جاپان کے زلزلے کے عالمی معیشت کو جھٹکے Urdu Share TweetUrdu translation of Japan’s crisis shakes the world (March 23, 2011)چنگاری ڈاٹ کام،26.03.2011عالمی جنگ اور ہیرو شیما اور ناگاساکی کے بعد یہ جاپان پر بدترین آفت ہے۔ نو درجے کے زلزلے، سونامی اور اس کے بعد ایٹمی سانحہ کی اس تہری مصیبت نے ملک کو اس کی جڑوں سے ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اور اس کثیرالجہتی المیے کے اثرات دن بدن وسیع ہوتے جا رہے ہیں۔دس ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں، لاکھوں ہجرت پر مجبور ہیں اور ایک بہت بڑی تعداد زخمی اور لا پتہ ہے۔ سب سے زیادہ متاثرہ شمال مشرقی علاقے میں دوائیں اور خوراک ختم ہوتی جا رہی ہے۔ بڑے پیمانے پرپھیلتی ہوئی بیماری اور بھوک ملک کو درپیش انسانی المیے کی شدت کو واضح کر رہی ہیں۔ آنے والے ہفتوں، مہینوں اور ممکنہ طور پر سالوں تک نہ صرف جاپان کے لوگوں کے لیے بلکہ اس سے کہیںآگے تک اس بربادی کے بہت بڑے بلواسطہ اثرات مرتب ہوں گے۔کچھ مبصرین کی جانب سے صورتحال کی سنجیدگی کو کم کر کے بیان کرنے کی کوشش کے باوجود ، فوکوشیما میں ہوئی بربادی کو تباہ کن کے علاوہ کچھ اور نہیں کہا جا سکتا۔امریکی وزیر توانائی سٹیفن چو کے مطابق ’’ جاپان میں ہونے والے واقعات تھری مائل آئی لینڈ (Three Mile Island)سے زیادہ سنجیدہ ہیں‘‘۔ لیکن یہ اس سے بھی کہیں بد تر ہو سکتا ہے، کیونکہ ایٹمی مواد کے پگھل جانے کا خطرہ موجود ہے اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے تمام مسائل کا بھی۔اس بحران کی شدت نے جاپانی سماج میں موجود گہری دراڑوں کو عیاں کردیا ہے، جہاں کی اسٹیبلشمنٹ نے ملک کے مستقبل کو ایٹمی توانائی پر تعمیر کیا تھا۔ جاپان کا حکمران طبقہ کرپٹ ایٹمی صنعت کی شمولیت کے ساتھ، کسی خطرے کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنے معاشی غلبے کو ہر قیمت پر برقرار رکھنا چاہتا تھا۔ درآمد شدہ تیل اور کوئلے پر انحصار کم کرنے کے لیے انہوں نے دنیا میں سب سے زیادہ زلزلے والے جزائر پر پچپین ایٹمی بجلی گھر تعمیر کیے۔دوسرے الفاظ میں موجودہ ایٹمی بحران انسان کا پیدا کردہ ہے اور یہ رونما ہو جانے کا منتظر تھا۔ صرف وقت کا تعین ہونا تھا۔جاپان کی اشرافیہ کو عام لوگوں کی زندگی کی پرواہ نہیں تھی۔انہیں صرف اپنی طاقت اور اثر و رسوخ کی پرواہ تھی۔ صاف نظر آنے والے خطرے کے باوجود ایٹمی پلانٹ لگانے کی اجازت دی گئی۔ان کے خیال میں جدیدٹیکنالوجی کو استعمال کر کے انہیں ’’محفوظ‘‘ بنایا جا سکتا تھا۔ لیکن یہ کیسے ممکن ہے؟ آپ ایسی چیز کے متعلق کیسے منصوبہ بندی کر سکتے ہیں جس کی منصوبہ بندی ممکن ہی نہیں؟۔نیوکلیئر انٹیلی جنس ویکلی کے ایڈیٹر سٹیفین کوک کے مطابق’’ واقعات کی روشنی میں میں نے یہ سیکھا ہے کہ ایٹمی ری ایکٹر اتنا پیچید ہ ہوتا ہے کہ ایسے واقعات جن کے کسی ترتیب میں رونما ہونے سے حادثہ ہو جانے کا امکان ہو، ان گنت ہیں۔ ابھی تک جتنے بھی حاثات ہوئے ہیں ان کے پیچھے واقعات کا ایک مختلف سلسلہ تھا‘‘۔ جب فوکو شیما میں زلزلہ آیا تو پلان کے مطابق تین ری ایکٹر بند ہو گئے، لیکن کسی کو توقع نہیں تھی کہ سونامی سے ٹھنڈا کرنے کا بیک اپ(backup) نظام ناکارہ ہو جائے گا۔ کسی نے اس دھماکے کے بارے میں پہلے نہیں سوچا تھا جس نے بیرونی عمارتوں کو تباہ کر ڈالا۔ کسی نے بھی استعمال شدہ ایٹمی ایندھن کے ٹھنڈ اکرنے والے تالاب میں حد سے زیادہ گرم ہو جانے کے خطرات کو پہلے سے نہیں بھانپا تھا۔بلا شبہ اس غیر یقینی اور خطر ناک صورتحال میں مزید غیر متوقع اور حیرت ناک واقعات سامنے آئیں گے۔ایٹمی توانائی پر انحصار کی یہ غیر ذمہ دارانہ پالیسی صرف جاپان کا ہی مسئلہ نہیں ہے۔ عالمی ایٹمی ایسوسی ایشن (World Nuclear Association)کے مطابق دنیا بھر میں چار سو سے زائد ری ایکٹر کام کر رہے ہیں جن میں سے نوئے سرگرم زلزلوں کے علاقوں میں ہیں۔اور مزید زیر تعمیر ہیں۔فوکو شیما ڈائی چی ایٹمی بجلی گھر ٹوکیو الیکٹرک پاور کمپنی(TEPCO)کی ملکیت ہے۔ان کے معاملات انتہائی خفیہ ہیں اور ماضی میں کرپشن میں بھی ملوث رہے ہیں۔ انیس سو پچانویں میںیہ مونجو میں واقع تیز بریڈر ری ایکٹر (fast-breeder reactor)کے حادثے کی شدت پر پردہ ڈالنے میں ملوث تھے۔ چار سال بعد توکائی موراکے ری ایکٹر میں حفاظتی تدابیر کی خلاف ورزی کے نتیجے میں تین مزدور زیادہ مقدار کی تابکاری کا نشانہ بنے۔پھر دو ہزار تین میںTEPCOحفاظتی اقدامات کے متعلق غلط معلومات دیتے ہوئے پکڑی گئی جس کے نتیجے میں اس کے ری ایکٹروں کو ایک ماہ کے لیے بند کر دیا گیا۔ دو ہزار سات میں ایک زلزلے کے بعد پھر TEPCO نے اعتراف کیا کہ اس کا ایک اور پلانٹ جس سے تابکاری کا اخراج ہوا تھا، میعار کے مطابق تعمیر نہیں کیا گیا تھا۔ٹوکیو میں رہنے والے ایک سیاسی تجزیہ نگار مائیکل کوسیک کے مطابق ’’ان کے پاس بحران سے نمٹنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے کیونکہ وہ کبھی کسی بحران کے لیے تیار ہی نہیں تھے۔خدشہ ہے کہTEPCOسارے حقائق نہیں بتا رہی ۔ انہیں سب کچھ بتانے کی عادت ہی نہیں ‘‘۔اس کئی ارب ڈالر کی صنعت میں چیزوں کو خفیہ رکھنا معمول ہے، اور ان کے حکومتوں اور ضابطہ کاروں (Regulators)کے ساتھ بہت قریبی مراسم ہیں۔انہیں ’’جاپان کا ایٹمی توانائی کا مافیا‘‘ کہا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ وزیر اعظم کان کو بھی تیسرے دھماکے کے متعلق ایک گھنٹے تک اندھیرے میں رکھا گیا، اگرچہ وہ اس پر بہت خفاء بھی ہوا۔تاہم اب حکومت اور کاروبار کی یہ غلاظت سامنے آ رہی ہے۔ اس سے عوام میں غصہ پیدا ہو رہا ہے جنہیں غلط معلومات، تابکاری کے خوف اور بڑھتی ہوئی مشکلات کا سامنا ہے۔ غیر ملکی حکومتوں نے اپنے باشندوں کو ٹوکیو چھوڑنے کی ہدایات جاری کر دی ہیں جبکہ مقامی آبادی کو قسمت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔جہاں ایک طرف بینک آف جاپان اور جی سیون کوسہارا دینے کے لیے اربوں خرچ کر سکتے ہیں وہاں لاکھوں افراد گرمائش، گھر، ادویات اور کھانے سے محروم ہیں۔ فروکوشیما صوبے کے گورنر یوحئی ساتو نے کہا ہے کہ لوگ ’’بے چین اور غصے میں ہیں‘‘۔آنے والے ہفتوں میں حکومت اور TEPCO کو اس بحران سے نمٹنے اور ایٹمی صنعت کی ناکامیوں کا جواز دینا پڑے گا۔اس کمزور اور کرپٹ سیاسی نظام کو جو پہلے ہی بہت دباؤ میں ہے ، مزید نقصان پہنچے گا۔ ’’فریب نظر اب مکمل طور پر ختم ہو چکا ہے‘‘، فنانشل ٹائمز(19-20/3/11)۔سیاسی نتائج کے علاوہ فوکوشیما کے سنجیدہ معاشی مضمرات بھی ہوں گے۔ عالمی معیشت کی نحیف بحالی بہت ہی نازک توازن میں ہے۔ دنیا کی تیسری بڑی معیشت ہونے کے ناطے جاپان عالمی سرمایہ داری کی صحت کے لیے انتہائی اہم ہے۔ لیکن جاپانی سرمایہ داری کو معاشی بحران میں لوٹ جانے کا خطرہ لاحق ہے، کیونکہ سٹہ بازی کے نتیجے میں ین کی قدر اوپر جا رہی ہے، اور اس کی صنعتوں کو بجلی کی بندش اور سپلائی لائن میں خلل کا سامنا ہے۔ جی سیون مما لک ا ور بینک آف جاپان نے فوری طور پر ین خریدے ہیں تاکہ اس کی قدر کو کم رکھا جا سکے۔ ین کی اونچی قدر سے جاپان کی برآمدات جن پر اس کی معیشت کا دارومدار ہے مہنگی اور مسابقت میں پیچھے رہ جائیں گی۔گزشتہ دو برسوں میں جاپان کی نمو میں دو تہائی حصہ برآمدات کا رہا ہے۔ در حقیقت پچھلی سہ ماہی میں جاپان کے جی ڈی پی میں کمی آئی ہے۔ اس سہ ماہی میں اس میں مزیدگراوٹ جس کا واضح امکان موجود ہے، دو ہرے بحران (double-dip recession)کو جنم دی گی۔عالمی سپلائی چین(supply chain)بھی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ خاص طو رپر گاڑیاں بنانے کی صنعت کو بہت نقصان ہوا ہے۔ شمال مشرق کا ر سازی کی صنعت کا بہت بڑا مرکز تھا جہاں ٹویوٹا، ہونڈا، نسان اور دوسر ی کئی کمپنیوں کی گاڑیوں کے پارٹس بنانے کے کارخانے ہیں۔ سرمایہ دار جاپان سے ’’پیداوار کی لین‘‘ ( کاکردگی بہتر بنانے کی ) مہارتیں سیکھنے کے بہت شوقین تھے تا کہ سپلائی لائینوں کو ہر ممکن حد تک کھینچ کر رکھا جا سکے۔ ذخائر کو شعوری طور پر کم سے کم حد پر رکھا جاتا تھا۔یہ اس وقت تک تو چل سکتا ہے جب تک سپلائی میں کوئی خلل نہ پڑے۔اب وہ اس کم نظر پالیسی کے نتائج بھگت رہے ہیں۔اس نے ایک مرتبہ پھر سے سرمایہ داری کے ضعف کوعیاں کر دیا ہے، جو پیداوار کے ہر شعبے سے زیادہ سے زیادہ منافع نچوڑنے کے چکر میں خود کو مزید غیر محفوظ بناتی جاتی ہے۔دنیا بھر میں ٹیکنالوجی کے پرزوں کی سپلائی میں جاپانی کمپنیوں کا حصہ چالیس فیصدہے۔ دنیا بھر میں بننے والی فلیش میموری ( flash memory) جو سمارٹ موبائل فونوں اور ڈیجیٹل کیمروں میں استعمال ہوتی ہیں کا 30فیصد ، اور ہر کمپیوٹر کے لازمی جز ڈی ریم میموری (D-Ram memory) کا دس سے پندرہ فیصدجاپان میں بنتا ہے۔ اساہی( Asahi) ، این ایچ ٹیکنو(NH Techno)اور نیپون الیکٹرک گلاس(Nippon Electric Glass) دنیا میں فلیٹ سکرینوں میں استعمال ہونے والے برقی شیشوں کے تین سب سے بڑے سپلائر ہیں۔ایپل کے آئی فون( iPhone) پر آنے والی لاگت کا ایک تہائی جاپانی پرزوں پر خرچ کیا جاتا ہے۔ان سب کی سپلائی چین بجلی کی بندش اور پیداوار میں خلل کی وجہ سے ٹوٹ گئی ہے۔اس بحران سے انفرا سٹرکچر بھی متاثر ہوا ہے خصوصاً ٹرانسپورٹ کا، جس کی وجہ ایندھن کی قلت ہے۔ ملک کی بندر گاہوں کے متعلق بھی خاصی تشویش پائی جاتی ہے۔چپ بنانے کے پلانٹوں کو بڑی مقدار میں بجلی اور پانی درکار ہوتا ہے، یہ دونوں بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ ان پیداواری عوامل کی پیچیدگی کے باعث چھوٹے سے خلل کے اثرات بھی مہینوں تک محسوس کیے جا سکتے ہیں۔