وینزویلا میں انتخابات - انقلاب اور ردِ انقلاب کی کشمکش Urdu Share TweetUrdu translation of The elections in Venezuela – Defeat the counter-revolution and fight for socialism! (September 8, 2010)ایلن وڈز ۔ ترجمہ:اسدپتافیچنگاری ڈاٹ کام،20.09.2010چھبیس ستمبر کو وینزویلا کے عوام اپنی نئی قومی اسمبلی منتخب کرنے جا رہے ہیں۔انقلاب کی دشمن اشرافیہ،بولیویرین انقلاب کی کمزوریوں اور خامیوں سے بھرپورفائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی پوزیشن کو مستحکم اور انقلاب کو ناکام کرنے کی بھرپور کوشش کررہی ہے۔یہ انقلاب ایک بہت طویل سفر طے کر چکاہے اور وہ بھی انتہائی دشوارگزار راستوں پر سے۔لیکن انقلاب کے اس جگرسوز عمل کے دوران ،ملک کے مرکزی معاشی مراکزکو ہاتھ نہیں لگایاگیا ،انہیں عوام کی ملکیت میں نہیں لیاگیااور وہ ابھی تک اشرافیہ کی ملکیت اور دسترس میں ہیں۔جس بات کی اشدضرورت تھی اور ہے وہ یہ ہے کہ انقلاب کو مکمل طور پر نافذورائج کیاجائے ۔اور وینزویلا سے جاگیرداری اور سرمایہ داری کو مکمل طور پر اکھاڑ کر پھینک دیاجائے ۔اور انقلاب کو شکست وہزیمت سے بچانے اور اسے کامیاب و سرخروکرنے کا اس کے علاوہ نہ کوئی راستہ ہے نہ ہی طریقہ۔ وینزویلا انقلاب کو دس سال سے زیادہ ہوچکے ہیں اور اب یہ ایک پل صراط پر سے گزر رہاہے۔سامراج اور اس کے مقامی گماشتے یعنی وینزویلائی اشرافیہ ،اس انقلاب کو خون میں ڈبونے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے چلے آرہے ہیں۔اس کیلئے وہ گشتی میڈیا کو اپنے مذموم ارادوں کیلئے استعمال کرتے چلے آرہے ہیں۔انتہائی گمراہ کن پروپیگنڈے ،لغو ومکروہ الزامات اور گھٹیا ترین شورشرابے کو مسلسل بروئے کارلایا جا رہاہے۔اور اس حالیہ الیکشن مہم کے دوران تو یہ سار ا ناٹک اپنے پورے زور اور جوبن سے رچایاجارہاہے ۔شاویزکے بارے کیا کیا کچھ نہیں لکھا اورکہا گیا۔اسے ایک اکھڑ مزاج ،خود سر،آگ بگولا،خردماغ کہا جارہا ہے ،یہ سب الفاظ شاویزکی شان میں لکھے اور کہے جارہے ہیں۔اسے ایک ایسا عیار وہوشیار ٹھگ قراردیاجارہاہے جو کہ اپنی چکنی باتوں سے لوگوں کو سحر میں مبتلا کردیتاہے۔اسے اپنے ہی ایک خول کا قید ی کہا جارہاہے۔اس سے پیشتر اسے ایک آمر بھی قراردیاجاتارہاہے ۔چندایک تو اب بھی اسے یہی کہہ اور لکھ رہے ہیں۔لیکن پھر یہ سب زبان درازی اور بیہودگی ، اس سچائی کے سامنے ہیچ اور کمتر ہوجاتی ہے کہ ہ دنیا میں پہلا اورواحدلیڈر ہے جس نے سب سے زیادہ بار الیکشن میں کامیابی حاصل کی ہے۔ اس حقیقت سے پیداہونے والی خفت کو چھپانے کیلئے ایسی ایسی اصطلاحات اور لفاظی ایجاد کی گئی جوکہ اب سے پہلے سیاسی اسلوب میں ناپیدتھی۔مثال کے طورپر ’’منتخب جمہوری آمر‘‘۔جریدہ’’ لندن فنانشل ٹائمز ‘‘شاویز کو ایک’’مسلسل تقویت پکڑنے والا مطلق العنان‘‘ قراردیتاچلا آرہاہے۔اس کے بقول شاویز ایک ایسا صدر ہے جو کہ ایک’’ بدمعاش جمہوریت‘‘ کے ذریعے خودکو برقراروبراجمان رکھے ہوئے ہے۔اس قسم کی لفاظی کے پیچھے اور کچھ نہیں ہے ہاں البتہ ان کی نفرت اور خوف ضرورچھلکتادکھائی دیتاہے۔یہ ان سبھی امیراور طاقتورافراد کے خوف اور نفرت کی عکاسی کرتاہے جو ایک ایسے انسان کے خلاف ہے جس نے اپنے ملک کے محروم انسانوں کو اپنی محرومی کے ذمہ داروں کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی جرات اور طاقت فراہم کی ہے۔اور ان امیر ،طاقتور لوگوں کو یہ خوف بھی لاحق ہے کہ کہیں ان کے اپنے ملکوں کے محروم انسان ان کے جبرواستبدادواستحصال کے خلاف سرکشی نہ اختیار کر لیں۔وینزویلا میں سامراجیوں اور لاطینی امریکی ملکوں میں ان کے مقامی گماشتوں کے پاس خوفزدہ ہونے کیلئے ایک بہت ہی مناسب و معقول جواز موجود ہے۔ وہ بجا طور یہ سمجھ چکے اور سمجھ رہے ہیں کہ وینزویلا کا یہ انقلاب اپنے ملک کے اندر تک ہی محدود نہیں رہے گا۔