حصہ دوم: چی گویرا کون تھا اور کس مقصد کے لئے لڑا؟ Urdu Share Tweetچی گویرا کی 45ویں برسی پر اس عظیم انقلابی کی زندگی، جدوجہد اور نظریات کے بارے میں شائع کئے جارہے ایلن ووڈز کےمضمون کا دوسراحصہ پیش کیا جارہا ہے۔بقیہ حصوں کے لنک صفحے کے آخر پر ملاحظہ فرمائیں۔ایک مزدور ریاست کیسی ہونی چاہیے؟’’(پیرس)کمیون، میونسپل کونسلروں،پسماندگی کی بنیا دپرشہر کے مختلف حصوں سے منتخب ہونے والے کونسلروں پر مشتمل تھی جو نہ صرف مکمل طورپر جوابدہ تھے بلکہ جن کو شارٹ نوٹس پر برخواست بھی کیا جا سکتا تھا۔قدرتی طورپر ان میں سے اکثریت کا تعلق چھوٹے معمولی کام کرنے والے یاپھر محنت کشوں کے نمائندوں سے تھا۔یہ کمیون اپنی ہئیت میں ورکنگ باڈی کے طورپر کام کرتی تھی نہ کہ پارلیمنٹ کی طرح۔یہ کمیون بیک وقت executive and legislative قانون سازی بھی کرتی تھی اورساتھ ہی ان پر عملدرآمد کا بھی فریضہ سرانجام دیتے تھے۔مرکزی حکومت کی روایتی نمائندہ ہونے اور سیاسی مقاصدکا آلہ کار بننے کی بجائے پولیس کو جوابدہ بنا دیا گیا۔کمیون کے ایک نمائندے کے طورپر پولیس والوں کو کسی وقت بھی برخواست کیا جاسکتا تھا۔یہی معاملہ انتظامیہ کے دوسرے کارندوں کے ساتھ بھی تھا۔کمیون کے ممبرز سے لے کر نیچے آخر تک سبھی اپنی عوامی خدمات ایک عام مزدور کے معاوضے پر سرانجام دیاکرتے تھے۔اعلیٰ و بالا ارباب اختیار کیلئے مخصوص مراعات یکسر ختم کر دئے گئے بلکہ یہ’’اعلیٰ و بالا ارباب‘‘ ہی ناپید کر دئے گئے۔سبھی عوامی اقدامات جو پہلے محض مرکزی حکومت کی نجی ملکیت اور ذمہ داری شمارہوتے تھے،ان کی کیفیت تبدیل کر دی گئی،نہ صرف میونسپل انتظامیہ سے متعلق بلکہ عوامی بہبود کے حوالے سے جو امور بھی ریاست طے اور اداکرتی آرہی تھی ان سب کو کمیون نے اپنے ہاتھ میں لے لیاتھا۔ایک بارباقاعدہ پولیس اور فوج سے جان چھڑا لینے کے بعد،جو قدیم حکومت کی طاقت کا طبعی عنصر تھے،کمیون بے حد مضطرب تھی کہ وہ استحصال واستبداد کے روحانی آلے چرچ کو بھی ختم کر دیتی،جس نے سبھی خدائی اختیارات اپنے ہاتھوں میں لئے ہوئے تھے۔پادریوں کو واپس سماج میں بھیج دیا گیا تاکہ وہ زندگی سے لطف اندوز ہوں۔ اور جس طرح سے ان کے پچھلے بزرگ صبرشکر سے گزارہ کرتے تھے یہ بھی ان کی شریعت کے مطابق ہی گزاریں‘‘۔سٹالنسٹ روس میں قائم ہونے والی افسرشاہانہ مطلق العنان حکومت کا مارکس کے ان تصورات سے دور دور تک کوئی لینا دینا نہیں تھا۔یہ سماج سے بلند اور بالا جبر واستبداد کے ایک وحشی ادارے کے سوا کچھ بھی نہیں تھی۔یہاں تک کہ مارکس کے عہد میں لفظ’’آمریت‘‘ (dictatorship) کا جو مطلب اور مفہوم ہواکرتاتھا وہ اس سے کہیں مختلف ہے جو آج کل سمجھا اور استعمال کیا جاتا ہے۔سٹالن،ہٹلر،مسولینی،فرانکو اورپنوشے کے بعد سے اس لفظ کے ساتھ جو حشر نشرہواہے،اس نے اس لفظ کی نفسیات اور تاثرکو ہی یکسر بدل کے رکھ دیا ہے۔