یورپ کے امڈتے طوفان ۔ ۔۔ ایلن ورڈ Urdu Share TweetUrdu translation of Europe in Crisis (December 2, 2010)چنگاری ڈات کام،22.12.2010ابن مریم ہواکرے کوئی ؛میرے دکھ کی دوا کرے کوئی۔ یہی سوباتوں کی وہ ایک بات ہے جس کا جریدے اکانومسٹ نے اس بار اپنے سرورق پر مضمون باندھا ہے اور جو یورپ کو اپنی لپیٹ میں لے چکے بحران کے بارے میں لکھا ہے۔جوں جوں بیماری کا سرتوڑعلاج کیا جارہاہے ،اتنا ہی مریض کے درد کی شدت میں اضافہ ہوتا چلا جارہاہے۔یورپ کا ہر ایک ملک خود کو درپیش بھاری خساروں سے نکالنے کیلئے کوششیں کررہا ہے اور اپنے ان خساروں کا سارا بل وہ اپنے اپنے ملک کے محنت کش طبقے اور مڈل کلاس سے وصول کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔اور یوں رفتہ رفتہ مسئلہ اور معاملہ یورپ کی ورکنگ کلاس پر روز روشن کی طرح کھلتاچلاآرہاہے ۔طویل اور مسلسل کٹوتیوں کا حامل ایک دوراور ایک کیفیت ،یورپ کے محنت کش طبقے کے سامنے موجود ہے۔ حکومتیں اور ریاستیں معیار زندگی چھیننے کی کوششیں کررہی ہیں اورمحنت کش طبقہ دفاع اور مزاحمت پر اترا ہواہے۔ یوں ایک نئے مزاحمتی دورکا آغاز ہوچکاہے ۔ہمیشہ کی طرح اس بار بھی فرانس کا محنت کش طبقہ اگلے محاذوں پر صف آراء بھی ہے اور لڑائی بھی لڑرہاہے ۔عام ہڑتالیں اور بڑے عوامی مظاہرے جاری ہیں ۔ایسے ہی بڑے مظاہرے دیگر یورپی ملکوں اور شہروں میں بھی ہورہے ہیں۔ 27دسمبر کو ڈبلن میں ایک لاکھ افراد نے مظاہرہ کیاہے ۔پرتگال میں ہونے والی حالیہ عام ہڑتال کو محنت کشوں کی بہت بڑی حمایت حاصل رہی ،، ٹریڈیونین رہنماؤں کے مطابق اسی سے پچاسی فیصدمزدورں نے اس میں حصہ لیا جو کہ انقلاب کے بعد سب سے بڑی شرکت ہے ،، ۔ اس سے پہلے چھبیس ستمبر کو سپین میں ایک عام ہڑتال ہوئی ۔اٹلی میں سی جی آئی ایل او ایف آئی او ایم کی جانب سے وسیع مظاہرے اور ہڑتالیں منظم کی گئیں ہیں۔یونان میں اسی ایک سال میں 9عام ہڑتالیں منظم کی گئیں۔جبکہ برطانیہ کے ہر شہر میں طالب علموں نے فیسوں میں اضافے کے خلاف ولولہ انگیز مظاہرے کئے ہیں ۔ یہ تو ابھی آغاز کی ابتداہے جو کہ اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ سماج کے ہر حصے میں اضطراب کہاں تک پہنچ چکاہے اوریہ کس طرح سے مزدورتحریک پر اپنے اثرات بھی مرتب کر رہاہے ۔یونینوں کی قیادت پورازور لگا رہی ہے کہ وہ سرمایہ داروں کے ساتھ معاہدے اور مصالحت کی اپنی روش کو باقی اور برقراررکھیں لیکن اب کی بارایک مسئلہ درپیش ہے اور وہ یہ کہ سرمایہ داروں کے پاس ان لیڈروں کو دینے کیلئے کچھ ہے ہی نہیں ۔معاملہ صرف اتنا نہیں رہاہے کہ اب سرمایہ دار کسی قسم کی بامقصد اصلاحات کی پیشکش نہیں کرسکتے بلکہ کیفیت یہ ہو چکی ہے کہ وہ ماضی میں محنت کشوں کی حاصل کردہ مراعات کو بھی جاری رکھنے کے موڈ میں بھی نہیں ہیں۔اور یہ بات یونینوں کے رہنماؤں کے پلے بلکہ گلے پڑ چکی ہے اور ان کے پا س کوئی چارہ نہیں رہاکہ وہ ہڑتالوں اور مظاہروں کا راستہ اپنائیں ۔لیکن موجودہ کیفیت اور حالات میں اب صرف عام ہڑتال سے کچھ حاصل نہیں ہونا۔حکمران طبقات کے پاس کوئی رستہ باقی نہیں بچاکہ وہ محنت کش طبقے پر حملے کریں اور حملے کرتے ہی چلے جائیں۔یہ کسی طور معمول کے حالات نہیں ہیں۔ یورپی تاریخ ایک موڑ مڑرہی ہے۔ اور اس موڑکے ساتھ ہی طبقاتی جدوجہد کے ایک نئے عہد کی ابتدا ہورہی ہے۔جاری و ساری بحرانبحران سے پہلے کے کئی سالوں کا عروج بنیادی طورپر بے پناہ قرضے بازی کی برکتوں کا تھا اور قرضے بازی کا یہ کھلواڑ پرائیویٹ قرضوں کی شرح کو غیر معمولی سطح تک لے جا چکا تھا۔ جس کے بعد یہ سارا قرضہ پبلک قرضوں میں تبدیل ہوتا چلا گیا، اور وہ بھی انتہائی بلند پیمانے پر۔اور پھر وہی ہوا کہ جب حد سے کہیں زیادہ پی جاتے ہیں تو غل غپاڑہ شروع ہو جایا کرتا ہے اور سب کچھ ڈگمگانے لگ جاتاہے۔پہلے پہل تو حکومتوں نے کوشش کی کہ اپنی معیشتوں کو کسی نہ کسی طرح سنبھالا دے کر بحران سے نکال لیں جس کا صرف یہی مطلب تھا کہ امیروں کی دنیا کے پاس بے پناہ دولت موجودہے اور وہ قرضے واپس کرنے کو تیارہیں۔اور یہ ان وجوہات میں سے ایک ہے کہ کیونکر کوئی بحالی محال ہوگی اور یہ بھی کہ آگے ایک کے بعد دوسرابحران سامنے آتا چلا جائے گا۔ترقی یافتہ ملکوں میں مارکیٹوں پر یہ بھید کھلتے ہی کہ ان کی ریاستوں کی مالیاتی حیثیت کی حقیقت کیاہے ، انہیں ایک عمومی دیوالیہ پن کے وسوسے نے گھیر لیاہے۔ اور اس مسئلے نے ابھی اور بھی بھیانک ہونا اور ہوتے جانا ہے ۔ دو ہزار گیارہ میں امریکہ اور یورپی ملکوں میں حکومتی قرضے دو ہزار دس کی نسبت کہیں زیادہ بڑھ جائیں گے۔ Bloombergکے مطابق یہ دو ہزار دس کے تین اعشاریہ ایک ٹریلین ڈالرز کے مقابلے میں تین اعشاریہ پانچ ٹریلین ڈالرز کو پہنچ جائیں گے ۔ اس وقت ساری توجہ یورپ کی مضافاتی معیشتوں پر مرکوز ہے جن میں آئر لینڈ ‘پرتگال اور یونان شامل ہیں ۔یورپی سرمایہ داری کی کمزورکڑیاں ٹوٹتی چلی جارہی ہیں۔ایک کڑی کو مضبوط کرنے کی کوشش کے بعد پتہ چلتاہے کہ دوسری کڑی ٹوٹ چلی ہے اور جلد یابدیرکڑیاں الگ ہونے والی ہیں۔اس وقت جب یورپی یونین اور آئی ایم ایف ڈبلن میں آئرلینڈ کیلئے بیل آؤٹ پیکج پر سر جوڑے بیٹھے ہوئے تھیں ،پرتگال ا ور سپین کے اندر ماہرین معیشت و اقتصادیات اپنے اپنے ملکوں میں سرمایہ کاروں کی ڈوبتی نبضوں کو سنبھالنے کیلئے کوششوں میں مصروف تھے۔