Urdu
بالشویک انقلاب کے95 سال؛
بعض اوقات کئی دہائیاں بیت جاتی ہیں اور کچھ نہیں ہوتا۔ لیکن پھر چند دنوں میں دہائیوں سے زیادہ اور بڑے واقعات رونما ہو جاتے ہیں۔ بیس سال قبل، سوویت یونین کے انہدام کے بعدنہ رکنے والی تکرار تھی،کہا جا رہا تھا کہ سیاست اور معیشت کے بڑے معرکوں کا حتمی فیصلہ ہو گیا ہے اور لبرل جمہوریت اور آزاد منڈی کی معیشت فتح یاب ہو چکی ہیں۔ سوشلزم کو تاریخ کی ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا گیا۔ سرمایہ داری کے منصوبہ ساز فتح کی خوشی میں مست تھے۔ فرانسس فوکو یاما کا پیش کردہ نظریہ ’’تاریخ کا خاتمہ‘‘ اور جارج بش سینئر کے1990ء کی دہائی میں ’’نیو ورلڈ آرڈر‘‘ کا مقصد ایک ایسی دنیاتھی جس میں بغیر حریف کے ایک ہی طاقت غالب ہو۔
مصر: انقلاب کی نئی اٹھان اور مورسی کی تذلیل کا آغاز
کل مورخہ 28نومبر کو اخوان المسلمون کے خلاف احتجاج کے چھٹے دن، غم و غصے سے بھرے لاکھوں لوگ ایک بار پھر تحریر سکوائر پر جمع تھے۔ نے بڑے بڑے بینر اٹھا رکھے تھے جن پر ’’اخوان المسمون والے جھوٹے ہیں‘‘، ’’اخوان المسلمون نے انقلاب کو چوری کر لیا ہے‘‘ اور اس جیسے دوسرے نعرے درج تھے۔ تمام دن شہر بھر سے جلوسوں اور ریلیوں کے تحریر سکوائر پہنچنے کا سلسلہ جاری رہا۔ تعداد اور جوش و ولولے کے حوالے سے تحریر سکوائر پر ہونے والا یہ مظاہرہ جنوری 2011ء کے مظاہروں کے برابر تھا جنہوں نے حسنی مبارک کو استعفیٰ دینے پر مجبور کیا تھا۔ جیسے جیسے دن گزرتا گیا لوگوں کی تعداد بھی بڑھتی گئی اور منتظمین کی امیدوں سے زیادہ لوگوں نے مظاہرے میں حصہ لیا۔ اخوان المسلمون نے خود تین لاکھ لوگوں کی موجودگی کا
...فلسطین کے رستے ہوئے زخم
گزشتہ ہفتے ایک دفعہ پھرغزہ جل رہا تھا۔ اسرائیل کی رجعتی ریاست کی بے رحم جارحیت نے سینکڑوں بشمول عورتوں اور بچوں کو ہلاک اور اپاہج بنا دیا ہے۔ یہ ایک دفعہ پھر صیہونی اشرافیہ اور مشرق وسطیٰ میں سامراج کی بیرونی چوکی کی خونخواری کو عیاں کر رہا ہے۔ غز ہ پر قاتلانہ ’’آپریشن سیسہ پلانا‘‘ (Operation Cast Lead) کے چار برس بعد، 14نومبر 2012ء کو اسرائیلی فوج نے ایک اور تباہ کن حملہ کیا جس کا نام ’’دفاع کا مینار‘‘ (Pillar of Defence) رکھا گیا۔ ’’سیسہ پلانے‘‘ کے آپریشن کی طرح یہ بھی جنوری 2013ء میں ہونے والے اسرائیلی انتخابات سے چند ہفتے پہلے کیا گیا۔ ملک کو درپیش سماجی اور معاشی مسائل سے ووٹروں کی توجہ ہٹانے کے لیے فوجی آپریشن شروع کر دینا اسرائیلی حکومتوں کی پرانی سیاسی روایت ہے۔ غز
...غزہ پر اسرائیلی جارحیت؛ مقاصد کیا ہیں؟
15نومبر کی صبح اسرائیل نے حماس کے رہنمااحمد الجباری کو غیر عدالتی طور پر قتل کر دیا۔ اس واقعے کے بعد اسرائیل اور غزہ کے درمیان خونی تنازعے کا آغاز ہو گیا۔ یہ تمام تر سلسلہ پہلے سے سوچی سمجھی اشتعال انگیزی کی پیداوار تھا۔
عوام کب اٹھیں گے؟
