فلسطین - نہ مذہبی نہ قومی صرف طبقاتی جنگ ہی واحدحل ہے Urdu Share TweetUrdu translation of Flotilla massacre exposes criminal blockade of Gaza (June 2, 2010)چنگاری ڈاٹ کام،20.06.2010۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اکتیس مئی کی نصف شب کو، ساحل سے کوئی چونسٹھ کلومیٹر دور، اسرائیلی کمانڈوز نے ہیلی کاپٹروں سے سمندرمیں موجود چھ جہازوں پر حملہ کر دیا ، جو کہ فلوتلہ کی جانب رواں دواں تھے۔ بتایا گیا ہے کہ کمانڈوز فائرنگ کرتے ہوئے جہازوں پر اترے تھے۔ اسرائیلی حکومت نے یہ فیصلہ غزہ پر عائد اپنی پابندیوں کو سختی سے برقراررکھنے کیلئے کیاتھا ۔ اس تازہ بربریت نے دنیا بھر میں احتجاج اور غم وغصے کی کیفیت پیدا کر دی۔ ان واقعات نے اسرائیلی سامراجی حکومت کی اس وحشیانہ پالیسی کو پھر سے عیاں کردیاہے جو کہ وہ خطے کے غریب عوام کے ساتھ روا رکھے ہوئے ہے۔ غزہ ایک ایسا محصور علاقہ بناہواہے کہ جہاں کھانے پینے کی اشیاء تک کوبھی نہیں جانے دیاجارہا اور کوئی بھی اگرایسا کرنے کی کوشش کرتاہے تو اس کا حشرکردیاجاتاہے ۔ اس کیفیت کے اثرات نہ صرف ساری دنیا پر بلکہ خود اسرائیل کے اپنے اندر بھی مرتب ہوں گے۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ غزہ ۔ ایک محصور علاقہ،ایک انسانی المیہ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس واقعے کو سمجھنے کیلئے کہ سمندر میں ایساکیاہوا، ہمیں ان حالات کا جائزہ لینا ،ان کا تجزیہ کرناہوگا جو کہ غزہ میں موجود ہیں۔ دو ہزار سات کے بعد سے، کہ جب حماس نے اکثریت کے ساتھ الیکشن جیتاتھا، اسرائیل نے اس ساری پٹی کا محاصرہ کیاہواہے ۔ اسرائیلی فوج کی اجازت اور حکم کے بغیر نہ تو کچھ اندر جا سکتاہے نہ ہی کوئی آسکتاہے ۔ کوئی فرد بھی ان کی مرضی کے بغیر نہ داخل ہوسکتاہے نہ نکل سکتاہے۔ خوراک، ادویات یہاں تک کہ تعمیراتی سامان تک لائے جانے پر سخت پابندیاں ہیں۔ صورتحال اس قدر تشویشناک ہے کہ جریدہ ’’فنانشل ٹائمز‘‘کے بقول، اسرائیل کا یہ اقدام تو قابل مذمت ہے ہی لیکن حقیقی قابل مذمت غزہ کا طویل عرصے سے جاری محاصرہ ہے ۔ جنوری دو ہزار نو کی جنگ کے بعد سے ،کہ جس نے یہ عیاں کردیا کہ اسرائیل حماس کی قوت کو تہس نہس کرنے کے درپے ہو چکا ہے اور وہ بھی بے گناہ معصوم فلسطینیوں کے قتل ناحق کی قیمت پر ‘تب سے اسرائیل اور مصر نے بھرپور کوشش کی ہے کہ غزہ کی تباہ حالی کی ازسرنو تعمیرکی کوشش نہ ہونے دی جائے۔ اقوام متحدہ کے مطابق ’’تباہ شدہ علاقے کا چار میں سے تین،ابھی تک، تباہ حالی کی حالت میں ہے۔ جبکہ علاقے کے ساٹھ فیصد لوگوں کو مناسب خوراک کی فراہمی کی قلت کا سامناہے ‘‘۔ اسرائیلی سامراج کی جانب سے اس محاصرے کاجوازجسے امریکی سامراج کی بھی تائید حاصل ہے ۔ یہ ہے کہ حماس کو راکٹ تیارکرنے سے روکا جاسکے ۔ وہ اتنا سہمے ہوئے ہیں کہ ان کا کہنا یہ ہے کہ ان راکٹوں کیلئے سیمنٹ کو بھی استعمال کیا جاسکتاہے جو کہ تعمیری کام کیلئے ہی کام آتاہے ۔ اور جسے یہ فلسطینی دو ہزار نو میں اپنے تباہ ہوجانے والے گھروں کی تعمیرکیلئے استعمال کرناچاہتے ہیں۔ چنانچہ غزہ میں ہر چیز جاسکتی ہے لیکن سیمنٹ کسی حالت میں بھی نہیں جا سکتاہے۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حماس پر پابندی یا سہولت ؟ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ اس پابندی اور محاصرے نے اور کچھ کیا ہو یا نہیں لیکن اس نے حماس کو مضبوط کرنے میں انتہائی اہم کردار ضرور ادا کیا ہے ۔ جو کہ سمگلنگ کے ذریعے مصر کے راستے سے ، چور رستوں سے، مطلوبہ اشیا منگوارہی ہے ۔ عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق علاقے میں اسی فیصد برآمدات انہی چور ذریعوں سے آرہی ہیں۔ دو ہزار آٹھ میں فلسطین نے مصر سے ملحقہ اپنی سرحد میں سے کہیں ایک جگہ سرنگ کاسراغ ڈھونڈلیاتھا۔ اور اقوام متحدہ کے اندازے کے مطابق ہندرہ ملین کی آبادی کا نصف حصہ اس راستے سے گیس، ککنگ آئل اور روزمرہ کی دیگر اشیا لینے کیلئے امڈ پڑے تھے ۔بعدازاں مصری فوج نے ایکشن کرتے ہوئے سرحدکا وہ حصہ پھر سے بندکردیاتھا۔اسی سے ہی پتہ چل جاتاہے کہ صورتحال اس وقت بھی کس قدر گھمبیر اور دھماکہ خیز تھی۔اس کے بعد سے یہ اور بھی بدسے بدتر ہوتی چلی گئی جب مصری حکومت نے سرحدپر فولادی باڑھ لگانی شروع کردی تاکہ زیر زمین سرنگ کے رستے کو بند کیا جاسکے۔