انقلاب کے انتخاب کا منتظر نیپال Urdu Share TweetUrdu translation of Nepal: Prachanda resigns ‑ a victory for the old regime? (May 26, 2009)پابلوسانچیز ، فریڈ ویسٹین ۔، ترجمہ ، اسدپتافی،11.06.2009۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سالوں کی مسلح جدوجہد کے بعد نیپالی ماﺅسٹوں نے اپنے ہتھیار ڈالتے ہوئے خود کو ایک پارلیمانی پارٹی میں ڈھال لیا ہے اور یوں اس کا یہ سفر اسے حکمرانی تک بھی لے گیا۔مگر اب انہیں ایک منظم طریقے سے اقتدار سے الگ کر دیاگیا ہے۔ یہ صورتحال اس بات کی فوری متقاضی ہے کہ اس کا تجزیہ کیا جائے کہ کیا ہورہاہے کیاہوسکتاہے؟نو مہینوں تک حکومت میں رہنے کے بعد پراچندا کا استعفیٰ نیپالی ماﺅسٹوں کی کمزور پوزیشن کو واضح کرتاہے جوانہوں نے اپنائے رکھیں ۔ مسلسل دس سلاوں کے گوریلا طرز جدوجہد کے بعد جس کے نتیجے میں انہیں نیپال کے زیادہ ترحصے پر کنٹرول بھی حاصل ہو چکاتھا ۔ کہ شہروں سے بھڑک اٹھنے والی انقلابی تحریک نے ان کےلئے ایسا ماحول کھول دیا کہ یہ الیکشن میں حصہ لے سکیں اور ایک بڑی موثر پارلیمانی طاقت کے طورپر ابھر کر سامنے آجائیں ۔ اس کے بعد وہ ایک ایسے راستے پر چل پڑے کہ جس کے ذریعے نیپالی ریاست کو اندر سے تبدیل کرنے کی کوشش کرنا تھی۔ اس عمل کے دوران ایک آئین ساز اسمبلی کا قیام عمل میں آیا،ایک نیا آئین مرتب کیا گیا ،اور ایک نئی پارلیما ن منتخب کی گئی۔ جس میں نہ صرف انہیں بھاری اکثریت میسر آئی اور ملک کی صدارت بھی مل گئی ۔ ایک قیمت جو کمیونسٹ پارٹی آف نےپال ایم کو خود کو ”قانونی ،، قرار دلوانے اور”امن وامان کے ماحول،، کو قائم کرنے کےلئے طلب کی گئی وہ یہ تھی کہ اسے اپنے گوریلوں کو ریاست کا پابند کرناہوگا۔آٹھائیس نومبر دو ہزار نو کو،، اسلحے اور مسلح افرادکی نگرانی اور انتظام وانصرام کے معاہدے،، نے اس سارے سیاسی سیٹ اپ کی بنیاد رکھی اور اس پر عملدرآمداقوام متحدہ کے ذریعے کیاگیا۔ الیکشن میں اپنی کامیابی کے چار مہینے بعد بابورام بھٹاریہ نے جو خزانے کا وزیر بن چکاتھا نے کہا”ہم ایک انتہائی اہم تاریخی عبور کے دور سے گزر رہے ہیں ۔ ہماراہدف تھا کہ ہم نیپال کی معاشی ترقی کی ٹھوس اور مستحکم بنیاد تعمیر کر لیں ۔ اسی بات کو ہی سامنے رکھتے ہوئے میں نے جو بجٹ تیار کیا ہے جسے آپ عوامی امنگوں کا سچاترجمان قراردے سکتے ہیں۔ لیکن میں نے اس کےلئے کسی کی کوئی پرواہ نہیں کی۔ ہمیں اگر اس پسماندہ معاشی ملک کو جدےد بنیادوں پر استوار کرناہے تو اس کےلئے ہمیں اسی جوش وجذبے کو مدنظررکھناہوگا۔ ( Interview with Dr. Baburam Bhattarai, Kantinpur Online, December 12, 2008) ماﺅسٹ کھلے عام یہ کہہ چکے ہیں کہ نیپالی ابھی سوشلزم کےلئے سازگار ملک نہیں ہے۔ مگر جو اس وقت کا تقاضااور ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ ایک جدید ومستحکم نیپالی معیشت کی راہ ہموار کی جائے۔ سوچ کا یہ زاویہ صاف طورپر یہ پیغام دے رہاہے کہ محنت کشوں اورکسانوں کے مفادات کی سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے مفادات کے ساتھ مصالحت کر ا دی جائے ۔اور اس”سماجی معاہدے ،، کےلئے فضا سازگار کی جائے۔ یہ کیفیت دراصل سٹالنزم کے دومرحلہ انقلاب کے تباہ کن نظریے کی دلیل کی عملداری کو بیان کرتی ہے جس میں پہلے مرحلے میں جسے نام نہاد جمہوریت نواز مرحلہ قراردیتے ہوئے محنت کشوں سے کہا جاتا ہے کہ وہ کسی بھی سوشلسٹ ہدف بارے نہ سوچیں۔ بلکہ اس کی بجائے وہ نام نہاد ”ترقی پسند سرمایہ داردھڑے،، کے ساتھ اتحاد و اختلاط قائم کریں ۔(یہ ایک ایسا دھڑا ہے جس کا آج تک کہیں کوئی وجود نہیں رہا)۔ اور یوں اس مرحلے کی تکمیل کے بعد کہ جب ملک بورژوا جمہوری انقلاب کے مرحلے سے بخےروخوبی گزر جائے گا اور معیشت اتنی جدید اور مکتفی ہو چکی ہوگی کہ محنت کشوں سے یہ کہہ دیا جائے گا کہ اب آپ بلاشک آزاد ہیں جو کرنا ہے کر لیں۔ تاریخ کے اب تک سبھی تجربات یہ بات ثابت کر چکے ہیں ۔ اس نظریے کا صرف ایک ہی مطلب اور ایک ہی نتیجہ نکلا ہے کہ محنت کشوں کو اقتدار اپنے ہاتھوں میں لینے سے روک دیاجائے اور یوں سرمایہ داروں جاگیرداروں کو یہ موقع مل جاتاہے کہ وہ سماج میں اپنی طاقت اپنی حیثیت اور اختیار کو ازسرنو بحال اور مضبوط کر لیں۔ اور جونہی ان کو اس بات کا اعتماد میسر آجاتا ہے کہ وہ ان عوام کے پسندیدہ لیڈروں سے اچھی طرح کام لے چکے ہیں تو وہ فوراًہی انہیں اقتدار سے نکال باہر کر دیتے ہیں ۔ اور ان کی جگہ اپنے ہی وفادار اور باعتماد نمائندوں کو دوبارہ حکومت میں لے آتے ہیں ۔ نیپال کے حالیہ واقعات ایک بار پھر اس بات کی نشاندہی اورتصدیق کرتے ہیں کہ وہ لوگ جو انقلاب کے دومرحلوں پر یقین رکھتے ہےں ان کو ایک بار پھر اوراس بارپھرہزیمت و ذلت کے ساتھ منہ کی کھانی پڑ گئی ہے۔ اگر نیپال کے کمیونسٹ ا س بات کا ادراک نہیں کرتے کہ وہاں کے سرمایہ دار اور جاگیردار کسی طرح بھی کوئی ترقی پسندانہ کرداراداکرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں توہ ایک کے بعد دوسری بھیانک غلطیاں کرتے جائیں گے۔ جس بات کا البتہ لازمی ادراک کرنے کی ضرورت ہے ،وہ یہ ہے کہ نیپال کے لاکھوں لوگوں نے کھٹمنڈو میں اکٹھے ہوکر ایک ہوکر بادشاہ کو بھاگنے پر مجبورکردیاتھا ، مگر ان کا ہدف بادشاہت کا خاتمہ کرکے جمہوریت کادوردورہ کرانانہیں تھا بلکہ اپنی زندگیوں میں حقیقی تبدیلی اور بہتری لاناتھا۔ اقتدار میں شامل ماﺅسٹوں کو بشمول سی پی این ۔ یو ایم ایل کے،یہ چنوتی کرناتھی کہ آےا وہ حکمران طبقات کو اکھاڑ کر پھینکتے ہیں یا پھر وہ نام نہاد خودساختہ جمہوری عناصر کے ساتھ اختلاط کریں گے؟