Urdu

  • سانحہ بلدیہ ٹاؤن سرمایہ دارانہ ریاست کی نا اہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے: ریاض حسین بلوچ

    ’’محنت کشوں کو اپنی نجات اور فلاح کے لیے مزدور ریاست کی ضرورت ہے‘‘

  • ماحولیاتی تبدیلیاں اور مارکسی تناظر

    چند سال پہلے ایک دن بھی ایسا نہیں گزرتاتھا کہ جب ماحولیاتی تبدیلیاں اخبارات کی شہہ سرخیاں نہ بنتی تھیں۔ امریکی سیاستدان ایلگور کی جانب سے بنائی جانے والی ماحولیات پر بننے والی دستاویزی فلمAn Inconvenient Truth’’ایک ناخوشگوار حقیقت‘‘کو لاکھوں لوگوں نے دنیا بھر میں سینماؤں پر دیکھا۔کنزرویٹوپارٹی نے خودکو ماحولیات کا چمپئین ثابت کرنے کیلئے نئے رنگ روپ میں ڈھالنے کی کوشش کی۔ ماحولیات بارے رنگ بازیاں کرتے ہوئے لوگوں کو اس بات کیلئے تیار کرنے کی کوشش کی گئی کہ سبز رنگ کی بقا اور بحالی کیلئے نیلے رنگ کو ووٹ دیاجائے۔یہاں تک کہ رجعتیت کے مہان رہنما جارج بش کو بھی اس بات پر مجبورہونا پڑگیا تھاکہ وہ ماحولیات کو ایک قابل ترجیح مسئلہ تسلیم کرے۔

  • کیا پاکستان ایک جاگیر دارانہ سماج ہے؟

    گزشتہ کچھ عرصے سے اپنے آپ کو سیکولر کہنے والی پارٹیاں، خاص طور پر ایم کیوایم، اس بات کی رٹ لگائے ہوئے ہیں کہ پاکستان کی موجودہ حالت زار کی اصل وجہ جاگیر داری ہے اور اس کا خاتمہ کر کے ہی ملک کو تمام تر مصائب سے نکالا جا سکتا ہے۔یہ نقطہ نظر در اصل ان چھوٹے کاروباری عناصر (Petty Bourgeois)اور مافیوزی سرمایہ داری (جرائم اور کالے دھن پر مبنی سرمایہ داری) کو بچانے کے لئے اپنایا گیا ہے جس کے سہارے یہ پارٹیاں اپنی سماجی و معاشی ساکھ برقرار رکھے ہوئے ہیں۔سابقہ بائیں بازو اور لبرل دانشور پچھلی کئی دہائیوں سے یہ گردان دہرا رہے ہیں کہ پاکستان ایک جاگیردارانہ ملک ہے اور جاگیرداری کا خاتمہ ’قومی جمہوری‘ یا سرمایہ دارانہ انقلابات سے ہی ممکن ہے۔لیکن پچھلے 65سالوں سے پاکستانی بورژوازی،

    ...
  • کیا پاکستان ٹوٹ سکتا ہے؟

    پاکستان معرض وجود میں آنے ساتھ ہی شدید عدم استحکام کا شکار ہے جس کی وجہ سے مذہب کے نام پر بنائے گئے اس ملک کی بقا اور یکجہتی کے متعلق شکوک و شبہات جنم لیتے رہے ہیں۔وقت گزرنے کے ساتھ ملک ٹوٹ جانے کی اس بحث میں شدت آئی ہے۔ 1971ء میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے دانشوروں کے اس حصے کے خیالات کو تقویت ملی جن کے اس ملک کی لمبے عرصے تک بقا کے متعلق شکوک و شبہات تھے۔ اس واقعے کے بعد سے پاکستان کے ٹکڑے ٹکڑے ہو جانے کی قیاس آرائی زبان زد خاص و عام ہو چکی ہے خاص طور پران صوبوں میں جہاں قومی جبر واضح شکل میں موجود رہا ہے۔

  • جنوبی افریقہ: آزادی سے رستا خون

    نسلی امتیاز کی پالیسی کے خاتمے اور جمہوریت اور آزادی کی نئی شروعات کے اٹھارہ برس بعد، ماریکانا کے علاقے میں لون من کمپنی کی ملکیت میں پلاٹینم کی کانوں کے 44کان کنوں کا گزشتہ جمعرات کے روز پولیس کے ہاتھوں بہیمانہ قتل اور 100 محنت کشوں کوشدید ز خمی کرنے کے واقعے نے جنوبی افریقہ کے پرولتاریہ کے اذیت ناک حالات اور تکلیف دہ زندگی کو دنیا بھر کے سامنے عیاں کر دیا ہے۔ سفید فام نسل پرست حکومت سے نام نہاد آزادی حاصل کرنے کے بعد کے سالوں میں بے شمار تحریکوں کو ریاستی جبر کے ذریعے کچلا جا چکا ہے۔اس واقعے نے 1960ء میں اس وقت کی نسل پرست حکومت کے ہاتھوں شار پ ویل میں60سیاہ فاموں کے سفاکانہ قتل عام کی یاد تازہ کر دی ہے۔

     

  • شام: ردانقلاب بمقابلہ ردانقلاب

    اس وقت شام کے اندر لڑائی اس کے دو سب سے بڑے شہروں،دمشق اور حلب (الیپو) کے اندر تک پھیل چکی ہے،ہم یہ سمجھ سکتے اور کہہ سکتے ہیں کہ شام کی یہ بے چینی پچھلے کچھ مہینوں کے اندر ایک اپنی نوعیت کی مسلح گوریلا لڑائی میں بدل چکی ہے جسے شام کی آزاد فوج کی قیادت میں لڑ ا جارہاہے۔دیکھنا سمجھنا یہ ہے کہ شام اس وقت کدھر جارہاہے،وہاں کیاہورہاہے؟انقلاب کیا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ جانچنا ہے کہ انقلاب کی کیفیت کیاہے اور کیا امکانات ہیں؟

  • برطانیہ: بینکاروں کی بدکاریاں

    Urdu translation of Britain: Diamond Bob - “Dude, I owe you big time!” (July 12, 2012).