مزید برآں یہ کہ کسی قانونی تجارت کے نہ ہونے سے غزہ کی معیشت ختم ہو کے رہ گئی۔عالمی ادارہ برائے حقائق کے مطابق2009ء میں علاقے میں بے روزگاری کی شرح چالیس فیصدتھی، اور وہ بھی ایک ایسی آبادی میں جس کا چوالیس فیصدسے زیادہ حصہ چودہ سال یا اس سے کم عمر پر مشتمل ہے ۔ ایسی آبادی اس قسم کی ہولناک کیفیت میں کس قسم کے مستقبل کی امید ہوسکتی ہے؟اور جب ایسی عمر میں کوئی جب کمانے کی فکر میں نکلے اور کمائی کا نام ونشان تک نہ ہو،تب ایسے میں اس قسم کی کچی عمریں آسانی کے ساتھ حماس جیسی رجعتی تنظیموں کیلئے آسان خام مال نہیں بنیں گی توکیاکریں گی؟یہی اس وقت غزہ کی کیفیت ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔۔ غزہ کی آزادی اور فلوتیلا پر حملہ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔۔ یہی وہ’’ انتہائی حساس اور خطرناک ‘‘صورتحال تھی کہ جس کے تحت اسرائیل کی فوج نے اپنے ’’تحفظ ‘‘ کیلئے اس نوعیت کا حملہ کرنے کا فیصلہ کیا ۔اس کیفیت کی سفاکی کو دیکھتے ہوئے ،متاثرین سے اظہار یکجہتی کرنے والوں کے ایک گروہ نے ،چھ بحری جہاز وہاں لے جانے کا فیصلہ کیا ۔ان جہازوں پر دس ہزار ٹن سے زائد سامان تھا جو کہ خیموں ،ادویات ،اشیائے خوردونوش اور دیگر روزمرہ کے سامان پر مشتمل تھا،اور یہ قافلہ قبرص سے رونہ ہواتھا ۔اس میں سات سو افراد بھی شریک تھے جو غزہ کے اس محاصرے کے خلاف احتجاج کیلئے وہاں جارہے تھے ۔ادھر اسرائیل کے وزیراعظم نتن یاہونے کہا ہے کہ اسرائیلی فوج نے یہ کاروائی اپنے تئیں اپنے دفاع کیلئے کی ہے ۔لیکن یہ دفاعی حملہ بین الاقوامی سمندری حدود کے اندر کیا گیا۔جب اسرائیلی فوجی قافلے کی قیادت کرنے والے جہاز’ماوی مرمرا ‘پر اترے،تو انہوں نے جہاز والوں پر لاٹھیوں سے حملہ کر دیا۔ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ ہمارے سپاہیوں کے پاس عام بندوقیں تھیں لیکن جب ان پر جہازوں سے فائر نگ کی گئی تو ان کے پاس سوائے دفاع کے کوئی چارہ نہ رہا۔لیکن سمندری حدودکے عالمی ادارے(IDF)کی اپنی رپورٹ کے مطابق جو اس نے محصور جہازوں کے معائنے کے بعد مرتب کی ہے ، میں کہا گیاہے کہ وہاں ایسا کوئی اسلحہ موجود نہیں تھا ۔ سوائے اس اسلحے کے کہ جو ادارے کے اپنے متعین کردہ سٹاف کے پاس تھا۔ دوسرے الفاظ میں یا تو ان محصور زدہ لوگوں نے اپنا اسلحہ چھپایاہواتھا ، یا پھر سرے سے اسرائیل کا یہ دعوی ٰ ہی جھوٹا ہے۔ اورپھر سب سے بڑھ کر یہ کہ ادارے کی تیارکی ہوئی وڈیو میں مسافروں کے پاس کوئی اسلحہ نہیں تھا۔ چہ جائیکہ انہوں نے فائرنگ کی ۔ فنانشل ٹائمزکے ہی ایک اور آرٹیکل میںیہ کہاگیاہے کہ ادارے کے گارڈزکوفوری طورپر مسافروں سے الگ کر دیا گیا اورعلاوہ ازیں مسلح محافظ متعین کرکے کسی کو بھی میڈیا سے بات کرنے سے بھی روک دیاگیا۔ ایسا اس لئے کیاگیا کہ سرکاری موقف سے ہٹ کر کوئی دوسری بات سامنے نہ آنے دی جائے ۔ اور جب محصورین کو آخرکار رابطے میں لے آیاگیا تو ان میں سے کئی ایک نے ساری رودادسنائی ۔ان میں سے ایک خاتون ، گریٹا برلن نے،جو کہ غزہ کی آزادی کی مہم کی سرگرم کارکن ہے، تصویر کے غیر اسرائیلی رخ سے پردہ ہٹاتے ہوئے بتایا کہ ’’میں اور میرے دوسرے رفقائے سفر سمندر کا نظارہ کر رہے تھے،جب یہ واقعہ پیش آیا۔ہم نے انہیں ہیلی کاپٹروں سے اترتے دیکھا ۔ ہم نے دیکھا کہ وہ سب کو گھیرے میں لیتے جا رہے ہیں ۔وہ ایک دوسرے کو دیکھتے تھے اور شوٹ کرنا شروع کر دیتے۔ہم تو ششدر رہ گئے اور کچھ بھی نہیں بولاگیا‘‘۔حنین زوابی جو کہ اسرائیلی پارلیمنٹ کا ایک عرب رکن بھی ہے اور جو اس قافلے کا مسافرتھا ،نے بتایا کہ جس طرز اور طریقے سے یہ کاروائی ہم نے ہوتے دیکھی ،اس کا مقصد صرف یہی تھا کہ ہر قیمت پر اس قافلے کو روک دیاجائے ،یہی نہیں بلکہ مستقبل میں ایسی کسی بھی مزید کوشش کو روکنے کیلئے ایک عبرتناک قتل عام کی مثال بھی قائم کردی جائے ‘‘۔(Furious debate over moment of attack, FT, June 1, 2010)یہ بات حتمی اور طے شدہ ہے کہ اسرائیل نے رات کی تاریکی میں اپنے کمانڈوز اتارے تاکہ اس امدادی قافلے کو روکا جائے جو کہ محاصرے کوتوڑنے کیلئے رواں دواں تھا۔اس دفاع کے نام پر کم از کم نوافرادہلاک کردئے گئے جبکہ دوسری رپورٹوں میں یہ تعداد انیس بھی بتائی گئی ہے ۔جبکہ درجنوں زخمی ہو گئے۔ چھ سو کے قریب کارکنوں کو اسرائیل کی مختلف جیلوں میں قید کردیاگیا اور ان کی تفتیش شروع کر دی گئی ۔ان سطور کی تحریر تک ہلاک یا زخمی ہونے والوں کی مکمل فہرست سامنے نہیں آسکی ،البتہ کچھ اطلاعات ضرور سامنے آئی ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اپنے خیرخواہوں کیلئے زحمت ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ واقعہ ان ملکوں اورحکمرانوں کیلئے بھی کافی ثابت ہواہے جو اسرائیل کے ہمدرد اور ہمنوا بنے چلے آرہے ہیں ۔اور ان سب کو با دل نخواستہ ایک کے بعد ایک ،اس واقعے کی سخت مذمت کرنی پڑ رہی ہے ۔مختلف ملکوں کے حکمران طبقات کے مفادات باہم جڑے ہوئے ہوتے ہیں تاہم اسرائیلی حکمرانوں کے ضمن میں یہ تال میل اتنا واضح نہیں ہے ۔ترکی جو کبھی علاقے میں ایک موثر ومعتبر اتحادی ہواکرتاتھا ،نے اسرائیل میں متعین اپنے سفیر کو واپس بلا لیا ہے ۔کیونکہ قافلے کے چھ میں سے تین جہازترکی سے تعلق رکھتے تھے ۔جبکہ شرکا کی بڑی اکثریت بھی ترک ہی تھے ، جن میں سے کچھ ہلاک بھی کر دئے گئے ۔اس بربریت کے خلاف انقرہ میں ہونے والا مظاہرہ بھی دیدنی تھاجو بہت بڑا مظاہرہ تھا ۔مصر کا حکمران طبقہ جو کہ اتحادیوں میں سے ایک ہے اور جو کہ اسرائیل کی ہی طرز کی پابندیوں اور بندشوں سے غزہ کو محصور کئے ہوئے ہے ۔ جب2008ء میں فلسطینی سرحدپار کر کے ادھر آرہے تھے تو فوج کو حکم دے دیاگیاتھا کہ ان پر گولی چلا دی جائے اور سرحدکو فوری طورپرسیل کردیاجائے ۔اس واقعے کے بعد مصر کو احتجاجی مظاہروں نے ہلا کر رکھ دیا اور یہ مظاہرے 2009ء میں غزہ پر بمباری کے خلا ف ہونے والے مظاہروں سے کہیں بڑے تھے ۔فلسطینی بھائیوں بہنوں کے ساتھ ان کا جذبہ ہمدردی حسنی مبارک کے خلاف شدید عوامی غم وغصے کی شکل میں تبدیل ہوچکاہے ۔مصر کا حکمران طبقہ اس نزاکت کو بھانپ چکا ہے اور اس نے فوری طور پر رفاہ بارڈر کو دوبارہ کھولنے کا اعلان کیاہے ،اگرچہ یہ محدودپیمانے پر کیاجارہاہے تاہم یہ ابھی واضح نہیں ہے کہ ایسا کب تک رہے گا؟ یورپی یونین نے مذمت کردی ہے لیکن سب سے زیادہ اس واقعے کی بازگشت واشنگٹن میں محسوس کی جا رہی ہے ۔امریکہ بہادر کئی دنوں اور ہفتوں سے زورصرف کئے ہوئے تھا کہ وہ ایران پر زیادہ سے زیادہ پابندیاں عائد کرواسکے۔مگر اس قدر واویلے اور ولولے کے باوجود امریکہ اسے ممکن نہیں بناسکا۔اور اس کیفیت نے صدر اوبامہ کیلئے کافی خفت وخجالت پیداکی ہے۔ جیسا کہ ہم پہلے بھی اپنے ایک آرٹیکل میں لکھ چکے ہیں کہ2009ء میں غزہ پر کیا جانے والا حملہ اوبامہ کے مشورے کے بغیر کیاگیاتھا ۔اور تب سے لے کر اب تک اوبامہ کیلئے پے درپے برے وقت سے جان چھڑانی مشکل چلی آرہی ہے۔ امریکی سامراج کو پہلے ہی کئی عدد خفتوں خجالتوں کا سامنا تھا ،ان میں عراق میں شکست قابل ذکر تھی ،اوروہ اس کوشش میں تھا کہ ایران اور شام کے ساتھ کچھ لے دے کر معاملہ فہمی کرلی جائے ۔کہ جن کی مداخلت اور تعاون کے بغیر اس مسلسل ذلت کو قعرمذلت میں بدلنے سے روکنا مشکل کام ہے۔مگر پھر ایسا کوئی بھی معاہدہ ان مملکتوں کیلئے حلق کاپھندا بن سکتا تھا اور یہ ان کیلئے سراسر ایک یوٹرن سے کم نہ ہوتا۔اور خاص طورپر فلسطین کے حوالے سے تو یہ ایک سو اسی کے زاویے کی حامل، موقف کی تبدیلی ہوتی۔ غزہ پر مسلط کی جانے والی یہ جنگ اسرائیل سے لے کر امریکہ تک کیلئے ایک اعلان اورانتباہ تھی کہ کوئی بھی معاہدہ ،کوئی بھی معاملہ فہمی کوئی بھی بات چیت ہماری مرضی اور اجازت کے بغیر نہ ہوئی ہے نہ ہم ہونے دیں گے۔قصہ یہیں ختم نہیں ہوا،اوبامہ نے مقبوضہ علاقوں میں غیر قانونی تعمیرات کوروکنے کی جتنی اپیلیں کیں ،وہ بھی سب بیکار گئیں اور ان سنی کر دی گئیں۔نائب صدر جوبیڈن کو اپنا مشرق وسطیٰ کادورہ تک مختصر کر کے واپس آناپڑا۔ کیونکہ اسی دوران ہی اسرائیل نے مقبوضہ علاقوں میں نئی تعمیرات کاسرکاری اعلان کردیاتھا۔اور یہ سب کچھ کسی طور بھی حادثاتی یا اتفاقیہ نہیں ہورہاتھا بلکہ یہ جانتے بوجھتے ہوئے اسرائیلی تعمیرات کے خلاف امریکی تنقید کا توہین آمیز جواب دیاجارہاتھا۔نوبت یہاں تک پہنچی کہ اسرائیلی حکمران طبقات کی کچھ پرتوں کو دیوارپر لکھا نظر آنے لگا ۔ اسرائیلی جریدے ’ہاریٹز‘ کے الفاظ میں ’’دھیرے دھیرے اسرائیل امریکہ کا اثاثہ بننے کی بجائے ،اب اس کا بوجھ بنتا جارہاہے ‘‘۔