ایران میں انقلابی تحریک کا ایک سال Urdu Share TweetUrdu translation of Iran 22 Khordad 1389 (June 24, 2010)چنگاری ڈاٹ کام،20.06.2010۔ ۔ ۔ پچھلے سال جون میں عاشورہ کے موقع پر ایران میں پھوٹنے والی تحریک ایران کی تاریخ کا ایک اہم سنگ میل تھی۔ ہم نے انہی دنوں لکھا تھا کہ وہ مقام گزرچکاہے کہ جہاں سے واپسی ممکن ہو سکے ۔ اور تب تحریک میں شامل ہرایک متحرک پرت کو یہ یقین تھا کہ تحریک سب سے پہلے اسلامی جمہوریہ کو اس کے سبھی ڈھانچوں اور عسکری مشینری سمیت اکھاڑ پھینکے گی۔ لیکن بدقسمتی سے گرین موومنٹ والے اپنی ہی طاقت سے ہراساں ہو کر سہم گئے ہیں ۔ ایک انقلابی قیادت کا خلا ء اس وقت ایران کی تحریک کی سب سے بڑی رکاوٹ بن کر سامنے آچکاہے ۔ لیکن پھر اگر کوئی گرین موومنٹ قیادت کی سراسیمگی اورانقلابی قیادت کے خلا سے یہ سمجھتا ہے کہ تحریک ختم ہو چکی ہے تو وہ ایک بڑی غلطی پر ہے ۔ نیچے سماج میں جو کیفیت پل اور پک رہی ہے ، اس سے یہ کہا جاسکتاہے کہ اب کی بار جب تحریک اپنا احیاء کرے گی تو یہ معیاری حوالے سے سب کچھ بدل کے بھی رکھ دے گی اور یہ پہلے والی تحریک سے کہیں بلند وبرترہوگی۔ ایرانی سماج میں موجود کوئی بھی تضاد ختم نہیں ہواہے،نہ کیاجاسکاہے ۔ اس کے برعکس ایرانی سماج کی ہرایک پرت میں سیاسی معاشی اور سماجی بحران پہلے سے بھی شدید اور گہرا ہو چکا ہے۔ اپنی اپنی جگہ اور اپنے اپنے حالات میں سماج کا کوئی طبقہ بھی مطمئن نہیں ۔ ابھی حال ہی میں پانچ کرد لیفٹسٹوں کوپھانسی چڑھایاجانا،اور اس کے نتیجے میں ایرانی کرد علاقے میں ہونے والی ہڑتال ، تہران یونیورسٹی کے باہر ایرانی صدر کے خلاف خودروپھوٹ پڑنے والے مظاہرے اور پھر اس سال ایران بھر میں یوم مئی کے موقع پر ہونے والے اجتماعات ، یہ سب واقعات اس بے چینی وبے تابی کا اشارہ دیتے ہیں جو ایرانی سماج میں موجود ہی نہیں بلکہ پل اور پک بھی رہی ہے ۔ اور یہ اعلان بھی کر رہی ہے کہ سماج میں متحارب طبقات کے مابین ایک اور جنگ شروع ہونے والی ہے جو اپنی طبع اور مزاج میں پہلے سے کہیں طاقتور اور باشعور ہوگی۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ گرین موومنٹ کی اصل رکاوٹ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ المیہ یہ ہے کہ تحریک کا موجود تعطل اورجمود پچھلے سال دسمبر میں عاشورہ کے موقع پر اچانک سامنے آنے والے مظاہروں کے بعد سامنے آیا ۔ ایک طرف جہاں ایران کے سرکش اور جراتمند عوام کے جوش وجذبے نے حکومت کی کمزوری کو عیا ں کر دیاہواتھا تو دوسری طرف اس تحریک نے اپنی قیادت کے بانجھ پن کو بھی سامنے لا کھڑاکردیا۔ ایک پروگرام ، ایک تنظیم کی کمی اور محنت کش طبقے کی ایک طبقے کے طورپر غیرموجودگی ہی وہ حقیقی عوامل ہیں جو تحریک کے ٹھہرجانے کاسبب ہیں۔ آخری تجزیے میں اس قسم کے مسائل ایک باشعور عوامی انقلابی قیادت کی کمی کا نتیجہ ہی ہوتے ہیں ۔ بلاشبہ تحریک کے دوران شعور کا معیار بہت بلند بھی تھا اور تحریک کے ہزاروں شرکا پر تحریک کے مقاصد بھی واضح تھے ۔ لیکن ان مقاصد اور اس شعور کے تعین اور حصول کے اوزار موجود نہیں تھے ۔ ہم نے تب ہی اس عمل کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’’اب سے پہلے جتنی بھی تحریکیں سامنے آئیں ، ان کی مقدار اور معیار اس موجودہ تحریک کی صورت میں یکجاہوتانظرآرہاہے لیکن پھر یہی طاقت ہی اس تحریک کی واضح کمزوری کی بھی وضاحت کرتی ہے ۔ عاشورہ کے بعدہونے والے مظاہروں کے بعد کچھ چھوٹی اور کمزور پرتیں ایسی تھیں کہ جو متذبذب ہونے لگی تھیں ۔ وہ خود بھی مظاہروں میں شریک ہوتے تھے اور بڑبڑاتے ہوئے خود سے ہی پوچھ رہے ہوتے تھے جو کہ آخر یہ سب لوگ کس لیے سڑکوں پر نکلے ہوئے ہیں ؟ کیوں یہ چیزوں کو جلا رہے ہیں اور کیوں پولیس کے ساتھ لڑنے پر تلے ہوئے ہیں ؟ آخر یہ کیا چاہتے ہیں؟ اور ان کے کیا آدرش ہیں؟ ہر چند کہ اس قسم کی متذبذب کیفیتیں ہواکرتی ہیں اور جو عارضی بھی ہوتی ہیں اور معمولی بھی لیکن ہمیں انہیں معمولی سمجھ کر نظرانداز نہیں کرنا چاہیے ۔تحریکوں کی تاریخ اس قسم کی کیفیتوں سے بھری پڑی ہے ۔ اس قسم کی متذبذب پرتوں کو ردانقلاب ہی سیدھا کیا کرتا ہے ۔ اور یہی ہر طبقاتی لڑائی کا بنیادی قانون ہے۔ جب کسی ایک فریق کی بنیاد کمزور پڑجاتی ہے تو دوسرے فریق کی بنیادلا محالہ مضبوط ہوجایاکرتی ہے۔ عاشورہ کی تحریک کے بعد سے پیداہوجانے والا ٹھہراؤ ، اس کے باوجود کہ مصنوعی ہے، ہمارے ابتدائی اندازوں سے کچھ زیادہ وسیع ہو گیا ہے تاہم اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ تحریک فیصلہ کن شکست سے دوچارہوچکی ہے بلکہ اس کے برعکس اس کا مطلب یہ ہے کہ تحریک سے وابستہ شعوراپنے اظہاراور کردارکیلئے نئے ذرائع اور وسیلے تلاش کر رہاہے۔ تحریک میں شامل عناصر کے سامنے یہ سوال موجود ہے کہ ’’ہم نے اپنی زندگیاں تک داؤ پر لگا دیں، اورجتنا زور اور طاقت ہمارے بس میں تھی وہ بھی ہم نے کر کے دکھا دی ، لیکن اس کے باوجود کچھ بھی نہیں بدلا جا سکاہے! ہمیں اپنے طریقے بدلنے کی ضرورت ہے ‘‘۔ عاشورہ کے بعد کے جن جن مواقع پر تحریک نے اپنا اظہار کیا اورجس انداز میں کیا، وہ اس کے مزاج کا بخوبی پتہ دیتاہے ۔ تحریک کے ہراول دستے جس جرات کے ساتھ سامنے آئے، اس کے مقابلے میں انہیں کسی قسم کے مقابلے کا سامنانہیں کرناپڑا،تاہم یہ بات بھی طے تھی کہ انہیں تحریک کی وسیع پرتوں کی حمایت حاصل نہیں تھی ۔ جب بھی تحریک کو حکومتی جبروتشدد کا سامناکرناپڑا تو نام نہاد قائدین میں سے کئی نے اپنی زندگیاں داؤ پر لگانے سے بہتر یہ سمجھا کہ گھروں میں بیٹھ کر وقت پاس کیاجائے۔ انقلاب روس کے قائد لیون ٹراٹسکی نے اپنی شاہکار کتاب ’’ انقلاب رو س کی تاریخ ‘‘ کے دیباچے میں لکھا ہے کہ ’’عوام کبھی بھی کسی انقلابی عمل میں سماج کو بدلنے کے ایک منظم منصوبے کے ساتھ شامل نہیں ہواکرتے ۔ بلکہ اس کی بجائے وہ ایک ہی جذبے کے ساتھ میدان میں اترتے ہیں کہ ان کیلئے پرانا نظام ناقابل برداشت ہوچکاہوتا ہے ۔ یہ صرف طبقے کی باشعور رہنما پرتیں ہی ہوتی ہیں جو کہ ایک سیاسی پروگرام کے ساتھ اپنا کرداراداکرتی ہیں لیکن پھر اس کیلئے بھی اس رہنما پرت کو طبقے کے سامنے بار بار واقعات کے امتحان در امتحان سے گزرناپڑتا ہے اوراپنی ساکھ بنانا ہوتی ہے ۔ اوریوں عوام سے اپنے لیے قبولیت کی سند حاصل کرنی پڑتی ہے ۔ انقلاب کا سیاسی عمل سماجی بحران کے نتیجے میں جنم لینے والے مسائل کے ساتھ ایک طبقے کے بتدریج ادراک اور ابلاغ پر ہی مبنی ہوتا ہے ۔ یہ عوام کی، مسلسل مشاہدے کی ریاضت کی حامل سرگرم جڑت کا عمل ہواکرتاہے‘‘۔ ایک انقلاب زندہ قوتوں کے مابین سنگھرش ہوتاہے ۔ جن کے پھر اپنے اپنے اندرونی تضادات ہواکرتے ہیں ۔ جو مختلف مرحلوں کے دوران اپنی انتہاؤں اور بلندیوں کو پہنچ رہے ہوتے ہیں ۔ یہ لڑائی کبھی بھی ایک ہی رخ اور کیفیت میں نہیں لڑی جاتی ۔ بلکہ یہ ناہموار اور مشترکہ طورپر اپنا اظہارکرتی ہوتی ہے ۔ اور یہی اس وقت ایران کی تحریک کا بھی معاملہ ہے ۔ ہمیں یہ یادرکھنا چاہیے کہ اس تحریک نے اپنا اولین اظہار انس سو ننانویں میں طالب علموں کے مظاہروں سے کیا تھا ۔ کوئی دس سالوں کے بعد جاکر تحریک نے اپنی موجودہ کیفیت اپنائی اور ایک حقیقی عوامی تحریک کا رنگ روپ حاصل کیا۔ جس نے براہ راست حکمرانوں کو چیلنج کردکھایا۔ اپنے ہر قدم پر تحریک کو رکاوٹوں کا سامنا کرناپڑے گا، کیونکہ اسے کوئی انقلابی قیادت میسر نہیں ۔ یہ غلطیاں کرے گی اور ان سے سبق حاصل کرتی جائے گی ۔ اور یہی اس کا امتحان بھی ہے ۔ چنانچہ مذکورہ عاشورہ کے بعد سامنے آنے والی تحریک کے ساتھ بھی ہواجس نے اپنے سابقہ اسباق سے سیکھتے ہوئے پیش قدمی کی ۔ اور یہ ایران کے ہی نہیں دیگر انقلابات کا بھی قصہ رہاہے مثال کے طور پر ہم سپین کے انیس سو تیس سے انس سو سنتیس کے انقلاب کو دیکھیں تو ہمیں ایران کے موجودہ انقلاب سے کئی مماثلتیں ملیں گی ۔ دونوں میں ہم ردانقلاب کے کئی ادوار دیکھتے ہیں کہ جب عوام نے پست قدمی اختیار کی اور کئی پرتوں میں مایوسی اور تذبذب کی کیفیت بھی پیداہوگئی۔ لیکن پھر سکون اور سستی کے یہ عرصے نئی پیش قدمی کا ہی پیش خیمہ ثابت ہوتے ہیں۔ اور یہ سارا عمل متحارب قوتوں کے مابین طاقت کے توازن کی وجہ سے ہوتاہے یعنی انقلابی اور ردانقلابی قوتوں کے مابین۔ ہم کمیونسٹوں کو چاہئے کہ اس قسم کے عارضی جمود کے عرصے میں خود کو اور اپنی تنظیموں کو منظم کریں۔ تاکہ جب جنگ کا اگلا اور نیا مرحلہ شروع ہو تو ہماری قوتوں میں اضافہ ہوچکاہو۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ محنت کش طبقہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔۔ یہ بات واضح اور صاف ہے کہ محنت کش طبقے کی ایک آزاد کردار کے طورپر، وہ بھی اپنے اہداف و مقاصدکے ساتھ، اس تحریک میں غیرموجودگی تحریک کی سب سے نمایاں کمزوری رہی ہے۔ اور کیا ہم اس کے علاوہ کچھ تصوربھی کرسکتے ہیں ؟ایک منظم ادارے اور طبقے کے طورپر تحریک میں محنت کش طبقے کے نہ ہونے کی پانچ وجوہات ہیں‘1۔ سب سے پہلی کمی اور کمزوری ایک مزدور تنظیم کے نہ ہونے کی ہے ۔ کہ جس کی مددسے مزدور منظم طورپر تحریک میں شمولیت کر سکیں۔ ایران میں مزدوروں کی سبھی تاریخی تنظیمیں تباہ وبربادکر کے رکھ دی گئی ہیں۔ اور ابھی اگر ہیں بھی تو وہ بالکل ابتدائی حالت میں ہیں ۔ تاہم حالات کے تبدیل ہونے کی صورت میں یہ عمل تیزی کے ساتھ بدل بھی سکتاہے ۔2۔ معاشی بحران کے دن بدن شدید ہونے سے اور پھر اس کے باعث محنت کش طبقے کی زندگی میں پیداہونے والی تلخیوں نے دنیا بھر میں ہی ان کے جیسے اوسان خطاکردیے ہوئے ہیں ۔ ایران میں تو خاص طور پر یہ بحران کچھ زیادہ ہی سخت اور شدید ہے ۔ چنانچہ مناسب قیادت اور تنظیم کی غیر موجودگی میں طبقے کی تکالیف میں اضافہ ہوتا چلاجارہاہے اور ان کے سروں پر بیروزگاری کی تلواریں بھی لٹک رہی ہیں ۔3۔ قیادت کی غلطی ؛ ہرچند کہ ایران کی تحریک ایک طویل سفر کرکے یہاں تک پہنچی ہے لیکن پھر بھی اس میں بڑی واضح کمزوریاں موجودہیں ، خاص طورپر قیادت کے معاملے میں چند ایک ٹریڈیونینوں کی قیادت نے اگرچہ تحریک کی حمایت بھی کی لیکن وہ اپنی حمایت کو عمل میں نہیں لائے ۔ خاص طور پر واحد بس یونین تحریک کے دنوں میں ہڑتال کر سکتی تھی ۔4۔ انقلابی پروگرام کی کمی؛ کسی بھی انقلابی جدوجہدکیلئے ایک مناسب پروگرام انتہائی ضروری ہوتاہے ۔ اس کا نہ ہوناایک بہت بڑی کمزوری کا باعث ہو سکتی ہے ۔ ایسے میں جب عام ہڑتال کی کال دی جاتی ہے تو اسے حکومت کے خاتمے کے مطالبے کے ساتھ نہیں جوڑا جاسکتا۔ تاہم یہاں ایران میں عام ہڑتال کا اعلان و اہتما م کرنا ، جس کا واضح مطلب ریاست کو کھلے عام چیلنج کرناہے اور ایک ایسا تناظر جس میں حکومت کی تبدیلی کا پروگرام ہی نہ ہو، ایک ایسی بربریت کو دعوت دے سکتاہے جو کہ وحشی ہوچکی ہے۔ اور یہ بھی بہت سوں کیلئے ایک دلیل بنی ہوئی ہے۔ چنانچہ ورکنگ کلاس کی بڑی تعداد کو اپنے ساتھ ملاتے ہوئے، ایک جراتمندانہ پروگرام کو سامنے لاتے ہوئے، حکومت کو اکھاڑ پھینکو کے نعرے کے ساتھ تیاری بہت ضروری ہے۔5۔ ان سب وجوہات کو اگر ایک وجہ میں مجتمع کیا جائے تو وہ ایک ہی بنتی ہے؛ محنت کش طبقے کی نمائندہ تنظیم کی کمی ۔ یعنی انقلاب کی رہنمائی کرنے والی قوت کی۔ ایران کی آمرانہ وحشی حکومت کی موجودگی اورایک حقیقی ورکنگ کلاس تنظیم کی کمی دونوں مل کر ایک وسوسے اور بے یقینی کو ایرانی سماج میں عام کرنے کی بڑی وجہ ہے ۔ اور یہی ایران میں موجود کیفیت کی بالکل درست عکاسی کررہی ہے ۔ ان وجوہات نے ایران کی جدوجہد کو ایک المیے سے دوچارکیاہواہے ۔ ٹراٹسکی نے فاشسٹ جرمنی کے حوالے سے حسب ذیل لکھا ہے ۔ ’’تاریخی طورپر ایک فاشسٹ حکومت کوبراہ راست ایک مزدورحکومت کے ذریعے بدلنا خارج از امکان نہیں قرار دیاجاسکتا۔ لیکن پھر اس قسم کے امکان کو ممکنات میں بدلنے کیلئے لازم ہے کہ کوئی انتہائی طاقتورغیرقانونی سماجی پارٹی موجود ہو جو کہ فاشزم کے خلاف جدوجہد سے نبردآزمائی کرے ۔ اورجس کی مددورہنمائی کے ساتھ محنت کش طبقہ اقتدار پر قبضہ کر سکے۔ تاہم یہاں ہم یہ بات بھی ضرور کہیں گے کہ اس قسم کی غیر قانونی انقلابی پارٹی بنانا قطعاً کوئی آسان کا م نہیں ہواکرتا ۔ اور اس حوالے سے کچھ بھی حتمی نہیں کہا اور کیا جاسکتاہے ۔عوام میں موجود بے چینی ، اضطراب اور غم وغصہ ، ایک خاص مرحلے پر پہنچ کراس وقت کو زیادہ تیزی سے طے کر لے گا جتنا کہ ایک غیرقانونی انقلابی پارٹی بنانے میں لگتا یا لگ سکتا ہے ۔ یوں عوام کے ذہنوں میں ہمہ قسم کا ابہام واضح پروگرام اور نظریات کی کمی جمہوریت کیلئے بہت آسانیاں پیدا کر دیا کرتی ہے ۔ ’’مگر اس کا یہ بھی مطلب بھی نہیں ہے کہ جرمنی میں فاشزم کا خاتمہ اسے ایک طویل عرصے کی پارلیمانیت سے روشناس کرادے گا۔ فاشزم ماضی کے سیاسی تجربے کو ختم نہیں کر سکے گا۔ یہ اس قابل ہوتا ہی نہیں کہ یہ سماج کے ڈھانچوں کو ہی بدل ڈالے ۔ جرمنی کی ترقی کے حوالے سے یہ توقع رکھنا ہی سب سے بڑی غلطی ہوگی کہ جرمنی ایک طویل المیعاد جمہوری عرصہ دیکھ پائے گا۔ لیکن کسی بھی انقلابی ابھار کے ساتھ ہی سب سے بنیادی مطالبات ہی ناگزیرطورپر جمہوری ہوں گے ۔ اور اگر جدوجہد آگے بڑھتی ہے ، اور یہ اجازت نہیں بھی دیتی، پھر بھی، ایک دن کی سہی ، ایک جمہوری ریاست کا جنم ممکنات میں سے ہوسکتاہے ۔ جدوجہد اپنے تئیں اپنے آپ کو محض جمہوری مطالبات کے ذریعے آگے نہیں لے جایا کرتی ۔ ایک انقلابی پارٹی ہی ہوگی جو کہ اس مرحلے کو ایک چھلانگ کے ساتھ طے کرتے ہوئے اس کیفیت کی گردن کاٹ سکے گی‘‘۔ لیون ٹراٹسکی‘ فاشزم اور جمہوری نعرے انیس سو تیتیس ،، محنت کش طبقے کی تنظیموں کی غیرموجودگی کی کیفیت میں اور اس کے نتیجے میں ، جمہوری خوش فہمیوں اور غلط فہمیوں کی بہتات نے، بلاشبہ ہر جدوجہد کو ایک بھیانک بے یقینی اور بے بسی کی پاتال میں دھکیلاہواہے ۔ چند ایک نہیں ہزاروں حقیقی ورکنگ کلاس لیڈرزایک حقیقی متبادل کیلئے ادھر ادھر دیکھ رہے ہیں‘ دیکھتے چلے آرہے ہیں ۔ یہی نہیں بلکہ انتہائی درست طورپر محنت کش طبقے کی باہمی جڑات ویگانگت کی جبلت کا ابھی اظہار کررہے ہیں۔ وہ بے تاب آنکھوں سے سماج میں ان بہادر جراتمند مردوزن کی تلاش میں اس طرح سرگرداں ہیں کہ تھکنے کا نام ہی نہیں لیتیں۔ اور اس میں کچھ بھی غلط نہیں ہے ۔ لیکن پھر اس طرح سے تحریک میں طبقاتی سمجھ بوجھ بہت پیچھے رہ گئی ہے۔ یہ کیفیت مگر عارضی ہو سکتی ہے ۔ اور اس حوالے سے کچھ اشارے ہمیں ابھرتے اور سامنے بھی نظر آرہے ہیں ۔ تحریک کی روزمرہ کی تیاری کا سرکھپادینے والا کام اب نہیں ہورہا۔ اور ایسا لگتا ہے کہ چپ سادھ لی گئی ہے ۔ سرگرمی کا مرکزومحور اب تمام ہوچکاہے اور اس کی بجائے اب ایک سالماتی عمل شروع ہوچکاہے ۔ ہر کارخانے میں اور ہر کام کی جگہ پر ۔ اور جو کہ تحریک کی طرف آنے کی جستجو میں آتے جارہے ہیں۔ یہ عمل ہر کسی کوہوتا نظرآرہاہے ۔ ہڑتالوں کا عمل عاشورہ کے دنوں سے پہلے کے مقابلے میں حیران کن حد تک بڑھنا شروع ہوگیا ہے ۔ اگرچہ پچھلے سال کی طرح سے تو نہیں لیکن اس سال کا یوم مئی اپنے معیار کے اعتبار سے انتہائی مختلف اور منفردرہاہے اور کئی شہروں میں طبقے نے ایک انتہائی منظم انداز میں اپنے جلسے اور مظاہرے منظم کیے ہیں ۔ ہر جگہ محنت کش طبقے کو تحریک میں لانے یا اس کے تحریک میں ہونے کی باتیں ہو رہی ہیں اور ایک عام ہڑتال کی گفتگو تو زبان زد عام ہوچکی ہے ۔ تیرہ مئی کو کردعلاقے میں ہونے والی کامیاب ہڑتال توقع سے پہلے سامنے بھی آئی اور کامیاب بھی ہوئی کرد علاقے کی حکومت کا بھیانک رد عمل لاکھوں ایرانیوں کی آنکھوں میں ایک نیا ولولہ پیدا کرگیا ۔ اور اس بات کو کسی طور خارج ازامکان نہیں قرار دیاجاسکتا ہے کہ ’’رد انقلاب کا ایک اور اس قسم کا دھاوا‘‘ لوگوں کو ایک ملک گیر ہڑتال کیلئے مجبورکردے ۔ کمیونسٹوں پر یہ فریضہ عائدہوتاہے کہ وہ اس گرین موومنٹ کے اندر رہتے ہوئے ، اس قسم کے واقعات میں مداخلت کرنے کیلئے تیاررہیں اور محنت کشوں کے مطالبات کا ساتھ دیں ۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ ہمیں ایک عام ہڑتال کی اہمیت سمیت فیکٹریوں اور کام کی جگہوں پر آرگنائزنگ کمیٹیوں کی تشکیل کی ضرورت بارے بھی اپنا موقف رکھنا اور سمجھانا چاہئے۔ اس بات سے ہٹ کربھی، آنے والے دنوں میں محنت کش طبقے کی تحریک میں مداخلت اور شمولیت کے دروازے کھل رہے ہیں ۔ اگرچہ یہ کیفیت اپنا حقیقی اظہار اور اعلان اسی صورت میں کرے گی کہ جب یہ ملا حکمرانی کا تختہ الٹتی ہے ۔ اس دوران سرمایہ داری کی عوام کو کچھ بھی نہ دے سکنے کی صلاحیت سب کے سامنے عیاں ہوکر آجائے گی ۔ اور تب سوشلزم کا تناظر پوری طرح سے عوام پر کھل جائے گا۔ ہمیں یہ کسی طور نہیں بھولنا چاہئے کہ انقلاب کا عمل بہت طویل بھی ہوسکتاہے اور ہوتاہے ۔ سپین کے انقلاب نے بھی چار سے پانچ سال کے عرصے کے بعد ہی ایک سوشلسٹ شکل وصورت اختیار کی تھی ۔ جب ورکروں نے کارخانے سنبھال لیے تھے اور انہیں خود چلاناشروع کردیاتھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حکمران طبقے میں بڑھتی ہوئی دراڑیں ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اپنی تمام تر امیدوں اور کاوشوں کے باوجود ، حکمران طبقات آپس میں اتحاد اور یکجہتی قائم کرنے میں ناکام ہورہے ہیں ۔ پچھلے جون سے دسمبر تک تو یہ لرزکر، لڑکھڑاکے رہ گئے تھے۔ اس کے بعد سے بھی ان میں دراڑیں مزید بڑھتی چلی جارہی ہیں۔ اس کا سب سے بڑا مظاہرہ ہمیں پارلیمنٹ میں ہوتا نظرآیا کہ جہاں احمدی نژاد کے حامیوں کا غلبہ ہے لیکن جہاں یہ حکومت روٹی اور گیس کی مد میں سماجی کٹوتیوں کے چالیس بلین ڈالرزکے بل کو منظور نہیں کر اسکی ۔ اس کی بجائے ارکان نے بیس بلین ڈالرز کے ایک اور بل کی تجویز دی ، جس پر احمدی نے کہا کہ وہ اس پر عمل درآمد کا پابند نہیں ۔ حکمران دھڑوں کی ایک اور بڑی پھوٹ اس وقت سامنے آئی کہ جب ایک کنزرویٹورکن اسمبلی ایلاس نادرن نے یہ الزام عائد کیا کہ ایران کا اول نائب صدر محمد رضا رحیمی فاطمی سٹریٹ ٹولے کا سربراہ ہے جو کہ لوٹ مار غبن اور بدعنوانی میں ملوث ہے ۔ تاہم ابھی تک رحیمی کے خلاف بدعنوانی کے الزامات پر کوئی قانونی کاروائی سامنے نہیں آئی ہے۔ لیکن اس الزام نے نہ صرف حکومتی بلکہ کنزرویٹو حلقوں میں سخت پھوٹ ڈال دی ہے ۔ عام حالات میں اس قسم کے معاملات ناقابل توجہ اور عام سمجھے جاتے ہیں ۔ مگر ایک ایسی کیفیت میں جب حکومت اور حکمران طبقات اپنی کھوکھلی ہوتی بنیادیں مستحکم کرنے کی تگ ودو میں لگی ہوئی ہو ، وہاں نظام کی مسلسل بدحالی ان کے باہمی بندھنوں اور تعلقات کو شدید شکست وریخت میں مبتلا کرتی رہتی ہے ۔ یہ سب ایک دوسرے کے لتے لینے ، ایک دوسرے پر انگلیاں اٹھانے ، ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے پر مجبورہوجاتے ہیں ۔ سب اپنے کو جائز اور دوسرے کو غیرقانونی قراردینے پر اتر آتے ہیں ۔ لینن نے وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ کس طرح حکمران طبقے کی حکمرانی کی نااہلیت سامنے آتی ہے اور کیونکر یہ انقلاب کی بنیادی نشانی بنتی ہے ۔ ’’ایک انقلاب کیلئے پہلی شرط یہی ہوتی ہے ۔