متاثرہ علاقے میں ہونڈا کے ایک سو تیرہ سپلائر ہیں۔ یہ سب کسی نہ کسی طرح متاثر ہوئے ہوں گے۔ ان کی پیداوار میں خلل پڑنے کے بہت دور تک اثرات ہوں گے۔ سونڈنSwindon) (میں یورپ میں ہونڈا کے مرکزی پلانٹ میں سپلائی کے مسائل درپیش آئے ہیں۔جاپان نہ صرف ایک بر آمدی ملک ہے بلکہ اس کی گاڑیوں کی بہت اہم داخلی منڈی بھی ہے جو چین اور امریکہ کے بعد دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے اور اس بحران سے بری طرح متاثر ہو گی۔ غیر مستحکم معاشی صورتحال مشرق وسطیٰ میں عدم استحکام کے باعث تیل کی بڑھتی ہوئی قیمت سے مزید خراب ہو گئی ہے۔جاپان کی پیداوار ابھی بھی عالمی معاشی بحران سے قبل دو ہزار آٹھ ، نو کے مقابلے میں کہیں کم ہے۔اس نئے بحران کی معاشی قیمت چکانا پڑے گی۔ اس صورتحال پر قابو پانے کی خاطر نظام میں مزید پیسہ ڈالنے سے حکومتی قرضے میں اضافہ ہو گا۔ جو پہلے سے ہی جی ڈی پی کا دو سو فیصد اور صنعتی ممالک میں سب سے زیادہ ہے۔ یہ حکومتی بجٹ کو مزید داغدار کرے گا جبکہ بینک آف جاپان مزید حکومتی بانڈ خرید رہا ہے۔اگر اگلی دو سہ ماہیوں میں شرح نمو میں مزید سست روی آتی ہے تو جاپان کا قرضے اور جی ڈی پی کا تناسب اس سے کہیں بد تر ہو جائے گا۔ لیکن وہ اس سے زیادہ کچھ کر بھی نہیں سکتے۔ کئی سالوں سے شرح سودکو صفر کو قریب رکھا گیا ہے۔ اگرچہ تعمیر نو سے تعمیرات کی صنعت میں ابھار آئے گا اور معیشت میں حرکت آئے گی ، لیکن اس بحران سے بحالی میں بہت لمبا عرصہ لگے گا جس کے نقصان کا تخمینہ پانچ سو ارب ڈالر کے قریب لگایا گیا ہے۔ ان حالات میں جاپان عالمی سرمایہ داری کی نازک ترین کڑی بن سکتا ہے۔ جاپان کا ایٹمی توانائی کا شعبہ بحران کی لپیٹ میں ہے۔ فوکوشیما کے پلانٹ کو بند کرنا پڑے گا اور ممکنہ طور پر نیشلائز بھی۔ اس بحران سے ایٹمی صنعت پر دباؤ پڑے گا اور حکومت کو غصے اور شک و شبہات سے بھرپور رائے عامہ کے دباؤ میں اپنے مستقبل کے لائحہ عمل پر نظر ثانی کرنی پڑے گی۔ اور اس پر انتشار دور میں اس سے تیل اور کوئلے کی طلب میں اضافہ ہو گا۔اس سب نے ایک دفعہ پھر سے دکھا دیا ہے کہ سرمایہ داری اور منڈی کی معیشت انسانی سماج کو ایک ہم آہنگ انداز میں ترقی دینے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ منافعوں کی ہوس ناگزیر طور پر شارٹ کٹ اور کرپشن کو جنم دیتی ہے کیونکہ اس میں بے پناہ دولت ملوث ہوتی ہے۔ منافعوں کی لالچی کمپنیوں کے ہاتھوں میں ایٹمی تونائی ایک خطر ناک اکٹھ ہے۔ یہ وہ بنیادی سبق ہے جو جاپان کے ا لمیے سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔صرف اس بحران زدہ سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑکر اور سوشلزم قائم کر کے مستقبل میں اس طرح کے خوفناک حالات سے بچ سکتے ہیں۔ اسی صورت میں ہی ہم اپنے وسائل کی جمہوری منصوبہ بندی کر سکتے ہیں، جہاں عام محنت کش عوام کی ضروریات اولین ترجیح ہوں گی، نہ کہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی کبھی نہ مٹنے والی ہوس۔ صرف اسی صورت میں سائنس انسانی ترقی کی اور بہتری کی لونڈی بن سکتی ہے نہ کہ سرمائے کی غلام۔ جاپان کے المیے کا یہی سبق ہے۔Translation: Chingaree.com