزیر طور پر دنیا بھر کے محنت کشوں کو انقلابی نتائج اخذ کرنے پر مجبور کرے گا۔ محنت کش طبقے کی بڑی تنظیموں، پارٹیوں اور ٹریڈ یونینوں میں ایک ریڈیکل تبدیلی کی ضرورت ہے۔ ان کی موجودہ قیادت کو امید ہے کہ بحران ختم ہو جائے گا اور جلد یا بدیر وہ پہلے والی کیفیت میں لوٹ جائیں گے جہاں انہوں نے مالکان کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کر رکھے تھے۔ لیکن یہ دیوانے کا خواب ہے!ہمیں کئی برسوں کی کٹوتیوں اور میعارِ زندگی میں شدید گراوٹ کا سامنا ہے۔ یہ سمجھ آنے پر کہ کٹوتیوں کے مختصر عرصے کے بعد یہ بحران جانے والا نہیں اور اس نظام میں کوئی بہتر مستقبل نہیں، محنت کش طبقے کے پاس واحد راستہ اس نظام کا انقلابی طریقے سے خاتمہ ہو گا۔ موجودہ کیفیت اس جانب بڑھ رہی ہے۔ ۔ ۔Translation: The Struggle (Pakistan)