کھوکھلی بحثوں میں بے معنی سیاسی لفاظی کے تند و تیز شور کے باوجود سماج پر سیاسی لاتعلقی کی ملالت چھائی ہوئی ہے۔ اگرچہ مجبور عوام کی جانب سے خوفناک سماجی اور معاشی حملوں کے خلاف وقفے وقفے سے لا تعداد مظاہرے اور تحریکیں چلی ہیں لیکن ایک بڑے پیمانے کی عوامی تحریک ابھی تک سامنے نہیں آئی۔ کلبی سوچ کے تحت دانشور محنت کشوں اور عوام کو عاجز، غلام، بزدل، ناتواں اور کرپٹ ہونے کا دوش دیتے ہیں۔ ان کی اکثریت اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ طبقاتی جدوجہد کا خاتمہ ہو چکا ہے اور استحصال و جبر کے خلاف اب کبھی بغاوت نہیں اٹھے گی۔
پہلی یورپ گیر عام ہڑتال
14نومبر کو سارے یورپ میں طبقاتی جدوجہد کاایسا طوفان آیا جس کی مثال پہلے کبھی نہیں ملتی۔ 23 ممالک میں چالیس یونینوں نے عام ہڑتالیں، ہڑتالیں، احتجاج اور مظاہرے کیے۔ یہ سب ان کٹوتیوں کے اقدامات اور معیارِ زندگی پر کیے جانے والے حملوں کے خلاف ہوا جو بر سر اقتدار حکومتیں اس بر اعظم میں بوسیدہ اور بحران زدہ سرمایہ دارانہ نظام کو بچانے کے لیے کر رہی ہیں۔ اس ’یومِ عمل و یکجہتی‘ کی کال یورپی ٹریڈ یونین کنفیڈریشن نے دی تھی جس کی وجہ نیچے سے ان محنت کشوں اور نوجوانوں کا بڑھتا ہوا دباؤ ہے جو اجرتوں، پینشن، سماجی سہولیات میں ہونے والی کمی اور دیگر کٹوتیوں سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ بارسلونا کے مظاہرے میں کمیونسٹ ٹریڈ یونین فیڈریشن (CCOO) کے بینر پر لکھا تھا ’’ہم اس
...پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف پورے ملک میں احتجاجی مظاہرے
کے درمیان پرتشدد جھڑپیں ہوئیں ہیں جبکہ غیر متوقع طور پر بادشاہ کے خلاف نعرے سننے کو مل رہے ہیں۔
سپین انقلاب کی دہلیز پر
جولیا ایس ویدانیا، ایڈنبرگ، سکاٹ لینڈ میں رہتی ہیں لیکن ان کا تعلق سپین سے ہے۔ حال ہی میں جولیا اپنے آبائی شہر میڈرڈ گئیں۔ سرمایہ داری کے جاری بحران اوریورپ میں ہونے والی پے در پے کٹوتیوں نے سماج کی ساری ٹھاٹھ باٹھ کے تانے بانے ادھیڑ کے رکھ دیے ہیں جس کے نتیجے میں وہاں طبقاتی جدوجہد مزید گہری اور شدید ہوتی چلی جارہی ہے۔ اپنے اس مضمون میں جولیا نے وہاں موجود انقلابی کشمکش اور سماجی تناؤ کو اپنا موضوع بنایاہے۔
سروینٹیز کے شاہکار ناول ’’ ڈان کیخوٹے‘‘ کی 400ویں سالگرہ پر ایلن ووڈز کی خصوصی تحریر، پہلا حصہ
س سال ڈان کیخوٹے،اسپین کے ادب کی عظیم ترین تخلیق، کی پہلی اشاعت کو 400برس ہو گئے ہیں۔محنت کش طبقہ، یعنی وہ طبقہ جو ثقافت کے تحفظ میں سب سے زیادہ دلچسپی رکھتا ہے، اسے اس سالگرہ کوجوش وخروش سے منانا چاہیے۔یہ پہلاعظیم جدیدناول تھا، جو ایسی زبان میں لکھا گیا جسے عام لوگ سمجھ سکتے تھے۔ یہ مارکس کی پسندیدہ کتابوں میں سے ایک تھا، جو وہ اپنے بچوں کو پڑھ کے سناتا تھا۔
آخری حصہ: چی گویرا کون تھا اور کس مقصد کے لئے لڑا؟
