Urdu
وینزویلا: اپوزیشن کی رد انقلابی مہم کے جواب میں نیاانقلابی ابھار
شاویز کی خرابی صحت کو بہانہ بنا کر وینزویلا کے حکمران طبقات اور سامراج نے بولیویرین انقلاب کو کمزورکرنے کی اپنی مہم کو اور بھی تیز کردیاہے جس سے محنت کش طبقے اور غریبوں کا غم و غصہ پھٹنے کے امکانات بھی بڑھ گئے ہیں۔
لانگ مارچ کا ڈھونگ؛ انقلاب کے نام پر انقلاب کا سبوتاژ
ریاست کے کچھ حصوں، سامراج اور حکمران طبقات کے دھڑوں کی جانب سے حقیقی انقلابی تحریک کو دبائے رکھنے اور اسے منقسم کرنے کے لیے تحریک کے نام پر ایک اور ڈھونگ رچایا جا رہا ہے۔ دائیں بازو کے پر جوش خطیب مولا ناطاہر القادری کے ’لانگ مارچ‘ پر کروڑوں نہیں بلکہ اربوں روپے پانی کی طرح بہائے جار ہے ہیں۔ پیسو ں کے ڈھیر تلے دب چکے سرمایہ دارانہ میڈیا پر بہت بڑی مہم شروع ہے جس سے لاہور اور اسلام آباد میں بیٹھے پہلے سے خوفزدہ حکمران ہیجان میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ ٹی وی سے شہرت پانے والے اس شخص کے راتوں رات عروج پر سماج میں کئی طرح کی سازشی تھیوریاں اور قیاس آرائیاں گردش کر رہی ہیں۔
نیشنل یوتھ مارکسی سکول (سرما)، ٹھٹھہ سندھ
کسی بھی انقلابی پارٹی کی تعمیر میں نوجوانوں کا کردار فیصلہ کن حیثیت کا حامل ہوتا ہے۔ مارکسزم لینن ازم کے نظریات سے مسلح ہو کر ہی نوجوان اپنی تمام تر توانائیوں کو مجتمع کرتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام پر کاری ضربیں لگا کر اسے پاش پاش کر سکتے ہیں۔ لینن نے نظریاتی تعلیم و تربیت کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’انقلابی تھیوری کے بغیر کوئی انقلابی تحریک نہیں چل سکتی‘‘۔ انقلابی سوشلزم اور مارکسزم کے نظریات کی پیاس کو بجھانے اور نظریاتی تعلیم و تربیت کے عمل کو آگے بڑھانے کے لئے ملک بھر سے بڑی تعداد میں نوجوان گزشتہ دنوں کینجر جھیل (ٹھٹھہ) کے کنارے جمع ہوئے جہاں 7، 8 اور 9 دسمبر کو نیشنل مارکسی سکول کا انعقاد کیا گیا۔ انقلابی جوش و جذبے نے ہزاروں کلو میٹر کے فاصلے سمیٹ کر رکھ
...بھٹو کی میراث
عوام پاکستانی سرمایہ داری کے بحران کے بوجھ تلے کچلے جا رہے ہیں اور پیپلز پارٹی لیڈروں کی برسیوں اور سالگرہوں کی سیاست میں لگی ہے۔ 27 دسمبر کو بینظیر بھٹو کی برسی تھی اور 5 جنوری ذوالفقار علی بھٹو کا جنم دن منایا گیا۔
ایران: موجودہ صورتحال کی ایک جھلک
گزشتہ سال سے ایران سرمایہ داری کے گہرے ہوتے ہوئے بحران کی زد میں ہے، جوکہ گزشتہ چندماہ میں شدید افراطِ زر (Hyper Inflation) اور ایرنی کرنسی کی قدر میں کمی کا باعث بنا ہے۔ ایران کے حالیہ سفر میں موجودہ صورتحال کا تناظر زیادہ واضح ہوااور خاص طور پر یہ بات کھل کر سامنے آئی کہ عام لوگ بگڑتی ہوئے حالات کے ساتھ کیسے نبرد آزما ہیں۔
سقوطِ بنگال کی اصل داستان
