کتاب ”ریاست کا بحران اور مارکسی لائحہ عمل ،، دو ہزار نو Urdu Share Tweet Document of the 2009 Congress of The Struggle (Pakistan) about the Crisis of the State and Marxist Strategy. (In Urdu) چنگاری ڈاٹ کام ، 09.04.2009۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ریاست کا بحران ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور مارکسی لائحہ عمل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مجوزہ دستاویزنمبردو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آٹھار ویں کانگریس دوہزار نو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ریاست کا بحران اور مارکسی لائحہ عمل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ موجودہ عہد اور ریاست ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آج ہم انسانی تاریخ کے ایک انتہائی اہم عہد سے گزر رہے ہیں ۔ ایک ایسا عہد جب تمام پرانے پیداواری رشتے ختم ہو رہے ہیں لیکن ان کی جگہ لینے کے لئے نئے رشتے موجود نہیں ہیں۔ ایک ایسا پر انتشار عہد جس میں پرانا نظام اپنی آخری ہچکیاں لے رہا ہے لیکن اس کی جگہ ابھی تک نیا نظام قائم نہیں ہو سکا۔موجودہ سماج تاریخ کی ایک ایسی بھٹی بن چکا ہے جس میںتمام پرانے پیداواری رشتے پگھل رہے ہیں لیکن نئے پیداواری رشتے ابھی اپنی واضح شکل میں نمودار نہیں ہوئے ۔ ایسے میں پرانے نظام سرمایہ داری کے ذرائع پیداوار پر قائم تمام سماجی ڈھانچے بھی شکست و ریخت کا شکار ہیں اور انتہائی تیز ترین تبدیلیوں سے گزر رہے ہیں ۔ انہی میں ایک انتہائی اہم ادارہ ریاست ہے۔ ان سماجی ڈھانچوں کی بنیاد تو اسی نظام کے ذرائع پیداوار ہیں اور ان کا آپس میں ایک جدلیاتی تعلق بھی موجود ہے لیکن پچھلے چند سو برسوں میں نظام سرمایہ داری کے اندر رہتے ہوئے ان ڈھانچوں نے اپنی آزادانہ حرکت کو بھی جنم دیا ہے اسی لئے ان کا تجزیہ و تناظر بنانے کے لئے جہاں ان کا ذرائع پیداوار سے تعلق دیکھنا انتہائی اہم ہے وہاں پر ان کی آزادانہ حرکت کا بغور جائزہ لینا بھی ضروری ہے۔ آج جب سرمایہ دارانہ نظام ایک بد ترین زوال سے دوچار ہے اس وقت سرمایہ دارانہ ریاست بھی بکھر رہی ہے اور بتدریج کمزور ہو رہی ہے۔ گلوبلائزیشن کے عہد میں مالیاتی سرمایہ ملکی حدود کو پھاڑ کر عالمی شکل اختیار کر چکا ہے اور آج کی معیشت ایک عالمی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ تمام عالمی تجارتی اورمعاشی ادارے محصولات اوردوسرے تمام سرحدی ٹیکسوں کو ختم کرنے کی تگ و دو میں مصروف ہیں اور پوری دنیا کو ایک منڈی بنانا چاہتے ہیں۔ لیکن اسی عالمی منڈی میں محنت کشوں پر جبر اور استحصال کو قائم رکھنے کے لئے ریاست اور ملکی حدود کی ضرورت اپنی جگہ پر موجود ہے ۔اسی جبر کے لئے سرمایہ دارانہ ریاست کے تمام ادارے جن میں فوج، عدلیہ، پولیس، بیوروکریسی اور دوسرے ادارے شامل ہیں کی ناگزیرضرورت ہے۔اس طرح عالمی سرمایہ دارانہ نظام خود ایک ایسے تضاد میں داخل ہو چکا ہے جہاں وہ ملکی حدود اور ریاست کو ختم کرنا چاہتا ہے لیکن دوسری جانب اس شدید ترین جبر اوربحران کی کیفیت میں جب دولت چند ہاتھوں میں مرتکز ہو چکی ہے ریاستی جبر کی ضرورت پہلے کی نسبت کئی گنا بڑے پیمانے پرمحسوس ہوتی ہے۔اس طرح یہ نظام ایک ہی وقت میں ریاست کو ختم بھی کرنا چاہتا ہے اور اسے مضبوط بھی۔ ان حوالوںسے آج کی ریاست ماضی کی سرمایہ دارانہ ریاست کی ہئیت سے مختلف ہے۔ اپنے جنم کے بعد سے ریاست مختلف شکلوں اور مراحل سے گزری تھی اور اب اپنی قبر میں جانے سے پہلے یہ مختلف مراحل سے گزرے گی ۔ اس کی حتمی منزل ایک مزدور ریاست ہے جب محنت کش طبقہ اقتدار پر قبضہ کر لے گا لیکن مزدور ریاست ایک ایسی ریاست ہے جو بقول لینن رفتہ رفتہ مٹتی جاتی ہے اور بالآخر اپنے اختتام کو پہنچ جاتی ہے۔ آج محنت کش طبقے اور سماج کی سوشلسٹ تبدیلی کے درمیان حائل سب سے بڑی رکاوٹ ایک بہت بڑی ریاستی مشینری ہے۔اس بارے میں جو سوالات ذہنوں میں ابھرتے ہیں وہ یہ ہیں کہ یہ کہاں سے آئی؟ اس کے کیا مقاصد ہیں؟ کیا اس کی اصلاح کی جا سکتی ہے یا اسے ختم ہی کرنا پڑے گا؟ اس کی جگہ کیا چیز لے گی یا کیا اسے کسی چیز سے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے؟لیکن اس سے پہلے یہ ہے کیا؟ ریاست پر اپنی تحریروں میں مارکس ، اینگلز ، لینن اور ٹراٹسکی نے ریاست کے اس تقدس پر سے پردہ ہٹایا جو حکمران طبقات اس کے گرد لپیٹتے ہیں۔انہوں نے اس نظریے کو فروغ دیا کہ ریاست کا وجود ہمیشہ سے نہیں تھا اور نہ ہی یہ ہمیشہ قائم رہے گی۔ انہوں نے بتایا کہ ریاست ایک ایسی خصوصی طاقت ہے جو سماج سے بالاتر کھڑی ہوتی ہے اور بتدریج اپنے آپ کو سماج سے بیگانہ کرتے ہوئے دور لے جاتی ہے۔ ”ریاست ازل سے ہی موجود نہیں تھی ۔بہت سے سماج دنیا میں اس کے بغیررہے ہیں ، جن میں ریاست یا ریاستی طاقت کا تصورناپید تھا۔ معاشی ترقی کے ایک مخصوص مرحلے پر ، جب سماج ناگزیر طو ر پر طبقات میں تقسیم ہو گیا، ریاست اس تقسیم کے باعث ضرورت بن گئی۔اب ہم تیزی سے پیداوار کے ایک ایسے مرحلے کی طرف بڑھ رہے ہیں جہاں نہ صرف طبقات کی ضرورت نہیں رہے گی بلکہ یہ پیداوار کی ترقی میں رکاوٹ بنیں گے۔ یہ اسی طرح ختم ہو جائیں گے جیسے یہ ابھرے تھے۔ ریاست بھی ان کے ساتھ ہی ختم ہو جائے گی۔ایک ایسا سماج جو پیداوار کو نئی بنیادوں پر استوار کرے گا جس میں پیدا کرنے والوں کی آپس میں آزاد اور برابر حیثیت ہو گی ، وہ سماج ریاستی مشینری کو وہیں پھینک دے گا جہاں سے اس کا تعلق ہو گا یعنی آثار قدیمہ کے عجائب گھر میں ، روئی کاتنے والے چرخے اور کانسی کے کلہاڑے کے ساتھ،،۔ ،، فریڈرک اینگلز، خاندان، ذاتی ملکیت اور ریاست کا آغاز،، آج حکمران طبقات قانون کے نام پر ہڑتال کی مخالفت کرتے ہیںاور محنت کش طبقے پر ہونے والے حملوں کو قانونی طور پر جائز قرار دیتے ہیں۔ اسی طرح مختلف آئینی دفعات کا حوالہ دے کر محنت کش طبقے کی محکومی کو قانونی جواز دیا جاتا ہے۔ یا پھر جمہوریت اور پارلیمنٹ کے تقدس کے الاپ گائے جاتے ہیں تا کہ سرمائے کی حکمرانی کو قائم رکھا جا سکے۔ نجی ملکیت کو ایک ازلی شے بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور اس کو ثابت کرنے کے لئے جھوٹی تاریخ لکھی اور پڑھائی جاتی ہے۔ ریاست کی کمزوری اور ناکامی کو عوام کا مسئلہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور اس کو مضبوط بنانے کے لئے عوام سے مدد کی اپیل کی جاتی ہے۔ لیکن درحقیقت پارلیمنٹ، عدلیہ، سرمایہ دارانہ جمہوریت، بیوروکریسی اور کُل ریاست کا مقصد محنت کش طبقے کی محکومی اور استحصال کو جاری رکھنا ہے۔ جب تک طبقاتی نظام موجود ہے ریاست حکمران طبقات کی حکمرانی کو قائم رکھنے کے لئے ایک اہم ہتھیار کے طور پر استعمال ہوتی رہے گی۔ در حقیقت ریاست منظم تشدد کا ایک ایسا آلہ ہے جسے کسی بھی ملک کا حکمران طبقہ اپنی حکمرانی کو قائم رکھنے کے لئے استعمال کرتا ہے۔اس لئے صرف متضاد طبقات پر مبنی سماج میں ہی ریاست قائم رہ سکتی ہے۔ لینن ریاست اور انقلاب میں لکھتا ہے، ”ریاست ناقابل حل طبقاتی تضادات کی پیداوار(product)اور اظہار (manifestation)ہے۔ ریاست اس وقت ابھرتی ہے جب اور جہاںطبقاتی تضادات معروضی طور پر حل نہ کئے جا سکتے ہوں۔اور اس کے الٹ دیکھا جائے تو ریاست کا وجود ثابت کرتا ہے کہ طبقاتی تضادات ناقا بل حل ہیں۔،، سرمایہ دارانہ نظام میں تشدد کے ایک ایسے آلے کی ضرورت کہیں گنا زیادہ بڑھ جاتی ہے جب قانونی چوری کے حالات کو قائم رکھنا ضروری ہو جاتا ہے کیونکہ یہی سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد ہے۔ریاست کو درحقیقت بورژوا سماج کے تضادات سے بالا نظر آنا ہوتا ہے ۔ اپنی کتاب ،خاندان، ذاتی ملکیت اور ریاست کاآغاز‘ میں اینگلز لکھتا ہے، ” جب سرکاری اہلکاروں کے پاس عوامی طاقت اور ٹیکس لگانے کا اختیار آجاتا ہے تو یہ اہلکار اپنے آپ کو سماج کے ایسے حصے کے طور پر پیش کرتے ہیں جو سماج سے بالا ہو۔۔۔ایک ایسی طاقت کے نمائندے جو اپنے آپ کو سماج سے دور کر لیتی ہے ۔ اس لئے انہیں خصوصی فیصلوں کے ذریعے ایسا رتبہ دیا جاتا ہے جو انہیں پر کشش تقدس اور عزت دیتا ہے۔ ایک مہذب ریاست کا نچلے ترین درجے کا پولیس اہلکار قدیم قبائلی زمانے کے تمام حصوں کی مجموعی اتھارٹی سے زیادہ اختیارات رکھتا ہے لیکن ایک طاقتور ترین بادشاہ اور عظیم ترین وزیر اعظم یا صدر بھی قدیم قبائلی سماج کے عاجز ترین قبائلی سردارکی اس عزت پر رشک کر سکتے ہیں جو بغیر کسی طاقت کے اس کے پاس ہوتی ہے اور جس پر کوئی سوال نہیں اٹھایا جا سکتا۔ کیونکہ قدیم قبائلی سردار سماج کے درمیان کھڑا ہوتا ہے جبکہ مہذب دور کے ریاستی رہنما سماج کے باہر اور اس سے بالا ہوتے ہیں،،۔ سرمایہ دارانہ نظام میں جہاں محنت کش طبقے کا شدید استحصال ہوتا ہے وہاں اس استحصال کو قائم رکھنے کے لئے ریاست اور اس کے اداروں کا مضبوط ہونا بھی نا گزیر ہو جا تا ہے ۔ اسی لئے پولیس، بیوروکریسی، فوج، عدلیہ اور پارلیمنٹ کے مختلف اداروں کو قائم کیا جاتا ہے تاکہ ان کے ذریعے اس طبقاتی نظام کو جاری رکھا جا سکے۔آئین اور قوانین بنائے جاتے ہیں ، قومی مفاد کا نظریہ پروان چڑھایا جاتا ہے جو درحقیقت حکمران طبقے کا مفاد ہوتا ہے، حب الوطنی کا جذبہ ابھارا جاتا ہے جبکہ وطن صرف حکمرانوں کا ہوتا ہے، حکمران طبقے کو سچا ثابت کرنے کے لئے ایک جھوٹی تاریخ لکھی جاتی ہے جسے مختلف دانشوروں کے ذریعے مسلط کیا جاتا ہے ۔ تعلیمی نصاب بھی اس طرز پر بنایا جاتا ہے جو حکمران طبقات کے نظریات اور مفادات کا تحفظ کر سکے۔ غرض ریاست کے ہر ادارے‘ ہر شعبے اور ہر حصے کا بنیادی فریضہ حکمران طبقات کے مفادات کا تحفظ ہوتا ہے۔ ”ریاست ہمیشہ ایک ایسا ڈھانچہ رہی ہے جو سماج سے علیحدہ ہوتی ہے اور لوگوں کے ایسے گروہ پر مبنی ہوتی ہے جو صرف اور صرف حکمرانی کریں۔لوگو ں کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا جاتا ہے ، ایک طرف محکوم ہوتے ہیں اور دوسری طرف وہ جو حکمرانی کرنے کی مہارت رکھتے ہیں۔وہ جو سماج سے بلند ہو جاتے ہیں انہیں حکمران کہتے ہیں، ریاست کے نمائندے۔ یہ ڈھانچہ اور لوگوں کا یہ گروہ جو دوسروں پر حکمرانی کرتا ہے ہمیشہ ایک ایسے ڈھانچے کی سربراہی کرتا ہے جوفزیکل طاقت اور جبر پر مبنی ہو ۔۔۔ اور جو آج بیسویں صدی میں جدید ہتھیاروں پر مبنی ہے اوراس کی بنیاد جدید ٹیکنالوجی کی نئی کامیابیاں ہیں۔،،۔ ،، لینن، ریاست، مجموعہ تصانیف، جلد اناتیس، صفحہ چار سو ستہتر ،،۔ ،، سرمایہ دارانہ ریاست کی مختلف شکلیں مختلف ممالک کی ریاست مختلف مراحل سے گزری ہے اور خاص طور پر نوآبادیاتی اور ترقی پذیر ممالک میں جہاں سرمایہ دارانہ نظام تاخیر سے اور سامراجی غلبے کے بعد نمودار ہوا وہاں کی ریاست وہ مراحل طے نہیں کر پائی جو ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک کی ریاست نے طے کیے تھے۔ ترقی یافتہ ممالک کے اندر ریاست کو مکمل ہونے کے لئے ایک لمبا وقت ملا ۔ ٹیڈ گرانٹ لکھتا ہے، ”بورژوا ممالک میں ماضی میں ، جہاں بورژوازی ایک کردار ادا کر رہی تھی اور مستقبل کی طرف اعتماد سے دیکھتی تھی یعنی جب وہ ذرائع پیداوار کو بڑھوتری دینے میں حقیقتاً ترقی پسند تھی، اس کے پاس ریاست کو اپنی طبقاتی حکمرانی کے آلے کے طور پر بہتر بنانے کے لئے کئی دہائیاں اور نسلیں موجود تھیں۔ فوج، پولیس، سول سروس، درمیانی پرتیں اور خاص طور پر اعلیٰ عہدے جن میں سول سروس کے سربراہان،محکموں کے سربراہ،پولیس کا سربراہ، افسران اور خصوصی طور پر کرنل اور جنرل انتہائی احتیاط کے ساتھ چنے جاتے تھے تاکہ وہ حکمران طبقات کے مفادات اور ضرورتوں کاتحفظ کر سکیں۔ایک ابھرتی ہوئی معیشت میں وہ بہت خوشی سے ”قومی مفاد“ میں اپنی خدمات پیش کرتے ہیں یعنی حکمران طبقے کے مفاد میں“۔ٹیڈ گرانٹ، نوآبادیاتی انقلابات اور مسخ شدہ مزدور ریاست، صفحہ ایک،،۔،، جدید ترقی یافتہ ممالک میں سرمایہ دارانہ انقلابات اور ان کے سامراجی کردار کے باعث وہاں کے حکمران طبقے کو لوٹ مار کرنے کے وسیع مواقع میسر آئے جس کے باعث وہ اپنے ممالک کے لوگوں کو بہتر معیار زندگی دینے میں کامیاب ہوئے اس میں بنیادی کردار ان ممالک میں ہونے والے محنت کش طبقے کے انقلابات اور بغاوتیں تھیں جنہوں نے اپنے حقوق آگے بڑھ کر چھینے اور بہتر معیار زندگی پر اپنے حق کو منوایا۔اس حوالے سے مختلف ممالک میں فلاحی ریاست وجود میں آئی جس نے بڑے پیمانے پر لوگوں کو تعلیم، صحت، روزگاراور دوسری بنیادی سہولیات فراہم کیں۔یہ فلاحی ریاستیںاور ان کا کردار سرمایہ دارانہ ہی تھا جو بنیادی طور پر ایک جبر کا آلہ ہی ہے۔لیکن محنت کش طبقے کی تحریک کے خوف سے ان ریاستوں کو مراعات دینی پڑیں۔ ان میں سکینڈے نیویا کے ممالک سر فہرست ہیں۔اس فلاحی ریاست سے بائیں بازو کے بہت سے لوگوں میں یہ سوچ بھی پروان چڑھی کہ سرمایہ دارانہ نظام کے اندر رہتے ہوئے اصلاحات کے ذریعے ریاست کے کردار کو بدلا جا سکتا ہے۔ جبکہ درحقیقت ان فلاحی ریاستوں کا بنیادی کردار کبھی تبدیل نہیںہوا اور سماجی اورپیداواری رشتے سرمایہ دارانہ استحصال پر مبنی ہی رہے۔ نجی ملکیت کا قانون، فوج، بیوروکریسی ، عدلیہ اور دوسرے تمام ادارے سرمایہ دارانہ بنیادوں پر ہی قائم رہے اور امیر اور غریب کا فرق نہ صرف قائم رہا بلکہ مسلسل بڑھتا رہا۔ اس لئے وہاں پر امیر اور غریب کے درمیان بھی اتنی ہی خلیج ہے جتنی پسماندہ ممالک میں ہے۔ لہٰذا یہ ریاستیں بظاہر تو مزدوروں کی فلاح وبہبود کر رہی تھیں، مزدوروں کے لئے روزگار کا تحفظ موجود تھا اور تمام شہری حقوق بھی اعلیٰ سطح پر حاصل تھے لیکن ریاست کا بنیادی کردار کبھی بھی تبدیل نہیں ہوا وہ اپنی حقیقت میں ایک جبر کا آلہ ہی تھی۔ صرف سرمایہ دارانہ نظام کے وقتی عروج کے باعث اس کے نوکیلے دانت اور ان سے لگا خون کچھ وقت کے لئے نظروں سے اوجھل ہو گیا تھا۔ اب جیسے ہی عالمی سطح پر مالیاتی بحران کا آغاز ہوا ہے یہ نوکیلے دانت محنت کشوں کا خون چوسنے کے لئے واپس منظر پر آگئے ہیں اور دوبارہ محنت کشوں پر ٹیکس لگائے جا رہے ہیں، ان سے پنشن کا حق چھینا جا رہا ہے اور علاج اور تعلیم جیسی بنیادی سہولتیں اتنی مہنگی ہوگئی ہیں کہ مزدوروں کے لئے بیمار ہونا اور تعلیم حاصل کرنا عیاشی بن گیا ہے۔ اسی طرح بہت سے ممالک میں ہمیں بادشاہتیں نظرآتی ہیں، کہیں مذہبی بنیاد پرست قدیم طرز کا حکومتی ڈھانچہ قائم کئے بیٹھے ہیں لیکن ان سب ممالک میں موجود نظام بنیادی طور پر سرمایہ دارانہ ہے ۔اور یقیناً وہاں موجود اداروں کے نام مختلف ہیں لیکن وہاں پر ریاست بنیادی طور پر سرمایہ دارانہ ہی ہے اور ایک جبر کے آلے کے طور پر ہی استعمال ہوتی ہے۔ ”انسانی سماج کی تارےخ مےں طبقاتی حکمرانی کے مختلف طرےقے ملتے ہےں ۔ سرمایہ دارانہ سماج مےں تو خاص طورپر یہ درست ہے جہاں آپ کو رےپبلک، بادشاہت، فاشزم، جمہورےت، آمرےت، بوناپارٹسٹ، وفاقی اور مرتکز ہر قسم کے نمونے مل سکتے ہےں،،۔،، ٹیڈ گرانٹ، ان ٹوٹ دھارا،، نو آبادیاتی اور پسماندہ ممالک کی ریاست بر صغیر اور بہت سے دوسرے نوآبادیاتی خطوںمیں سماج اس کلاسیکی سرمایہ دارانہ طرز پر آگے نہیں بڑھا جس طرز پر وہ یورپ میں آگے بڑھا تھا۔ بر صغیر بھی غلام داری اورجاگیر داری کے ادوار سے نہیں گزرا بلکہ یہاں پر ایشیائی طرز پیداوار موجود رہی جو خود مختلف مراحل سے گزرتی رہی۔ یہاں جاگیر داری اور سرمایہ داری نظام کو برطانوی سامراج نے مسلط کیا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکمرانی میں یہاں ٹیلی گرام اور ریل کی لائنیں بچھائی گئیں جنہوں نے کافی حد تک ایشیائی طرز پیداوار کو ختم کر کے نئے پیداواری رشتوں کو متعارف کروایا لیکن اس کے باوجود یہاں کبھی بھی صحت مند جاگیر دارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام نہیں آسکا۔ ٹراٹسکی نے اپنے مشترکہ اور ناہموار ترقی کے قانون میں اس کی وضاحت کی تھی کہ یہاں کبھی بھی کلاسیکی سرمایہ دارانہ نظام نہیں آسکتا ۔ ان نو آبادیاتی اور تیسری دنیا کے کئی ممالک میں سرمایہ دارانہ نظام انقلابات کی بجائے مصالحتوں اور سمجھوتوں کے ذریعے آیا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد بہت سے ممالک سے سامراجی طاقتیں اس لئے بھی پسپا ہو گئیں کیونکہ وہاں ان میں اتنی سکت نہیں تھی کہ اپنا تسلط مزید قائم رکھ سکتیں۔ ایسی صورتحال میںان نئے ممالک میں بر سر اقتدار آنے والاسرمایہ دار طبقہ اپنے جنم سے ہی سامراج کا غلام تھا اور کوئی ترقی پسندانہ کردار ادا نہ کر سکا اور نہ ہی اس میں اتنی اہلیت تھی کہ ذرائع پیداوار کو ترقی دے سکے ۔ ان ممالک میں قومی جمہوری انقلاب کا ایک بھی فریضہ پور ا نہ کیا جا سکا۔ ان فرائض میں زرعی اصلاحات، آزاد پارلیمانی نظام کا قیام اور ریاست کی مذہب سے علیحدگی بنیادی اہمیت کے حامل تھے۔ ان نوآبادیاتی اور ترقی پذیر ممالک کے حکمران طبقات نے جس ریاست کو قائم کیا وہ بھی ترقی یافتہ ریاستوں کے مقابلے میں مختلف تھی۔ ترقی یافتہ ممالک کی ریاست اس وقت سامراج کا روپ دھار چکی تھی اور اپنا تسلط عالمی منڈی پر قائم کر چکی تھی۔ ایسی صورتحال میں نو آبادیاتی اور پسماندہ ممالک کی بورژوازی معاشی او رسیاسی طور پر صرف سامراجی آقاو¿ں کی گماشتگی کا کردار ہی ادا کر سکتی تھی۔ اس صورتحال نے جاگیر داروں ، نا اہل سرمایہ داروں ، قدیم طرز پیداوار کی باقیات اور سامراجیوں پر مشتمل حکمران طبقے کے ایک دوسرے پر منحصر دلچسپ امتزاج کی حیرت انگیز اکائی کو جنم دیا۔،، ٹیڈ گرانٹ لکھتا ہے، ”بینکوں نے زمینوں پر قرضے دیے ہوئے ہیں، صنعتکاروں کی دیہاتوں میں جاگیریں ہیں، جاگیر دار صنعتوں میں سرمایہ کاری کرتے ہیں اور یہ سب آپس میں جڑا ہو اہے اور اس سب کا تعلق سامراج سے ایک ایسے مفادات کے جالے میں ہے جو تبدیلی کے خلاف ہے،،۔ انہی وجوہات کی بنا پر ان ممالک میں قائم ہونے والی ریاستیں بھی مختلف غیر ترقی یافتہ شکلوں کی حامل رہی ہیں۔ سرمایہ دار طبقے کی نا اہلی اور کمزوری کے باعث ریاستی ادارے زیادہ طاقتور ہو گئے اور خاص طور پر فوج کی اعلیٰ قیادت کو سماج میں موجودبے چینی اور تذبذب کے نتیجے میںکسی حد تک آزادانہ حرکت کرنے کا موقع ملا اسی لئے ان ممالک میں ہمیں فوجی بغاوتیں اور ان بغاوتوں کے خلاف تحریکیں نظر آتی ہیں ۔ لیکن آخری تجزیے میں یہ تمام حرکت حکمران طبقے کے مفادات کے زیر اثر ہوتی ہے ۔ اور ریاستی ادارے سماج سے کتنے ہی بلند کیوں نہ ہوں ان کی مکمل آزادانہ حرکت ممکن نہیں بلکہ وہ حکمران طبقے کے مفادات کے زیر اثر ہی ہوتے ہیں۔ چین میں چیانگ کائی شیک نے جب شنگھائی کے محنت کش طبقے کو وہاں کے جرائم پیشہ گروہوں سے مل کر تباہ کر دیا اس وقت بینکاروں کی خواہش تھی کہ وہ اس کے لئے بڑی بڑی دعوتیں کریں اور اس تہذیب کی بقا کے ہیرو کے طور پر سامنے لائیں۔لیکن چیانگ کو اس وقت اپنے آقاو¿ں سے تعریف سے بڑھ کر کچھ چاہئے تھا۔اس نے شنگھائی کے تمام امیر سرمایہ داروں اور بینکاروں کی تذلیل کرتے ہوئے انہیں جیل میں ڈال دیا اور انہیں رہا کرنے سے پہلے ان سے لاکھوں روپے تاوان کی مد میں وصول کئے۔اس نے ان کا کام کیا تھا اور اب وہ قیمت وصول کر رہا تھا۔اس نے شنگھائی کے محنت کشوں کو سرمایہ داروں کے فائدے کے لئے تباہ نہیں کیا تھا بلکہ اپنی طاقت اور وہاں کے جرائم پیشہ گروہوں کو مضبوط کرنے کے لئے ایسا کیا تھا۔ لیکن جیل میں پڑے ہوئے وہ بینکار پھر بھی حکمران طبقے سے تعلق رکھتے تھے خواہ ان کے پاس سیاسی طاقت نہیں تھی۔ چین کے سرمایہ دار طبقے کو یقیناً ایک پیچیدہ مرحلے سے گزرنا پڑا جب ان کے طبقے کے لوگ جیلوں میں تھے اور انہیں قدر زائد کا ایک بڑا حصہ اپنے ہی محافظوں کو دینا پڑ رہا تھا۔ بہت سے ممالک میں فوجی بغاوتوں کے بعد ایسی صورتحال ابھر کے سامنے آئی ہے۔ ایسے حالات میںسرمایہ دار طبقے کے پاس سیاسی طاقت نہیں رہتی اور سماج پر ننگی طاقت کا راج ہوتا ہے۔قدر زائد کا بڑا حصہ اعلیٰ فوجی اہلکار وں کے حصے میں چلا جاتا ہے۔لیکن ان اہلکاروں کا مفاد اسی میں ہوتا ہے کہ محنت کشوںکا استحصال جاری رہے اور سرمایہ دار ان کی محنت سے جتنا زیادہ نچوڑ سکیں اتنا ہی بہتر ہے۔ اسی لئے وہ نجی ملکیت کو بھی تحفظ دیتے ہیں۔ اسی لئے ایسی صورتحال میں بھی سرمایہ دار ہی حکمران طبقہ ہوتا ہے۔ اس وقت ریاست کا حکمران طبقے سے تعلق جدلیاتی اور متضاد ہوتا ہے۔ ”سرمایہ دارانہ سماج میں ، یا کسی بھی طبقاتی سماج میں ، بالائی پرت کتنی ہی مراعات یافتہ کیوں نہ ہو وہ ریاست کے آلے کو حکمران طبقے کے تحفظ کے لئے استعمال کرتے ہیں جس طبقے کا ذرائع پیداوار سے براہ راست تعلق ہو ، یعنی جو ان کی ملکیت رکھتا ہو۔ ہم جانتے ہیں کہ نپولین کس کی نمائندگی کرتا تھا۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ لوئی نپولین، بسمارک، چیانگ کائی شیک، ہٹلر، چرچل اور ایٹلی کس کی نمائندگی کرتے تھے۔۔۔ریاست طبقاتی حکمرانی کا ایک آلہ ہے، ایک جبر کا آلہ ایک بہت اعلیٰ پولیس والا۔ لیکن پولیس والا حکمران طبقہ نہیں ہے۔پولیس اپنے اختیارات سے تجاوز کر سکتی ہے، ڈکیتی کر سکتی ہے، لوٹ مار کر سکتی ہے لیکن ایسا کرنے سے وہ سرمایہ دار، جاگیر دار یا غلاموں کا مالک طبقہ نہیں بنتی“۔ ٹیڈ گرانٹ، ان ٹوٹ دھارا، صفحہ نمبر دو سو چھتیس ،،۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فوج ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ریاست آخری تجزیے میں مسلح گروہوں کا منظم اظہار ہوتی ہے۔ لیکن ریاست فوج کے علاوہ بھی بہت کچھ ہوتی ہے۔ فوج ریاست کو بزور طاقت قائم رکھنے کا ایک ذریعہ ہے۔سامراجی ممالک میں فوج کا کردار اور بھی اہم ہو جاتا ہے جب دوسری منڈیوں پر قبضہ کرنے اور اپنا تسلط قائم رکھنے کے لئے طاقت کا استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن ترقی پذیر ممالک میں سرمایہ دار طبقے کی کمزوری کے باعث فوج کی طاقت جو ریاست کو قائم رکھنے کے لئے ضروری ہوتی ہے وہ بسا اوقات اقتدار پر بھی قابض ہو جاتی ہے۔ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک میں عموماًذرائع پیداوار کبھی بھی مستقل مزاجی اور بغیر کسی رکاوٹ کے مسلسل آگے نہیں بڑھتے ۔ پیداوار ٹھہراو¿ کا شکار ہو جاتی ہے اورگر جاتی ہے۔ عالمی سطح پر آنے والے معاشی بحران چھوٹی معیشتوں میں بربادیوں کا طوفان لے آتے ہیں ۔ ایسے میںسرمایہ دارانہ بنیادوں پر کوئی حل موجود نہیں ہوتا۔ اسی لئے بہت سے نوآبادیاتی ممالک میں ہمیں فوجی حکمرانوں کی وحشت ناک حکومتیں نظر آتی ہیں جن میں چلی، انڈونیشیا، ارجنٹینا اور زائرے جیسے ممالک شامل ہیں۔ لیکن سنگینوں کے سائے تلے ایک فرسودہ اور ناکارہ نظام کو زیادہ عرصے تک نہیں کھینچا جا سکتا اور یہ ایک عارضی سہارا ہوتا ہے۔ ایسی حکومتوں میں سماجی بے چینی میں اضافہ ہوتا اور محنت کش طبقے کی مزاحمت بڑھتی ہے۔اس کا اظہارفوج کے اندر ان حکمران جرنیلوں کے خلاف مختلف بغاوتوں میں بھی ہوتا ہے۔ فوج دراصل سماج کا ایک آئینہ ہے جو سماج میں موجود تضادات کی عکاسی کرتا ہے۔ ”فوج کے مختلف گروہوں میں لڑائی سماج میں موجود عدم استحکام اور تضادات کی عکاسی کرتی ہے۔ جرنیلوں کے ذاتی عزائم مختلف سماجی طبقات یا پھر ایک ہی طبقے کے مختلف حصوں کے مفادات کی عکاسی کرتے ہیں۔ پیٹی بورژوازی کے مختلف حصے، بورژوازی یا پھر بعض مخصوص حالات میں پرولتاریہ ۔فوجی افسران کے گروہ کے لئے لازمی ہے کہ وہ سماج کے کسی طبقے یا کسی حصے کی عکاسی کرے۔ وہ اپنے آپ کی نمائندگی نہیں کرتے گو وہ سماج کی لوٹ مار کر سکتے ہیں یا پھر اپنے آپ کو حکمران گروہ بنا سکتے ہیں۔ لیکن کسی بھی سماج میں ان کے لئے طبقاتی بنیادیں ہونا لازمی ہے،، ۔ ٹیڈ گرانٹ، ان ٹوٹ دھارا، صفحہ نمبر تین سو بتالیس،،۔ اس میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ کیسے حکمران طبقہ جب سماجی اور معاشی بحران کا شکار ہوتا ہے تو طبقے کی حکمرانی کی شکل تبدیل کرتا ہے لیکن محنت کش طبقے کا استحصال اور سرمائے کی حکمرانی جاری رہتی ہے۔ پاکستان کی بھی باسٹھ سالہ زندگی میں فوج کا کردار انتہائی اہم رہا ہے اور اس کی نصف زندگی کے دوران فوج براہ راست اقتدار پر قا بض رہی ہے۔ سرمایہ دار طبقے کی حکمرانی تو یہاں موجود ہے لیکن اپنی کمزوری کے باعث اسے نہ صرف قدر زائد میں سے بہت بڑا حصہ فوج کو دینا پڑتا ہے بلکہ سامراجی قرضوں کی مد میں آنے والی رقم کا ایک بڑا حصہ بھی فوج کے پاس ہی جاتا ہے۔اس کے علاوہ فوج ایک ادارے کے طور پر خود معیشت کے ایک بڑے حصے کی مالک بن چکی ہے۔پاکستان کی فوج آج ایک جنگ لڑنے والے ادارے کی جگہ ایک بہت بڑی کارپوریشن بن چکی ہے جو سیاسی اور معاشی میدان میں اپنا تسلط قائم رکھنے کے لئے مسلسل بر سر پیکار ہے۔ پاکستان میں سامراجی طاقتوں کی موجودگی اور ان کی براہ راست حکمرانی کی وجہ سے اس سیاسی اور معاشی میدان میں فوج کا سامراج سے ٹکراو¿ بھی موجود ہے۔ایسے میں حکمرانی تو سرمایہ دارطبقے کی ہی ہے لیکن اپنے تاریخی خصی پن کی وجہ سے اس طبقے کو حکمرانی کے لئے فوج کی عسکری طاقت کی ضرورت رہتی ہے ۔سرمایہ د ار طبقے کی اسی کمزوری کے باعث آج فوج کی سیاست، معیشت اور اقتدار کے ایوانوں میں مداخلت فیصلہ کن حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ آج جتنے بڑے پیمانے پر معیشت بحران کا شکار ہے اور پورا نظام تباہی کے کنارے پر پہنچ چکا ہے ایسے میں حکمران طبقے میں تضادات ابھرنا ناگزیر ہے۔سرمایہ دار طبقے میں ابھرنے والے تضادات کا واضح اظہارفوج کے اندر موجود مختلف دھڑوں میں ہوتا ہے ۔ اس کے علاوہ پیٹی بورژوا طبقہ بھی پاکستان میں تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ اس طبقے کی ہر ممکن کوشش ہے کہ وہ اوپر کی جانب سفر کرے لیکن حالات کا دباو¿ اور معاشی بد حالی اسے نیچے جانے پر مجبور کر رہی ہے۔ایسے میں یہ طبقہ بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور اس کا اظہار مختلف رجعتی تحریکوں اور سیاسی انتشار کی شکل میں ہو رہا ہے۔ فوج کے اندر موجود مختلف تضادات اور گروہوں میں اس پیٹی بورژوا طبقے کے مفادات کی عکاسی بھی نظرآتی ہے۔ فوج کے اندر بھرتی ہونے والے کمیشنڈ افسران کی اکثریت کا تعلق پیٹی بورژوا طبقے سے ہوتا ہے جبکہ ان میں سے کچھ تعداد فوج کے اعلیٰ جرنیلوں کی اولاد یا رشتے داروں میں سے ہوتی ہے۔ اسی بنا پر پیٹی بورژوا طبقے کی عمومی نفسیات کے اثرات فوج پر بھی نظر آتے ہیں ۔ دوسری طرف فوج میں بھرتی ہونے والے سپاہیوں اور نان کمیشنڈ یا جونئیر کمیشن ملازمین کا تعلق شہروں کے محنت کش طبقے سے ہوتاہے جبکہ اکثریت دیہاتوں سے آنے والے غریب کسانوں کی اولاد ہوتے ہیں۔ اس وقت آئی ایس آئی پاکستانی فوج اور ریاست میں ایک اہم کردار حاصل کر چکی ہے ۔ گو اس کے اندر مختلف گروہ موجود ہیں جن کے آپس میں بھی اختلافات ہیں لیکن آئی ایس آئی کی عمومی نفسیات پر پیٹی بورژوا خیالات اور نفسیات کی چھاپ واضح نظر آتی ہے جس میں اس کا مذہبی جنونی عناصر کی حمایت کرنا بھی شامل ہے۔ آئی ایس آئی کی مسلم لیگ اور جماعت اسلامی کی حمایت کی بڑی وجہ بھی یہی ہے کہ ان پارٹیوں کی سماجی بنیادیں پیٹی بورژوازی میں ہیں۔اسی طرح سرمایہ دار طبقے کا ایک بڑا حصہ اپنے مفادات امریکہ اور دوسرے یورپی سامراجی ممالک سے بہتر تعلقات کے ذریعے حاصل کرنا چاہتا ہے جس کا اظہار ہمیں فوج کے امریکہ نواز اور برطانیہ نواز دھڑے میں کسی حد تک نظر آتا ہے۔ پاکستان کے اندر موجود سماجی اور معاشی شکست و ریخت کے باعث کوئی بھی طبقہ یکساں (homogenous)نہیں اور نہ ہی کسی بھی ایک طبقے کو ایک مکمل بلاک کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ اسی لئے ہمیں سرمایہ دار طبقے اور پیٹی بورژوا طبقے میں مختلف دھڑے اور گروہ نظر آتے ہیں ۔ گو فوج میں موجود دھڑے بندیوں کا ان کے ساتھ براہ راست تعلق موجود نہیں لیکن مختلف پالیسیوں کی بنا پر سماج میں ہونے والی تبدیلیوں اور مختلف طبقات کی بننے والی عمومی نفسیات کی چھاپ آئی ایس آئی اور فوج کے اندر موجود مختلف دھڑوں میں نظر آتی ہے۔ فوج کے اندر امریکہ نواز اور برطانیہ نواز دھڑے کے علاوہ چین نواز اور دوسرے دھڑے بھی موجود ہیں جو سرمایہ دار طبقے کے مختلف گروہوں کی خواہشات کی عکاسی کرتے ہیں۔ا سی طرح پیٹی بورژا طبقے کے اندر موجود مختلف تضادات کی عکاسی بھی آئی ایس آئی اور دوسرے اداروں کے اندر ہونے والی لڑائیوں میں ہوتی ہے۔ حال ہی میں ہونے والے بہت سے واقعات سے ثابت ہوا ہے کہ ریاست پر اس وقت اصل حکمرانی آئی ایس آئی کی ہے ۔ جب پیپلزپارٹی کی موجودہ حکومت نے سامراجی احکامات کے تحت آئی ایس آئی کے کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم میں تبدیلی کی کوشش کی اور اسے وزارت داخلہ کے تحت لینے کا حکم نامہ جاری کیا تو اسے چو بیس گھنٹوں کے اندر واپس لے لیا گیا۔ اس سے اس بات کو مزید تقویت ملی کہ یہ ادارہ پہلے کی نسبت اب کہیں زیادہ طاقتور ہو چکا ہے۔ آئی ایس آئی کا قیام تو انیس سو سنتالیس میں ہی ہو گیا تھا لیکن اس کے سیاسی کردار کا تعین ایوب دور میں کیا گیا اور اس کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کے پانچ سالہ دور اقتدار میں اس کو بڑھایا گیا۔ اس سیاسی کردار کو ایک نوٹیفیکیشن کے ذریعے شروع کیا گیا جو ابھی تک موجود ہے اور جسے تمام کوششوں کے باوجود ابھی تک واپس نہیں لیا جا سکا۔ انتظامی حوالے سے یہ خفیہ ایجنسی کبھی بھی سویلین کنٹرول میں نہیں رہی اس کے باوجود کے ملک کا وزیر اعظم آئی ایس آئی کے سربراہ کو مقرر کرتا ہے اور اس کے ڈائریکٹر جنرل کو براہ راست سربراہ حکومت کو رپورٹ کرنا ہوتا ہے۔ آئی ایس آئی کے سیاسی کردار کے باعث اسے اندرونی طور پر تقویت ملی۔ یہ سیاسی پارٹیوں، سیاستدانوں اور عام شہریوں پر نظر رکھ سکتی تھی جس کے باعث یہ سیاسی فیصلہ سازی اور پالیسیوں کی سمت کے تعین میں کردار ادا کر سکتی تھی۔ انیس سو ستہتر سے انیس سو آٹھاسی کے دورانیے میں ضیاءالحق نے بھٹو حکومت میں تخلیق کیے گئے ملٹری کے کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کو مکمل طور پر تبدیل کر دیا۔ اسی کی دہائی میں پہلی افغان جنگ کے دوران اس خفیہ ایجنسی کو مزید طاقت ملی۔ اس کے پاس مختلف افغان قبائلی سرداروں کے ساتھ تعلق قائم کرنے اور انہیں مالیاتی اور دوسرے ذرائع بہم پہنچانے کا مکمل اختیار تھا۔ اس ادارے کے اختیارات اس وقت کم کرنے کی کوشش کی گئی جب بینظیر بھٹو نے حمید گل کی جگہ ریٹائرڈ آرمی جنرل کلو کو آئی ایس آئی کا ڈائریکٹر جنرل مقرر کیا۔ لیکن یہ منصوبہ کارگر ثابت نہ ہوا۔اخباری رپورٹس کے مطابق کلو کو اس کی اپنی ہی تنظیم نے اطلاعات دینے سے انکار کر دیا۔ آئی ایس آئی کا ڈائریکٹر جنرل ہمیشہ آرمی کا جنرل ہی ہوتا ہے اور دوسرے دو شعبوں میں سے کبھی نہیں لیا گیا۔ یقینی طور پر ایسے لوگ موجود ہیں جو ادارے کے رازوں کو سینوں میں دبائے ہوئے ہیں اور خفیہ طور اپنی کاروائیاں کرتے ہیں۔ اخباری ذرائع کے مطابق اعلیٰ انتظامیہ ستر فیصد فیصلے خود لیتی ہے جبکہ بقایا تیس فیصد فیصلے مقامی کمانڈروں کے سپرد ہوتے ہیںجو لائحہ عمل کی نوعیت کے فیصلے کرتے ہیں۔ پچھلے عرصے میں آئی ایس آئی کے ڈھانچے مرکزی اور صوبائی سطح سے اب ضلع اور تحصیل کی سطح تک پھیل چکے ہیں۔ درحقیقت نو گیارہ کے بعد آئی ایس آئی کی بہت سی ذمہ داریاں ملٹری انٹیلی جنس ایم آئی کو دی گئیں جس کے باعث دونوں اداروںمیں تلخیاں بھی بڑھیں۔ انہی ذمہ داریوں کی تقسیم میں بلوچستان کے اندر آئی ایس آئی کو کوآرڈینیشن کی ذمہ داری دی گئی جبکہ ایم آئی کو نواب اکبر بگٹی کیخلاف آپریشن کی ذمہ داری دی گئی جس کا انجام نواب اکبر بگٹی کی ہلاکت پر ہوا۔ اس بات پر بھی بہت سے لوگوں کے تحفظات موجود ہیں کہ فوج کا سربراہ آئی ایس آئی کی قیادت کرتا ہے کیونکہ حال ہی میں آنے والی رپورٹس کے مطابق اس ایجنسی کے بہت سے لوگوں نے اپنے تئیں جرائم پیشہ لوگوں کی پشت پناہی کر کے مختلف عسکری تنظیمیں بنائی ہیں۔اپنے اقتدار کے آخری سالوں میں مشرف نے اس خیال کو پروان چڑھایا کہ حمید گل جیسے آئی ایس آئی کے سابق سربراہا ن مسلح جتھوں کی حمایت کر رہے ہیں۔ عائشہ صدیقہ نے فروری دو ہزار نو کے نیوزلائن کے شمارے میں اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ، ”آئی ایس آئی کی طاقت کی ایک اہم وجہ اس کی مالیاتی آزادی ہے ۔ آج تک اس ایجنسی کے مکمل سالانہ اخراجات کی کوئی رپورٹ موجود نہیں۔جو تھوڑے بہت تخمینے موجود ہیں وہ اس ایجنسی کی حقیقی مالیاتی سرگرمیوں کا کوئی اندازہ نہیں دے سکتے جس میں بہت سے منشیات کے بڑے تاجر اس کو مالیاتی معاونت فراہم کرتے ہیں۔ نواز شریف نے ایک دفعہ اپنے بیان میں کہا تھا کہ جنرل بیگ اس کے پاس آئے اور ایک منشیات کی اسمگلنگ کی ڈیل کرنے کی اجازت طلب کی تا کہ آئی ایس آئی کے ایک خفیہ پراجیکٹ کو رقم فراہم کی جا سکے۔۔۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ گزشتہ کچھ سالوں سے آئی ایس آئی نے میڈیا میں بھی جگہ بنا لی ہے۔میڈیا کو خریدنا ویسے تو کوئی نئی بات نہیں۔صحافیوں، سیاستدانوںاور سول سوسائٹی کے اہم ممبران کو رقم دینا پرانا طریقہ کار ہے۔ آج کل بس یہ ہتھیار کافی مہارت کے ساتھ استعمال کیا جا رہا ہے“۔ حال ہی میں امریکہ میں ایک کتاب شائع ہوئی ہے جس میں آئی ایس آئی کے طالبا ن اور القاعدہ کے ساتھ تعلقات کا انکشاف کیا گیا ہے اور امریکی انٹیلی جنس کی رپورٹوں کی روشنی میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح مشرف امریکہ اور طالبان کے ساتھ ڈبل گیم کھیل رہا تھا۔ امریکی حکومت کو اس بات کا اندازہ تو تھا لیکن جب انہوں نے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کے ٹیلیفون ٹیپ کیے تو انہیں اس حقیقت کا ادراک ہوا کہ پاکستانی فوج طالبان اور القاعدہ کی مکمل حمایت کر رہی ہے۔ کیانی پاکستان کا دوسرا آرمی چیف ہے جس کے فون ٹیپ کیے گئے ۔ اس سے پہلے مشرف اور بینظیر کے درمیان ہونے والی ٹیلیفونک گفتگو بھی ٹیپ کی گئی تھی۔ سولہ فروری دو ہزار نو کو انگریزی جریدے ”دی نیوز،،میں ایک تفصیلی رپورٹ میں اس کتاب کے اقتباسات پیش کئے گئے تھے۔ رپورٹ میں لکھا گیا کہ ”کتاب جس کا عنوان’وراثت: اوبامہ کو کس دنیا کا سامنا ہے اور امریکی طاقت کو کیا چیلنج درپیش ہیں‘میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی سرحدوں میںمداخلت کا فیصلہ اس وقت کیا گیا جب امریکی سی آئی اے اس نتیجے پر پہنچی کہ آئی ایس آئی طالبان کے ساتھ مکمل تعاون کر رہی ہے۔ کتاب کے مطابق امریکہ کی نیشنل سکیورٹی ایجنسی نے ایسے پیغامات پکڑے جن میں آئی ایس آئی کے افسران طالبان کو افغانستان میں ایک بم حملہ کروانے کی منصوبہ بندی کروا رہے تھے۔ ان پیغامات میں ٹارگٹ واضح نہیں تھا۔ چند دن بعد طالبان نے قندھار جیل پر حملہ کیااور سینکڑوں طالبان رہا ہو گئے،،۔ کتاب میں ایک اور جگہ لکھا گیا ہے کہ قبائلی علاقہ جات میں جب پاکستانی فوج ایک مدرسے پر حملے کی تیاری کر رہی تھی تو ایک مضحکہ خیز پیغام بھیجا گیا جسے امریکی ایجنسی نے پکڑ لیا۔ پیغام تھا کہ ”ہم کچھ دنوں میں تمہاری جگہ پر حملہ کریں گے، اس لئے وہاں پر کوئی اہم شخص موجود ہے تو اسے کہو کہ چیخیں مارنی شروع کر دے،،۔ کتاب کے مطابق امریکی خفیہ ایجنسی کا چیف میکونل جب پاکستان آیا تو وہ اپنے ساتھ وائٹ ہاو¿س کے سیچوئشن روم میں لگے ہوئے چارٹ بھی اٹھا لایا جس میں ڈھائی سالوں میں پاکستان میں ہونے والے خود کش حملوں کی تعداد اور ان میں اضافہ، ان میں مارے جانے والے پاکستانیوں کی تعداد اور دوسرے اعداد و شمار تھے۔ اس نے فوج کی اعلیٰ قیادت کے ساتھ میٹنگ میں وہ سارے اعداد وشمار بتائے ۔ چارٹ کے مطابق دو ہزار سات میں تیرہ ہزار پاکستانی خود کش بم حملوں میں مارے گئے جو کہ دو ہزار چھ کی نسبت دوگنی تعداد تھی۔اسی طرح اس نے اسامہ بن لادن اور دوسرے طالبان لیڈروں کے ٹی وی انٹرویوز کی تعداد اور تاریخیں بھی بتائی۔ میکونل حیران ہوا کہ فوج اور آئی ایس آئی کے چیف نے ان اعداد و شمار کو کوئی اہمیت نہیں دی اور نہ ہی ان کے پاس اس قسم کا ریکارڈ موجود تھا یا پھر وہ جان بوجھ کر انجان بنے ہوئے تھے۔ میکونل نے دو ہزار آٹھ کے اواخر میں واشنگٹن واپس آکر تحقیقات کا حکم دیا اور وہ بہت جلد اس نتیجے پر پہنچ گیا کہ پاکستانی فوج ڈبل پالیسی پر عملدرآمد کر رہی ہے۔ اس نے وائٹ ہاو¿س میں اپنا تجزیہ پیش کیا جس میں لکھا کہ ”پاکستانی حکومت باقاعدگی سے طالبان اور دوسرے مسلح گروہوں کو اسلحہ اور افرادی قوت فراہم کرتی ہے تا کہ وہ افغانستان میں اتحادی فوجوں اور افغان فوج پر حملے کر سکیں،،۔ دی نیوز، لاہور، سولہ فروری دو ہزار نو ،،۔ اسی طرح فوج میں جنرل فیصل علوی جیسے امریکہ نوا ز لوگ بھی موجود ہیں جس نے خط لکھ کر امریکی حکومت کو ان جرنیلوں کے ناموں سے آگاہ کیا جو طالبان کی حمایت کر رہے ہیں اور یہ درخواست کی کہ ان جرنیلوں سے پاکستان فوج کو چھٹکارا دلایا جائے۔اس خواہش کی پاداش میں ستمبر دو ہزار آٹھ میں اسے اسلام آباد میںقتل کر دیا گیا۔ اگر ہم موجودہ معیشت کے شدید بحران اور اس پر براجمان ریاست کے بڑھتے ہوئے انتشار کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت عیاں ہے کہ اس نظام اور ان ڈھانچوں کے ذریعے کوئی اصلاحات یا بہتری ممکن ہی نہیں ہے ۔اس لیے اس نظام اور ریاست سے مصالحت انقلابیوں کے لیے ایک جرم بن جاتا ہے ۔ریاست کا باہمی تصادم بحران کے مزید شدت اختیار کرنے سے ایک ایسی خانہ جنگی کو جنم دے سکتا ہے جس کی خونریزی پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے ۔ریاست کے اندر مالی تضادات مختلف روپ اور رجحانات کی شکل میں ہمارے سامنے آتے ہیں ۔وہ مذہبی فرقہ واریت ،علاقائی اخلاقیات،ذات پات ،قومی اور دوسرے تعصبات کی شکل میں ابھرتے ہیں۔پاکستانی ریاست کا بحران اس کی تاریخی شناخت کی فقدان کی وجہ سے زیادہ شدید ہو گیا ہے ۔ مذہبی بنیادوں پر بٹوارے کے بعد پاکستان کے سیکولر ریاست نہ بننے کے پیچھے جہاں نظریاتی ابہام پایا جاتا ہے وہاں پاکستان کے حکمران طبقات معاشی خستہ حالی کی وجہ سے بھی جدید صنعتی ترقی یافتہ ریاست کو تشکیل دینے میں ناکام رہے ہیں۔ دوسری جانب داخلی بحران کو زائل کرنے کے لیے بیرونی تضادات اور تصادموں کی پالیسی میں ریاست کا اہم کردار رہا ہے۔ ہندوستان اور پاکستان کی دونوں ریاستیں سارے عرصے میں اس تضاد کو ابھارتی رہی ہیں اور یہ تصادم ان کی پالیسی کا مستقل حصہ بنا رہا ہے ۔پاکستانی ریاست نے اس پالیسی کو گہرائی کی حکمتِ عملی(strategic depth) کا نام دیاجس میں ایک نو آبادیاتی ملک ہونے کے باوجود پاکستانی اور بھارتی ریاستوں کے بہت واضح طور پر مقامی خطے میں سامراجی عزائم بھی رہے ہیں۔اس پالیسی کے مطابق پاکستان فوج کے نظریہ دان ایک جانب افغانستان پر اپنا ریاستی غلبہ رکھنا چاہتے تھے اور دوسری جانب کشمیر میں مسلح جتھوں کے ذریعے ہندوستان کی فوج کے بڑے حصے کو مسلسل الجھائے رکھنا چاہتے تھے ۔ لیکن نائن الیون کے بعد اس خطے میں امریکی پالیسی کا اس گہرائی کی حکمت عملی کی پالیسی سے براہِ راست ٹکراﺅ بن گیا۔مشرف نے فوج کے سخت گیر حصوں اور امریکی دباﺅ سے درمیانہ راستہ اختیار کرنے کی پالیسی اپنائی لیکن یہ توازن لمبے عرصے تک برقرار رہ ہی نہیں سکتا تھا ۔ جس سے فوج کے ان سخت گیر دھڑوں اور امریکی ٹکراﺅ میں کمی آنے کی بجائے اضافہ ہوا اور مشرف کی معزولی میں یہ تضاد ایک اہم عنصر ثابت ہوا۔ امریکی سامراج کے پاکستان کی جانب متضاد اور انتہائی مفاد پرستانہ رویوںاور پاکستانی ریاست کی داخلی کمزوریوں کیوجہ سے پاکستانی ریاست کا ایک طرف امریکہ پر انحصار بڑھا ہے لیکن دوسری جانب اس کے مختلف دھڑے اپنی اس تضحیک کی وجہ سے امریکی سامراج سے نالاں ہوئے اور مزاحمتی رجحانات بھی بڑھے ۔اس متضاد کیفیت میں قوم پرستی سے لے کر مذہبی جنون کے عناصر فوج میں ان دھڑوں کی نمائندگی کرتے رہے ہیں ۔لیکن جہاں اس ریاست میں مختلف تعصبات اور تضادات ہیں وہاں ریاست بذاتِ خود طبقاتی بنیادوں پر تقسیم بھی ہے ۔