حکمران طبقات کسی بھی تبدیلی کے سامنے آئے بغیر حکمرانی کرنے میں ناکام ہوتے چلے جاتے ہیں ۔جب بھی کوئی بحران ہوتا ہے تو ایک یا دوسری شکل میں ، اپرکلاس میں ، پالیسی کا بحران شروع ہوجاتا ہے، جس کے دباؤ کے نتیجے میں نیچے عوام میں غصہ اور بیتابی پھٹنا شروع ہوجاتی ہے ۔ انقلاب کے بنیادی لوازمات میں یہ شامل ہے کہ عوام موجودہ صورتحال میں زندہ رہنے سے انکار کردیتے ہیں ۔ اور نہ صرف عوام بلکہ خو داپرکلاس کیلئے بھی موجود صورتحال میں رہتے ہوئے حکمرانی کرنا محال ہوجاتا ہے ۔ ،، لینن ‘ دوسری انٹرنیشنل کا انہدام انیس سو پنتالیس،، ۔ ٹراٹسکی نے آگے چل کر، کسی طرح اس عمل کو جامد قرار نہ دیتے ہوئے ،لکھا ہے ک۔ ’’ پرولتایہ اور درمیانے طبقے،دونوں کے موڈ میں تبدیلی‘ اپر کلاس کے موڈ میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ چلتی ہے کہ جب اپرکلاس یہ جان جاتی ہے کہ اس کیلئے حکمرانی ناممکن ہو چکی ہے ، یہ نظام کو بچانے میں ناکام ہورہی ہے اوریوں یہ اعتماد سے محروم ہوتی چلی جاتی ہے اوراس کااظہار اپرکلاس میں انتشار اور پھوٹ کی صورت میں سامنے آتاہے‘‘۔ ٹراٹسکی‘ انقلابی صورتحال کیا ہوتی ہے انیس سو اکتیس ،، ۔ ایران کے حکمران طبقات کے مابین پھوٹ ایک طرف عوام کی تبدیلی کیلئے تحریک کا نتیجہ ہے ، لیکن پھر بات صرف اتنی نہیں ہے ۔ اسی طرح حکمران دھڑوں کی روز بڑھتی تقسیم بھی تحریک کو مزید تقویت اور بڑھاوادینے کا باعث بنی ہے ۔ اور ابھی تو آگے چل کر اور بھی بہت کچھ سامنے آسکتاہے ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ۔ ایک انقلابی قیادت کی ضرورت ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ ایران میں انقلاب کا عمل ابھی تمام نہیں ہواہے ۔ تحریک کی شریک اور فریق دونوں پارٹیاں اپنی اپنی جگہ مطمئن نہیں ہیں اور سخت اضطراب کی حالت میں ہیں اور یہ اضطراب زیادہ دیر جامد نہیں رہے گا ۔ سماج کی تہوں میں نئے دھماکے پنپ رہے ہیں اور عوام اپنی تقدیریں بدلنے اور انہیں اپنے ہاتھوں میں لینے کیلئے ایک بار پھر میدان میں اتریں گے ۔ تحریک کی ضرورت ہی اس کی سب سے بڑی طاقت ہواکرتی ہے ۔ لیکن پھر اتنی ہی ضرورت اور اہمیت ایک انقلابی قیادت کی بھی ہواکرتی ہے جو عوام کی اس طاقت کو صحیح معنوں میں بروئے کار لا سکے ۔ سچ تو یہ ہے کہ ایسی انقلابی قیادت نہ ہونا ہی موجودہ حکومت کے موجود رہنے کی واحد وجہ ہے ۔ جوں جوں وقت گزررہاہے ، قیادت کی کمی کا مسئلہ جوں کا توں موجود ہے ۔ ’’موسوی‘‘ کے تحریک کے قائدہونے کا سوال اب تحریک کی سبھی پرتوں پر واضح ہوتا جارہاہے ۔ وہ اب محض سرکاری اور کاغذی قائد بن کے رہ چکاہے ۔ اس کا ایک ہی کردار تھااور ہے کہ وہ عوام کی اس تحریک کو سوشلزم کی طرف بڑھنے سے روکے اور بس ، اپنی جوشیلی تقریروں میں وہ جو سب سے زیادہ ریڈیکل لفظ استعمال کرتاہے وہ ایک ہی ہے ’’اتحاد‘‘ اور اسی سے اس کا سارا چکر سامنے آجاتاہے ۔ اس لفظ سے اس کی صرف یہی مراد ہوتی ہے کہ وحشی ملاحکمرانوں اوران کی ملائیت کے مارے مظلوم عوام کا اتحادقائم ودائم رہے ۔ بالآخر موسوی کی قیادت کسی طور قیادت کے مسئلے کوحل کرنے کی بجائے اسے مزید گھمبیر کردے گی۔ تاریخ کا بے رحم دھارا بدقسمتی سے انقلابی مارکسسٹوں کو ایک قلیل تعداد میں سامنے لے آیاہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ اس قدر لاتعداد انقلابی واقعات میں بھرپور اوردرکار مداخلت کرنے میں اس طرح کردار نہیں کر پارہے ہیں ۔ یہ بہت ہی بڑا خلا ہے جسے ہم پر کرنے سے قاصرچلے آرہے ہیں۔ چنا نچہ ہم پر بہت بھاری فریضہ عائدہوچکاہے کہ ہم اس تنہائی کو توڑ کے رکھ دیں۔ اس سلسلے میں سب سے اولین اقدام یہ ہے کہ ہم مارکسی کیڈروں کی تیاری کیلئے ان کی تعلیم وتربیت پر بھرپورتوجہ دیں ۔ اور انہیں مارکسزم کے طریقوں سے لیس کریں ۔ تبھی جا کر ہی ہم اس قابل ہو سکیں گے کہ آنے والے دنوں میں سامنے آنے والی انقلابی موجوں پر سوارہوکر ان کو انقلاب میں بدل سکیں گے۔ ہر وہ مزدور اورنوجوان جو کہ طبقاتی شعور سے آگاہ ہے ، اس پر یہ فرض عائدہوتاہے کہ وہ اس قسم کے سٹڈی سرکلوں اور میٹنگوں میں بھرپور دلچسپی اور تیاری کے ساتھ شریک ہوں ۔ ان میٹنگوں اور سرکلوں کو سب سے پہلے اور سب سے زیادہ کلاسیکل مارکسزم پر توجہ دینی چاہیے ۔ جبکہ اس کے ساتھ ہی ساتھ انہیں اپنے اردگرد موجودواقعات و حالات میں مداخلت کی بھی تیاری اور منصوبہ بندی کو بھی یقینی بناناچاہئے ۔ ٹراٹسکی نے سپین کے انقلاب کے بارے میں لکھا تھا ۔ ’’ہمارے پا س بہت ہی محدود قوتیں ہیں۔ لیکن ایک انقلابی کیفیت پھر اس حقیقت کوآشکارکرتی ہے کہ ایک انتہائی قلیل وقت میں بھی ایک انتہائی چھوٹاگروپ بھی تاریخ کے میدان میں بہت بڑی طاقت بن کر سامنے آجایاکرتاہے ۔ شرط صرف یہ ہوتی ہے کہ وہ واقعات کا درست ادراک اور تجزیہ رکھتا ہو۔ اور یہ ضرورت کی مناسبت سے درکار نعرے اور مطالبات بھی پیش کرسکتاہو‘‘ لیون ٹراٹسکی‘ انقلاب کا کردار انیس سو اکتیس ،، ۔ ہم مارکسیوں کو دنیا کے ہر دوسرے گروہ سے منفرد اور ممتاز کرنے اوررکھنے والی صرف ایک ہی چیزہوتی ہے اوروہ سائنسی سوشلزم ہے ۔ یہ وہ نظریات ہیں جو کسی پردہ غیب سے نہیں آئے ۔ بلکہ یہ عالمی محنت کش طبقے کے پچھلے دو سوسالوں کے تجربات کا نچوڑہیں ۔ انتہائی غور اور انہماک کے ساتھ ان نظریات کا مطالعہ کرنا ، دنیا کے ہر کمیونسٹ کی اولین ترجیح ہونی چاہئے ۔ اس لئے نہیں کہ ان سے ہم نے کوئی عالم فاضل بنناہوتاہے بلکہ اس لئے کہ ہمیں ان سے انقلاب کیلئے درست اور بروقت آگاہی کا شعور میسرآتاہے۔ مارکس ، اینگلز، لینن اورٹراٹسکی کی تحریروں میں ان سب کیلئے وہ بیش بہا خزانہ موجود ہے کہ جو نہ صرف سماج کو سمجھنا چاہتے ہیں بلکہ اسے بدلنا بھی چاہتے ہیں ، ایران کے انقلاب کے ضمن میں ٹراٹسکی کی سپین کے انقلاب پر تحریریں ایک رہنما حیثیت کی حامل ہیں اور ان سے وہ کچھ سیکھا اور سمجھا جاسکتاہے جو کہیں اور ممکن نہیں ۔ اگر مارکسی اپنی توازن کی کیفیت کو برقراررکھیں اور کسی بھی مہم جوئی یا مفادپرستی سے پرہیز کریں توکوئی وجہ نہیں کہ کامیابی ان کے قدم نہ چومے ۔ مارکسزم کے نظریات اور طریقہ کار کی بنیاد پرہی یہ ممکن ہوسکے گا کہ ہم سرمایہ دارانہ نظام کی اس اندھی بہری وحشی حکمرانی کا خاتمہ کرنے او ر اس کی جگہ ایک سچی انسانی سوشلسٹ حکمرانی قائم کرنے والی قوت تعمیر کرسکتے ہیں۔ . . .. . . . . . . . . . . . . .Source: Chingaree