اب جہاں کہیں بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے یا کیا جاتا ہے تو اس سے ذہن میں صرف اورصرف عقوبت خانے ہی آتے ہیں۔گسٹاپو،کے جی بی،گوانتاناموبے وغیرہ ہی آتے ہیں۔لیکن مارکس جب اپنی کسی تحریر میں اس لفظ کو استعمال کرتا ہے تو اس کے ذہن میں سلطنت روما کی آمریت ہی ہوتی تھی کہ جہاں ہنگامی حالات (جنگ وغیرہ)کی کیفیت میں جمہوریت کا میکنزم معطل اور موخر کر دیاجاتاتھا۔اور حکمران کچھ وقت کے لئے غیرمعمولی اختیارات کے ساتھ’’آمریت‘‘اپنالیا کرتے تھے۔ ایک آمرانہ وحشت سے کوسوں دور اور مختلف،پیر س کمیون ایک شاندار جمہوری طرزحکومت کا نمونہ و نمائندہ تھی۔ یہ ایک ایسی حکومت بنانے کا عمل تھا جس نے خود کو بالآخربتدریج معدوم کردیناتھا۔اینگلز کے الفاظ میںیہ ایک نیم ریاست تھی۔اکتوبر انقلاب کے بعد لینن اور بالشویک قیادت نے انہی خطوط پر ہی انقلابی حکومت کو استوارکرنے کی کوشش کی۔ورکروں نے سوویتوں کے ذریعے اقتدار حاصل اور قائم کیا،یہ سوویتیں عوام الناس کی نمائندگی کاجدید ترین باشعور جمہور ی آلہ تھیں،جس کو محنت اجتماعیت لگن جذبے اور شعور کے اتصال سے تخلیق کیاگیاتھا اور جس کی نظیر انسانی تاریخ میں ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتی!روس کی بدترین پسماندگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں لیکن اس کے باوجود بھی روس کے محنت کشوں نے بہترین جمہوری حقوق متعارف بھی کرائے اور ان سے استفادہ بھی کیا۔ بالشویک پارٹی نے اپنے 1919ء کے پروگرام میں حسب ذیل قراردیاتھا کہ ’’سبھی مزدور خواہ وہ کسی بھی نوعیت کے کام یا شعبے سے منسلک ہوں گے، ان سب کو ریاستی انتظامی امور میں بہرطوراور بہرحال شریک کار ہونا ہوگا‘‘پارٹی پروگرام کے حوالے سے منصوبہ بند معیشت کو ٹریڈیونینوں کی ہی بنیادی ذمہ داری قرار دیاگیاتھا۔اس دستاویز کو دنیا کی تقریباًسبھی بڑی زبانوں میں شائع اور پھر دنیا بھر میں تقسیم بھی کیاگیاتھا۔تاہم بعد ازاں1936ء کے ’’قتل خاص‘‘ (purges) کے وقت سرکاری طورپر اس دستاویز کو انتہائی خطرناک قرار دے کر روس کی سبھی لائبریریوں اور کتاب گھروں سے چپکے سے یکسر غائب کردیا گیا۔کسی بھی انقلاب کے عمل میں جب ورکنگ کلاس کو اس طرح سے معاملات سے باہر کردیاجائے گا تو اس قسم کی چیزیں ناگزیر طورپر ابھرکر سامنے آئیں گی۔ایسے میں ہر حکومت کے اندر ایک ایسا رحجان ہوتاہے جو یہ چاہتا ہے کہ وہ سماج سے خود کو بالاترسمجھے اور بنائے۔یہاں تک کہ انقلاب سے انتہائی مخلص افراد بھی بعض مخصوص کیفیات میں اس قسم کی مراعت پسندی کا شکارہوجایاکرتے ہیں۔اسی اندیشے کے پیش نظرہی لینن نے مزدورریاست کے ضمن میں اپنے وہ چار مشہورزمانہ اصول مرتب کئے تھے جن کے مطابق؛1۔