فرانس ۔ پنتیس لاکھ محنت کشوں کا احتجاج انقلاب کی پہلی للکار Urdu Urdu translation of France: 3.5 million on the streets against pension reform – what next for the movement?(October 13, 2010)تحریر: جارج مارٹن - ترجمہ :اسدپتافیچنگاری ڈاٹ کام،01.11.2010فرانسیسی حکومت کی جانب سے پنشن اصلاحات کے خلاف جاری تحریک کے نئے مرحلے میں 12اکتوبر کو 35لاکھ افراد نے یوم احتجاج میں حصہ لیاہے۔یہ یورپ میں جاری حالیہ تحریک میں اب تک کی سب سے بڑی شرکت ہے۔اتنا بڑا احتجاجی اجتماع1995/96ء کے دوران ہونے والے مظاہروں کے دوران دیکھنے کو ملا تھا کہ جب حکومت نے کچھ اداروں میں پنشنوں اور سوشل سیکورٹی مراعات میں کٹوتیوں کی کوشش کی تھی۔مختلف شہروں میں ان مظاہروں میں شریک ہونے والوں کی تعداد انتہائی متاثر کن ہے۔پیرس میں 330000،مارسیلی میں ریکارڈ230000،تولوس میں 1430000،بوردیوکس میں130000،نانتیسی میں95000،روئن میں75000ان کے سمیت ایک بہت ہی لمبی فہرست ہے اورلگ بھگ ڈھائی سو سے زائد مظاہرے فرانس کے چھوٹے بڑے شہروں میں منظم کئے گئے ۔جن سے بخوبی اندازہ ہوتاہے کہ یہاں تحریک کی وسعت اورشدت کی کیا کیفیت ہے۔ لی پوئے ون ویلے جیسے چھوٹے قصبے میں کہ جس کی آبادی کل بیس ہزارنفوس پر مشتمل ہے ،وہاں بھی انتظامیہ کے بقول8500افراد نے مظاہرے میں شرکت کی جبکہ یونین کے اعلامیے کے مطابق وہاں 20000افراد شریک ہوئے جن میں قریب کے قصبوں اور دیہاتوں سے بھی لوگ شریک ہوئے۔ پچھلے یوم احتجاج کے مقابلے میں اس یوم احتجاج میں 25ُ ٌ فیصدزیادہ لوگوں نے شمولیت کی۔یہ یوم احتجاج ہڑتالوں کے ایک ایسے سلسلے کا حامل تھا کہ جس نے نہ صرف پبلک سیکٹر،پوسٹل سروسز،ریلویز،میٹروبس سروسزسمیت پرائیویٹ سیکٹرکو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ان میں میٹل ورکرز، ہاربرز،اور خاص طورپر توانائی کا شعبہ شامل ہوا،جہاں بیشتر ریفائنریاں ہڑتال کی وجہ سے بند کر دی گئیں۔ پہلی بار ایسا ہوا کہ سکولوں کے بچوں نے بھی اس احتجاج میں شرکت کی کہ جو ابھی تازہ تازہ اپنی چھٹیاں پوری کرنے کے بعد سکولوں کو واپس آئے ہوئے تھے۔اوریہ ایک ایسا منظرنامہ تھا کہ جس سے سارکوزی حکومت ،ہر قیمت پر بچناچاہ رہی تھی۔کہ مزدوروں اور طالبعلموں کا یہ سانجھ نہ ہوسکے۔2006ء میں ایک بہت بڑی تحریک سامنے آئی تھی کہ جس میں30 لاکھ لوگ شریک ہوئے تھے ،اس تحریک نے اس وقت کی حکومت کی طرف سے پہلی ملازمت کے کنٹریکٹ کے حوالے سے ایک قانون CPEکو واپس لینے پر مجبورکردیاتھا۔یہی نہیں بلکہ دائیں بازو کی ولی پن حکومت کو بھی مستعفی ہوناپڑگیاتھا۔