ماہرین حواس باختہ سرمایہ کاروں کو یقین دہانیاں کرارہے تھے کہ ہماری معیشتیں مضبوط ومستحکم ہیں اور ہمیں کسی قسم کے حفاظتی منصوبوں کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ پرتگال کے وزیر اعظم جوزے سقراط نے امید ظاہر کی ہے کہ آئر لینڈ کو ملنے والی امداد سے مارکیٹیں سنبھل جائیں گی۔اور یہ کہ ہمارے ملک کو صرف معمولی اثرات کا ہی سامنا ہے۔مصیبت یہ آن پڑی ہے کہ کوئی ایک بھی ان رہنماؤں اور ماہرین کا اعتبار کرنے کو تیار نہیں ہورہاہے ۔پرتگال اور سپین کیلئے قرضے بازی کی قیمت مہنگی پڑنے اورعمومی دیوالیہ پن کا خطرہ عام ہوتا چلا جارہاہے ۔سپین کے دس سالہ حکومتی بانڈز کی قیمت ،یوروکے اجرا کے بعد سے،جرمنی کے بانڈزکے مقابلے میں بلند ترین سطح کو پہنچ چکی ہے ۔ یہ ایسے ہی ہے جس طرح ایک قریب المرگ مریض کا چارٹ اس کے بستر کے ساتھ لگاہوتا ہے ۔آئر لینڈ کودیاجانے والابیل آؤٹ پیکج یوروکیلئے یونان سے بھی بڑا دھچکاہے کیونکہ یورپ کے مرکزی بینکوں کے پاس آئرلینڈ کا زیادہ تر قرض ہے۔اگلی باری پرتگال کی ہے ،اس کے بعد یہ وبا ء سپین کا رخ کرے گی ۔سپین کے بعد اٹلی اور برطانیہ اس کی زد میں آنے والے ہیں ۔خیال وخواب ہوا برگ وبار کا موسمیوروکا بحران اپنے جلو میں اعتماد کی کمی کو لئے ہوئے ہے۔مگر یہ ایک ایسی وضاحت ہے جس سے کوئی بات واضح نہیں ہوتی۔پہلے یہ اعتماد کہاں تھا اور اب یہ کہاں پردہ فرما گیا ہے! اس کا جواب یہ ہے کہ سرمایہ دار،، سرمایہ کار اور منڈی،، عالمی معیشت میں کوئی فوری بحالی کا تناظر نہیں دیکھ رہے ۔سچ بھی یہی ہے کہ سرمایہ داری کاعالمی بحران دن بدن بدسے بدتر ہوتا جا رہا ہے۔کہیں سے بھی کسی طرف سے بھی نمو یا نمود کی بات تک نہیں کی جارہی ہے ۔ درد ہے کہ بڑھتا جارہاہے اور چیخیں ہیں کہ روکے نہیں رک پارہی ہیں۔آج بھی عالمی معیشت کا مرکز ومحور امریکہ ہے ۔یہاں اشارے بہترین بتائے جارہے ہیں۔ تیسری سہ ماہی کے دوران امریکی نموکی شرح میں پچھلی سہ ماہی کی نسبت اضافہ ہوا۔سالانہ شرح کے حساب سے یہ ڈھائی فیصدبڑھی ہے ۔جبکہ خیال یہ تھا کہ دوفیصداضافہ ہوگا۔لیکن اس اچھی خبرپر اس وقت اوس پڑگئی جب امریکہ کے فیڈرل ریزرو بینک کی طرف سے یہ انتباہ سامنے آگیا کہ امریکہ میں بے روزگاری کی شرح اس سے کہیں زیادہ ہونے کا خطرہ ہے جتنا سوچاجارہاتھا۔پہلے کہا گیاتھا کہ2011ء میں یہ نوفیصدتک کم ہو جائے گی مگر۔۔ امریکہ کی گھروں کی معیشت بھی اب تک زبوں حال چلی آرہی ہے ۔ستمبر کی نسبت اکتوبر میں بیچے جانے والے گھروں کی ملکیت 2.2فیصدکم رہی جبکہ یہ پچھلے سال اکتوبر کے مقابلے میں25.9فیصدکم ہے۔گھروں کی فروخت کہ جن کو تالے لگ چکے ہیں ،اور ان جیسے دوسرے پریشان حال مالیاتی عوامل کی کیفیت میں ،اکتوبر میں 34فیصد رہی۔یہی حالت ستمبر میں بھی رہی۔کچھ معاشی ماہرین اس صورتحال کا موازنہ 1929/49ء سے یا پھر1965/82ء کی صورتحال سے کر رہے ہیں۔بورژوازی کو یہ بات سمجھ آتی جارہی ہے کہ کوئی سنجیدہ بحالی مستقبل قریب میں ہوتی نظر نہیں آرہی ۔ان کا خیال ہے کہ نئی ابھرتی معیشتیں ان کیلئے درکار بڑے منافع جات کمائیں گی اور یوں وہ محفوظ رہیں گے۔لیکن یہ محض امیدیں ہی امیدیں ہیں لیکن ایک حقیقی اعتمادکہیں بھی کسی کے پاس بھی موجودنہیں رہا۔ بورژوازی کی بوکھلاہٹ کی عکاسی دنیابھر میں سٹاک مارکیٹوں کے اتار چڑھاؤسے صاف عیاں ہوتی ہے۔ 2009ء کی بحالی کے بعد اب سٹاک مارکیٹیں ایک بار پھر لڑکھڑا رہی ہیں۔ بورژوازی ایک اجتماعی نسیان یا بوکھلاہٹ میں مبتلا ہوچکی ہے ۔ایک ہی سانس میں کبھی وہ تفریط زر کا رونا روتی ہے تو دوسری سانس میں وہ افراط زر کوپیٹناشروع کردیتی ہے۔ معیشت کے ماہرین کبھی ایک تجزیہ اور حل تو کبھی دوسرا تجزیہ اور حل دے رہے ہیں ۔نہ تو ان کے دماغ کہیں ٹک رہے ہیں نہ ہوش ٹھکانے رہے ہیں ۔معروف جریدہ’’اکانومسٹ‘‘اس قنوطیت بھری کیفیت کا احوال کچھ اس طرح بیان کرتاہے ’’اگر معاشی ترقی میں سالوں تک کمزوری کاہی تناظردکھائی دے رہاہے تویہی افسوسناک اور حوصلہ شکن صورتحال ہی مدنظررکھنا مناسب ہو گا۔ آخرکار 2009/10ء میں منافعوں نے جب اپنی پوزیشن بدلی تھی تو وہ حساب کتاب سے کہیں زیادہ تھے۔کمپنیاں اس قابل ہوگئی تھیں کہ وہ اپنے سٹاف کو تحفظ دیتے ہوئے اپنی باقی ماندہ افرادی قوت کے ذریعے اپنی پیداواری صلاحیت کو بھی بڑھاسکی تھیں ۔لیکن یہ کیفیت اب زیادہ طویل عرصے تک قائم رہتی نظر نہیں آتی۔یا تو معیشت بحال ہو گی اور محنت کی اجرت بڑھے گی،یاپھر بڑھتی ہوئی بیروزگاری، مانگ کو اپنے بوجھ تلے دبا ڈالے گی اور جس کے نتیجے میں محصولات کو شدید نقصان پہنچے گا‘‘۔تحفظاتی رحجاناتہر سطح پر تضادات سراٹھارہے ہیں ۔روایتی طورپر حکومتی بانڈز سرمائے کی منڈیوں کیلئے اطمینان اور تسلی کا ذریعہ ثابت ہوتے ہیں۔یونان یا پرتگال کے پیش کردہ بانڈز کی کاروباری ساکھ کے حوالے سے شکوک وشبہات کا صرف اتنا مقصد ہے کہ اس میں سرمایہ کاری کرنے والے، جرمن بانڈزیا پھر امریکی خزانے سے’’ ضمانت‘‘ طلب کررہے ہیں۔لیکن پھر چونکہ خود بورژوازی کو ان بانڈزپر بھروسہ نہیں رہا،اس لئے وہ قدیمی زرمبادلہ یعنی سونے پر نظریں جمائے اور پنجے گاڑے ہوئے ہیں۔ سونے کی قیمت میں حیران وپریشان کردینے والااضافہ افراط زر کے اسی خطرے سے خوفزدگی کی عکاسی کرتاہے ۔اس سے عیاں ہوتا ہے کہ سرمایہ کار کتنے ہراساں ہوچکے ہیں اور یہ کہ ان کوملکوں کی موجودہ کرنسیوں اور ان کی قدروقیمت پر کس قدر اعتماد ہے !سرمایہ کار بخوبی جانتے ہیں کہ ماضی میں حکومتیں قرضوں کے بھاری بوجھ سے نمٹنے کیلئے افراط زر کو ایک طریقے کے طورپر بروئے کار لاتی رہی ہیں۔