لیون ٹراٹسکی اور قومی سوال عالمی سرمایہ داری کا حالیہ بحران انتشار، تذبذب، معاشی و سفارتی ہیجان اور سب سے بڑھ کر عوام کے روزمرہ پر تباہ کن اثرات مرتب کرنے کے حوالے سے ماضی کے تمام بحرانوں پر سبقت لے گیا ہے۔ دنیا بھر کے ماہرین معیشت، دانشور اور پروفیسر صاحبان بحران کا کوئی حل پیش کرنے کی بجائے بحران کی تما م تر ذمہ داری کرونا وائرس پر لاد کر بری الذمہ ہونے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ بحران کے نتیجے میں پھیلنے والی بیروزگاری، افلاس اور بھوک کو تقدیر کا لکھا قرار دے کر ممکنہ عوامی غیض و غضب سے محفوظ رہا جا سکے۔ لیکن دوسری طرف اسی بحران کے دوران ارب پتیوں کے اثاثوں اور بینک بیلنس میں ہونے والے ہوشربا اضافوں اور قومی اور سامراجی ریاستوں کی طرف سے نظام کو بچانے کے لیے سرمایہ داروں کو دیئے جانے والے کھربوں ڈالر...
انتونیو گرامچی کے انقلابی نظریات انتونیو گرامچی 1937ء میں مسولینی کی فاشسٹ حکومت کے دوران دس سال جیل میں گزارنے کے بعد وفات پا گیا۔ اتنے سال گزرنے کے باوجود بھی، تاحال اس کے خیالات پر بحث جاری ہے اور اُن کی دوبارہ سے تشریح کی جا رہی ہے۔ گرامچی کون تھا؟ اس سوال کے ہر قسم کے عجیب و غریب اور حیرت انگیز جوابات دیے جا رہے ہیں جن میں پیٹی بورژوا تدریسی دانشوروں اور مزدور تحریک میں موجود ترمیم پسندوں کی جانب سے جعل سازی نہیں تو ابہام پیدا کرنے کی کوششیں ضرور شامل ہیں۔
انڈیا: کسان احتجاج کے 50 روز۔۔مزدوروں اور کسانوں کو غیر معینہ عام ہڑتال کی جانب بڑھنا ہوگا! ہم نے انڈیا میں جاری کسان تحریک پر کئی مضامین شائع کیے ہیں ([4] [3] [2] [1]) اور ایک کسان لیڈر کا انٹرویو بھی نشر کیا ہے۔ موجودہ مضمون میں ہم موجودہ صورتحال کا تجزیہ کرتے ہوئے سرمایہ...
ہائرونوموس بوش اور جاگیرداری کے عالم نزع کی تصویر کشی ہائیرونوموس بوش ہر دور کے لحاظ سے ممتاز ترین اور ایک حقیقی مصور تھا۔ اس کے فن پارے پانچ سو سال قبل تخلیق کیے گئے تھے لیکن آج بھی حیران کن طور پر جدید سرئیلزم کا شاہکار لگتے ہیں۔ یہ ایک ایسی پریشان حال دنیا کا آرٹ ہے جو کہ متضاد رجحانات ]کی کھینچا تانی[ کے باعث نُچی پھٹی پڑی ہے، ایک ایسی دنیا جہاں سے عقل کا چراغ گُل کر دیا گیا ہے اور جہاں درندگی کی خونخوار جبلتیں بازی جیت چکی ہیں۔ ایک دہشت، تشدد اور وباؤں سے بھری دنیا، جاگتی آنکھوں سے دیکھا جانے والا ایک بھیانک سپنا۔ مختصراً۔۔۔ایک ایسی دنیا جو کہ بالکل ہماری آج کی دنیا جیسی ہے، خاص طور پر موجودہ وباء کے جیسی۔ ایلن ووڈزؔ نے ہائیرونوموس بوشؔ کا تاریخی مادی نکتہ نظر سے جائزہ لیا ہے جو کہ پہلی مرتبہ 23 دسمبر 2010ء کو شائع ہو ا...