عام حالات میں رجعتی اور فروعی تضادات حاوی رہتے ہیں لیکن پھر معاشرے میں طبقاتی کشمکش کے تیز ہونے سے ناگزیر طور پر اس کے اثرات ریاستی مشینری پر بھی پڑتے ہیں۔آخری تجزیے میں فوج اور ریاست سماج کی عکاسی کرتے ہیں اس لیے انقلابی کیفیات میں ریاستی اداروں کے اندر بھی سب سے نمایاںعنصر طبقاتی کشمکش ہی بن جاتی ہے ۔ انیس سو ستر کے انتخابات میں فوج کے بڑے حصوں نے سوشلسٹ پروگرام کو ووٹ دیئے تھے۔یہ صورتحال ایک نئی تحریک کے ابھرنے کی صورت میں مزید شدت سے ابھر سکتی ہے۔ ٓٓآنے والے دنوںمیں جہاں معاشی بحران مزید بڑھے گا وہاں ریاست کے اندر موجود دراڑیں مزید بڑھیں گی اور ان مختلف دھڑوں کے اختلافات واضح ہوں گے۔ اس صورتحال میں ہمیں فوج کے اندر بالائی سطح پر ایک واضح تقسیم بھی نظر آ سکتی ہے۔ لیکن دنیا بھر کی فوجوں کی تاریخ میں بہت سے ایسے افسران کے گروہ موجود رہے ہیں جنہوں نے حکمران طبقات اور سامراج کے خلاف بغاوت کی ہے۔ پاکستان کے اندر محنت کش طبقے کی تحریک کے آگے بڑھنے کی صورت میں اور محنت کش طبقے کے طبقاتی شعور میں تیز ترین تبدیلیاں آنے سے فوج کے اندر بھی ایک ایسا دھڑا بن سکتا ہے جو بغاوت کر کے اور اقتدار پر قبضہ کر کے محنت کش طبقے کی حمایت میں اقدامات کرنے کی خواہش رکھتا ہو۔اسی طرح سامراجی یا مفاد پرست دھڑا بھی محنت کشوں کی حمایت کا نعرہ لگا کر بھیڑ کی کھال میں بھیڑ یا بن کر ابھر سکتا ہے۔ لیکن ایسے تمام اقدامات اور بغاوتیں ماضی میں بھی مہم جوئی ہی ثابت ہوئی ہیں ۔ فوج کے وہ حصے جو بغاوت کے بعد پرولتاریہ کے مفادات کی ترجمانی کرتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کرتے ہیں ان کی حکومت کو پرولتاری بوناپارٹسٹ حکومت کہا جا تا ہے ۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد اس کی بہت مثالیں سامنے آئیں جن میں شام،ویتنام، کمبوڈیا،موزمبیق، انگولا، ایتھوپیا افغانستان‘ یمن اور دوسرے ممالک شامل ہیں جہاں اقتدار میں آنے کے بعد ان حکمرانوں نے محنت کشوں کے لئے بہت بڑی اصلاحات کیںاور بلکہ کئی جگہ سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑ پھینکا گیا اور منڈی کی معیشت کی جگہ منصوبہ بند معیشت کو نافذ کیا۔ لیکن سٹالنزم کے نظریاتی دیوالیہ پن کے باعث انہوں نے ایک ملک میں سوشلزم کے نظریے پر چلتے ہوئے معیشت کو ملکی حدود میں قید کر دیا جس کے باعث یہ معیشتیں دم گھٹنے سے آہستہ آہستہ ختم ہوتی چلی گئیں ۔ موجودہ حالات میں مختلف ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک میں ایسی مہم جوئی کے امکانات موجود ہیںلیکن ایسی بغاوت کے کامیاب ہونے اور کامیابی کے بعد زیادہ لمبے عرصے تک چلنا اور اس کے ذریعے حالات کے اندر اور نظام کے اندر بنیادی تبدیلی لانے کے امکانات بہت کم ہیں۔ صرف محنت کش طبقے کی تحریک سے جنم لینے والے سوشلسٹ انقلا ب اور بالشویک قیادت کے ذریعے ہی موجودہ ریاست کو ختم کر کے مزدور ریاست قائم کی جا سکتی ہے ۔ یقیناً اس میں فوج میں موجود انقلابی عناصر اور نچلی سطح کے فوجیوں کی حمایت لازمی ہو گی اور جب وہ اپنی بندوقوں کا رخ سرمایہ داروں، جاگیر داروں اور فوج کے ان بنیاد پرست اور سامراج کے غلام جرنیلوں کی طرف کریں گے اور محنت کشوں کی تحریک میں قدم سے قدم ملا کر چلیں گے تو ہی سوشلسٹ انقلاب فتح یاب ہو گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ سول بیوروکریسی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ بیوروکریسی ریاست کا وہ حصہ ہوتی ہے جو انتظامی امور سنبھالتی ہے۔ اپنی سماجی حیثیت کے باعث ان کے سماجی مفادات کاحکمران طبقے کے مفادات سے ٹکراو¿ بھی ہو سکتا ہے لیکن ان کا بنیادی مقصد ریاست ، جو جبر کا ایک آلہ ہے اس کو قائم رکھنا ہوتا ہے۔ بیوروکریسی کا لفظ بنیادی طور پر فرانسیسی زبان کا لفظ ہے جس کاباقاعدہ استعمال سترا سو اننانویں کے انقلاب فرانس کے وقت ہونا شروع ہوا تھا۔ بورژوا ریاست کے ابتدائی ادوار سے لے کر اب تک جہاں ریاست بہت سے مراحل سے گزری ہے اسی طرح بیوروکریسی کی ہئیت میں بھی تبدیلیاں آئی ہیں۔ جیسے جیسے ریاست کے حجم میں اور اس کے اختیارات میں اضافہ ہوتا گیا ویسے ہی بیوروکریسی کا حجم بھی بڑھتا گیا اور کام کی تقسیم کار میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا گیا۔ آج مختلف شعبوں کے لئے مختلف اہلکارمتعین ہیں جن کا سیکرٹری سے لے کر نائب قاصد تک پورا ڈھانچہ موجود ہے۔ جہاں اس بیوروکریسی کا مقصد حکمران طبقات کے مفادات کا دفاع ہے وہاں یہ اپنے اختیارات میں مسلسل اضافے کے خواہشمند بھی رہتے ہیں اور ساتھ ہی چونکہ وہ پیداواری عمل میں براہ راست شریک نہیں ہوتے اس لئے اپنے اختیارات کے استعمال کے ذریعے زیادہ سے زیادہ دولت اکٹھی کرنے کی ہوس میں مبتلا رہتے ہیں اور سماج میں ایک طفیلیے کا کردار ادا کرتے ہیں ۔ یہی دولت کے حصول کا لالچ انہیں زیادہ بڑے عہدے اور ترقی لینے پر اکساتا ہے۔مارکس کے مطابق مادی حالات ہی شعور کا تعین کرتے ہیں ۔ ریاستی جبر کے آلے کے طور پر کام کرنا، اپنے اختیارات کو دولت کے حصول کے لئے استعمال کرنا اور عام لوگوں سے علیحدہ ایک خاص تقدس اور کشش رکھنا بیوروکریسی کو نہ صرف بدعنوان کر دیتا ہے بلکہ اس کی عوام سے بیگانگی کو بھی بڑھا دیتا ہے۔ بیوروکریٹوں کا تعلق عام لوگوں سے مختلف فائلوں کے حوالے سے یا شناختی کارڈ، ڈومیسائل، رجسٹری، لائسنس، ٹیکس رسید یا اسی طرح کی دوسری دستاویزات کی صورت میں ہوتا ہے اور عوام سے تعلق انسانی بنیادوں کی بجائے میکانکی انداز میں ہوتا ہے۔اس لئے وہ انسانوں کو بھی اعدادو شمار یا مختلف فائلو ں سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ بیوروکریٹ کی زندگی کا حتمی مقصد اعلیٰ سے اعلیٰ عہدے تک رسائی بن جاتا ہے اور اس کے لئے اسے سرمایہ داروں ، جاگیر داروں اور سامراج کی جتنی بھی غلامی کرنی پڑے اس کے لئے ہمہ وقت تیار رہتا ہے۔ لیکن ساتھ ہی چونکہ اس کے اختیارات کی سرمایہ داروں ، جاگیر داروں اور پیٹی بورژوازی کو بھی اپنے مفادات کے لئے ضرورت ہوتی ہے اس لئے بیوروکریٹ اور حکمران طبقات کا آپس میں مفادات کا باہمی ا تعلق بنتا ہے۔ اسی طرح بیوروکریٹ اپنے حتمی مقصد یعنی اختیارات میںاضافے اور ترقی کے لئے ریاست کا ایک ایسا کارندہ بن جاتا ہے جو مکمل تابعداری کے ساتھ تمام احکامات کو لاگو کرتا ہے۔ پاکستان میں سرمایہ دار طبقے کی کمزوری کے باعث بیوروکریسی کو بھی مضبوط ہونے اور ریاستی امور میں اضافی کردار ادا کرنے کا موقع ملا۔ غلام اسحاق خان کے صدر بننے اور اس کے بعد دو حکومتوں کو برطرف کرنے سے واضح ہوا کہ بیوروکریسی کی جڑیں پاکستان میں کتنی گہری ہیں۔ اس نے اپنے کیرئر کا آغاز سول سرونٹ کے طور پر کیا اور دوران ملازمت مختلف عہدوں پر فائز رہا جس میں چئیر مین مغربی پاکستان واپڈا کا عہدہ بھی شامل ہے ۔ بھٹو دور میں وہ سیکرٹری فنانس کے عہدے پر فائز ہوا لیکن جلد ہی اسے ہٹا کر وزار ت دفاع میں سیکرٹری جنرل لگا دیا گیا۔ وہاں اس کے تعلقات فوجی افسران سے بننے شروع ہوئے اور ضیاءالحق نے مارشل لاءلگاتے ہی پانچ جولائی انیس سو ستہتر کو اسے وزیر خزانہ مقرر کیا۔ اس سے یہ بات بھی واضح نظر آتی ہے کہ جب ریاست دوبارہ طاقتور ہوئی اور اس نے محنت کش طبقے کی حاصلات کو چھیننا شروع کیا تو فوج ، عدلیہ اور بیوروکریسی نے مل کر پیپلز پارٹی پر حملہ کیا۔اسی لیے ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی میں ریاست کے تمام ادارے براہ راست ملوث تھے۔ انیس سو آٹھاسی میں جب بینظیر بھٹو کو اقتدار ملا تو اقتدار دینے سے پہلے اس سے یہ شرط منوائی گئی کہ غلام اسحاق خان ہی صدر پاکستان رہے گا۔ بینظیر بھٹوکی مصالحت خود انہیں اور پورے ملک کے محنت کش عوام کو بھگتناپڑی۔ آج پہلے کی نسبت پاکستان کی ریاست بہت زیادہ کمزور ہوئی ہے اور اس کا اظہار مختلف اداروں کے مابین ہونے والی چپقلش میں ہوتا ہے۔ بہت سے وفاقی اور صوبائی وزیر آج بھی میڈیا پر شکایت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ان کے فیصلوں پر عملدرآمد نہیں ہوتا یا پھر یہ کہ انہیں درست معلومات فراہم نہیں کی جاتیں ۔مشرف دور کے دوران فوج اور بیوروکریسی میں ایک واضح لڑائی نظر آئی جب کمشنر نظام کا مکمل خاتمہ کر دیا گیا اور بیوروکریسی سے بہت سے اختیارات چھین کر ایک نیا انتظامی ڈھانچہ تشکیل دیا گیا ۔اس سے واضح پیغام ملا کہ فوج ریاست پرزیادہ مضبوطی سے براجمان ہونا چاہتی ہے اور فیصلہ کن طور پر تمام رکاوٹیں ختم کرنا چاہتی ہے۔ مشرف دور کا یہ نظام برطانوی راج کے ڈیڑھ سو سال پرانے نظام سے زیادہ بوسیدہ اور خستہ حال تھا جس کو نہ صرف یہ کہ مکمل طور پر لاگو نہ کیا جا سکا بلکہ اس دوران ریاستی امور زیادہ پیچیدہ ،گھمبیر اور تکلیف دہ ہو گئے۔ بیوروکریسی کے نظام میں سب سے بڑی تبدیلیاں پیپلز پارٹی کے پہلے دور حکومت میں ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں ہوئی تھیں جب بڑی حد تک ان کے اختیارات کو کم کیا گیا تھا۔ سینکڑوں بیوروکریٹ اور اعلیٰ افسران معطل کئے گئے اور انہیں سزائیںدی گئیں۔ لیکن چونکہ نجی ملکیت کا خاتمہ نہیں ہو سکا تھا اور سرمایہ دارانہ ریاست کی جگہ مزدور ریاست قائم نہیں ہوئی تھی اس لئے افراد کی تبدیلی سے ریاست کا کردار تبدیل نہیں ہو سکا۔ جو نئے لوگ ان عہدوں پر فائز کئے گئے انہوں نے بھی ریاست کے ایک محکوم طبقات پر جبر کے آلے کے کردارکو آگے بڑھایا۔ بیوروکریسی کے سرمایہ دارانہ ریاست کے کردار کے مطابق انہوں نے بھی کرپشن کی، اپنے اختیارات کو دولت حاصل کرنے کے لئے استعمال کیا اور اس طرح سرمایہ دار طبقے کے مفادات کے تحفظ کو یقینی بنایا۔قومی تحویل میں لی گئی صنعتوں اور اداروں کو بھی مزدوروں کے جمہوری کنٹرول میں دینے کی بجائے بیوروکریسی کے حوالے کر دیا گیا تھا ۔ جب سرمایہ دار طبقے نے محنت کش طبقے کی قوتوں کو کمزور پایا انہوں نے اس ریاست کو استعمال کرتے ہوئے دوبارہ اپنے جارحانہ کردار کو تیز کردیا۔ آج ایک ایسے عہد میں جب خود سرمایہ دارانہ نظام ہی زوال پذیر اور ریاست ہو امیں تحلیل ہو اور بکھر رہی ہو اس میں نیا انتظامی نظام بہتری کی بجائے مزید ابتری کا باعث بنتا ہے۔ مشرف دور کے خاتمے کے بعد دوبارہ سے بیوروکریسی اپنے اختیارات کو بحال کرنے کی تگ و دو میں مصروف ہے۔ اب یہ اختیارات اسی شکل میں واپس نہیں آئیں گے بلکہ پہلے سے زیادہ گھناو¿نا روپ دھاریں گے۔ کمزور معیشت اور سامراجی غلامی کے ہوتے ہوئے فوج اور بیوروکریسی کی یہ لڑائی چلتی رہے گی اور جیسے جیسے بحران مزید گہرا ہوگا اس لڑائی میں شدت آئے گی۔ محنت کش طبقے کی تحریک کے دوران جب اس نظام کو خطرہ محسوس ہو گا اور ریاست کی شکست نوشتہ دیوار بن جائے گی تو تمام ریاستی ادارے اپنے اختلافات بھلا کر اس تحریک کو کچلنے کے لئے تمام قوتیں بروئے کار لائیں گے۔لیکن یہ قوتیں اب اتنی کمزورہیں کہ محنت کشوں کی تحریک کے پہلے جھونکے ہی انہیں منتشر کر دیں گے۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عدلیہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سرمایہ دارانہ ریاست میں عدلیہ ان قوانین کو لاگو کرتی ہے جو حکمران طبقے کو تحفظ دینے کے لئے بنائے جاتے ہیں۔ قانون کی اپنی کوئی آزادانہ تاریخ نہیں ہے بلکہ جیسے جیسے نجی ملکیت کی شکل بدلتی گئی ویسے ہی قوانین کی شکل بھی بدلتی گئی اور ترقی کرتی گئی۔ صنعت و تجارت کے بڑھنے اور مختلف شعبوں میں تقسیم ہونے سے نجی ملکیت کا دائرہ کار وسیع ہوتا گیا اور ویسے ہی قوانین مزید پیچیدہ ہوتے گئے جن کو سمجھنے اور اور ان کی پیروی کرنے کے لئے قانون کے ماہرین کی بھی ضرورت محسوس ہونے لگی۔ جرمن آئیڈیالوجی میں مارکس لکھتا ہے، ”فطری کمیونٹی کی شکست و ریخت کے ساتھ ہی نجی ملکیت اور سول قانون ابھرتا ہے۔رومن کے لئے نجی ملکیت اور سول قانون کی صنعت و تجارت میں کوئی ضرورت نہیں تھی کیونکہ ان کے ذرائع پیداوار تبدیل نہیں ہوئے تھے۔ جدید لوگوں میں جہاں جاگیر دارانہ سماج کو صنعت و تجارت نے تباہ کیا ہے تو وہاں نجی ملکیت اور سول قانون کے ابھرنے کے ساتھ ہی ایک نیا مرحلہ شروع ہو اہے جس میں مزید بہتری لائی جا سکتی ہے۔قرونِ وسطیٰ میںوہ پہلا قصبہ ، امالفی ،جس نے سمندری تجارت شروع کی تھی وہاں سمندر کی تجارت کے قوانین بھی بنے تھے،، ۔ بر صغیر میں چونکہ نجی ملکیت کا تصور واضح طور پر برطانوی سامراج کی آمدکے بعد ابھرا تھا اس لئے یہاں پر بنائے جانے والے قوانین اور عدالتی نظام بھی نو آبادیاتی طرز پر بنائے گئے تھے۔ سترہویں اور اٹھارویں صدی میں یورپ کے اندر سول اور فوجداری قوانین بر صغیر کے عدالتی نظام کی نسبت کہیں زیادہ جدید تھے۔ اس لئے جب انگریز یہاں آئے تو انہوں نے وہاں کا عدالتی نظام نو آبادیاتی ضروریات کی ترامیم کے ساتھ یہاں لاگو کیا۔ پاکستان اور بھارت میں بننے والے قوانین اور عدالتی نظام کی بنیاد آج بھی برطانوی سامراج کے قوانین ہیں۔ اس دوران نجی ملکیت کی شکلوں کے اندر تبدیلی بھی آئی ہے اور صنعت و تجارت کے پھیلنے اور کاروبار کی نئی شکلوں کی آمد کے ساتھ کسی حد تک نئے قوانین بنے بھی ہیں لیکن ان کی بنیاد وہی پرانا عدالتی نظام ہے۔ ”جب بھی صنعت و تجارت کی ترقی کے ساتھ باہمی تعلق کی نئی شکلیں ابھری ہیں، اس وقت قانون کی مجبوری رہی ہے کہ وہ انہیں تسلیم کرے،،۔ کارل مارکس، جرمن آئیڈیالوجی،،۔ اس لئے سرمایہ دارانہ نظام میں حاکمیت قانون کی نہیں بلکہ نجی ملکیت کی ہے اور اس حاکمیت کو ختم کرنے کے لئے نجی ملکیت کو ختم کرنا پڑے گا۔ جب بھی قانون کی کسی تعریف کو سماجی انتشار یا بغاوت کی شکل میں چیلنج کیا گیا ہے تو اس میں بہت زیا دہ تبدیلی آئی ہے جبکہ قانون بذات خود کسی سماجی دباو¿ کے نتیجے میں تبدیلی کی نفی کرتا ہے۔اس لئے قانون صرف ان حقوق کے لئے بنایا جا سکتا ہے جو ریاست کی حدود کے اندر ہوں اور سماج میں موجو د حکمران طبقے کے مفادات کی ترجمانی کرتے ہوں۔لیکن بظاہر یہ تاثر دیا جا تا ہے کہ عدلیہ کی حیثیت سماج اوراس کے مفادات سے بلند اور غیرجانب دارانہ ہے ۔ اسی طرح ان قوانین کو لاگو کرنے والی عدالتیں بھی سرمایہ دار طبقے کے مفادات کی نگہبانی کرتی ہیں اور ان عدالتوں کے ججوں کا مقصد ایسا انصاف دینا ہوتا ہے جو محنت کش طبقے کے استحصال کو جاری رکھ سکے۔ رسمی منطق کے مطابق جو کچھ قانون کے مطابق ہے وہ انصاف ہے لیکن جب قانون بنانے اور لاگو کرنے والے ادارے ہی کسی ایک طبقے کے غلام ہوں تو وہ انصاف بھی ویسا ہی ہو گا۔آئین اور قانون انسان بناتے ہیں اور ایسا کرتے وقت ان کے مخصوص طبقاتی مفادات ہوتے ہیں ۔ ان قوانین اور اس طبقاتی انصاف کو صرف سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی ختم کیا جا سکتا ہے۔ طبقاتی نظام کے آغاز سے ہی قانون کا آغاز ہوا تھا اور اس کے خاتمے کے ساتھ ہی اس کا خاتمہ بھی ہو جائے گا۔ مزدور جمہوریت میں صرف سرمایہ دارانہ بالادستی کے قوانین کو بتدریج ختم کیا جائے گا۔ پاکستان کے اندر حالیہ عدالتی بحران ریاست کے اندر موجود تضادات کو واضح کرتا ہے کیونکہ دونوں دھڑوں میں اس بات پر کوئی اختلاف نہیں کہ نجی ملکیت ختم ہونی چاہئے یا از خود سرمایہ دارانہ ریاست ختم ہونی چاہیے بلکہ ان کا تضاد سرمایہ دارانہ ریاست اور سرمایہ دار طبقے کی حکمرانی کو قائم رکھنے کے مختلف طریقہ کار پر ہے۔اور پھر جب ریاست کے اندرونی تضادات نے باہر نکل کر سیاسی شکل اختیار کی تو مختلف قوتوں نے اپنے سیاسی مفادات کو حاصل کرنے کے لئے ریاست کے ان تضادات کا فائدہ اٹھایا۔ اس طرح اس نظام میں موجود سیاسی پارٹیاں اور دوسرے ریاستی ادارے جن کا مقصد ریاست کومضبوط کرنا تھا وہ اس کو مزید کمزور کرنے کا باعث بن رہے ہیں ۔ جوں جوں یہ نظام اپنے خاتمے کی طرف بڑھے گا یہ تضادات شدت اختیار کریں گے اور مختلف شکلیںاختیار کرتے ہوئے ریاست کو کمزور کرنے کا باعث بنیں گے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ پارلیمنٹ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ بورژوا پارلیمنٹ بھی اسی استحصالی نظام میں محنت کش طبقے کی محکومی کو قائم رکھنے کا ایک آلہ ہے جو ریاست کے ایک اہم ادارے کے طور پر کا م کرتا ہے۔مارکسسٹ بورژوا جمہوریت سے کسی قسم کی توقعات نہیں رکھتے ۔ اس جمہوریت میں عوام ہر چار یا پانچ سال بعد بڑے بڑے حلقوں میں ووٹ ڈالتے ہیں اور نمائندوں کو قانون ساز اداروں میں بھیجتے ہیں۔ مالیاتی سرمائے کی آمریت میںان نمائندوں کی اکثریت بالادست طبقات سے تعلق رکھتی ہے اور انہی کے مفادات کے لیے قانون سازی کرتی ہے۔ اس جمہوریت میں ہر کسی کے پاس ’برابر کے حقوق‘ ہیں لیکن دو طبقوں میں اختیارت اور طاقت میں زمین اور آسمان کا فرق ہے۔ لینن نے بورژوا جمہوریت کے متعلق واضح لکھا تھا کہ، ”اگر ہم عام سوچ اور تاریخ کا مذاق نہیں اڑا رہے تو پھر یہ واضح ہے کہ جب تک مختلف طبقے وجود رکھتے ہیں ہم ”خالص جمہوریت “ کی بات نہیں کر سکتے، ہم صرف طبقاتی جمہوریت کی بات کر سکتے ہیں۔خالص جمہوریت محنت کشوں کو بے وقوف بنانے کے لئے کسی لبرل کا کاذب اور مکارانہ فقرہ ہے۔ ۔۔سرمایہ دارانہ جمہوریت گو قرون وسطیٰ کے دور کے مقابلے میں ایک آگے کا تاریخی قدم ہے لیکن سرمایہ داری جبر کے تحت یہ ”جمہوریت،، محدود، اپاہج، جھوٹی اور منافقانہ رہتی ہے جو امیروں کے لئے ایک جنت اور استحصال زدہ غریبوں کے لئے ایک پھندہ، ایک لعنت اور ایک دھوکہ ہوتی ہے،،۔ لینن، پرولتاری انقلاب اور بھگوڑا کاو¿تسکی،،۔ آج پارلیمانی انتخابات ایک کاروبار بن چکے ہیں جو جتنی زیادہ سرمایہ کاری کرتا ہے اتنا ہی اس کے جیتنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ امریکہ جیسے ملک میں بھی انتخابات میں مختلف ملٹی نیشنل کمپنیاں سرمایہ کاری کرتی ہیں۔ اسی لئے پہلے سے نتائج کے بارے میں اندازہ لگانا آسان ہو جاتا ہے۔ جو امیدوار جتنی زیادہ رقم فنڈ کی شکل میں اکٹھا کرتا ہے وہی انتخابات میں فاتح ہوتا ہے۔گزشتہ سال ہونے والے انتخابات امریکی تاریخ کے مہنگے ترین الیکشن تھے جس میں دونوں بڑی پارٹیوں کے امیدواروں نے ارب ڈالر سے زیادہ سرمایہ کاری کی۔ پاکستان، بھارت اور دوسرے پسماندہ ممالک میں یہ سرمایہ کاری زیادہ عریاں شکل میں نظرآتی ہے اور ساتھ ہی دھونس ، دھاندلی، پولیس کی غنڈہ گردی ، ٹھیکیداروں کی حمایت اور بیوروکریسی سے تعلقات بھی انتخابات میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان تمام ہتھکنڈوں کے بعد قانون ساز اداروں میں پہنچنے والے لوگوں کا مطمع نظر قانون سازی کی بجائے اپنی دولت کے ذخائر میں اضافہ ہوتا ہے ، اس کے علاوہ جن لوگوں نے الیکشنوں میں سرمایہ کاری کی ہوتی ہے ان کے مفادات کا حصول بھی ان منتخب نمائندوں کی پہلی ترجیح ہوتی ہے۔اسی طرح وزارت حاصل کرنے کے لئے بھی بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی جاتی ہے جو کہ ابھی تک ایک منافع بخش کاروبار ہے۔ کچھ دہائیاںپہلے تک شاید منتخب نمائندے اور وزیرکسی حد تک ریاستی امورکو بھی سنجیدگی سے لیتے تھے اور ریاست کو چلانے میں دلچسپی لیتے تھے لیکن آج اس بد ترین ریاستی بحران میں نہ تو کسی منتخب نمائندے اور نہ کسی وزیر کو ریاستی امور چلانے میں دلچسپی ہے اور نہ ہی یہ ان کی ترجیحات کی فہرست میں شامل ہے۔آج ان کا پہلا اور آخری مقصد زیادہ سے زیادہ دولت بٹورنا رہ گیا ہے اور اقتدار میں زیادہ دن رہنے کی خواہش بھی دراصل اسی دولت کے حصول اور ان عہدوں پر ہونے والی سرمایہ کاری کو زیادہ منافع بخش بنانے کی خواہش ہے۔ سامراجی غلامی بھی اس انتہا کو پہنچ چکی ہے کہ انہوں نے پالیسیوں اور ودسرے معاشی سماجی معاملات کے متعلق سوچناہی چھوڑ دیا ہے اور آج کے صدر، وزیر اعظم اور وزیر اس کو اپنے لئے درد سر سمجھتے ہیں۔ان کا مطمع نظر یہ ہوتا ہے کہ کتنے نئے ٹھیکے شروع ہونے والے ہیں اور ان میں ان کا کتنا حصہ ہے۔ معیشت کی بدحالی کی وجہ سے ٹھیکوں کی تعداد میں بھی کمی آئی ہے اسی لئے لوٹ مار کی لڑائی زیادہ شدید ہو گئی ہے۔اسی طرح لائسنس اور نوکریاں بیچ کر، سرکاری ملازمین کے تبادلوںسے،بلیک مارکیٹنگ، منشیات کی خرید و فروخت، اسمگلنگ، بیرونی ممالک کے ویزے، بینکوں سے آسان قسطوں پرقرضے جنہیں بعد میں معاف کروا لیا جاتا ہے اور دوسرے طریقوں سے پیسے کمائے جاتے ہیں ۔آج پاکستان کی پارلیمنٹ اور پارلیمانی سیاست ایک منڈی بن چکی ہے جہاں ہر چیز کی بولی لگتی ہے اور زیادہ قیمت دینے والا شے خرید لیتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ نصاب تعلیم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ نظام اور یہ ریاست صرف اپنے اداروں کے ذریعے ہی حکمرانی نہیں کرتے بلکہ اس کے لئے میڈیا، مذہب، ادب، تعلیم، موسیقی، مصوری، فن تعمیر اور دوسرے تمام شعبہ جات کو استعمال کرتے ہیں ۔اس کے لئے انہیں بکنے والے دانشور اور علماءبھی بڑی تعداد میں میسرآجاتے ہیں جو ایک طبقے کی حکمرانی کو دوسرے پر مسلط کرنے کے اپنے اپنے شعبے سے جواز پیش کرتے ہیں۔ اس میں سب سے اہم ہتھیار نصاب تعلیم ہوتا ہے جس میں معاشرتی، تاریخی اور سماجی علوم پڑھائے جاتے اور ایسے ترتیب دیے جاتے ہیں کہ موجود نظام کو آخری اور حتمی قرار دیا جائے اور حکمران طبقے کی حاکمیت کو ازلی اور ابدی سمجھتے ہوئے اس کے خلاف جدوجہد کو پاگل پن اور بیوقوفی سمجھا جائے۔ ”مادیت کا فلسفہ یہ ہے کہ انسان حالات اور پرورش کی پیداوار ہوتے ہیں لیکن اس چیز کو مادیت پسندی بھلا دیتی ہے کہ انسان ہی حالات کو بدلتے ہیں اور یہ کہ تعلیم دینے والے کو تعلیم دینی پڑتی ہے،، ۔ ۔ مارکس، فیور باخ پر تھیسس، تین،،۔ ”مظلوموں کے شعور کو تبدےل کیا جائے لےکن اس صورتحال کو نہےں جو ان پر جبر کرتی ہے۔،، کےونکہ جتنا زےادہ مظلوم کو صورتِ حال کو قبول کرنے پر آمادہ کےا جاسکتا ہے اتنا ہی آسانی سے ان پر غلبہ بھی پاےا جاسکتا ہے۔اس مقصد کے حصول کے لیے خاندانی جکڑ اورنصاب تعلےم کو استعمال کیا جاتا ہے۔اسی طرح سرمایہ دارانہ سماج میں سائنسی، مذہبی ‘ فنی اور تکنیکی یعنی ہر قسم کی تعلیم کا طریقہ کار بھی ایسے ہی ہے جیسے استاد خالی برتن کو بھرتا جا رہا ہے ۔ یہی سوچ مذہبی جنونیت کی بنیاد بنتی ہے اور دلائل کو بزور طاقت رد کرنے کے عمل کی ابتدا ہوتی ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں انتہا درجے کی پسماندگی اور غربت موجود ہے ایسی محکومانہ سوچ اور نظریات کا پروان چڑھنا حکمران طبقات کے مفادات میں ہے ۔سماج میں موجود ناہمواری اور امیر اور غریب کے فرق کو منطقی اور ازلی بنا کے پیش کرنے کے لئے ایسی تعلیم اور ایسی دانش کو پروان چڑھانا حکمران طبقات کی بنیادی ضرورت ہے۔ برصغیر میں جدید تعلیم کی بنیاد انگریز سامراج نے آکر رکھی تھی۔ آٹھارہ سو تیتیس میں ہندوستان کی مستقبل میں تعلیمی پالیسی طے کرنے کے لئے ایک کمیٹی بنائی گئی جس کا سربراہ تھامس میکالے تھا۔اس تعلیمی پالیسی کا مقصد نو آبادیاتی نظام کو مزید پختہ بنیادوں پر استوار کرنا تھا۔میکالے نے زور دیا کہ تمام تعلیم انگریزی زبان میں اور انگریزی کتابوں کے ذریعے دی جائے۔ لیکن اس نے یہ پیشن گوئی بھی کی تھی کہ برطانوی خیالات اور طرز تعلیم کو یہاں لانے سے ایک ایسی اشرافیہ بھی پیدا ہو گی جو آزادی مانگے گی۔ کچھ سالوں بعد ایک مشہور واقعہ پیش آیا جب ہندوستان کے گورنر جنرل لارڈ ایل بروہ نے ایک انگریزی بولنے والے ہندوستانی کلرک سے کہا کہ” تم جانتے ہو کہ اس کمیٹی کے لوگوں کی خواہش کے مطابق اگر مقامی لوگ انگریزی تعلیم حاصل کر گئے تو ہم تین ماہ بھی اس ملک میں نہیں گزار سکیں گے،،۔ تین ہفتے بھی نہیں ‘، اس کلرک نے جواب دیا۔ لارڈ میکالے نے ہندوستان میں تعلیم پر اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہاکہ ”ہمارے محدود وسائل کی وجہ سے ہمارے لئے ممکن نہیں کہ ہم تمام لوگوں کو تعلیم دے سکیں۔اس لئے ہم جو کر سکتے ہیں وہ یہ کہ ایک ایسا طبقہ تیار کیا جائے جو ہمارے اور ہماری رعایا کے درمیان ترجمان کا کردار ادا کرے۔ایک ایسے لوگوں پر مشتمل طبقہ جو رنگ سے ہندوستانی ہو لیکن اخلاقیات، سوچ ، رویے اور ذہنی طور پر انگریز ہو“۔(لارڈ میکالے،ہندوستانی تعلیم پر منٹس، آٹھارہ سو پنتیس،،۔ برطانوی سامراج کامقصد یہاں لوٹ مار کرنا تھا اور اس کے لئے اپنے اقتدار کو طول دینا تھا۔ اس لئے سامراجی جبر کے تحت جو ترقی ہوئی وہ کبھی بھی مکمل سماجی تبدیلی نہیں لا سکی جس کے باعث یہاں کا سماج مزید ناہموار ہوتا گیا۔اس طرح بر صغیر میں تعلیم کا شعبہ بھی مشترکہ اور ناہموار ترقی کے ذریعے آگے بڑھا ہے۔آج پاکستا ن میں ساٹھ فیصد بچے تعلیم حاصل نہیں کر سکتے اور سکولوں میں جانے والی اکثریت پرائمری تک تعلیم بمشکل حاصل کر پاتی ہے۔ لیکن سائنس اور ٹیکنالوجی اور دوسرے علوم میں پی ایچ ڈی کے لئے جتنے فنڈ آج دیے جاتے ہیں پہلے کبھی نہیں دئیے جاتے تھے۔آج یہاں کے اشرافیہ کی انگریزی کا معیار انگلستان کے لوگوں سے کمتر نہیں ہے۔انگریزی ادب میں آج کے مشہور ادیب انگلستان یاامریکہ سے نہیں بلکہ برصغیر سے پیدا ہورہے ہیں۔ آج کا نظام تعلیم کسی بھی صورت میں محنت کش طبقے کے مفاد میں نہیں ہے اور اس نظام کے اندر رہتے ہوئے کبھی ہو بھی نہیں سکتا۔ کوئی حکمران نہیں چاہتا کہ محکوم ”کیوں“ کا لفظ استعمال کریں۔جبکہ صرف ایک غیر طبقاتی سماج میں ہی ایسی تعلیم دی جا سکتی ہے۔ ایک سوشلسٹ سماج میںشروع ہی سے تحقیق پر مبنی تعلیم کا آغاز کرنا ہو گا اور اس ریاست کو اکھاڑنے کے ساتھ ساتھ اس کے مروجہ نظام تعلیم کو یکسر تبدیل کرنا ہو گا۔ اسی طرح ذرائع پیداوار کی ملکیت کی تبدیلی سے سماج کے اندر موجود مروجہ ثقافت، رویے، فن، اخلاقیات اور دوسرے تمام سماجی رشتے بھی تبدیل ہوں گے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ مزدور ریاست ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سوشلسٹ انقلا ب کے بعد محنت کش طبقہ اس سرمایہ دارانہ ریاست اور اس کے تمام اداروں کوختم کرتا ہوا ایک مزدور جمہوریت پر مبنی ریاست قائم کرے گا جس کو پرولتاریہ کی آمریت بھی کہا جاتا ہے۔ نجی ملکیت کا خاتمہ کر کے منصوبہ بند معیشت لاگو کی جائے گی۔ کمیونست مینی فیسٹو میں مارکس اور اینگلز نے اس کی وضاحت کی تھی۔ ” انقلاب میں مزدور طبقے کا پہلا قدم پرولتاریہ کو حکمران طبقے کی جگہ پر پہنچانا ہے، جمہوریت کی لڑائی جیتنا ہے۔ پرولتاریہ اپنے سیاسی اقتدار سے کام لے کر رفتہ رفتہ پورا سرمایہ بورژوا طبقے سے چھین لے گا ۔ پیداوار کے تمام آلات کو ریاست یعنی حکمران طبقے کی صورت میں منظم پرولتاریہ کے ہاتھوں میں مرکوز کر دے گا اور پھر جتنی تیزی سے ہو سکے تمام پیداواری قوتوں کو ترقی دے گا۔ اس میں شک نہیں کہ ابتدا میں اس کو عمل میں لانے کی اس کے سوا اور کوئی صورت نہیں کہ ملکیت کے حقوق اور بورژواپیداوار کے تعلقات پر جارحانہ حملہ کیا جائے ۔ لہٰذاایسی تدبیریں اختیار کی جائیں جو اقتصادی اعتبار سے ناکافی اور ناکارہ معلوم ہو ں گی، لیکن جو تحریک کے دوران میں اپنی حدود سے آگے قدم بڑھائیں گی، جن سے پرانے سماجی نظام پر مزید حملوں کی ضرورت پیدا ہو گی اور جو طریقہ پیداوار کی بالکل کایا پلٹ دینے کے لئے بے حد ضروری ہیں۔ اس مےں شک نہیں کہ مختلف ملکوں میں یہ تدبیریں بھی مختلف ہوں گی ،،۔ بورژوازی کی محنت کش طبقے پر جبر اور تشدد کے لئے بنائی گئی ریاستی مشینری اس مزدور ریاست کے کسی کام نہیں آئے گی بلکہ اسے مکمل طور پر ختم کرنا پڑے گا۔ ”محنت کش طبقہ بنی بنائی مشینری پر قابض نہیں ہو سکتا اور اسے اپنے مقاصد کے لئے استعمال نہیں کر سکتا۔اسی لئے پیرس کمیون کا پہلا حکم نامہ یہ تھا کہ موجود فوج کو ختم کیا جائے اور اس کو مسلح عوام سے تبدیل کیا جائے،،۔ مارکس، فرانس میں خانہ جنگی۔ اقتدار پر قبضے کے بعد سب سے اہم بات یہ ہے کہ سرمایہ دار طبقے کو دوبارہ اقتدار پر قبضہ نہ کرنے دیا جائے اور سوشلزم کی تعمیر کی جائے۔ ”سرمایہ دارانہ اور کمیونسٹ سماج کے درمیان ایک سماج سے دوسرے میں انقلابی تبدیلی کا عہد آتا ہے ۔ اسی کے مطابق ایک سیاسی تبدیلی کا عہد بھی ہوتا ہے جس میں ریاست کچھ نہیں صرف پرولتاریہ کی انقلابی آمریت ہوتی ہے،،۔،،۔ مارکس، گوتھا پروگرام پر تنقید،باب چار،،۔ مزدور ریاست بورژوا ریاست سے انتہائی مختلف ہوتی ہے جس کا مقصد انسان کے ہاتھوں انسان کے استحصال کو ختم کرنا اور طبقاتی نظام کا خاتمہ ہے اور ان تمام امتیازات کے خاتمے کے لئے ہی مزدور ریاست کی ضرورت پیش آتی ہے۔ ”اور جب یہ آخر کار پورے سماج کی نمائندہ بن جاتی ہے تو پھر یہ اپنے آپ کو غیر ضروری بنا دیتی ہے۔جیسے ہی کوئی ایسا طبقہ نہیں رہتا جس کو ماتحت رکھا جائے ، جیسے ہی طبقاتی حکمرانی اور پر انتشار پیداوار پر مبنی فرد کی زندہ رہنے کی جدوجہد ختم ہوتی ہے، اور اس سے پیدا ہونے والے ٹکراو¿ اور زیادتیاں ختم ہوتی ہیں اور اس وقت کسی بھی شے پر ظلم کرنے کی ضرورت نہیں رہتی تو ریاست کی ضرورت بھی نہیں رہتی۔ وہ پہلا عمل جس کے ذریعے ریاست اپنے آپ کو پورے سماج کا نمائندہ بناتی ہے، یعنی ذرائع پیداوار کو سماج کے نام پر اپنے قبضے میں لیتی ہے، یہ ساتھ ہی اس کا بطور ریاست آخری آزادانہ عمل ہوتا ہے۔سماجی رشتوں میں ریاست کی مداخلت ایک کے بعد دوسرے شعبے میں غیر ضروری ہوتی جاتی ہے اور پھربتدریج ختم ہو جاتی ہے۔افراد کی حکمرانی کی جگہ اشیاءکا انتظام اور پیداواری عمل کو چلانے کا طریقہ کار لے لیتا ہے ، ریاست کو یکسر ختم ‘نہیں کیا جاتا بلکہ یہ رفتہ رفتہ مٹ جاتی ہے۔،، فریڈرک اینگلز، اینٹی ڈیورہنگ،حصہ تین ، باب دو،،۔ آٹھارہ سو آڑتالیس میں لکھے گئے کمیونسٹ مینی فیسٹو میں مارکس اور اینگلز نے پرولتاریہ کے سیاسی اقتدار پر قبضے کا خاکہ پیش کیا تھا لیکن جب آٹھارہ سو اکہتر میں پیرس کے مزدوروں نے حقیقتاً اقتدار پر قبضہ کر لیا تو انہوں نے زیادہ ٹھوس انداز میں اس کو یوں بیان کیا، ”پیرس صرف اسی لئے مزاحمت کر سکا کیونکہ قبضے کے بعد انہوں نے فوج سے چھٹکارا پا لیا تھا اور اس کی جگہ نیشنل گارڈ کو متعین کیا تھا جس کی اکثریت محنت کشوں پر مشتمل تھی۔اس حققیت کو اب ایک ادارے میں تبدیل کرنا ضروری تھا۔اس لئے پیرس کمیون کا پہلا حکم نامہ فوج کا خاتمہ تھا اور اس کو مسلح عوام سے تبدیل کرنا۔ کمیون میونسپل کونسلروں پر مشتمل ادارہ تھا جسے ووٹوں کے ذریعے ہرعلاقے کے تمام حلقوں سے منتخب کیا جاتا تھا۔یہ نمائندے مکمل ذمہ دار تھے اور ان کو کسی بھی وقت واپس بلایا جا سکتا تھا۔اس کے ممبران کی اکثریت محنت کشوں پر مشتمل تھی یا وہ محنت کش طبقے کے معروف نمائندے تھے۔کمیون پارلیمانی نہیں بلکہ ایک کام کرنے کا ادارہ تھا۔ ایک ہی وقت میں قانون ساز اور انتظامی ادارہ۔ پبلک سروس کرنے پر عام مزدور کی اجرت دی جاتی تھی۔ تمام تعلیمی اداروں کو عوام کے لئے کھول دیا گیا اور ان میں ریاست اور چرچ کی مداخلت ختم کر دی گئی۔اس طرح نہ صرف تمام لوگوں کو تعلیم تک رسائی حاصل ہوئی بلکہ سائنس پران تمام زنجیروں کا بھی خاتمہ ہو گیا جو حکومتی طاقت اور طبقاتی تعصبات کے ذریعے اس پر مسلط کی گئی تھیں۔ عدالتی اہلکاروں کی ان جھوٹی آزادی کو بھی ختم کر دیا گیا جو جس آزادی سے وہ مختلف حکومتوں کے حلف اٹھاتے اور پھر توڑتے تھے، یہ آزادی ان کے مختلف حکومتوں کے غلامی کے طوق پہننے کی تھی۔ دوسرے پبلک سروس کے لوگوں کی طر ح مجسٹریٹ اور جج بھی منتخب اور جواب دہ ہوتے تھے اور انہیں کسی بھی وقت واپس بلایا جا سکتا تھا“۔،،۔مارکس، فرانس میں خانہ جنگی، باب پانچ،،۔ عوامی پنچایتیں ”کمیون ،، یا جو بعد میں روس میں ”سوویت،، کے نام سے ابھری تھیں ،ایک بالکل نیا تجربہ تھا ۔ سماج کے انتظام چلانے کا ایک نیا ادارہ ۔ مارکس اس کے متعلق لکھتا ہے، ”کمیون کی جتنی مختلف تشریحات ہوئی ہیںاور جتنے مختلف نوعیت کے مفادات کی یہ ترجمانی کرتی ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ایک بڑھنے والی سیاسی شکل ہے جبکہ ماضی کی تمام حکومتوں کی شکل انتہائی گھٹنے والی تھی۔اس کا حقیقی راز یہ تھا کہ، یہ لازمی طور پر ایک محنت کش طبقے کی حکومت تھی ۔ پیدا کرنے والوں کی پیداوار پر قبضہ کرنے والوں کے خلاف جدوجہد کا نتیجہ۔ آخر کار ایک ایسی سیاسی شکل نمودار ہوئی جس میں محنت کی آزادی ممکن تھی،، ۔،، مارکس، فرانس میں خانہ جنگی،،۔ اس طرح مارکس نے بتایا کہ پرولتاریہ کی انقلابی آمریت درحقیقت سب سے پہلے پرولتاری جمہوریت تھی۔ پرولتاری جمہوریت بہت سے حوالوں سے بورژوا جمہوریت سے منفرد تھی۔تمام اہم عہدوں پر افراد کو منتخب کیا جاتا تھا اور تمام منتخب اہلکاروں کو کسی بھی وقت واپس بلایا جا سکتا تھا۔انہیں وہی تنخواہ دی جاتی تھی جو عام مزدور کی اجرت تھی۔اور یہ ایسی جمہوریت تھی جس میں کسی بھی سطح پر بیٹھے ہوئے اہلکار یہ فیصلہ کر سکتے تھے کہ اس کام کو کس طریقے سے انجام دینا ہے۔تعلیم اور صحت کی مفت فراہمی سے ایسے حالات پیدا ہو سکتے تھے جس میں تمام لوگ برابری کی سطح پر شریک ہوں۔ اس مکمل جمہوریت میں پرولتاریہ کی آمریت کی ضرورت اس لئے ہوتی ہے تا کہ سرمایہ داروں کی تمام طاقت کو ختم کیا جا سکے اور نہ وہ پارلیمنٹ کو استعمال کر سکیں اور اکثریت کے ووٹوں کے فیصلوں کو تسلیم کریں اور نہ صرف یہ کہ چند سال بعد منتخب ہونے والوں کو تمام اختیارات حاصل ہوں بلکہ فیکٹریوں میں ، سکولوں ، کالجوں میں ہر جگہ منتخب لوگ موجود ہوں اور اپنے فیصلوں کے ذریعے سماج اور معیشت کو چلائیں۔ تا کہ امیرسرمایہ داروں کی اقلیت دوبارہ اقتدار پر قابض نہ ہو جائے اور پرانے نظام کو لاگو کرنے کی کوشش نہ کر سکے۔ پیرس کمیون صرف چند ماہ ہی چل سکی جس کے بعد اسے خون میں ڈبو دیا گیا۔مارکس نے کمیون پر سخت تنقید کی کہ انہوں نے رد انقلابی قوتوں کو بھاگنے کا موقع دیا جوباہر جا کرمنظم ہوئے اور اس خونریزی کا باعث بنے۔لیکن پیرس کمیون کو نصف صدی بھی نہیں گزری تھی کہ روس میں انیس سو سترہ کا بالشویک انقلاب برپا ہوا جس نے دنیا میں ایک بار پھر مزدور جمہوریت قائم کی۔ اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد پرولتاریہ کو پہلے سے موجود ریاستی مشینری کو ختم کرنا پڑے گا کیونکہ اس کی بنیاد جبر پر اور نجی ملکیت کے تحفظ پر ہے۔ لینن نے لکھا تھا ، ”مارکس نے کہا تھا کہ محنت کش طبقے کو ریاستی مشینری کو بالکل تباہ کرنا پڑتا ہے اور اپنے آپ کو اس پر قبضہ کرنے تک محدود نہیں کرنا چاہئے،، ۔ آج اگر کسی ملک میں انقلاب برپا ہوتا ہے تو مختلف ممالک میں اس کے آگے بڑھنے کی رفتار اور طریقہ کار میں فرق ہو سکتا ہے ۔ خاص کر جدید ممالک میں اور پسماندہ ممالک میں یہ فرق اور بھی زیادہ واضح ہو سکتا ہے۔ لیکن کسی بھی انقلاب میں فیصلہ کن کردار موضوعی عنصر یا انقلابی پارٹی کا ہوتا ہے گوکہ بہت سی ایسی مثالیں موجود ہیں جن میں انقلابی پارٹی کے بغیر انقلاب تو برپا ہوا ہے لیکن مستحکم بنیادوں پر آگے نہیں بڑھ سکا جن میں پیرس کمیون اور انیس سو چھپن کا ہنگری کا انقلابی ابھار شامل ہیں۔ آج وینزویلا میں ایک بہت بڑی انقلابی تحریک موجود ہے جو گزشتہ دس سالوں سے مسلسل آگے بڑھ رہی ہے ۔ بہت بڑے پیمانے پر صنعتوں کو نیشنلائز بھی کیا گیا ہے اور انہیں محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول میں دیا گیاہے۔ تعلیم ، علاج اور خوراک کی عوام کو مفت فراہمی کی جا رہی ہے۔ ریلوے اور دوسرا انفراسٹرکچر تیزی سے بہتر ہو رہا ہے۔لیکن اس کے باوجود وینزویلا کے اندر نجی ملکیت کو ختم نہیں کیا جا سکا اور نہ ہی سرمایہ دارانہ معاشی و سماجی رشتوں کو بدلا گیا ہے۔ ابھی تک سرمایہ دارانہ ریاست اور اس کے تمام ادارے فوج، بیوروکریسی، عدلیہ اور پارلیمنٹ کام کر رہے ہیں۔اور ان تمام کی مشترکہ کاوش ہے کہ کسی طرح اس انقلاب کو ناکام کیا جا ئے اور محنت کشوں پر اپنے تسلط کو دوبارہ بحال اور مضبوط کیا جائے۔ گزشتہ ماہ متسوبیشی فیکٹری کے مزدوروں کو فیکٹری پر قبضہ کرنے کی کوشش میں پولیس کی فائرنگ سے قتل کر دیا گیا جس سے واضح ہوا کہ سرمایہ دارانہ ریاست اور اس کے تمام ادارے محنت کش طبقے کے مفادات کے بر عکس کام کرتے ہیں۔ اسی طرح بیسویں صدی میں انقلاب روس کے بعد بہت سے ممالک میں انقلابات آگے بڑھے جن میں سے بہت سی جگہوں پر اقتدار پر بھی قبضہ ہوا۔ لیکن ان انقلابات کے لئے مثال انیس سو سترہ کا لینن اور ٹراٹسکی کاروس نہیں تھا بلکہ اسٹالن کا ایک مسخ شدہ بیوکریٹک ریاستی ڈھانچہ تھا۔ ان انقلابات کے بعد ریاست کے کردار کو تبدیل کیا گیا اور نجی ملکیت کا خاتمہ کیا گیا لیکن مزدور ریاست کو بتدریج ختم کرنے کی بجائے مضبوط کیا گیا جس سے ان ممالک میں بیوروکریسی مضبوط ہوئی۔ آج دنیا میں سوویت یونین موجود نہیں لیکن سرمایہ دارانہ نظام بد ترین بحران سے گزر رہا ہے ایسے میں عوامی تحریکوں کا ابھرنا ناگزیر ہے ۔ یہ عوامی تحریکیں آگے بڑھتے ہوئے حکمرانوں کو چیلنج کر سکتی ہیں اور اس بات کے امکانات موجود ہیں کہ ریاست پر محنت کش طبقہ قبضہ کر لے۔ ایسے میں انقلابی پارٹی کا کردار کئی گنا زیادہ اہمیت اختیار کر جاتا ہے جو کہ دراصل ایک ریاست کے اندر ریاست ہوتی ہے اور انقلاب کی صورت میں پرانے ریاستی ڈھانچے کو اس نئی ریاست کے ساتھ تبدیل کرتی ہے۔ سرمایہ دارانہ ریاست بظاہر ایک بہت بڑی طاقت اور ایک وسیع اور ہولناک ڈھانچہ نظرآتی ہے لیکن جب محنت کش طبقہ ابھرتا ہے اور لاکھوں کی تعداد میں لوگ اپنے مقدر کا فیصلہ کرنے کے لئے باہر آتے ہیں تو یہ تمام ریاستی ڈھانچہ لرزنے لگتا ہے اور محنت کش طبقے کی ٹھوکر اسے اکھاڑ پھینکتی ہے۔ ایک عام ہڑتال کے ذریعے محنت کش طبقہ سارے ملک کو معطل کر کے رکھ سکتا ہے۔ بجلی کی سپلائی مزدوروں کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ ایک ٹیلی فون کی گھنٹی نہیںبج سکتی‘ ایک ہوائی جہاز نہیں اڑسکتا ایک ریل کا پہیہ نہیں گھوم سکتا‘ ایک کارخانہ کام نہیں کرسکتا‘ یہی عام ہڑتا ل ہوتی ہے اوریہی اس کا حقیقی مفہوم ہوتا ہے۔ وہ محنت جوسماج کو چلاتی ہے وہ اسے اور اس کی تمام حرکت کو روک بھی سکتی ہے اور اسے اپنے کنٹرول میں بھی لے سکتی ہے۔ پاکستان کے عوام نے یہاں سترہ اور آٹھارہ فروری انیس سو اناہتر میں ہونے والی رےل کے پہیہ جام ہڑتال میں یہی ہوتے دیکھا تھا اور یہ دوبارہ ہوسکتا ہے۔ ایک کامیاب عام ہڑتال پہلے سے کانپتے ، لڑکھڑاتے ، اور کمزور ہوتے حکمران طبقات اور ریاست کو ہلا کر رکھ دے گی۔ اقتدار کے سبھی اےوان اس سے لرز جائیںگے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس ہڑتال سے مزدوروں کو اپنی ایک طبقے کے طور پر عظیم الشان طاقت کا بھی احساس ہوجائے گا۔ اسی لیے طبقاتی جدوجہد کو آگے بڑھانے کے لیے جرا¿ت اور اعتماد کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس ہڑتا ل کے بعد شہروں کے غریب‘ کسان‘اور سماج کے استحصال کا شکار دوسرے حصوں کا‘ پرولتاریہ پراعتماد قائم اور مستحکم ہو گا۔ وہ پرولتاریہ قیادت کی پیرو ی کریں گے۔ نوجوان جدوجہد کے اس عمل میں پیش پیش ہونگے اور ان کا جوش جذبہ شروع سے ہی پرولتاریہ کو مزید تقویت اور حوصلہ فراہم کرتا جائے گا۔ ایسی صورت حال میں سیاسی افق پر چھائے ہوئے سبھی نان ایشو اور غیر متعلقہ مسائل یکسر بھا پ بن کر ہوا میں تحلیل ہوجائیں گے۔ مذہبی بنیاد پرستی، نسل پرست‘ نیو فاشسٹ اور دوسری رجعتی رد انقلابی قوتیں جو عمومی بے زاری کی کیفیت میں سماج پر عرصے سے حاوی چلی آرہی ہیں،وہ منظر سے یکسر غائب ہوجائیں گی اور یوں امید اور جذبے کی ایک نئی صبح طلوع ہوگی۔ اس قسم کی نیم انقلابی یا انقلابی صورت حال فوج کے سپاہیوں پر بھی گہرے اثرات مرتب کرے گی کیونکہ وہ آخر کار وردی کے اندر کام کرنے والے مزدور ہی ہیں۔ یہی نہیں بلکہ یہ فوج کے نوجوان افسروں اور دیگر عہدیداروں کو بھی مزدوروں کی اس جدوجہد کی طرف مائل کردے گی اور یہ انقلاب کے عمل میں فیصلہ کن مرحلہ ہوگا۔ لیکن ان سب سے زیادہ اہم اور فیصلہ کن موجودگی ایک انقلابی پارٹی کی ہوگی جو واضح نظریات اور درست لائحہ عمل اور طریقہ کار سے لیس ہوگی۔ ایک درمیانے سطحی ذہن رکھنے والا انسان ہی بڑے بڑے سیاسی واقعات کو شخصیات کے تناظر یا حوالے سے دیکھتا ، سوچتا اور پرکھتا ہے۔ یہ تاریخ اور سیاسیات کی ایک بے ہودہ اور نامکمل تفہیم ہے۔ یہ تفہیم جذباتی ناولوں یا گپ شپ کی حامل صحافت کا ہی وطیرہ ہوسکتی ہے۔ نظریہ انقلاب میں وہی اہمیت رکھتا ہے جو جنگ میں عسکری حکمت عملی کو حاصل ہے ۔ جنگ کے لیے ترتیب دی گئی معمولی سی غلطی کی حامل حکمت عملی نا گزیر طور پر طریقہ کار اور عملی لڑائی میں غلطیوں کو جنم دے گی جس سے سپاہیوں کا حوصلہ بھی گرنا شروع ہوجاتاہے اور یوں ہر قسم کی شکستیں‘ ہزیمتیںاور یہاں تک غیر ضروری جانی نقصان بھی ممکن ہوجاتا ہے۔ ایسا ہی معاملہ ایک انقلاب کے ساتھ ہوا کرتا ہے۔ نظریے میں غلطیاں جلد یا بدیر عمل کی غلطیوں میں ظاہر ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔ روزمرہ کی زندگی میں ہونے والی ایک غلطی کو تو نظر انداز کیا جاسکتا ہے لیکن ہر روز کی جانے والی غلطیاں جرائم بن جایا کرتی ہیں۔ انقلابات جدوجہد کی زندگی اور موت کا فیصلہ کیا کرتے ہیں اور اس دوران ہونے والی غلطیوںکا خمیازہ سفاک اور بھیانک ہو اکرتا ہے۔ اس لیے سنجیدہ انقلابیوں کو ہر حالت میں نظریے کی طرف سنجیدہ توجہ دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر یہ سیاسی‘ تنظیمی اور اخلاقی طور پر تیاری کی حالت میں ہو تو ایسی انقلابی پارٹی بہت ہی کم عرصے میں ایک بڑی عوامی قوت بن سکتی ہے۔ ایسی ہی ایک قوت ایک انقلاب کو منظم اور اسے کامیاب کرنے کی اہلیت سے مالا مال ہوگی۔ تاریخ میں کوئی بھی حکمران طبقہ اپنے اقتدار اور مراعات کو بدترین تشدد ، قتل عام ، خون ریزی کیے بغیر آسانی سے برقرار نہیں رکھ سکتا اور اسی کے ذریعے ہی وہ استحصال کے حامل اپنے نظام کو بچاتا اور قائم رکھتا چلا آرہا ہے۔ اس لیے انقلاب کے دوران حکمران طبقات اور ان کی ریاست تشدد برپا کرکے اس کو کچلنے کی کوشش کرتی ہے اور محنت کش طبقات اس کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ انقلاب صرف بندوقوں کی نالیوں سے ہی نکلتا ہے۔ ایک طبقاتی جنگ میں انقلابی فتح کے پیچھے سب سے فیصلہ کن قوت ایک طبقے کا اتحاد،یک جہتی اور کرگزرنے کا جذبہ ہو ا کرتا ہے۔ محنت کش طبقہ کبھی بھی نہ خواہش رکھتا ہے اور نہ کوشش کرتا ہے کہ پرتشدد ذرائع استعمال کر کے اپنا انقلابی مقصد حاصل کیا جائے۔ مگر مارکسی کارکن اور انقلابی محنت کش طبقہ کسی طور پر عاجزو نیاز مندبھی نہیں ہوا کرتے۔ تشدد کا جواب کبھی بھی عدم تشدد نہیں ہوا کرتا ۔ سرمایہ داروں کی طرف سے کیے جانے والے پرتشدد حملے اسی شدت اور نوعیت کے ساتھ ان کی طرف لوٹائے جائیں گے جو ریاستی قوت یا غنڈوں کے ٹولے اس میں شریک ہوں گے ان کو بھی ویسا ہی جوا ب دیا جائے گا۔ آخر کار یہ ایک جنگ ہے‘ ایک طبقاتی جنگ ۔۔۔ لیکن مزدوروں کی اس مسلح جدوجہد کا مقصد یا ذریعہ نہ تو دہشت گردی کرنا ہے اور نہ ہی گوریلا لڑائی انقلابی مارکسزم کا کوئی کلاسیکل طریقہ ہے۔ انقلاب کا دفاع فیکٹری کے دروازوں پر ہڑتالوں کے دوران قائم ہونے والی مزدوروں کی مسلح دفاعی کمیٹیوں کی تشکیل اور سرگرمی سے شروع ہوتا ہے اور چھاﺅنیوں میں بھی سپاہیوں اور چھوٹے درجے کے فوجی افسران کی حکمران طبقات کے متشدد اور وحشی عناصر کے خلاف لڑائی بھی اس عمل کا ایک عنصر ہے ۔ مگر انقلاب کے پیچھے حقیقی نامیاتی طاقت ایک عام ہڑتا ل ہوا کرتی ہے جو پورے سماج کو مفلوج کرکے رکھ دیتی ہے اورجو عوام کو انقلاب کی کامیابی کے اعتماد سے بھردیتی ہے۔ پاکستان کا حکمران طبقہ اور ان کی ریاست نحیف و نزار ہوچکے ہیںاور بحران کی شدت ان کو مزید حواس باختہ کیے ہوئے ہے یہ کیفیت ان میں چڑ چڑا پن ، بے رحمی اور سفاکی پیدا کرتی جارہی ہے ،اس لیے وہ وحشیانہ اور بے رحمانہ تشدد کے ذرائع استعمال کرنے کے رحجان میں دھنستے چلے جارہے ہیں۔ ان کا اپنے آپ پر سے اعتماد اٹھ چکا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں ہونے والے انقلاب کو زیادہ سخت ، سرکش ہونا پڑے گا۔ مارکسی کارکن ،انقلاب کی جتنی زیادہ بہتر اور موثر تیاری کریں گے اتنا ہی محنت کش طبقے کا مزاج اور جرا¿ت مضبوط اور ٹھوس ہوتی چلی جائے گی۔ جس کے نتیجے میں انقلاب پر ہونے والے حملوں اور تشد د کی نوعیت کمزور ہوسکے گی۔ ایک باشعور اور ولولہ سے لبریز عوام کو دنیا کی طاقت ور ترین فوجیں بھی مل کر شکست نہیں دے سکتیں۔ انقلاب کا دس میں سے نو حصہ عوام کو انقلاب کی طرف مائل کرنا اور جیتنا ہوتا ہے اور جیسا کہ مارکس نے کہا تھا کہ جب عوام ایسے نظریے کو اپنا لیتے ہیں تو یہ ایک زندہ اور ناقابل شکست مادی قوت بن جایا کرتے ہیں۔ اوریہی انقلابی ابھار کی حقیقی طاقت اور اس کی کامیابی کی کنجی ہوتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام اور اس کی ریاست کو اکھاڑ پھینکنے کے بعد قائم ہونے والی ایک سوشلسٹ جمہوریہ استحصال کا شکار ہونے والوں کے لیے زندگی کے ایک نئے خوشگوار آغاز کا راستہ ہموار کرے گی۔ جب صدیوں اور کئی نسلوں سے ان کے ذہنوں ، ان کے پاﺅں میں پڑی ہوئی زنجیریں ٹوٹ جائیں گی تو آزادی کا یہ احساس انہیں ایک ایسی جرا¿ت اور طاقت اور اعتماد بخش دے گا جس سے عوام اور مزدوروں میں ایسی طاقت پیدا ہوجائے گی کہ معجزے ممکن ہونا شروع ہوجائیں گے۔ پاکستان میں ایک فتحمند سوشلسٹ انقلاب ملک کی سماجی زندگی میں تبدیلیاں لانے اور مواقع پیدا کرنے کا ایسا ماحول بنا دے گا جس کا ماضی کی نسلوں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا ہوگا۔ ان میں سے کچھ اقدامات فوری نتائج کے حامل ہوں گے۔ اگر آج پاکستان میں انقلاب برپا ہوتا ہے ، جس کے بڑے پیمانے پر امکانات موجود ہیں تو انقلابی پارٹی کو اقتدار پر قبضہ کرتے ہوئے تیز ترین اقدامات کرنے پڑیں گے۔ سب سے پہلا حکم نامہ فوج کے خاتمے کا ہو گا اور موجود فوج اور اس کے ڈھانچوں کو مکمل طور پر ختم کر دیا جائے گا ۔ اس کو مسلح عوام کی سر خ فوج سے تبدیل کیا جائے جس میں تمام افسران منتخب ہوں گے۔ انیس سو آٹھاسٹھ، اناہتر کے انقلاب کے بعد ایسے حالات موجود تھے کہ اقتدار پر قبضہ کر کے فوج کو ختم کر دیا جاتا ، خاص طور پر انیس سو اکہتر کے سقوط ڈھاکہ کے بعد ایسا کرنا نہایت آسان تھا۔ لیکن فوج کو ختم کرنے کی بجائے اسے مضبوط کیا گیا ۔آج پاکستان فوج پہلے کی نسبت کہیں زیادہ پر انتشار ہے۔ قبائلی علاقوں، سوات اور بلوچستان میں ہونے والے فوجی آپریشن کے باعث فوج کے نچلی سطح کے اہلکار وںمیں اعلیٰ قیادت سے سخت نفرت موجود ہے جوکسی بھی وقت پھٹ سکتی ہے۔ بنگلہ دیش میں ہونے والی فوج کے ایک حصے کی بغاوت پاکستان کے مستقبل کی جھلکی کے طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔ یہ بغاوت بنگلہ دیش رائفلز میں ہوئی تھی جس کا پرانا نام مشرقی پاکستان رائفلز تھا۔ انیس سو اکہتر میں مشرقی پاکستان رائفلز کے نو ہزار اہلکاروں نے اپنے افسران کے احکامات ماننے سے ا نکار کر دیا تھا اور بغاوت کا آغاز کیا تھا۔ اب پھر کم تنخواہوں، پست معیار زندگی اور دوسرے بنیادی مسائل پر اس بغاوت کا آغاز ہوا ہے۔ پاکستان کے اندر فوج کی نچلی سطح کے اہلکاروں کا معیار زندگی بھی انتہائی پست ہے اور اس کے خلاف نفرت بھی موجود ہے۔ملک کے اندر فوجی آپریشنوں سے متنفر ہو کر بہت سے فوجی بھگوڑے ہو رہے ہیں اور وقت کے ساتھ اس تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، جس سے فوج کے ادارے اور ریاست کی کمزوری کا واضح پیغام ملتا ہے۔ اسی طرح تمام صنعتوں اور اداروں کو محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول میں دے دیا جائے گا۔ ٹراٹسکی نے اپنی کتاب ” انقلاب سے غداری،،میں لکھا ہے کہ” سوشلزم اور سرمایہ دارانہ نظام کے مابین عبوری دور سے قطعی یہ مراد نہیں ہوگی کہ تجارت کا یکسر خاتمہ ہوجائے گابلکہ اس کے برعکس اس میں غیر معمولی اضافہ ہوگا۔ صنعت کے تمام شعبے اپنے آپ کو بدلیں گے اور نئی ترقی کا رخ اختیار کریں گے۔ نئی صنعتیں مسلسل قائم کی جائیں گی اور ان سب کو پابند کیا جائے گا کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ مقدار اور معیار دونوں حوالوں سے باہم جڑی ہوئی ہوں۔خاندانی نظام کے خاتمے کے ساتھ ساتھ کسان کی صارفیت کی حامل معیشت کے خاتمے کا مطلب سماجی تبدےلی کے دائرہ کاراورمعےشت کے گھن چکر کی تبدےلی ہے اور اس تمام قوت محنت کی بھی جس کا پھےلاﺅ صرف مےدانوں کی حدودتک محدود تھا ےا پھر نجی شعبوںکی دےواروں مےں قےدتھا۔ہر پیداوار اور ہر خدمت تاریخ میں پہلی بار ایک دوسرے کے لیے تبادلے کے کام میں لائی جائے گی،،۔ ،،۔ لیون ٹراٹسکی، انقلاب سے غداری، صفحہ ستاسٹھ ،،۔ ذرائع پیداوار کو قومی تحویل میں لینا اور منصوبہ بند معیشت کا تعارف ،منڈی کے انتشار اور نجی ملکیت کے خاتمے کی طرف ایک بڑا قدم ہوگا۔ ریاست معیشت کو اب بھی مضبوط اور مربوط کرسکتی ہے مگر یہ صرف ”قدر کے قانون“ کی تنگ حدود میں رہ کرکرتی ہے۔ عبوری دور میں قدر کے اس قانون کو ختم نہیں بلکہ اس کی کیفیت بدل دی جائے گی۔ ٹراٹسکی اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ ” ذرائع پیداوار اور قرضوں کو قومی تحویل میں لیا اور اندرونی تجارت کو کوآپریٹو اور ریاستی شکل میں ترتیب دیا جائے گا۔ غیر ملکی تجارت کی اجارہ داری کو ضبط کیا جائے گا ، اجتماعی زراعت کاری کو پروان چڑھایا جائے گا وراثت کے قانون اور دولت کے شخصی ارتکاز پر سخت پابندیاں عائد کی جائیں گی اور ایسی دولت کو اقتصادی اور صنعتی سرمائے میں تبدیل ہونے سے روکا جائے گا۔ تاہم سرمائے کی ان شکلوںکو جو کہ استحصال کرنے کا ذریعہ بنی چلی آرہی تھیں ، انقلاب کے آغاز پر فوری طور ختم نہیں کیا جائے گا بلکہ ان کی شکل تبدیل کرتے ہوئے انہیں ریاست ، عالمگیر تجارت ، اور صنعت اور کریڈٹ سازی کے کام لایا جائے گا۔ اسی دوران پیسے کی زیادہ ابتدائی شکلوں کو بطور قدر کے پیمانے‘ تبادلے کے ذریعے اور ادائیگی کے وسیلے کے طور پر قائم رکھا جائے گا۔ بلکہ انہیں سرمایہ دارانہ نظام سے کہیں زیادہ اور وسیع شکل مہیا کی جائے گی ،،۔،، ایضاً، صفحہ چھیاسٹھ ،،۔ ذرائع پیداوار کی مزید ترقی کے ذریعے اوقات کار میں کمی کی جائے گی اور پیداواری صلاحیت کو ناقابل تصور بلندیوں تک لے جایا جائے گا۔ جس سے پوری آبادی کا معیار زندگی اور ثقافتی سطح بلند ہوتی چلی جائے گی اور یوں سماج میں ماضی کی بچ جانے والی پسماندگی اور محرومی کو سوشلسٹ عناصر کی مزید ترقی کے ذریعے ختم کردیا جائے گا۔ اس مرحلے کی رفتار اور آسانی کا دارومدار جو اس عبوری دور میں کیا جائے گا ، اس سماج کے مادی حالات پر ہوگا۔ بلاشبہ قومی تحویل میں لی گئی ایک منصوبہ بند معیشت ہمیں ہر حال میں سرمایہ دارانہ نظام پر فوقیت دیتی ہے۔ مزدوروں کی ریاست شعوری طور پر اپنی ،، محدود ، معاشی اور سماجی ترقی کی سطح کوملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ،، پیداوار کی منصوبہ بندی اور ا سے مربوط بنانے کی کوشش کرسکتی ہے۔ یہ سرمایہ کاری کی شرح پیداوار اور صارفیت کے ذرائع کے مابین توازن اور استعمال ہونے والی اشیاءکی قیمتوں کو متعین کرسکتی ہے۔ ایلن وڈز اپنی معرکة الآرا کتاب ”اصلاح پسندی یا انقلاب ،، میں سوشلزم کے تحت حقیقی مستقبل کو بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے” ایک منصوبہ بند معیشت انسانیت کو تمام قدرتی وسائل اور ذرائع کو ایک معقول اور سائنسی اندازمیں انسانی صارفیت کی ضرورتوں کو متوازن رکھتے ہوئے اور اس خوبصورت اور رنگا رنگ دنیا کی تمام خوبصورتی کو برقرار رکھتے ہوئے ان سبھی فطری مظاہر اور خوبصورتی کو آنے والی نسلوں کے لیے برقرا ررکھنے کے قابل کردیگی۔ ہمارے آج کے اس دور میں سوشلزم قطعی کسی سخت گیر سنجیدہ حکومت کو قائم نہیں کرے گی مگر اس کے برعکس ایک خالص ، سوشلسٹ سماج ان تمام بلندیوں سے آغاز کرے گا جس پر سرمایہ دارانہ نظام پہنچ چکا ہے۔ یہ معیار زندگی کو کم نہیں کرے گا بلکہ اسے ہر سطح ، ہر شعبے میں ممکن بلندی تک لے جائے گا۔ یہی نہیں بلکہ یہ کام کے اوقات میں عمومی کٹوتی کرے گا۔ شراکتی جمہوریت کے لیے یہی اولین شرط ہے اور یہی ایک حقیقی مزدور جمہوریت ہوگی۔ اس کے بغیر سوشلزم کے بارے میں ہر قسم کی بات ، گفتگو اور دعویٰ ایک کھوکھلے نعرہ کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ سوشلزم کے ذریعے جیسا کہ مارکس اور لینن نے قرار دیا ہے ، ذرائع پیداوار کی ترقی اس مناسب سطح تک پہنچ چکی ہے کہ جس سے دنیا میں ہر قسم کی مادی نا برابری کا خاتمہ ممکن ہوسکتا ہے۔ طبقات کا خاتمہ عدالتی فیصلوں سے نہیں ہوسکتا اس کے لیے بہت سی چیزوں کو ترک کرنا اور اکھاڑ پھینکنا ہوگا تب جاکر زندگی کا معیارناقابل یقین بلندیوں کو چھوسکے گا۔ ہر بنیادی انسانی ضرورت کی تکمیل ممکن بنادی جائے گی جس کے نتیجے میں زندہ رہنے کی جدوجہد کی ہر ذلت آمیز شکل کا خاتمہ ہوجائے گا۔ کام کرنے کے اوقات میں عمومی کٹوتی ، ایک اعلیٰ اور خوشگوار ثقافتی ارتقاء، کو جنم دے گی۔ یہ ہر مرد و زن کو صنعت ، ریاست اور سماج کے انتظامی معاملات میں برابر اور بھرپور شرکت کے قابل بنائے گی۔ اپنے آغاز سے ہی مزدور ریاست کسی بھی سرمایہ دار جمہوری ملک سے کہیں بلند جمہوری شراکت کو نئی اور بلندسطحوں سے ہمکنارکردے گی۔ جس کے نتیجے میں طبقات سماج میں تحلیل ہونا شروع کردیں گے اور آخر کار اس کے نتیجے میں ایک طبقاتی سماج کی آخری بے ہودہ نشانیاں سرمایہ اور ریاست دونوں ناپید ہوجائیں گے۔