دسمبر1971ء میں پاکستان کے دولخت ہونے کے اصل ذمہ داران کا تعین کرنے کی لا متناہی بحث نے حقیقی سوال کو الجھانے کے سوا کچھ نہیں کیا۔ افراد، اداروں اور حادثاتی واقعات کو دوش دے کر اس تقسیم میں ریاست اور نظام کے کردار کی پردہ پوشی کی جاتی رہی ہے۔ مختلف رجحانات رکھنے والے بورژا دانشور اپنے تجزیوں میں اس واقعہ کو مختلف رنگ دیتے ہیں۔ مذہبی شاؤنسٹ عناصر شازشی تھیوریوں (Conspiracy Theories) کا سہارا لیتے ہیں جبکہ آزاد خیال دانشوروں (Liberals) کی جانب سے اس سارے عمل کی وجہ کو قومی جبر تک محدود کر دیا جاتا ہے۔
شاویز کی بیماری اور سرمایہ داری
8دسمبرکو صدر شاویز نے اعلان کیا کہ وہ کینسر کے دوبارہ علاج معالجے کیلئے کیوبا جارہاہے اور یہ بھی کہا ہے کہ اس طرح کی بیماری میں ہر قسم کے رسک ہواکرتے ہیں۔ شاویز نے کہا کہ اگر اسے کچھ ایساہوبھی جاتاہے کہ جس کے باعث وہ صدارت کے فرائض سرانجام نہیں دےپاتا تو اس کے نائب صدرماڈوروکو اس کی جگہ صدر بنادیاجائے۔ شاویز کا یہ اعلان بولیویرین موومنٹ والوں کیلئے ایک دھچکاثابت ہوا۔ پہلی بار ایساہواہے کہ شاویز نے اس قسم کی بات کی ہے کہ اس کے بغیر معاملات چلائے جاسکتے ہیں یا چلائے جانے پڑ سکتے ہیں۔ انقلابی قیادت کی یہ متوقع تبدیلی اس بات کا اشارہ کرتی ہے کہ شاویز کو اپنی صحت بارے تشویش لاحق ہوچکی ہے۔ اس اعلان کے بعد لاکھوں افراد اپنے اپنے شہروں کے مرکزی چوکوں پر جمع ہوگئے اور انہوں نے شاویز
...پاکستان پیپلز پارٹی کی میراث
30نومبر1967ء کی دھندلی صبح پاکستان کے مختلف علاقوں سے تین سوکے قریب افراد ہر طرح کی مشکلات اور سماج کے جمود کا مقابلہ کرتے ہوئے سماجی و معاشی انصاف کی جدوجہد میں لاہور میں اکٹھے ہوئے۔ موسم خزاں کی فضا میں انقلاب کی مہک تھی۔ پارٹی کی تاسیسی دستاویزات غیر مبہم تھیں، ’’پارٹی کے پروگرام کا حتمی مقصد طبقات سے پاک معاشرے کا قیام ہے جو صرف سوشلزم کے ذریعے ہی ممکن ہے‘‘۔ لیکن پی پی پی کو عوامی قوت بنانے والے واقعات کا نکتہ آغاز راولپنڈی میں طلباء کی بغاوت سے ہوا جس نے ملکی تاریخ کے سب سے طاقتور انقلاب کا آغاز کیا۔ ...
بالشویک انقلاب کے95 سال؛
بعض اوقات کئی دہائیاں بیت جاتی ہیں اور کچھ نہیں ہوتا۔ لیکن پھر چند دنوں میں دہائیوں سے زیادہ اور بڑے واقعات رونما ہو جاتے ہیں۔ بیس سال قبل، سوویت یونین کے انہدام کے بعدنہ رکنے والی تکرار تھی،کہا جا رہا تھا کہ سیاست اور معیشت کے بڑے معرکوں کا حتمی فیصلہ ہو گیا ہے اور لبرل جمہوریت اور آزاد منڈی کی معیشت فتح یاب ہو چکی ہیں۔ سوشلزم کو تاریخ کی ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا گیا۔ سرمایہ داری کے منصوبہ ساز فتح کی خوشی میں مست تھے۔ فرانسس فوکو یاما کا پیش کردہ نظریہ ’’تاریخ کا خاتمہ‘‘ اور جارج بش سینئر کے1990ء کی دہائی میں ’’نیو ورلڈ آرڈر‘‘ کا مقصد ایک ایسی دنیاتھی جس میں بغیر حریف کے ایک ہی طاقت غالب ہو۔
مصر: انقلاب کی نئی اٹھان اور مورسی کی تذلیل کا آغاز