امریکہ: ٹرمپ کا پارلیمنٹ پر حملہ اور سرمایہ دارانہ جمہوریت کا انتشار 2021ء کا آغاز ایک دھماکے کے ساتھ ہوا۔ اگر امریکہ میں سرمایہ دارانہ بحران کی گہرائی کے بارے میں کوئی ابھی تک شکوک و شبہات کا شکارتھا تو حالیہ واقعات نے ان کا خاتمہ کر ڈالا ہے، اور یہ تو محض شروعات ہے۔ امریکی خانہ جنگی کے ہنگامہ خیز دنوں میں بھی امریکی پارلیمان پر اس طرح کا دھاوا کسی نے نہیں بولا تھا، جبکہ امریکی صدر اس کی حوصلہ افزائی کر رہا تھا! انسدادِ دہشت گردی کی ہنگامی صورت حال میں تمام اقدامات بروئے کار لائے گئے اور راہداریوں میں آنسو گیس پھینکے گئے، اطلاعات کے مطابق کم از کم ایک شخص گولی لگنے سے مارا گیا۔ سابقہ صدر جارج بش کے الفاظ میں یہ مناظر کسی تیسری دنیا کے ملک کا نقشہ پیش کر رہے تھے، نہ کہ عالمی سامراجیت کے گڑھ کا۔
برطانیہ: بریگزٹ اور بربادی بورس جانسن اپنے بریگزٹ معاہدے کا بڑی دھوم دھام سے اعلان کرتے ہوئے ایک خوشحال اور آزاد مستقبل کی نوید سنا رہا ہے۔ لیکن برطانوی سرمایہ داری پر تاریک بادل منڈلا رہے ہیں اور ایک ہولناک طوفان پنپ رہا ہے۔ اس غلیظ ٹوری حکومت کو ختم کرنا پڑے گا۔
کورونا ویکسین اور دوا ساز کمپنیوں کی منافع خوری کورونا ویکسین کی مختلف اقسام کے دھیرے دھیرے گردش میں آنے سے کروڑوں عوام کے لیے امید کی کرن جاگ اٹھی ہے، جنہوں نے وباء کی وجہ سے سال کا زیادہ تر حصّہ بظاہر نہ ختم ہونے والی عمر قید میں گزارا ہے۔ دوا ساز سرمایہ داروں کے لیے صحت جیسی بنیادی سہولیات (جس کی ترقی عوام کے پیسوں سے ممکن بنائی جاتی ہے) کسی کھلی تجوری سے کم نہیں، جس کو لوٹنے کا کوئی بھی موقع وہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ اس کے ساتھ ساتھ سامراجی قوتوں کی ذخیرہ اندوزی اور بڑی دوا ساز کمپنیوں کے بینک اکاؤنٹس کی وجہ سے دنیا کے غریب ترین حصوں میں ویکسین کی رسائی ممکن نہیں ہو پاتی۔
برطانیہ: تیسرا لاک ڈاؤن اور تاریخ کا بدترین بحران بورس جانسن اور ٹوریز نے بڑھتی ہوئی تباہی کا الزام کورونا وائرس کی نئی قسم پر لگانے کی کوشش کی ہے۔ مگر جن حالات میں عوام گھر چکے ہیں، اس کی اصل وجہ حکمران طبقے کی لاپرواہی ہے۔ ہمیں وباء کے حوالے سے ایک بے باک سوشلسٹ مؤقف اپنانے کی ضرورت ہے۔
امر فیاض بازیاب، عالمی مزدور یکجہتی زندہ باد! ہمیں ابھی ابھی یہ خوشخبری موصول ہوئی ہے کہ کامریڈ امر فیاض بازیاب ہوچکے ہیں۔ انکو سیکورٹی ایجنسیوں نے انکے گاؤں چھوڑا ہے۔ امر کی بازیابی دنیا بھر کے طلبہ، نوجوانوں اور محنت کشوں کی بھرپور اور کامیاب عالمی جدوجہد سے ہی ممکن ہو پائی ہے۔ امر کی رہائی سے متعلق مزید تفصیلات سے ہم اپنے حامیوں کو مطلع کرتے رہیں گے۔
چین: ریاستی اداروں کا ”بانڈ ڈیفالٹ“ ہنگامہ خیز دنوں کا پیش خیمہ کورونا وباء کے بعد آنے والے معاشی زوال میں چین کی معیشت بظاہر نسبتاً بہتر طریقے سے بحال ہو رہی تھی، مگر نومبر کے مہینے میں کامیاب ترین ریاستی اداروں کے بانڈ ڈیفالٹ (جاری کیے گئے بانڈز کی رقم ادا کرنے میں ناکامی) کا آغاز ہو گیا جس سے چین کی معاشی صورتحال بگڑنے لگی۔ اس سے اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ چینی ریاست بنیادی طور پر سرمایہ دارانہ نظام کے نامیاتی بحران سے خود کو نہیں بچا سکتی۔
