کانگریس 2013ء: پاکستان کی تاریخ میں مارکس وادیوں کا سب سے بڑا اکٹھ

9 اور 10مارچ کو ’’طبقاتی جدوجہد‘‘ کی 32ویں کانگریس کے موقع پر پاکستان بھر سے ہزاروں مارکسسٹ ایوان اقبال لاہور میں اکٹھے ہوئے۔ ہم اپنے قارئین کے لئے اس کانگریس کی مکمل رپورٹ شائع کرر ہے ہیں۔

پہلا دن

پاکستان کے مارکس وادیوں کی32ویں سالانہ کانگریس 9 مارچ بروزہفتہ شروع ہوئی۔ شرکت کیلئے پہنچنے والے کامریڈز اور ہمدردوں کی تعداد توقعات سے کہیں بڑھ کے تھی۔ پہلے دن 2796 کامریڈزکی رجسٹریشن ہوئی، جس نے اس کانگریس کو مارکس وادیوں کا سب سے بڑا اجتماع بنا دیا۔ پاکستان بھر سے آنے والے پرجوش، پرعزم اور جذبے سے لبریز کامریڈزبد ترین معاشی و سماجی حالات کے باوجود کانگریس میں شرکت کیلئے پہنچے۔ یہ ساتھی ملک کے دوردراز علاقوں سے سفر کرکے پہنچے اور وہ ایسے نامساعد حالات میںِ جب بسوں اور ٹرینوں کے کرائے بہت زیادہ ہوچکے ہیں۔ پاکستان ریلوے ایک شدید سنجیدہ بحران کی زد میں ہے۔ کئی ٹرینیں اپنے ٹائم ٹیبل سے محروم کر دی گئی ہیں جبکہ کئی نجکاری کی بھینٹ چڑھا دی گئی ہیں۔ اس کے باعث مسافروں کیلئے سفر عذاب بن چکاہواہے۔ تواتر سے پٹرول اور گیس کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے پیش نظر ساتھیوں کا کانگریس کیلئے شرکت میں پہنچنا ایک بہت سخت مرحلہ تھا۔ لیکن اس سب کے باوجود کامریڈز شرکت کیلئے بیتاب بلکہ پرجوش رہے۔ اور انہوں نے ایک دن پہلے پہنچنے کاہدف پوراکیا تاکہ وہ کسی بھی تاخیر کے بغیر کانگریس میں پہنچ سکیں۔

وہ بے شمار طلبہ وطالبات، بیروزگار نوجوان اور محنت کش جومعاشی مجبوریوں اور سفر کے اخراجات کے باعث کانگریس میں شریک نہیں ہوپارہے تھے، ان کیلئے ساتھیوں نے کئی ماہ پہلے سے ہی فنڈز کی مہم شروع کر دی تھی تاکہ ایسے سبھی ساتھی کانگریس میں شرکت کر سکیں اور اپنا بھرپورکردار سمجھ اور اداکرسکیں۔ کانگریس کا آغاز پاکستان میں بولی جانے والی مختلف مقامی زبانوں پشتو، سندھی، سرائکی، پنجابی، اور دری(پشتواور فارسی کے اختلاط پر مبنی) کی شاعری کی دیرینہ روایت سے ہواجس کے بعد کامریڈ حمید خان نے کانگریس کا آغاز کیا۔ کامریڈ نے اس کانگریس کو عظیم مارکسی استاد کامریڈٹیڈ گرانٹ کے نام انتساب کیا۔ کانگریس کا مرکزی بینر بھی ٹیڈ گرانٹ کے ایک سوویں جنم دن کی مناسبت سے ہال میں آویزاں کیاگیاتھا۔ حمیدخان نے واضح کیا کہ یہ ٹیڈ گرانٹ ہی ہیں کہ جن کی زندگی بھر کی مارکسزم کے حقیقی نظریات کیلئے جدوجہد کی بدولت، خاص طورپر سٹالنزم کے خلاف کامریڈ کی شاندار جدوجہد کی بدولت آج عالمی مارکسی رحجان (IMT) دنیا بھر اپنا ایک مقام اور اثر رکھتا ہے۔ اس کے بعد حمید خان نے کانگریس میں شرکت کیلئے آنے والوں کو خوش آمدید کہا جن کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل تھی۔ مجموعی طور پر کانگریس کی تقریباً 80 فیصدشراکت نوجوانوں پر مشتمل تھی۔ ان کے علاوہ ٹریڈیونین کارکنوں اور خواتین کامریڈز کی بھی بڑی تعداد شامل تھی۔ خواتین کی شمولیت پچھلی کانگریس سے دوگنا تھی، جو کہ ایک بڑی پیش رفت ہے اور پاکستان جیسے سماج میں یہ ایک بہت بڑی بات ہے کہ جہاں خواتین کو کئی قسموں کی جکڑبندیوں کا سامنا کرناپڑتاہے۔ اس کے بعد پاکستان میں طبقاتی جدوجہد کے بانی ساتھی لال خان کو کانگریس کیلئے ابتدائی کلمات کیلئے بلایا گیا۔ کامریڈ نے کانگریس کیلئے پہنچ جانے والوں اور اس کے بعد آنے والوں کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ شرکت کے اعتبارسے یہ عالمی مارکسی رحجان کے پاکستانی سیکشن کی سب سے بڑی کانگریس ہے۔ اور پہلے بیان کیے گئے رجسٹرڈ شرکا کی تعداد اس بات کا واضح ثبوت ہے۔ اس کے بعد کامریڈ ٹیڈگرانٹ کی 1984ء میں ہونے والی ملیٹینٹ کی ریلی سے خطاب کے اقتباسات سنوائے گئے جن میں ٹیڈگرانٹ نے سرمایہ دارنہ بحران کی وضاحت کی تھی اور یہ کہ کیسے مارکس وادی مزدور تحریک میں مداخلت کریں گے۔ کامریڈ کی تقریر کا اردو میں ترجمہ بھی کیاگیا۔ جس کی شرکا نے بہت داد دی اور ہال انقلاب انقلاب سوشلسٹ انقلاب کے نعروں سے گونج اٹھا، یہ نعرہ بعد میں ساری کانگریس میں ہی گونجتارہا۔

