شدید سے شدیدتر ہوتا عالمی بحران Urdu Share TweetUrdu translation of The crisis deepens in Europe, Japan and the United States (May 2, 2011)تحریر: راب سیول ۔ ترجمہ؛اسدپتافی چنگاری ڈاٹ کام06.05.2011امریکہ سے یورپ اور وہاں سے جاپان تک ہر جگہ آپ بحران اور سرکشی کو سراٹھاتے دیکھ سکتے ہیں۔اور یہ سب ایک ایسی کیفیت کی غمازی کررہاہے کہ جس میں سرمایہ دارانہ نظام بری طرح پھنس اور دھنس چکا ہے اور جس سے بچنے کیلئے وہ سرتوڑ کوششیں کر رہاہے ۔یہ کیفیت مارکسی نظریات کی سچائی کا واضح اظہار کرتی ہے کہ جو سرمایہ دارانہ نظام کی اندرونی و روحانی بحران زدگی کی بروقت اور بجا نشاندہی کرتے چلے آرہے ہیں ۔کارنیل یونیورسٹی کے پروفیسر ایشور پرسادکا فرماناہے کہ ’’انتہائی ناخوشگوار اور دل جلادینے والے جھٹکوں پر جھٹکے لگ رہے ہیں ، ان میں انقلابات ،قدرتی آفات،دن بدن بڑھتی ہوئی اشیائے ضرورت کی قیمتیں شامل ہیں،اور یہ سب علامات ہمیں ناک تک گہرے پانی میں دھکیلے جارہی ہیں‘‘۔اگر یہ علامات ابتدائی ہیں تو آگے جو گہرائی پیش آنے والی ہے اس کا اندازہ لگانا اتنا مشکل کام نہیں ہے ۔لیکن مشکل یہ ہے کہ ہمارے ماہر پروفیسرصاحب اپنے حلقہ علم و دانش کو کسی مشکل میں نہیں ڈالنا چاہتے ہیں۔لیکن اشاروں کنایوں میں پروفیسر صاحب جو کہہ چکے ہیں وہ سیدھاسادہ یوں ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام عالمی سطح پرسخت مشکل و مصیبت میں گھرچکاہواہے ۔اور ابھی تو یہ بحران ابتدائے عشق کی حالت میں ہے جبکہ اور بھی کئی سخت امتحان آگے اس کے منتظر ہیں۔ہم یورپ میں بحران کا اگلا مرحلہ ،پرتگال کو دیے جانے والے بیل آؤٹ پیکیج کی صورت میں دیکھ رہے ہیں۔اس کے بعد ہم آئر لینڈاوریونان کیلئے بیل آؤٹ پیکیج آتا دیکھتے ہیں۔اور ان میں سے ہر ایک کو کہا گیاہے کہ وہ اس کے بعد کٹوتیوں پر کٹوتیاں کر کے معاملات کو درست کریں گے۔ان تینوں ملکوں کو آئی ایم ایف کی جانب سے تجویز کردہ’’جھٹکاتھراپی‘‘علاج کراناہوگا۔اس علاج سے منڈی اوربھی مضمحل ہوجائے گی اورعدم استحکام مزید گہرااور وسیع ہوجائے گا۔بحران کے شدیدہونے کی اس کیفیت میں حکومتوں کی ناکامی وبدنامی کی صورتحال اور بھی پختہ ہوتی جارہی ہے ۔آئس لینڈ ،پرتگال اور آئر لینڈ میں حکومتیں پہلے ہی دھڑام ہو چکی ہیں ۔سپین میں بھی حکومت داؤ پر لگ چکی ہوئی ہے اور زپاٹیرو کہہ چکاہے کہ وہ حکومت سے دستبردارہونے جارہاہے ۔یہاں تک کہ فن لینڈ جیسے چھوٹے سے ملک میں بھی حکومتی بحران شدت پکڑ چکاہے۔اور نئے الیکشن سے بھی صورتحال سنبھلنے کی بجائے مزید بگڑ چکی ہے۔یورپی یونین کی مخالف ٹریو فنس پارٹی،عوام کی طرف سے بیل آؤٹ پیکیج کے خلاف شدید غم وغصے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ،پرتگال کیلئے مجوزہ بیل آؤٹ بارے انتباہ کر دیاہے۔یہ پارٹی اب حکومت کو سنبھالنے جارہی ہے اور اس حوالے سے مذاکرات کے عمل میں اس کا کردار اہم ہو چکا ہے ۔سوشل ڈیموکریٹس کی جانب سے یورپی یونین کی حمایت کے خلاف ان کے نقطہ نظر کو خاصی پذیرائی ملی ہے ۔دیگر ملکوں کے بر عکس ،فن لینڈ کو بیل آؤٹ کے معاملات میں پارلیمنٹ کی منظوری لینی ضروری ہوتی ہے ۔