Urdu

  • جینا امینی: کرد خاتون کا قتل اور ایران میں تحریک کا جنم

    13 ستمبر کو ایرانی ’اخلاقی پولیس‘ نے جینا ایمینی نامی ایک کرد لڑکی کو حراست میں لیا، جو اپنے بھائی کے ساتھ ایرانی کردستان کے شہر سیقیز سے تہران آئی تھی۔ اس کے بھائی نے مداخلت کرنے کی کوشش کی اور پولیس سے پوچھا: ”ہم یہاں غیر ملکی ہیں، آپ اسے کیوں گرفتار کر رہے ہیں؟“، تو انہوں نے اسے بھی مارا پیٹا۔ اس کے بعد انہوں نے جینا کواس وقت تک تشدد کا نشانہ بنایا جب تک وہ بے ہوش نہیں ہوگئی۔ اسے ہسپتال لے جایا گیا، اور جمعہ 16 ستمبر کو وہ زخموں کی شدت کی وجہ سے انتقال کر گئی۔

  • برطانیہ: بدترین معاشی و سیاسی بحران اور طبقاتی کشمکش میں شدت

    ایک کہاوت ہے کہ عوام کو وہی حکومت ملتی ہے جس کی وہ حق دار ہے۔ ٹراٹسکی نے اپنے شاہکار مضمون ”طبقہ، پارٹی اور قیادت“ میں نشاندہی کی تھی کہ یہ کہاوت غلط ہے۔ ایک ہی عوام کو قلیل عرصے میں مختلف قسم کی حکومتیں مل سکتی ہیں اور ملتی بھی ہیں۔

  • سرمایہ داری کا گہرا ہوتا بحران، بڑھتا افراط زر اور شرح سود؛ متوقع دیوالیے اور معاشی تباہی

    بے قابو افراطِ زر کو کنٹرول کرنے کے لئے مرکزی بینک شرح سود بڑھا رہے ہیں اور نتیجتاً کساد بازاری جنم لے رہی ہے۔ ہر لمحہ سنگین ہوتا سرمایہ دارانہ بحران حکمران طبقے میں تقسیم کو بڑھا رہا ہے۔ ایک سوشلسٹ انقلاب ہی اس بند گلی سے باہر نکلنے کا راستہ فراہم کر سکتا ہے۔

  • برطانوی شاہی خاندان: کھیل تماشا ختم ہو چکا!

    ایک اطالوی کہاوت ہے کہ: مذاق ختم ہوا۔ سرکاری طور پر دس دن کے مسلط کردہ ”قومی سوگ“ کے بعد ویسٹ منسٹر ایبی (تاریخی چرچ جہاں برطانوی بادشاہوں اور ملکاؤں کی تاج پوشی ہوتی ہے) میں 19 ستمبر پیر کے دن ملکہ الزبتھ کا ریاستی جنازہ منعقد کیا گیا۔

  • دنیا بھر میں تیل اور گیس کا بحران: سرمایہ داروں کی منافع خوری، محنت کشوں کی ذلت

    سرد موسمِ سرما کی آمد ہے۔ نیٹو اور روس کے سامراجی تصادم کا پورا بوجھ محنت کشوں اور غریبوں کے اوپر پڑ رہا ہے جو اس کی قیمت آسمان کو چھوتے بلوں اور ٹھنڈے گھروں کی صورت چکا رہے ہیں، جبکہ مٹھی بھر گیس اور تیل کے بڑے بڑے کاروباری اشخاص منافعوں کے مزے لوٹ رہے ہیں۔

  • ایران: نوجوان کرد لڑکی مھسا امینی کے قتل کے بعد ملک گیر انقلابی تحریک کا اُبھار