اس سال کامریڈ ایلن وڈزکانگریس میں شریک نہیں ہو سکے لیکن ان کا ریکارڈشدہ پیغام کانگریس کو سنوایاگیا۔ کامریڈ نے کانگریس کے انعقاد کو سرمایہ دارانہ نظام کی تاریخ کے بدترین بحران کے پیداکردہ حالات کی روشنی میں ایک اہم سنگ میل قراردیا۔ کامریڈ کے پیغام کے دوران شرکا جوش جذبے سے نعرے لگاتے رہے۔ اس کے بعد دوسرے ملکوں میں کام کرنے والے مارکس وادیوں کے موسول کردہ یکجہتی کے پیغامات بھی ترجمے کے ساتھ پڑھے گئے۔ ان میں وینزویلااورفرانس کے کامریڈز کے علاوہ امریکہ سے کامریڈ جان پیٹرسن کا وڈیوپیغام بھی شامل تھا۔

ملالہ یوسفزئی کا پیغام

برمنگھم برطانیہ میں رہنے والے ایک پاکستانی کامریڈ جاوید نے ملالہ یوسفزئی کا پیغام پڑھ کر سنایا۔ ملالہ یوسفزئی جو کہ عالمی مارکسی رجحان کی ہمدرد ہیں، کو مذہبی بنیاد پرستی اور لڑکیوں کی تعلیم کے لئے جدوجہد کرنے پر دنیا بھر میں شہرت ملی۔ وہ پچھلے سال سوات میں ہونے والے نیشنل یوتھ مارکسی سکول میں بھی شریک رہی ہیں اور ان پر بنیادپرستوں نے حملہ کرکے ان کے سر میں گولی ماردی تھی جس سے وہ شدید زخمی ہو گئی تھیں۔ ان کا پیغام کچھ یوں تھا ’’سب سے پہلے تو میں عالمی مارکسی رحجان اور طبقاتی جدوجہد کا شکریہ اداکرتی ہوں کہ جنہوں نے مجھے مارکسی سکول میں شرکت کا موقع فراہم کیا، جس کی وساطت سے میں مارکسزم اور سوشلزم کے نظریات سے روشناس ہوئی۔ پاکستان میں دوسرے مسائل کے ساتھ ساتھ تعلیم کے حوالے سے میںیہ کہنا چاہتی ہوں کہ ان سب مسائل کا حل بھی ہم نے ہی کرناہے۔ ہمیں ہی اس کیلئے قدم اٹھاناہوگا۔ ہم ادھرادھر سے کسی کا انتظار نہیں کریں گے کہ کوئی آئے گاا ور ہمارے مسائل ختم کرے گا۔ کیوں ہم کسی ایسے کے انتظار میں رہتے ہیں ؟ہم خود ہی کیوں نہیں اپنے مسائل کا حل کر سکتے؟میں دل کی گہرائیوں سے کانگریس کو مبارکباد دینا چاہتی ہوں۔ میں جان چکی ہوں کی صرف سوشلزم ہی واحد حل اور جواب ہے۔ اور میں سب کامریڈز سے گذارش کرتی ہوں کہ وہ فیصلہ کن کامیابی کیلئے اس جدوجہد کو تیز کریں کیونکہ اس کے بعد ہی ہم محکومی اور استحصال سے نجات پا سکیں گے‘‘۔ یہ لمحہ بھی کانگریس کے جوش وجذبے سے بھرپورلمحات سے ایک تھا۔ ملالہ کی ایک سہیلی بھی کانگریس میں شریک ہوئیں جو کہ ملالہ پر حملے کے وقت بس میں موجود تھیں۔ انہوں نے بھی اپنی بات رکھی اور ایک نظم بھی پڑھی۔ حقیقت یہ ہے کہ ساری کانگریس کے دوران ہی پاکستان کے ان علاقوں سے ساتھی شریک ہوئے کہ جہاں گروہی فسادات، قتل عام، بم دھماکے، ڈرون حملے، اور قتل وغارتگری روزمرہ کا معمول بن چکی ہے۔

یورپ اور عرب انقلابات کا تناظر

پہلا سیشن عالمی تناظر تھا جس میں خاص طور پر یورپ اور مشرقِ وسطیٰ میں ہونے والے واقعات کو موضوعِ بحث بنایا گیا۔ عالمی مارکسی رحجان سے کامریڈ فریڈ ویسٹن اس موضوع پر لیڈآف دی اور چیئر کے فرائض کامریڈ حمید خان نے ادا کئے۔ کامریڈ فریڈ وسٹن نے عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے اندر کے پہلے سے مجتمع ہوتے ہوئے تضادات کی وضاحت کرتے ہوئے ان عناصر کی تصویر کشی کی جو 2008ء کے عالمی بحران کا باعث بنے، گزشتہ دور میں عالمی سطح پر قرضوں کے لا محدود پھیلاؤ اور زائد پیداوار کے بے حد و حساب فروغ پر بات رکھی گئی۔ یہ سب عناصر ہی بنکاری نظام کے بحران کا باعث بنے جو مجموعی طور پر سرمایہ دارانہ نظام کے عمومی بحران کی عکاسی کرتے تھے۔

فریڈ نے خراب ہوتے ہوئے سماجی حالات، محنت کش طبقے کی فلاح و بہبود پر ہوتے حملوں، مزدورحقوق پر ہوتے حملوں اور بڑھتی ہوئی بے روزگاری کی تصویر کشی کی اور دکھایا کہ کس طرح یہ سب پورے یورپ کی سطح پر طبقاتی جدوجہد کے پھٹنے کی وضاحت کرتے ہیں۔ کامریڈنے وضاحت کی کہ کس طرح نظام اپنی کمزور ترین کڑی یونان سے ٹوٹتے ہوئے بہت جلد ہی پرتگال اور سپین جیسے ممالک میں پھیلا۔ انہوں نے نوجوانوں اور مزدوروں میں بڑھتی ہوئی ریڈیکلائیزیشن کی وضاحت کی جو کہ محض جنوبی یورپ کے ممالک تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ شمالی یورپ میں ڈنمارک اور برطانیہ جیسے ممالک میں بھی محسوس کی جا رہی ہے۔ اور یہ سب پورے یورپ میں سرمایہ دارانہ نظام پر پیدا ہونے والے سوالیہ نشان کو پھیلا رہا ہے۔