ہر عہدے کیلئے آزادانہ اور جمہوری الیکشن اس شرط کے ساتھ کہ ان کو کسی بھی وقت عہدے سے دستبردارکیاجاسکتا ہے۔2۔کوئی بھی افسر ایک ہنرمند مزدور کی اجرت سے زیادہ معاوضہ نہیں لے گا۔3۔کوئی باقاعدہ فوج نہیں ہوگی بلکہ سارے عوام ہی مسلح فوج ہوں گے۔4؛بتدریج ہر فرد کو ریاستی امورکو چلانے کا موقع دیا جائے گا،یعنی اس ریاست کے اندر ہر کوئی حاکم ہوگا اور کوئی بھی حاکم نہیں ہوگا۔یہ شرائط کسی طور لینن کی ذاتی پسند ناپسند یا اس کے ذہن کا خیال نہیں تھیں۔ایک قومیائی گئی منصوبہ بند معیشت کیلئے یہ ناگزیر ضرورت ہوتی ہے کہ ریاست،سماج اور معیشت کے سبھی شعبوں میں عوام کی اکثریت کا براہ راست ملوث اور فعال ہونا ممکن بنایا جائے۔اگر ایسانہ ہو تواس کا ناگزیرنتیجہ افسرشاہی،بدعنوانی اوربدانتظامی کی شکل میں برآمدہوتاہے اور جو بعد میں منصوبہ بند معیشت کو اس کی تمام تر صلاحیت و توانائی کے باوجود، اسے اندر سے ہی گھن کی طرح چاٹنا شروع کردیتی ہے اور جو بالآخر اسے تباہ وبربادکر کے رکھ دیتی ہے۔یہی کچھ USSR میں ہواتھا۔لینن کے ان مذکورہ بالا نکات کا کیوبا کے واقعات اور خو د چی گویرا کے ذاتی شخصی ارتقا سے بہت گہرا تعلق ہے،جسے سمجھنا اور سمجھایا جانا ضروری ہے۔چی گویرا۔انقلابی وزیرچی انقلابی حکومت میں کئی اہم عہدوں پر فائز ہوا۔زرعی اصلاحات کے نیشنل کمیشن کے ساتھ ساتھ وہ نیشنل بینک آف کیوبا کا سربراہ بنا۔اسی بینک کی سربراہی کے دوران ہی اس نے دستاویزات پر دستخط کرتے ہوئے’ ’چی‘‘(che) کا نام استعمال کیا۔چی نے اس دوران جو بھی خدمات سرانجام دیں، اس کا اس نے سرکاری طورپرمعاوضہ یا اجرت لینے سے انکار کردیا۔اس نے صرف وہی معمولی اجرت لی جو وہ اس سے پہلے کمانڈر کے طورپر لیتا آرہاتھا۔یہی مختصر سی تفصیل ہی ہمیں اس نابغہ انسان کے بارے میں بہت کچھ بتا نے کیلئے کافی ہے۔اس نے یہ سب اس ارادے سے کیا کہ وہ ایک انقلابی مثال قائم کرنا چاہتاتھا۔وہ لینن کی کتاب ’’ریاست اور انقلاب‘‘ میں بیان کئے گئے اس انقلابی اصول کی پیروی کر رہاتھا کہ جس کے مطابق کسی بھی سوویت ریاست کے افسر کو ایک ہنرمند مزدور کی اجرت سے زیادہ تنخواہ نہیں ملنی چاہئے۔یہ ایک افسرشاہی مخالف اقدام تھا۔مارکس کی طرح سے لینن بھی ریاست کے سماج سے بالاو برتر ہوجانے کے مہلک خطرے سے بخوبی آگاہ تھا۔اور وہ یہ بھی اچھی طرح سمجھتا تھا کہ اس قسم کا احتمال ایک مزدور ریاست میں بھی ممکن ہوسکتاہے۔مارکس اور اینگلز کے پیرس کمیون کے تجزیے کو بنیاد بناتے ہوئے لینن نے ایک مزدور ریاست کے اندر افسرشاہی کے خطرے سے نمٹنے کیلئے چاربنیادی نکات پیش کئے۔ان چار نکات کا ہم ابھی اوپر ذکر کر چکے ہیں۔