یورپ میں ہڑتالیں یہ طبقاتی جنگ کا بگل ہے Urdu Share TweetUrdu translation of Euro-demonstration in Brussels - the working class on the rise (October 1, 2010)تحریر: ایرک دیمستر،برسلز ۔ ترجمہ :اسدپتافیچنگاری ڈاٹ کام،09.11.201029ستمبرکویورپ کے27ملکوں سے ایک لاکھ ٹریڈ یونینسٹ برسلز میں پہنچے اور یورپ بھر میں حکومتوں کی جانب سے محنت کشوں پرہونے والے حملوں کے خلاف ایک احتجاجی مظاہرہ منظم کیا ۔اس مظاہرے کا انتظام کرنے والوں کیلئے بھی اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کا جمع ہوجانا، بہت حیران کن ثابت ہوا۔اتنی بڑی تعدادمیں احتجاج کرنے والوں کا اجتماع محض حیرانی ہی کا باعث نہیں بلکہ اس غم وغصے اور تڑپ کا بھی آئینہ دار ہے جو یورپ کے محنت کش طبقے میں پنپ چکاہے اورجو اپناواضح اور دلیرانہ اظہار بھی کر رہاہے ۔ بلجیم کی کرسچین یونین ACV/CSCکے مطالعاتی بیورونے جدیدترقی یافتہ یورپ کی حالت زار پر تبصرہ کرتے ہوئے قرار دیاہے کہ ’’یہ ویلفیئر سٹیٹ کو تہس نہس کرنے کی سب سے سنجیدہ کوشش ہے ،جو کہ ویلفیئر سٹیٹس کا حکمران(سرمایہ دار) طبقہ کررہاہے۔اور اس کا حتمی اظہار وہ ٹریڈ یونین پر حملے کی صورت میں کررہاہے‘‘۔ اور یہ حملے سارے یورپ کے اندر Austerity Planیعنی کٹوتیوں کے پروگرام کے تحت شروع کئے جا چکے ہیں۔بلا جھجھک اور کسی روک ٹوک کے بغیر یورپ کی سبھی حکومتیں اس پروگرام کو لاگو کررہی ہیں ،جس کے ذریعے بجٹ میں کمی ،ٹیکسوں میں اضافہ ،اور پنشنوں میں کٹوتیاں کی جارہی ہیں۔المیہ تو یہ ہے کہ سوشلسٹ قیادتوں کی حامل یا دعویدارحکومتیں بھی کہ جنہوں نے اپنے محنت کش طبقے کے مفادات کے نعروں اور وعدوں کے ساتھ الیکشنوں میں کامیاب ہو کر حکومتیں بنا ئی ہیں،وہ بھی ان مزدور دشمن منصوبوں پر عمل پیراہیں،جن میںیونان اور سپین کی حکومتیں شامل ہیں۔ان خو دساختہ عوامی حکومتوں نے بھی سرمائے داری کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے ہیں اور سرمایہ داری کے بحران کا سارا بوجھ اپنے اپنے ملکوں کے محنت کشوں پر ڈالے جا رہی ہیں۔ بینکوں کو ڈوبنے سے بچانے کیلئے برطانیہ کی حکومت نے 500ارب پونڈز ان بینکوں کو دیے ہیں۔جبکہ یورپی یونین نے بینکوں کو 1700ارب دیئے ہیں۔2007ء سے 2009ء کے دوران یورپی یونین کا خسارہ 7300ارب سے بڑھ کر 8700ارب تک پہنچ چکاتھا۔ اب یورپی محنت کش طبقے سے کہا جارہاہے کہ وہ ان سبھی خساروں کی قیمت ادا کریں اور سرمائے کی دیوی کے چرنوں میں اپنے روزگار اور اپنے معیارزندگی کی بلی چڑھائیں۔یورپ کا محنت کش طبقہ اس وقت دوہرے عذاب میں ہے۔ایک طرف انہیں اجرتوں میں کمی اور کٹوتی سمیت برطرفیوں اور روزگارسے محرومی کا سامنا ہے تو ساتھ ہی ساتھ اگر انہیں کام کرنا بھی ہے تو ان سے کہا جارہاہے کہ وہ اپنی ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافہ کریں کیونکہ سرمایہ داری بیچاری بحران کی زدمیں ہے۔