  • بیمار نظام میں ڈاکٹروں کی ہڑتال

    Urdu translation of Pakistan: Doctors strike in a sick system (July 11, 2012).

  • سپین: ہڑتالی کان کنوں کا میڈرڈ میں شاندار استقبال

    Urdu translation of Striking miners get heroes' welcome in Madrid (July 11, 2012).

  • اداریہ جدوجہد: جبرِمسلسل

    Urdu translation of Pakistan: The curse of July '77 by Lal Khan.

  • یورو کا بحران اور بائیں بازو کا تذبذب

    یونان کا بحران ایک فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو رہا ہے۔ موجودہ الیکشنوں سے پیشتر بے شمار یقین دہانیاں کروائی گئیں تھیں لیکن ہر کوئی جانتا ہے کہ نقصانات کو کم سے کم کرنے کے لئے در حقیقت یونان کو یورو زون نکالنے کی تیاریاں کی جارہی ہیں جس کا تمام تر ملبہ بعد میں ’’غیر ذمہ دار‘‘ یونانی شہریوں پر ڈال دیا جائے گا۔

  • وینزویلا میں انقلابی ٹریڈ یونین رہنما کو قتل کرنے کی ناکام کوشش

    21مئی کو بروز سوموار کامریڈ ابراہم ریواس کو قتل کرنے کی ایک ناکام کاشش کی گئی۔ریواس National Union of Workers of Helados اور حال ہی میں قائم کی گئی National Federation of Workers in Food, Beverages and Other Companiesکے جنرل سیکرٹری ہیں جو کہ گروپو پولر کی ملکیت میں موجود 21کمپنیوں کے مزدوروں کو منظم کر رہی ہے۔وہ بولیویرین انقلاب کے سر گرم کارکن اور مارکسی رجحان (Luche de Clases)کے حامی ہیں۔

  • کینیڈا:حقوق اور حکمرانوں کے مابین جنگ کی ابتدا

    منگل22مئی کو کینیڈا نے اپنی تاریخ کی سب سے بڑی سول نافرمانی کا تجربہ کیا۔ڈھائی لاکھ سے لے کر ساڑھے تین لاکھ تک نوجوان اور محنت کش مانٹریال کی سڑکوں پر نکل آئے اور اس ایمرجنسی قانون کو اپنے پاؤں تلے روند دیا جس کے تحت کسی بھی قسم کے مظاہرے کیلئے پولیس سے آٹھ گھنٹے پہلے منظوری لینی لازمی ہوتی ہے۔ مظاہرین نے سرکاری روٹ کو مسترد کردیا اور ریاستی حدودووقیود سے باہر نکل آئے۔

  • تبدیلی، مگر کیسی؟

    حد سے زیادہ دھوم دھڑکا کرنے والی عدلیہ کے ہاتھوں ایک نسبتاً کمزور وزیرِ اعظم کی معزولی ریاست کے مختلف حصوں کے مابین جاری لڑائیوں ہی کا ایک تسلسل ہے۔ پاکستانی ریاست کے اندرونی تضادات کے پیچھے پاکستانی حکمران طبقے کے مفادات کا تحفظ کار فرما ہے۔ ریاست کے ان نام نہاد ستونوں کے مابین جاری یہ اندرونی جھگڑا سماج میں پھیلی گہری بے قراری کا اظہار ہے جو اب ایک تباہ کن طوفان کی شکل اختیار کر چکا ہے اورجو اس نظام اور سیاست کے تابع سماجی ڈھانچوں کو برباد کر سکتا ہے۔ ایک کے بعد دوسری سول اور فوجی حکومتوں کی جانب سے سرمایہ دارانہ نظام کو بچانے اور مسلط رکھنے کی معاشی پالیسیوں نے سماج کو تاراج اور اس دھرتی کے باسی عوام پر بے رحمانہ طریقے سے معاشی اور سماجی مظالم ڈھائے ہیں۔سامراجی کی ڈاکہ

    ...
  • اخوان المسلمون کی جیت؛ لگا ہے مصر کا بازار دیکھو

    مصر میں اخوان المسلمون کے امیدوار محمد مرسی نیمصری الیکشن کمیشن کے اعلامیے کے مطابق51.73 فیصد ووٹ لے کر کامیابی حاصل کر لی ہے، اس کے مقابلے میں مصری فوجی کونسل کے امیدوار احمد شفیق نے48.73فیصد ووٹ لیے۔ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم ان اعداد و شمار کا بغور تجزیہ کریں۔سرکاری اعداد وشمار کے مطابق الیکشن میں مجموعی طور پر 51.8فیصد ٹرن آؤٹ رہا۔لیکن بے شمار مبصرین کے مطابق ووٹ ڈالنے والوں کی تعداداس سے بہت ہی کم تھی۔اور اگر ہم ان سرکاری اعددوشمار کو کچھ دیر کیلئے درست تسلیم بھی کرلیں تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اخوان کو مصرکے کل ووٹوں کا صرف25فیصد حاصل ہواہے۔ اس کے علاوہ عین ممکن ہے کہ بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے افراد کی نا معلوم تعداد نے بھی اخوان ا لمسلمون کو ’’چھوٹی برائی‘‘

    ...