لینن نے کہا تھا’’ہم افسرشاہی کا کردار بتدریج کم کرتے جائیں گے،ان کا کردار صرف ہمارے احکامات کی ترسیل ہو گا،ان کو جوابدہ ہوناپڑے گا،ان کو کسی بھی وقت برخواست کیا جاسکے گا،ان کی حیثیت فورمینوں اور اکاؤنٹنٹوں کی سی ہو گی اور اسی کی ہی ان کوتنخواہیں دی جائیں گی(بلاشبہ اس سلسلے میں انہیں ہر قسم ہر سطح ہر نوعیت کے ٹیکنیشنوں کی معاونت حاصل ہوگی) یہ ہمارا پرولتاری فریضہ ہے،اسی سے ہی ہم ایک پرولتاری انقلاب کا آغاز کر سکتے ہیں اور اسی سے ہی ہمیں آغازکرنا بھی ہوگا(لینن؛مجموعی تصانیف،حصہ15،صفحہ431)سوویت حکمرانی کے صرف ابتدائی چند مہینوں کیلئے ہر کمیسار(وزیر) بشمول لینن کی اجرتیں کم ترین شہری کی اجرت سے دوگنا تھیں۔اگلے عرصے میں روبل کی قدر وقیمت میں تیزی سے اتارچڑھاؤ آتے رہے جن کے اثرات اجرتوں پر بھی ساتھ ساتھ مرتب ہوتے رہے۔کبھی کبھی مخصوص اور غیر معمولی حالات میں تو یہ اجرتیں ہزاروں بلکہ لاکھوں روبل تک بھی چلی جاتی تھیں۔لیکن معمول اور غیر معمولی دونوں کیفیتوں میں لینن نے اس بات کو بہر حال یقینی بنایا کہ ریاستی اداروں کے اندر کم از کم اور زیادہ سے زیادہ اجرتوں میں توازن کسی طور بھی بگڑنے نہ پائے اور مقررہ حدود سے کسی طور بھی باہر نہ جانے دیا جائے۔جب تک بھی لینن زندہ رہا،کم اور زیادہ اجرتوں میں تناسب 1:5سے زیادہ نہیں بڑھ پایا۔اس میں تعجب یا تذبذب کی کوئی ضرورت نہیں کہ ایک بدترین پسماندگی کی موجودگی میں پیرس کمیون سے اخذکردہ اسباق پر مکمل عملدرآمد نہ ہو سکتا تھا اور کچھ مستثنیات اختیارکرنا پڑیں۔’’بورژواماہرین‘‘ سے ایک سوویت ریاست کیلئے کام لینے کی غرض سے یہ لازمی تھا کہ ان کو کچھ زیادہ اجرتیں دی جائیں۔ایسا اس وقت تک کیلئے تھا (اور لازمی بھی) کہ جب تک محنت کش طبقہ خود اپنے مطلوبہ ماہرین نہ پیداکرلیتا۔ علاوہ ازیں فیکٹریوں اور اداروں کے مخصوص کیٹیگری کے ورکروں کیلئے بھی ’’ہنگامی ریٹ‘‘متعارف کرائے گئے۔لیکن ان مستثنیات کا اطلاق قطعی طورپر کسی ’’کمیونسٹ ‘‘پر لاگو نہیں ہو سکتا تھا۔اگر کسی طرح سے اس کے پاس اضافی رقم چلی بھی جاتی تو وہ اسے پارٹی فنڈز میں جمع کرادیتاتھا۔عوامی نائبین کی کونسل کے سربراہ کو اس ضمن میں 500روبل وصول ہوئے،جو کہ ایک ہنر مند کی تنخواہ کے برابررقم تھی۔مئی 1918ء میں جب کونسل کے آفس مینیجر وی ڈی برووچ نے لینن کو زیادہ ہی ادائیگی کی،تو لینن نے اس کی سخت بازپرس کی اور اس اضافی ادائیگی کو غیرقانونی قرار دیتے ہوئے اسے خبردارکیا۔سوویت انقلاب کی تنہائی اور بورژوازی کے ماہرین اور ٹیکنیشنزسے کام لینے کیلئے ان کو بھرتی کرنے کی غرض سے انہیں ریاست کے باقی ممبران کے مقابلے میں 50%زیادہ تک اجرتیں دی گئیں۔لینن نے اسے بورژوازی کو رعایت کی مجبوری قراردیتے ہوئے کہاتھا کہ اس مجبوری سے ہمیں جلد از جلد چھٹکارا حاصل کرنا ہو گا۔چی گویرا نہ صرف نظریاتی طورپربلکہ عملی طورپر بھی انقلابی اصولوں کا سچا پیروکارتھا۔چے گویرا‘ سٹالنزم کے خلافچے گویرا شروع سے ہی ایک انقلابی تھا۔