اپنے ابتدائیہ کا بڑا حصہ مشرقِ وسطیٰ کے واقعات پر صرف کرتے ہوئے فریڈ ویسٹن نے 2011ء کے انقلابی واقعات کا پسِ منظر بیان کرتے ہوئے ان سماجی اور معاشی حالات کی وضاحت کی جو کہ تحریک کا باعث بنے۔ ان انقلابی واقعات کی نشاندہی کرتے ہوئے کامریڈ نے وضاحت کی کہ کس طرح انقلابی عوام کی شاندار طاقت کے باوجود محنت کش طبقے کی ایک انقلابی پارٹی نہ ہونے کے سبب اس خلاء کو اخوان المسلمون جیسے اسلام پرستوں نے پرُ کیا۔ لیکن کیونکہ ان کے پاس سرمایہ درانہ نظام کے بحران کا کوئی حل نہیں تھا اس لیے حکومت میں آنے کے بعد یہ بہت جلد ہی مصر اور تیونس میں عوام کے سامنے بے نقاب ہو گئے۔ اب دونوں ممالک میں انقلاب کی نئی لہر ابھر رہی ہے کیونکہ محنت کشوں اور نوجوانواں نے اپنے حالیہ تجربات سے نتائج اخذ کرنا شروع کر دیے ہیں۔ اس لیے ہم مشرقِ وسطی میں عوام کو مزید ریڈیکلائز ہوتے دیکھ رہے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ہی سرمایہ دار، اور زیادہ حملوں کے ذریعے اپنا دباؤ بڑھا تے جا رہے ہیں۔

اٹلی سے آئے ہوئے کامریڈکلاڈیونے اپنے کنٹری بیوشن میں کہا کہ نہایت مختلف سماجی اور معاشی حالات کی سبب جنم لینے کے باوجود بھی یورپ اور مشرقِ وسطیٰ کے واقعات عالمی انقلاب کی کڑی ہیں اور اس کے اثرات یقیناًپاکستان پر بھی ہوں گے۔ کامریڈ کلاڈیو جو کہ Rifondazione Comunista کی ایگزیکٹو باڈی کے ممبر ہیں اور عالمی مارکسی رحجان کے اطالوی سیکشن FalceMartello کی قیادت میں شامل ہیں، نے اٹلی میں حال ہی میں ہونے والے الیکشن پربھی بات رکھی۔ کامریڈ نے وضاحت کی کہ اٹلی سنجیدہ بحران میں گھرچکا ہے اور یہ خطرہ پورے یورپ پر منڈلا رہا ہے۔ کامریڈ نے دانتے کی شاعری میں سے نظم Inferno بھی سنائی جسے بہت پسند کیا گیا۔

کیمبرج یونیورسٹی برطانیہ کی پوسٹ گریجویٹ یونین کے صدر ارسلان غنی نے بھی بحث میں حصہ لیا اور برطانیہ میں طالبعلموں کو درپیش فیسوں میں اضافے اور ان پر ہونے والے دوسرے حملوں کی وضاحت کی۔ کامریڈ نے بتایا کہ کس طرح بلجیئم اور برطانیہ میں انہوں نے مزدوروں کے ساتھ یکجہتی کے لیے ہونے والی سرگرمیوں میں حصہ لیا اور کہاکہ جہاں کہیں بھی کامریڈز موجود ہوں وہ اپنی اپنی جگہوں پر موجودجدوجہدوں میں لازمی شریک رہیں۔

فریڈ ویسٹن سے مذہب کے کردار، وینزویلا اور مصر میں انقلابات کے مستقبل، ایران اور افغانستان کے حالات اور کئی دوسرے موضوعات پر بہت سارے سوالات کئے گئے۔ جواب میں فریڈ نے کہا کہ تاریخ نے بارہا دکھایا ہے کہ کبھی کسی سوشلسٹ انقلاب کی کامیابی کی یقین دہانی نہیں ہوا کرتی ہے۔ جس کام کی ضرورت ہے وہ یہ کہ بڑے مارکسی رحجانات اور پھر بعد میں پارٹیوں کی تعمیر کی جائے جو محنت کش طبقے کو وہ انقلابی قیادت فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں جس کے وہ حقدار ہیں۔ مذہب پر کئے گئے سوال کاجواب دیتے ہوئے کامریڈ نے کہا کہ مذہب کی گرفت لوگوں کے ذہنوں پر اس لیے مضبوط ہے کیونکہ وہ بد ترین حالات میں جی رہے ہیں۔ اگلی دنیا پر بحث کرنے کی بجائے ہمیں اسی دنیا کو بدلنا کے لیے ایک ساتھ کام کرنا چاہیے۔ کامریڈ نے پاکستان اور دنیا بھر میں مارکسی قوتیں تعمیر کرنے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے اپنی بات کا اختتام کیا۔