چی گویرا کی 45ویں برسی پر اس عظیم انقلابی کی زندگی، جدوجہد اور نظریات کے بارے میں شائع کئے جارہے ایلن ووڈز کے مضمون کا چوتھا اور آخری حصہ پیش کیا جارہا ہے۔ بقیہ حصوں کے لنک صفحے کے آخر پر ملاحظہ فرمائیں۔
حصہ سوئم: چی گویرا کون تھا اور کس مقصد کے لئے لڑا؟
چی گویرا کی 45ویں برسی پر اس عظیم انقلابی کی زندگی، جدوجہد اور نظریات کے بارے میں شائع کئے جارہے ایلن ووڈز کے مضمون کا تیسرا حصہ پیش کیا جارہا ہے۔بقیہ حصوں کے لنک صفحے کے آخر پر ملاحظہ فرمائیں۔
کویت: ملک کی تاریخ کے سب سے بڑے احتجاجی مظاہرے
21اکتوبر، بروز اتوار تقریباً 150000سے زیادہ لوگ، جو کہ کویت کی آبادی کا 5فیصد جبکہ کل کویتی شہریوں کا 15فیصد بنتا ہے، احتجاج کرتے ہوئے دارلحکومت (کویت سٹی) کی سڑکوں پر امڈ آئے۔کویت کی تاریخ کے یہ سب سے بڑے مظاہرے حکومت کی جانب سے الیکشن قوانین میں تبدیلی کے خلاف تھے جسے اپوزیشن نے آئین پر حملہ قرار دیا ہے۔2006ء سے اب تک کویت کا امیرشیخ صبا الاحمد الصباح، چھ بار کویت کی پارلیمنٹ کو تحلیل کر چکا ہے۔آخری بار اس سال 20جون کو پارلیمنٹ کو فارغ کیا گیا ہے۔
حصہ دوم: چی گویرا کون تھا اور کس مقصد کے لئے لڑا؟
چی گویرا کی 45ویں برسی پر اس عظیم انقلابی کی زندگی، جدوجہد اور نظریات کے بارے میں شائع کئے جارہے ایلن ووڈز کےمضمون کا دوسراحصہ پیش کیا جارہا ہے۔بقیہ حصوں کے لنک صفحے کے آخر پر ملاحظہ فرمائیں۔
دیوتاؤں کا تصادم
اصغر خان کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے نے ریاست کے اہم ترین اداروں کے درمیان اور ان کے اندر بڑھتے ہوئے اندرونی تنازعات کو عیاں کر دیا ہے، جن اداروں میں دیوتا، سیاسی انتظامیہ، عسکری اسٹیبلش منٹ اور عدلیہ شامل ہیں۔ فیصلے میں دائیں بازو اور مذہبی سیاست دانوں اور جماعتوں کو 1990ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کو شکست دینے کے لیے آئی جے آئی ( اسلامی جمہوری اتحاد) بنانے کے لیے کروڑوں روپے دینے پر آئی ایس آئی کی سرزنش کی گئی ہے۔ ملک کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی اوریہ اندرونی اختلافات اور پاکستانی سرمایہ داری کے بحران کی وجہ سے برباد ہوتی معیشت اور بکھرتے ہوئے سماج کے نتیجے میں ریاست کے گلنے
...اوباما بمقابلہ رومنی! کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں؟
یقین نہیں آتا کہ اوباما کو منتخب ہوئے چار سال گزر بھی گئے۔جب سڑکیں نعرے لگاتے ہوئے لوگوں اور ہارن بجاتی ہوئی گاڑیوں سے بھر گئی تھیں اور بے شمار لوگوں کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔بش کے آٹھ سال صدر رہنے کے بعد ’’تبدیلی‘‘ آخر کار آ گئی تھی، کیا یہ واقعی تبدیلی تھی؟ جیسے جیسے وقت گزرتا گیا یہ بات واضح ہوتی گئی کہ اوباما دراصل بش ہی کا ایک تسلسل تھانہ کہ کسی خوشحالی یا تبدیلی کا علم بردار!
Page 33 of 46