تاہم یورپی یونین اتفاق رائے سے ہی معاملے کو آگے بڑھا سکتی ہے جو کہ اب اتنا آسان نہیں رہاہے ۔دیوالیہ پنیونان میں حکومت اپنے قرضو ں کے حوالے سے دیوالیہ پن سے بچنے کیلئے بدحواسی کی حد تک پرائیویٹائزیشن کرنے پر تلی ہوئی ہے ۔ اس قسم کے دیوالیہ پن سے بچنے کیلئے جس طرح اور جس طرز کی ری سٹرکچرنگ کی جارہی ہے ،اس کے تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔ایتھنز کے ایک تھنک ٹینک IOBEکے ڈائریکٹریانی سٹرانراس نے کہا ہے کہ’’ری سٹرکچرنگ کے نام پر سر کے سارے بال ہی اتارے جارہے ہیں اس کے نتیجے میں سارے یورو زون کے اندرایک پنڈروابکس کھل جائے گا۔اس کے نتیجے میں یونان کے سارے بینک بیٹھ جانے کا احتما ل ہے ،جس کے لازمی اثرات آئر لینڈ سمیت پرتگال پر بھی مرتب ہوں گے‘‘۔یونان میں کئے جانے والے سبھی اقدامات کے باوجود بحران ابھی تک ختم نہیں ہوسکا ہے ۔جرمن فنانس منسٹری کی ٹیکنیکل کمیٹی کے سربراہ کلیمن فوئسٹ نے خبردارکیا ہے کہ ایتھنز(یونان) دیوالیہ پن کی طرف رواں دواں ہے۔یونان میں منڈی پہلے ہی ڈیفالٹ کر چکی ہے ۔قرضوں کے حساب کتاب کے حوالے سے یونان کے ڈیفالٹ پن کے امکانات67فیصد تک پہنچ چکے ہیں۔پچھلے مہینے تک یہ امکانات55فیصد تک تھے۔اسی سے صورتحال کی نازکی کا پتہ چل جاتاہے۔آئی ایم ایف کے مطابق یونان کا پبلک خسارہ اس کے جی ڈی پی کے 150فیصد تک پہنچنے والاہے ۔جو پچھلے سال140فیصد تک تھا۔ آئرلینڈ کو بھی ایک بارپھر کہا گیاہے کہ وہ اپنے بینکوں کو پھر سے سرمایہ فراہم کرے ۔اس بار 24بلین یورومزید فراہم کرنے کا کہاگیاہے ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ آئر لینڈ میں کٹوتیاں اور بھی شدید تر ہو جائیں گی تاکہ بینکوں کو بچایا جاسکے ۔دنیا کی ایک بڑی کریڈٹ ایجنسی سٹینڈرڈ اینڈ پورز نے ملک کی ریٹنگ میں ایک پوائنٹ کی مزید کمی کر دی ہے ۔پرتگال کی حکومت نے بھی یورپی یونین اور آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات شروع کر دیے ہیں۔لیکن اس بات کا خدشہ موجود ہے کہ جیسے فن لینڈ کے الیکشن کے نتائج نے پرتگال کے قرضے لینے کی حدوں کو انتہا تک پہنچا دیاہے ۔اس خدشے کا اظہار کیا جا رہاہے کہ 15جون سے پہلے کوئی معاہدہ نہیں ہو پائے گاجس کی مدد سے پرتگالاپنے قرضوں کی ادائیگی کیلئے4.9بلین یورو کی رقم مہیا کرنے کے قابل ہو سکے گا۔جو کہ اسے اس دن تک اداکرنا ہے۔یورپی یونین کے ملکوں کی زبوں حالمعیشتوں کی بدحالی کو عالمی سٹے بازوں نے اور بھی تماشا بنایاہواہے اور جو اس بدترین صورتحال سے بھی زیادہ سے زیادہ کمائی کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔یہ ایسے بھیڑیے ہیں جو اپنے کمزور شکار پر اپنے خونی جبڑے گاڑنے کیلئے بیتاب ہوتے ہیں اور جونہی شکار پھنستا ہے تو یہ سب مل کر اس پر جھپٹ پڑتے ہیں۔چھوٹی چھوٹی حاصلات کیلئے تگ ودوکی اس ساری کاوش کے باوجود ،یہ ساری جاری وساری بحران یوروکی کمرتوڑرہاہے۔اور یہ سب کچھ فن لینڈ کے الیکشن سے بھی پہلے ہوتا آرہاہے۔اس کے نتائج نے صرف واقعات کی تلخی اور معاملات کی پیچیدگی کو تقویت ہی دی ہے۔