وکی لیکس :تہذیب کی بدتہذیبی کی کتھا Urdu Share TweetUrdu translation of The Assange case – what it means for socialists (December 21, 2010)ایلن وڈز ۔ ترجمہ :اسدپتافیچنگاری ڈات کام،11.01.2011جولین اسانجے کا معاملہ انتہائی شدت اور ایک سنجیدہ توجہ حاصل کرچکاہے ۔اس پر طرح طرح سے باتیں کی جارہی ہیں۔ میڈیاکے ساتھ ساتھ لیفٹ میں بھی بحث مباحثے شروع ہو چکے ہیں۔جھوٹ اور پروپیگنڈے کے ایک عالمگیر شورشرابے کی کیفیت میں لازمی ہے کہ ہم اپنی پوزیشن کو واضح کریں تاکہ ثانوی قسم کی گفتگوسے بچتے ہوئے اس معاملے میں ترقی پسندانہ سوچ اور نقطہ نظرکو مدنظر رکھ سکیں اور کسی رجعتی کیفیت کا شکار نہ ہوجائیں۔’’امریکہ کی مختصر تاریخ ‘‘میں بیرڈ لکھتاہے کہ ’’امریکی صدر کی جانب سے کی جانے والی سامراجی سرگرمی کو ایک نیا نام میسر آچکاہے ۔ریپبلکن ،اب اسے سادہ الفاظ میں’’ ڈالر انہ سفارتکاری‘‘ قراردے رہے ہیں‘‘۔ہم مارکس وادی کسی طور بھی زمان ومکان سے بالاکسی نوعیت کی تجریدی کھوکھلی اخلاقیات یا اصولوں پر تکیہ کرنے کے روادارنہیں ہواکرتے۔سوشلزم کے فروغ اورمحنت کش طبقے کے شعور کو بلند وبرترکرنے کی سعی کرنا ،یہی ہماری اخلاقیات ہے اور اس سے ہٹ کر اس کے خلاف جوبھی ہے وہ غیر اخلاقی بھی ہے اور رجعتی بھی۔ کسی نے ایک بار کہاتھا کہ بالادست طبقے کی سیاست جنگل کے قانون کا سفارتکارانہ اظہارہواکرتی ہے۔ اس پر پہلے اگر کسی کو اعتبار نہیں بھی تھا تو وکی لیکس کے انکشافات نے اس بات کی صداقت پر مہر ثبت کردی ہے کہ مغربی سفارتکاری کی بیہودہ فطرت اپنی اصل میں کیا اور کیسی ہوتی ہے ۔سامراجی اپنی صورت میں ہی نہیں بلکہ خیر سے اپنی سیرت میں بھی غنڈہ گردی کا چلتاپھرتانمونہ ہواکرتے ہیں۔سامراجیوں کی سفارتکاریوں کو سمجھنے اور پرکھنے کیلئے لازمی نہیں ہوتا کہ آپ کسی یونیورسٹی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے میں تین سال ضائع کریں ،آپ صرف فلم ’گاڈ فادر‘‘ دیکھ لیں ،کافی ہے۔ یہ مقاصدہی ہوتے ہیں جو طریقِ کار کو متعین اور طے کیا کرتے ہیں۔امریکہ بہادر کا مقصد و نصب العین بھی کرہ ارض پر اپنی دھاک بٹھانے کا چلاآرہاہے ۔اور اس نیک مقصد کیلئے وہ میکاؤلی کے طورطریقوں کو بھی پیچھے چھوڑتاآرہاہے۔جو نہ مانے اس کو جبروتشددسے منواؤ،اور یہ تشدد محض زبانی نہیں ہوتا۔اس کیلئے بلیک میلنگ بھی شامل ہوتی ہے ،جو پیٹ کا ہلکا ہواسے مال ودولت سے نوازااور بدعنوان کیاجاتاہے۔جھوٹ بولنا،دھوکہ دینا،غیبت کرنا،یہ سب سامراجی سفارتکاری کے اوصافِ جمیلہ چلے آرہے ہیں۔اور یہ سب کچھ کسی اپنے دوست سے بھی کیاجاتاہے اور کسی اپنے دشمن کے ساتھ بھی۔اور اس کی بنیاد یہی سوچ ہے کہ ہم سے زیادہ کون جانتا ہے کہ قوموں کے مابین دوستیاں نہیں ہواکرتیں ،صرف مفادات ہواکرتے ہیں۔ وکی لیکس نے سامراجی سفارتکارانہ جرائم کی نقاب کشائی کرکے عالمی محنت کش طبقے کی ایک بہت بڑی خدمت سرانجام دی ہے۔اس نے نام نہاد عزت مآبیت کا گھونگٹ اتارکر ڈائن کا اصل چہرہ دکھایاہے۔عام لوگوں کو پتہ چل رہاہے کہ سرکاری سفارتکاری کے پسِ پردہ کیسے کیسے جرائم کیے جاتے ہیں۔عام لوگوں کو اس ساری بدمعاشی و بدعنوانی کا اتہ پتہ مل رہاہے جو کہ مہذبانہ سفارت کاری کے نام پررچائی جاتی ہے۔یہ ایک انتہائی اہم پیش رفت ہے ۔اور طبقاتی جدوجہد میں سرگرم ہر ایک باشعور کارکن کیلئے لازمی ہے کہ وہ انتہائی احتیاط سے اس کا مطالعہ اور تجزیہ کرتارہے۔ سامراجی جرائم کی کتھا ایک بار ایک دردمنددانشمند نے اپنی بھرائی ہوئی آنکھوں پر رومال پھیرتے ہوئے لینن سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جنگ بہت ہی ہولناک ہواکرتی ہے تو لینن نے مسکراتے ہوئے کہا کہ جنگ واقعی ہولناک حدتک منافع خورہواکرتی ہے۔امریکی سامراج کی جانب سے منظم اور مسلط کی جانے والی جنگیں ،محنت کش طبقے کو کھربوں میں پڑتی آرہی ہیں۔اور یہ اربوں کھربوں کی رقم دراصل وہ منافع ہے جوکہ اسلحہ بنانے اور بیچنے والے کارخانے اور ادارے کما تے چلے آرہے ہیں اور یہ سارا اسلحہ امریکی فوجی بجٹ کی برکتوں سے بنتا ،بکتا اور بربادیاں پھیلاتاہے۔جیسے کوئی ڈائن کسی علاقے میں گھس جاتی ہے اور انسانوں اورجانوروں کو نگلنا شروع کردیتی ہے۔ امریکہ بھی اپنے ’’دردِدل رکھنے والے‘‘،’’ انسان دوست ‘‘اور’’ہر دلعزیز‘‘ہر ایک صدرکی سربراہی میں ہر سال 708 بلین ڈالرزاسلحے پر خرچ کرتاآرہاہے۔موجودہ صدر جناب اوبامہ نے اپنی انتخابی تقاریر میں فوجوں کی واپسی کے کئی بار اعلانات اور وعدے کئے مگر ابھی تک وہ عراق میں سے فوجیں نہیں بلا سکا۔الٹا اس نے افغانستان کے لوگوں کے خلاف اپنی جارحیت میں اضافہ کرنا شروع کر دیاہے۔یہیں نہیں بلکہ وہ صومالیہ اور یمن میں بھی اپنی بربریت کو بڑھاتا جارہاہے ۔اور ان کے ذریعے سے ہالی برٹن جیسی کمپنیاں اس سامراجی جارحیت سے بھاری بھرکم منافع کمائے چلی جا رہی ہیں۔اس کمپنی کی امریکی ریاست اور حکومت میں جڑیں کہیں نیچے تک پیوست ہوچکی ہیں۔جارحیت کی ابتدا سے لے کر اب تک عراق میں دس لاکھ سے زائد انسان لقمہ اجل بن چکے ہیں۔اور ان میں 90فیصدسے زائد سویلین تھے۔دونوں امریکہ و برطانیہ ایک ناقابلِ معافی جرم کے مرتکب ہیں ۔لاکھوں نہتے مردوزن کا قتلِ عام کرنے اور ایک ملک پر اس کے لوگوں کی مرضی کے برعکس اور خلاف قبضہ کرنے کا جرم،لاتعداد انسانوں کو عقوبت خانوں میں ڈالنااور ان پر غیر انسانی تشددکرنے ، ان کو ہلاک کرنے کا جرم اور یہ سبھی کچھ اپنی ناجائز جارحیت کو مسلط کرنے کیلئے کیاگیا۔اس ہولناک المناک جنگ سے پہلے بھی پانچ لاکھ بچے اقوامِ متحدہ کی جانب سے امریکہ وبرطانیہ کی آشیرباد سے لگائی جانی والی پابندیوں کی بھینٹ چڑھادیئے گئے۔