اور یہ بھی وہ بخوبی جانتے سمجھتے ہیں کہ بالآخر افراط زر کا یہ اضافہ سب کچھ نیچے کی طرف دھکیل دیاکرتاہے ۔ ان دنوں کرنسیاں اچانک ہی خبروں اور شہ سرخیوں کا موضوع بننا شروع ہو گئی ہیں ۔ اگر سرمایہ کاروں کو یورو یا ڈالر سے کوئی توقع نہیں ہے تو یوآن سے ہے ۔چین پر انتہائی سخت نکتہ چینی ہورہی ہے کہ وہ اپنی کرنسی کو ’’انڈر ویلیو‘‘رکھے چلا آرہاہے۔امریکہ میں چین پر اس حوالے سے کافی لے دے ہو رہی ہے۔ایسی تنقید کے دباؤ میں اور تحفظاتی اقدامات (Protectionist Measures)سے بچنے کیلئے بیجنگ نے اپنی کرنسی یوآن کو ڈالر کے مقابلے میں بلندہونے کی اجازت دے دی۔لیکن یہ بلندی محض اتنی کم تھی کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑا اور سب ویسے کا ویسے ہی رہا۔چین میں کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس پچھلے سال کے مقابلے میں اس سال کی تیسری سہ ماہی میں، 102.3بلین ڈالرزرہا۔یہ سرپلس پچھلے سال سے دوگنا ہے اوریہ جی ڈی پی کا 0.7فیصدہے۔چینی برآمدات نئی حدوں کو چھورہی ہیں۔مغرب والے چین پر سخت دباؤ ڈالے ہوئے ہیں کہ وہ اپنے تجارتی عدم توازن پر توجہ دے اور معاملات کو درست ومتوازن کرے ۔اور یہ تبھی مناسب ہو گا کہ وہ اپنی برآمدات کو کم اور درآمدات کو زیادہ کرے ۔مگر چین اس قسم کی نصیحتوں پر کان دھرنے اور ان پر عمل کرنے میں کوئی جلد ی کرنے کے موڈ میں نظر نہیں آرہاہے۔چین ایک بہت ہی کامیاب ایکسپورٹر ہے اور اس نے دھیرے دھیرے ایک بہت ہی ضخیم تجارتی سرپلس کو مرتکز کرلیاہے ۔امریکی اور یورپی صارفین کو اپنی طرف راغب کرنے اور رکھنے کیلئے ،چین اپنی کرنسی کو اوپر نیچے کئے رکھتاہے تاکہ اس کی اشیا ء سستی رہیں ۔ دوسرے ممالک بھی چین جیسی روش اپنانے کو چل پڑے ہیں کہ برآمدات کے ذریعے اپنی بحالی کر سکیں ۔اسے دوسرے لفظوں میں یوں بھی بیان کیاجاسکتا ہے کہ اپنی بے روزگاری کوبرآمدکر کے۔لیکن ایسا کرنے میں پھر ایک ذراسا مسئلہ ہے‘کسی کو کچھ برآمد کرنے کیلئے لازمی ہوتاہے کہ دوسری طرف کسی ایک کو ایک نقد درآمدکنندہ بھی بنناہوتاہے ۔اسی طرح کسی کرنسی کی قیمت کم کرنے کیلئے لازم ہوتاہے کہ کوئی دوسرا اپنی کرنسی کو مہنگا بھی کرے ۔یہ ایک پیچیدہ اور پھسلن والا راستہ ہوتا ہے کہ جس پر چلتے ہوئے مقابلہ بازی اور کا ایک سلسلہ شروع ہوجاتا ہے تاکہ خود کو محفوظ اور مدمقابل پر برتری حاصل کی جا سکے۔ اس باہمی مقابلے بازی کا نتیجہ پروٹیکشن ازم کی صورت میں سامنے آتاہے ۔اور سبھی ممالک ایسے میں ایک دوسرے پر الزام تراشیوں پر اتر آتے ہیں کہ ہماری منڈیوں پر ناجائز قبضے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ ایسی ہی کیفیت میں کرنسیوں کی جنگ کا واویلا بھی سامنے آرہاہے جو کہ ا نتہائی خطرناک ہے۔یہاں ہم آپ کو یاد دلانا چاہیں گے کہ جو کچھ 1929ء میں ہواتھا کہ جب بحران ایک زوال میں بدل گیاتھا ۔پروٹیکشن ازم اور کرنسیوں کی قدرووقیمت میں کمی کی مقابلے بازی نے سب کچھ دھڑام کرڈالاتھا ۔اس عالمگیر بوکھلاہٹ اور بدحواسی میں ہمیں یورو کے بحران کو سمجھنا اور پرکھنا چاہئے ۔کرے کوئی بھرے کوئیحکومتیں تنی ہوئی رسیوں پر چل رہی ہیں اور سارا زور لگارہی ہیں کہ بجٹ کو ڈسپلن میں لانے کے بہانے بدترین کٹوتیاں کی جائیں ۔اسی دوران وہ اپنی بیمار معیشتوں کا درست علاج کرنے سے دانستہ گریز کررہی ہیں ۔وہ دائرے کو سکیڑنے کی کوشش کررہی ہیں ۔نتیجہ یہ اور یہی نکلے گا کہ یورپی حکومتوں کے بحالی کے سبھی پروگرام (Austerity Plans) بحران کو حل یا ختم کرنے کی بجائے اسے مزید گہرا اور شدیدکر دیں گے۔مالیاتی پالیسیاں سخت کرنے سے بحالی کی کوششوں کے کمزور ہونے کا واضح امکان موجود ہے ۔خاص طورپر یورپ میں ایساہوسکتاہے۔یونان اور آئرلینڈ کو دیا جانے والا بیل آؤٹ پیکج اس بات کا اعلان اور اظہارتھا کہ2011ء میں یورومحفوظ ہو جائے گا۔ایک بھاری سٹینڈ بائی فنڈ کی موجودگی کا مطلب یہی ہے کہ یوروزون کے قرضے کوسنبھالنے کیلئے کہیں کوئی سرمایہ کار موجود ہے۔لیکن یوروکے محفوظ مستقبل کی یہ کوئی حقیقی ضمانت فراہم نہیں کرتا۔اناتیس اکتوبر کواپنی ایک میٹنگ میں یورپی یونین کے لیڈروں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ وہ بحران سے نمٹنے کیلئے ایک مستقل میکنزم کے معاہدے کو یقینی بنائیں گے اور یہ معاہدہ ’’پرائیویٹ سیکٹرکے کردار‘‘پر مبنی ہوگا۔منڈیوں نے اسے ایک اشارے کے طورپر لیا کہ بانڈز رکھنے والے یوروزون ممبروں کے مستقبل کے بیل آؤٹ کیلئے ادائیگی کریں گے۔فوری طورپر انہوں نے مفلوک الحالی کانمایاں طورپر شکارہونے والے ملکوں پر سے قرضوں کا بوجھ اتارنا شروع کردیایعنی آئرلینڈاور پرتگال۔ اکیس نومبرکوآئرلینڈکی حکومت نے بالآخر یورپی یونین کے دباؤکے آگے گھٹنے ٹیک دیے کہ وہ یونین اور آئی ایم ایف کی جانب سے پچاس ی بلین یورو ،، 115 ایک سو پندرہ بلین ڈالرز،، کا بیل آؤٹ پیکج قبول کرلے۔جب یونان کی حکومت نے اس سال مئی میں ایک سو دس بلین یوروکا بیل آؤٹ پیکج لیاتھا اور یورپی یونین اور آئی ایم ایف کے ایک مشترکہ 750بلین یوروفنڈکو حاصل کیاتھاتو منڈیاں چمک اٹھیں تھیں۔لیکن اب کی بار بڑی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیوں نے ناک بھوں چڑھاتے ہوئے اس کو منفی قرار دے دیاہے ۔اگرچہ آئرلینڈوالوں نے یہ سوچاہواتھا کہ معاہدے کو تسلیم کرلینے کے بعد سرمایہ کار انہیں نوازیں گے لیکن انہیں جھٹک اور جھڑک دیاگیا۔