پاکستان تناظر

اگلے سیشن کو کامریڈ غفران احد نے چئیر کیا۔ یہ سیشن پاکستان کے سماجی معاشی اور سیاسی بحران اور سوشلسٹ انقلاب تناظرپر مبنی تھا، کامریڈ آدم پال نے انتہائی گرم جو ش اور روح میں اتر جانے والے انداز میں اپنی بات رکھی، جس میں انہوں نے پاکستان کے عوام کو درپیش روزافزوں بدترین صورتحال سمیت بڑھتی ہوئی بیروزگاری اور غربت، انفراسٹرکچر کے انہدام، صنعتی شعبے کی مکمل بندش وتباہی، اور اس کے ساتھ بڑھتے ہوئے نسلی فسادات پر تفصیل سے روشنی ڈالی، جیسا کہ بلوچستان ا ور سندھ میں ہورہاہے اور جن میں شامل عناصر کو مختلف سامراج طاقتوں اور ریاست کے مختلف دھڑوں کی پشت پناہی حاصل ہے اور جو اپنے اپنے مخصوص مفادات کیلئے ان فسادات کو مسلسل ہوا دیتے آرہے ہیں۔ آدم پال نے اس شدیدتر ہوتی عوامی نفرت کا بھی تجزیہ کیا جو کہ حکمران اشرافیہ کے خلاف عوام میں پھیلتی چلی جارہی ہے، جس کی بدولت سماج اپنے بالائی نظم ونسق سے یکسر بیگانہ ہوتا چلاجارہاہے اور سماج کی تہوں میں ایک انتہائی دھماکہ خیز صورتحال پنپ رہی ہے جو کہ کسی بھی وقت پھٹ کر اپنا سیاسی اظہار کر سکتی ہے، جیسا کہ دو سال پہلے تیونس اور مصر میں ہوا۔ اس کے بعد سوات سے کامریڈکوکلہ باچہ، کراچی سے کامریڈ پارس جان بلوچستان سے کامریڈ نذر مینگل، وائی ڈے اے پنجاب کے رہنماکامریڈ آفتاب اشرف، ملتان سے پیپلزپارٹی کے رہنماالیاس خان، افغانستان سے سعداللہ مہمند، اور ایک سکھ کامریڈگرداس سنگھ نے بحث میں حصہ لیا۔ شمالی پنجاب سے کامریڈ چنگیزخان نے ایک نظم پیش کی۔

اس سیشن کے بعد تین کمیشن منعقد ہوئے۔ جو کہ ٹریڈ یونین ورک، یوتھ ورک اور خواتین میں کام کے حوالے سے تھے۔ ان کمیشنز میں ان شعبوں میں کام کے بارے مفصل گفتگو اور آئندہ کی حکمت عملی مرتب کی گئی۔

سیشن کے اختتام سے قبل پاکستان کے معروف گلوکار جواد احمدنے اپنے تازہ ترین البم کے بارے شرکا کو آگاہ کیا جس میں بہت سے انقلابی گیت بھی شامل ہیں۔ ایک گیت کراچی میں بلدیہ ٹاؤن فیکٹری سانحے میں ہلاک ہونے والے تین سو سے زائد مزدوروں، جبکہ دوسرا گیت برصغیر کے سوشلسٹ انقلابی شہید بھگت سنگھ کے حوالے سے تیار کیاگیا ہے جنہیں برطانوی راج نے1931ء میں پھانسی چڑھادیاتھا۔ جواد نے اردو میں مزدوروں کے بین الاقوامی ترانے کو بھی ایک نئے اسلوب میں لکھا اور گایاہے، یہ گیت بھی ان کے نئے البم میں شامل ہے۔ جواد نے اس موقع پر کامریڈ فریڈ ویسٹن اور کامریڈ لال خان دونوں کو سٹیج پر بلایاکیونکہ وہ اپنے اس ترانے کی گائیکی کیلئے سب کو اپنے ساتھ شریک کرنا چاہ رہے تھے۔ کئی دوسرے کامریڈز بھی جواد کے ساتھ ترانے میں شامل ہوئے۔ اور پھر کانگریس کے سبھی شرکاہی جواد کے ہم زبان ہوتے چلے گئے اور مزدوروں کا سوشلسٹ ترانہ گایا۔ یہ کانگریس کا ایک انتہائی پرجوش اورولولہ انگیز مرحلہ تھا جس نے کانگریس کے پہلے روز کو انتہائی شاندار اور یادگار بناڈالا۔

کانگریس کا دوسرادن

کانگریس کے دوسرے دن، 10مارچ کومزید ساتھیوں کی آمد ہوئی جس سے شرکاء کی مجموعی تعداد2800سے بھی بڑھ گئی۔ کانگریس کے تیسر ے دن کا پہلا سیشن الیکشن 2013ء کی مہم پر مبنی تھا۔ جبکہ دوسرا سیشن تنظیمی اموراور عالمی مارکسی رحجان کی بین الاقوامی رپورٹ پر مشتمل تھا۔ اس دوسرے دن کی کاروائی کی ابتدا بھی پہلے دن کی طرح انقلابی شاعری سے کی گئی۔ شدیدترین تضادات میں گھرے ایک ملک میں کہ جہاں ایک قلیل تعداد مراعات اور عیاشیوں سے لطف اندوزہورہی جبکہ آبادی کی بھاری اکثریت اتھاہ غربت میں زندگی بسر کرتی آرہی ہے، ایسے میں محروم اور درماندہ انسانوں کی حالت زارکوشاعری اور گیتوں کی شکل میں بیان کیا جاتاہے اور یہ انقلابی نظمیں اور گیت کانگریس کا انتہائی اہم حصہ بن گئیں۔

جواداحمد کا سانحہ بلدیہ کراچی پر گیت

کامریڈ قمرالزمان نے دوسرے دن کے پہلے سیشن کو چئیرکیا۔ انہوں نے سب سے پہلے کانگریس کے شرکا کو پاکستان کے معروف گلوکار جواداحمد کے بلدیہ ٹاؤن کراچی کے المیے کے حوالے سے تیارکی گئی وڈیو دکھانے کا اعلان کیا۔ جیساکہ ہم پہلے دن کی رپورٹ میں بتا چکے ہیں کہ اس سانحے میں تین سوسے زیادہ مزدور ہلاک ہوئے تھے۔ ویڈیومیں یونین کاربائڈ بھوپال کے سانحے کے متاثرین، ہندوستان کے متاثرین، بنگلہ دیش کی ایک فیکٹری کے مزدوروں سمیت کراچی کی فیکٹری میں جل مرنے والے مزدوروں کی جھلکیاں شامل کی گئی ہیں۔ جواد نے جب اپنا گیت سنانا شروع کرتے ہیں تو کیمروں کا رخ متاثرین کی جانب مڑجاتاہے جس میں ہم، بہنوں بھائیوں والدین اور دیگر عزیزواقارب کو اپنے مرجانے والوں کیلئے آہ وزاری کرتے دکھایاگیاہے۔ ان جھلکیوں میں وہ خاموش چہرے ہیں کہ جن کے گالوں پر گرنے والے آنسو ان کے دکھ درد کو بیان کررہے ہیں۔ یہ گیت مزدوروں کے دکھ درد کی کہانیاں بیان کرتاہے۔ لیکن صرف اتنا ہی نہیں اس میں یہ بھی کہاگیا ہے کہ یہ صرف ہم مزدور ہی ہیں کہ جو دنیا کی ہر چیز کو پیداکرتے آرہے ہیں، اور یہ کہ ہم اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو اب اور برداشت نہیں کریں گے۔ یہ گیت جن الفاظ پر ختم ہوتاہے وہ یہ ہیں ’’دنیا بھر کے محنت کشو!ایک ہوجاؤ‘‘۔ وڈیو کے ختم ہوتے ہی کانگریس انقلاب انقلاب، سوشلسٹ انقلاب کے نعروں سے گونج اٹھی۔ اس کیفیت نے ہی اگلے سیشن کیلئے موڈ کو گرمادیا۔ اس کے بعد کامریڈ رؤف خان نے ایک اور انقلابی نظم پڑھی۔