،،۔ ایلن وڈز، اصلاح پسندی یا انقلاب ، صفحہ دو سو چھیاسٹھ ، ستاسٹھ ،،۔ ایک سوشلسٹ انقلاب صرف معیشت اور ریاست کو ہی تبدیل نہیں کیا کرتا بلکہ اسے گلے سڑے ثقافتی ، اخلاقی ، اور سماجی اقدار اور معیار کو بھی اکھاڑ کر ایک طرف پھینکتا ہے جو حکمران طبقے نے اس سماج پر مسلط کیے ہوتے ہیں ۔ یہ سوشلسٹ انقلاب انسانی روح میں ایک نیا جوش ، جذبہ امنگ ، خوشی بھر دےگا۔ سماجی اور اخلاقی معیار کو بدلتے اور بہتر کرتے ہوئے محرومیوں کا شکار عوام کو مایوسی، بے بسی اور گھٹن کی نفسیات سے باہر نکال دے گا جو سرمایہ دارانہ نظام نے نسلوں سے ان پر مسلط کر رکھا تھا ۔ انقلاب کا یہ نیا منور، سرشار، روح پرور جذبہ عوام کو ایک نئے عزم اور سرشاری کے ساتھ زندہ رہنے کا حوصلہ اور رستہ فراہم کرے گا جس کے ذریعے وہ اپنی جسمانی ، نفسیاتی جکڑ بندیوں کو توڑ کر تہس نہس کردیں گے۔ سرمایہ دارانہ نظام نے پاکستان کے چہرے کو بری طرح مسخ کرکے رکھ دیا ہے جو پہلے ہی خاک و خون میں لتھڑا ہوا تھا۔ گلیاں ، محلے، جھونپڑ پٹیاں اور دیہات جن میں آبادی کا بہت بڑا حصہ زندگی بسر کرتا ہے ، حقیقی معنوں میں کوڑے خانے میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ ہسپتالوں کی حدود کے اندر مریضوں کے وارڈوں کے بالکل نزدیک ، استعمال شدہ اور ضائع شدہ سامان کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں جس سے یہ ہسپتال بیماریوں کا خاتمہ کرنے کی بجائے ان میں اضافہ کرنے کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔سیوریج پائپ سے بہنے والے اور گٹروں سے ابلنے والے گندے پانی کی وجہ سے گلیاں آلودہ ہوچکی ہیںاور وہاں سے گزرنا محال ہوچکاہے۔ محروم انسان مایوسی کی اس کیفیت کے عادی ہوچکے ہیں۔ اسی گندگی اور تعفن میں سانس لینے پر مجبور کردیے گئے ہیں۔ ان کے پاس اتنی سکت ہی نہیں کہ وہ اپنے کچے گھروں کے سامنے گزرنے والی اس گندگی کے ڈھیر کو ہٹا سکیں مگر انہی مفلوک الحال انسانوں کو انقلاب ایک ایسی شکل اور طاقت عطا کردے گا کہ وہ صرف اپنی گلی محلے کے ہی نہیں بلکہ اپنے سماج کی بھی ہر گندگی کو صاف کرکے رکھ دیں گے کیونکہ استحصال کرنے والے امیر طبقے اوران کے بنائے ہوئے اداروں نے سارے پاکستان کو گندگی اور تعفن کے مرکزمیں تبدیل کرکے رکھ دیا ہے ۔ دسمبر انیس سو سترہ میںلینن نے لکھا تھا کہ ”اگر سب سے اہم ترین نہ سہی پھر بھی آج کے اہم ترین فریضوں میں سے ایک فریضہ یہ ہے کہ محنت کشوں کی آزاد پہل گامی کو فروغ دیا جائے اور سبھی محنت کشوں اور استحصال زدہ لوگوں کو ایک وسیع پیمانے پر جتنا ممکن ہوسکے ایک تخلیقی، تنظیمی کام کی طرف راغب کیا جائے۔ ہر قیمت پر ہمیںاس پرانے ،تنگ نظر،جابرانہ، توہین آمیز ، تعصب‘ تاثر اورتصورکاخاتمہ کرنا چاہیے کہ صرف اور صرف نام نہاد بالا دست طبقہ، صر ف امیر ، امیروں کے بنائے ہوئے تعلیمی اداروں میں جاسکنے والے ہی، ریاست کا نظم و نسق چلانے کی اہلیت سے مالا مال ہوتے ہیں۔ ہمیں ان مزدوروں اور غریبوں کو یہ یقین دلانا ہوگاکہ ایک سوشلسٹ سماج کی تعمیر ، تشکیل اور ترقی انہی کے ہاتھوں ممکن ہوگی،، ۔ تائیس ۔ لینن، مجموعہ تصانیف، جلد چھبیس ، صفحہ چار سو نو ،،۔ انقلاب کا ایسا ہی عمومی ولولہ نوجوانوں اور مزدوروں کو ایک ایسے اعتماد ،ایک ایسی جرا¿ت سے روشناس اور مالا مال کردے گا کہ جس کا انہیں اپنی زندگیوں میں پہلے کبھی نہ احساس ہوا ہوگا نہ تجربہ۔ اپنے آپ کو طاقتورسمجھتے ہوئے‘ معاشی اور سماجی طاقت کے شعور کے ساتھ جب یہ اٹھےں گے اور انقلاب کے لےے درکار تاریخی فرائض کو ادا کرنے کے لیے پیش قدمی کریں گے تو یقینی فتح سے ہمکنار ہوں گے۔ ہر سطح پر ہر کسی کے لیے تعلیم اور علاج مکمل طور پر مفت فراہم کیا جائیگا۔ صحت، علاج معالجہ، اور تعلیم کے شعبوں میں نجی منافع کو ایک سوشلسٹ نظام میں جرم قرار دیے دیا جائیگا۔ ،،، بیروزگاری کو کم سے کم وقت میں ختم کیا جاسکتا ہے۔ فوری طور پر ایک انقلابی حکم کے ذریعے ہفتہ وار اوقات کار کم کرکے بیس گھنٹے کردیے جائیں گے۔ صرف اس ایک اعلان سے لاکھوں بیروز گاروں کو روزگار میسر آجائے گا۔ ووکیشنل ٹریننگ سکولز ، پولی ٹیکنیک ادارے اور ان جیسے دوسرے فنی ادارے قائم کیے جائیں گے جن میں نو جوان اور بالغ افراد کو مختلف شعبوں کے حامل کریش ٹریننگ پروگرام کی تربیت دی جائے گی۔ جس کے نتیجے میں تیزی سے ایک ایسی افرادی قوت تعمیر ہوگی جو انسانی ضرورتوں کو پورا کرنے والی پیداوار میں اضافہ کے لیے ممدومعاون ثابت ہوگی۔ ،،،، ایم۔ بی ۔اے وغیرہ جیسی ڈگریاں اور اہلیتیں ایک سرمایہ دار انہ سماج میں محض ایسے افراد کی تعلیم و تربیت کی حامل ہوتی ہےں جنہیں کم از کم وقت میں زیادہ سے زیادہ محنت کرانے اور اس سے لوٹ مار کرنے کا کام لیا جاتا ہے مگر خود مزدوروں کے اپنے ہی کنٹرول میں ، صنعت اور معیشت کو ایک سوشلسٹ پیداواری منصوبے کے ذریعے حاصل ہونے والی بھاری رقوم کو جو سرمایہ دارانہ نظام میں منیجروں ، نام نہاد ماہرین اور کمپنیوں کے چیف ایگزیکٹوکی بھاری تنخواہوں پر خرچ کی جاتی ہے ، معیشت اور صنعت کی ترقی کے کام میں لایا جائےگا۔ ،،،، تمام بڑی جاگیروں کا خاتمہ کردیا جائیگا۔ زمین ان کاشتکاروں میں تقسیم کی جائیگی جو کاشتکاری کے مقصد کے لیے زمین لینے کے خواہش مند ہوں گے ۔ سوشلسٹ ریاست کا بنیادی محور زراعت کو صنعت میں تبدیل کرنا اور اس کے ذریعے مشینی زراعت کو جدید ترین تیکنیک کو بروئے کار لاتے ہوئے بڑے پیمانے کے زرعی یونٹ قائم کرنا ہے ۔ یہ سب سماج کی ملکیت ہوگا اور اس کا انتظام و انصرام ایسے اجتماعی فارموں پر کام کرنے والے زرعی مزدوروں کی منتخب کمیٹیاں کریں گی۔ زائد پیداوار کا حصہ جدید ترین ٹیکنالوجی کے حصول پر خرچ کیا جائیگا۔ لیکن اس کا بڑا حصہ اجتماعی ملکیت کی حامل معیشتوں کے لیے وقف کر دیا جائیگا اور ایک تیز رفتار پانچ سالہ پروگرام تشکیل دے کر عوام کے معیار زندگی کو بلند کیا جائیگا اور معیار زندگی کی اس بلندی کو تیز تر اور مستقل کیا جائیگا۔ ،،، عالمی اجارہ داریوں ، بڑے بینکوں، قومی سرمایہ داروں ، جاگیرداروں اور حکمران طبقہ کے دوسرے لٹیروں سے دولت چھین کر گھروں کی تعمیر ، اعلی معیار کے حامل بجلی ، پانی ، گیس کی سپلائی ، اور محروم علاقوں میں بجلی کی فراہمی، جدید آب پاشی کے نظام کی ترویج، سیوریج ، واٹر سپلائی کے منصوبوں، جدید ریلوے سسٹم، سڑکیں اور عام انسانوں کی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے بروئے کار لایا جائیگا۔ بنیادی انسانی ضروریات کی اشیاءکی پیداوار اور فراہمی کو سب سے بڑی ترجیح قرار دیا جائیگا۔ پٹرولیم کی مصنوعات‘ گیس ، بجلی اور پانی کی فراہمی سے حاصل ہونے والا زائد منافع حکومت اکٹھاکرے گی اور اسے عالمی تجارت اور درآمد ہونے والی اشیاءکی قیمتوں کو کم کرنے کے کام میں لائے گی اور عوام اپنی جمہوری کنٹرول کی کونسلوں کے ذریعے خود ہی یہ فیصلہ کریں گے کہ ان کی بنیادی ضرورتیں کیا ہیں اور ان کی اجتماعی تقسیم کیسے ممکن بنائی جائے۔ ،،، ایک ایسا سیاسی نظام رائج کےاجائے گا جہاں تمام سےاسی پارٹیاں سرمایہ داری کو ترک کردیں گی اور ان کے سیاسی ڈھانچے جو مفاد پرست، بدمعاش، سرمایہ داروں ، سامراجی اداروں کی مددسے قائم ہوتے ہیں کا خاتمہ کردیا جائیگا۔ ان کو مزدوروں ، سپاہیوں ، کسانوں، اور طلباءوغیرہ کی بنائی ہوئی کونسلوں کے سیاسی ڈھانچوں کے اندر رہ کر کا م کرنے کی اجازت ہوگی۔ عوام کے بنائے ہوئے یہ نئے انقلابی ڈھانچے ہی درحقیقت سماج کو چلائیں گے۔ ان کے کام کرنے کا طریقہ اور میکنزم” جمہوری مرکزیت،، کے اصول پر قائم ہوگا۔ ایک ایسی پارٹی جسے عوام کی حمایت حاصل نہ ہوگی، اسے اقتدار میں آنے کا کوئی حق نہیں ہوتا۔لینن کے الفاظ میںانسانی تاریخ میں پہلی بار سوشلسٹ نظام سماج میں جمہوریت کی بلند ترین شکل مرتب کرے گا۔ ،،، ایک منصوبہ بند معیشت کے حامل نظام میں الیکشن مالیاتی سرمائے ، طبقاتی امتیاز اور سماجی نابرابری سے پاک صاف کردیے جائینگے۔ کسی بھی امیدوار کے پاس اس کے سماج میں مالیاتی یا سماجی مرتبے سے فائدہ اٹھانے کا کوئی موقع نہےں ہوگا۔ پاکستان میں پہلی بار ایک سوشلسٹ انقلاب” ا نتخاب،، choiceکے آزادانہ حق سے مستفید ہونے کے مواقع فراہم کرے گا۔ انقلاب، انقلابی پارٹی کے کم ازکم اور زیادہ سے زیادہ پروگرام کے مابین فرق اور فاصلے کو ختم کردیگا۔ خارجہ پالیسی کے حوالے سے ایک سوشلسٹ حکومت دنیا کے ہر ملک میں چلنے والی طبقاتی جدوجہد کی مکمل حمایت کرے گی اور خاص طور پر اپنے پڑوسی ملکوں میں جاری جدوجہد پر زیادہ توجہ دی جائے گی۔ یہ ایک جرا¿ت مندانہ سامراج مخالف پالیسی اپناتے ہوئے دنیا بھر میں محرومی اور مظلومیت کا شکار، قومیتوں، اقلیتوںاور نسلوں کی طبقاتی بنیاد پر حمایت کرے گی اور سامراجی و سرمایہ دارانہ استحصال کے خلاف علم بلند کرے گی۔ خارجہ پالیسی میں طبقاتی جدوجہد کی حمایت خو د ایک سوشلسٹ انقلاب کے اپنے دفاع کی بہترین حکمت عملی ہوگی۔ ،،، ضرورت کی نفسیات کی طبقاتی بنیاد کا خاتمہ کردیا جائیگا۔ ایک انقلاب سب سے بڑھ کر سماج کی اس بیگانگی کو ختم کرے گا جہاںہر فرد کسی نہ کسی شکل میں شکار ہورہا ہے ۔ یہ بیگانگی انسانوں کو خود انسانوں سے خوف زدہ کردیتی ہے جواپنی نوعیت اور ہئےت میں غیر حقیقی اور غیر فطری ہے۔ اس سے انسانو ں میں فرار کی کیفیت اور نفسیات پیدا ہوجاتی ہے۔ جس کے نتیجے میں سماجی خوف انہےںانسان نہیں بلکہ حیوان بنادیتا ہے۔ انقلاب بھائی چارے، ایثار اور شراکت کا خوبصورت ماحول تخلیق کرے گا۔ لوگ اس سے ایک دوسرے کے قریب آئیں گے‘ ایک دوسرے پر اعتماد کریں گے اور ایک دوسرے کو برابر کا انسان سمجھ کر زندگی کے حقیقی رنگ و روپ سے لطف اندوز ہوں گے۔ اس سے ہاﺅسنگ ، ٹرانسپورٹ اور دوسرے شعبوں میں انتہائی گہرے اور وسیع اثرات مرتب ہونگے اور ضروریات کا حامل ڈھانچہ ،سماج میں تنہائی اور بیگانگی کے منظم خاتمے کے ساتھ ہی بدل کے رہ جائے گا۔ امیر سرمایہ داروں اور سامراجی اجارہ داریوں کے وسائل کو قبضہ میں لیتے ہوئے جدید ترین اور اجتماعی سڑکیں اور ریل ٹرانسپورٹ متعارف کرائی جائے گی۔ اور ایسے ماحول میں لوگ اپنی نجی گاڑیوں میں الگ الگ سفر کرنے کی بجائے بسوں اور ٹرینوں میں سفر کرنے کو ترجیح دیں گے۔ ،،، جنسی امتیاز کا یکسر خاتمہ کردیا جائے گا۔ پارلیمنٹ میں ایسی خواتین کی نمائندگی جن کا تعلق سرمایہ داروں کے اشرافیہ خاندانوں سے ہے جو اپنے گھروں میں کام کرنے والی خواتین سے اپنے بچوں کی پرورش اور گھر یلوکام کراتی ہیں‘ کھیتوں اور کارخانوں میں مشقت کرنے والی لاکھوں مزدور خواتین کی توہین ہے جن کا دہرا اور تہرا استحصال کیا جاتا ہے۔ یہی وہ عورتیں ہیں جنہیں سب سے بڑھ کر اور سب سے پہلے انقلاب اس جبر سے آزا د کرائے گا۔ ہر دیہات‘ مضافات اور کارخانے کی سطح پر خصوصی کنڈر گارٹن قائم کیے جائیں گے جہاںعورتوں کے لیے زیادہ محفوظ، پرسکون کام اور تفریح کے مواقع بھی فراہم کیے جائیں گے۔ گھریلو کام کے استحصال کا خاتمہ کردیا جائیگا جن کا زیادہ تر شکار خواتین ہی ہوتی ہیں۔ وہ جو اپنے اپنے کارخانوں، کھیتوں میں کام کرنا چاہتی ہیں انہیں آزادی ہوگی کہ وہ رجعتی سماجی اقتدار اور خاندان کی اطاعت سے آزاد ہو کر اس کام کو جاری رکھ سکیں۔ کام کرنے والی عورتوں کو ہر شعبہ میں دوران زچگی اوردیگر سماجی مواقع کے لیے درکار مراعات اور سہولتیں فراہم کی جائیں گی۔ ہر انسان کو حق حاصل ہو گا کہ وہ جس مذہب اور عقیدہ پر قائم رہنا اور عمل کرنا چاہے کرے۔ انسانوں کی نجی زندگیوں پر مزدور ریاست کی طرف سے ہر قسم کی مداخلت ختم کردی جائیگی۔ مذہب یا عقیدے کو استعمال کرتے ہوئے منافرت پھیلانے ، استحصال کرنے یا تشدد اور ذلت کا نشانہ بنانے کی ہر گز اجازت نہیں دی جائیگی۔ ریاست اپنے کردار میں حقیقی طور پر سیکولرہوگی اور مذہب فرد کا خالص ذاتی معاملہ قرار دے دیا جائیگا۔ کسی انسان کو کسی دوسرے انسان کی طرف سے اس کے عقےدے کو بدلنے ‘اس پر انگلےاں اٹھانے ےا اس بنےاد پر اسے ختم کرنے کی اجازت نہےں ہوگی۔ ،،، آرٹ ‘ ادب ‘ ثقافت‘ فلم‘ کھیل، تھےٹر‘ موسےقی سمےت سماج کی سبھی تفرےحی سرگرمےوں کومالےاتی سرمائے کے ہوسناک پنجوں سے آزاد کردےا جائے گا۔پہلی بار حقےقی معنوں مےں سماج کو فن کی دلنشےں دنےا سے لطف اندوز ہونے تک رسائی ممکن ہوگی۔ لوگوں کی اس قدر دلچسپی و رغبت کی بنےاد پر فن کو بلند وبہترپےمانے پر نشوونماپانے کے مواقع مےسر آجائےں گے۔آزاد ہوچکے انسانوںکی تےار کی گئی موسےقی کی دھنےں ترنم اور لطف کی نئی مگر ناآشنا روح پروری سے روشناس ہو ں گی۔ سماج کے ہر میدان اور شعبے مےں اس قسم کے اور بھی کئی انقلابی اقدامات محنت کش طبقے کی جمہوری طورپر منتخب پرولتاریہ کی انقلابی رےاست کی طرف سے فوری طورپر عمل مےں لائے جائےں گے۔اشےائے ضرورت کی پےداوار اور معےار زندگی مےں ہونے والی بڑھوتری اور بہتری اس معےار پر پہنچا دی جا ئے گی جس کا کبھی تصور بھی نہ کےا گےا ہوگا۔اس سے جنم لےنے والی خوشحالی اورخوشی کا اےک دھارا بہہ نکلے گا جوسماج کے ساتھ ساتھ انسانی تارےخ کو بھی منور و معتبر بناتا جائے گا۔ثقافت اور تہذےب اس نہج اور معےار پر پہنچ جائےں گے کہ جن کی بدولت ہر قسم کے استحصال،تعصب اور توہمات کا ہمےشہ ہمےشہ کےلئے خاتمہ ہوجائے گا۔فطرت اور کائنات پر انسانی غلبے کا تارےخی عمل شروع ہوجائے گا۔