مئی میں یونان کو ملنے والے بیل آؤٹ پیکج کے بعد منڈیاں حرکت میں آگئی تھیں جبکہ آ ئر لینڈکو پیکج ملنے کے بعد منڈیاں پہلے تو چپ سادھے رہیں ،پہلے تو آئرلینڈ کے اثاثوں کی قیمت میں ایک گراوٹ آئی پھر ساتھ ہی ساتھ پرتگال اور سپین کے ساتھ بھی یہی ہوا۔جب آئرلینڈ کے ساتھ ہونے والی ڈیل کا اعلان ہوا تو اس کیلئے مختص بانڈزکی قدر میں فوری طورپر7.93فیصد کمی واقع ہوئی۔لیکن بعد میں Standard & Poor146sنے آئرش حکومت کے قرضے کی قدر کوکم کرتے ہوئے AA-سےAکردیاجبکہ Moody146sنے بھی وعدہ کرلیا کہ وہ بھی ممکنہ حدتک کمی کرے گی۔چوبیس گھنٹوں کے اندراندر آئرلینڈ،پرتگال اور سپین کے جرمن بانڈزپر لئے گئے قرضوں کا حجم پہلے اعلان کردہ مالیت سے کہیں زیادہ بڑھ گیا۔سپین کے بانڈز کا حجم تو یوروکے اجرا کے بعد سے سب سے زیادہ بلندشرح تک پہنچ گیا۔سیاہی کے خشک ہونے سے پہلے ہی بیل آؤٹ کی ناکامی سامنے آگئی۔اس کی سیدھی سادی اور صاف ستھری وجہ یہ ہے کہ مالیات کے پنڈتوں کو ذرا بھر بھی یقین نہیں ہے کہ یہ ممالک کبھی اس قابل ہوسکیں گے کہ اپنے قرضے واپس کر سکیں ۔وہ جانتے ہیں کہ آخرالذکر آئرش بیل آؤٹ کسی طرح بھی آئر لینڈ کے قرضے ختم کر سکے گا۔بلکہ یہ محض اسے برقرار رکھے گا۔ایساہی کچھ2008ء میں ہواتھا کہ جب امریکی بینکوں کو ڈوبنے سے بچانے کی سبھی سرتوڑ کوششیں رائیگاں گئی تھیں۔مارچ2008ء میںBear Stearnsکو بچانے کے بعد امریکی حکومت کی چیخیں نکلنا شروع ہو گئیں جب اسے ستمبر میں Lehman Brothersکو بچانے کا مرحلہ پیش آیا۔وہ ایساکرنے کے موڈمیں نہیں تھی۔اب کچھ ایسا ہی جرمنی کو درپیش ہے ،یہ جرمنی ہی ہے کہ جو یورپی یونین کا سرخیل بناہواہے۔یہ جرمنی ہی تھا کہ جس نے بادل نخواستہ اپنی جیب سے ہی یونان اور آئرلینڈکو بیل آؤٹ پیکج دینے کا فیصلہ کیالیکن پھر بچنے بچانے کی بھی اپنی حدودہواکرتی ہیں۔آئر لینڈ سے پرتگال تکآئرلینڈ کے بعد اب منڈیوں کی توجہ آئبیرین ملکوں کی طرف ہورہی ہے ۔اگلی باری اب پرتگال کی ہے ۔23نومبر کو پرتگال قرضے لینے کیلئے جرمنی کے مقابلے میں چارفیصد سے زائد اداکررہاتھا۔وسط اپریل تک یہی حالت یونان کی بھی تھی۔اور یہ بیل آؤٹ پیکج سے محض چند ہفتے پہلے کی کیفیت تھی۔ پرتگال یورپ کی ایک اور کمزور معیشت ہے جس کی ترقی کی شرح انتہائی سست اور جس کا بجٹ خسارہ بہت بڑاہے ۔ یہ صاف عیاں ہے کہ پرتگال کوبھی آئرلینڈ کے رستے پر چلناپڑے گا۔منڈی کے دیوتاؤں کو خوش کرنے کیلئے پرتگال کی مخلوط حکمران سوشلسٹ قیادت جوزے سقراط کٹوتیوں کی پالیسیاں مسلط کرنے پر تلی ہوئی ہے ۔جس کے بعد ،ردعمل میں وہاں ایک عام ہڑتال کی کال دی گئی ۔جس میں بھرپور شرکت سامنے آئی۔لیکن اب مسئلہ یہ نہیں کہ پرتگال بیل آؤٹ لیتا ہے کہ نہیں ،اب سوال یہ ہے کہ کب ایسا ہوگا!تاہم اب جو بھی ہو،بچاؤ کے سبھی منصوبے اور بیل آؤٹ پیکج کسی کام نہیں آسکنے۔اگر معاملہ صرف اتنا ہوتاکہ پرتگال،یونان اور آئرلینڈکو اپنی معاشی مشکلات سے باہر نکلنے کیلئے فنڈزکی ضرورت ہے،تب یورپی یونین کا ریسکیوپلان یقینی طورپر کارگروکارآمدبھی ثابت ہوتا یا ہورہاہوتا۔لیکن منڈیاں اس بات کو سمجھے ہوئے ہیں کہ مسائل کہیں گہرے اور کہیں زیادہ وسیع ہوچکے ہیں۔درحقیقت یہ ممالک دیوالیہ اور کنگال ہوچکے ہیں اور اگر اس بات کودوسرے اندازمیں بیان کیا جائے تو وہ یہ کہ یہ ممالک اپنے قرضے کوبروئے کارلانے کے ہی اہل نہیں رہے ،چہ جائیکہ یہ اسے واپس کرنے کے قابل ہوسکیںگے۔ مالیات کے مالکان اس شک وشبے میں مبتلاہیں کہ آئرش بینک اس سے کہیں زیادہ بدتر ہیں جتنا پہلے بیان کیا جاتا رہا ہے۔ سرمائے کے یہ دیوتا 2008ء کے ڈبلن حکومت کے اس فیصلے سے سہمے ہوئے ہیں کہ حکومت سبھی بینکوں کی ضمانتوں کی ضامن ہے۔یہ لاابالی فیصلہ اس سے کہیں زیادہ مہنگا پڑسکتاہے ،جو یورپی یونین اور آئی ایم ایف سے لئے گئے85بلین یوروز کے قرضے کی واپسی کیلئے طے کیا گیا ہے۔ خاص طورپر ایک ایسی حالت اور کیفیت میں کہ جب ملک کے بینکوں کے کھاتوں میں سے بھاری تعداد میں سرمایہ ملک سے باہر منتقل کیا جارہاہو!اسی سبب سے مالیات کے دیوتا آئرلینڈ کی حکومت پر سخت دباؤ ڈالے ہوئے ہیں کہ وہ کسی ممکنہ الیکشن کے اعلان سے پہلے ہی مجوزہ کٹوتیوں کا حامل بجٹ پیش کر دے۔ یہی صورتحال یونان میں بھی ہے جہاں حکومت کٹوتیوں کا ایک سخت اور شدید سلسلہ مسلط کرنے پر تلی ہوئی ہے۔مگر اب سے یہ سمجھ آنا شروع ہوگیاہے کہ وہ مطلوبہ درکار ٹیکس اکٹھے نہیں کر پا رہی ہے اور نہ ہی اس ترقی کو ممکن کر سکی ہے کہ جس کی مدد سے وہ اپنے قرضوں سے نمٹ سکے۔آئر لینڈ میں ابھی برائن کوون کو اسی دسمبر میں ہی دو ہزار گیارہ کا بجٹ پیش کرناہے ۔آپ جناب، وزیر خزانہ تھے جب آئرلینڈمیں افراط زرکا بلبلہ پھول چکاتھا اور اب جب موصوف وزیراعظم بنے تو یہ ناہنجاربلبلہ پھٹ گیا۔اور اب ان کی ساکھ کا خاتمہ بالخیرہوچکاہے ۔باربار اعلان کے بعد کہ میں کسی طور کسی قیمت پر بھی بیل آؤٹ پیکج نہیں لوں گا۔مگر پھر انتہائی اہانت و خجالت سے اس نے بیل آؤٹ معاہدے پر دستخط کر ڈالے اور وہ بھی ایک ایسی قیمت پر کہ جسے کوئی آئرش باشندہ قبول یا اداکرنے کو تیار نہیں ہے ۔یہی نہیں بلکہ اس معاہدے میں یورپی یونین کے کمشنرکو اس بات کی کھلی اجازت دی گئی ہے کہ وہ اس پیکیج کے معاملات کی نگرانی بھی کرے گا۔اس ذلت انگیز معاہدے نے آئرش عوام کی چیخیں نکلوا دی ہیں اور وہ اسے اپنی قومی حمیت کیلئے کلنک قرار دے رہے ہیں۔