الیکشن مہم

اس کے بعد کامریڈقمر نے ڈاکٹر لال خان کو آنے والے الیکشن کی مہم کیلئے لیڈ آف دینے کی دعوت دی۔ پاکستان کی موجود پارلیمان 16مارچ کو تحلیل کردیے جانے کا امکان ہے جبکہ اپریل یامئی کے دوران نئے الیکشن کرائے جانے کا بھی امکان ہے۔ لال خان نے ان الیکشن کیلئے حکمت عملی اور طریق کار کے ممکنہ خدوخال پر روشنی ڈالی۔ اس الیکشن کیلئے کئی کامریڈز تیاری کررہے ہیں۔ انہوں نے اپنے علاقوں بارے اپنی رپورٹس کانگریس کے سامنے رکھیں۔ یہ الیکشن ایسے موقع پر ہونے جارہے ہیں کہ جب پاکستانی سماج ایک شدیدگہرے بحران کی زد میں آیاہواہے۔ غربت جوپہلے ہی سماج کو اپنی لپیٹ میں لئے ہوئی تھی، مزید بڑھتی چلی جارہی ہے۔ عالمی بینک اور آئی ایم ایف اپنے مالیاتی جبرکو مزید بڑھاتے آرہے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ پاکستان کے مزدوروں کسانوں بیروزگاروں اور غریبوں کی حقیقی نمائندگی کررہاہے؟ 1960ء کی دہائی میں پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیادایک ریڈیکل سوشلسٹ پروگرام پر رکھی گئی۔ لیکن آج پارٹی پچھلے پانچ سالوں سے اقتدارکے مزے لوٹتے ہوئے، سامراج کے دیے گئے ایجنڈے کو مسلط کرتی چلی آرہی ہے۔ جس میں نجکاری اور غریبوں کو دی جانے والی سبسڈیوں میں کٹوتیاں شامل ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ عوام الناس سیاستدانوں سے مایوس اور بیگانہ ہوچکے ہیں۔ جو کہ سب کے سب اپنی اپنی جیبیں بھرنے کے سوا کچھ بھی نہیں کر رہے ہیں۔ عوام کیلئے کوئی ایک سنجیدہ کام نہیں کیا گیا۔ 2008ء میں ہونے والے الیکشن میں سب سے زیادہ سیٹیں لیتے ہوئے پیپلز پارٹی نے صرف17فیصد ووٹ حاصل کئے تھے۔ ایسے میں نواز شریف اقتدارمیں آسکتاہے۔ جبکہ ووٹروں کی بڑی تعداد الیکشن میں حصہ لینے سے گریز کرسکتی ہے، اور جیسا کہ کامریڈ لال خان نے کہا کہ ایسے حالات میں لوگ اپنے ووٹ بیچنے کو ترجیح دیں گے کیونکہ ووٹوں کا اس سے زیادہ فائدہ نظر ہی نہیں آئے گا۔ کہ اس سے کم ازکم لوگوں کو اپنے اور اپنے اہل خانہ کیلئے ایک دو دنوں کی خوراک تو میسر آسکے گی۔ لال خان نے اس الیکشن کا مارکسی تجزیہ پیش کیااور کہا کہ ہم اس میں مداخلت کرتے ہوئے حصہ لیں گے اورجہاں جہاں لوگ اکٹھے ہوں گے، ہم وہاں ایک سوشلسٹ پروگرام کے ساتھ جائیں گے۔ کامریڈ نے بورژوا جمہوریت میں پارلیمنٹ کے کردارکو اجاگر کیا اوربورژوا جمہوریت کے خدوخال پر روشنی ڈالی اور کہا کہ یہ اپنے اندر کوئی نظام نہیں ہوتی بلکہ ایک نظام کو چلانے کا ذریعہ ہوتی ہے۔ لال خان نے مارکس کے الفاظ دہرائے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے تحت الیکشن کا مطلب صرف یہ ہوتاہے کہ عوام اگلے پانچ سالوں کیلئے اپنے نئے استحصالیوں کو منتخب کرتے رہیں۔ کچھ حلقوں اور علاقوں سے ہمارے کامریڈز کو ٹکٹ مل سکتی ہے جس کے بعدکامریڈز کو یہ موقع میسر آسکے گا کہ وہ حقیقی مارکسزم کے نظریات کو پارلیمنٹ میں سامنے لا سکیں گے۔ لیکن پھر یہ کسی طور کوئی حتمی ہدف نہیں ہوگا۔ پاکستان کے مارکس وادی الیکشن میں جیت کر پارلیمنٹ میں بالکل اسی طرح اس نظام کو بے نقاب کریں گے جس طرح روس کی ڈوما میں بالشویکوں کے نمائندے کرتے تھے۔ لال خان نے سماج کی کیفیتوں کی زبوں حالی پر تفصیلی روشنی ڈالی اور کہا کہ بحران سماج میں ہر سطح پر اپنے اثرات مرتب کررہاہے۔ نہ صرف بدعنوانی ہر جگہ آسمان کو چھورہی ہے بلکہ یہ بحران ثقافت کی ابتری، اور انسانیت کی گراوٹ کی شکلوں میں بھی اپنا واضح اظاہر کررہاہے۔ ایک روز قبل ہی لاہورشہر میں ہونے والا دلدوز واقعہ اسی کیفیت کا ہی عکاس ہے جس میں مسیحیوں کے 178گھروں کو جلا ڈالا گیا۔ اس کیلئے جو عذر تراشاگیاوہ ’’توہین رسالت ‘‘کا الزام تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کے واقعات قبضہ گروپوں کی کارستانیاں ہیں۔ ریاست اس ساری بربریت کے دوران ایک طرف کھڑے ہوکر تماشا دیکھتی رہی۔ لال خان نے پاکستان کی سیاست مین موجود کئی ’’کارٹونوں ‘‘ کا ذکر کیا جن میں زرداری سے لے کر نواز شریف اور عمران خان سے لے کر کینیڈا سے درآمدکردہ ملا قادری سمیت ایم کیو ایم کے متعصب سیاستدان شامل ہیں۔ ان میں سے کوئی ایک بھی عوام الناس کو درپیش مسائل کا حل پیش نہیں کررہاہے۔ سب کے سب ایک ہی سامراجی ایجنڈے کی گماشتگی کررہے ہیں۔ مارکس وادی کسی طور الیکشن سے الگ تھلگ نہیں رہتے ہوتے بلکہ وہ انہیں اپنے نظریات کی ترویج کا وسیلہ بناتے ہیں۔ ملک بھر سے آئے کامریڈز نے بحث میں حصہ لیا ان میں مالاکنڈ سے کامریڈ غفران احد نے بورژوا جمہوریت کے دھوکے کو بے نقاب کرتے ہوئے کہا کہ لوگوں کے ذریعے حکومت کی بجائے لوگوں کو خرید کر حکومت کی جاتی ہے، اسی طرح لوگوں کیلئے حکومت کی بجائے لوگوں کی دشمن حکومت سامنے آتی ہے، کامریڈ نے واضح کیا کہ ایک مارکس وادی امیدواربدعنوانی کیلئے نہیں بلکہ نظام کو ایکسپوزکرنے کیلئے پارلیمان میں جاتاہے۔ اس کے بعد راولپنڈی سے کامریڈ آصف نے الیکشن مہم میں نوجوانوں کے رول پر روشنی ڈالی۔ 2008ء الیکشن کے مارکسی امیدوار کامریڈریاض نے بھی بحث میں حصہ لیا۔ انہوں نے کہا کہ سب جانتے ہیں کہ کامریڈ الیکشن جیت چکے تھے، لیکن ان کا نتیجہ تین دن تک روکے رکھاگیا۔ تاکہ ان کو ہروانے کیلئے ضروری اقدامات کئے جاسکیں۔ کامریڈ نے بتایا کہ کراچی کے محنت کش اس حقیقت سے بخوبی آشناہیں اور وہ انقلابی مارکسسٹوں کی حمایت کر تے ہیں۔ کامریڈ نے واضح کیا کہ محنت کشوں کی ہلاکت کاذمہ دار فاشسٹ ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین نے اپنے ایک حالیہ خطاب میں اپنااصلی دشمن ’’مارکسزم ‘‘کو قراردیاہے۔

