نیشل یوتھ مارکسی سکول (سرما) 2013ء Urdu Share Tweet، 7 اور 8دسمبر 2013ء کو میمن گوٹھ کراچی میں موسم سرما کے نیشنل مارکسی یوتھ سکول کا انعقاد کیا گیا جس میں ملک بھر سے 160 سے زائد کامریڈز نے شرکت کی۔ سکول میں مجموعی طور پر پانچ موضوعات زیر بحث آئے اور کامریڈز نے سیاسی اور نظریاتی بحثوں نے جوش و خروش سے حصہ لیا۔کامریڈ ریاض لنڈ نے میزبان ریجن کی جانب سے تمام حاضرین کو خوش آمدید کہہ کر سکول کا باقاعدہ آغاز کیا۔سکول کے پہلے سیشن کا موضوع ’’عالمی تناظر‘‘ تھا۔ سیشن 6دسمبر کی صبح 9 بجے شروع ہوا جسے کامریڈماجد نے چیئر کیا۔ جس پر لیڈ آف کامریڈ انعم پتافی نے دی۔ کامریڈ انعم نے اپنی لیڈ آف میں 2008ء میں شروع ہونے والے سرمایہ داری کے عالمی بحران اور اس کے سیاسی و سماجی نتائج پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ 2008ء سے پہلے معاشی بحران کو مصنوعی طریقوں سے ٹالا گیا تھا جس کے باعث موجودہ بحران میں سرمایہ دارانہ نظام کے تضادات بلند پیمانے پر نمودار ہوئے ہیں۔ یہ بحران عروج و زوال کے عمومی چکر کا حصہ نہیں ہے بلکہ منڈی کی معیشت کا نامیاتی بحران ہے اور مستقبل قریب میں بحالی کو کوئی امکان موجود نہیں ہے۔ سرمایہ داری کے سنجیدہ دانشور اس بات کو تسلیم کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں کہ یہ نظام اپنے داخلی تضادات میں بری طرح سے الجھ چکا ہے اور معاشی زوال، کٹوتیاں، بے روزگاری، معیاری زندگی میں گراوٹ جیسے مسائل نئے معمول کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ کامریڈ انعم نے ریاست کے فلاحی اخراجات، تنخواہوں اور پنشنوں میں کٹوتیوں کے یونان، سپین، پرتگال اور یورپ کے دوسرے ممالک میں ابھرنے والی محنت کشوں اور نوجوانوں کی تحریکوں پر بھی روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ یونان کا محنت کش طبقہ اب تک 30عام ہڑتالیں کر چکا ہے اور اب ایک غیر معینہ مدت کی ہڑتال مزدور تحریک میں زیر بحث ہے۔ ایسی کوئی بھی ہڑتال ناگزیر طور پر طاقت کے سوال کو جنم دے گی لیکن انقلابی پارٹی کی عدم موجودگی میں طاقت پر محنت کشوں کا قبضہ اور سرمایہ دارانہ ریاست کا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔ انہوں نے مورسی حکومت کے خاتمے کے بعد مصر کی موجودہ صورتحال اور شام، لیبیا، بحرین سمیت بحیثیت مجموعی عرب ممالک میں ابھرنے والی انقلابی تحریکوں کا تناظر پیش کیا۔ لیڈ آف میں ہوگو شاویر کی وفات کے بعد نکولس ماڈورو کے بطور صدر انتخاب، امریکی سامراج کی ایما پر رد انقلابی قوتوں کی جانب سے انقلابی عمل کو سبوتاژ کرنے کی حالیہ کوششیں اور انقلاب وینزویلا کے مستقبل پر بھی روشنی ڈالی گئی۔ لیڈ آف کے بعد سوالات اور کنٹری بیوشنز کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ کراچی سے کامریڈ فارس، فیصل آباد سے کامریڈ ارتقا، سنٹر سے کامریڈ راشد خالد، بلوچستان سے کامریڈ ولی خان، حیدرآباد سے کامریڈ اویناش، لاہور سے کامریڈ ولید خان، ملتان سے کامریڈ ذیشان اور کشمیر سے کامریڈ دانیال نے سوالات کی روشنی میں کنٹری بیوشنز کئے۔ آخر میں کامریڈ انعم نے سوالات کی روشنی میں سیشن کو سم اپ کرتے ہوئے کہا کہ تاریخی طور پر متروک یہ نظام پیداواری قوتوں کو ترقی دینے اور انسان کی زندگی کو سہل بنانے سے قاصر ہے۔ سرمایہ داری کے پاس انسانیت کو دینے کے لئے بیروزگاری، جنگ، غربت اور استحصال کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اس نظام کو اکھاڑ کر ایک سوشلسٹ سماج کی تعمیر کا آغاز کرنے کے لئے ایک موضوعی اور شعوری عنصر کی ضرورت ہے اور یہ کردار ایک بالشویک پارٹی ہی ادا کر سکتی ہے۔ ایک انقلابی پارٹی کی تعمیر کا فریضہ تاریخ نے آج ہمارے کندھوں پر عائد کیا ہے۔ دوپہر کے کھانے کے وقفے کے بعد سکول کے دوسرے سیشن کا آغاز ہوا جس کا موضوع ’’اسلامی بنیاد پرستی: افسانہ یا حقیقت؟‘‘ تھا۔ سیشن کو کامریڈ نہال نے چیئر کیا اور کامریڈ پارس جان نے لیڈ آف دی۔ کامریڈ پارس جان نے اپنی پر مغز لیڈ آف میں بنیاد پرستی کی تاریخ، خیال پرستی، مذہبی جنونیت کی مادی وجوہات اور موجودہ عہد میں اس کے سماجی اور معاشی کردار کو بڑی خوبصورتی سے آسان الفاظ میں بیان کیا۔ انہوں نے اپنی لیڈ آف کا آغاز میتھ (Myth) کی تخلیق اور انسانی معاشرے میں اس کی مقبولیت کے پیچھے کارفرما عوامل پر روشنی ڈالتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ مذہب سے ہٹ کر بھی کئی طرح سے سیاسی یا فلسفیانہ میتھ پروان چڑھ سکتے ہیں جنہیں حکمران طبقات اپنی ضروریات کے مطابق استعمال کرتے ہیں۔ مذہب بذات خود فلسفے کی قدیم شکل ہے جس کا آغاز جادو ٹونے سے ہوا اور طبقاتی معاشرے کے ارتقاء کے ساتھ یہ منظم اور ٹھوس شکل اختیار کرتا گیا۔ مذہب کے ذریعے قدیم انسان نے معروضی کائنات کے بارے میں اپنے ذہن میں ابھرنے والے سوالات کے جواب تلاش کرنے کی سعی کی۔ مذہب کو جہاں حکمران طبقات مختلف سماجوں میں اپنے اقتدار اور استحصال کو جاری رکھنے کے لئے استعمال کرتے رہے ہیں وہاں غلام داری اور جاگیر داری میں حکمران طبقات کے خلاف محکوم اور مظلوم طبقات کی تحریکیں بھی مذہبی کردار کی حامل تھیں۔ عیسائیت حکمران طبقے کے خلاف غلاموں کی بغاوت کی شکل میں نمودار ہوئی تھی جسے بعد میں رومی بادشاہوں نے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا۔ انہوں نے کہا کہ یورپ میں برپا ہونے والے بورژوا انقلابات میں بورژوازی نے ترقی پسندانہ کردار ادا کرتے ہوئے مذہب کو ریاست سے الگ کیا تھا اور کلیسا کے سماجی اور معاشی کردار پر ضرب لگائی تھی۔ آج یہی بورژوازی دنیا بھر میں اپنے استحصال کا جواز تراشنے کے لئے مذہب کو استعمال کر رہی ہے جو کہ بطور نظام سرمایہ داری کی متروکیت کی واضح علامت ہے۔ سامراجیت اور سرمایہ داری کے خلاف دنیا بھر میں ابھرنے والے بائیں بازو کے طوفانوں کا راستہ روکنے کے لئے جدید اسلامی بنیاد پرستی اور سیاسی اسلام کو امریکی سامراج نے خود پروان چڑھایا تھا۔ افغان ثور انقلاب کے بعد ڈالر جہاد کو فنانس کرنے کے لئے سی آئی اے نے منشیات کا نیٹ ورک اس خطے میں بچھایا اور پاکستانی ریاست کی مدد سے مذہبی جنونیوں کو اس دھندے سے روشناس کروایا۔ آج اسی کالے دھن پر پلنے والے درجنوں جہادی گروہ سماج کو عہد بربریت میں واپس لے جانا چاہتے ہیں۔ یہ مذہبی جنونی اپنی وفاداریاں مسلسل بدلتے رہتے ہیں اور مکمل طور پر اپنے آقاؤں کے کنٹرول میں نہیں ہیں۔ لیڈ آف کے بعد سوالات اور کنٹری بیوشنز کا سلسلہ شروع ہو گیا، ملتان سے کامریڈ راول اسد، پختونخواہ سے کامریڈ سنگین، راولپنڈی سے کامریڈ عمر ریاض، رحیم یار خان سے کامریڈ رئیس کجل، کشمیر سے کامریڈ خواجہ جمیل، حیدرآباد سے کامریڈ کریم لغاری، جامپور سے کامریڈظفر، کراچی سے کامریڈ ماجد اور ہردل کمار اور سنٹر سے کامریڈ راشد خالد نے کنٹری بیوشنز کئے۔ کامریڈ پارس نے سوالات کے جواب دیتے ہوئے سیشن کا سم اپ کیا اور کہا کہ مذہب کا کردار تاریخ میں مسلسل بدلتا رہا ہے۔ ہم مارکسسٹ حکمران طبقات کے الحاد کے نظرئیے کو یکسر مسترد کرتے ہوئے جدلیاتی مادیت کے فلسفے کی روشنی میں کائنات اور سماجی مظاہر کی سائنسی تشریح کرتے ہیں۔ مذہب دراصل انسان کی اپنی ذات سے بیگانگی کا اظہار ہے اور جوں جوں انسانوں کا اپنی زندگیوں اور مستقبل پر اختیار کم پڑتا ہے، مذہبی تعصبات سماج پر حاوی ہوتے چلے جاتے ہیں۔ پاکستانی سماج کے ’’مذہبی‘‘ ہونے کا پراپیگنڈا بھی ایک میتھ اور اس ملک کی تاریخ گواہ ہے کہ محنت کش عوام نے ہمیشہ مذہبی بنیاد پرستی اور ملاؤں کو سیاسی اور سماجی طور پر مسترد کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہماری جنگ مذہب کو ماننے والوں سے نہیں بلکہ مذہب کا کاروبار کرنے والوں اورمذہب کے نام پر قتل و غارت گری کرنے والوں سے ہے۔ مذہبی جنونیت اور بنیاد پرستی کا خاتمہ سرمایہ داری کے خاتمے سے مشروط ہے اور ایک سوشلسٹ انقلاب کے بعد ماضی کے تعصبات اور توہمات بتدریج مٹ جائیں گی۔سکول کے دوسرے دن کے پہلے اور مجموعی طور پر تیسرے سیشن کا آغاز 7 دسمبر کو صبح 10 بجے ہوئے۔ اس سیشن کا موضوع ’’سرمایہ داری کا معاشی بحران؛ وجوہات اور تناظر‘‘ تھا جسے کامریڈ راشد شیخ نے چیئر کیا اور لیڈ آف کامریڈ عمران کامیانہ نے دی۔ کامریڈ عمران کامیانہ نے اپنی لیڈ آف میں سرمایہ دارانہ معیشت کے مارکسی تجزئیے، مارکسی معیشت کے بنیادی تصورات، قدر کے قانون، قدر زائداور منافع، سرمایہ دارانہ معیشت کے تضادات، زائد پیداوار کے بحران، 1929ء کے گریٹ ڈپریشن کی وجوہات، کینیشین ازم کی ناکامی اور دوسری جنگ عظیم، جنگ عظیم دوم کے بعد کے معاشی ابھار اور 1974ء کے معاشی بحران، نیو لبرل ازم اور ٹریکل ڈاؤن اکانومی، 2008ء کے معاشی بحران کی وجوہات اور تناظر پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ بحرانات سرمایہ داری کے خمیر میں پوشیدہ ہیں اور یہ نظام اپنے تضادات کو کبھی بھی حل نہیں کر سکتا۔ موجودہ بحران سرمایہ داری کے نامیاتی تضادات کا نتیجہ اور زائد پیداواری صلاحیت کا شاخسانہ ہے۔ بحران سے نکلنے کے طریقہ کار پہلے ہی بحران کو ٹالنے کے لئے استعمال ہو چکے ہیں۔ پال کروگمین جیسے نوبل انعام یافتہ بورژوا معیشت دان یہ تسلیم کر رہے ہیں کہ کئی دہائیوں تک بحالی ممکن نہیں ہے۔ دنیا بھر کے سرمایہ داروں نے 32 ہزار ارب ڈالر آف شور ٹیکس ہیونز میں چھپا رکھے ہیں اور منڈی کے سکڑاؤ کے باعث سرمایہ کاری نہیں کر رہے ہیں۔ معاشی کٹوتیاں دراصل پٹرول سے آگ کو بجھانے کے مترادف ہیں جن سے بحران مزید گہرا ہو جائے گا۔ انسانیت کے پاس غربت، بیروزگاری اور معاشی عدم استحکام سے نجات پا کر آگے بڑھنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ انقلابات کے ذریعے منڈی کی معیشت کا خاتمہ کر کے عالمی سطح پر سوشلسٹ منصوبہ بند معیشت کی تعمیر کا آغاز کیا جائے۔ سوشلسٹ معیشت کے تحت چند ایک پانچ سالہ اقتصادی منصوبوں کے ذریعے قلت سے پاک معاشرے کا قیام ممکن ہے۔ لیڈ آف کے بعد کراچی سے کامریڈ فارس، دادو سے کامریڈ سعید خاصخیلی، ملتان سے کامریڈ ماہ بلوص، راولپنڈی سے کامریڈ فیضان، حیدرآباد سے کامریڈ حنیف مصرانی اور کراچی سے کامریڈ پارس جان نے سوالات کی روشنی میں بحث کو آگے بڑھایا۔ عمران کامیانہ نے سیشن کو سم اپ کرتے ہوئے افراط زر اور مہنگائی کے باہمی تعلق، Stagflation، مقداری آسانی یا Quantitative Easing، منڈی میں قدر کے قانون کی حیثیت، ڈیمانڈ سائیڈ اور سپلائی سائیڈ معاشیات، شرح منافع اور مجموعی طلب کے تعلق پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ سرمایہ داری پیداواری قوتوں کو اس مقام پر لے آئے ہے جہاں یہ اس نظام کے پیداواری رشتوں سے متصادم ہے۔ اس نظام میں اصلاحات کی گنجائش موجود نہیں ہے اور واحد متبادل سوشلسٹ انقلاب ہے جس کے لئے ایک انقلابی پارٹی کی تعمیر آج کے انقلابیوں کا اولین فریضہ ہے۔کھانے کے وقفے کے بعد سکول کے چوتھے سیشن کا آغاز ہوا جسے کامریڈ عصمت نے چیئر کیا اور لیڈ آف کامریڈ صدام خاصخیلی نے دی۔ کامریڈ صدام خاصخیلی نے ’’پاکستان تناظر‘‘ پر لیڈ آف دیتے ہوئے پاکستان کی موجودہ سیاسی و معاشی صورتحال اور عالمی معاشی بحران کے پاکستانی معیشت پر مرتب ہونے والے اثرات پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے اپنی لیڈ آف میں بتایا کے پاکستانی ریاست اپنے جنم دن سے ہی عالمی سامراج کی ایک لونڈی کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کرتی رہی ہے۔ اپنی تاخیر زدگی کی وجہ سے یہ ریاست اپنی آزاد معاشی بنیادیں بنانے میں ناکام رہی اور یہاں کے حکمران عالمی مالیاتی اداروں کی کٹھ پتلی کے طور پر ہی ہمیشہ پالیسیاں مرتب کرتے رہے۔ انہوں نے بتایا کے اس وقت پاکستانی ریاست تاریخ کے بدترین معاشی بحران کا شکار ہے، اور وہی معاشی بحران سیاست میں بھی اپنا اظہار کرتے ہوئے نظر آتا ہے۔ اس بحران سے نبٹنے کے لئے ریاست کے پاس قرضے لینے کے علاوہ اور کوئی حل نہیں ہے اور جب قرضوں کا حصول بھی مشکل ہو تو بحران کو ٹالنے کا آسان حل نوٹ چھاپ کر ریاست کو چلانے کا رہ جاتا ہے۔ جس کی واضح مثال پاکستان پرنٹنگ کارپوریشن کے نمائندے کا عدالتِ عالیہ میں بیلٹ پیپرز چھاپنے پر مؑ ذرتی بیان میں نظر آتا ہے کہ ہم بیلٹ پیپرز نہیں چھاپ سکتے کیونکہ ہماری تمام مشینیں تو نوٹ چھاپنے میں مصروف ہیں۔ اس کیفیت میں ملک کو عظیم تر اور خوشحال بنانے کے نعرے لگانے والے سوائے ناٹک کے اور کچھ نہیں کر رہے۔ یہ محنت کشوں پر مزید حملے کریں گے، کبھی ٹیکس بڑھا کر تو کبھی چیزوں کی قیمتیں، ایسے ہی قومی اداروں کی نجکاری کا عمل بھی موجودہ حکومت کے اہداف میں سرِفہرست ہے۔ اس سے محنت کشوں کی زندگیاں مزید متاثر ہوں گی۔ دوسری طرف میڈیا کو استعمال کرتے ہوئے نان ایشوز کو عوام کے ذہنوں پر مسلط کیا جا رہا ہے اور حقیقی مسائل کو چھپانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ لیکن محنت کش طبقہ زیادہ دیر تک یہ ناٹک برداشت نہیں کرے گا اوراگر ایک موضوعی عنصر محنت کش طبقے کی انقلابی تحریک سے قبل تعمیر ہوتا ہے تو یہ بہت جلد اس ریاست کو اکھاڑ پھینکتے ہوئے یہاں ایک سوشلسٹ سماج کی بنیاد رکھے گا۔لیڈ آف کے بعد بلوچستان سے کامریڈ نہال خان، دادو سے کامریڈ ماجد بگھیو، لاہور سے کامریڈ فرحان گوہر، کراچی سے کامریڈ زبیر رحمان، فیصل آباد سے کامریڈ عمر رشید، حیدرآباد سے کامریڈ راہول، کشمیر سے کامریڈ راشد شیخ اور سنٹر سے کامریڈ راشد خالد نے سوالات کی روشنی میں کنٹری بیوشنز کئے اور بحث کو آگے بڑھایا۔ کنٹری بیوشنز کے بعد کامریڈ صدام نے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے سم اپ کیا۔سکول کے تیسرے دن مجموعی طور پر پانچویں سیشن کا انعقاد کیا گیا جس کا ایجنڈا ’’نوجوانوں میں کام کا طریقہ کار اور لائحہ عمل‘‘ تھا، جس پر کامریڈ راشد خالد نے لیڈ آف دی اور کامریڈ شہریار ذوق نے اسے چئیر کیا۔ لیڈ آف کے بعد تمام تر ریجنز سے یوتھ ورک کے ذمہ داران نے اپنے متعلقہ ریجن میں کام کی رپورٹ پیش کی اور مستقبل کے لائحہ عمل پر بات رکھی۔ رپورٹس کے بعد اوپن ڈسکشن کا آغاز کیا گیا جس میں مختلف کامریڈز نے یوتھ ورک کے حوالے سے اپنی تجاویز دیں، جس کے بعد کامریڈ پارس جان نے سکول کا سم اپ کیا۔سکول کا اختتام ’انٹرنیشنل‘ گا کر کیا گیا۔Source