فیصل آباد زرعی یونیورسٹی میں انقلابی کونسل کے بانی منظو رلہری کی برسی Urdu Share TweetUrdu translation of Pakistan: Faisalabad Students Socialist Revolution is our only motto (October 22, 2010)تحریر: اسد رحمٰنچنگاری ڈاٹ کام،13.11.2010انقلابی کونسل کے بانی منطور احمد لہری کی 33ویں برسی بیس اکتوبر 2010کو فیصل آباد ڈسٹرکٹ با ر کونسل ہال میں منائی گئی جس میں زرعی یونیورسٹی سمیت دوسری یونیورسٹیز کے طلبہ نے ایک بڑی تعداد میں شرکت کی۔ مقررین نے اس بات پر زور دیا کہ طلبہ اور خصوصی طور پر عوام کے تمام مسائل صرف اور صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی حل کیے جا سکتے ہیں۔ ہر دور کا ایک عمومی کردار ہوتا ہے اس طرح 1968-69ء کا سال بھی ایک انقلابی کردار کا حامل تھا۔پاکستان پیپلز پارٹی کی طرح انقلابی کونسل کی جڑیں بھی عوام کی اسی انقلابی اٹھا ن میں پیوست ہیں جس میں طلبہ ، مزدور اور کسان اپنے حالات سے تنگ آکر جبراور قہر کی حکومت کے خلاف ایک طبقاتی جنگ میں صف آراء ہو ئے تھے۔ انقلابی کونسل کی بنیاد بھی 1968ء میں اس وقت کے انتہائی پروگریسیو طالب علموں نے رکھی تھی۔ انقلابی کونسل بنیادی طور پر بہت سارے رجحانات کا ایک اکٹھ تھاجو کہ اسلامی جمعیت طلبہ کے خلاف ایک متحدہ پلیٹ فارم پر اکٹھے ہوئے تھے ۔ اس زمانے سے لیکر آج تک انقلابی کونسل ایک روایت کے طور پر زرعی یونیورسٹی میں قائم ودائم ہے۔ انقلابی کونسل کا بنیادی منشور انتہائی ریڈیکل خیالات پر مشتمل تھا جس میں ہر اس طالب علم کو خواہ وہ کسی بھی علاقے ، رنگ، مذہب، نسل اور برادری سے تعلق رکھتا ہو کیلئے کھلی دعوت عام تھی کہ وہ اس میں شامل ہو سکتا تھا ۔اس جماعت کا اصل مقصد طلبہ حقوق کا انتظامیہ اور دوسرے عناصر سے تحفظ تھا جو کہ ہمیشہ طلبہ مفادات کو انفرادی مفادات کی بھینٹ چڑھا دیتے تھے۔ لیکن قومی طور پر انقلاب کے ادھورا رہ جانے کی وجہ سے رد انقلاب کے حملوں نے جہاں ملکی سیاست کو بری طرح متاثر کیا وہاں طلبہ سیاست بھی اپنا دامن نہ بچا سکی اور انقلا بی کونسل بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر مختلف برادریو ں کے دھڑوں میں بٹ گئی اور اپنی اصل شکل برقرار نہ رکھ سکی۔ لیکن چند سال پہلے جیسے جیسے سرمایہ داری کا بحران ہوا اور تعلیمی بجٹ میں کٹوتیاں کی گئیں ویسے ویسے طلبہ میں موجود اضطراب نے اس حبس اور گھٹن کے ماحول اپنے اظہار کی نئی نئی راہیں تلاش کرنا شروع کر دیں اور انقلابی کونسل کو اپنے اصل نظریات کے ساتھ کھڑا کرنے کی کوششیں شروع کر دیں۔ 20اکتوبر کو منائی جانے والی برسی کی صدارت بیگم منظور لہری نے کی جبکہ مہمانِ خصوصی میں محمد اشفاق(بانی ممبر) ، زوہیب بٹ صدرPSFپنجاب،امجدشاہسوارمرکزی چیئرمین JKNSFاور معظم بھٹی انفارمیشن سیکرٹری PSFپنجاب تھے جبکہ اسد الرحمن نے ا سٹیج سیکرٹری کے فرائض سر انجام دیے۔ زرعی یونیورسٹی سے قریباً 500طلبہ نے شرکت کی جبکہ نیشنل ٹیکسٹائل یونیورسٹی اور جی سی یونیورسٹی فیصل آباد سے بھی طلبہ اپنے اپنے وفود کے ساتھ شامل ہوئے۔اسلم معراج نمائندہ لیبر قومی موومنٹ نے بھی تقریب سے خطاب کیا اورطلبہ کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کیا۔ کامریڈ معظم نے کہا کہ طلبہ میں اتنی طاقت اور قوت ہے کہ وہ اس ملک کو ان کرپٹ سیاستدانوں اور بیوروکریٹوں سے بہتر پر چلا سکتے ہیں انہوں نے کہا کہ طلبہ برادری ایک ہے اور ایک کا زخم سب کا زخم تصور کیا جائے گا۔ زرعی یونیورسٹی سے عمر رشید نے تفصیلاً طلبہ تحریک کی تاریخ پر روشنی ڈالی اورمو جودہ حالات میں طلبہ تحریک جو کہ آہستہ آہستہ زور پکڑ رہی ہے کو آپس میں ملانے پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم کسی فرد کے خلاف نہیں بلکہ اس نظام کے خلاف ہیں جہاں تعلیم کا بھی کاروبار کیا جاتا ہے۔ کامریڈ زوہیب بٹ نے ان وجوہات کو بیان کیا جن کے باعث طلبہ سیاست میں تشدد کا آغاز ہوا۔ دوسری طرف انہوں نے اس حقیقت کو بھی آشکار کیا کہ وہ کون سے انقلابی نظریات تھے جن کی PSFنمائندہ ہے اور جن پر انقلابی کونسل کا قیام عمل میں لایا گیا تھااور جن کی بنیاد پر انقلاب کر کے انسانوں کو ایک جبر اور ظلم پر مبنی نظام سے چھٹکارا دلایا جا سکتا ہے۔وہ نظریات سائنسی سوشلزم کے نظریات ہیں اور آج کے اس عہد میں ان نظریات سے لیس ہو کر ہی ہم انقلاب کی طرف اپنا سفر گامزن رکھ سکتے ہیں۔ کامریڈ امجد شاہسوار نے بیان کیا کہ مذہبی بنیادوں پر ہونے والی تقسیم ایک بہت بڑی ناکامی تھی اور آج وقت نے اسے ثابت کر دیا ہے ۔ سرحد کے دونوں طرف بلاکسی تفریق کے نہ تو مسلمان پاکستان میں خوشحال ہیں اور نہ ہی ہندوستان میں ہندو۔ کشمیر کا مسئلہ دونوں ملکوں کی قومیں نہ توحل کر سکتی ہیں اور نہ ہی حل کرنا چاہتی ہیں کیوں کہ اسی کو بنیاد بنا کر دونوں ملکوں کی اشرافیہ اپنے لوگوں کا استحصال جاری رکھے ہوئے ہے۔ ہم طلبہ اس قوم کا مستقبل ہیں اور سائنسی سوشلزم کے نظریات سے مسلح ہو کر ہی ہم ان تمام محرومیوں کا قلع قمع کر سکتے ہیں۔ پروگرام کے اختتام پر ایک پر امن ریلی کا اہتمام کیا گیا اور’ زندہ ہے کونسل زندہ ہے ‘اور ’کالی رات جاوے ہی جاوے ، سرخ سویرا آوے ہی آوے‘ کے نعرے بلند کیے گئے۔یہ 15سال بعد پہلا موقع تھا کہ انقلابی کونسل کے پلیٹ فارم سے ایک سیاسی پروگرام منعقد کیا گیا تھا۔ طلبہ کا ردِ عمل انتہائی پر جوش اور اطمینان بخش تھا ۔یہ پر جوش حمایت دراصل طلبہ کی تبدیلی کی خواہش کا ما دی اظہار ہے جو کہ طلبہ کے رویے سے عیاں تھی۔ PSF اور JKNSFکی جانب سے یکجہتی کا پیغام دیتے ہوئے بینر بھی ہال میں آویزاں تھے جبکہ ہال کو انقلابی شعروں اور طلبہ کے ملکی و مقامی مطالبات سے بھی سجایاگیاتھا۔ ملک گیر مطالبات *طبقاتی نظامِ تعلیم کا کاتمہ کیا جائے۔ *طلبہ یونین کے الیکشن کروائے جائیں۔ *ملکی سطح پر تمام تعلیم ریاست کی جانب سے مفت فراہم کی جائے۔ *تعلیمی بجٹ کو بین الاقوامی طور پر 4%تک بڑھایا جائے۔ *تعلیمی اداروں کی نجکاری کو فی الفورختم کیا جائے۔ * آبادی کے تناسب سے یونیورسٹیاں تعمیر کی جائیں۔ *کنٹریکٹ اساتذہ کو مستقل کیا جائے۔ *اساتذہ کی تنخواہوں میں اضافہ کیا جائے۔ یونیورسٹی کے مطالبات *طلبہ کے تناسب سے نئے ہاسٹل تعمیرکیے جائیں۔ *طلبہ کو Internship Stipendsجاری کیے جائیں۔ *یونیورسٹی شٹل کا اجراء کیا جائے۔ *نصابِ تعلیم کو جدید خطوط پر استور کیا جائے۔ *سینڈیکیٹ اور دوسرے تما م قانون ساز اداروں میں طلبہ کو نمائندگی دی جائے۔ *طلبہ کی ثقافتی سطح کو بلند کرنے کے لیے معیاری ادبی ، ثقافتی سر گرمیوں کو فروغ دیا جائے۔Translation: Chingaree.com