اگر یہ وبا ء سپین اورپھر اٹلی تک بھی پہنچ جاتی ہے تواس کے بعد ساری یورپی یونین ہی اس کی لپیٹ میں آجائے گی۔اور اس بات کی نشاندہی ہم نے اس وقت بھی کر دی تھی کہ جب یوروکو متعارف کرایا گیاتھا۔ہم نے اسی کیفیت کی تب ہی پیشین گوئی کی تھی جو اس وقت یورپی یونین کو درپیش ہے ۔ مختلف نرخوں کی حامل ،مختلف معیشتوں کی ایک مشترکہ کرنسی کا اجرا ء کسی طور بھی ایک استحکام کا باعث نہیں بن سکتاتھا۔اس کے باوجود اگر کسی ایک واحد عنصر نے اسے چلائے رکھاتو وہ عالمی سرمائے کا وقتی عروج تھا۔جونہی یہ عروج اپنے منطقی اناجم کو پہنچا تو اس کے نیچے دبے ہوئے سبھی تنازعات ایک دم ابھر کر سامنے آنے شروع ہو گئے ۔اور جن کو اس وقت ہم سب اپنی آنکھوں کے سامنے ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ یورپین سنٹرل بینک جو کہ دراصل جرمنوں کے ہی کنٹرول میں ہے ،نے اپنی شرح سود بھی بڑھا دی ہے۔جس کے برے اثرات یقینی طورپر یورپ کی کمزور معیشتوں پر مرتب ہوں گے،ان میں پرتگال،آئرلینڈ اور یونان خاص طورپر قابل ذکر ہیں۔خوفملکوں کے دیوالیہ ہوجانے اور مسلسل افراط زرکے خوف کے خدشات نے سرمایہ کاروں کو محفوظ سرمایہ کاری پر مجبورکردیاہے جس کی وجہ سے سونے کی قیمتیں انتہاؤں کو چھورہی ہیں ۔ایک اونس کی قیمت1500ڈالرزتک پہنچ چکی ہے ۔1971ء میں ایک اونس کی قیمت 35ڈالرہواکرتی تھی۔کرنسی چھاپ چھاپ کر ڈالر کو ایک منظم طریقے سے آسانی فراہم کرنے کی کوشش سے اور اس خدشے سے کہ امریکہ اپنی AAAریٹنگ سے نیچے آسکتاہے ،ڈالر کی قدروقیمت ایک نئی کم سطح کو پہنچ رہی ہے ۔امریکہ کی کریڈٹ ریٹنگ میں بتدریج کمی نے عالمی مالیاتی نظام کی کمزوری اور بے یقینی میں مزید اضافہ کردیاہے ۔آج سے70سال پہلے قائم ہونے والی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی سٹینڈرڈ اینڈ پورز،وہ پہلی ایجنسی ہے جس نے اس ’’درجاتی‘ کمی کااعلان کیا ہے ۔مسئلہ یوں ہے کہ امریکی ٹریژری بانڈز،محفوظ عالمی اثاثوںglobal reserve assets کی بنیاد بنے ہوئے ہیں۔جن کی مالیت9000بلین ڈالرز کا نصف حصہ غیر ملکی سرمایہ کاروں اور مرکزی بینکوں کے تصرف میں ہے۔’’اگر دنیا کا ایک اہم ترین ملک جس کی کریڈٹ AAAہو اورجو عالمی مالیاتی نظام کی ریڑھ کی ہڈی بھی بناہواہو،اگر اس کی کریڈٹ ریٹنگ گرتی ہے تودنیا کے باقی مالیاتی ڈھانچوں کا کیا بنے گا!؟‘‘۔یہ سوال براؤن برادرزہیری مین نامی ادارے کی لینا کومی لیوا نے اٹھایا ہے جو کہ G10ممالک کی حکمت عملی کو عالمی سطح پر مرتب کرتا ہے۔JanusCapital نامی ادارے کے چیف انویسٹمنٹ آفیسرگبسن سمتھ کا کہنا ہے ’’یہ کیفیت ملکوں کے دیوالیہ ہونے کے امکانات کے ممکنات میں ڈھلنے کی غمازی کرتی ہے ۔ہمیں منڈی کے نقطہ نظر سے اس ساری کیفیت کو انتہائی تشویش سے دیکھنا ہوگا کیونکہ اس سے ایک منظم تباہی ہمارا مقدر بن سکتی ہے‘‘۔امریکی قرضوں کی یہ ڈاؤن گریڈنگ ،دنیا کی سب سے بڑی معیشت اور سب سے بڑی مقروض قوم کی بتدریج کم ہوتی درجہ بندی کا پہلا اور ابتدائی اظہار ہے ۔اس سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ امریکہ نامی دیو کے پاؤں چکنی مٹی کے بنے ہوئے ہیں۔واشنگٹن میں بجٹ کے نام پر جو کچھ ہونے جارہاہے ،اس کی وجہ سے امریکہ کے پبلک اخراجات اور قرضوں کی حالت اور بھی خراب ہوجائے گی۔