ذاتی طورپراسے نہ تو بدعنوان کیا جا سکتا تھا نہ ہی اس میں افسرانہ نخوت و نخرہ تھا۔وہ اپنی انقلابی اخلاقیات میں سخت جان اور سخت کوش تھا۔اسی لئے اسے انقلاب کی فتح کے بعدافسر شاہی اور اس قسم کے رحجانات سے بری طرح نبردآزماہوناپڑا۔چی اکثر اوقات روس کی کمیونسٹ پارٹی کی سرکاری پالیسیوں سے اختلافات کا اظہار کرتا تھا جس کی قیادت اس وقت خروشیف کر رہاتھا۔’’پرامن بقائے باہمی‘‘ کے نکتہ نظر سے اسے شدید اختلاف تھا۔اسے کیوباکے اپنے کچھ ساتھیوں کی طرف سے ماسکو اور اس کے نظریے کی غلامانہ پاسداری سے سخت کوفت ہوتی تھی۔سب سے بڑھ کر اسے افسر شاہی،کیریر ازم اور مراعات یافتگی سے انتہائی تکلیف تھی۔روس اور مشرقی یورپ کے دورے نے اسے اندر سے ہلا کے رکھ دیا اور وہ سٹالنزم سے انتہائی دلبرداشتہ ہو گیا۔افسر شاہی،ان کی مراعات یافتگی اور اکھڑپن نے اس کی روح کو گھائل کر کے رکھ دیا۔ روسی افسرشاہی پر اس کی تنقید اور تحفظات میں دن بدن اضافہ ہوتا چلا گیا۔ اسی ایک وجہ سے ہی روس چین تنازعے کے دوران اس نے خروشیف کے روس کی بجائے ماؤ کے چین کا ساتھ دینا مناسب سمجھا۔ چین کی طرف اس کے جھکاؤ کا سبب وہ واقعہ بناجب چین نے روس کی طرف سے کیوبا سے اپنے میزائل ہٹانے کو غلط قراردیا۔چی نے اس روسی فیصلے کو ’’غداری‘‘تصور کیا۔چی کی شخصیت کا مکمل جائزہ اور تجزیہ انتہائی مشکل امر ہے۔وہ بلا شبہ ایک ذہن رسا کا مالک تھا لیکن ساتھ ہی وہ بہت پیچیدہ انسان بھی تھا۔اسے ہر دم سچ کی جستجو اور دھن لگی رہتی تھی۔سٹالنزم کا عنصر اور عہد جس سے اس کا پالا پڑا،اس کے ذہن قلب اور مزاج کے بالکل برعکس اور مختلف تھا۔افسر شاہانہ رعونت،سخت گیری نے اسے دہلا کے رکھ دیاتھا اورمراعات یافتگی نے تو اس کی کھوپڑی تک ہلا کے رکھ دی۔ اس کے نتیجے میں کیوبا کا دورہ کرنے والے یورپی کمیونسٹ لیڈرز اور سوویت بلاک کے افسران بالا کو وہ ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا اور انہوں نے اسے ایک پیٹی بورژوا مہم جو قرار دے کر اس کی تضحیک کا سلسلہ شروع کردیا۔فرانس کی کمیونسٹ پارٹی کی قیادت اس کام میں خاص طورپر پیش پیش تھی۔چے گویرا بطور وزیر صنعتچی کو بعد میں کیوبا کا وزیر صنعت بنادیاگیا،جس کے دوران اسے معیشت کو منصوبہ بند کرنے کے انتہائی سخت مشکل عمل سے پالا پڑا۔اس کی وجہ وہ ناموافق حالات تھے جس کا کیوبا کے انقلاب کو سامنا کرناپڑگیا تھا۔(راقم الحروف کے بہترین دوست اور )کیوبا کے معروف ٹراٹسکائیٹ لیون فیریرا کو چی گویرا کے ساتھ زارعت اورصنعت میں کام کرنے کا موقع ملا ہے،وہ بتاتا ہے کہ اس کی چی کے ساتھ ٹراٹسکی اور اس کے نظریات پر بہت طویل بحثیں ہوا کرتی تھیں۔چی کو ٹراٹسکی کی کتابیں بھی پڑھنے کو ملیں اور وہ انتہائی دلچسپی سے ان کو پڑھتا تھا۔