یہ بات اسرائیلی پارلیمنٹ کی خارجہ اور دفاعی کمیٹی کے رکن ڈگان نے کہی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ بین الاقوامی سمندری قانون اور مگرمچھوں کے آنسو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ لیکن پھر اہل مغرب کی طرف سے سامنے آنے والے مذمت کے سبھی بیانات سوائے منافقت کے کوئی معنی نہیں رکھتے۔کتنا عرصہ بیت گیاہے کہا کہ ‘اسرائیل نے غزہ کا محاصرہ کررکھاہے لیکن آج تک کسی نے بھی اس کو ختم کرنے کی کوشش تو کیا بات تک نہیں کی۔چنانچہ عالمی سمندری حدودکی خلاف ورزی کے حوالے سے ان کی چیخ وپکار کوئی معنی نہیں رکھتی۔جو کیفیت اور حالت سرمایہ داروں کے بنائے باقی دوسرے قوانین کی ہے ،اس نام نہاد بین الاقوامی قانون کی بھی وہی اورویسی حیثیت ہے۔بہت سے دیانتدار کارکن ان بین الاقوامی سمندری حدود کی خلاف ورزی ،اسرائیل کی وحشیانہ کاروائی اور طویل عرصے سے فلسطینیوں کا ناطقہ بند کئے رکھنے کے خلاف آوازیں بلند کر رہے ہیں،اور بلاشبہ یہ ساراکچھ حقیقت پر بھی مبنی ہے لیکن پھر اس سب میں اصلی بات کو نظراندازکیا چلا جاتا آ رہا ہے۔ کہ اس قسم کے قوانین طاقتور کیلئے کبھی کوئی معنی نہیں رکھتے۔ سامرجی قوتیں ان کو صرف اس وقت خاطر میں لاتی ہیں کہ جب ان کے مفادات کیلئے ضروری ہوتا ہے۔ہاں البتہ جب ان کا دل کرتاہے یہ مہذب حضرات اپنے انتہائی دکھ درد کا اظہار کرتے ہوئے واقعے کی غیرجانبدارانہ تحقیقات کا حکم جاری کرنے میں ذرا سی بھی تاخیر نہیں کرتے ہیں لیکن یہ سوائے مگرمچھ کے آنسوؤں اور خانہ پری کے کچھ بھی نہیں ہوتا۔ایسا غلط ہوا ، ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا،یہ قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے وغیرہ وغیرہ۔۔اس بات کی بھی کوئی امید نہیں ہے کہ سرمایہ داروں کی گماشتہ اقوام متحدہ مذمت کی ایک قرارداد ہی منظورکرلے۔بانکی مون صاحب قانون کی پاسداری کی ضرورت کاگلہ کرتے نہیں تھکیں گے ،اوبامہ کو افسوس کرتے کرتے اونگھ آجائے گی ۔لیکن نتن یاہوکسی کو گھاس نہیں ڈالے گا۔چنانچہ یہ بات طے ہے کہ ہمیں ان سب وحشتوں سے چھٹکاراپانے کیلئے اپنے طبقے کی طرف ہی رجوع کرناپڑے گا نہ کہ ڈاکوؤں اور وحشیوں کے اس ٹولے سے کوئی امید وابستہ کرنی ہوگی۔اوبامہ جو تبدیلی کے بلند بانگ دعوے لئے سامنے آیاتھا،نے مذمت کا ابھی ایک لفظ تک بھی نہیں کہا ہے ۔البتہ یہ ضرور فرمایاہے کہ ہمیں واقعے کی غیرجانبدارانہ تحقیقات کرانی چاہئے ۔لیکن پھر ان سبھی منافقوں کی چالبازیوں سے ہٹ کر اس المناک واقعے کے خلاف احتجاج کیلئے دنیا بھر میں عوام الناس نے جس وحدت اور جرات کا مظاہرہ کردکھایاہے ،وہ ہم سب کیلئے حوصلہ بخش بھی ہے اور مشعل راہ بھی۔یہ ایک تازہ ہوا کے جھونکے سے کم نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مزدوربائیکاٹ کی مہم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ سبھی لوگ جنہوں نے اپنے طورپرفلوتیلاکیلئے اس کاوش کا اہتمام کیا ،یقینی طورپر خراج کے مستحق ہیں اور انہوں نے نہایت جراتمندی کا مظاہرہ کیاہے۔ان میں سے بہت سوں کو پتہ تھا کہ وہ کیا کرنے جارہے ہیں اور یہ بھی کہ ان کے ساتھ کیاکیا کچھ پیش آسکتاہے اور کئی تو اس خطرے کی قیمت بھی اپنی جان کی صورت میں دے گئے۔ہم ان سبھی جان نثاروں اور جان وارنے والوں کے اس دکھ کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں جو یہ اسرائیلی بربریت کا شکارہونے والے بچوں بوڑھوں جوانوں اور خواتین کے ساتھ محسوس کرتے ہیں۔لیکن ہم یہ بھی صاف کہنا چاہتے ہیں کہ اس قسم کی سیاسی بیہودگی وبدمعاشی کا مقابلہ اوراس کاخاتمہ محض انسانی بنیادوں پر امدادسے ممکن نہیں ہوسکتا۔ہم یہ کہتے اورسمجھتے ہیں کہ اسرائیلی قبضے اور بربریت کے خلاف عالمی سطح پرایک مہم کو منظم ومتحرک کرنا کہیں زیادہ سودمند کام ہے ۔اور اس قسم کی تحریک اور مہم کو کامیاب کرنے اور نتیجہ خیز بنانے کیلئے ہمیں دنیا بھر کی ورکنگ کلاس تنظیموں کو مربوط ومتحرک کرنالازمی ہے ۔اس سے پہلے اس قسم کی تحریکیں چلانے کی کوششیں کی جاچکی ہیں جو کہ ناکام بھی ہوئی ہیں ۔ان میں اسرائیل کے سنگتروں کا بائیکاٹ کرنے کی مہم بھی شامل تھی ۔اس سے کہیں زیادہ بہتر اور موثر یہ ہوگا کہ دنیا بھر کی ٹریڈیونینز سے رابطہ کرکے اس وقت تک اسرائیل کا بائیکاٹ کرنے کا کہا جائے کہ جب تک وہ غزہ کا محاصرہ ختم نہیں کرتا اور فلسطین کے عوام کے جائز مطالبات کو پورے نہیں ہونے دیتا ۔ اس قسم کے مزدور بائیکاٹ کی مہم کے ساتھ ساتھ ہی دنیا بھر میں ایسے اجتماعات منعقدکئے جائیں کہ جن میں لوگوں کو یہ بتایا جائے کہ فلسطین میں کیا کیا ظلم وستم روارکھا جارہاہے ۔اور اس طرح فلسطین میں موجود انسانی المیے بارے ایک رائے عامہ ہموارکی جائے ۔سیکورٹی کونسل جیسے جھوٹے اداروں کی ایک لاکھ قرارداوں کی منظوری اورہیلری کلنٹن کی ایک ہزار مکارانہ تقریروں سے ،اس قسم کی مہم زیادہ کارگرثابت ہوگی اور اس کے خود اسرائیل کے اندر اثرات مرتب ہوں گے۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ واحد حل ۔ ورکنگ کلاس کو بڑے پیمانے پر متحرک کیاجائے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ انتہائی کم وقت کے نوٹس پر ساری دنیا میں ہی احتجاج سامنے آیا ۔ قاہرہ، مانٹریال ، میڈرڈ ، ایتھنز، روم ، پیرس ، لندن ، ڈبلن، سڈنی، یہ سب ان شہروں میں سے چند ہیں، جن میں احتجاج کیے گئے ۔ لیکن ان سب میں سے اہم ترین احتجاج تل ابیب میں سامنے آیا جہاں تین ہزار سے زائد لوگوں نے ا س بربریت کی شدید مذمت کی ۔جبکہ اسرائیلی عربوں نے محاصرے اور حملے کے خلاف ایک عام ہڑتال کی کال دی ،رپورٹوں کے مطابق ہائر عرب مانیٹرنگ کمیٹی کی اس اپیل پر سوفیصد عملدرآمد سامنے آیا ۔دکانیں بند رہیں اوردیر الحنا،عرابیہ،سخنین ،کفرکنااور نظارت کے علاقے میں زندگی معطل رہی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور یہ سب تو ابھی آغاز ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس قافلے میں دو اور جہازجوکسی وجہ سے اس مہم میں شریک ہونے سے رہ گئے تھے نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ فلوتیلا کی طرف اپنا سفر شروع کر رہے ہیں ۔اور توقع کی جارہی ہے کہ وہ جمعے کے دن تک غزہ کے پانیوں تک پہنچ جائیں گے ۔جبکہ اور بھی کئی منصوبے اگلے کچھ دنوں میں طے کئے جا چکے ہیں۔اگر اسرائیلی حکمران سنجیدگی سے محاصرہ جاری رکھنے کے موڈ میں ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ نئی بربریت مزید حملوں کی شکل میں سامنے آئے گی اور ان امدادی جہازوں کوروکا جائے گا۔اور جس کے لازمی نتیجے میں دنیا بھر میں احتجاج میں وسعت بھی آئے گی اور شدت بھی۔ اسرائیل کے حکمران طبقے کیلئے سب سے بڑا خطرہ خود اسرائیل کے اندر ہے ۔یہ خطرہ موجود ہے کہ اسرائیل میں مقیم دس لاکھ عرب اسرائیلی جو کہ کل آبادی کے بیس فیصدسے زائد ہیں‘ میں شدید ردعمل پیداہوگا ۔یہاں تک کہ اسرائیلی یہودیوں کی جانب سے بھی اس کے خلاف غم وغصہ سامنے آسکتاہے ۔تل ابیت میں ہونے والے احتجاجی مظاہرے میں بھی بڑی تعداد یہودیوں کی ہی تھی ۔ اسرائیلی عرب محنت کشوں کی جانب سے کی جانے والی ہڑتال نہ صرف اسرائیل کے اندر سنجیدہ کیفیت پیداکردے گی اور حکمران سرتوڑ کوشش کریں گے کہ یہ ہڑتال یہودی مزدوروں میں نہ پھیل جائے ۔کیونکہ پھر یہ اسرائیلی محنت کش طبقہ ہی ہے جن کوکہاجاتاہے کہ وہ اپنے نوجوان بیٹوں اور بیٹیوں کو لبنان،غزہ اور مغربی کنارے میں لڑنے مرنے کیلئے بھیجیں۔اور اب تو ان کو سمندروں تک میں بھیجا جارہاہے۔ اب یہ سوال پوچھااور سوچاجانے لگا ہے ‘اور یہ ایک سنجیدہ اور خطرناک سوال بھی ہے کہ یہ سب کچھ کس لئے اورکیوں؟کیوں غزہ میں لوگوں کو اپنے گھربنانے سے روکا جارہاہے ؟کیوں امداد لے جانے والوں کو اور امداد کو روکا جارہاہے ؟ یہ واقعہ سارے خطے میں ایک نئی کیفیت پیدا کر چکا ہے۔ صیہونیت جسے طویل عرصے سے اسرائیل کے نوجوانوں کی ذہنیت بنا کر کا م چلایا جاتاآرہاتھا،وہ بھی اب اتنی موثر ثابت نہیں ہو رہی ۔ہم پہلے بھی اپنے ایک مضمون میں بتا چکے ہیں کہ تل ابیب کے پچھلے بلدیاتی الیکشن میں اسرائیل کے کمیونسٹوں کو بھاری تعدا میں ووٹ پڑے ہیں ،اور اس کی وجہ سے اسرائیل کے حکمران طبقات میں تشویش کی لہر دوڑ چکی ہے ۔ انہیں بخوبی اندازہ اور علم ہے کہ یہی وہ لوگ ہیں کہ جو عرب اور اسرائیلی مزدوروں کو ایک ساتھ متحدکرتے ہیں اورآگے مزید بھی کر سکتے ہیں ۔ اسرائیلی پارلیمنٹ کے ممبرڈوخینن نے ایک انٹرویومیں کہا ہے کہ یہ تو ابھی ابتداہوئی ہے برفانی تودے میں سے پہلا قطرہ ٹپکاہے۔اس کے بقول ’’دلچسپ پہلو یہ ہے کہ ہم نے الیکشن میں ’’سب کا شہر ‘‘کے نعرے تلے حصہ لیا تھا اور اس کاوش کے نتیجے میں ہمیں پنتیس فیصد ووٹ ملے ۔بلاشبہ ان ووٹوں کی وجہ سے ہم شہر کا میئربننے کے قابل نہیں ہو سکتے تھے ۔