    ایران کی بدنامِ زمانہ اخلاقی پولیس (گشتِ ارشاد) کے ہاتھوں نوجوان کرد لڑکی ژینا مھسا امینی کے قتل کے خلاف ایران بھر میں احتجاجوں کا سلسلہ دیکھنے کو ملا ہے۔ احتجاجوں کا آغاز ایران کے کرد علاقوں میں ہوا اور اس کے بعد وہ ملک کے بڑے شہروں سمیت 30 سے زائد شہروں تک پھیل گئے، جن میں تہران، مشھد، اصفہان، کرج، تبریز اور نام نہاد مقدس شہر قم شامل ہیں۔ اس سلسلے کا آغاز پولیس تشدد کے خلاف ردعمل کے طور پر ہوا تھا مگر جلد ہی اس میں پوری ریاست کے خلاف غم و غصّے کا اظہار کیا جانے لگا۔

  • سری لنکا: عوامی تحریک پر حکمرانوں کے حملے! ریاستی جبر کے انتقامی وار

    9 جولائی کو سری لنکا کے احتجاجی عوام بڑی تعداد کے ساتھ کولمبو میں موجود صدر گوٹابایا راجاپکشا کی رہائش میں گھس گئے۔ یہ پورے ملک میں مارچ سے جاری احتجاجی تحریک کا نقطہ عروج تھا۔ انہوں نے اس سے پہلے ہی تین حکومتی کابینوں، مرکزی بینک کے گورنر، اور گوٹا کے اپنے بھائیوں کوعہدوں سے دستبردار کروایا تھا۔ گوٹا کے بھائیوں میں سے ایک وزیرِ خزانہ باسیل راجاپکشا، اور دوسرا تب کا طاقتور وزیراعظم مہندا راجاپکشا تھا جسے 9 مئی کو مستعفی ہونے پر مجبور کیا گیا تھا۔

  • ملکہ برطانیہ کی موت: ظلم، جبر اور انسانیت دشمنی کی علامت سے جہاں پاک ہوا

    برطانیہ پر سب سے طویل حکمرانی کرنے والی ملکہ الزبتھ دوم کا دور ماضی کے استحکام کی علامت تھا۔ اس کی موت نئے بحرانی دور کا اعلان ہے۔۔۔برطانوی اسٹیبلشمنٹ کا ایک اور ستون منہدم ہو کر انقلابی مستقبل کا اعلان کر رہا ہے۔

  • برطانیہ: وزارت عظمیٰ کی کرسی پر ایک اور مزدور دشمن براجمان

    لز ٹرس ٹوری پارٹی قیادت کی دوڑ جیت کر برطانیہ کی نئی وزیرِ اعظم بن چکی ہے۔ اسے وراثت میں دیو ہیکل بحران ملے ہیں۔۔۔بے قابو توانائی کی قیمتیں اور ”سٹیگ فلیشن“ (بے قابو افراطِ زر اور جمود کا شکار معیشت) اور محنت کش تحریک کا سیلاب۔ مستقبل انقلابی دھماکوں سے لبریز ہے۔

  • میخائیل گورباچوف: وہ آدمی جو سٹالنزم کے اندرونی تضادات کو حل نہ کر پایا

    30 اگست کو سوویت یونین کا آخری سربراہ میخائیل سرگے وچ گورباچوف 91 سال کی عمر میں مر گیا۔ سوویت یونین میں ’اوپر سے‘ اصلاحات کرنے والی اس کی پالیسیاں، جسے وہ گلاسنوست (کشادگی) اور پیریسترائیکا (تعمیرِ نو) کے نام سے کر رہا تھا، سٹالنسٹ افسر شاہی کی مراعات برقرار رکھنے اور سوویت معیشت کے بدترین تضادات حل کرنے کی ایک آخری ناکام کوشش کا اظہار تھا۔ ان اقدامات کی ناگزیر ناکامی نے روس کے اندر سرمایہ داری کی بحالی، منصوبہ بند معیشت کی تباہی، اور لاکھوں افراد کو غربت میں دھکیلنے کے لیے راستہ کھول دیا۔ یہ بربادی گورباچوف کا ورثہ ہے۔