اس اقوامِ متحدہ کی پابندی کی وجہ سے عراق میں خوراک اور ادویات کی فراہمی روک دی گئی جس کا سب سے زیادہ شکار عورتیں اور بچے ہوئے ۔اور یہ عدم فراہمی خود اقوام متحدہ کے اپنے جاری کردہ انسانی حقوق کے نام نہاد چارٹر کے بھی خلاف تھی۔ان سبھی سامراجی چیرہ دستیوں کو برطانیہ امریکہ سمیت اہلِ مغرب سے پوشیدہ رکھے جانے کی کوشش کی گئی ۔یہاں لوگوں کو یہ بتایا اور رٹایاگیا کہ یہ جنگ تو عراق میں موجود وسیع تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا قلع قمع کرنے کیلئے شروع کی جارہی ہے مگر جن کا کوئی وجود ہی نہیں تھا۔اور جب یہ نا موجود ہتھیار ہاتھ نہ آسکے تو فوری طورپر موقف بدل لیاگیا کہ یہ جنگ تو ہم دراصل جمہوریت کے نفاذ اور دفاع کیلئے لڑنے جارہے ہیں۔ وکی لیکس نے یہی تو کیا ہے کہ اس نے ان خونی واقعات پر ڈالے گئے جھوٹوں اور دھوکوں کے ایک موٹے پردے کا پردہ چاک کرڈالا۔اور یہ وکی لیکس کا قبیح جرم ہے کہ اس نے حقائق کو امریکہ سمیت دنیا بھر کے عام لوگوں تک پہنچادیا۔اس کی پاداش میں ان پر تہذیب وحشی درندے کی طرح لپک پڑی ہے ۔لیکس کے خلاف جو کچھ بن پڑرہاہے ،کیا جارہاہے ۔ان کے اکاؤنٹ منجمد اور غیر موثر کئے جارہے ہیں اور اس کو چلانے والے منتظمین کو گرفتار کیاجارہاہے۔ اس قسم کی معلومات کو عوام کے سامنے لایا جانا احمقانہ اقدام سمجھاجاتاہے۔جن کے ٹیکسوں کی آمدنیوں سے کھربوں اسلحے اور جنگ پر خرچ کئے جاتے ہیں ،ان کو یہی بتایاجاناچاہئے کہ یہ جنگ تو ان کے نام پران کے مفادکیلئے ہی لڑی جارہی ہے۔اس موقف کے علاوہ ہر موقف غلط اور غیر مہذب لہٰذا غیر قانونی ہے ۔برطانیہ میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ ،دنیا بھر کے ڈریکولائی قوانین میں سے ایک ہے ۔عراق کی جنگ سے صاف واضح ہوتا ہے کہ کس طرح نام نہاد خو دساختہ آزاد میڈیاایک جرم میں خود کو شریک اور ملوث کرتاہے اور انسانی المیوں کو بیان کرنے کی بجائے ان واقعات کی پردہ پوشی کرتاچلاآرہاہے۔پورا زور صرف کیاگیا کہ عراق جانے والی برطانوی فوج کو وہاں کے عوام کی بھرپور حمایت حاصل ہے حالانکہ برطانویوں کی ایک بھاری اکثریت اس کے شدید خلاف تھی۔ 2007ء میں وکی لیکس نے ایک فوٹیج جاری کی تھی کہ جس میں ایک امریکی گن شپ ہیلی کاپٹرکو نہتے شہریوں پر دانستہ فائرنگ کرتے دکھایاگیا۔اس گھناؤنے واقعے کو ایک امریکی فوجی نے ہی بے نقاب کیا کہ جو اس واقعے کے دوران بچوں کو ہلاک ہونے سے بچانے کی کوشش کرتارہا۔جب اس فوجی نے احتجاج کیا تو اسے کہا گیا کہ یہ ہمارا نہیں ،ان کا دوش ہے کہ وہ کیوں اپنے بچوں کو ہمارے سامنے لائے !اور یہ بھی کہ ایسا تو یہاں روز کا معمول ہے! جولیان اسانجے کا مقدمہ مغرب میں جابجا پھیل جانے والی بے چینی ،مغربی سامراجیوں کو بے چین کئے ہوئے ہے۔