یورپی معیشت کے استحکام کے سبھی بلندوبانگ دعووں کے برعکس یہاں کے محنت کشوں کوکسی طرف بھی اور کسی شعبے میں بھی بحالی نظر نہیں آرہی۔اور اب تو حالت یہ ہو چکی ہے کہ سبھی محنت کشوں کو بلا تخصیص سخت گیر ڈریکولائی بجٹ کٹوتیوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ صرف یورپ کے اندرگل سڑ چکے مالیاتی نظام کو بچانے کیلئے، بینکوں کو جس قدر بھاری رقم اداکی گئی ہے ،وہ اگر ساری یورپی آبادی کے حساب سے فی کس تقسیم کی جائے تو وہ تین ہزاریورو بنتی ہے۔ ایک ٹریڈ یونین نے اس بارے جو تخمینہ لگایاہے اس کے مطابق یہ رقم اتنی بڑی ہے کہ جو سارے یورپ میں تعلیم اور صحت کے شعبے میں مجموعی طورپر خرچ کی جاتی ہے۔یاپھر یہ رقم اس ساری رقم کے برابربنتی ہے جتنی کہ جرمنی اور سپین دونوں ملکوں میں ،سالانہ،عوامی اخراجات پر کی جاتی ہے۔اور یہی آئرلینڈ میں نئے بیل آؤٹ سے پہلے تھا۔ برسلز میں 27ملکوں میں سے آنے والے یہ ایک لاکھ محنت کش جنہوں نے یہاںیورپ کے مشترکہ’’ یوم عمل ‘‘کے موقع پر مارچ کیا ،درحقیقت اپنے مستقبل کے مستقل دفاع کے ارادے اور عزم سے لیس ہوکر آئے تھے۔بلاشبہ اپنی ترتیب میں اس کا توازن کم سہی ،لیکن اس مظاہرے کا کردار اور معیارواضح طورپر بین الاقوامیت کا حامل تھا ۔دس مزید ملکوں کے اندر محنت کش تنظیموں نے اپنے اپنے طورپر اس دن کو مناتے ہوئے مظاہرے اور ہڑتالیں منظم کیں ۔برسلز میں ہونے والے اس مظاہرے کے شرکا ء نے آج کے اپنے اس عمل کو انتہائی روح پرور قراردیا۔ فرانسیسی طبقاتی جدوجہد کااظہارِیکجہتی اس مظاہرے میں جہاں ایک طرف بلجیم کی یونینوں کی بڑی اور بھاری نمائندگی موجودتھی ،وہیں اس مظاہرے میں شریک دوسری بڑی قوت فرانس سے آنے والے محنت کش تھے۔CGTاورCFDT سمیت کئی دیگر یونینوں نے لگ بھگ 35000مزدوروں کو اس مظاہرے میں شریک ہونے کیلئے بھیجا اور یہ مزدور سات سوسے زائد بسوں کے قافلے میں یہاں پہنچے۔یہ ورکرز اپنے صدر سارکوزی کی پالیسیوں کے خلاف جاری اپنی طبقاتی جدوجہد کے جوش اور ولولے کا اظہار کرتے برسلز کے مظاہرے میں شامل ہوئے۔یورپ کے اس اہم ملک میں طبقاتی جدوجہد کی سطح دن بدن بلند ہورہی ہے۔اور یہاں کام کرنے کی عمر میں اضافے کی پالیسی کے خلاف مظاہروں میں مزدوروں کی شرکت اور شمولیت روزبروز بڑھتی چلی جارہی ہے۔اور جیسا کہ ایک فرانسیسی محنت کش نے اس موقع پر بات رکھتے ہوئے کہا کہ اب فرانس میں’’خوف اپنا ٹھکانہ بدل چکاہے‘‘۔23مارچ کے دن سات لاکھ مزدوروں نے سڑکوں پر آکر اپنا احتجاج رقم کرایا۔جبکہ27مئی کو دس لاکھ مزدوروں نے،24جون کوچودہ لاکھ،7ستمبر کوپچیس لاکھ،اور 23ستمبر کے یوم احتجاج کے موقع پرتیس لاکھ سے زائد مزدوروں نے فرانس میں احتجاج کو منظم کیا۔سکینڈلوں اور بحرانوں میں گھری سارکوزی حکومت اس وقت محض ہوا کے ایک جھونکے کی زد پر آچکی ہے۔