جریدے آئرش ٹائمز نے تو حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ’’ انیس سو سولہ کی ایسٹر سرکشی کو بھی شرمسار کردیاگیاہے ۔ان معصوم آئرش لوگوں کو یہ بات پتہ نہیں کیوں نہیں سمجھ آپارہی کہ دنیا میں اگر کوئی واحد حمیت اور حریت موجود ہے تو وہ سرمائے کی دیوی کوحاصل ہے ،جس کے خلاف سرکشی اور بغاوت گناہ کبیرہ ہے‘‘ ۔اس معاشی بحران کے پہلو میں سیاسی بحران بھی آنکلا۔کوون کی حکمران جماعتFianna Failکے ساتھ شریک اقتدار گرین پارٹی نے اعلان کیاہے کہ وہ جنوری کے اجلاس کا بائیکاٹ کرے گی۔یہی نہیں بلکہ وہ مجبور کر رہے ہیں کہ فوری الیکشن کرائے جائیں ۔وہ اگرچہ دسمبر میں اگلے سال کے بجٹ کو منظور کرنے میں مدد نہیں کریں گے۔لیکن وہ اگلے چار سالہ کٹوتیوں کے منصوبے پر عملدرآمد کا حصہ ہوں گے،جس کے مطابق بجٹ خسارے کو یورپی یونین اور آئم ایف کی ہدایت کے مطابق جی ڈی پی کے3فیصدتک لایاجائے گا۔لیکن یہ ضروری نہیں کہ اس سے بجٹ کے معاملات بھی بہتر ہوجائیں۔ یورپین اکنامک کمشنراولی رہن کا کہنا ہے کہ برسلز کو (یورپی یونین)کو آئرش سیاست میں مداخلت نہیں کرنی چاہئے ۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی فرمایا کہ وہاں استحکام کا ہونا بہت اہم ہے ۔ بجٹ میں بے شمار کٹوتیاں کی جانی ہیں۔ دو ہزار گیارہ میں چھ بلین یوروکی کٹوتیاں ہوں گی،ٹیکسوں میں اضافوں ،ویلفیراورپبلک سروسزتنخواہوں میں وحشیانہ کٹوتیاں کی جانی ہیں یہاں تک کہ کم سے کم اجرت میں بھی کمی کی جائے گی ۔اس معاہدے نے اکثریتی حکمران جماعت فنانس فیل جوکہ انیس سو بیس میں آزادی کے بعد سے سب سے زورآور پارٹی بھی چلی آرہی ہے ،کے اندرشدیدبحران اور تناؤ پیداکرڈالاہے۔اور اسے تاریخ کی بدترین ہزیمت اور شکست کا سامنا کرنا پڑرہاہے ۔پارٹی کے کئی ارکان پارلیمنٹ کوون کے استعفیٰ کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔ فنانس فیل کی جگہ امکان ہے کہ Fine Gael/Labour کا مخلوط اتحاد لے لے گا۔چنانچہ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح اور کتنی جلدی ،ایک معاشی بحران سیاسی بحران کو جنم دیتا آرہاہے ۔اور یہی وہ منظرنامہ ہے جس کی ہم نے پہلے پیشین گوئی کی تھی کہ معیشت کو سدھارنے اور سنبھالنے کی ہر کوشش سیاسی اور سماجی تانے بانے کو تہس نہس کر کے رکھ دے گی۔اور اب پرتگال سے سپین تکسپین کا تو حال بہت دیدنی ہوا۔یہ کسی راکٹ کی طرح سے اڑا اور پھر کسی تنکے کی مانند زمین پر آگرا۔آئر لینڈکی طرح سپین نے بھی گھروں کے کاروبار کی برکتوں سے خوب استفادہ کیا لیکن پھر سب دھڑام سے سر کے بل آن گرا۔ابھی کچھ ہی عرصہ پہلے دو ہزار سات تک سپین کی معیشت یورپ میں سب سے بہتر اور تیز تر جارہی تھی۔لیکن اب وہ سہانے دن خواب ہوچکے ہیں ۔جب تعمیر ات کا بلبلہ پھٹا تو یہ اپنے ساتھ سپین کی ساری معیشت کو بھی لے ڈوبا۔ دو ہزار نو تک یہ دنیا کی نو ویں بڑی معیشت تھی اور اب یہ روس‘ انڈیا اور کینیڈا کے بعد بارہویں نمبر پر آجائے گی۔ دو ہزار دس میں جب یورپی معیشتوں کو سست روی کا سامناکرناپڑاتوسپین کی معیشت سکڑ گئی۔ او ای سی ڈی ،، امیرملکوں کی تنظیم ،، نے پیشین گوئی کی ہے کہ سپین کی معیشت اس سال سست روی کا شکار رہے گی جبکہ اگلے سال اس کی شرح نمو صفر اعشاریہ نو فیصد رہے گی۔پرتگال اور یونان کی طرح اس کی ترقی سست ہے جبکہ بیروزگاری کی شرح بیس فیصد ہے ۔کچھ دن پہلے بینک آف سپین کے سربراہ میگوئیل اورڈینزنے اعتراف کیاہے کہ ’’سست روی اور کمزوری کی وبا یونانی اور پرتگالی قرضے کے بعد اب ہمارے قرضوں کو بھی لپیٹ میں لے چکی ہے اور ہمیں ہی نہیں اٹلی اور بلجیم کو بھی اس نے اپنی لپیٹ میں لینا شروع کر دیاہے ۔اگرچہ پچھلے سال سپین کا بجٹ خسارہ اس کے جی ڈی پی کا53فیصدتھا جو یورپی یونین کی طے کردہ شرح سے اکیس پوائنٹ کم تھا مگر اب سرمائے کے جواریوں نے اسے آنکھ میں رکھ لیاہواہے۔آغازمیں سپین کے بینک پرتگال کے سامنے بر ی طرح ننگے ہو چکے ہیں اور سپین کے تعمیراتی قرضے اور کمپنیاںیورپی یونین کے مقررکردہ پیمانوں سے کہیں نیچے گر چکے ہیں ۔کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ اب بھی جی ڈی پی سے چارفیصد زیادہ ہے۔جائیدادوں پر بینکوں سے لئے گئے قرضوں اور بینکوں کی بچتوں کو ہونے والے خسارے کا تو کوئی پتہ ہی نہیں چل رہا۔سپین کے بینکوں کے پاس اس وقت بھی دولاکھ سے زائد نئے گھروں کی ملکیت ہے جو ساٹھ بلین یورو کی قیمت کے قرضے کی حامل ہے کہ جس نے بینکوں کے دیوالیہ ہونے کے راستے متعین کئے ہیں ۔ان میں سے کئی دو ہزار گیارہ میں مارکیٹ میں کھپائے جائیں گے ۔جس سے جائیدادوں کی قیمتیں مزید متاثرہوں گی۔منڈیاں اس خوف میں مبتلاہو چکی ہیں کہ سپین کی معیشت سنبھلنے میں ناکام رہے گی۔2011ء میں توقع کی جارہی ہے کہ سپین کی معاشی نموایک فیصد سے کم رہے گی جبکہ بیروزگاری کی شرح بیس فیصداور افراط زر جرمنی سے زیادہ رہے گا۔سپین میں جو ہونے جارہاہے اس کے شدیداثرات سارے یورپ پر مرتب ہوں گے۔جریدے اکانومسٹ نے اپنے ادارتی مضمون میں بالکل واضح انتباہ کے ساتھ لکھاہے کہ یوروکو پگھلنے اور گرنے سے بچانے کیلئے زپاٹیرو کو سپین میں اصلاحات کو یقینی اور موثربناناہوگا۔اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ سپین کی سوشلسٹ حکومت کو کٹوتیوں کو شدت سے نافذالعمل کرناہوگا تاکہ بجٹ خسارے کو کنٹرول کیا جاسکے ۔زپاٹیروکو مجبورکیاجارہاہے کہ وہ منڈی کے احکامات کی پابندی کرے۔ اس نے اخراجات میں کٹوتیوں اور ٹیکسوں میں اضافے کیلئے اقدامات شروع کر دیے ہوئے ہیں جو کہ2009ء میں جی ڈی پی کا11فیصدتھا اور جسے اگلے سال 6فیصدتک لانا ہے۔ اس نے سول ملازمین کی تنخواہوں میں5فیصد کمی کرنی ہے ۔اور اس کے ساتھ ہی ایک عام ہڑتال کے اعلان کے ہوتے ہوئے ویلیوایڈڈٹیکس بھی نافذکرناہے ۔باسک نیشنلسٹ پارٹی کی مہربانی اور تعاون سے اور ان کے ساتھ معاہدے کی مددسے زپاٹیرواس قابل ہوسکاکہ وہ نئے سال کے کٹوتیوں سے بھرپوربجٹ کو ممکن بنا سکے ۔لیکن منڈیاں ہیں کہ اس سب کے باوجود مطمئن اور شانت نہیں ہو پارہی ہیں۔ انہیں شکوہ ہے کہ زپاٹیروبہت ہی نرم مزاج ہے اور دباؤ کا شکارہوجاتاہے ۔ڈیوک یونیورسٹی کے ماہر معیشت روبیورمائرز کا کہنا ہے کہ جب بھی کبھی عالمی منڈیاں قرضے بارے کوئی بات چھیڑتی ہیں تو کہہ دیاجاتاہے کہ اچھاجی ہم اصلاحات کی کوشش کرتے ہیں۔اور جب دباؤ کم ہوتاہے تو پھر چپ سادھ لی جاتی ہے ۔زپاٹیرو کی جانب سے ریٹائرمنٹ کی عمر65سے بڑھا کر67سال کرنے اور محنت کی منڈی میں اصلاحات کے منصوبے کو بورژوازی کی جانب سے انتہائی ناکافی اور غیر تسلی بخش قراردیاجارہاہے۔وہ چاہ رہے ہیں کہ اجرتوں کی بارگیننگ کے مرتکز نظام کو سرے سے ختم کردیاجائے ۔ان کو شکایت ہے کہ اگلے سال کی پہلی سہ ماہی تک کیلئے پنشن اصلاحات کو موخر کردیاگیاہے ۔اسی طرح اجرتوں کی بارگیننگ کے اجتماعی نظام کو بھی سرمایہ داروں کی من مرضی کے مطابق نہیں ختم کیاجارہااور تاخیر کی جارہی ہے ۔سرمایہ دار اور منڈیاں صحت کے نظام میں بھی اصلاحات کا دباؤ ڈالے ہوئے ہیں۔منڈی زپاٹیروسے مطالبہ کررہی ہے کہ وہ اپنے گھٹنے ٹیک دے اور اس کے احکامات کی تابع فرمانی کرے۔اس کھیل کا جواب یونینوں نے ایک عام ہڑتال کی شکل میں دیاہے ۔زپاٹیروکے آگے کھائی ہے تو پیچھے پاتال۔وہ جو کچھ بھی کررہااور کرنے جارہاہے اس سے کوئی بھی آدمی مطمئن نہیں ہے ۔مالکان کیلئے بھی کہ یہ ناکافی ہے اور محنت کشوں کیلئے بھی کہ یہ زیادتی ہے۔نتیجہ یہ نکلا کہ سوشلسٹ پارٹی کی عمومی ساکھ تیزی سے نیچے گر تی چلی جارہی ہے اور زپاٹیروکو متوقع الیکشن میں ایک بڑی ہزیمت آمیز شکست کا سامناہے ۔ اسے چاروناچار باسک اورکیٹالان بورژواقوم پرست پارٹیوں کے ساتھ اتحادوالحاق کرناپڑے گا۔ جو اپنی حمایت دینے کیلئے اس سے اپنی اپنی قیمت وصول کریں گے۔یہ صاف نظرآرہاہے کہ سوشلسٹ پارٹی PSOE،دو ہزار بارہ میں ہونے والے الیکشن میں شکست سے دوچارہوگی اور دائین بازوکی رجعتی پاپولرپارٹی یہ الیکشن جیت لے گی۔جرمنی:یورپ کا دلجب سے حکومتوں نے یہ فیصلہ کرلیاہواہے کہ وہ اپنے بڑے بینکوں کوہونے والے نقصانات کو خود ہی پوراکریں گی ان حکومتوں کی ساری ساکھ کا دارومدار اب بینکوں کی کارکردگی سے وابستہ ہوگیاہے ۔مسئلہ اور قابل تشویش بات صرف یہ ہے کہ کسی کو بھی اس بات کا درست اندازہ نہیں ہے کہ ان بینکوں کو ہونے والے خسارہ ہے توکتنا!معروف کریڈٹ ایجنسی موڈیز کے مطابق بینکوں کے قرضے دو ہزار گیارہ میں ایک اعشاریہ تین ٹریلین ڈالرز تک پہنچ جائیں گے۔ان میں وہ بینک شامل نہیں کہ جو موڈیز کی فہرست میں موجود نہیں ہیں۔چنانچہ اصل مالیت بیان کی گئی رقم سے کہیں زیادہ ہوگی۔اور یہ کوئی بھی نہیں جانتا کہ یہ کتنی ہوگی!یہ بات خاص طورپر یورپی بینکوں پر فٹ آتی ہے کہ جنہیں اگلے سال ر ی فنانسنگ کا سامنا کرناپڑے گا۔عروج کے دنوں میں ان بینکوں نے سٹے بازی سے خوب دولت کمائی تھی اور اب یہ آس لگائے ہوئے ہیں کہ حکومتوں کے مرکزی بینک ان کو سنبھالا دیں گے۔یہ مرکزی بینک ایسا مہربان جادوئی بگل قرار پا چکے ہیں کہ جو بجیں گے تو ان میں سے دھن دولت کی آبشاریں پھوٹ پڑیں گی۔مگر پھر ان مرکزی بینکوں کے پاس بھی وسائل کسی طور لامحدود نہیں ہیں۔اب سب کی توجہ اور توقع جرمنی سے بندھ چکی ہے کہ یہ اپنی دولت اور کریڈٹ کو اس کارخیر کیلئے بروئے کار لائے گا ۔ لیکن اگر یہ صرف پرتگال آئر لینڈ اور یونان کا ہی معاملہ ہوتا تو شاید جرمنی اسے سنبھال بھی سکتا۔مگر سپین کا تو مسئلہ و معاملہ ہی اور نوعیت کا حامل ہے ۔یہ یوروزون کی چوتھی بڑی معیشت ہے جس کی آبادی اور جی ڈی پی پہلے تینوں ملکوں کی مجموعی آبادی اور جی ڈی پی سے بڑی ہے ۔یورپی یونین کی جانب سے سات سو پچاس بلین یوروز کی مرتب کردہ امدادکو سوچتے وقت سپین کا تو خواب وخیال تک ذہن میں نہ تھا۔اس سال مئی میں جب یہ سوچا اور تجویزوتشکیل دیاجارہاتھا تو کسی کے گمان میں بھی نہ تھا کہ آگے یہ بھی یوں بھی ہونے والاہے ۔جرمنی نے ابھی تک بیل آؤٹ پیکجوں کی حمایت اور پشت پناہی کی ہے اور ایساکرتے ہوئے اس نے خوشدلی کا بھی مظاہرہ نہیں کیا بلکہ ماتھے پر تیوریاں چڑھائے رکھی ہیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا اب جرمنی سپین کیلئے وہ کچھ کرنے کوتیاراور راضی ہوتا ہے ؟مرکل اور اس کے وزیر خزانہ وولف گینگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ جرمنی کے اندر یورو بیل آؤٹ پیکجزبارے سخت تشویش اور بے چینی پائی جارہی ہے۔انہیں بخوبی یاد ہے کہ1992ء کے ماستریخت معاہدے میں اس قسم کے بیل آؤٹ پیکجوں کی کوئی گنجائش اور اجازت نہیں رکھی گئی تھی ۔اور اس لاقانونیت کے خلاف جرمنی کی عدالت کسی بھی وقت نوٹس لے کر جواب طلبی سمیت بہت کچھ کرسکتی ہے ۔بائلڈ نے حال ہی میں یہ سوال بھی اٹھایاہے کہ ’’پہلے یونان،پھر آئرلینڈ پھر یہ اور پھر وہ ملک !کیا ہم نے یورپ کے سبھی ملکوں کا ٹھیکہ اٹھارکھاہے ؟