پشاور سے کامریڈفضل قادرنے لینن کے الفاظ یاد کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ چوروں کا باورچی خانہ ہواکرتی ہے اور موجودہ پارلیمنٹ بھی ایسی ہی ہے۔ جہاں چور مل کر سب کچھ کھاتے ڈکارتے جا رہے ہیں جبکہ سماج میں لوگوں کی اکثریت کو بھوک کے عفریت نے اپنے جبڑوں میں لیاہواہے۔ کامریڈ نے کہا کہ مارکس وادیوں کو ہر صورت میں الیکشن میں جانا چاہئے لیکن حقیقی تبدیلی کا فیصلہ کن عمل ہاتھوں سے نہیں پاؤں سے ووٹ ڈالنے سے ممکن ہوگا۔ اور ایسا تب ہوگا جب عوام اس مکروہ نظام کو اکھاڑ پھینکنے کیلئے تاریخ کے میدان میں اتریں گے۔ اس کے بعد فیصل آباد سے کامریڈ عادل اور ان کے بعد کامریڈالیاس خان نے ایک جوشیلی تقریر کی جس میں الیاس خان نے پیپلزپارٹی کی قیادت کو آڑے ہاتھوں لیا۔ کامریڈ نے کہا کہ مارکس وادیوں کو محنت کشوں کو ایک متبادل فراہم کرناہوگا۔ کامریڈ رؤف خان نے کہا کہ اس دوران کہ جب سبھی لوگوں کومذہب اور نسل کی بنیادوں پر تقسیم کرنے اور منافرتیں پھیلانے میں مگن ہیں، ہم مارکسی محنت کشوں کو متحدومنظم کرنے میں سرگرم عمل ہیں۔ اس کے بعد کوئٹہ سے کامریڈ جلالہ نے بحث میں حصہ لیاانہوں نے پاکستان بھر میں ماری جانے والی خواتین بارے بات رکھی اورکہا کہ انہیں مختلف طریقوں سے تشددکی بھینٹ چڑھایا جاتاہے۔ کامریڈ نے بتایا کہ کیسے انہوں نے بم دھماکوں میں ماری جانے والی خواتین کی لاشوں کے ٹکڑے اکٹھے کیے۔ یہ بربریت بلوچستان میں روزمرہ کا معمول بنا دی گئی ہے۔ کامریڈ نے بتایا کہ میری دلیرانہ جدوجہد کی بنیادپر میرے خلاف فتویٰ جاری کیا گیا ہے لیکن وہ اپنی جدوجہد کو جاری رکھیں گی۔ کامریڈ نے پروین شاکر کی ایک نظم کو استحصال کاشکار خواتین کے نام انتساب کرتے ہوئے اپنی بات ختم کی۔ ا س کے بعد جامپور کے انقلابی سرائیکی شاعرکلیم محسن نے اپنی نظم پیش کی جس میں کہا گیا کہ ڈاکوؤں اور لٹیروں پر کوئی بھروسہ نہ کیا جائے۔ آخر میں کامریڈ لال خان نے سوالات کا جواب دیتے ہوئے بحث کو سمیٹا۔