وہاں براجمان ماہرین بے تحاشا کٹوتیاں کرنے کا ارادہ کئے ہوئے ہیں لیکن یہ کٹوتیاں کہاں کہاں اور کب کب کرنی ہیں ،اس پر ان کا آپس میں کوئی اتفاق قائم نہیں ہو پارہاہے ۔مالیاتی سرپلس ،ٹیکس کٹوتیوں،جنگوں اوربیل آؤٹوں نے پبلک فنانسز کو انتہائی کسمپرسی کی حالت میں دھکیل دیاہے۔اور ڈیفالٹ کاخطرہ پیداکردیاہے۔امریکہ کا پبلک خسارہ اس وقت اس کی مجموعی قومی آمدنی کا112فیصد ہو چکاہے ۔یہ کیفیت برطانیہ اور دوسرے معیشت زدہ یورپی ملکوں سے بھی کہیں بدتر ہے ۔Research Affiliatesنامی ادارے کے ماہرراب آرناٹ جیسے لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ تصویر کو بگاڑ کر پیش کیا جارہاہے ۔حقیقی خسارہ اس سے کہیں زیادہ ہے جتنا بتایا جارہاہے ۔اس کے اندازے کے مطابق امریکی خسارہ اس کی جی ڈی پی کے500فیصد سے بڑھ چکاہواہے۔مگر یہ خسارہ جتنا بھی ہو ،یہ بات طے ہے کہ اس پر قابو نہیں پایا جاسکتا ہے۔پریشانیصورتحال سے سب سے زیادہ پریشانی چین کو لاحق ہو چکی ہے ۔کیونکہ اس نے امریکی ڈالر کو سنبھالا دیاہواہے ۔چین کے غیر ملکی ذرائع مبادلہ کے ذخائر 3000بلین ڈالرز تک پہنچ چکی ہے۔جس کا دوتہائی حصہ مبینہ طورپر امریکی ڈالروں کی شکل میں انویسٹ شدہ ہے۔سرمائے کے ماہرین ساٹھ ستر سالوں کے ہیں۔جارج سورس، جو کہ ایک ارب پتی فنانسر ہے ،نے کہا ہے ’’میں اس موجودہ کیفیت کو زیادہ تشویشناک اور ناقابل پیشین گوئی سمجھتا ہوں اوریہ کیفیت اس وقت سے بھیانک ہے کہ جب مالیاتی بحران اپنے عروج پر تھا‘‘۔ عالمی معیشت اس وقت جس راستے پر گامزن ہے وہ کسی طور استحکام کا حامل نہیں ہے ۔جو بحالی ہو رہی ہے وہ کمزوراور مضمحل ہے ۔مالیاتی شعبہ بہت ہی خستہ حالت میں ہوتا ہے ۔حکومتی خساروں کبھی نہ سوچی جا سکنی والی حدوں کو پہنچاہواہے۔قرضوں اوربینکوں کی ناکامی ملکوں کو دیوالیہ کرنے کی طرف دھکیل رہی ہے ۔سرمایہ دارانہ نظام ایک شدید ترین مصیبت میں گھر چکاہے ۔امریکی مالیات کی حالیہ پوزیشن ،سرمایہ دارانہ دنیا کود رپیش خطرات کی واضح نشاندہی کرتی ہے ۔اس سے پہلے کہ ہم اس بحران سے باہر نکل سکیں ، ہماری دنیا اگلے چند سالوں میں ایک بڑی عالمی معاشی گراوٹ کی زد میں آسکتی ہے ۔نظام ،آنے والے سالوں کے دوران دنیا کو جھٹکوں کی زد میں لا سکتاہے ۔لیکن اسی دوران ہی دنیا کے مختلف ملکوں میں حکومتوں کی طرف سے مسلط کی جانے والی کٹوتیوں کی پالیسیوں کے خلاف ان ملکوں کے عوام کی طرف سے مزاحمت بھی ابھر رہی ہے۔ایک نظام کے طورپر سرمایہ داری انتہائی ناپسندیدہ اور غیر مقبول ہو چکی ہے ۔اس کے خلاف نفرت اور حقارت مسلسل بڑھ رہی ہے ۔اب یہ محنت کش طبقے اور خاص طورپر ٹریڈ یونین تحریک پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ سرمایہ داری کے خلاف اپوزیشن کا کردار اداکریں اور تحریک کو سرمایہ داری کے ساتھ مصالحت کے خطوط پر جوڑنے کی بجائے اس ظالمانہ نظام کو اکھاڑ پھینکنے کے ارادے اور پروگرام سے منظم ومتحرک کریں۔صرف اسی طریقے سے ہی ہم ہر قسم کے بحرانوں سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے نجات حاصل کر سکتے ہیں جنہوں نے ہم عام انسانوں کی زندگیاں دوبھر کی ہوئی ہیں۔