کل مورخہ 28نومبر کو اخوان المسلمون کے خلاف احتجاج کے چھٹے دن، غم و غصے سے بھرے لاکھوں لوگ ایک بار پھر تحریر سکوائر پر جمع تھے۔ نے بڑے بڑے بینر اٹھا رکھے تھے جن پر ’’اخوان المسمون والے جھوٹے ہیں‘‘، ’’اخوان المسلمون نے انقلاب کو چوری کر لیا ہے‘‘ اور اس جیسے دوسرے نعرے درج تھے۔ تمام دن شہر بھر سے جلوسوں اور ریلیوں کے تحریر سکوائر پہنچنے کا سلسلہ جاری رہا۔ تعداد اور جوش و ولولے کے حوالے سے تحریر سکوائر پر ہونے والا یہ مظاہرہ جنوری 2011ء کے مظاہروں کے برابر تھا جنہوں نے حسنی مبارک کو استعفیٰ دینے پر مجبور کیا تھا۔ جیسے جیسے دن گزرتا گیا لوگوں کی تعداد بھی بڑھتی گئی اور منتظمین کی امیدوں سے زیادہ لوگوں نے مظاہرے میں حصہ لیا۔ اخوان المسلمون نے خود تین لاکھ لوگوں کی موجودگی کا
...فلسطین کے رستے ہوئے زخم
گزشتہ ہفتے ایک دفعہ پھرغزہ جل رہا تھا۔ اسرائیل کی رجعتی ریاست کی بے رحم جارحیت نے سینکڑوں بشمول عورتوں اور بچوں کو ہلاک اور اپاہج بنا دیا ہے۔ یہ ایک دفعہ پھر صیہونی اشرافیہ اور مشرق وسطیٰ میں سامراج کی بیرونی چوکی کی خونخواری کو عیاں کر رہا ہے۔ غز ہ پر قاتلانہ ’’آپریشن سیسہ پلانا‘‘ (Operation Cast Lead) کے چار برس بعد، 14نومبر 2012ء کو اسرائیلی فوج نے ایک اور تباہ کن حملہ کیا جس کا نام ’’دفاع کا مینار‘‘ (Pillar of Defence) رکھا گیا۔ ’’سیسہ پلانے‘‘ کے آپریشن کی طرح یہ بھی جنوری 2013ء میں ہونے والے اسرائیلی انتخابات سے چند ہفتے پہلے کیا گیا۔ ملک کو درپیش سماجی اور معاشی مسائل سے ووٹروں کی توجہ ہٹانے کے لیے فوجی آپریشن شروع کر دینا اسرائیلی حکومتوں کی پرانی سیاسی روایت ہے۔ غز
...غزہ پر اسرائیلی جارحیت؛ مقاصد کیا ہیں؟
15نومبر کی صبح اسرائیل نے حماس کے رہنمااحمد الجباری کو غیر عدالتی طور پر قتل کر دیا۔ اس واقعے کے بعد اسرائیل اور غزہ کے درمیان خونی تنازعے کا آغاز ہو گیا۔ یہ تمام تر سلسلہ پہلے سے سوچی سمجھی اشتعال انگیزی کی پیداوار تھا۔
عوام کب اٹھیں گے؟
کھوکھلی بحثوں میں بے معنی سیاسی لفاظی کے تند و تیز شور کے باوجود سماج پر سیاسی لاتعلقی کی ملالت چھائی ہوئی ہے۔ اگرچہ مجبور عوام کی جانب سے خوفناک سماجی اور معاشی حملوں کے خلاف وقفے وقفے سے لا تعداد مظاہرے اور تحریکیں چلی ہیں لیکن ایک بڑے پیمانے کی عوامی تحریک ابھی تک سامنے نہیں آئی۔ کلبی سوچ کے تحت دانشور محنت کشوں اور عوام کو عاجز، غلام، بزدل، ناتواں اور کرپٹ ہونے کا دوش دیتے ہیں۔ ان کی اکثریت اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ طبقاتی جدوجہد کا خاتمہ ہو چکا ہے اور استحصال و جبر کے خلاف اب کبھی بغاوت نہیں اٹھے گی۔
پہلی یورپ گیر عام ہڑتال