اس یوم احتجاج کے موقع پر بھی فرانس بھر کے چارسو سے زائد سکولوں کے طلباء نے ہڑتال کردی اور ان میں سے زیادہ تر سکولوں میں طلبا ء نے سکولوں پر یا تو قبضہ کرلیا یا پھر ان کا محاصرہ کرلیا۔طلبہ کی جانب سے یہ اقدام فرانس کے وزیر تعلیم کے اس الزام کا رد عمل تھا جس میں اس نے کہا تھا کہ ٹریڈ یونین والے طلبہ کو اپنے مقاصدکیلئے استعمال کرنے کی سازشیں کررہے ہیں۔فرانس کی یونیورسٹیوں کے طلبہ نے کہہ دیاہے کہ وہ تحریک کے اگلے مرحلے میں بھرپور شرکت کریں گے۔ 12اکتوبرکی تحریک کی یہ طاقت 13اکتوبر کو کام کی جگہوں پر ہونے والی ان بڑی عوامی میٹنگوں کی حوصلہ افزائی کا باعث بنے گی کہ جن میں تحریک کو جاری رکھنے کیلئے ووٹنگ کی جائے گی۔اس سے پہلے ہی فرانس کی ریلویز اور پیرس کی میٹر وپولیٹن سروسز سمیت اور آئل ریفائنریوں کے علاوہ بندرگاہوں کی یونینوں نے غیر معینہ ہڑتال کرنے کا اعلان کردیاہواہے۔ نوردپاس ڈی کیلائس کے علاقے میں CGTنے میٹل ورکرز کی جانب سے ایک سے تین بجے تک، کام چھوڑہڑتال کا اہتما م کیا ۔میٹل ورکرزیونین کے علاقائی سیکرٹری جین پیریرے ڈیلانوئے نے کہا کہ ہم زیادہ سے زیادہ ورکروں کی شمولیت اس لئے کروا رہے ہیں تاکہ CGTکنفیڈریشن پر دباؤ ڈالا جاسکے کہ وہ تحریک کو زیادہ سے زیادہ طاقت اور زور کے ساتھ آگے بڑھائے۔ فرانس بھر میں ٹوٹل کمپنی کی چھ کی چھ ریفائنریوں کے مزدور ہڑتال میں شامل ہوگئے ہیں۔ایک اور نمایاں اور اہم پیش رفت اس وقت ہوئی لی ہاورے بندرگاہ پر ،رینالٹ،ٹوٹل ، شیوران اور ایلیوکم جیسی کمپنیوں کے ٹریڈ یونینسٹ ورکروں نے 13 اکتوبر کی صبح کو کام روک دینے کا اعلان کردیاہے سد اور مانس کے صنعتی علاقے میں ٹیچرز یونین کے علاوہ رینالٹ CGTکے سرگرم ورکروں کی جانب سے محاصرے منظم کئے گئے ۔فرانس کے طول وعرض میں ایسے کئی کارخانے اور کام کی جگہیں ہیں کہ جہاں ہڑتالیں ،مظاہرے اور محاصرے کئے گئے لیکن جنہیں میڈیا میں کوریج نہیں دی گئی۔ تاہم اس سب کے باوجود CGTکی قومی قیادت ابھی تک اس تحریک کو رہنمائی فراہم کرنے سے انکار کر رہی ہے ۔جنرل سیکرٹری برنارڈ تھائی بولٹ ،جو کہ بدقسمتی سے1995ء کی ریلوے کی ولولہ انگیز تحریک کے بعد اس عہدے پر منتخب ہواتھا ،نے ایک اعلامیے میں فرمایاہے کہ ’’ہمیں حکومت پر دباؤ ڈالنے کے اور راستے تلاش کرنے چاہئیں‘‘۔ مسئلہ اور سوال یہ ہے کہ مطالبات کی منظوری کیلئے سات بار احتجاج کیاگیا مگر کچھ نہ ہوا،اب ایک عام ہڑتال کے علاوہ اور کون سا راستہ ایسا بچاہے کہ جس کے ذریعے دباؤ ڈالا جاسکتاہے؟ یونین کے سرکاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’یونین ورکروں کو ہدایت کرتی ہے کہ وہ اپنی موبلائزیشن کو جاری رکھیں،وہ کام کی ہر جگہ پر اپنی متحدہ جنرل اسمبلیاں منظم کریں،پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر‘ہر جگہ بحث مباحثہ کیا جائے کہ کام کو روکنے کا کیا طریقہ اختیار کیا جائے اورمستقل اقدامات کیلئے جمہوری فیصلے کئے جائیں‘‘۔ لیکن ایک واضح اور شفاف حتمی ہڑتالوں کی کال دینے کی بجائے ،جوکہ کئی شعبوں کے اندر وقوع پذیر بھی ہوچکی ہیں،CGTگومگو کی سی کیفیت کا اظہار کررہی ہے’’حتمی ہڑتالیں،کام روکنے کی نئی کوششیں،عوامی نمائندوں کے دفاتر کے سامنے باقاعدہ عوامی اجتماعات،بحث مباحثے،مشترکہ اجتماعات،اور ہرقسم کے نت نئے طریقے بروئے کار لائے جائیں کہ جن سے تحریک کو جاری رکھا جاسکے‘‘۔میٹل ورکرز یونین کے جنرل سیکرٹری ڈیلونائے نے CGTکی اس ڈھیلی ڈھالی کیفیت پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ورکروں کو سڑکوں پر چلاچلاکر تھکوانے کی بجائے کوئی ٹھوس اور موثر لائحہ عمل سامنے لایا جائے ۔ 12اکتوبر کو ہونے والے ان وسیع مظاہروں نے تحریک کو ایک نئی شکتی فراہم کردی ہے۔ان مظاہروں کا موڈ اور پیغام واضح تھا کہ ’’ہم مضبوط بھی ہیں اور ہم جیتیں گے بھی‘‘۔نیچے سے ایک شدید عوامی دباؤ ہے جو کہ ٹریڈ یونین قیادت کے ڈھانچوں کو(خاص طورپر مقامی اور علاقائی) اوپر تک لرزااور ہلا رہاہے۔ کئی اہم شہروں میں اگلے طے شدہ یوم احتجاج 16اکتوبر کیلئے زبردست تیاری کا عندیہ دیا جارہاہے۔تاؤلاس میں کل کیلئے ایک مظاہرے کا اعلان کیاگیا ہے روآنے میں یونینوں نے ہر جمعرات ،ہفتے اور منگل کے روزمظاہروں کا اعلان کردیاہے،اور یہ ان کے علاوہ وہیں گے جو کہ قومی سطح پر کئے جائیں گے۔یہ واضح ہوچکاہے کہ اگر CGTکی قیادت ان مظاہروں کو آخری لڑائی کے طورپر منظم کرنے کی کال دے دیتی ، توتحریک کا رنگ ڈھنگ ہی اور ہوجاتا۔پنشنوں کے حوالے سے مسلط کی جانے والی اصلاحات کام کے ہر شعبے کو متاثر کرتی ہیں۔اپنے طورپر بہتر منظم ،کام کی کئی جگہوں پر موجود یونینیں ،اپنے تئیں خود بھی موثر اقدامات اور فیصلے کر سکتی ہیں۔لیکن ایک قومی سطح کی قیادت کی جانب سے ایسی کوئی کال صورتحال کو فیصلہ کن انداز میں بدل سکتی ہے۔ یہ بھی ہوسکتاہے کہ اس قسم کی کال کے بغیر بھی تحریک،اپنا اظہار بلند پیمانے پر کر سکتی ہے ۔تھائی بولٹ جیسے یونین لیڈر یہ دلیل دے رہے ہیں کہ وہ اپنی خواہش کسی پر مسلط نہیں کرنا چاہتے ۔اور محنت کش طبقہ اپنا فیصلہ خود بھی کر سکتاہے۔یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ حتمی فیصلہ کام کی جگہوں پر ہونے والی بڑی عوامی میٹنگوں میں طے ہوگا۔لیکن سوال یہ بھی ہے کہ اگر ٹریڈ یونین قیادت،قیادت نہیں کر سکتی تو پھر وہ قیادت پر ہی کیونکر ہے؟لیکن ایک ایسے مرحلے پر ،تھائی بولٹ جیسے لیڈر( جو اپنا دامن بچانا چاہ رہے ہیں اور سب کچھ محنت کشوں پر ہی چھوڑنے کا کہہ رہے ہیں)ایسے مقام اور ایسی کیفیت کا سامنا بھی کر سکتے ہیں کہ تحریک کسی بھی قیادت کی دسترس اور کنٹرول سے باہر نکل جائے ۔ قیادت کی اس قسم کی چہ میگوئیوں اورمتذبذب پوزیشنوں کی وجہ سے ٹریڈ یونین کے سرگرم کارکن اور کمیونسٹ پارٹی کے ارکان بجاطورپر اپنے تئیں تحریک کو منظم اور متحرک کئے ہوئے ہیں۔کا م کی جگہوں پر ہونے والی بڑی میٹنگوں(جنرل اسمبلیوں)کا اہتمام کیا جانا ضروری ہے اور جہاں آخری فتح تک جدوجہد جاری رکھنے پر کھلی بحث کی جائے اور پھر اسے عمل میں لایا جائے ۔سکولوں اور یونیورسٹیوں کے طالب علموں کو بھی اپنی اسمبلیوں کے ذریعے تحریک میں اپنی شمولیت بارے بحث مباحثہ کرنا چاہیے اور مزاحمت بڑھاتے ہوئے تحریک کو تعلیمی اداروں اور کام کی جگہوں تک لے جاناچاہیے۔ مقامی اور علاقائی سطح پرعوام کی بلائی گئی جنرل اسمبلیوں میں سے منتخب کئے گئے نمائندے،اکٹھے ہوکر تحریک کی صورتحال پر گفتگو کریں اور اس کا تجزیہ کرتے ہوئے،معلومات کا باہمی تبادلہ کرتے ہوئے اور ان کو مرکوز ومرتکز کرتے ہوئے ،ان جگہوں پر عوامی مزاحمت ترتیب وتشکیل دیں جہاں ابھی تک تحریک نہیں شروع ہو سکی۔شاپ سٹیوارڈز اور مقامی ٹر یڈ یونین کارکنوں کی برانچوں کو آگے بڑھ کر خود فیصلے لیتے ہوئے تحریک کوآگاہی فراہم کرنے کیلئے پرنٹنگ پریس اور دیگر دفتری امور سرانجام دینے کو یقینی بنائیں۔ سوموار کے دن جاری ہونے والے،لی پیریسنے ادارے کی جانب سے کئے گئے ایک سروے رپورٹ میں یہ بات سامنے آچکی ہے کہ69 فیصدفرانسیسی 12اکتوبر کی ہڑتال سے خوش ہیں اور اس کے حق میں ہیں۔جبکہ،حیران کن حد تک، 61 فیصدفرانسیسیوں نے حتمی کامیابی تک ہڑتال کو جاری رکھنے کے حق میں ووٹ دیاہے۔یہ بات طے ہے کہ اگر یہ تحریک ایک بڑی عام ہڑتال کی شکل میں ڈھلتی ہے تو پھر یقینی طور ’’ حکمرانی‘‘ کا سوال سامنے ابھر کر آجائے گا۔سارکوزی حکومت اس وقت شدید بدعنوانی کے سکینڈلوں اور دیگر بحرانوں کی وجہ سے پہلے ہی نحیف ونزار ہوچکی ہے۔کمیونسٹ اور سوشلسٹ پارٹی کو فوری طور پر حکومت کے استعفیٰ اور نئے عام الیکشن کا مطالبہ کردینا چاہئے۔ اگر ان کی قیادت ایک حقیقی سوشلسٹ پروگرام کو پیش کرتی ہے تو انہیں بلاشبہ ایک بڑی عوامی حمایت میسر آسکتی ہے۔Translation: Chingaree.com