وینزویلا میں ہونے والی نیشنلائزیشن ناگزیرطورپر اپنے اردگرد کے ملکوں پر گہرے اثرات مرتب کرے گی۔اور یہ ممالک اس کی تائیدوتقلید کرنا چاہیں گے۔ صدر شاویز کی سوشلزم کے حق میں کی جانے والی تقریریں واشنگٹن اور میکسیکوسٹی سمیت دنیا بھر کے اقتدارکے ایوانوں میں پہلے سے ہی شدید ہلچل اور اضطراب پیداکر چکی ہیں ۔لاطینی امریکی انقلاب اس وقت وینزویلا ،لاطینی امریکہ میں جاری وساری انقلابی عمل کا ہراول بناہواہے۔ہوگوشاویز کی ریڈیکل پالیسیاں‘ اس کی جراتمندانہ تقاریرکہ جن میں وہ سامراج کے خلاف دلیرانہ پوزیشنیں لیتا آرہاہے ،اور سب سے بڑھ کر ایک عالمی انقلاب کیلئے اس کی اپیلیں،نہ صرف لاطینی امریکہ بلکہ دنیا بھر میں سامراج مخالف عناصر کیلئے حوصلے اور راستے کا کام دے رہی ہیں۔ سامراجی درحقیقت اس بات سے سہمے ہوئے ہیں کہ ہوگو شاویز ،اپنے انقلاب کو پیش قدمی دینے کیلئے نجی ملکیت کے خلاف اقدامات اٹھاسکتاہے۔وہ کمپنیوں اور زمین کو نیشنلائز کرسکتاہے جو کہ اشرافیہ کی ملکیت اور تصرف میں چلے آرہے ہیں۔اورتواور شاویز غیرملکی اجارہ داریوں پر ہاتھ ڈال سکتاہے۔ شاویز پہلے ہی ،مالکان کی جانب سے چھوڑدی جانے والی فیکٹریوں پر مزدوروں کو قبضہ کرلینے کا کہہ چکا ہے ،یہی نہیں اس نے ریاست کے زیرانتظام و انصرام اداروں میں بھی ورکرز کنٹرول کے عوامل وعناصرکو متعارف کروایاہے۔ عالمی معاشی و مالیاتی بحران کی شدت کی کیفیت کے حوالے سے ،سامراجی اس بات سے سہمے ہوئے ہیں کہ یہ سبھی اقدامات دوسرے ملکوں میں اپنے قدم جماسکتے ہیں۔(شومئی قسمت کہ ایساہونا شروع بھی ہوچکاہے)۔انہیں خوف ہے کہ نہ صرف لاطینی امریکہ بلکہ دوسرے امریکی و یورپی ملکوں کا محنت کش طبقہ بھی آنے والے دنوں میں بڑی اجارہ داریوں کے خلاف اسی قسم کے اقدامات کی طرف پیش قدمی کرسکتاہے ۔یہ کمپنیاں نہ صرف سبھی غریب ملکوں کو لوٹتی چلی آرہی ہیں بلکہ یہ اپنے کام کرنے والے ورکروں کا بھی استحصال کرکر کے بھاری بھرکم منافع کماتی چلی آرہی ہیں۔یہ کمپنیاں جب چاہیں اور جس طرح چاہیں ماحول کو آلودہ کرتی چلی آرہی ہیں ،کبھی تیل کے بہاؤ اور کبھی فضلے کے اخراج کے ذریعے سے اور جب بھی ان کے مالکان کا دل چاہے تو یہ مزیدمنافعوں کی لالچ میں اپنی فیکٹریاں اچانک ایسے بند کردیتے ہیں جیسے یہ ماچس کی ڈبیاں ہوں۔ بولیویرین انقلاب کے مسائل اور اس کی ناکامیوں کی نشاندہی کرنا اتنا مشکل کام نہیں ۔اور یہ اس حقیقت کی کھلی نشاندہی کرتی ہے کہ انقلاب نے خود کو اس کے منطقی انجام تک نہیں پہنچایا۔لیکن ان سب کوتاہیوں اور کمزوریوں کے باوجود یہ بھی ایک سچائی ہے کہ وینزویلا کا انقلاب حکمران طبقات کیلئے سوہان روح بنا ہوا ہے۔اور یہ انہیں اپنی موت کا سامان نظرآرہاہے۔سارے لاطینی امریکہ میں عوام سڑکوں پر نکلے اور سرکشی پر اترے ہوئے ہیں۔ایکواڈور میں ہم رافیل کورایا کی حکومت قائم دیکھتے ہیں کہ جو خود کو شاویز کا پیروکار قراردے رہاہے۔اور جسے اپنے ملک کے 80%عوام کی بھرپور حمایت حاصل ہے ۔بولیویا میں ،ایوامورالس،وینزویلا میں ہونے والی نیشنلائزیشن سے متاثر ہوکراپنے ملک کے وسیع قدرتی وسائل کو نیشنلائز کرنے کی طرف راغب ہورہاہے ۔اور اب جسے اپنے ملک کی اشرافیہ کی جانب سے شدید مخالفت ومزاحمت کا سامنا ہے۔اور اس مخالفت ومزاحمت کا مقابلہ اور دفاع ،صرف عوام کی انقلابی سرگرمی ہی کرسکتی ہے۔سامراج کی بوکھلاہٹ یہ کوئی اتفاق نہیں ہے کہ سامراج کے دانشور اور تجزیہ نگار اسی نتیجے پر پہنچ چکے ہیں جوکہ ہم مارکس وادی بیان کرتے چلے آرہے ہیں ۔’’سارے لاطینی امریکہ میں ایسے حالات پیداہوچکے ہیں جو انقلابات کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتے ہیں۔اور جن کے لازمی اور گہرے اثرات خود یہاں امریکہ پر بھی مرتب ہوں گے۔