لیکن ایک مقامی تحریک کے حوالے سے یہ ایک بہت بڑی کامیابی تھی۔یہ ایک ایسی تحریک تھی جس کے پاس سرمائے کی شدید قلت تھی،ہاں مگر جس کے پاس رضاکار ورکروں کے بیش بہا جذبے کی دولت تھی۔اتنے بڑے شہر میں ہمارے پاس دو ہزار پانچ سو رضارکار کارکن تھے ،جوکہ سارے شہر میں کام کرتے رہے۔اسرائیل کی مخصوص کیفیت میں یہ بہت بڑی تعداد بھی ہے اور بہت بڑی کامیابی بھی۔سب سے اہم ترین بات جو اس حوالے سے میں بتانا چاہتاہوں کہ ہمیں پڑنے والے ووٹوں کا پچہتر فیصد نوجوان نسل کا تھا ،جن کی عمریں تیس سال سے کم تھیں‘‘۔(Ending the vicious circle of hate and blood: an interview with Israeli Knesset member Dov Khenin,)اوریہ وہ سچائی ہے جسے فلسطینی محنت کش طبقے کو ہر حال میں اپنے سامنے رکھنی چاہئے ۔ مستقبل کی اسرائیلی نسل میں سے صیہونیت کی جڑیں کمزورپڑتی جارہی ہیں ۔ آخری تجزیے میں اس بات کا مطلب اسرائیلی سامراج کی موت ہے ۔ اس وقت سب سے زیادہ جس بات کی اہمیت اور ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ محنت کش طبقے کے اتحادکو سمجھا، اپنایا اور اسے مزید پیوستہ وپختہ کیاجائے ۔ اسرائیل کی کمیونسٹ پارٹی کو عرب اسرائیلی محنت کش طبقے کی جانب سے غزہ کے محاصرے کے خلاف عام ہڑتال کی کال کی مکمل حمایت کرنی چاہیے ۔ اور اسے اسرائیل کے یہودی مزدوروں کوا س ہڑتال میں شریک کرنا چاہئے ۔ غزہ کے مظلوم و مقہور باشندوں کو اسرائیل کے مزدوروں کا ساتھ درکار ہے ،نہ صرف اسرائیل بلکہ ساری دنیا کے محنت کش طبقے کا ساتھ درکار ہے ۔یہ ساتھ اور یکجہتی جتنی اب ضرورت بن چکی ہے ،شاید پہلے کبھی نہیں تھی ۔ اب وقت آگیا ہے کہ اسرائیل کے مزدور اسرائیل کے حکمران طبقات کے ساتھ لاتعلقی کا اعلان اور اظہار کریں ۔اسرائیل کے سرمایہ دار حکمران اپنے مزدوروں کو مذہب اور وطن کے نام پر اکساتے بھڑکاتے اور ان کا خون بہاتے چلے آرہے ہیں ۔اسرائیل کے محنت کشوں کو یہ سوچنا سمجھنا اور جاننا ہوگا کہ یہ مادر وطن دراصل کن کی مادر وطن ہے ؟شاید اس سوال کا بہترین جواب اسرائیل کے وزیر خزانہ نے دیاہے ، ’’اسرائیل کی ساری معیشت پر اسرائیل کے محض تیس خاندانوں کا ہی اجارہ و تسلط قائم چلا آرہا ہے ،اور اسے کسی طور بدعنوانی نہیں قرار دیا جاسکتا ۔لیکن اس سے ایک مسئلہ پیدا ہورہا ہے اور وہ یہ کہ اس سے معاشی مسائل ابھر رہے ہیں اور مقابلے کی فضا سازگار ہونے کی بجائے الٹا تباہی کی زد میں آئی ہوئی ہے۔ہمیں بنیادی عناصر کو چھیڑے بغیر اس مرکزیت کو دھیرے دھیرے کم کرناہوگا۔مجھے بڑے افسروں کی بھاری بھرکم تنخواہوں پر بھی اعتراض ہے لیکن میں یہ بھی نہیں چاہوں گا کہ ان کو کم کرنے کیلئے قانون سازی کی جائے۔مجھے پتہ ہے کہ امریکہ اور یورپ سمیت دنیا بھر میں افسرشاہی کی بھاری تنخواہوں اور مراعات پر خاصی لے دے ہورہی ہے اور اس پر قانون سازی کا واویلابھی کیا جارہا ہے لیکن پھر مجھے یہ بھی علم ہے کہ اس قانون سازی کی شدومد سے مخالفت بھی کی جارہی ہے۔یہاں تک کہ صدر اوبامہ نے بھی ان بھاری اور بڑی تنخواہوں کو کم کرنے بارے قانون سازی کا منصوبہ موخر کردیاہے ‘‘۔(Finance Minister: Israel\\\\\\\\\\\\\\\'s economy being controlled by 30 families is a problem, Haaretz, May 5, 2010یہ ہے حکومت ، یہ ہوتے ہیں حکمران طبقات، اور یہی لوگ اسرائیل کے مزدوروں کو کہتے چلے آرہے ہیں کہ آپ اس طبقاتی جعلسازی کو صیہونیت کے نام پر قائم رکھیں ۔ یہ کیسی مادر وطن ہے اور کس کی مادر وطن ہے کہ جس میں ساری معیشت صرف اورصرف تیس خاندانوں کی رکھیل بنی چلی آرہی ہو۔یہ کس کی اور کیسی مادر وطن ہے کہ جس کی23.6%غربت کی لکیر سے نیچے جیتے جی مر رہی ہے ۔جن کی روزانہ آمدنی سات ڈالرروزانہ سے بھی کم ہے ؟ صیہونیت کسی بھوکے کا پیٹ بھر سکتی ہے نہ کسی پیاسے کی پیاس بجھا سکتی ہے ۔ یہ کچھ بھی نہیں ،یہ محض ایک ہتھیار ہے، یہ ایک قوم پرستانہ جادوئی افسانہ ہے کہ جسے اس دھوکے کیلئے بروئے کارلایاجاتاہے کہ یہودی سرمایہ دار اور یہودی مزدور ایک ہی لڑی کے دو نگینے ہیں ۔ اور جنہیں غزہ اورمغربی کنارے پر بسنے والے فلسطینی کسی بھی وقت چوری کر کے لے جا سکتے ہیں ۔تیس خاندانوں کی سارے ملک پر معاشی ملکیت اور اجارہ داری کا کس طرح سے ان لاکھوں غریبوں کے ساتھ اشتراک واتحاد اور مشترکہ مفاد ہو سکتا ہے ،جنہیں یہ تیس خاندان نسلوں سے بھوکا اور محروم رکھے اور رکھتے چلے آرہے ہیں ۔