سب سے زیادہ تشویشناک کیفیت شیر کی اپنی کچھار کے اندرہے کہ جہاں فوجیوں کو اس بات پر دبایا جارہاہے کہ وہ اس معاملے میں کسی قسم کی بیان بازی یالب کشائی نہ کر سکیں۔انہیں زبردستی مجبور کیا جارہاہے کہ جو کچھ انہوں نے ہوتے دیکھا ہے ،وہ کسی کو بھی نہ بتائیں ۔اس قسم کے واقعات کے انکشافات کے خدشات بڑھتے ہی جارہے ہیں اور سامراج کے عسکری اور انٹیلی جنس اداروں کی جان پر بن آئی ہے ۔وہ مسلسل تگ ودو کررہے ہیں کہ اسے دبایاجائے لیکن ایسا کہنا تو آسان ہوتا ہے کرنا مشکل۔ اس سلسلے میں سب سے پہلا قدم یہ ہونا چاہئے کہ جس کسی نے بھی لب کشائی کی ہے ،راز کواگلا ہے، اسے عبرت کا نشان بناد یاجائے۔ نوجوان امریکی فوجی بریڈلے ای میننگ جس پر تازہ ترین انکشاف اگلنے کا الزام عائدکیاگیاہے ،کے ساتھ کسی قسم کی رعایت کا امکان نظر نہیں آتا۔اسے چار مہینوں تک کیلئے ایک فوجی قیدخانے میں پابند رکھا گیاہے اور امکان موجودہے کہ اسے اذیت دی جارہی ہو۔لیکن امریکی حکومت کے سرکاری نقطہ نظر سے وہ ایک امریکی شہری ہے ۔کہ جو دانستہ یا نادانستہ اپنے ملک سے غداری کا مرتکب ہوسکتاہے ۔جبکہ جولین اسانجے امریکی شہری نہیں ہے اور وہ امریکی قوانین کی زد میں نہیں آتا۔اور ایک غیر ملکی ہونے کی وجہ سے وہ اس بات کا بھی پابند نہیں ہے کہ وہ ایک دوسرے ملک کااحترام اور اس کی پرواہ کرے۔لیکن مسئلہ اور معاملہ اس کے امریکی ہونے یا نہ ہونے کا بھی نہیں ہے ۔یہ تو معاملہ سامراج کا ہے اور سامراج کیلئے یہ ملک یا وہ ملک کوئی معنی یا حیثیت نہیں رکھتاہوتا۔اور یہ بھی کہ سامراج اپنا ایک عالمگیر مقدس حق محفوظ رکھتاہوتا ہے ،بدلے کا حق۔ آج بش اور ٹونی بلیر سکون سے ریٹائر منٹ کی زندگی گزار رہے ہیں ۔بجائے کہ ان کوجنگی مجرم کے طورپر کٹہرے میں کھڑا کیا جاتا۔کیونکہ یہ اس جرم کے سب سے زیادہ قصوروار اورسزاوار ٹھہرتے ہیں۔لیکن ہو یہ رہاہے اور ہوتا یہ آرہا ہے کہ جس جس نے بھی ان نام نہاد مہذب وحشیوں کی سفاکیت کا پردہ چاک کیاہے ،الٹا انہیں کو ہی قانون ،انصاف اور عدل کی کالی دیوی کی بھینٹ چڑھانے کی کوشش کی جاتی اور عام ملزمان کی طرح ان کے ساتھ حشر نشر کیاجاتاہے۔جولیان اسانجے کی زندگی بھی خطرے میں ہے اور اندیشہ موجود ہے کہ اسے امریکہ کے حوالے کردیاجائے جہاں اسے عمر قیدہوسکتی ہے ۔اور یہی حقیقی عدل و انصاف ہے جو سامراج کو وارے کھاتاہے۔یہی اس کا معیار وکردار ہے۔امریکہ کے اندر سیاستدان جولیان سے حساب کتاب کرنے کے مطالبے کر رہے ہیںیعنی اسے کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔اور یہ ایک ایسا مطالبہ ہے جسے امریکہ خود ہی پوری طرح نبھا نا چاہ رہاہے۔ برطانیہ کی وزارتِ دفاع کے ایک خفیہ مراسلے میں قراردیاگیا ہے کہ تحقیقی اور تفتیشی صحافت کرنے والوں کو دہشت گرد شمار کیا جائے ۔اور یہ تو ہر کوئی جانتا ہے کہ دہشت گردوں کو کسی بھی وقت کسی بھی انجام سے دوچارکیا جاسکتاہے ۔کسی کا جسمانی خاتمہ کرنے سے پہلے لازمی ہے کہ اس کے کردار کی ایسی تیسی پھیر دی جائے یہی تہذیب کا تقاضاہے۔یہ طریقہ ہائے کار اور ہدف پنٹاگان کی خفیہ دستاویز میں درج ہے جسے وکی لیکس منظر عام پر لاچکی ہے۔اب پنٹاگان کوشش کر رہاہے کہ ہر صورت میں وکی لیکس کا ناطقہ بند کردیاجائے۔وکی لیکس کا منہ بند کرنے کیلئے امریکی سرکار ہر قسم کی کوشش کرے گی۔امریکی سی آئی اے اور اس کے تنخواہ دار اپنے مخالفوں کی ذاتی زندگی کے بارے میں بے بنیاد بہتان تراشیوں اور ہرزہ سرائیوں کا جال بننے اور پھیلانے پر اترے ہوئے ہیں۔اور یہی وہ قدیم ترین آزمودہ طریقہ ہے جو کہ امریکی سی آئی اے کی کارکردگی کے خزانے میں سے سب سے زیادہ بروئے کارلایا جاتاہے۔اس خزانے میں لاتعدا دسیاستدانوں،صحافیوں اور دوسرے معروف لوگوں کی فائلیں تیارکرکے سنبھالی اور بوقتِ ضرورت کام میں لائی جاتی ہیں۔ امریکہ بہاد رکے لمبے ہاتھ وکی لیکس نے سامراجی سفارتکاری پر پڑے دبیز پردے ہٹادیئے ہیں۔اور اس ساری پردہ داری کا مقصد عظیم عالمی طاقتوں کی سیاست کی حقیقی کارگزاریوں کودنیا کی نظروں سے پوشیدہ رکھنا ہی تو ہوتا ہے۔اب تک’جمہوریت‘’آزادی‘’امن‘اور’اعلیٰ ارفع مغربی تہذیب‘ کی جے جے کارکا مصنوعی کھوکھلا پروپیگنڈا سامراج کے قلب ونظر کو تسکین پہنچانے کا باعث بنا آرہاتھا۔ جبکہ سامراجیوں کی ساری کارگزاری ہی قتل و غارت گری ،دھونس دھاندلی،رشوت وبدعنوانی،تشددوبربریت سے ہی لیس ہے ۔سامراجی آقا،اندھیرے میں بیٹھ کر اپنے سبھی جرائم کرنا پسند فرماتے ہیں۔ان میں سے کوئی بھی قاتل یہ پسند نہیں کرتاکہ جب وہ اپنا کام کررہاہوتو کوئی اس کے چہرے پر روشنی ڈالے۔چنانچہ ہم سمجھ اور دیکھ سکتے ہیں کہ اس قسم کی رازافشانی کے کس قسم کے نتائج سامنے آسکتے ہیں۔شیر چوری چھپے جھاڑیوں میں سے لک چھپ کرکے ہی شکارپر جھپٹنے کا عادی ہوتاہے ۔جبکہ اس کے وفادار و جاں نثار اس کے پیچھے پیچھے اپنی اپنی دم ہلاتے اور اپنی زبانیں اپنے ہونٹوں پر پھیرتے چلے آرہے ہوتے ہیں۔مغرب کی کوئی ایک حکومت بھی واشنگٹن میں بیٹھے وحشی شکاریوں کے سامنے غرانے کی جرات نہیں کر سکتی۔جب بھی مغرب کے مہذب حکمرانوں کا واشنگٹن کے حکمران سے سامنا ہوتاہے تو ان کی ساری تہذیب ان کی بزدلی کی شکل میں آشکار ہونا شروع کردیتی ہے۔سبھی دم ہلانے لگتے ہیں۔ جان پلگر نے آسٹریلوی حکومت اور وزیر اعظم جولیا گیلارڈکے منافقانہ طرزِ عمل پر بجاتنقیدکی ہے،جس میں گیلارڈ نے وکی لیکس کی طرف سے دستاویزات کی اشاعت کو غیرقانونی قراردیاہے ،مگر آسٹریلیا کے قوانین کی روشنی میں یہ غیر قانونی نہیں ہے ۔