اگلا سیشن ’’انقلابی پارٹی کی تعمیر‘‘  کا تھا جس پر کراچی کے کامریڈ پارس جان نے بات رکھی۔ جبکہ کامریڈ یاسر ارشاد نے سیشن کو چیر کیا۔ کامریڈ پارس نے اپنی بحث میں جاری بحرانی کیفیت اور حالات میں کامریڈز کے کام کرنے کے طورطریقوں پر جامع بات کی انہوں نے زوردیا کہ کام کو ہرسطح پرمنظم انداز میں مرتب اور سرانجام دیاجائے۔ انہوں نے برانچ کی اہمیت پر بھی روشنی ڈالی کہ کیسے یہ ادارہ کامریڈز اور تنظیم کی بڑھوتری اور بہتری کیلئے کارگر ثابت ہوسکتاہے۔ کامریڈز کو روازانہ اور ہفتہ واربنیادوں پر اپنی سرگرمیاں ترتیب دینی چاہئیں۔ حالیہ دنوں میں کئی نوجوان رابطوں کو جیتا گیاہے، اس لئے ضروری ہے کہ ان کی نظریاتی تعلیمی استعداد میں مارکسی روایات کے مطابق اضافہ کیاجائے۔ رپورٹ سے یہ بات سامنے آئی کہ بدلتے ہوئے معروض کے باعث تنظیم کی ممبر شپ میں اضافہ ہواہے۔ اور آنے والے سالوں میں اس میں مزید ممکنات سامنے آئیں گے۔ اس کے بعد کمیشن رپورٹس پیش کی گئیں۔ کامریڈ نذر مینگل نے ٹریڈیونین کمیشن کی رپورٹ پیش کی۔ جس میں بتایاگیا کہ پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپین، الیکشن کی مناسبت سے محنت کشوں کے اجتماعی اور عمومی مسائل کے حوالے سے ایک خصوصی پمفلٹ شائع کرے گی۔ کامریڈ نے ان ٹریڈیونینوں اور کام کی جگہوں کی بھی نشاندہی کی کہ جہاں مارکسی رحجان موجوداورسرگرم ہے۔ اس کا اندازہ کانگریس میں شرکت کرنے والے مختلف اداروں اور شعبوں کے محنت کشوں کی شمولیت سے ہوتا ہے۔ ان میں پاکستان سٹیل کراچی، پاکستان ریلوے، پاکستان ایر لائنز، واپڈا، کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن، کراچی پورٹ ٹرسٹ، پوسٹ آفس، آرڈیننس فیکٹری واہ، یونی لیور، کوکا کولا، نیسلے کبیروالا، پاکستان ٹوبیکو کمپنی، آل پاکستان کلرک ایسوسی ایشن، پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن کارپوریشن، مرک فارماسوٹیکل، پاورلومز، پروفیسراینڈ لیکچررزایسوسی ایشن پنجاب سندھ بلوچستان، ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن، لاہور جنرل ہسپتال، جناح ہسپتال لاہور، پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی لاہور، میوہسپتال لاہور، سرگنگا رام ہسپتال لاہور، نشترہسپتال ملتان، وکٹوریہ ہسپتال بہاولپور، الائیڈ ہسپتال فیصل آباد، ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹرز ہسپتال پنجاب، پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز اسلام آباد، پیرا میڈیکل الائنس پنجاب، ایمکوٹائلز لاہور، ٹریٹ بلیڈز، رستم ٹاولزلاہور، جامشوروپاورہاؤس، کوٹ ادو پاورکمپنی، پاک عرب آئل ریفائنری، سوئی گیس، واسا، جرنلسٹس یونین، آئل اینڈ گیس ڈیویلپمنٹ کارپوریشن، سٹیٹ بینک، الائیڈ بینک، حبیب بینک، نیشنل بینک، ایمپلائز یونین میونسپل کارپوریشنزکے علاوہ ملک بھر سے کسان نمائندے بھی کانگریس میں شریک ہوئے۔

کامریڈ امجد شاہسوار نے یوتھ کمیشن کی رپورٹ کانگریس میں پیش کی اور پچھلے سال کے دوران کی جانے والی سرگرمیوں بارے بتایا۔ جن میں دو نیشنل یوتھ مارکسی سکول قابل ذکر ہیں۔ یوتھ ورک کو موثر بنانے کیلئے ایک نئی کوآرڈینیشن کمیٹی بھی منتخب کی گئی، جو نیچے ریجن اور ایریا کی سطح پر کمیٹیاں اور کام کو منظم کرے گی۔ ملک بھر میں اس سال کے دوران یوتھ ورک کے کئی نئے علاقے سامنے آئے ہیں۔ ذیل میں وہ فہرست ہے کہ جہاں نوجوانوں کی تنظیموں اور تعلیمی اداروں میں سرگرمی کے اہم مواقع متوقع اور موجود ہیں۔

تنظیمیں: جموں کشمیر نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن، جموں کشمیر سٹوڈنٹ لبریشن فرنٹ، پیپلز سٹوڈنٹس فیڈریشن، بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن، پشتون سٹوڈنٹس آرگنائزیشن، پشتون سٹوڈنٹس فیڈریشن، انقلابی کونسل، بیروزگار نوجوان تحریک، جموں کشمیر پیپلز سٹوڈنٹس فیڈریشن، پیپلز سٹوڈنٹس فیڈریشن گلگت بلتستان۔

یونیورسٹیاں اور کالجز: پنجاب یونیورسٹی، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور، یونیورسٹی آف انجینیرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور، فاسٹ یونیورسٹی لاہور، لمز لاہور، میو کالج لاہور، نیشنل کالج آف آرٹس لاہور، یونورسٹی آف سنٹرل پنجاب، سروسزانسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز لاہور، انٹرنیشل اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد، سرگودھا یونیورسٹی، زرعی یونیورسٹی فیصل آباد، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی، گارڈن کالج راولپنڈی، یونیورسٹی آف انجینیرنگ اینڈ ٹیکنالوجی ٹیکسلا، پشاور یونیورسٹی، بلوچستان یونیورسٹی کوئٹہ، خضدار یونیورسٹی، سرحد یونیورسٹی پشاور، مالاکنڈ یونیورسٹی، گومل یونیورسٹی ڈیرہ اسماعیل خان، گومل میڈیکل کالج ڈیرہ اسماعیل خان، آزاد جموں کشمیر یونیورسٹی مظفرآباد، مسٹ یونورسٹی میرپور، بہاء الدین ذکریایونیورسٹی ملتان، اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور، سندھ یونیورسٹی جامشورو، شاہ عبداللطیف بھٹائی یونیورسٹی خیرپور، لیاقت میڈیکل یونیورسٹی جامشورو، کراچی یونیورسٹی، وفاقی اردویونیورسٹی کراچی، شیخ زید میڈیکل کالج رحیمیارخان، خواجہ فرید کالج رحیمیار خان، اور مرے کالج سیالکوٹ شامل ہیں۔