‘‘۔اس قسم کے دباؤ کو محسوس کرتے اور اس سے گھبراتے ہوئے اب یہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ یورپی یونین بارے کئے گئے سمجھوتوں میں ترامیم کی جائیں تاکہ یورپ کے مالیاتی استحکام کی سہولت کو قابل عمل بنایاجاسکے۔ اس کے بغیر اس نوعیت کے ریسکیو فنڈزکا معاہدہ دو ہزار تیرہ میں ختم اور غیر موثرہوجائے گا۔لیکن پھر معاہدوں میں ترامیم اتنا آسان کام نہیں ہوا کرتا۔ یورپی یونین کے آئین کیلئے منظوری لینے کا عمل کئی ملکوں میں ریفرنڈموں کے ذریعے ممکن اور مکمل ہواتھااس دوران یہ ناکام بھی ہوا۔جرمنی کی ان مجوزہ ترامیم کو کوئی بھی ملک مان نہیں رہاہے اور ان کا کہنا ہے کہ ان کے ملکوں میں صورتحال ایسی نہیں کہ ان کیلئے ریفرنڈم کرائے جاسکیں۔جرمنی کی چانسلر مرکل صاحبہ فرماچکی ہیں کہ یورو کو درپیش صورتحال انتہائی سنجیدہ ہو چکی ہے ۔اس کے وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ ہماری مشترکہ کرنسی کو خطرات نے گھیرلیاہواہے ۔یورپی کونسل کے صدر ہرمن وان رومپوئے نے تو یہاں تک کہہ دیاہے کہ اگر یورو بچ نہیں پاتاتو یورپی یونین بھی نہیں بچ پائے گی۔جرمنی کے ووٹروں کی خاطر جمع رکھنے اوراس تاثر سے بچنے کیلئے کہ وہ جرمنی کی دولت کو لٹانے پر تلے ہوئے ہیں ،انہوں نے مطالبہ کردیاہے کہ مستقبل کیلئے ہونے والے بیل آؤٹ پیکجزمیں قرضوں کی ری سٹرکچرنگ کو لازمی قراردیاجائے گاتاکہ سرمایہ کاروں کو بھی نقصان میں شریک کیاجاسکے۔اس مطالبے نے سرمایہ کاروں کے اوسان خطاکرڈالے ہیں ۔منڈیوں کو ہرگز قانون سازی کی حیلہ بازی سے کنٹرول نہیں کیاجاسکتا اور ان منڈیوں نے بھی اپنے بازو کسے ہوئے ہیں تاکہ وہ یہ ثابت کر سکیں کہ اصل مالک کون ہے !اچانک ہی جرمنی نے اس بارے چپ سادھ لی ہے کہ ’’سٹے بازوں کو بھی خساروں میں شامل کیاجائے‘‘۔جرمنی نے یورپین کمیشن سے کہا ہے کہ وہ اس بارے میں میکنزم طے کرنے کیلئے تجاویز مرتب اور پیش کرے لیکن اس نے خود اس حوالے سے ایک لفظ بھی نہیں کہاہے ۔ہرمن وان رومپوئے،جس نے ابھی کچھ ہی عرصہ پہلے ’’یوروکے شدید بحران‘‘ میں ہونے کی نشاندہی فرمائی تھی اور جس کے ذمے یہ ذمہ داری لگنے والی ہے کہ وہ ممبران سے مجوزہ ترامیم بارے صلاح مشورے کرے نے اپنے ہونٹ ہی سی لئے ہیں ۔ہر ایک حکمران اورہر ایک ماہر منڈیوں کو مطمئن کرنے کی کوششوں میں لگاہواہے کہ وہ صبراور حوصلہ رکھیں سب ٹھیک ہوجائے گا۔اب وہ قسمیں کھاکھا کر بانڈز رکھنے والوں کو تسلیاں دے رہے ہیں کہ انہیں آئر لینڈ کیلئے بیل آؤٹ کے معاملے میں کوئی خسارہ نہیں اٹھاناپڑے گا۔انہیں اور کوئی راستہ اور طریقہ سمجھ نہیں آرہا کہ وہ کس طرح اس سٹے بازی کو نقصان سے محفوظ رکھیں !بلجیم کے وزیرخارجہ سٹیون وناکرے نے مشورہ دیاہے کہ اس عمل کو ’’بحران کا حل‘‘ہی نہ کہا جائے ،بلکہ اس کی بجائے اسے ’’استحکام کا میکنزم‘‘کہہ کر پکارا اور بیان کیاجائے ۔لیکن خود وناکرے بھی اپنی ہی کہی ہوئی بات سے مطمئن نہیں ہے ۔اس نے یہ بھی قراردیاہے کہ’’ یہ ایسے ہی کہ جیسے امن کے وزیر کو جنگ کا وزیریا پھر دفاع کا وزیر کہنا شروع کردیاجائے ‘‘۔یورپ!جاؤں کہاں بتا اے دل؟بانڈز کی منڈیوں کی طرف سے عائد خطرات اور وسوسے صرف آئر لینڈ ،یونان ،پرتگال اور سپین کے سروں پر نہیں منڈلا رہے ہیں بلکہ خطرے اور وسوسے کے یہ بادل سارے یورپ پر چھائے ہوئے ہیں ۔یوروکے ساتھ کس وقت کیا ہوجائے ،سب اس خوف میں مبتلاہوچکے ہیں ۔دسمبر انیس سو پچانویں میں جب یورو کولانچ گیاتھا تب ہی ہم نے اس بات کی واضح نشاندہی کی تھی کہ یورو کے ممبرممالک کی معیشتوں کے مابین ایسے تضادات موجودہیں کہ جن کی بدولت ان کیلئے ایک مشترکہ مالیاتی اور نگرانی پالیسی کو چلاسکنا ناممکن ہوگا۔ہم نے صاف لکھاتھا کہ مختلف سمتوں اور پوزیشنوں کو آتی جاتی معیشتیں کسی طور اکائی کا حامل نہیں ہو سکتیں ۔اور تب ہی ہم نے یہ پیشین گوئی بھی کی تھی کہ ایک بحران کی صورت میں یورو ٹوٹ کے بکھرجائے گا اور اس کے ممبران آپس میں دست وگریبان ہوجائیں گے۔خاکم بدہن اب یہ ہونی ہوسکتی ہے۔وقتی طورپر یہ دکھائی دے رہاتھاکہ یورو زون کامیاب ہوچکاہے اور چنتا کی کوئی بات ہے ہی نہیں ۔عالمی سرمایہ داری کے عروج کی عمومی کیفیت میں یورپی یونین کے سرمایہ دار مہذبانہ وشریفانہ انداز میں اپنا اپنا کام چلارہے تھے اور اپنے اپنے دام کھرے کر رہے تھے ۔لیکن اب موسم ، منظر،مزاج اور ماحول سب کچھ بدل چکاہے۔آئرش بیل آؤٹ نے یوروکی دیوارپر اس کی قسمت کا حا ل لکھ دیاہے ۔اب یورپی یونین ہر ممکن زورلگارہی ہے کہ یہ وباء رک جائے اور بس رک ہی جائے۔ کیونکہ اس کی وجہ سے یورو کا وجود خطرے میں پڑ چکاہے جریدے اکانومسٹ نے اپنی حالیہ اشاعت میں انتباہ کیا ہے کہ جب ’’وسائل مسائل بن جائیں تو ان کی تقسیم وترسیل دوستوں کو دشمنوں میں بدل دیاکرتی ہے ‘‘یہی کچھ ہوتا رہا اور ہورہاہے کہ جب گلے کا ہار گلے کا پھندابن جایاکرتاہے۔یوروکے مستقبل کا اب سارا دارومدار جرمنی اور یورپین سنٹرل بینک پر ہے ۔اور یہ دونوں دراصل ایک ہی چیز کے دونام ہیں۔جرمنی یورپ کی مضبوط ترین معیشت ہے اور وہی یوروزون کے خساروں اور قسمتوں کو دیکھنے کیلئے مرکز نگاہ بناہواہے ۔یہ بوجھ دیکھنے میں تو اتنا نہیں لیکن جب اسے اٹھایا جائے گا تو لگ پتہ جائے گا۔یوروکی بیچارگی اور خستگی عیاں ہوچکی ہے ۔اس کا گرناٹھہر گیا ہے لیکن کتنا گرتا ہے کیسے گرتاہے ، کوئی بھی یہ نہیں جانتانہ ہی جان پارہاہے ۔