لیکن ایک نکتے پر اس کی سوئی اٹکی رہتی تھی’’ٹراٹسکی نے کثرت سے بیوروکریسی کا ذکر کیا ہے۔۔کیا مطلب ہے ٹراٹسکی کا اس سے؟‘‘لیون کہتا ہے کہ میں اپنے تئیں اسے جتنا سمجھا سکتاتھا،کوشش کی اور وہ یہی کہتا کہ مجھے بات سمجھ آرہی ہے۔اگلے دن میں اور چی گنا کاٹنے کیلئے کھیتوں میں گئے۔جب وہ اپنی پیٹھ پر گنا لاد رہے تھے تو لیون نے ایک بڑی سیاہ رنگ کی کار کو آتے دیکھا،جس پر لیون نے چی سے کہا،کمانڈر لگتا ہے تمہارا کوئی مہمان آیاہے۔چی نے حیرانی سے سرموڑ کر اپنی طرف آتی سیاہ لیموزین کو ایک نظر دیکھا،اس کے لبوں پر ہنسی آگئی اور اس نے مجھے کہا۔لیون اب میں تمہیں کچھ دکھاتا ہوں۔گاڑی رکی تو اس میں سے ایک نفیس دمکتے ٹائی سوٹ میں ملبوس ایک صاحب چی کی طرف بڑھے۔اس سے پہلے کہ وہ افسر چی سے اپنی بات کیلئے منہ کھولتا،چی نے اس سے پوچھا کہ تم یہاں کیا کرنے آگئے ہو؟چلو یہاں سے تم،تمہارا کیا کام ہے یہاں؟شرمسار افسر یہ سنتے ہی واپس مڑا اور گاڑی میں بیٹھ کر چلا گیا۔چی نے میری طرف دیکھ کر ایک فاتح لیکن طنزیہ ہنسی کے ساتھ کہا’’دیکھا لیون!‘‘۔جب کیوبا میں ٹراٹسکی کے ساتھیوں کو گرفتار کرنا شروع کیاگیا توچی نے ان کی رہائی کیلئے ذاتی دلچسپی کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاملے میں بھرپور مداخلت کی۔(بعد میں اس نے اسے شدیدغلطی بھی قراردیاتھا)۔چی ٹراٹسکی کی تحریروں کو قدروقیمت سے دیکھتا اور پڑھتا تھا اور ساتھیوں سے ان کا مطالعہ کرنے کو کہتا تھا۔وہ ٹراٹسکی کو ایک سچا مارکسی سمجھتا تھا۔اس کی یہ پوزیشن ماؤزے تنگ کے ان چاہنے والوں سے قطعی مختلف اور متضاد ہے جو ٹراٹسکی کو ردانقلابی اور سوشلزم کا دشمن سمجھتے تھے اور ہیں۔چی کے یہ خیالات اس کے اپنے ایک دوست ارمانڈو ہارٹ ڈیولاس کو لکھے گئے اس کے خط میں واضح طورپر دیکھے جا سکتے ہیں۔اس کا یہ خط کیوبا میںContracorriente, N0.9میں شائع ہواتھا۔یہ خط دارالسلام (تنزانیہ کا دارالحکومت) سے 4دسمبر1965ء کو لکھا گیا تھا جب چی افریقہ میں اپنے مشن پہ نکلا ہواتھا۔اس خط میں اس نے سوویت فلاسفی اور کچھ کیوبن دوستوں کی اس کی غلامانہ تقلید پر انتہائی سخت تنقید کی تھی۔’’اپنی تعطیلات کے اس وقفے میں،میں نے اس فلاسفی کو ڈوب کر پڑھا اور اس پر غور وخوص کیا ہے،وہ جس کیلئے میں اتنے عرصے سے جڑااور لگا ہواتھا۔مجھے سب سے پہلی ا لجھن کاسامنا کیوبا میں کرناپڑا۔جہاں ہمیں صرف وہی پڑھنے کو ملتا ہے اور اسی کو ہی پڑھنے کا کہا جاتا ہے جو روس سے چھپ کر آتا ہے۔ان کو پڑھنے کا سب سے بڑا المیہ ہے کہ آپ ان کو پڑھنے کے بعد ان پر نہ بات کر سکتے ہو نہ کوئی سوال۔بس پارٹی نے یہ آپ کیلئے چھاپ دیا ہے اور بس آپ نے اس سے ہٹ کر کچھ بھی نہیں کرنا۔اپنی طرز اپنے طریقے میں یہ سراسر غیر مارکسی عمل ہے۔نہ صرف یہ عمل برا ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ جو مواد ان تحریروں میں شامل ہے وہ بھی برا ہی ہے‘‘۔