تیس خاندانوں کا یہ تسلط واستحصال صرف اسرائیل ہی کے محنت کشوں کی زندگیوں کو اپنے خونی جبڑوں میں نہیں دبائے ہوئے ہے بلکہ لاکھوں فلسطینیوں کا حال اور مستقبل بھی ان کے خونی پنجوں میں جکڑا چلا آرہاہے ۔جنہیں بھکاریوں سے بھی بدتر زندگی کا شکارکردیاگیاہے ۔اور اب اسرائیل کے محنت کشوں سے یہ توقع اور مطالبہ کیا جارہاہے کہ وہ موجودہ و جاری عالمی معاشی بحران کی قیمت ادا کرنے کیلئے بھی قربانی دینے کی تیاری کریں ۔ دو ہزار نو سے ہی اسرائیل کے بڑے بڑے بیوپاریوں نے اپنے اپنے کاروبار سمیٹنے شروع کر دئے تھے اور اپنے اپنے ورکروں کو بیروزگارکرنا شروع کردیاہواہے ۔ کئی کئی مہینوں سے ان کی اجرتیں روک لی گئیں ہیں اور جس کے نتیجے میں لوٹ مار اور چھینا جھپٹی کی وارداتوں میں اضافہ ہوتا چلا جارہاہے ۔ ’’دودنوں تک اچانک پھوٹ پڑنے والی ہنگامہ آرائی نے سارے اسرائیلیوں کو ششدر کر کے رکھ دیا ۔وہ تو یہ سمجھے ہوئے تھے کہ ملک پر قانون کی حکمرانی قائم ودائم ہے ۔اس کے علاوہ بھی ان خبروں کے سامنے آنے کے بعد کہ اسرائیل کی معیشت دس سالوں کے استحکام کے بعد اب زبوں حالی کی زد میں آچکی ہے،اسرائیل میں لوٹ مار کی وارداتوں میں اضافہ ہوچکاہے ۔ابھی یہ سب منتشر کیفیت میں سامنے آرہاہے ۔لیکن کئی لیبر رہنماؤں اور سماجی کارکنوں نے خبردار کیاہے کہ صورتحال کسی وقت بھی دھماکہ خیز ہو سکتی ہے ۔’’ابھی تو ہمارے سامنے چھوٹی چھوٹی کہانیاں سامنے آرہی ہیں کہ بڑے کاروبار کس طرح دیوالیہ ہوکربندہوتے جارہے ہیں اور اس کے نتیجے میں روزگارکا قتل عام شروع ہوچکاہے۔اسرائیل کی ٹریڈیونین فیڈریشن ہستادروت کے نمائندے دفناکوہن کے مطابق یہ ابھی چنگاریاں ہیں جو کہ ایک بڑی آگ کے پھیلنے کا اشارہ دے رہی ہیں‘‘۔(In Israel, recession pressures boil over into looting, LA Times, March 19, 2009)اسرائیلی حکمرانوں کی پالتو صیہونیت ، طبقاتی جدوجہد کا خاتمہ کرنے میں سراسر ناکام رہی ہے ۔ اسے ایک رجعتی قوم پرستی کے خودساختہ خوش رنگ لبادے میں پیش کر کے کام چلایا گیا۔ لیکن اس کی سطح کے نیچے بہت کچھ چھپا اور دبا ہوا موجود ہے۔ کوئی ایک واقعہ کوئی ایک اور دراڑ،یہاں تک کہ ترکی کے ساتھ کاروباری تعلقات ختم کرنے کا فیصلہ ،کہ جہاں سینکڑوں اسرائیلی کمپنیاں کام کررہی ہیں ،ان پوشیدہ تضادات کو نیچے سے اوپر لے کر آسکتاہے ۔ پھر وہ بڑی آگ ہمیں ہی نہیں سب کو بھڑکتی نظر آسکتی ہے۔ اوریہاں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ اسرائیلی حکمران طبقات پچھلے باسٹھ سالوں سے صیہونیت کے معاملے کو قائم ودائم رکھنے کیلئے جو اندھادھندسیاسی سرمایہ کاری کرتے چلے آرہے ہیں، اسے ہمیشہ کیلئے برقرارنہیں رکھاجاسکتا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا ہونا،کیاکرناچاہیے؟ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سالہا سال کی قومی آزدی کی فلسطینیوں کی جدوجہد کے باوجود اس کو ایک انچ آگے بھی نہیں بڑھایاجاسکا۔یہ کہنا بہت ہی مشکل ہے لیکن کیا کیا جائے کہ یہی سچائی ہے اورفلسطین کی نئی نسل کو اس پر سنجیدگی سے سوچنا سمجھناہوگاکہ یہ سب کیاتھا کیوں تھا اوریہ بھی کہ کیا ہونااورکیاکیاجاناچاہیے ۔ماضی کی سبھی کوششیں اورکاوشیں بے نتیجہ رہی ہیں۔جوں جوں اور جو جو دواکی گئی اس نے مرض کی شدت کو اور بھی بڑھایاہے۔کیسے کیسے کتنے کتنے مہان رہنماؤں نے اس پر ملاقاتیں کی ہیں ۔کیسی کیسی رقت آمیز قراردادیں اقوام متحدہ سمیت سبھی اداروں میں سے منظورکی گئی ہیں ۔اسرائیل میں داغے جانے والے راکٹوں، بے شمار خود کش دھماکوں،اور قوم کے نام پر جانیں نچھاورکرنے والے لاتعداد شہیدوں کی قربانیاں ،یہ سب بھی تو کسی کام نہیں آسکی ہیں اور نہ کوئی نتیجہ برآمد کر سکی ہیں۔البتہ ان کے نتائج الٹ اورتباہ کن ضرورثابت ہوئے ہیں ۔اس نے اسرائیل کے حکمران طبقات کو یہ مواقع فراہم کئے ہیں کہ وہ اسرائیل کے محنت کشوں کو قوم کے نام پر دھوکہ دے سکیں ۔اور اسے اپنے مذموم مقاصدکیلئے کام میں لا سکیں ۔ اس حالیہ بربریت نے ساری دنیا میں رائے عامہ کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا ہے اور اس جارحیت نے ساری دنیا میں مظلوم فلسطینیوں کی حالت زار پر آنکھوں کو رلا کے اور لوں کو دہلا کے رکھ دیا ہے ۔ اس عالمگیر انسانی جذبے کو ایک عالمگیر تحریک کی بنیاد سمجھا اور بنایا جانا آج کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ ہم مارکس وادی دنیا بھر میں اس غاصبانہ قبضے کے خلاف دنیا بھر میں ہونے والی ہر جدوجہد میں شانہ بشانہ شامل اور شریک ہیں اور ہوں گے ۔لیکن اگر اس جارحیت کو فلسطین کی نوجوان نسل میں انتقامی غصے کو پیداکرنے کیلئے غلط استعمال کیاگیا تو اس تحریک کو شدیدپسپائی اور عالمگیریکجہتی کے غیرمعمولی جذبے کوغیرمعمولی نقصان پہنچے گا۔ہر چند کہ یہ غصہ قابل فہم ہوگا۔ فلسطینی عوام کسی طور بھی اس وقت تک اپنی جدوجہد کو کامیاب نہیں کر سکتے کہ جب تک وہ اسرائیل کے صیہونیت ساز حکمرانوں اور وہاں کے عام انسانوں کے مابین فرق کو نہیں سمجھتے ۔اسرائیل کے ورکروں اور نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد اب مسلسل جنگ اور جنگی ذہنیت سے تنگ آچکی ہے ۔وہ بیزار ہو چکے ہیں ۔وہ ایک ایسی حقارت سے اکتا چکے ہیں کہ جن کا انہیں کوئی نتیجہ نہیں ملا ۔کتنی زندگیاں مار دی جا چکی ہیں کتنے گھر اجاڑ دئے گئے ہیں لیکن موت اور وحشت کا یہ خونی کھلواڑ کہیں بھی رکتا اور ختم ہوتا نظر نہیں آرہاہے ۔اور یہ صرف اسرائیل کی ہی کیفیت نہیں ،خود فلسطین کے کئی ورکرکئی نوجوان ایسے ہیں جو کہ الفتح اور حماس دونوں قیادتوں سے تنگ آچکے ہیں ۔لیکن ان کے سامنے کوئی متبادل نہیں ہے ۔پی ایل او،خاص طورپرپی ایف ایل پی کی صفوں میں کئی کارکن اور عہدیدار ایسے موجود ہیں جو کہ اپنی قیادت سے انقلابی سوشلسٹ متبادل کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔ اسرائیل کے مزدوروں کے دکھوں اور محرومیوں کے مسئلے کا حل یہ ہے کہ اسرائیل کے تیس خاندانوں کی معاشی برتری کا خاتمہ کردیاجائے اور ان کے مالیاتی اثاثوں کو قومی تحویل میں لیا جائے ۔اور پھر اس معیشت کو مزدوروں کے جمہوری انتظام وانصرام میں لایاجائے ۔یہی وہ مالکان ہیں کہ جن کے کارخانوں اور کاروباروں میں بیشتر عرب مزدور بھی اپنی محنت بیچتے چلے آرہے ہیں ۔اور یوں ہم یہ دیکھتے ہیں کہ یہودی اور عرب محنت کرنے والوں کو ایک مشترکہ دشمن سے پالاہے جو کہ ان دونوں کا ایک ساتھ استحصال کرتے چلے آرہے ہیں ۔ یہ بات کسی کو یاد دلانے اور سمجھانے کی ضرورت نہیں ہے کہ بم ، بندوقیں، نفرتیں، سرحدیں اور دیواریں ؛ ان سب کا خام مال اور مال جن کے کارخانوں اور دفتروں میں تیارہوتا ہے ، وہ یہی سرمایہ دار ہی ہیں ۔ محنت کرنے والے کسی بھی قوم کے ہیں کسی بھی رنگ و نسل کے ہیں کسی بھی مسلک ومذہب کے ہیں ، خواہ وہ اسرائیل کے یہودی ہیں یا اسرائیل کے عرب ، ان سب کا دکھ سب کا المیہ مشترکہ تھا ، ہے اور رہے گا ۔ اسی طر ح ان کا دشمن بھی ایک ہے ۔ چنانچہ ایک مشترکہ جدوجہد ہی ان دکھوں اور المیوں سے نجات کا واحد رستہ اور حل ہے ۔ سرمایہ داری نظام کو اکھاڑکر پھینکناہوگا۔ موجودہ اسرائیل کے سرمایہ دارسماج میں بھی یہی غلط روش موجود ہے اوریہاں بھی لازمی ہے کہ اسرائیل کا مزدور اپنی نوجوان نسل کے ساتھ مل کر اسرائیلی سامراج کی بنیادوں کو اکھاڑ کر پھینک دے ۔ صیہونیت ساز اسرائیلی سرمایہ داری کے خلاف اسرائیل اور عرب محنت کشوں کی مشترکہ جدوجہدایک جاندار فیصلہ کن طاقت ثابت ہوسکتی ہے۔ اسرائیل کا محنت کش طبقہ ہی وہ حقیقی قوت ہے جو کہ اسرائیل کے حکمرانوں کی فلسطینیوں کی نسل کشی کا خاتمہ کر سکتاہے ۔ہردوطرف کے محنت کش ایک سوشلسٹ فیڈریشن قائم کرکے اس قتل گاہ کو زندگی کی رفعتوں اور نعمتوں سے بھر سکتے ہیں ۔اسرائیل کے محنت کش طبقے کی طرف سے شروع ہونے والی انقلابی جدوجہدمصر ، اردن،سعودی عرب سمیت خطے کے سبھی ملکوں کو اپنی گرفت میں لے لے گی ۔جو کسی طور بھی مستحکم حکومتیں نہیں ہیں بلکہ محض سامراجی گماشتگی کے بل بوتے پر خودکو قائم رکھے ہوئے ہیں ۔ اورجو فلسطینیوں کی بدترین حالت پر سوائے ٹسوے بہانے کے کچھ بھی کرنے سے قاصر ہیں۔مشرق وسطیٰ کی سوشلسٹ فیڈریشن ایک خواب نہیں بلکہ ایک حقیقی حل ہے جو کہ سارے خطے کو اور اس خطے کے عوام کو مسلمانی،یہودیت ،اور سامراجیت کی منافرتوں سے نکال کر انہیں ایک نئے انقلابی ماحول سے روشناس کرادے گا۔ زندگی ہی نہیں ،ثقافت بھی انقلاب سے دمک اٹھے گی ۔اور جہاں جسموں سے خون اور آنکھوں سے آنسوبہانے کی وحشیانہ عادتیں ختم ہو جائیں گی۔یہ سوشلسٹ فیڈریشن حکمران طبقات سے پاک ہوگی اور یہ انسانوں کی انسانیت سے روشن اور منور سماج کی حامل ہوگی۔Source: Chingaree