اور یہ وہ بات ہے کہ جس پر سبھی آسٹریلوی باشندوں کو غور وخوض کرنا چاہئے ۔وکی لیکس کی جانب سے سامنے آنے والی دستاویزات میں سب سے المناک اور مضحکہ خیز پہلو ،ان آزاد وخودمختارمغربی حکمرانوں کی چاپلوسانہ روش ہے جو وہ واشنگٹن کے سامنے آتے ہی اپناناشروع کردیتے ہیں اور جب بھی واشنگٹن انہیں چھلانگ لگانے کا کہتا ہے تو یہ پوچھتے ہیں کہ کتنا اونچا جانا اور پھر کس طرح نیچے آناہے ۔وکی لیکس دستاویزات نے امریکہ اور یورپ کے حکمرانوں کے باہمی اور برابری کے جھوٹے تعلقات کے سچ کا پول کھول دیاہے ۔جب یہ قضیہ سامنے آیا تو سب سے پہلے سویڈن نے اپنے گھٹنے واشنگٹن کے سامنے ٹیکے جو کہ جمہوریت اور انسانی حقوق کا قبلہ قراردیاجاتاہے۔وہاں امریکی سفیرنے سویڈن کو اپنا’باعمل ‘’مضبوط‘اور ’قابل اعتماد‘ پارٹنرقراردیاہے۔ظاہر ہے کہ امریکی سفیرنے یہ بیان وکی لیکس دستاویزات کے حوالے سے دیاہے۔جس کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ سویڈن میں جنسی ہراس کا ایک مقدمہ قائم ہوا اور جس کی سماعت برطانیہ میں کی گئی۔یہ ایک فطری امر ہے کہ سویڈن کے پبلک پراسیکیوشن کے ڈائریکٹر میرین نئے نے اس تاثر کو غلط قرا دے دیاہے کہ یہ مقدمہ ’کسی طورسیاسی انتقام کا شاخسانہ نہیں ہے‘۔سویڈن کے ماہرین ویسے بھی معاملات کی رنگ سازی کرنے میں یکتاو طاق ہیں اور ترقی پسندی دکھانے میں تو ان کا کوئی ثانی ہی نہیں ہے۔چنانچہ ہم یہ دیکھ سکتے ہیں کہ سویڈن میں قائم ہونے والے جنسی مقدمے کا امریکی معاملات سے دوردور تک کوئی تعلق واسطہ نہیں ہے۔بلکہ خدالگتی بات یہ ہے کہ سویڈن کی مہذب حکومت تو صرف اور صرف عورتوں کے حقوق کی حفاظت ونگہبانی کیلئے یہ سارا کشت کر رہی ہے ۔میرا خاکم بدہن ،یہ مطلب نہیں تھا کہ میں سویڈن کی عظیم المرتبت دیانتدار،لبرل،روشن خیال،انسان دوست،خواتین کے حقوق کی پاسدارو علمبرداراور تہذیب واخلاق کی نمائندہ سیاسی قیادت بارے کوئی ایسی ویسی بات سوچوں یا لکھوں بھی!میری کہاں مجال کہ میں ان سے یہ پوچھ سکوں کہ امریکی سی آئی اے اور جرمنی وبرطانیہ میں موجود اس کے ہم پیالہ ہم نوالہ اداروں کی بہیمانہ ومجرمانہ سرگرمیوں کے حوالے سے سٹاک ہوم میں موجود مہذب خواتین وحضرات نے سالہا سال سے دیدہ دانستہ خاموشی کیونکر اختیار کی ہوئی ہے؟ سویڈن میں قائم دائیں بازو کی حکومت ہمیشہ سے متمنی و متلاشی رہی ہے کہ وہ واشنگٹن کے حکمرانوں کی ’’گڈ بک‘‘ میں رہے۔بلا شبہ سویڈن باقاعدہ طورپر ناٹو کا ممبر نہیں ہے لیکن اس کے باوجود وہ اپنی خدمات ضرور پیش کرتا آرہاہے۔کوسوو اور افغانستان میں اس نے اپنی فوجیں بھیجی ہوئی ہیں۔علاوہ ازیں’’ امن کے بھائی چارے ‘‘کے نام پر ہونے والی جنگی مشقوں میں بھی وہ شریک چلا آرہاہے۔دوسرے الفاظ میں سویڈن کی حکومت امریکی جیب کا سکہ بنی چلی آرہی ہے ۔