کئی ماہرین کرام کہہ رہے ہیں کہ اگلے چھ یا بارہ مہینوں کے دوران یورو،ڈالر کے مقابلے میں15فیصد گر جائے گا‘اور کوئی بھی نہیں جانتا کہ کتنا گرے گا اور کب!یہ خطرات اب تقویت پکڑتے جارہے ہیں کہ یورو بحران اوپرنیچے اور دائیں بائیں ہر طرف سارے یورپ کو اپنی لپیٹ میں لے سکتاہے ۔یورپ ایک طویل المدت بے یقینی ،زبوں حالی ،سٹے بازی اور کٹوتیوں کے حامل عہد میں داخل ہوچکاہے۔پرتگال،آئرلینڈ،یونان اور سپین جیسے ملکوں پر دباؤ دن بدن بڑھیتا چلاجائے گا کہ وہ معیار زندگی پر زیادہ سے زیادہ حملے کریں ۔برطانیہ اگرچہ یوروزون کا حصہ نہیں ہے تاہم یہ یورپ کے عمومی بحران سے کسی طور الگ تھلگ نہیں رہ سکتا ہے۔ اسے مجبورکیاگیا کہ وہ آئرلینڈ کیلئے بیل آؤٹ میں شریک ہو۔وہ بھی محض خیر اندیشی کیلئے نہیں بلکہ اس لئے کہ اس سے برطانوی بینکوں اور دیگر اداروں کے مفادات داؤ پر لگ جاتے جو کہ آئرش معیشت سے جڑے ہوئے ہیں ۔برطانیہ کی بھی باری لگنے کو ہے اور بلاشبہ کوئی بھی دانشمند انسان یہ سننے کو تیار نہیں ہے لیکن واقعہ یہ ہے کہ امریکہ بہادرکی مالیات بھی یورپ کی طرح سے نقاہت کا شکار ہوچکی ہے۔ اصلاح پسندوں کو خواب نظر آرہے ہیں کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد حاصل ہونے والا معاشی عروج واستحکام بہت جلد اپنی باہیں کھولے ہمارا منتظر ہے۔اپنے اس خواب پر وہ یقین کامل رکھے ہوئے ہیں۔جنگ کے بعد کے عروج نے امریکی و یورپی سرمائے داروں کو یہ موقع فراہم کیاتھا کہ وہ محنت کش طبقے کو بڑی مراعات اور مفادات سے نواز سکیں تاکہ وہ طبقاتی جدوجہد کاتصور ہی ترک کردیں ۔مگر وائے قسمت اب صورتحال اس طرح کی نہ ہے نہ شایدہوسکے !کسی بحران سے بچنے کے ممکنہ طریقے پچھلے عروج کے دوران ہی استعمال کیے جا چکے ہیں۔ شرح سودکے نرخ صفر کو چھورہے ہیں اور یہ اس سے کم کیے بھی نہیں جاسکتے ۔بے حدوحساب خساروں نے اس تصور کو ہی ناممکن کردیاہے کہ لوگوں کی فلاح وبہبود پر کچھ خرچ کیا جاسکتاہے ۔نام نہاد خود ساختہ مقداری آسانی کے طورطریقے اپنایاجانا ایک آخری کوشش ہے جس کا نتیجہ آنے والے دنوں میں ایک خوفناک افراط زر کے دھماکے کی صورت میں سامنے آسکتاہے ۔دوسری طرف خساروں کو کم کرنے کی سبھی کوششیں پبلک اخراجات کو کاٹ کر کی جارہی ہیں اور یہ کیفیت طلبDemand) (کو انتہائی کم کردے گی اور یوں بحران ایک نئے بحران کی لپیٹ میں آجائے گا ۔دوسرے لفظوں میں یہ سبھی راستے تباہی وبربادی کی طرف طے اور متعین ہوچکے ہیں ۔اس کیفیت میں یورو کا انہدام ایک عمومی مالیاتی گراوٹ کو مہمیز کر سکتاہے کہ جس ے بحالی کی موجودہ کمزور کوششیں اور بھی کمزور ہوجائیں گی اور یہ صورتحال ایک عالمی سطح کی معاشی بدحالی کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے ۔یورپ کو ایک لمبے جمود کا سامناکرناپڑے گاجیسا کہ جاپان پچھلے بیس سالوں سے جمود کی زد میں آیاہواہے جس کی شرح ترقی سست اوربیروزگاری کی شرح بہت زیادہ اور جہاں معیار زندگی گرتاہی چلاجارہاہے ۔یہ ایک عام فہم کہاوت ہے کہ تاریخ خود کودہرایاکرتی ہے ۔سترہویں صدی میں ہونے والے برطانوی انقلاب اور اٹھارویں صدی کے فرانسیسی انقلاب دونوں کی ایک ہی فوری وجہ تھی یعنی پبلک اخراجات میں بے حدوحساب کٹوتیاں! ہر دو معاملات میں اصل حقیقت یہی کارفرما تھی ۔یہی جھگڑا اس وقت اٹھایاگیاتھا کہ کون اس کی قیمت ادا کرے گا؟تب ہر جگہ کا بالادست حکمران طبقہ یہی زور لگانے میں مصروف تھا کہ سارے کا سارابوجھ محنت کشوں‘ درمیانے طبقے اور سماج کے دیگر درماندہ غریبوں ،بیروزگاروں،معذوروں اور بوڑھوں کے کاندھوں پر ڈال دیاجائے ۔فرانس ،سپین ،یونان اور دوسرے ملکوں میں پھٹ کر سامنے آنے والی ہڑتالیں اور مظاہرے یورپی محنت کش طبقے کی تحریک کی اٹھان کا اعلان ہیں لیکن یہ پھر ایک تاریخی کھیل کے آغاز کی ابھی ابتدا ہے ۔ہڑتالیں اور مظاہرے بلاشبہ انتہائی اہم اقدام ہواکرتے ہیں کہ انہی کے ذریعے ہی عوام عمل کے میدان میں اترتے ہیں اور اپنی طاقت کو خود ہی ادراک و اندازہ کرتے ہوتے ہیں۔لیکن پھر اس طرح وہ اپنے اندر اور اپنے لئے کچھ بھی حاصل نہیں کرپاتے ہیں ،نہ ہی وہ کر پائیں گے۔سرمایہ دار اپنی خوشی اور شوق سے محنت کشوں پر حملے نہیں کر رہے ہیں۔ابھی تک سرمایہ داری نے جو ہنستا ہنساتا انسان دوست نقاب اوڑھا ہواتھا اور اسے اپنے چہرہ بنایااور بتایاہواتھا ،وہ اب اتر چکا ہے۔ سرمائے کا وحشی اب اپنے اصل روپ میں سامنے آ چکا ہے۔دنیابھر میں ہر طرف ہر جگہ ہر سطح پر سوال پوچھااور سوچا جارہاہے کہ یہ سرمایہ دارانہ نظام ہے کیا بلا؟اور یہ بھی پوچھا اور سوچاجارہاہے کہ سوشلزم اور مارکسزم کیا ہوتاہے ؟کل ہی لندن کے وسطی علاقے میں طالب علموں کے ایک بڑے مظاہرے کے دوران،نیلسن کالم میں لفظ ’’انقلاب ‘‘جلی حروف میں لکھا گیا۔انقلاب کیا ہوتا ہے ؟یہ محض ایک لفظ نہیں ہوتاہے اوریہی ایک لفظ بیان کرتا ہے کہ صورتحال کیا ہوچکی ہے کہاں پہنچ چکی ہے اور کیا تقاضاکر رہی ہے ! ہم ایک بالکل نئے عہد میں داخل ہونے جارہے ہیں۔ یہ عہد انیس سو ستر کی دہائی یا پھر دو عالمی جنگوں کے درمیان کے عہدسے مماثل ہوسکتاہے ۔متروک ،بیمار اور متعفن ہوچکا سرمایہ دارانہ نظام دنیا کے عام انسانوں کے جسموں ‘روحوں‘ دلوں‘ دماغوں کو کچلتا اورمسلتا جارہاہے اور انہیں گھائل کیے ہوئے ہے۔ بڑے واقعات ہی اس عمومی اضمحلال اور ذلت کو ختم کریں گے ۔ لیکن اب یہ بڑے واقعات اتنی دور نہیں رہے بلکہ بالکل ہی دور نہیں رہے ۔Source: Chingaree.com