  • جنوبی افریقہ: معاشی بحران کی تباہی اور سماجی دھماکوں سے بھرپور مستقبل

    24 اگست کو ساؤتھ افریقن فیڈریشن آف ٹریڈ یونینز اور کانگریس آف ساؤتھ افریقن ٹریڈ یونینز کے ہزاروں محنت کشوں نے افریقہ بھر میں سڑکوں پر نکل کر شدید مہنگائی کے خلاف احتجاج کیا، جس نے محنت کش طبقے اور غرباء کو بالخصوص سخت متاثر کیا ہے۔

  • سوویت سینما: مونتاژ، انقلاب اور فنکارانہ آزادی کی جدوجہد

    انقلابِ روس نے تمام فنون کے اندر تخلیقی صلاحیتوں کو پروان چڑھایا، بالخصوص سینما کے اندر، جس کو زیگا ورتوف اور سرگے آئزنسٹائن جیسی شخصیات نے نئی بلندیوں تک پہنچایا، جو فلم کو طبقاتی جدوجہد کا ہتھیار سمجھتے تھے۔ اگرچہ سوویت یونین کی سٹالنسٹ زوال پذیری اس کی راہ میں رکاوٹ ثابت ہوئی، مگر فلم سازی کے میدان میں اکتوبر انقلاب کے ورثے کو آج بھی محسوس کیا جا سکتا ہے۔

  • بینک آف کینیڈا کا مزدور دشمن کردار

    بینک آف کینیڈا کے گورنر ٹِف میک لیم نے کاروباریوں سے ایک ملاقات میں کہا ہے کہ وہ اپنا فرض ادا کریں اور محنت کشوں کے معیارِ زندگی پر حملے کریں تاکہ افراطِ زر کو قابو کیا جا سکے۔ اگرچہ کمپنیاں تاریخی منافع ہڑپ کر رہی ہیں اور کوئی ایسا ثبوت نہیں جو ثابت کرے کہ اجرتوں اور افراطِ زر کا کوئی باہمی تعلق ہے، کینیڈا کا سب سے اہم بینکار اصرار کر رہا ہے کہ محنت کشوں پر جبر لازم ہے۔ اس سے بڑا اور کیا ثبوت چاہیئے کہ سرمایہ داری محنت کش دشمن ہے اور محنت کشوں کو اس کے خاتمے کے لئے جدوجہد کرنا ہو گی۔

  • تائیوان کا قومی سوال اور تائیوانی مارکس وادیوں کی ذمہ داریاں

    امریکی کانگریس کی سپیکر نینسی پیلوسی نے حال ہی میں تائیوان کا دورہ کیا ہے جس کے بعد تائیوانی قومی سوال ایک مرتبہ پھر عالمی سیاست کی توجہ بنا ہوا ہے۔ اگرچہ تائیوان ایک آزاد ریاست ہے لیکن چینی حکومت کا ہمیشہ موقف رہا ہے کہ یہ جزیرہ اس کا اٹوٹ انگ ہے۔ امریکہ نے اس دوران دہائیوں اپنا موقف دانستہ طور پر مبہم رکھا ہے۔ اس دانستہ توازن کے تابوت میں پیلوسی کا دورہ ایک اور کیل ثابت ہو رہا ہے جس کے بعد پورا علاقہ عدم استحکام کا شکار ہو چکا ہے۔

  • برطانیہ: بڑھتی مزدور تحریک اور انقلابی متبادل کی ضرورت

    حکمران طبقے کے حملوں کے خلاف ہڑتالوں اورتحریکوں کے ذریعے بڑے پیمانے پر جنگ کا آغاز ہو رہا ہے۔ جیتنے کے لیے محنت کشوں اور نوجوانوں کو لڑاکا حکمت عملی، جرات مندانہ سوشلسٹ پالیسیوں اور واضح انقلابی تناظر سے مسلح ہونا ہوگا۔