فرانس میں12اکتوبر کو ہڑتال کی کال دی گئی ہے اور اگر ٹریڈ یونین کی قیادت نے ہمت باندھ لی اور ایک غیر معینہ عام ہڑتال کا اعلان کردیاتو حکومت کے پاؤں اکھڑنے میں دیر نہیں لگے گی۔ برسلز کے اس مظاہرے میں لگزمبرگ سے بھی بڑی تعداد میں محنت کش شریک ہوئے ۔ لکسمبرگ کی حکومت نے ابھی حال ہی میں اعلان کیاہے کہ وہ2014ء تک ہر سال اپنے بجٹ میں500ملین یورو کی کٹوتیاں کرے گی۔اس اعلان کے سامنے آتے ہی پانچ ہزار سے زائد ورکرز سڑکوں پر نکل آئے۔حکومت نے بچوں کیلئے مراعات اور تعلیمی الاؤنس کو ختم کرنے کا اعلان کیا تھا ۔ٹریڈیونین قیادت کا خیال تھا کہ تین ہزار مزدور ہی احتجاج کیلئے نکلیں گے لیکن پھران کی توقع سے کہیں زیادہ لوگ احتجاج کیلئے نکل آئے۔برسلز میں شریک ہونے والا گروپ لگزمبرگ کی 44%ورک فورس کا نمائندہ تھا۔آنے والے دنوں کیلئے مزید عمل کرنے کی منصوبہ بندی کا بھی اعلان کیاگیا۔اگر لگزمبرگ جیسے ملک کا محنت کش طبقہ بھی جدوجہد کیلئے آمادہ ہوچکاہے تو یورپ بھر کے محنت کش طبقے کو عمل میں آنے سے کوئی بھی نہیں روک سکتا۔ یورپی محنت کش طبقے کا ابھار برسلز کے اس مظاہرے کی اگر ترتیب کا تجزیہ کیا جائے تو ہمیں یورپ کے محنت کش طبقے کی طبقاتی جدوجہد کے خدوخال صاف طورپر نظرآسکتے ہیں۔اس دن، نمایاں اور جاندار شرکت ،مشرقی یورپ سے آنے والے محنت کشوں کی تھی ۔بلاشبہ یہ فرانسیسی مندوبین کی طرح بھاری تعداد میں نہیں تھے۔ رومانیہ ،چیک ریپبلک اور لٹویاسے شریک ہونے والے محنت کشوں کا جوش وجذبہ اس بات کی واضح غمازی کررہاتھا کہ ان ملکوں میں سرمایہ داری کی بحالی کے بعد مزدورتحریک ایک بارپھر سے متحرک و منظم ہوچکی ہے۔رومانیہ کے محنت کشوں نے برسلز کے مظاہرے سے اپنی طبقاتی جڑت اور یکجہتی کا اظہاراور اعلان اس دن اپنے ملک میں ایک عام ہڑتال کی شکل میں کردیا۔سلووانیہ میں بھی سول ملازمین اگلے دو سالوں کیلئے یا پھر معاشی ترقی کی شرح نمو3فیصدتک پہنچنے تک،اپنی تنخواہوں کے منجمد کردیے جانے کے خلاف غیرمعینہ ہڑتال پر ہیں۔چیک ریپبلک میں صحت کے شعبے اور سوشل سیکورٹی افسران اپنے سٹاف سمیت پندرہ اکتوبر کو ہڑتال پر جانے کا اعلان کرچکے ہیں۔اساتذہ بھی اس دن ہڑتال میں شریک ہورہے ہیں اور یہاں تک کہ پولیس بھی۔مظاہروں کا سلسلہ تو وہاں جاری ہی ہے۔ان کے ساتھ ساتھ پولینڈ،سلووانیہ اورسربیا سے بھی محنت کشوں کی خاصی تعداد نے برسلز کے اس یوم عمل میں شرکت کی۔ جرمنی کی ٹریڈ یونین قیادت جو کہ شروع شروع میں صرف آٹھ سومحنت کشوں کو بھیجنا چاہ رہی تھی لیکن نیچے محنت کشوں کے شدید دباؤ کے باعث،انہیں ہزاروں کو مظاہرے میں لاناپڑا۔لیکن پھر یہ کچھ ہی ٹریڈ یونینسٹ تھے کہ جو موبلائز ہوئے یا کئے جا سکے ۔اور اس کی بڑی وجہ،جرمنی کی ٹریڈ یونین کنفیڈریشنDGB قیادت کا تنگ نظرنقطہ نظر ہے جو قوم اور طبقے کو ایک ہی لڑی میں پروکردیکھنے اور ر کھنے کا حامل ہے۔