اس انقلاب کا مرکزہ یقینی طورپر وینزویلا ہے ۔جہاں ایک دہائی کی جدوجہد کے بعد انقلاب اب ایک ایسے مقام پر پہنچ چکاہے کہ جس سے واپسی ناممکن ہو چکی ہے‘‘۔ امریکیوں کا یہ نقطہ نظرہی ان کی اس خطے بارے ان کی نئی حکمت عملی کو متعین کررہاہے۔یہ الزام کہ شاویز ،کولمبیا کے بارے سخت گیر پالیسی اپنائے ہوئے ہے ،ایک سچائی ہے۔کولمبیا میں امریکی فوجی اڈوں کے قیام کا معاہدہ (جسے عدالتوں نے عارضی طورپر موخر کردیاہے)،ہنڈراس میں ہونے والا کودیتا،کوسٹاریکا میں امریکی فوجیوں کی تعیناتی،اور سب سے اہم پانامہ میں نئے امریکی فوجی اڈے قائم کرنا ،یہ سبھی اقدامات درحقیقت وینزویلا کے اردگرد مضبوط حصار قائم کرنے کیلئے ہیں۔اور ان سے صاف پتہ چلتاہے کہ حقیقی جارح کون ہے؟ اور یہی وہ حالات ہیں کہ جن کی وجہ سے وینزویلا اور کولمبیا کے مابین تعلقات انتہائی تلخ اور کشیدہ ہوچکے ہیں۔اس کشیدگی کی ایک جھلک ہم پچھلے اگست میں ملاحظہ کر چکے ہیں۔بظاہر اس تنازعے کو وقتی طورپر حل کرلیا گیا ہے لیکن یہ سب عارضی ہے اور کسی بھی وقت کولمبیا اور وینزویلا کے مابین ایک جنگ کا امکان موجودہے۔کولمبیا کو امریکہ اپنے ایک فوجی کیمپ کی شکل دے چکاہے ۔وینزویلا میں عوامی ملیشیائیں قائم کرنا اور پھر روس سے اسلحے کی خریداری کسی طور اس کی جارحیت پسندی کی غمازی نہیں بلکہ اپنے دفاع کی ایک حکمت عملی ہے جس کی مدد سے وہ امریکی جارحیت کی پالیسیوں کا مقابلہ کرسکے گا۔ یہ سب کچھ ثابت کرتاہے کہ سامراجیوں نے شاویز کو ہٹانے اور ختم کرنے کا مصمم ارادہ کیاہواہے ۔اور اگر اس کیلئے انہیں طاقت کا استعمال بھی کرناپڑاتو اس سے گریز نہیں کیا جائے گا۔تاہم اب سامراجیوں کیلئے وینزویلا بارے مواقع کم سے کم ہو چکے ہیں۔اپنی بے پناہ دولت اور عسکری قوت کے باوجود ، امریکیوں کو اپنی سازشوں اور چیرہ دستیوں کیلئے بہت ہی ناسازگارحالات کا سامناہے۔ماضی میں ان کیلئے آسانی موجود تھی کہ وہ یہاں براہ راست اپنے فوجی بھیج دیتے تھے۔مگر موجودہ کیفیت میں ایسا نا ممکن ہوچکاہے۔سامراجیوں کو عراق میں سے شرمناک واپسی کا سامناجبکہ افغانستان کے اندروہ ایک انتہائی غیر مقبول اور ناقابل فتح جنگ لڑنے پر مجبور ہیں۔عراق پر جارحیت کی ناکامی کے بعد امریکہ کے اندر جنگ کے خلاف عوامی حقارت میں مزید اضافہ ہوچلاہے۔ اس لیے امریکہ کا لاطینی امریکہ میں ایک جنگ کا رسک لینا فی الحال محال نظر آتاہے۔ ایک براہ راست فوجی جارحیت کے امکان کی غیر موجودگی کے باوجودامریکی عسکری شعبے کے پاس دیگر کئی رستے موجودہیں جسے وہ بروئے کار لا سکتی ہے۔واشنگٹن عرصہ دراز سے وینزویلا کو عالمی سطح پر تنہاکرنے کی جستجواور لگن میں لگا ہوا ہے۔اس کام کیلئے وہ ہر ممکنہ سفارتی،عسکری اور معاشی وسائل اور ذرائع استعمال کررہاہے۔شاویز کی جگ ہنسائی اور کردارکشی کی بہیمانہ کوشش ایک طرف ،امریکہ شاویز کے جسمانی خاتمے کے امکان کو بھی سامنے رکھے ہوئے ہے۔اور بلاشبہ امریکی سی آئی پچھلے عرصے میں اس کی کوشش کر بھی چکی ہے۔ عیسائیت ترک کرکے دوبارہ عیسائی بننے والے عظیم المرتبت عیسائی پادری،عیارومکار،رجعتی پیٹ رابرٹسن نے کہا ہے کہ ’’ہر کوئی جانتاہے کہ میں جسمانی قتل کے فلسفے کو نہیں جانتا ، تاہم اگر شاویز یہ سمجھتاہے کہ ہم ایسی کوئی وارادت کرنے جارہے ہیں تومیں یہ سمجھتاہوں کہ ہمیں آگے بڑھتے ہوئے ایسا کردینا چاہئے ۔ایک جنگ شروع کرنے کی نسبت یہ ایک انتہائی سستا کام ہوگا۔اور میں نہیں سمجھتا کہ وینزویلا کے ساتھ ہمارا تیل کا لین دین ،اس کام میں ہماری رکاوٹ بن سکتاہے‘‘۔رابرٹسن نے کھلے عام وہ بات کہہ ڈالی ہے جسے باقی سوچ رہے ہیں۔اور یہ سوچ ابھی تک ان کے دماغوں سے نہیں نکلی ہے۔ شاویز کا قتل ایک امکان کے طورپر موجود ہے ۔لیکن عظیم المرتبت پادری رابرٹسن کے ان دلکش الفاظ کے باوجود،ایساکرنا امریکیوں کیلئے اتنا آسان نہیں ہوگا۔