اگر آپ کیوبا میں چھپنے والے مواد کو دیکھیں توپتہ چلتاہے کہ یہ یا تو روس یا پھر فرانس کے مصنفین کی ہی تحریریں ہیں۔(چی کا اشارہ سخت گیر فرانسیسی سٹالنسٹ گراؤدے کی جانب ہے)۔انتہائی آسان ہے کہ ترجمہ کرلیاجاتا ہے اور پھر اس کی نظریاتی تقلید شروع کر دی جاتی ہے۔اس سے تو آپ کسی طرح بھی حقیقی مارکسی کلچر عوام تک نہیں لے جارہے۔اسے آپ محض مارکسی پروپیگنڈا تو قرار دے سکتے ہیں لیکن کچھ اور نہیں!اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ بھی ایک لازمی عمل ہوتا ہے لیکن محض یہی ناکافی ہوتا ہے۔یہ معیار میں جتنا بھی اچھا ہو(جو اس وقت نہیں ہے)لیکن بہرطور ناکافی ہوتا ہے‘‘۔چی اپنی تحریر میں ایک ایسے منصوبے کو عمل میں لانے کی تجویز دیتا ہے جس کے تحت ’’مارکس اینگلز لینن سٹالن اور ’’دیگر‘‘ عظیم مارکسیوں کی کتابوں کا منظم مطالعہ عام کیا جاسکے۔مثال کے طور پر،روزا لگسمبرگ جس کا ایک لفظ بھی آج تک کسی نے نہیں پڑھا،جس نے مارکس پر تنقید کے عمل میں کئی غلطیاں کیں لیکن جس کی جدوجہد جس کی ہلاکت اور شہادت،اور سامراج کے خلاف اس کی جدوجہد کئی نامی گرامی انقلابیوں سے بھی محترم ہے۔اسی طرح اور بھی کئی ایسے مارکسی ہیں جن کو بعد میں نظرانداز کردیاگیا،ان میں کاٹسکی،ہلفرنگ شامل ہیں جنہوں نے مارکسزم میں کافی کنٹریبیوشن کی ہیں۔اسی طرح کچھ اور مصنف جو غیر فلسفیانہ انداز تحریرکے حامل ہیں،بھی مطالعے کے قابل ہیں‘‘۔پھر چی خوشی سے ٹراٹسکی کا ذکرکرتا ہے’’اور ہاں تمہارے دوست ٹراٹسکی کو تو ہر حال میں پڑھاجانا چاہئے ‘‘۔ٹراٹسکی کی طرف اس کا رحجان اتنا ہی بڑھتا چلا گیا جتنا جتنا وہ روس اور مشرقی یورپ کی سٹالنسٹ افسر شاہی کی روش اور طورطریقوں سے متعارف اورپھر مایوس ہوتاگیا۔چی گویرا کتابوں اور ان کے مطالعے کا انتہائی رسیا تھا،بولیویا میں اپنے آخری مشن تک کتابیں اس کے ساتھ تھیں۔اس آخری مشن پر جو کتابیں اس کے پاس تھیں اور جو وہ پڑھ رہاتھا ان میں ٹراٹسکی کی ’’نظریہ مسلسل انقلاب‘‘ اور’’ انقلاب روس کی تاریخ‘‘ شامل تھیں۔بلند وبالا، یخ پہاڑوں پر،مشکل ترین حالات میں ایک گوریلا جنگ میں مصروف ایک انقلابی انسان اپنے پاس صرف وہی سامان رکھتا ہے جو اس کے لئے انتہائی لازمی اور اسے انتہائی عزیز ہو۔اس موقع پر ٹراٹسکی کی کتابوں کا اس کے پاس ہونا یہ ثابت کرتا ہے کہ یہ انقلابی اپنے آخری لمحات میں کیا پڑھ رہا تھا‘ کیا سوچ رہاتھا؟ہمیں اس پر کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ اگر چی گویرا زندہ رہتا تو یہ عظیم انقلابی ٹراٹسکی ازم کی طرف نہ صرف قائل بلکہ مائل ہو چکا ہوتا۔سچ یہ ہے کہ وہ ٹراٹسکائیٹ بن بھی چکاتھا لیکن اس کی زندگی کا چراغ گل کر دیا گیا۔۔۔۔Translation: The Struggle (Pakistan)