جس بات کو سمجھنے میں وہ ناکام رہے ہیں وہ یہ ہے کہ انتہائی رجعتی سرمایہ دار اور جاگیردار عناصر بھی حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے جمہوریت جمہوریت کاگیت گانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے کیونکہ وہ اسے عوام کو خوش کرنے کا ذریعہ سمجھ رہے ہوتے ہیں اور جب اس دوران کوئی حقیقی مادی مراعات عوام کےلئے ممکن نہ ہو رہی ہو تو ایسے میں جمہوریت بہت کام کی شے ہوجاتی ہے۔ اور سب سے بڑھ کر اہم یہ بات بھی کہ اس قسم کی جمہوریت بازی سے ان کی دولت ان کی مراعات ان کے مفادات اور ان کے اقتدار کو کوئی خطرہ یا خدشہ لاحق نہیں ہوتا۔ ماﺅسٹوں کی قیادت میں قائم حکومت نے بزنس کلاس کے ساتھ اپنے اتحادواعتمادویگانگت کے اظہار کےلئے پچھلے دسمبر میں حسب ذیل اعلان جاری کیا”کم از کم کچھ خاص وقت کےلئے ہی سہی ، صنعت، صحت اور تعلیم کے شعبوں میں محاصروں اور ہڑتالوں پر پابندی لگانی ہو گی ، اسی کے ساتھ ساتھ شاہراہوں اور عوامی جگہوں پر مظاہروں وغیرہ سے بھی گریز کرناچاہئے ۔ حکومت بھرپورکوشش کررہی ہے کہ اس معاملے میں زیادہ سے زیادہ اتفاق رائے قائم کیاجاسکے ،، (Kantinpur online, December 12, 2008) اس اعلان کے پیچھے یہ واضح کرنامقصود تھا کہ ”بزنس کلاس ،، معاملات کو سبوتاژکرنے کےلئے جو کچھ کررہی ہے حکومت کا اس میں کوئی عمل دخل یا قصور نہیں ہے۔ یہ رویہ حیران کن حد تک لاطینی امریکہ کے کچھ ملکوں کے واقعات سے مماثلت رکھتا ہے جہاں ردانقلاب کے حملوں سے گھبرا کر بعض حکومتوں نے ان کو مزید مراعات دینے کا اعلان کردیا ، بجائے اس کے کہ وہ ان کا توڑ کرتے ہوئے عوام کو منظم و متحرک کرتیں۔ نیپال کی یو سی پی این ۔ ایم نے الیکشن کے کھیل سے باہر رہی ہے اور وہ اپنی ہی پالیسیوں کی قیدی ہوکے رہ گئی ہے۔ ہر چند کہ انہوں نے خود کو اس پوزیشن تک ہی محدودکرلیاہواہے تاہم ان کو اپنی سماجی بنیادکو بحال اوربرقرار رکھنے کےلئے ایک لیفٹ ونگ روپ اختیار کرنا چاہئے تھا ۔ کم سے کم وہ ایسی زبان ہی استعمال کر سکتے تھے جن میں عوام کے سلگتے ہوئے مسائل کا ذکر اور ان کے حل کااعلان ہوتا۔ نیپال کے عوام ابھی تک اپنے حالات بدلنے اور اپنی زندگیوں کے بہتر ہونے کی جستجو میں سرگرداںاور منتظر ہیں۔ ماﺅسٹ لیڈروں نے جو وطیرہ اپنایا ہوا ہے وہ ان کی انتہائی کمزوراور خطرناک پوزیشن کو ظاہر کرتا ہے۔ اس کی ایک جیتی جاگتی مثال بابورام بھٹاریہ کی اس سال یوم مئی کے موقع پر کی جانے والی تقریر تھی ۔ بابورام خزانے کا وزیربھی رہاہے اور وہ یو سی پی این ۔ ایم میں دوسرابڑالیڈر ماناجاتاہے ، جو کہ اس نئی تنظیم کا نیا نام ہے جو دو اور چھوٹی کمیونسٹ تنظیموں کے اشتراک کے بعد سامنے آئی ہے۔ اس نے جو کہا وہ یہ ہے ”آج ہماری یونائٹڈ کمیونسٹ پارٹی آف نیپال پر ولتاریہ کی قیادت کے تحت ایک نئے نیپال کو تعمیر کرنا چاہتی ہے۔ نئے مجوزہ آئین میں ہماری بھرپور کوشش ہوگی کہ مزدوروں کے حقوق کی مکمل ضمانت فراہم کی جائے ۔ اس عمل کے دوران ہم یہ بھی اعتراف کرتے ہیں کہ انقلاب ابھی ختم نہیں ہوا۔ ہاں البتہ یہ بھی ضرور ہے کہ اس کی ہئیت اور نوعیت تبدیل ہوچکی ہے ۔ اب ہم ہرگز”پیپلز وار،، والی پوزیشن پر نہیں ہیں ، مگر ہم ابھی تک انقلاب میں ہی ہیں ۔ اور ہم اپنا یہ انقلاب تب تک جاری رکھیں گے کہ جب تک مزدوروں کے حقوق کو تسلیم نہیں کرلیاجاتا اور ان کی ضمانت فراہم نہیں ہو اجاتی۔ اس نئی نیپالی رپبلک کو ہر حالت میں ایک عوامی جمہوریہ ہوناچاہئے ۔ نہ کہ ردانقلابیوں اور جاگیرداروں کی نمائندہ۔ ہماری پارٹی ہمیشہ کی طرح مزدوروں اور کسانوں کے حقوق کےلئے کوشاں رہے گی“(Dr Babburam Bhattarrai's May Day Speech) یہ خطاب اور طرز تکلم ترقی یافتہ یورپ کے ان قدیم سوشل ڈیموکریٹس لیڈروں کی یاد دلاتاہے جوہر سال یوم مئی کے موقع پر اپنے جوش خطابت سے سوشلزم پر ایسے ایسے بھاشن دیتے تھے کہ یوں لگتاتھا کہ بس ان کی تقریر کے ختم ہوتے ہی انقلاب سامنے آجائے گا۔ مگر جونہی تقریب ختم ہوتی تھی تو وہ سوشلزم کو بھول جاتے اور ساراسال اپنی اصلاح پسندپالیسیوں اور بورژوازی کے ساتھ مصالحت میں مگن ہو جاتے تھے۔ ان کی تقریروں میں سوشلزم ایک ایسا پروگرام ہوتا تھاجس نے کئی صدیوں ،کئی نسلوں بعد اپنی برکتوں سے نسل انسانی کو نوازنا اور سنوارناتھا۔ عملی طورپر نیپالی ماﺅسٹ بھی عوام کےلئے تو سوشلزم کی عظمت کے قصے بیان کرتے نہیں تھک رہے ہیں مگر ان کی ساری کارکردگی محض سرمایہ داروں کے ساتھ معاملات خوش اسلوب کرنے تک ہی محدودہے۔ ہمارے کچھ بائیں بازو کے احباب ہم پہ الزام لگائیں گے اور لگارہے ہیں کہ سچے مارکس وادی ہوکر بھی آپ نیپال کے زمینی حقائق سے ناآشنا اور نابلد ہیں ۔ یا پھر ان کا کہنا ہوگا کہ ہم بہت تیز چلنے کا کہہ رہے ہیں ۔ مگر ایسے میں وہ ایک نکتے کو نظرانداز کر رہے ہیں ۔ ہمیں جس بات کو صاف طورپر سمجھنا پرکھنا اور جانچناہوگا وہ یہ ہے کہ جب بادشاہ کو تخت سے بے تخت کیاگیاتو اس کے بعد ساری نیپالی ریاست کو جوں کا توں چھوڑدیا گیا۔ اشرافیہ ، سرمایہ دار،جاگیردارسمیت ریاست کے سبھی دیگر عناصر ابھی تک ریاست کے اقتدار وا ختیارپر حاوی و قابض ہیں۔ اور وہ اس طاقت کو بہرصورت استعمال کریں گے۔ وہ سامراجیوں کی مدداور آشیرباد سے سماج کو بدلنے کی ہر کوشش کو کچلنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کریں گے۔ اور یہ سب وہ جمہوریت اور ترقی پسندی کے پرچم تلے ہی کریں گے۔ اب جبکہ وہ ماﺅسٹوں کے خلاف ایک” نرم بغاوت،، منظم کرنے میں کامیاب ہوچکے ہیں ۔ مگرماﺅسٹوں کےلئے ابھی بھی حالات سازگار ہیں اور وہ چاہیں تو اپنا کھویا ہوامقام حاصل کرسکتے ہیں ۔ مگر جب بھی حکمران طبقات کو یہ خدشہ لاحق ہوا کہ ان کا نظام خطرے میں آسکتاہے یا آرہا ہے تو وہ ایک ”سخت بغاوت،، برپاکرنے کی کوشش کریں گے۔ وہ پہلے بھی یہ کر چکے ہیں ۔ ہمیں کسی طور یہ حقیقت نظرانداز نہیں کرنی چاہئے کہ پراچندا نے ہی دس سال تک گوریلا لڑائی منظم و متحرک کئے رکھی ،اس کی وجہ یہ تھی کہ پرانی کمیونسٹ پارٹی آف نیپال سی پی این نے ایک بغاوت کے بعد پارلیمانی کھیل کھیلنے کا فیصلہ کرلیاتھا ۔ کیا اب جو کیا جارہاہے اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ جانبازوں کی ایک پوری نسل نے جس جانبازی کا مظاہرہ کیاوہ سب رائیگاں گئی؟کیا اس جدوجہد میں جن لوگوں نے اپنی زندگیاں دان کر دیں وہ جذبہ بے نتیجہ اور لاحاصل رہا؟کیا یہ سب جدوجہدیہ سارے جذبے اسی لئے تھے کہ ان کے بعد پہلے والی پوزیشن ہی پر واپس چلا جائے؟ صورتحال میں فرق اب یہ پڑچکاہے کہ سابقہ سی پی این ۔ ایم کی قیادت کواپنے لاکھوں گوریلا جانبازوں اور سیاسی ورکروں کو جوابدہی کا سامناہے جو اپنی زندگیوں میں حقیقی تبدیلی کےلئے سچی اور سرگرم جدوجہد کے جاں سوز مرحلے سے گزر چکے ہیں ۔ انہوں نے الیکشن جیت کر دکھایا، اور یہ عوام کے ہی انقلابی جوش جذبے کا ہی نتیجہ تھا کہ انہیں اقتدار تک بھی نصیب ہوگیا۔ اقتدار پر آجانے کے بعد حقیقی فریضہ اختیارکو بھی اپنے ہاتھوں اپنے کنٹرول میں لینا تھا۔ دوسری تنظیموں سے اپنے الحاق کے بعد منعقدہونے والی نئی پارٹی یو سی پی این ۔ ایم نے اپنی کانگریس میں یہ اعلامیہ جاری کیا کہ اس نئی متحدہ کمیونسٹ پارٹی نے اپنا رنگ روپ تبدیل کرلیاہے اور اب ان کا ہدف یہ ہے کہ سوشلزم کے راستے پر چلتے ہوئے کمیونزم کی منزل تک پہنچاجائے۔ عظیم انقلابی روزالگسبر برگ نے ایک بار کہاتھا کہ سوشلسٹوں کو پرانی ریاست کے کھنڈروں پر نئی ریاست کی بنیاد ڈالنی لازمی ہواکرتی ہے۔ مگر نیپال کی کمیونسٹ تحریک کی قیادت نے اس سے بھی کوئی سبق حاصل نہیں کیاہے۔ جب انہیں اقتدار ملاتھا تو انہیں نے خود کہاتھا کہ اب ہر حالت میں عوام کے معیار زندگی اور حالات کو بدلنا ہوگا۔ اور ایک مستحکم مستقل معیشت کےلئے یہی واحد طریقہ ہوتا ہے۔ اس اعلان کی روشنی میں انہوں نے عوام کے حقیقی مسائل اور ضرورتوں کے تعین کےلئے چارمہینوں کی ایک مہم شروع کردی۔ ساتھ ہی انہوں نے اس حوالے سے حروف تہجی کے فروغ کےلئے بھی ایک مہم شروع کردی جبکہ یہ سب ”سامراج کے خلاف جدوجہد،، کے نعرے تلے شروع کیاگیا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ شاہ گیاندرا نے ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں شمولیت کےلئے جو عمل شروع کیاگیاتھا اسے بے وقعت اور بلاضرورت ثابت کیا جاسکے۔ اس بظاہر بہت ہی بے ضرر سے پروگرام پربھی سابقہ شاہ کے حواری ریاستی عناصر بھڑک اٹھے اور فوج نے ایسے حالات تیار کر دیے کہ پراچندا کو مستعفی ہوناپڑجائے اور وہ ہوگیا۔ ماﺅسٹ قیادت جو بھی کر رہی ہے اور کرتی چلی آرہی ہے وہ کسی طور بھی لفظ کمیونزم کی تعریف پر پورا نہیں اترتا ۔ وہ اب یہ کھلے عام کہہ رہے ہیں کہ ہم پہلے والی پارٹیوں کی طرح کم ظرف اور لالچی نہیں ہیں جنہیں ہر حالت میں ہر قیمت پر اقتدار چاہئے ہوتا ہے۔ چونکہ یہ ایک شرمناک عمل تھا اس لئے انہوں نے یہ مناسب سمجھا کہ حکومت چھوڑ دی جائے ۔ چلیں آپ نے یہ کرلیامگر سوال یہ ہے کہ اب اس کے بعد ؟اس کا کوئی متبادل؟ ایک اور اہم مسئلہ بلکہ تنازعہ جو موجود اور درپیش ہے،وہ انیس ہزار سابقہ ماﺅسٹ گوریلا جانبازوں کا نئی نیپالی ریاست کی جمہوری حکومت کی باقاعدہ فوج کا حصہ بننے کا عمل ہے ۔ نیپال کے حکمران طبقات اس کی مخالفت کر رہے ہیں کیونکہ وہ ان گوریلوں پر کسی بھی قسم کا اعتمادواعتبار کرنے کےلئے تیار نہیں ہیں۔ اور ایسا کیوں نہ ہو۔ ان کو ہر صورت میں ”مسلح افراد کا ایک ایسا جتھا،، درکار ہوتا ہے جواینگلز کے الفاظ میں ان کی جائیدادوں کے تحفظ کا فریضہ بخوبی انجام دے سکتاہو۔ جبکہ ان سابقہ گورےلوں میں بے شمار ایسے افراد بھی شامل ہیں جنہوں نے رضاکارانہ طورپر اپنی زندگیاں تبدیلی کے آدرش کےلئے وقف کی ہوئی تھیں اور جنہوں نے اپنے بے شمار کامریڈوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے اس عظیم آدرش کےلئے جان کی بازیاں لگاتے ہوئے دیکھا ہے۔ اب ان جانبازوں سے یہ توقع کی جارہی ہے کہ وہ نئی بورژوا ریاست کی فوج کاحصہ بن جائیں اور یوں وہ طاقت بن جائیں جو عوام کی جدوجہد کو روکنے اور کچلنے کے کام آتی ہے۔ چنانچہ اس بات پر حیران ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ نیپال کی اشرافیہ ان پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں ہے۔ المیہ اور بدقسمتی یہ ہے کہ ماﺅسٹ قیادت نے بجائے بورژوازی سے قطع تعلق کرنے اور بجائے عوام کو متحرک کرنے کے ،یہ فیصلہ کیاہے کہ وہ ایک ”وفادار اپوزیشن ،، کا فریضہ انجام دے گی۔ یہ وہ اس حالت میں کرنے جارہے ہیں جب وہ تین سال پہلے عوام کی انقلابی تحریک کو ٹھندا کر چکے ہیں ۔ جب انہوں نے پارلیمانیت کا کھیل کھیلنے کےلئے عوام کے انقلابی جوش وجذبے کو داﺅ پر لگادیا۔ اس دوران انہوں نے بالادست طبقات کو ہلکا سا چیلنج دینا بھی گوارانہیں کیا۔ واضح ہوتا ہے کہ انہوں نے نیپال اور اڑوس پڑوس کی تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا ۔ جو کچھ انیس سو چورانویں میں نیپال میں ہوا تھا ، وہ نیپال کے کمیونسٹوں کےلئے ایک انتباہ و عبرت ہے۔ سی پی این ۔ یو ایم ایل نے ایک اقلیتی حکومت قائم کی تھی جو نو مہینے تک چل پائی اور جو پھر ریاستی سازشوں کی بھینٹ چڑھ کر مستعفی ہو گئی۔ اس کے بعد سے اب تک وہ پارلیما نیت اور جمہوریت کی تنگنائے میں محدودہوکے رہ گئے ہیں۔ اب ماﺅسٹ بھی ہر حوالے سے اسی ڈگر پر چلنے جارہے ہیں۔ ماﺅسٹ وزیراعظم پشپا کمال دہال کے استعفیٰ دینے کے دوسرے دن ہی نیپال کی سیاسی پارٹیوں نے ایک ”قومی حکومت،، تشکیل دینے کا اعلان کردیا اور کھٹمنڈو میں اپنی ایک میٹنگ کرنے کے بعد کمیونسٹ یو ایم ایل پارٹی نے اس نئی متحدہ حکومت کی سربراہی کرنے پر رضامندی ظاہر کردی۔(see Nepal deal on national government, BBC World, May 5, 2009). اس نئی حکومت کے قیام اور پہلی حکومت کی رخصتی کے خلاف نیپال بھر میں روزانہ عوامی مظاہروں کا ایک سلسلہ شروع ہوگیاہے۔ یہ مظاہرین عوام کے دیے گئے فیصلے کا احترام کرنے کے نعرے بلند کر رہے ہیں ۔ یہی ایک حقیقت اس امر کی نشاندہی کرنے کےلئے کافی ہے کہ ابھی تک ان ماﺅسٹ لیڈروں کا عوام کی نظروں میں اعتماداور احترام موجود ہے۔ کیسا المیہ ہے کہ ان ماﺅسٹوں کی حکومت نے ہی عوام کے مظاہرے کرنے پر پابندی عائد کی تھی، اور سامراج کے دباﺅ کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے تھے۔ یہ کیفیت نیپالی انقلاب کی بےتابی کو واضح کرتا ہے جو عوام کی ضرورتوں کی شکل میں اپنا اظہارکرتاموجودہے۔ اب یہ سمجھ لینا کہ چونکہ یو سی پی این ۔ ایم ایک قلیل مدتی حکومت کا حصہ رہے ہیں اس لئے اب اس کے بعد ان کی قدروقیمت کم یا ختم ہو چکی ہے ،ایک غلط تخمینہ ہے۔ ماﺅسٹ قیادت اب بھی پہلے جیسی حالت بحال کر سکتے ہیں۔ اگر وہ کسانوں کی طاقت کو شہر کی مزدورقوت کے ساتھ اکٹھا جوڑتے اور اپنے گوریلا جانبازوں کو منظم ومتحرک کرتے ہیں تو وہ بآسانی گلی سڑی اور نحیف ونزار سرمایہ داروجاگیردار اشرافیہ کی طاقت و اختیار کو اکھاڑ کر پھینک سکتے ہیں ۔ جو کئی سالوں اور کئی نسلوں سے یہ ثابت کر چکے ہیں کہ ان میں ترقی پسندی کا کوئی ایک وصف بھی نہیں پایاجاتا۔ تاہم دوسری طرف یہ بھی ایک تلخ سچائی ہے کہ عوام ہمیشہ انتظار نہیں کیاکرتے عوام کسی طو، کبھی بھی، کہیں بھی پانی کی ٹوٹی نہیں ہوتے کہ جب چاہا ان کو کھول دیا جائے اور جب چاہے بندکردیاجائے۔ جب لوہا گرم ہوتب چوٹ لگانا لازمی وناگزیر عمل ہوتا ہے ۔ انقلابی لمحے اور کیفیت نہ تومسلسل ہوتی ہے نہ ہی مستقل۔ ایک وقت آتاہے جب طویل انتظار لوگوں کو تھکادیتا ہے اور انہیں مایوسی کی دلدل میں دھکیل دیتا ہے۔ نیپال کے کمیونسٹوں کی عوام کی یہ تائید کسی بھی لمحے گم اور غائب ہو سکتی ہے۔ نیپال کے کمیونسٹوں کو جو درکارہے وہ ایک سوشلسٹ پروگرام ہے جو ایسی زرعی اصلاحات پر مبنی ہو جس میں چھوٹے کسانوں کو زمین دی جائے ،جس میں بڑے اجتماعی زرعی فارم قائم کئے جائیں ،جس میں معیشت کے حاوی شعبوں کو قومی تحویل میں لیا جائے اور جو غربت و بےروزگاری کے خاتمے کے پروگرام کی حامل ہو۔ اور یہ سب اس وقت ممکن العمل ہوسکے گا جب معیشت کے بڑے شعبوں کو نیپال کے مزدوروںاورکسانوں کے جمہوری کنٹرول میں دیا جائے اور اسے ایک مرکزیت کے حامل منصوبے سے منسلک و متحرک کیا جائے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں انقلاب کے دومرحلوں کے نظریے سے جان چھڑانی ہوگی ۔ اور اس بات کو اچھی طرح سمجھنا اور پلے باندھناہوگا کہ ایک ایسے انقلابی عمل کو اپناناہوگا جو بورژوا انقلاب کے تقاضے بھی خودہی پورے کرتے ہوئے ، بیک وقت سوشلسٹ انقلاب کا مرحلہ بھی طے کرنا شروع کر دے گا۔ نیپال ایک چھوٹا پسماندہ ملک ہے اور کئی مہان لیفٹسٹوں کو یہ خدشہ بھی لاحق ہوجاتاہے کہ اگر وہاں یہ سب کیا جائے گا تو سامراج اس پر چڑھ دوڑے گا اور اس کی ایسی تیسی پھیرکے رکھ دے گا۔ اس خدشے کا اس کے سوا نہ تو کوئی مطلب ہے نہ مفہوم کہ نیپال کی کمیونسٹ تحریک کو مفلوج کردیاجائے اورا سے سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے بنائے ہوئے سیاسی عقوبت خانے تک ہی محدودکردیاجائے۔ یہ مفروضہ ایک ہی کیفیت کو سامنے لاتا ہے کہ کچھ بھی نہ کےا جائے کچھ بھی نہ ہونے دیا جائے ۔ عوام کو واپس روزمرہ میں دھکیل دیاجائے اور کمیونسٹوں کو ان کی نظروں میں گرا دیا جائے۔ اس مفروضے اور خدشے کا ایک ہی حل ایک ہی جواب ہے کہ ایک ایسے نیپالی انقلاب کا تناظر سامنے لایا اور رکھا جائے جو اپنے برپاہونے کے ساتھ ہی خود کو پاکستان میں ، بھارت میں بنگلہ دیش سمیت سارے جنوبی ایشیا میں پھیلانا شروع کردے اورصرف یہیں نہیں اس سے بھی آگے تک۔ موجودہ جاری عالمی معاشی بحران نے دنیا کے ہر ایک ملک میں انقلابی جستجو اور جذبے کو بھڑکانا شروع کردیا ہے۔ ہر طرف ہر جگہ عوام کی ذلتوں ،اذیتوں ،محرومیوں میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہاہے۔ نیپالی کمیونسٹوں کے سامے ایک انتخاب ہے یا تو وہ لبرل بورژواسیاست کے آگے سجدہ ریزہوجائیں یا پھر یہ کہ وہ انقلاب کی قیادت کرتے ہوئے اسے شروع اور مکمل کریں۔ اگر وہ پہلا رستہ چنتے ہیں تو وہ محض ناکام و نامراد رہ جانے والے انقلابات کی تاریخ میں اےک نئے باب کا اضافہ کریں گے۔ اور اگر وہ دوسرا راستہ اپناتے ہیں تو وہ ایک ایسے انقلاب کا آغازکرجائیں گے جو اکیلااورتنہا انقلاب نہیں ہوگا بلکہ اس کی کوکھ سے کئی انقلابات جنم لیتے چلے جائیں گے ، جو سارے جنوبی ایشیا کی سوشلسٹ تبدیلی کو ممکن کردیں گے۔ اور جو ساری دنیا کے محکوموں مظلوموں اورمحروموں کےلئے ایک زندہ مینارہ بن کر سامنے آسکتا ہے۔ دیکھنا ہے کہ نیپال کے کمیونسٹ کیا رستہ انتخاب کرتے ہیں؟