Translation: Chingaree.comتحریر: راب سیول ۔ ترجمہ؛اسدپتافی چنگاری ڈاٹ کام06.05.2011 امریکہ سے یورپ اور وہاں سے جاپان تک ہر جگہ آپ بحران اور سرکشی کو سراٹھاتے دیکھ سکتے ہیں۔اور یہ سب ایک ایسی کیفیت کی غمازی کررہاہے کہ جس میں سرمایہ دارانہ نظام بری طرح پھنس اور دھنس چکا ہے اور جس سے بچنے کیلئے وہ سرتوڑ کوششیں کر رہاہے ۔یہ کیفیت مارکسی نظریات کی سچائی کا واضح اظہار کرتی ہے کہ جو سرمایہ دارانہ نظام کی اندرونی و روحانی بحران زدگی کی بروقت اور بجا نشاندہی کرتے چلے آرہے ہیں ۔کارنیل یونیورسٹی کے پروفیسر ایشور پرسادکا فرماناہے کہ ’’انتہائی ناخوشگوار اور دل جلادینے والے جھٹکوں پر جھٹکے لگ رہے ہیں ، ان میں انقلابات ،قدرتی آفات،دن بدن بڑھتی ہوئی اشیائے ضرورت کی قیمتیں شامل ہیں،اور یہ سب علامات ہمیں ناک تک گہرے پانی میں دھکیلے جارہی ہیں‘‘۔اگر یہ علامات ابتدائی ہیں تو آگے جو گہرائی پیش آنے والی ہے اس کا اندازہ لگانا اتنا مشکل کام نہیں ہے ۔لیکن مشکل یہ ہے کہ ہمارے ماہر پروفیسرصاحب اپنے حلقہ علم و دانش کو کسی مشکل میں نہیں ڈالنا چاہتے ہیں۔لیکن اشاروں کنایوں میں پروفیسر صاحب جو کہہ چکے ہیں وہ سیدھاسادہ یوں ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام عالمی سطح پرسخت مشکل و مصیبت میں گھرچکاہواہے ۔اور ابھی تو یہ بحران ابتدائے عشق کی حالت میں ہے جبکہ اور بھی کئی سخت امتحان آگے اس کے منتظر ہیں۔ہم یورپ میں بحران کا اگلا مرحلہ ،پرتگال کو دیے جانے والے بیل آؤٹ پیکیج کی صورت میں دیکھ رہے ہیں۔اس کے بعد ہم آئر لینڈاوریونان کیلئے بیل آؤٹ پیکیج آتا دیکھتے ہیں۔اور ان میں سے ہر ایک کو کہا گیاہے کہ وہ اس کے بعد کٹوتیوں پر کٹوتیاں کر کے معاملات کو درست کریں گے۔ان تینوں ملکوں کو آئی ایم ایف کی جانب سے تجویز کردہ’’جھٹکاتھراپی‘‘علاج کراناہوگا۔اس علاج سے منڈی اوربھی مضمحل ہوجائے گی اورعدم استحکام مزید گہرااور وسیع ہوجائے گا۔بحران کے شدیدہونے کی اس کیفیت میں حکومتوں کی ناکامی وبدنامی کی صورتحال اور بھی پختہ ہوتی جارہی ہے ۔آئس لینڈ ،پرتگال اور آئر لینڈ میں حکومتیں پہلے ہی دھڑام ہو چکی ہیں ۔سپین میں بھی حکومت داؤ پر لگ چکی ہوئی ہے اور زپاٹیرو کہہ چکاہے کہ وہ حکومت سے دستبردارہونے جارہاہے ۔یہاں تک کہ فن لینڈ جیسے چھوٹے سے ملک میں بھی حکومتی بحران شدت پکڑ چکاہے۔اور نئے الیکشن سے بھی صورتحال سنبھلنے کی بجائے مزید بگڑ چکی ہے۔یورپی یونین کی مخالف ٹریو فنس پارٹی،عوام کی طرف سے بیل آؤٹ پیکیج کے خلاف شدید غم وغصے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ،پرتگال کیلئے مجوزہ بیل آؤٹ بارے انتباہ کر دیاہے۔یہ پارٹی اب حکومت کو سنبھالنے جارہی ہے اور اس حوالے سے مذاکرات کے عمل میں اس کا کردار اہم ہو چکا ہے ۔سوشل ڈیموکریٹس کی جانب سے یورپی یونین کی حمایت کے خلاف ان کے نقطہ نظر کو خاصی پذیرائی ملی ہے ۔دیگر ملکوں کے بر عکس ،فن لینڈ کو بیل آؤٹ کے معاملات میں پارلیمنٹ کی منظوری لینی ضروری ہوتی ہے ۔تاہم یورپی یونین اتفاق رائے سے ہی معاملے کو آگے بڑھا سکتی ہے جو کہ اب اتنا آسان نہیں رہاہے ۔