امریکہ میں سے صرف ایک فون کال آنے کی دیر ہے بس!اس کے بعد سویڈش حکمرانوں کی آنیاں جانیاں دیکھیں !فرق صرف اتنا ہے کہ آج کل انجلا مرکل کو وائٹ ہاؤس سے براہِ راست فون کا انتظار اور امید ہوتی ہے جبکہ یہاں لندن والوں کو پنٹاگان سے آنے والی کال ہی کافی وشافی ہوجاتی ہے ۔جبکہ سٹاک ہوم والوں کیلئے تو امریکی سفارتخانے کا ایک کلرک بادشاہ ہی بہت ہے۔ کردار کشی جولیان پر بنیادی طورپر چار دفعات کے تحت مقدمہ قائم کیا گیا ہے۔جنسی طورپر ہراساں کرنے کے ساتھ زنا کا بھی معاملہ شامل کیاگیاہے۔اس مقدمے اور معاملے کو گماشتہ ذرائعِ ابلاغ خوب بڑھا چڑھا کر پیش کرتے چلے آرہے ہیں۔پہلے پہل تو زنا کے واقعے سے صفحات کالے کر دیئے گئے مگر پھر اسے یکدم گم کرکے چپ سادھ لی گئی۔ لیکن جو کام لیاجانا تھا وہ لے لیا گیاتھا یعنی بدنامی اور بہتان کے ذریعے جولیان کے تشخص کو کچوکے لگانا۔اب سویڈش میڈیا کہہ رہاہے کہ جولیان نے غیر قانونی طورپر جنسی دھونس دھاندلی کا ارتکاب کیا اور خواتین کی عزت کو خراب کرنے کی کوشش کی تھی۔اس قسم کے الزامات نئے نہیں ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ جولیان نے اگست میں ایسا کیا تھا اور تب ہی جولیان نے ا س کی تردید کرتے ہوئے انہیں بے بنیاد من گھڑت قرار دیاتھا ۔اس الزام کے سامنے آنے کے اگلے ہی روز21اگست کوچیف پراسیکیوٹرایوافینے نے الزام واپس لے لئے تھے ۔مگر پھر یکم ستمبر کو اعلیٰ سویڈش قیادت کی طرف سے احکامات صادر کئے گئے ۔ڈائریکٹر آف پبلک پراسیکیوشن ماریانے نئے نے یہ لکھا کہ کچھ ’’نئی معلومات‘‘ حاصل ہوئی ہیں مگر یہ نہیں بتایا کہ ان معلومات کا ذریعہ کون سا ہے؟جولیان نے ہر ممکنہ کوشش کی کہ وہ لندن میں سویڈن کے سفارت خانے جاکررضاکارانہ طورپر اپنے خلاف الزامات کا جواب دے سکے لیکن اسے یہ کہہ کر نظرانداز کیا گیاکہ وہ جولیان سے تفتیش کیلئے دستیاب نہیں ہیں ۔اس کے بعدجولیان کے انٹرنیشنل وارنٹ گرفتاری جاری کردیئے گئے۔اس کے بعد پتہ چلا کہ وہ دو خواتین کہ جنہیں جولیان کے خلاف تہمت کیلئے سامنے لایاگیا تھا ،انہوں نے اپنا مقدمہ نہ لڑنے کا عندیہ دے دیاتھا۔ہاں البتہ اب یہ کہا جارہاہے کہ ایک کنڈوم کا ٹیسٹ لیا جائے گا جو کہ مبینہ طورپر سیکس کرتے ہوئے پھٹ گیاتھا۔ ہم کسی طور اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ اس قسم کے الزامات کی تحقیق وتصدیق یا تفتیش کریں۔لیکن ایک بات تو طے اور حتمی ہے کہ ان الزامات کو سیاسی طور پر استعمال میں لایا جارہاہے۔اور جس قسم کے حالات چل رہے ہیں ان کے ہوتے ہوئے اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ اس حوالے سے کوئی دیانتدارانہ صاف ستھری تفتیش ممکن ہو گی۔