جناب رابرٹسن کے خیالات عالیہ کے باوجود،امریکہ کو تیل سپلائی کرنے والی لائنیں بندہوجائیں گی۔اور شاویز کا قتل سارے لاطینی امریکہ کے اندر غم وغصے اور انقلاب کو مہمیزکردے گا۔صرف لاطینی امریکہ نہیں بلکہ دنیا بھر میں اس پر عوام بھڑک اٹھیں گے۔خطے میں کوئی ایک امریکی سفارتخانہ سلامت نہیں رہ پائے گا۔امریکہ کے خلاف تلخی اور حقارت انتہاؤں کو پہنچ جائے گی اور یہ کئی سرکشیوں کو بھڑکانے کا سبب بن جائے گی۔ایک پارلیمانی بغاوت کی تیاری ان مذکورہ بالا وجوہات اورمشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے امریکی سامراج ’’سرمایہ دارانہ جمہوریت‘‘کے میکنزم کو استعمال کرنے کے درپے ہے ۔اس کی خواہش اور کوشش ہے کہ پارلیمانی طورطریقوں سے انقلاب کو نیست ونابودکردیاجائے ۔ اس ستمبر میں وینزویلا میں ہونے والے عام الیکشن اس حوالے سے بہت اہم ہیں۔واشنگٹن بہر صورت ایک پارلیمانی بغاوت کی تیاری کر رہاہے۔امریکہ یہ چاہ رہاہے کہ بیرونی مداخلت کی بجائے اندرونی انقلاب دشمن عناصرکے ذریعے انقلاب کو پچھاڑا جائے۔اس مقصدکیلئے انقلاب اور بولیویرین تحریک کے اندرونی تضادات کو استعمال کریں گے۔اپوزیشن منصوبہ بندی کررہی ہے کہ قومی اسمبلی میں زیادہ سے زیادہ نشستیں جیتے ۔اگر وہ اسمبلی میں برتری حاصل کرلیتے ہیں ،یاپھر معقول تعداد میں نشستیں جیت لیتے ہیں تو اس سے انقلاب کے پسپاہونے کی شروعات ہوجائے گی۔پیٹی بورژوا سماجی عناصرجو کہ ماضی قریب میں بہت ہی شکست خوردگی اور چڑچڑے پن کا شکار ہوچکے ہیں،وہ اس انتخابی کامیابی سے آپے سے باہر ہوناشروع ہوجائیں گے۔ اگرا س الیکشن میں ردانقلابی کامیابی حاصل کرلیتے ہیں تو وہ یقینی طورپر حکومت کو کام نہیں کرنے دیں گے۔یہ لوگ مڈل کلاس کو مشتعل کریں گے کہ وہ سڑکوں پر نکل آئے اور یوں انتشاراور ہنگاموں کو بھڑکایاجائے گا۔یہاں تک کہ اگر وہ ایک تہائی نشستیں بھی جیت لیتے ہیں تو وہ کئی اہم فیصلوں میں رکاوٹ بننے میں کامیاب ہوجائیں گے۔یہ ردانقلابی اسمبلی اور صدر کے مابین تنازعات اورتناؤپیداکردیں گے۔ان کا حتمی ہدف حکومت اور ملک کو عدم استحکام میں مبتلاکردیناہے۔اور ایک ایسی صورتحال پیداکرناہے کہ جس کی وجہ سے شاویز کو نکال باہر کیاجائے۔اس کیلئے ہر پارلیمانی اور ماورائے پارلیمانی طریق کار استعمال کیا جائے گا۔اور یہ ایک سنجیدہ خطرہ ہے۔کوئی بھی معقول انسان اس بات پر یقین نہیں رکھتا کہ بنیادی فیصلے قوانین اورپارلیمانوں کے ذریعے کیے جاتے ہیں۔آخرکارسبھی اہم فیصلے سڑکوں ،کارخانوں،کھلیانوں اور فوجی بیرکوں میں کئے جاتے ہیں۔لیکن پارلیمنٹ بھی فیصلہ سازی میں ایک اہم کردار اداکرتی ہوتی ہے ،خواہ یہ انقلاب بارے ہوں کہ رد انقلاب کے حوالے سے۔ اس اعتبار سے اس مہینے ہونے والے الیکشن کا نتیجہ انقلاب کے مستقبل کیلئے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اگر ردانقلاب الیکشن میں کامیابی حاصل کرتاہے تو کیاکوئی یہ سوچ سکتاہے کہ قوانین کی فرمانبرداری کی جائے گی؟ایسا نہیں ہوگا بلکہ اگلے دن ہی بولیویرین آئین کو ختم کردیاجائے گا۔اس کے بعد ان لوگوں کا کیا ہوگا کہ جنہوں نے انقلاب کی حمایت کی !کیا کوئی اس بات پر یقین کر سکتاہے کہ ردانقلابی ٹولہ ان لوگوں کو دبائیں،ڈرائیں ،دھمکائیں گے؟کیا یہ ردانقلابی ٹولہ شاویز کے ساتھ اسی طرح ہمدردی اور مصالحت سے پیش آئے گا جیسا وہ ان کے ساتھ کرتا چلا آرہاہے( اور جس کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا)؟ ہرگزہرگز ایسا نہیں ہوگا۔ہاں البتہ یہ ردانقلابی، انقلاب اور انقلاب کا نام لینے والوں کے ساتھ وہی بے رحمانہ رویہ اپنائیں گے جو کہ دنیا کی تاریخ میں حکمران ہمیشہ روا رکھتے آئے ہیں۔ رومن کہاوت کے بقول’’سب کچھ تہس نہس کرکے ہی دم لو‘‘۔