دیوالیہ پنیونان میں حکومت اپنے قرضو ں کے حوالے سے دیوالیہ پن سے بچنے کیلئے بدحواسی کی حد تک پرائیویٹائزیشن کرنے پر تلی ہوئی ہے ۔ اس قسم کے دیوالیہ پن سے بچنے کیلئے جس طرح اور جس طرز کی ری سٹرکچرنگ کی جارہی ہے ،اس کے تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔ایتھنز کے ایک تھنک ٹینک IOBEکے ڈائریکٹریانی سٹرانراس نے کہا ہے کہ’’ری سٹرکچرنگ کے نام پر سر کے سارے بال ہی اتارے جارہے ہیں اس کے نتیجے میں سارے یورو زون کے اندرایک پنڈروابکس کھل جائے گا۔اس کے نتیجے میں یونان کے سارے بینک بیٹھ جانے کا احتما ل ہے ،جس کے لازمی اثرات آئر لینڈ سمیت پرتگال پر بھی مرتب ہوں گے‘‘۔یونان میں کئے جانے والے سبھی اقدامات کے باوجود بحران ابھی تک ختم نہیں ہوسکا ہے ۔جرمن فنانس منسٹری کی ٹیکنیکل کمیٹی کے سربراہ کلیمن فوئسٹ نے خبردارکیا ہے کہ ایتھنز(یونان) دیوالیہ پن کی طرف رواں دواں ہے۔یونان میں منڈی پہلے ہی ڈیفالٹ کر چکی ہے ۔قرضوں کے حساب کتاب کے حوالے سے یونان کے ڈیفالٹ پن کے امکانات67فیصد تک پہنچ چکے ہیں۔پچھلے مہینے تک یہ امکانات55فیصد تک تھے۔اسی سے صورتحال کی نازکی کا پتہ چل جاتاہے۔آئی ایم ایف کے مطابق یونان کا پبلک خسارہ اس کے جی ڈی پی کے 150فیصد تک پہنچنے والاہے ۔جو پچھلے سال140فیصد تک تھا۔ آئرلینڈ کو بھی ایک بارپھر کہا گیاہے کہ وہ اپنے بینکوں کو پھر سے سرمایہ فراہم کرے ۔اس بار 24بلین یورومزید فراہم کرنے کا کہاگیاہے ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ آئر لینڈ میں کٹوتیاں اور بھی شدید تر ہو جائیں گی تاکہ بینکوں کو بچایا جاسکے ۔دنیا کی ایک بڑی کریڈٹ ایجنسی سٹینڈرڈ اینڈ پورز نے ملک کی ریٹنگ میں ایک پوائنٹ کی مزید کمی کر دی ہے ۔پرتگال کی حکومت نے بھی یورپی یونین اور آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات شروع کر دیے ہیں۔لیکن اس بات کا خدشہ موجود ہے کہ جیسے فن لینڈ کے الیکشن کے نتائج نے پرتگال کے قرضے لینے کی حدوں کو انتہا تک پہنچا دیاہے ۔اس خدشے کا اظہار کیا جا رہاہے کہ 15جون سے پہلے کوئی معاہدہ نہیں ہو پائے گاجس کی مدد سے پرتگالاپنے قرضوں کی ادائیگی کیلئے4.9بلین یورو کی رقم مہیا کرنے کے قابل ہو سکے گا۔جو کہ اسے اس دن تک اداکرنا ہے۔یورپی یونین کے ملکوں کی زبوں حالمعیشتوں کی بدحالی کو عالمی سٹے بازوں نے اور بھی تماشا بنایاہواہے اور جو اس بدترین صورتحال سے بھی زیادہ سے زیادہ کمائی کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔یہ ایسے بھیڑیے ہیں جو اپنے کمزور شکار پر اپنے خونی جبڑے گاڑنے کیلئے بیتاب ہوتے ہیں اور جونہی شکار پھنستا ہے تو یہ سب مل کر اس پر جھپٹ پڑتے ہیں۔چھوٹی چھوٹی حاصلات کیلئے تگ ودوکی اس ساری کاوش کے باوجود ،یہ ساری جاری وساری بحران یوروکی کمرتوڑرہاہے۔اور یہ سب کچھ فن لینڈ کے الیکشن سے بھی پہلے ہوتا آرہاہے۔اس کے نتائج نے صرف واقعات کی تلخی اور معاملات کی پیچیدگی کو تقویت ہی دی ہے۔اگر یہ وبا ء سپین اورپھر اٹلی تک بھی پہنچ جاتی ہے تواس کے بعد ساری یورپی یونین ہی اس کی لپیٹ میں آجائے گی۔