ہنڈراس میں عوام کی سرکشی سے لرزتے ایوان Urdu Share TweetUrdu translation of Honduras: Regime resorts to repression - Insurrection in working class neighbourhoods (September 23, 2009)تحریر:جارج مارٹن ، ترجمہ:اسدپتافی،01.10.2009۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اکیس اگست کی صبح کو ہنڈراس کے پہلے معزول اور بعد میں زبردستی جلاوطن کر دیئے جانے والے صدر زلایا کے بارے میں یہ بات مصدقہ ہو گئی کہ وہ واپس دارالحکومت تیگو سکالپا میں پہنچنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ زلایا نے عوام سے اپیل کی کہ وہ اس کے تحفظ کےلئے سڑکوں پر نکل آئیں ۔ اس ا پیل کے جواب میں لاکھوں افراد کا جم غفیر سڑکوں پر امڈ آیا۔ اور جس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ آنے والے دن فیصلہ کن ثابت ہوں گے ۔ ہنڈراس میں طاقت کا توازن نمایاں طورپر عوام کے ہاتھوں میں ہے۔ وہ فوجی بغاوت کے بعد قائم ہونے والی حکومت کا جب چاہیں دھڑن تختہ کر سکتے ہیں ۔ اور صرف یہی نہیں بلکہ وہ اپنی مرضی کی سیاسی حکمرانی بھی قائم کر سکتے ہیں ۔ سوموار اکیس ستمبر کی صبح گیارہ بجے اس بات کی تصدیق کر دی گئی کہ ہنڈراس کے قانونی صدر اپنے دارالحکومت میں ہیں اوروہ برازیل کے سفارت خانے میں موجود ہیں ۔ زلایا کو جون میں ایک فوجی مہم جوئی کے بعد اقتدار سے محروم کردیاگیاتھا اور زبردستی ملک بدر بھی کردیا گیا تھا۔ مسلسل چھاسی دنوں تک ہنڈر اس کے عوام نے انتہائی جوش و جذبے اور سرگرمی کے ساتھ زلایا کی واپسی کےلئے تحریک چلائی ۔ یہ تاریخی اور جراتمند جدوجہد وہاں کے مزدوروں ‘ کسانوں اور نوجوانوں نے مل کر چلائے رکھی۔ اس تحریک کے دوران ریاست اور ہنڈراس کی اشرافیہ نے کیا کیا جبروتشدد نہیں کیامگر یہ سبھی ہتھکنڈے عوام کے جوش وجذبے کو ماند کرنے میں مکمل طورپر ناکام رہے ۔ لاتعداد گرفتاریاں، بے پناہ تشدد، منظم بربریت اور جھوٹے پروپیگنڈ ے کی بھرمار ، یہ سب کسی طور بھی لوگوں کے ولولے پست نہیں کرپائے ۔ اور کسی بھی شک وشبہے کے بغیر یہ بات حتمی ہے کہ یہ صرف ہنڈراس کے عوام کی سرکش اور دلیرانہ جدوجہد تھی جس نے زلایا کی وطن واپسی کو ممکن بنایا۔ یہ قطعی طورپر کسی سفارتی کوشش کے نتیجے میں نہیں ہوا،نہ ہی یہ نام نہاد بیرونی دباﺅ کے زیراثر ہوا۔ یہ خودساختہ بیرونی دباﺅ انتہائی نفیس نوعیت کی منافقت کے سوا کچھ بھی نہیں تھا۔ زلایا کی اس طرح یوں واپسی نے وہاں کی حکومت کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ سب سے پہلے تو اس نے یہ تسلیم کرنے سے ہی انکار کردیا کہ زلایا کی واپسی ہو چکی ہے ۔ مگر پھر عالمی ذرائع ابلاغ میں زلایا کی برازیل کے سفارت خانے میں موجودگی کی تصاویر شائع ہونے پر حکمرانوں کی نیندیں حرام ہو گئیں ۔ چنانچہ عوام کا جم غفیر برازیل کے سفارت خانے کے باہر جمع ہونا شروع ہوگیا ۔ زلایا نے سفارت خانے کے باہر جمع ہونے والے اجتماع سے خطاب کیاجو انتہائی سرگرمی اور جوش جذبے کے ساتھ ”مادر وطن ،، یا ہم تجھے بچائیں گے یا مرجائیں گے،، کے فلک شگاف نعرے لگاتے رہے ۔ پانچ گھنٹوں تک تو قابض صدر مچی لٹی کی حکومت کو تو کچھ بھی نہ سوجھا کہ وہ کیا کرے کیا نہ کرے۔ شام پانچ بجے کے قریب صدر مچی لٹی پریس کانفرنس سے خطاب کےلئے سامنے آیا۔ اس کے ہمراہ ہنڈراس کی اشرافیہ کے معززین بھی موجود تھے ۔ اس نے برازیل حکومت سے مطالبہ کیا کہ زلایاکو فوری طورپر حکومت کے حوالے کیا جائے تاکہ وہ اس پر مقدمہ چلاسکے۔ اس نے اگلی صبح(منگل )تک کےلئے کرفیو مسلط کرنے کا بھی اعلان کردیا۔ اس اعلان کے بعد ہر طرف ہلچل مچ گئی اور ہر شعبہ زندگی کے لوگ اپنا اپنا کام دھندہ چھوڑکر اپنے اپنے گھروں کی طرف جانا شروع ہو گئے ۔ اس سے صاف عیاں ہوتا ہے کہ حکومت تحریک کو کچلنے کےلئے ہر حربہ ‘ ہر ہتھکنڈہ اپنانے پر تل گئی ہے۔ مسلح افواج کے ”ترجمان،، نے بیان جاری کیا ہے کہ وہ آئین اور قانون کی بالادستی کےلئے اپنے فرائض اداکرے گی۔(شایدان کےلئے ایک منتخب صدر کا تختہ الٹنا غیرآئینی اورغیر قا نونی نہیں ہے)۔ اور اگر اس مقدس فریضے کی ادائیگی کےلئے کسی کی جان چلی گئی تو فوج اس کی ذمہ دار نہیں ہو گی۔ ہنڈراس میں فوری طورپر موبائل فون سروس معطل کردی گئی ۔ اپوزیشن سے تعلق یا ہمدردی رکھنے والے ریڈیو سٹیشنوں کی بجلی منقطع کر دی گئی اور ان کی نشریات کو روک دیا گیا۔ اسی کے ساتھ ہی فوج نے ملک کے چاروں ہوائی اڈوںکا کنٹرول بھی اپنے ہاتھوں میں لے لیا اور ان کوبند کردیا ۔ لیکن اس تمام ریاستی اور اشرافیائی بوکھلاہٹ اور وحشت کے باوجود مسلسل چھاسی دنوں سے چلی آنے والی تحریک کو زلایا کی آمد نے تو اور بھی بھڑکا کے رکھ دیاہے۔ جس دن فوجی سرکشی کی گئی تھی اسی دن سے ہم مسلسل دیکھ رہے ہیں کہ تحریک کی کیفیت اور جذبے میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ آج شام بھی ہم نے دیکھا کہ پچاس ہزار سے زائد افراد کرفیو کی پابندیوں کو تہس نہس کرتے ہوئے برازیل کے سفارتخانے کے باہر جمع ہو چکے تھے جبکہ زلایا مزاحمتی تحریک کی قیادت سے ملاقاتیں کر رہاتھا۔ جمع ہونے والے لوگ شادیا نے بجا رہے تھے اور خوشی سے جھوم رہے تھے ۔ کینڈی کے علاقے میں سے بھی جو کہ مزدوروں کا ایک روایتی علاقہ ہے ، تین ہزار سے زائد محنت کش کرفیو کی پرواہ نہ کرتے ہوئے وہاں پہنچ کر اپنی خوشی کااظہار کر رہے تھے ۔ جشن کا یہ اجتماع رات گئے تک جاری وساری تھا ۔ اور لوگ جوق در جوق اس اجتماع میں شریک ہونے کےلئے پہنچ رہے تھے ۔ ایسی ہی کیفیت اور ایسے ہی اجتماعات باقی ملک میں بھی ہونے شروع ہو گئے ہیں ۔ تاہم اس سب کے باوجود ہم ایک حرف انتباہ ضرور کہنا چاہےں گے ۔ اور وہ یہ کہ جدوجہد ابھی مکمل نہیں ہوئی۔ فوجی بغاوت کا اہتمام وانتظام کرنے والے عناصر ابھی تک اقتدار پر قابض ہیں ۔ ریاستی ڈھانچہ ابھی تک ان کے کنٹرول میں ہے۔ جس میں فوج اور پولیس بھی شامل ہے اگر ان کی یہ منظم بغاوت اس تحریک کے نتیجے میں اکھاڑکر پھینک دی جاتی ہے تو یہ ان کےلئے ناقابل تلافی نقصان ہوگا ، اس لئے وہ ہر حال اور ہر ممکن کوشش کریں گے کہ ایسا کچھ بھی نہ ہونے دیا جائے اور ان کا اقتدار قائم و سلامت رہے۔ دوسری طرف اشرافیہ کے کچھ حصے اور امریکی سامراج کے نمائندے یہ کوشش کریں گے کہ مذاکرات ومصالحت کی فضا پیداکی جائے اور کچھ دے دلاکر معاملہ رفع دفع کرا دیا جائے۔تاکہ جوکچھ بھی اورجتنا کچھ بھی بچایا جاسکتاہے ، اسے بچا لیا جائے ۔ واشنگٹن پہلے ہی کہہ چکا ہے کہ وہ سان جوزے میں ہونے والے معاہدے پر عملدرآمد ہونے کو پسند کر ے گا۔ جس کے بارے ہم پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ایسا کرنے سے زلایا اپنے ہاتھ پاﺅں امریکہ اور اشرافیہ کو کاٹ کے دے دے گا۔ اور یوں وہاں کی اشرافیہ کے وہ سبھی مقاصد بھی پورے ہوجائیں گے جس کےلئے انہوں نے جون کی بغاوت کا اہتمام کیا تھا۔ لہٰذا اس نام نہاد” معاہدے،، سے انکار لازمی اور ناگزیز ہے۔ بغاوت کا اہتمام کرنے والوں کے ساتھ کوئی ہمدردی یا رعایت کسی طوربھی نہ برتی جائے۔ عوام کی امنگوں اور خواہشوں کا ہر حال میں احترام ملحوظ خاطر رکھا جاناضروری ہے اور ایک آزادانہ وغیر جانبدارانہ الیکشن کے ذریعے انہیں ایک نئی انقلابی آئیں ساز اسمبلی کو منتخب کرنے کا پورا حق اور موقع ملنا چاہئے ۔ نہ کہ اس قسم کے دھاندلی زدہ الیکشن جسے وہاں کی اشرافیہ نومبر میں کرانے کا قصد اور تہیہ کیے ہوئے ہے۔ صورتحال کو بھانپتے ہوئے براعظم کے ملکوں کی تنظیم او اے ایس نے اپنی ایک ہنگامی میٹنگ میں یہ مطالبہ کردیا ہے کہ سان جوزے مذاکرات کو رہنما بنا تے ہوئے معاملات نمٹائے جائیں ۔ تاہم وینز ویلا اور نکاراگوانے اس قراردادکی مخالفت میں ووٹ دیاہے اور اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا ہے۔ نکاراگواکے سفیر نے کہا ہے کہ وہ زلایاسے بات چیت کرے گا اور خود زلایا نے بھی کہہ دیا ہے کہ وہ سان جوزے کے مذاکرات کو مسترد کرتاہے ۔ جسے وہ پہلے تسلیم کرنے کا عندیہ دے چکاتھا ۔ یہ ایک درست فیصلہ ہے جس کی تائیدکی جانی ضروری ہے ۔ جبکہ لاطینی امریکہ کے باقی ملکوں کو بھی چاہئے کہ وہ اس کی تائید کریں اور اپنے دباﺅ میں اضافہ کریں ۔ ایکو اڈور، ایل سلواڈوراور بولیویا اس سلسلے میں ابتداکرسکتے ہیں۔ اگلے لمحوں اوردنوں میں ہم یہ بھی دیکھ سکتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ حاکمیت کو برقراررکھنے کےلئے مذاکرات کا ایک نہ ختم ہونے والاسلسلہ شروع کیا جاسکتاہے۔ اس دوران ہی بغاوت کے مہتمم اور منتظم افراد کے ساتھ ساتھ حکمران طبقات میں ان کے ہمدرد تحریک کوشدت سے کچلنے کےلئے بھی تیارہوسکتے ہیں ۔ عوام کو ہر حالت میں اس غاصب حکمرانی کو اکھاڑ کر پھینکنا ہوگا۔ مزاحمتی تحریک کو چلانے والے نیشنل فرنٹ نے عوام سے اپیل کی ہے کہ دارالحکومت کی جانب مارچ شروع کر دیا جائے۔ یہ مارچ جولائی میں ہونے والے اس عوامی مارچ سے کہیں بڑاہوگا جب زلایا نے جہاز کے ذریعے وطن واپس آنے کا اعلان کیا تھا اور لوگ گھروں سے نکل کر چل پڑے تھے ۔ اس مارچ کے ساتھ ساتھ ہی ایک عام ہڑتال کو بھی منظم کیا جاسکتاہے۔ جس میں محنت کش طبقہ اپنی اپنی کام کی جگہوں کاکنٹرول سنبھال سکتاہے۔ محنت کش طبقے کو ہر حالت میں صورتحال کو اپنے کنٹرول میں لے لینا چاہیے ۔ اگرحکمران کسی ادارے کی بجلی بند کرسکتے ہیں تو محنت کش طبقہ اسے بحال کرسکتاہے۔ اگر موبائل فون سروس بند کی جاتی ہے تو یہی محنت کش اسے بحال کراور رکھ سکتے ہیں ۔ ٹیلی کام کے کارکنوں کو چاہئے کہ وہ اسے بحال رکھیں۔ ٹیچر ز یونین نے پہلے ہی سارے ملک میں غیر معینہ ہڑتال اور بندش کا اعلان کر دیا ہے جو منگل سے شروع ہے ۔ فرنٹ کو محلہ وار، مقامی اور علاقائی سطح پر کمیٹیاں بنانی چاہئیں جو کہ جمہوری طورپر منتخب ہوں اور جو صورتحال پر نظررکھتے ہوئے ایک دوسرے کے ساتھ باہمی ربط کو یقینی بنائیں ۔ اس طرح اکھاڑے جانے والی غیر قانونی حکومت کے متبادل اقتداراور انتظام کااہتمام ہوجائے گا۔ آنے والا وقت انتہائی اہم اور فیصلہ کن ہے ۔ جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں کہ اس وقت متحارب طاقتوں کا توازن عوام کے حق میں ہے ۔ اور اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس عوام دشمن حکومت کو اکھاڑکر پھینکا جاسکتا ہے اور ا س کی جگہ ایک نئی سیاسی حکومت قائم کی جاسکتی ہے جس کی بنیاد منظم عوامی تنظیموں پر رکھی جائے ۔ قومی مزاحمتی تحریک کی قیادت اور اتھارٹی کے تحت ایک انقلابی آئیں سازا سمبلی کا قیام ہی وہ عمل ہوگا جو کہ ہنڈراس کے جراتمند‘ سرکش اورمتحرک عوام کی آرزوﺅں کی حقیقی تکمیل کانکتہ آغازہو سکتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عوام دشمن بغاوت مردہ باد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ محنت کش طبقے کی عام ہڑتال اورتیگو سی گالپاکی طرف عوامی مارچ زندہ باد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انقلابی آئین ساز اسمبلی کا قیام زندہ باد۔