وینزویلا میں ردانقلاب کی انتخابی کامیابی لاطینی امریکہ میں جاری انقلاب کیلئے ایک بہت بڑا جھٹکا ثابت ہو گی۔ ایکواڈور اوربولیویا اس کے بعد سخت دباؤ اورتناؤکی زد میں آجائیں گے۔کیوبا کا انقلاب بھی جو کہ پہلے ہی سے سرمایہ دارانہ ردانقلاب کی زد میں آیاہواہے،اور بھی شدید مشکلات میں گھرجائے گا۔یہیں تک ہی کیوں ،اس کے دنیا بھر میں اثرات مرتب ہوں گے۔بورژوازی کو سوشلزم کے خلاف ایک نئی بیہودہ مہم شروع کرنے کا موقع ہاتھ آجائے گا۔چنانچہ اس بارے کچھ زیادہ کہنا مناسب نہیں کہ اس حوالے سے کیا کیا جانا ضروری ہے! کیا رد انقلاب الیکشن جیت سکتاہے؟ کیا یہ بات سوچی اور تسلیم کی جاسکتی ہے کہ ردانقلابی الیکشن جیت جائیں گے؟ہر ایک باشعور مزدور اورکسان یہی کہے گا کہ ایسا نہیں ہوگا۔لیکن جنگ کی طرح سے سیاست میں بھی محض امیدیں یا نیک خواہشات کوئی معنی نہیں رکھتیں۔ایک اندھی خوش گمانی سے زیادہ کوئی چیز بھی خطرناک نہیں ہواکرتی اورجومحض کھوکھلی لفاظی کے سوا کوئی معنی نہیں رکھتی ہوتی مثال کے طورپر ’’انقلاب کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا‘‘’’انقلاب تو ناقابل شکست ہے‘‘ وغیرہ وغیرہ۔لازمی ہے کہ خوش گمان امیدوں اور چکنی توقعات کی بجائے ٹھوس حقائق پر بات رکھی جائے۔ ہم ایک جنگ میں ہیں اور جنگی حکمت کا طریق کاریہ ہوتاہے کہ اپنے مدمقابل کی طاقت کو بڑھاکر سوچاجانا زیادہ بہترہوتاہے بجائے اس کو کمزور سمجھاجائے۔ دیکھناہوگا کہ بنیادی کمزوری کیاہے ،کہاں ہے؟یہ صرف اور صرف ایک جگہ موجودہے اور وہ یہ حقیقت ہے کہ سوشلسٹ انقلاب نے اپنے فرائض مکمل نہیں کیے اور ابھی تک ملک کی معاشی وسماجی زندگی کے اہم ترین مراکز بورژوازی کے کنٹرول اور تصرف میں ہیں۔اس تلخ حقیقت کا اظہار صدر شاویزنے بھی PSUVکی سالانہ کانگریس میں کیاہے۔اس نے کہا کہ معیشت کے بنیادی مراکز کے اشرافیہ کے تصرف میں ہونے،اور سابقہ ریپبلک کی باقیات کے موجودہونے تک، سوشلزم کی طرف سفر ناممکن ہے۔ یہ بات سوفیصد درست ہے۔انقلاب کی آگے کو پیش قدمی میں دوبڑی رکاوٹیں ہیں جن میں اہم معاشی مراکز کا نجی ملکیت میں رہنا اور دوسرا بورژواریاست کا باقی رہنا۔یہ ایک ناممکن عمل ہے کہ جس میں آپ ایک ایسی صورتحال کو قائم رکھتے جائیں کہ جس میں ملی جلی معیشت سے کام چلایاجائے۔کہ جس میں سرمایہ دارانہ عوامل وعناصر بھی ہوں۔یہ صورتحال ایک بے ہنگم پن اور اشتعال انگیزی کو تقویت بخشتی ہے۔اس میں غذائی قلت ،افراط زر،کارخانوں کی بندش،اور سرمائے کے انخلاء جیسے مسائل جنم لیتے ہیں۔اور ان سبھی مسائل کے عوام پر شدید اثرات مرتب ہوتے ہیں۔سرمایہ دارانہ نظام کا بچ جانااپنے اندر معیارزندگی میں گراوٹ کی نشاندہی کرتاہے۔یہ سچائی ہے کہ وہاں کی عوام ابھی تک شاویز پر اعتمادکرتے ہیں ۔اور وہ انقلاب کے ساتھ بھی وفاداری قائم رکھے ہوئے ہیں ۔لیکن لازمی ہے کہ اس وفاداری کی تذلیل نہ ہونے دی جائے ۔اور اسے محض جوشیلی تقریروں اور امیدافزائیوں سے نہیں سنبھالااورقائم رکھاجاسکتا۔یہ حقیقت کہ نومبر2008ء کے مقامی الیکشن میں اپوزیشن کے مئیروں اور گورنروں کا غریب علاقوں میں (مثال کے طورپر پیٹارے کا علاقہ)جیت جانا،اک واضح انتباہ تھا ۔اگر حکومت عوام الناس کی ضروریات کی تکمیل کیلئے درکار اقدامات نہیں اٹھاتی تو اس سے بے بسی اور لاتعلقی کے پھیلنے کو نہیں روکاجاسکتا۔اور یہ بے بسی اور لاتعلقی ان الیکشن میں اپنااظہار اس طرح کر سکتی ہے کہ عوام گھروں میں بے نیازہوکر بیٹھے رہ جائیں۔ دوسری طرف سابقہ ریاست اور افسرشاہی کی تاحال موجودگی،انقلاب کی موت کے سبھی امکانات اورپہلو لئے ہوئے ہے۔افسرشاہی دیدہ دلیری سے سوشلزم اور انقلاب کی مخالفت کرتی چلی آرہی ہے اور کوئی ایک موقع بھی ہاتھ سے نہیں جانے دے رہی کہ جس سے انقلاب کو سبوتاژکیاجاسکے۔ کوئی بھی معقول انسان یہ تصور تک نہیں کرسکتاکہ ریاست کے ان وحشی عوامل وعناصر کی موجودگی میں سوشلزم کی جانب پیش قدمی ممکن ہوسکتی ہے۔اس بات کا اظہار اور اعتراف صدر شاویز کی طرف سے PSUVکی غیرمعمولی کانگریس میں بھی کیا گیاتھا،جب اس نے لینن کی کتاب ’’ریاست اور انقلاب‘‘کا حوالہ دیاکہ بورژوا ریاست کی تباہی اور اس کی جگہ ایک مزدورجمہوریت کا قیام ہی،سوشلزم کے قیام کی اولین شرط ہے۔ اصلاح پسند کسی طور بھی ان سبھی مسائل پر بات تک بھی نہیں کرنااورسننا چاہتے۔وہ انتہائی مکاری ورمہارت کے ساتھ ایسے دلائل پیش کرتے ہیں کہ مزدور توکسی طور بھی حکومت کرنے کے اہل نہیں ہوسکتے اس لیے انہیں ہرگز ہرگز اقتدار میں نہیں آنا چاہیے ۔وہ یہ سمجھتے ہیں کہ سوشلزم ایک یوٹوپیا ہے۔جبکہ وہ خود حقیقی حقیقت پسند ہیں اور بس۔ردانقلاب کے بے رحمانہ رد عمل سے خوفزدہ یہ اصحاب،کسی ڈرے ہوئے شتر مرغ کی طرح سے اپنی گردنیں ریت میں دھنسائے ہوئے ہیں۔اور ایسا تب تک کئے رکھتے ہیں کہ جب تک خطرہ ٹل نہیں جاتا۔درحقیقت ان کی یہ نام نہاد حقیقت پسندی ہی ہے جو سب سے بڑایوٹوپیاہے۔اور یہی انقلاب کیلئے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ صدر شاویز نے بارہا افسرشاہی کی جانب سے رد انقلاب کے خطرے کی نشاندہی کی ہے ۔یہ بورژوازی کے وہ ففتھ کالمسٹ ہیں کہ جو انقلاب اور بولیویرین تحریک میں گھسے ہوئے ہیں۔PPTکا حال ہی میں الگ ہوجانا بھی اسی سلسلے کی ہی ایک کڑی ہے جو کہ تحریک میں اصلاح پسندوں اورافسرشاہی کے انہی ففتھ کالمسٹ عناصر کی موجودگی کا واضح ثبوت ہے۔ابھی بھی کئی ایک ہیں جو موقع کی تلاش میں ہیں کہ کس وقت غداری کا مظاہرہ کیا جائے! عالمی مارکسی رحجان اور حالیہ الیکشن عالمی مارکسی رحجانIMTکا ان الیکشن کے بارے کیا موقف ہے؟ہم بلادھڑک یہ اعلان کرتے ہیں کہ اس الیکشن میں ہم اپنا ووٹPSUVکو دیں۔ہمیں ہر کیفیت اور ہر صورت میں ردانقلابی اپوزیشن کو شکست دینی ہے ۔اس ہدف کو حاصل کرنے کا واحد راستہ یہی ہے کہ عوام کو متحرک کیاجائے۔جوکہ انقلاب کی حقیقی بنیاداور اس کی حقیقی قوت متحرکہ ہیں۔مزدوروں اور کسانوں کو لازمی طورپر متحرک کرنا اور جوش وجذبے سے لیس کیاجانا ضروری ہے ۔لیکن یہ تبھی ممکن اور آسان ہوگا کہ جبPSUVغیر مبہم انداز میں ایک یقین محکم کے ساتھ سوشلسٹ اور انقلابی پالیسیوں کو اپناتی ہے اور ان پر عملدرآمد بھی کرتی ہے ۔ تاہم سوشلزم کیلئے جنگ کئی چھوٹی بڑی لڑائیوں کی حامل ہے ۔انقلاب کو کسی طور بھی پیچھے کی طرف ایک یا کوئی قدم نہیں اٹھانا چاہئے ۔بلکہ اسے اپنے طبقاتی دشمن کے خلاف ایک کے بعد دوسرا بڑا حملہ کرناچاہیے ۔اس وقت سب سے فوری اور اہم ترین ہدف یہ ہے کہ ردانقلابی اپوزیشن کو شکست فاش سے دوچارکیاجائے ۔تاکہ اس کا بولویرین آئین میں موجود آئینی میکنزم کو بروئے کار لانے کا راستہ روکا جاسکے۔اس لئے ہم ہر ایک مزدور ہرایک کسان ہر ایک نوجوان اور وینزویلا سماج کے ہر باشعور مردوزن سے یہ اپیل کرتے ہیں کہ وہ26ستمبر کے دن اپنا ووٹPSUVکے امیدواروں کو ڈالیں۔ اپنے آپ کو لیفٹسٹ حتیٰ کہ بدقسمتی سے مارکسسٹ کہنے والے بعض حضرات گرامی ،ستمبرالیکشن کے بارے میں انتہائی بے نیازانہ اور غیر ذمہ دارانہ وطیرہ اپنائے ہوئے ہیں۔وہ خاموش رہنے کی وکالت کر رہے ہیں بلکہ کچھ تو اس سے بھی بدترردانقلابی اپوزیشن کو جوائن کرنے کا فرمانے میں لگے ہوئے ہیں۔ یہ انقلابی سیاست سے بے بہرہ ہونے کے علاوہ کوئی معنی نہیں رکھتا۔جب طبقاتی صفیں بالکل واضح ہوچکی ہیں اور جب واضح انتخاب سامنے ہے یعنی انقلاب یا رد انقلاب،ایسی کیفیت میں جو بھی طبقاتی لکیرکو عبورکرتاہے وہ سوائے طبقے سے غداری کے کچھ بھی نہیں کرتا۔ وینزویلا انقلاب کی ابتداء سے ہی عالمی مارکسی رحجان کے مارکسسٹ ،انقلاب کا بھرپور دفاع کرتے چلے آرہے ہیں اور دنیا بھر کے انقلابیوں کو اس کی اہمیت سے روشناس اور باخبر رکھتے چلے آرہے ہیں۔