اور جو کہ معیشت کی خود گمان بحالی اور استحکام تک اجرتوں کو منجمد رکھنے کے حکومتی اعلان کے سامنے سر تسلیم خم کر چکی ہے۔گویا کہ محنت کشوں اور ملازمین کومالکوں کے منافعوں کیلئے کام میں لائے جانے کیلئے کام میں لایاجائے گا۔ملازمین اور مزدوروں کے مفادات کیلئے جدوجہد کو قوم کے نام پر تج دیاگیاہے۔اسی قیادت نے ہی یورپ میں سب سے سستی مزدوری کو فروغ دینے میں سرگرم کردار اداکیاہے۔ ہالینڈ،برطانیہ ،سپین ،یونان ،اٹلی،آئرلینڈاور پرتگال سے بھی محنت کشوں نے اس مظاہرے میں شمولیت کی۔ان سبھی ملکوں کے اندر بھی مزدورتحریک اپنا بگل بجا چکی ہے اور میدان میں اتری ہوئی ہے۔ان ملکوں میں مزدورتحریک مختلف مراحل اور تجربات سے گزررہی ہے۔اور یہ سردست ابھی ایک آغازہی ہے لیکن اب یہ ایک ایسی حقیقت بن چکا ہے کہ جس سے انکار ناممکن ہے۔ہم ایک سست لیکن ایک سرگرم مزدور ابھار کو سارے یورپ میں واقع ہوتا دیکھ سکتے ہیں۔ اس مزدور تحریک کو سارے یورپ کے اندر ایک بین البراعظمی اتحاد و یگانگت کی اشد ضرورت ہے اور یہ اس کا اظہار بھی کر رہی ہے۔یورپین ٹریڈ یونین کنفیڈریشن ETUCکی قیادت ، اس وقت ایسا کوئی اشارہ یا عندیہ نہیں دے رہی کہ وہ ایسا کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔جب یونان اور آئر لینڈ کے محنت کش عوامی اخراجات میں ہونے والی شدید کٹوتیوں کے خلاف میدان میں اترے ہوئے تھے تو تب ETUCکا کہیں کوئی اتہ پتہ بھی نہیں تھا ۔چند ماہ پہلے جب یہاں برسلز میں کئی نوجوانوں نے اپنے ملک میں ہونے والی عام ہڑتال کے ساتھ یکجتہی کے اظہار کیلئے مظاہرہ منظم کیا تویہ نوجوانETUCکے ایک عہدیدارکے پاس گئے اور اس سے پوچھا کہ کیا آپ لوگوں نے ہماری ویب سائیٹ پر ہمارا نقطہ نظر پڑھاہے؟اس سوال کا جواب کیا ملاہوگا یہ سبھی جانتے ہیں ۔اور اس بات پر کسی کو بھی کسی طور پریشان یا حیران نہیں ہونا چاہئے کیونکہ آخرکاریہ کنفیڈریشن کسی طور کوئی مافوق الفطرت یونین نہیں ہے بلکہ یہ ،ڈھانچوں اورافسر شاہانہ طورطریقوں کی جکڑبندیوں میں لگی بندھی ایک ایسی یونین ہے کہ جسے یونین قرار ہی نہیں دیاجاسکتا۔بلکہ یہ وہ منظم ادارہ ہے کہ جس کی80 فیصدفنڈنگ ،یورپی یونین کرتی ہے ۔سیدھے سادے الفاظ میں کہا جاسکتاہے کہ یہ یورپی یونین کا ہی ایک ذیلی ادارہ ہے ۔اگر یہ چاہتی تو یہ سبھی حکومتوں پر اپنا دباؤ ڈالتی کہ وہ اپنی کٹوتیوں کی پالیسیوں سے پرہیز کریں اور اس کے ساتھ ہی اگر یہ محنت کش طبقے کو موبلائز کرنے کا کوئی ارادہ رکھتی یا کرتی تو یہ موثر ثابت ہوسکتی تھی مگر!؟ یورپ کی ٹریڈ یونینوں کے ساتھ لاکھوں محنت کش وابستہ اور پیوستہ ہیں۔اور اگریہ سب موبلائزیشن کرتیں تو برسلز میں پانچ لاکھ محنت کشوں کا اجتماع کر سکتی تھیں۔ میدان عمل میں خوش آمدید یہاں ہم ETUCاور دوسری قوم پرستانہ یونینوں کی قیادت کی اصلاح پسندی کا ضرورتذکرہ اور احوال سب کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں۔