پاکستان: کامریڈ امر فیاض کی بازیابی کیلئے پوری دنیا میں سالیڈیریٹی کمپئین جاری کامریڈ امر فیاض کو ریاستی اہلکاروں کی جانب سے 8 نومبر 2020ء کو جامشورو، پاکستان سے اغواء کیا گیا۔ اس واقعے کو ایک ماہ سے زیادہ عرصہ ہو چکا ہے اور ابھی تک وہ لاپتہ ہے۔ پوری دنیا سے کامریڈز یکجہتی کرتے ہوئے پاکستانی ریاست پر دباؤ بڑھا رہے ہیں اور امر فیاض کی بازیابی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ایک آن لائن پٹیشن پر اب تک 6 ہزار سے زیادہ دستخط موصول ہو چکے ہیں۔
فریڈرک اینگلز کے دو سوسال (28 نومبر 2020ء کو فریڈرک اینگلز کی 200ویں سالگرہ منائی گئی۔ اس موقع پر سوشلسٹ اپیل کے مدیر راب سیول، اینگلز کی اہم خدمات پر روشنی ڈالتے ہیں جو اس نے مارکسزم کے نظریات کو پروان چڑھانے میں ادا کیے اور جس کے لیے ہم ہمیشہ اس کے مشکور رہیں گے۔)
ہندوستان میں 25 کروڑ محنت کشوں کی ہڑتال! 26 نومبر کو ہندوستان کے شہری اور دیہی علاقوں کے پچیس کروڑ لوگوں نے عام ہڑتال میں حصہ لیا۔ دس مرکزی ٹریڈ نونینوں کی کال پر ہونے والی یہ ہڑتال، مودی کے چھ سالوں کے حکومتی دورانیے میں پانچویں بار ہوئی ہے۔
کسان تنظیموں کے”بھارت بندھ“ کی حمایت کرو! انڈیا کی آبادی کا ایک بڑا حصہ زراعت سے منسلک ہے۔ یہ سیکٹر انڈیا کی کل مجموعی پیداوار (GDP) کا 17 فیصد ہے۔ لیکن سرمایہ داری نے زرعی سیکٹر میں حالاتِ کام میں کوئی خاطر خواہ ترقی نہیں دی اور ہر گزرتے دن کے ساتھ صورتحال شدید گھمبیر ہو رہی ہے۔ یکے بعد دیگرے سرمایہ دارانہ حکومتوں کی لبرلائزیشن اور نجکاری پالیسیوں سے کسان مسلسل قرضوں کی دلدل میں ڈوبتے چلے جا رہے ہیں۔ گلی سڑی سرمایہ داری میں کسان زندہ رہنے کے لئے تاجروں اور عالمی کارپوریشنوں کے رحم و کرم پر ہیں جبکہ ان کا معیارِ زندگی مسلسل گرتا جا رہا ہے۔ حال ہی میں منظور ہونے والے زرعی قوانین کسانوں پر خوفناک حملہ ہے جو پہلے ہی ذلت کی چکی میں پِس رہے ہیں اور پورے ملک میں سالانہ ہزاروں کسان خودکشیاں کر رہے ہیں۔
ناگورنو۔کاراباخ میں ”امن“۔۔ سرمایہ داری میں کوئی استحکام ممکن نہیں روس میں حالیہ کاراباخ جنگ پر دو نکتہ نظر موجود ہیں۔ ایک طرف لبرلز ہیں جو NATO کے تربیت یافتہ ترک جرنیلوں اور اسرائیلی ڈرونز کے مداح ہیں تو دوسری طرف پیوٹن کے خفیہ اور کھلم کھلا مداح لیوا (روسی۔یوکرائینی میڈیا پر) ہمیں بتا رہے ہیں کہ انقلابیوں (نام نہاد یا حقیقی) کو ہمیشہ جنگوں میں شکست ہوتی ہے۔ ان دونوں خیالات میں حقیقت کی رمق تک موجود نہیں۔ بورژوا انقلابات میں تشکیل پانے والی ملیشیاؤں نے شاندار فتوحات حاصل کیں۔ صرف انیسویں صدی میں ہی نہیں بلکہ ناگورنو۔کاراباخ جمہوریہ کی تاریخ کا آغاز تین دہائیوں پہلے ہونے والی جنگ میں آرمینی ملیشیا کی فتح سے ہوتا ہے۔ اس وقت آذربائیجان زیادہ امیر تھا اور اس کی فوج زیادہ بڑی اور اسلحہ سے بہتر لیس تھی لیکن اگر آذربائیجان کو اس جنگ میں کچھ...