اور ایسا ہم نے ان حالات میں کیا تھا کہ جب بہت سے خودساختہ مہان لیفٹسٹ اس بات سے ہی انکاری تھے کہ انقلاب نام کا کوئی عمل شروع یا جاری ہے۔انہوں نے واضح طور پر یہ فرمودات بھی تحریر کئے کہ سوال ہی پیدانہیں ہوتاکہ وینزیلامیں شروع ہونے والی تحریک سوشلزم کی طرف رخ کرے۔آج گیارہ سالوں بعد ہمارا موقف ایک سچائی بن کر سب کے سامنے آچکاہے ۔اگرچہ ابھی تک انقلاب نے سوشلزم کی جانب فیصلہ کن پیش قدمی نہیں کی ہے تاہم یہ بات سب پر عیاں ہے کہ سوشلزم کا نظریہ زبان زد عام ہوچکاہے اور عوام اس تک پہنچنے کیلئے لڑائی بھی لڑرہے ہیں۔ PSUVکی صفوں میں،اس کے نوجوانوں اور مزدوروں میں عالمی مارکسی رحجان کی مضبوطی سوشلزم کی طرف پیش قدمی کے عمل کو آگے بڑھانے میں اہم کرداراورہتھیارکا کام دے گی۔کہ جس سے ردانقلابی قوتوں کو شکست دینے ،ان کی معاشی برتری کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے نیست ونابودکرنے اور وینزویلاکے سوشلسٹ انقلاب کو ممکن بنانے میں مدد ملے گی۔ وینزویلا میں عالمی مارکسی رحجان اپنے رسالے’’طبقاتی جدوجہد‘‘ Lucha de Clases کے نام سے کام کر رہاہے اور انقلاب کی آگے کی طرف پیش قدمی کے عمل کیلئے جدوجہد کررہا ہے تاکہ انقلاب کو اس کی حتمی اور حقیقی منزل تک لے جایا جائے۔لیکن اس تک پہنچنے کیلئے کئی ایک لڑائیوں کا نتیجہ اہم کردار اداکرے گا۔ماضی میں حاصل ہونے والی کامیابیوں کا دفاع نہ کر سکنے والے،مستقبل کے امکانات کے حصول کے اہل ثابت نہیں ہوسکتے۔ انقلاب کو اس کی انتہا ء تک لے جانے کی جدوجہدجاری رکھو! سامراجیوں اور ردانقلابی اپوزیشن کی جانب سے کئے جانے والے حملوں کے دفاع کے ساتھ ساتھ،لازمی ہے کہ ہم مارکس وادی انقلاب کو درپیش خطرات سے بھی آگاہی لیتے دیتے رہیں۔وینزویلا کی ردانقلابی اپوزیشن ،حکومت کی ہر غلطی کا فائدہ اٹھانے اور اس کو اپنے مذموم مقاصدکیلئے استعمال کرنے کی بھرپور کوشش کر رہی ہے ۔وہ سبھی مسائل جنہیں ابھی تک حل نہیں کیا جاسکا جن میں گھروں کی فراہمی،جرائم کی شرح میں اضافہ،حالیہ دنوں میں توانائی کے شعبے میں پیداہونے والا بلیک آؤٹ،یہ سب اپوزیشن کو موقع دیتے آرہے ہیں کہ وہ عوام کی انقلاب بارے ہمدردی کو مایوسی اور لاتعلقی میں تبدیل کریں۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ انقلاب کو بیچ راستے میں ادھورا چھوڑ دیا جائے۔آدھا انقلاب نام کی کوئی چیز ہوتی ہی نہیں۔عوام انقلاب کے ساتھ وفادار بھی ہیں اور وابستہ بھی لیکن موجودہ کیفیت کو زیادہ لمبے عرصے تک برقرار رکھنابھی ان کیلئے ناقابل قبول ہے۔جلد یا بدیر اونٹ کو کسی کروٹ بیٹھنا ہوگا۔بلاشبہ شاویز نے کئی اہم اقدامات کئے ہیں ۔لیکن لازم ہے کہ کام کو اب مکمل کیا جائے۔ایک بار جب وینزویلا انقلاب جاگیرداری اور سرمایہ داری کو اکھاڑ پھینکتاہے تو یہ عمل تیزی کے ساتھ لاطینی امریکہ کے دیگر ملکوں میں پھیلنا شروع ہوجائے گا۔اور یہی بولیویرین انقلاب کے اصل اور حقیقی معنی بھی ہیں۔اور یہی ایک تقسیم شدہ براعظم کو ایک لڑی میں پرونے کی معروضی ضرورت بھی ہے تاکہ اس کے بے حدوحساب وسائل کو ترقی کے اعلی ٰ و بلندتر معیار کے حصول کیلئے بروئے کارلایاجاسکے۔ سپین کے سوشلسٹ راہنما لارگوکبارلو نے ایک بارکہاتھا کہ آپ اسپرین کے ساتھ کینسر کا علاج نہیں کر سکتے ہیں ۔سنجیدہ مسائل سنجیدہ حل کے متقاضی ہواکرتے ہیں۔جب ابراہام لنکن نے خانہ جنگی میں کامیابی حاصل کی تھی تو اسے ایک بات کی بخوبی سمجھ آگئی تھی کہ معاشی طاقت کو کسی طور دشمن کے ہاتھ میں نہیں رہنے دینا چاہیے ۔اس نے جنوب کے غلاموں کے مالکان سے ان کی دولت چھین لی تھی جو کہ آج کے حساب سے کھربوں ڈالربنتی ہے۔