برسلز میں ہونے والایہ یورپی مظاہرہ حکومتوں کی جانب سے کٹوتیوں کے منصوبوں کے خلاف اور ترقی کے حق میں منظم کیاگیاتھا ۔تاہم اس حوالے کچھ لیڈروں کے الفاظ کی اپنی ہی تشریح و توضیح تھی۔انہوں نے اس مظاہرے میں وحشیانہ کٹوتیوں کے خلاف جدوجہد کا نعرہ بلند کیا۔ جبکہETUCکے مرکزی قائد جان مونکس نے مظاہرے کے دن ہی صبح یہ بیان جاری کیا کہ ’’بنیادی اور مرکزی نکتہ کٹوتیاں نہیں بلکہ یہ ہے کہ یہ کس طرح اور کتنے وقت میں نافذ کی جاتی ہیں‘‘۔ ’’ ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے قرضوں کو ری شیڈول کراتے رہیں تاکہ یہ آنے والے سالوں میں ہم پر کوئی بھاری بوجھ نہ بن سکیں۔اور جس کی وجہ سے یورپ شدید بحران کی زد میں نہ آجائے‘‘۔یعنی کہ جناب مونکس یکدم کی بجائے دھیرے دھیرے کٹوتیوں کی حمایت کررہے ہیں۔لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ ان قیادتوں کا مسئلہ کٹوتیوں کی مخالفت کرنا نہیں ہے بلکہ ان کا فرمانا یہ ہے کہ یہ سب کچھ آرام وسکون سے کیا جائے۔وہ محنت کش طبقے کو یہی کڑوی دوائی پلانے کے حق میں ہیں مگر اس مہربانی کے ساتھ کہ اسے کم تر مقدار میں پلایا جائے تو مناسب رہے گا۔ان کا یہ خیال ہے کہ اس طریق علاج سے محنت کش طبقہ بھی مشتعل نہیں ہوگا اور ہم کسی ناموزوں ردعمل سے بھی بچ سکیں گے۔لیکن سوال یہ ہے کہ آخر کیونکر محنت کش طبقہ ہی اس سارے بحران کی قیمت ادا کرے؟ہم کسی طور بھی اس کے حق میں نہیں کہ محنت کش طبقہ ایک ایسی سزا بھگتے کہ جس کا کوئی جرم بھی اس نے نہیں کیا۔یہ بربادی مالکوں اور بینکاروں کی پھیلائی ہوئی ہے اور اس کا بوجھ اس کی سزا بھی انہی پر ہی ڈالی جانی چاہیے ۔ دوسری جانب ہمارے کچھ لیفٹسٹ احباب ان کٹوتیوں کو اتنا بڑا مسئلہ نہیں سمجھتے، ہاں مگر سرمایہ دار طبقہ اس میں اپنا حصہ ڈالے تو۔وہ کہتے ہیں کہ امیروں پر ٹیکس لگائے جائیں۔اور یہ خیال ایک ایسے وقت میں سامنے لایا گیا ہے کہ جب یہ حقیقت سامنے آئی کہ بلجیم میں کام کرنے والی فولاد کی دیوہیکل کمپنی آرسیلر متل،اپنے سالانہ منافعوں کا صرف 0.000038 فیصدہی ٹیکس اداکرتی ہے۔اس انکشاف نے محنت کش طبقے کی وسیع پرتوں کو مشتعل کردیاہے۔یہاں ہم اس بات کی تائید کرتے ہوئے کہ امیروں پر بجاطورپر ٹیکس عائدکئے جائیں ،اس بات کی شدید مخالفت اور مذمت کرتے ہیں کہ محنت کش طبقے کی اجرتوں اور مراعات میں کٹوتیاں کی جائیں۔ہم میں سے کون نہیں جانتاکہ ان بڑے مالکوں ،سرمایہ داروں اور بینکاروں کے پاس ایسے بے شمار قانونی چوردروازے موجود ہیں کہ جن کو کام میں لاتے ہوئے خودپر عائد ٹیکسوں سے صاف بچ جانے کے عادی اور ماہر ہیں۔چنانچہ پہلا سنجیدہ اقدام یہ ہونا چاہئے کہ امیروں کو ہی ان کے پیدا کردہ بحران کی قیمت اداکرنی چاہئے۔اور اس کیلئے ضروری ہے کہ بینکوں کو قومی تحویل میں لے کر انہیں بینکوں کے محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول میں دے دیاجائے۔ ایک سوشلسٹ حل یورپ کی ٹریڈ یونین قیادت کیلئے ،معاشی نقطہ نظر سے ،سب سے بہترین راستہ کینیشنزم ہے۔وہ عوامی آمدنی کو معیشت کی بحالی کیلئے بروئے کار لانا چاہ رہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ یورپ کی حکومتوں کو یہ (عاجزانہ و دست بستہ)کہے چلے آرہے ہیں کہ وہ ’’ترقی ‘‘میں سرمایہ کاری کو ترجیح دیں۔لیکن پھر اس قسم کی اصلاح پسندانہ نیک نیتی اور خوش گمانی کے ساتھ المیہ یہ ہے کہ ’’منڈی کے حقائق‘‘ ان کی خواہشات کے برعکس محنت کشوں کے خلاف کٹوتیوں کا ہی مطالبہ کررہے ہیں۔اس سلسلے میں ایک ثبوت آئرش ٹریڈ یونینوں کا حکومت کے ساتھ کیا جانے والا وہ معاہدہ ہے جس کے تحت ،محنت کشوں کی اجرتوں میں کمی کی جارہی ہے۔اسی طریقے سے ہی یورپ کی حکومتیں بحران کے شروع کے دنوں میں کٹوتیوں کی شدیدمخالفت کا اعلان کر رہی تھیں لیکن پھراچانک ہی سبھی نے اپنے موقف سے یوٹرن لے لیا۔اور یہ سب کچھ ،سرمایہ داروں کے دباؤیاان کے کہنے پر نہیں،جیساکہ ہمارے یہ ٹریڈ یونینوں کے قائدین صاحبان سمجھتے اور سمجھا رہے ہیں،بلکہ اس کے برعکس یہ اس لئے کیا گیا اور کیا جارہاہے کہ ایک بوکھلائے ہوئے بحران کی زد میں آئے ہوئے نظام میں اس کے علاوہ نہ کوئی رستہ ہے نہ طریقہ۔جان مونکس نے برسلز مظاہرے سے اپنے مختصر ترین ویڈیو خطاب میں بس اتنا ہی کہا کہ ’’آپ سب کی آمد کا شکریہ‘‘انگریزی زبان میں اس کا مطلب کچھ یوں بنتاہے کہ بس اسی کو کافی سمجھا جائے۔ کیا یہ مناسب نہیں ہوگا کہ ان کٹوتیوں کے خلاف، یورپ بھر میں ایک دن کی عام ہڑتال کا اعلان اور اہتمام کیا جائے! یہ ایک طرف یورپی محنت کش طبقے کی جانب سے طاقت کا اظہار بھی ہوجائے گابلکہ اس کی مددسے مختلف قوموں کے محنت کشوں میں اکائی اوریکجہتی بھی قائم ہوجائے گی۔چوبیس گھنٹوں کی یہ عام ہڑتال کوئی مسئلہ تو حل نہیں کرپائے گی ہاں البتہ یہ آگے کی طرف پیش قدمی کا ایک موزوں اور موثر قدم ثابت ہوگا۔اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ موجودہ بحران کے سوشلسٹ حل کی ضرورت کو سمجھا جائے۔اس قسم کے متبادل کے موثر ہونے کیلئے پہلی شرط یہ ہے کہ محنت کشوں اور نوجوانوں کو موبلائز کیاجائے کہ اس بحران کی قیمت امیروں اور مالکوں کو اداکرنی ہوگی۔ایک سوشلسٹ متبادل کا مرکزی نکتہ سبھی بینکوں کی نیشنلائزیشن اور ان کا محنت کشوں کے جمہوری انتظام وانصرام میں لایا جاناہے۔اس نیشنلائزیشن کے ذریعے ایک انتہائی اہم مسئلہ حل ہوجائے گا اور وہ بھاری قرضے کا ہے جو کہ ان امیروں کے ہی قبضہ قدرت میں ہے۔یورپ کی بڑی لیفٹسٹ پارٹیوں کو بھی چاہئے کہ وہ ایک کل یورپ کانفرنس کا انعقادیقینی بنائیں کہ جس میں اور جس کے ذریعے ٹریڈ یونین جدوجہد کو ایک سوشلسٹ آواز فراہم کی جاسکے۔یہی نہیں بلکہ جس کی وساطت سے مختلف قوموں کے محنت کشوں کو ایک لڑی میں پروئے جانے کا فریضہ بھی سرانجام دیاجاسکے۔Translation: Chingaree.com