اور اس بات کی نشاندہی ہم نے اس وقت بھی کر دی تھی کہ جب یوروکو متعارف کرایا گیاتھا۔ہم نے اسی کیفیت کی تب ہی پیشین گوئی کی تھی جو اس وقت یورپی یونین کو درپیش ہے ۔ مختلف نرخوں کی حامل ،مختلف معیشتوں کی ایک مشترکہ کرنسی کا اجرا ء کسی طور بھی ایک استحکام کا باعث نہیں بن سکتاتھا۔اس کے باوجود اگر کسی ایک واحد عنصر نے اسے چلائے رکھاتو وہ عالمی سرمائے کا وقتی عروج تھا۔جونہی یہ عروج اپنے منطقی اناجم کو پہنچا تو اس کے نیچے دبے ہوئے سبھی تنازعات ایک دم ابھر کر سامنے آنے شروع ہو گئے ۔اور جن کو اس وقت ہم سب اپنی آنکھوں کے سامنے ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ یورپین سنٹرل بینک جو کہ دراصل جرمنوں کے ہی کنٹرول میں ہے ،نے اپنی شرح سود بھی بڑھا دی ہے۔جس کے برے اثرات یقینی طورپر یورپ کی کمزور معیشتوں پر مرتب ہوں گے،ان میں پرتگال،آئرلینڈ اور یونان خاص طورپر قابل ذکر ہیں۔خوفملکوں کے دیوالیہ ہوجانے اور مسلسل افراط زرکے خوف کے خدشات نے سرمایہ کاروں کو محفوظ سرمایہ کاری پر مجبورکردیاہے جس کی وجہ سے سونے کی قیمتیں انتہاؤں کو چھورہی ہیں ۔ایک اونس کی قیمت1500ڈالرزتک پہنچ چکی ہے ۔1971ء میں ایک اونس کی قیمت 35ڈالرہواکرتی تھی۔کرنسی چھاپ چھاپ کر ڈالر کو ایک منظم طریقے سے آسانی فراہم کرنے کی کوشش سے اور اس خدشے سے کہ امریکہ اپنی AAAریٹنگ سے نیچے آسکتاہے ،ڈالر کی قدروقیمت ایک نئی کم سطح کو پہنچ رہی ہے ۔امریکہ کی کریڈٹ ریٹنگ میں بتدریج کمی نے عالمی مالیاتی نظام کی کمزوری اور بے یقینی میں مزید اضافہ کردیاہے ۔آج سے70سال پہلے قائم ہونے والی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی سٹینڈرڈ اینڈ پورز،وہ پہلی ایجنسی ہے جس نے اس ’’درجاتی‘ کمی کااعلان کیا ہے ۔مسئلہ یوں ہے کہ امریکی ٹریژری بانڈز،محفوظ عالمی اثاثوںglobal reserve assets کی بنیاد بنے ہوئے ہیں۔جن کی مالیت9000بلین ڈالرز کا نصف حصہ غیر ملکی سرمایہ کاروں اور مرکزی بینکوں کے تصرف میں ہے۔’’اگر دنیا کا ایک اہم ترین ملک جس کی کریڈٹ AAAہو اورجو عالمی مالیاتی نظام کی ریڑھ کی ہڈی بھی بناہواہو،اگر اس کی کریڈٹ ریٹنگ گرتی ہے تودنیا کے باقی مالیاتی ڈھانچوں کا کیا بنے گا!؟‘‘۔یہ سوال براؤن برادرزہیری مین نامی ادارے کی لینا کومی لیوا نے اٹھایا ہے جو کہ G10ممالک کی حکمت عملی کو عالمی سطح پر مرتب کرتا ہے۔JanusCapital نامی ادارے کے چیف انویسٹمنٹ آفیسرگبسن سمتھ کا کہنا ہے ’’یہ کیفیت ملکوں کے دیوالیہ ہونے کے امکانات کے ممکنات میں ڈھلنے کی غمازی کرتی ہے ۔ہمیں منڈی کے نقطہ نظر سے اس ساری کیفیت کو انتہائی تشویش سے دیکھنا ہوگا کیونکہ اس سے ایک منظم تباہی ہمارا مقدر بن سکتی ہے‘‘۔امریکی قرضوں کی یہ ڈاؤن گریڈنگ ،دنیا کی سب سے بڑی معیشت اور سب سے بڑی مقروض قوم کی بتدریج کم ہوتی درجہ بندی کا پہلا اور ابتدائی اظہار ہے ۔اس سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ امریکہ نامی دیو کے پاؤں چکنی مٹی کے بنے ہوئے ہیں۔واشنگٹن میں بجٹ کے نام پر جو کچھ ہونے جارہاہے ،اس کی وجہ سے امریکہ کے پبلک اخراجات اور قرضوں کی حالت اور بھی خراب ہوجائے گی۔