پاکستان بھر سے محنت کش خواتین سمیت طالبات کی بڑی تعداد نے کانگریس میں شرکت کی۔ پاکستان جیسے سماج میں خواتین میں انقلابی کام سہل نہیں ہے۔ اس کے باوجود بھی، کامریڈ انعم نے خواتین کمیشن کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ تنظیم میں132خواتین ممبرشپ موجود ہے جن میں سے نصف کانگریس میں بھی شریک ہوئی ہے۔ کامریڈز نے اتفاق کیاہے کہ مزید خواتین کو انقلاب کے عمل میں شامل کرنے کیلئے ریکروٹ کیا جانا چاہئے۔ اگلے سال میں خواتین ممبرشپ کیلئے193کا ہدف لیاگیاہے۔

اختتامی کلمات

کامریڈ فریڈ ویسٹن نے عالمی مارکسی رحجان کی انٹرنیشنل رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ آئی ایم ٹی شمالی اور جنوبی امریکہ سمیت افریقہ، ایشیا اور یورپ کے کن کن ممالک میں کام کر رہی ہے۔ کامریڈ نے ان ممالک میں موجودکام اور مزید امکانات کے بارے تفصیلات سے کانگریس کے شرکا کوآگاہ کیا۔ وینزویلا اور برازیل کے حوالے سے رپورٹس پر شرکانے تالیاں بجائیں۔ جبکہ کینیڈا، میکسیکو اور امریکہ بارے رپورٹس کو بھی خصوصی توجہ اور مسرت سے سناگیا۔ اسی طرح کانگریس کے شرکا نے یورپ میں اٹلی، یونان، فرانس، برطانیہ میں کام کو بھی سراہا۔

یہ ایک انتہائی اہم سیشن تھا۔ کیونکہ پاکستان کے بہت ہی کم کامریڈز کو ویزا کی سہولت میسر ہوتی ہے کہ جس سے وہ سفر کرکے ان ملکوں میں جاکرعالمی مارکسی رحجان کی انٹرنیشنل کانفرنسز میں شرکت کر سکتے ہوتے ہیں اور وہاں کے کامریڈز سے مل سکتے ہیں۔ فریڈ ویسٹن نے واضح کیا کہ کس طرح دنیا بھر کے کامریڈز پاکستان کے ساتھیوں کے کام کو انتہائی توجہ اور دلچسپی سے دیکھتے ہیں جو کہ دنیا بھر کے کامریڈوں کیلئے حوصلے اور شکتی کا باعث بن رہاہے۔ ایسے ہی پاکستان کے کامریڈز باقی ملکوں کے ساتھیوں کے کام بارے جان کر خوش ہوتے ہیں کہ کس طرح ہماری انٹرنیشنل جستجواور لگن سے کام کو آگے بڑھارہی ہے۔ فریڈ نے اپنی بات کو مجتمع کرتے ہوئے کامریڈز سے کہا کہ وہ اپنے آپ کو انقلابی مارکسزم کے مطالعے سے لیس کرتے ہوئے آنے والی طبقاتی لڑائیوں کیلئے تیار کریں۔ فریڈ نے آخر میں کانگریس کو ٹیڈ گرانٹ کے نام منسوب کئے جانے کو خوش آئندقراردیا۔ فریڈ نے بتایا کہ کس طرح کامریڈ ٹیڈ 1950ء کی دہائی کے دوران انتہائی سخت ترین دور میں مارکسزم کیلئے ڈٹے رہے اور نظریات کے فروغ کیلئے جانفشانی سے کام کرتے رہے۔ یہ وہ دور تھا کہ جب ایک طرف تو سرمایہ دارانہ نظام اپنے عروج کی انتہاؤں پر تھا اوردوسری جانب سٹالنزم بظاہر بہت ہی مضبوط اور مستحکم تھا۔ اور ایسے حالات میں ترقی یافتہ ملکوں کے اندر حقیقی مارکسسٹ قوتوں کی بڑھوتری ناممکن نظر آرہی تھی لیکن ٹیڈ گرانٹ مستقبل کے حوالے سے غیر معمولی اور غیر متزلزل رجائیت کے حامل انسان تھے۔ اور ان کو محکم یقین تھا کہ ایک مقام پر جاکر سرمایہ دارانہ نظام بحران کی زد میں آئے گا اور جس کی بدولت طبقاتی جدوجہد کا ایک نیا دور شروع ہوگا۔ یہ کامریڈ ٹیڈ گرانٹ کی اس قسم کے جگرسوز حالات میں انتھک کاوشیں ہی ہیں کہ جن کی بدولت آج عالمی مارکسی رحجان قائم ودائم ہے۔

کانگریس کے اختتام پر ہر ساتھی نے کھڑے کامریڈ جواد احمد کے سنگ مزدورں کا عالمی ترانہ گایا۔ اس مرحلے پر کانگریس کا مزاج اور جذبہ جس کیفیت اور عروج پر تھا اسے کسی طور بھی لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اسے صرف وہی جان یا محسوس کر سکتے ہیں جو وہاں موجود تھے۔ اس جذبے اور عزم کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم انتہائی ا عتماد سے پاکستان میں مارکسزم کی کامیابی کے بارے بہت پرعزم اور پریقین ہوچکے ہیں۔

(کانگریس کی مکمل تصاویر بہت جلد ویب سائٹ پر اپ لوڈ کر دی جائیں گی)

 

Source: The Struggle (Pakistan)