14نومبر کو سارے یورپ میں طبقاتی جدوجہد کاایسا طوفان آیا جس کی مثال پہلے کبھی نہیں ملتی۔ 23 ممالک میں چالیس یونینوں نے عام ہڑتالیں، ہڑتالیں، احتجاج اور مظاہرے کیے۔ یہ سب ان کٹوتیوں کے اقدامات اور معیارِ زندگی پر کیے جانے والے حملوں کے خلاف ہوا جو بر سر اقتدار حکومتیں اس بر اعظم میں بوسیدہ اور بحران زدہ سرمایہ دارانہ نظام کو بچانے کے لیے کر رہی ہیں۔ اس ’یومِ عمل و یکجہتی‘ کی کال یورپی ٹریڈ یونین کنفیڈریشن نے دی تھی جس کی وجہ نیچے سے ان محنت کشوں اور نوجوانوں کا بڑھتا ہوا دباؤ ہے جو اجرتوں، پینشن، سماجی سہولیات میں ہونے والی کمی اور دیگر کٹوتیوں سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ بارسلونا کے مظاہرے میں کمیونسٹ ٹریڈ یونین فیڈریشن (CCOO) کے بینر پر لکھا تھا ’’ہم اس
...پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف پورے ملک میں احتجاجی مظاہرے
کے درمیان پرتشدد جھڑپیں ہوئیں ہیں جبکہ غیر متوقع طور پر بادشاہ کے خلاف نعرے سننے کو مل رہے ہیں۔
سپین انقلاب کی دہلیز پر
جولیا ایس ویدانیا، ایڈنبرگ، سکاٹ لینڈ میں رہتی ہیں لیکن ان کا تعلق سپین سے ہے۔ حال ہی میں جولیا اپنے آبائی شہر میڈرڈ گئیں۔ سرمایہ داری کے جاری بحران اوریورپ میں ہونے والی پے در پے کٹوتیوں نے سماج کی ساری ٹھاٹھ باٹھ کے تانے بانے ادھیڑ کے رکھ دیے ہیں جس کے نتیجے میں وہاں طبقاتی جدوجہد مزید گہری اور شدید ہوتی چلی جارہی ہے۔ اپنے اس مضمون میں جولیا نے وہاں موجود انقلابی کشمکش اور سماجی تناؤ کو اپنا موضوع بنایاہے۔
سروینٹیز کے شاہکار ناول ’’ ڈان کیخوٹے‘‘ کی 400ویں سالگرہ پر ایلن ووڈز کی خصوصی تحریر، پہلا حصہ
س سال ڈان کیخوٹے،اسپین کے ادب کی عظیم ترین تخلیق، کی پہلی اشاعت کو 400برس ہو گئے ہیں۔محنت کش طبقہ، یعنی وہ طبقہ جو ثقافت کے تحفظ میں سب سے زیادہ دلچسپی رکھتا ہے، اسے اس سالگرہ کوجوش وخروش سے منانا چاہیے۔یہ پہلاعظیم جدیدناول تھا، جو ایسی زبان میں لکھا گیا جسے عام لوگ سمجھ سکتے تھے۔ یہ مارکس کی پسندیدہ کتابوں میں سے ایک تھا، جو وہ اپنے بچوں کو پڑھ کے سناتا تھا۔
آخری حصہ: چی گویرا کون تھا اور کس مقصد کے لئے لڑا؟
چی گویرا کی 45ویں برسی پر اس عظیم انقلابی کی زندگی، جدوجہد اور نظریات کے بارے میں شائع کئے جارہے ایلن ووڈز کے مضمون کا چوتھا اور آخری حصہ پیش کیا جارہا ہے۔ بقیہ حصوں کے لنک صفحے کے آخر پر ملاحظہ فرمائیں۔
حصہ سوئم: چی گویرا کون تھا اور کس مقصد کے لئے لڑا؟
چی گویرا کی 45ویں برسی پر اس عظیم انقلابی کی زندگی، جدوجہد اور نظریات کے بارے میں شائع کئے جارہے ایلن ووڈز کے مضمون کا تیسرا حصہ پیش کیا جارہا ہے۔بقیہ حصوں کے لنک صفحے کے آخر پر ملاحظہ فرمائیں۔
کویت: ملک کی تاریخ کے سب سے بڑے احتجاجی مظاہرے
21اکتوبر، بروز اتوار تقریباً 150000سے زیادہ لوگ، جو کہ کویت کی آبادی کا 5فیصد جبکہ کل کویتی شہریوں کا 15فیصد بنتا ہے، احتجاج کرتے ہوئے دارلحکومت (کویت سٹی) کی سڑکوں پر امڈ آئے۔کویت کی تاریخ کے یہ سب سے بڑے مظاہرے حکومت کی جانب سے الیکشن قوانین میں تبدیلی کے خلاف تھے جسے اپوزیشن نے آئین پر حملہ قرار دیا ہے۔2006ء سے اب تک کویت کا امیرشیخ صبا الاحمد الصباح، چھ بار کویت کی پارلیمنٹ کو تحلیل کر چکا ہے۔آخری بار اس سال 20جون کو پارلیمنٹ کو فارغ کیا گیا ہے۔
Page 25 of 35