وہاں براجمان ماہرین بے تحاشا کٹوتیاں کرنے کا ارادہ کئے ہوئے ہیں لیکن یہ کٹوتیاں کہاں کہاں اور کب کب کرنی ہیں ،اس پر ان کا آپس میں کوئی اتفاق قائم نہیں ہو پارہاہے ۔مالیاتی سرپلس ،ٹیکس کٹوتیوں،جنگوں اوربیل آؤٹوں نے پبلک فنانسز کو انتہائی کسمپرسی کی حالت میں دھکیل دیاہے۔اور ڈیفالٹ کاخطرہ پیداکردیاہے۔امریکہ کا پبلک خسارہ اس وقت اس کی مجموعی قومی آمدنی کا112فیصد ہو چکاہے ۔یہ کیفیت برطانیہ اور دوسرے معیشت زدہ یورپی ملکوں سے بھی کہیں بدتر ہے ۔Research Affiliatesنامی ادارے کے ماہرراب آرناٹ جیسے لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ تصویر کو بگاڑ کر پیش کیا جارہاہے ۔حقیقی خسارہ اس سے کہیں زیادہ ہے جتنا بتایا جارہاہے ۔اس کے اندازے کے مطابق امریکی خسارہ اس کی جی ڈی پی کے500فیصد سے بڑھ چکاہواہے۔مگر یہ خسارہ جتنا بھی ہو ،یہ بات طے ہے کہ اس پر قابو نہیں پایا جاسکتا ہے۔پریشانیصورتحال سے سب سے زیادہ پریشانی چین کو لاحق ہو چکی ہے ۔کیونکہ اس نے امریکی ڈالر کو سنبھالا دیاہواہے ۔چین کے غیر ملکی ذرائع مبادلہ کے ذخائر 3000بلین ڈالرز تک پہنچ چکی ہے۔جس کا دوتہائی حصہ مبینہ طورپر امریکی ڈالروں کی شکل میں انویسٹ شدہ ہے۔سرمائے کے ماہرین ساٹھ ستر سالوں کے ہیں۔جارج سورس، جو کہ ایک ارب پتی فنانسر ہے ،نے کہا ہے ’’میں اس موجودہ کیفیت کو زیادہ تشویشناک اور ناقابل پیشین گوئی سمجھتا ہوں اوریہ کیفیت اس وقت سے بھیانک ہے کہ جب مالیاتی بحران اپنے عروج پر تھا‘‘۔ عالمی معیشت اس وقت جس راستے پر گامزن ہے وہ کسی طور استحکام کا حامل نہیں ہے ۔جو بحالی ہو رہی ہے وہ کمزوراور مضمحل ہے ۔مالیاتی شعبہ بہت ہی خستہ حالت میں ہوتا ہے ۔حکومتی خساروں کبھی نہ سوچی جا سکنی والی حدوں کو پہنچاہواہے۔قرضوں اوربینکوں کی ناکامی ملکوں کو دیوالیہ کرنے کی طرف دھکیل رہی ہے ۔سرمایہ دارانہ نظام ایک شدید ترین مصیبت میں گھر چکاہے ۔امریکی مالیات کی حالیہ پوزیشن ،سرمایہ دارانہ دنیا کود رپیش خطرات کی واضح نشاندہی کرتی ہے ۔اس سے پہلے کہ ہم اس بحران سے باہر نکل سکیں ، ہماری دنیا اگلے چند سالوں میں ایک بڑی عالمی معاشی گراوٹ کی زد میں آسکتی ہے ۔نظام ،آنے والے سالوں کے دوران دنیا کو جھٹکوں کی زد میں لا سکتاہے ۔لیکن اسی دوران ہی دنیا کے مختلف ملکوں میں حکومتوں کی طرف سے مسلط کی جانے والی کٹوتیوں کی پالیسیوں کے خلاف ان ملکوں کے عوام کی طرف سے مزاحمت بھی ابھر رہی ہے۔ایک نظام کے طورپر سرمایہ داری انتہائی ناپسندیدہ اور غیر مقبول ہو چکی ہے ۔اس کے خلاف نفرت اور حقارت مسلسل بڑھ رہی ہے ۔اب یہ محنت کش طبقے اور خاص طورپر ٹریڈ یونین تحریک پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ سرمایہ داری کے خلاف اپوزیشن کا کردار اداکریں اور تحریک کو سرمایہ داری کے ساتھ مصالحت کے خطوط پر جوڑنے کی بجائے اس ظالمانہ نظام کو اکھاڑ پھینکنے کے ارادے اور پروگرام سے منظم ومتحرک کریں۔صرف اسی طریقے سے ہی ہم ہر قسم کے بحرانوں سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے نجات حاصل کر سکتے ہیں جنہوں نے ہم عام انسانوں کی زندگیاں دوبھر کی ہوئی ہیں۔