ایسا کرتے وقت اس نے آئینی تقاضوں کی قطعاًکوئی پرواہ نہیں کی تھی۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ اگر وہ قاعدے قوانین کے چکر میں پڑجاتاتو کبھی بھی جنگ نہ جیت پاتا۔ بہت عرصہ پہلے سیسیروCiceroنے کہاتھاکہ انسانوں کی نجات ہی واحد حقیقی قانون ہے اور بس۔ہم بھی اس کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے اس وقت یہی کہناچاہتے ہیں کہ انقلاب کی نجات ہی حتمی وحقیقی قانون ہے۔ردانقلابیوں کو اسمبلی سے دور رکھنا ، پچھلے سارے عرصے میں ہونے والی انقلابی حاصلات کوضائع ہونے سے روکنے کے مترداف ہے ۔لیکن یہ اپنے اندر اور اپنے تئیں پھر ایک ناکافی عمل ہے ۔اپوزیشن کو حقیقی شکست اور ردانقلاب کے خطرے کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ختم کرنے کا واحد رستہ اور طریقہ یہی ہے کہ اشرافیہ کی معاشی طاقت کو ختم کردیاجائے،جاگیرداروں ،بینکاروں اور سرمایہ داروں کو نکال باہر کیاجائے اور مزدوروں کے جمہوری کنٹرول کے تحت سوشلسٹ منصوبہ بندپیداوارکو متعارف اور نافذکیاجائے۔ اصلاح پسند یہ دلیل دیتے ہیں کہ ایسا کرنے سے سامراج اور ردانقلابی مشتعل ہوجائیں گے۔یہ صرف بکواس ہے۔ردانقلابی اور سامراج باربار یہ ظاہر اور ثابت کرچکے ہیں کہ ان کو کسی رد عمل کیلئے اشتعال دلانا ضروری نہیں ہوا کرتا۔ وینزویلا کے مزدوراور کسان شاویز سے آس لگائے ہوئے ہیں کہ وہ انقلاب کو اس کے منطقی انجام تک پہنچانے کے وعدے پر عمل کو یقینی بنائے گا۔اور یہ عمل صرف اسی صورت میں یقینی ہوسکتاہے کہ آپ براہ راست نجی ملکیت کے نام نہاد مقدس حق کو چیلنج کرتے ہوئے اسے ختم کردیں۔جب تک بھی معاشی طاقت ردانقلابی اشرافیہ کے ہاتھوں میں موجود اور مرتکز رہے گی ،نہ توانقلاب فتحیاب ہوسکے گا نہ ہی اس کی حاصلات محفوظ رہ پائیں گی۔وہ سبھی اصحاب جو قانون کی بالادستی کے وہم کے ہاتھوں ہپناٹائزہوچکے ہوئے ہیں،ہم انہیں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ایک ایسا قانونی میکنزم موجود ہے جو اس مقصد کیلئے بروئے کارلایاجاسکتاہے۔ایک ایسا ایکٹ جو اس بات کی اجازت دیتاہے کہ آپ زمینوں ،بینکوں اور بڑی صنعتوں کو نیشنلائز کرلیں۔شاویز کے پاس ابھی بھی مطلوبہ طاقت ہے،اس کے پاس موجودہ اسمبلی میں بھاری اکثریت بھی ہے اور پھر یہ صوابدیدی اختیار بھی کہ جس کے ذریعے وہ اشرافیہ کو اس کی معاشی برتری سے بے دخل کرسکتاہے۔اور یہی وہ بنیادی بات ہے جو کہ سوشلزم کیلئے متحرک کسی بھی تحریک کیلئے اولین شرط ہے۔لیکن اس کیلئے مناسب وموزوں وقت اب ہے۔اگر اسے کل پر اٹھارکھاگیاتو بہت تاخیرہوجائے گی۔ لاطینی امریکہ پر امریکی وعالمی سامراج کے غلبے کو ختم کرنے کیلئے یہی ایک واحد تناظراور چنوتی ہے۔لیکن پھر یہ ایک ایسا تناظر بھی ہے جو کہ اپنی ہیئت اور نوعیت میں نیشنلزم کی صریحاًنفی کرتاہے۔یہ تناظر سرحدوں کے خاتمے کا متقاضی ہے کہ جن کی وجہ سے پچھلے دوسوسالوں سے اس براعظم کو تقسیم وتفریق کی بھینٹ چڑھائے رکھاگیاہے۔یہ ایک سرمایہ دار مخالف(سوشلسٹ)تناظرکی ضرورت بھی ہے کہ اسی کی بدولت ہی سرمایہ داروں سے مکمل نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔طاقت کا سرچشمہ ہر حالت میں محنت کش طبقے کو ہونا چاہئے جنہیں لازمی طورپراپنے فطری اتحادیوںیعنی کسانوں،شہری غریبوں اور نیم پرولتاریہ کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔لاطینی امریکہ کا ایک یونائٹیڈسوشلسٹ سٹیٹس،یہی وہ نظریہ ہے کہ جولاطینی امریکہ کے سبھی مزدوروں،کسانوں ،انقلابی نوجوانوں کو باہم مل کر سامراج اور سرمایہ داری کو یکسراور سراسر اکھاڑپھینکنے کی سوچ اورشکتی سے سرشارکرسکتاہے۔اس میں خوش فہمیوں،خواب خیالیوں کا ایک بھی عنصر موجود نہیں ہے بلکہ یہ ایک معروضی تقاضے سے جڑاہوانظریہ ہے۔یہ زمانہ حال کا وہ نعرہ ہے کہ جس کے اندر مستقبل کی کلید پوشیدہ ہے۔Source: Chingaree.com