یہ سوال پوچھا اور سوچاجاسکتاہے کہ اگر جولیان وکی لیکس کا بانی نہ ہوتا اور ایک عام گمنام آدمی ہوتاتو کیا اس کے اس طرح انٹر نیشنل وارنٹ گرفتاری جاری کیے جاتے ؟کیا اس کو ملک بدر یا دربدر کرنے کی اتنی سازشیں اور کوششیں کی جاتیں؟بے شک اس پر واضح طورپرزنا کا ہی الزام کیوں نہ عائد ہوتا؟کیا تب بھی سویڈن کے عدل وانصاف سے وابستہ افسر شاہی اتنا ہی دلچسپی سے کام لیتی؟ہمیں یقین ہے کہ اس قسم کے سوالات ان سبھی مقدمات و معاملات کو ایک یقینی شک دینے کیلئے کافی ہیں۔ اخبار ’’گارڈین‘‘ کو لکھے گئے ایک خط میں خواتین کی تنظیم برائے انسدادِ زنانے اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ ’’سیاسی ایجنڈے کے طورپر زنا اور جنسی ہراس کی ایک طویل تاریخ موجود ہے،جسے اپنے مخصوص مقاصدومفادکیلئے کام میں لایاجاتاہے لیکن جن کا عورتوں کے تحفظ و سلامتی سے کوئی لینا دینا نہیں ہواکرتا‘‘۔اور یہی اصلی و حقیقی مدعاہے۔ واشنگٹن کو مسڑجولیان کی جنسی زندگی سے کوئی سروکار نہیں ہے ۔ان کا سروکار تو محض انتقام سے ہے اور بس۔اپنے ازلی دشمن کو قانون و انصاف کی گرفت میں لینے سے قبل ضروری ہے کہ اس پر اس قدر گندگی اور پراگندگی اچھالی اور ڈالی جائے کہ وہ عوام الناس کی نظروں میں گر جائے اور ایک اخلاق باختہ شخص سمجھ لیاجائے ۔ہم کیا کوئی بھی لیفٹ کے ان معززانسان دوستوں سے سوال کرنے کی جرات کر سکتاہے کہ جو سویڈن کی حکومت کے ساتھ تعاون وہمدردی جتانے میں مرے جارہے ہیں کہ یہ تو جی عورتوں کے حقوق اوران کی ناموس کا معاملہ ہے۔لیکن یہی جملہ خواتین وحضرات جولیان کے مقدمے کی شفاف اور غیرجانبدارانہ تفتیش کی بات تک ہی خود کو محدود رکھے ہوئے ہیں۔ کیا یہ سب تضحیک آمیز نہیں ہے ؟ان حالات میں کیسے یہ توقع رکھی جاسکتی ہے کہ جولیان پر مقدمہ شفاف طورپر چلایاجائے گا؟پہلے ہی منصف وعادل میڈیا اسے زانی ،شرابی کبابی اور کیا کیا کچھ قرار دے چکاہے۔ ریاست اپنی ساری طاقت کے ساتھ صحیح معنوں میں اسے تباہ وبرباد کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ اس سے عیاں اور ثابت ہوتا ہے کہ کس طرح سے لیفٹ کے یہ لوگ پیٹی بورژواترقی پسندبن چکے ہیں کہ جو تعصبات سے لبریز ہوتے ہیں لیکن جو انقلابی طبقاتی شعور کے معمولی ذرے کے بھی حامل نہیں ہوتے۔اور جن کا اس کے علاوہ اور کوئی کام یا وطیرہ نہیں ہوتا کہ وہ اپنے ارد گرد موجود نوجوانوں یا محنت کشوں کو گمراہ اور کنفیوز کرتے رہیں۔ عدل و عدالت کی دھونس دھاندلی زنا کے اس مقدمے کی عدالتی سماعت درحقیقت اصل حقیقت کو چھپانے کا ہی ایک طریقہ ہے۔یہ واضح طورپرعلی الاعلان کردار کشی کی ایک واردات ہے ۔اس مقدمے کو امریکی سی آئی اے کی طرف سے آگے لایاگیااور جس کیلئے سویڈن میں موجود حکومت اور عدلیہ کو اپنا آلہ کار بنایاگیا۔اس مقدمے کی تفتیش‘ تحقیق اور سماعت کے دوران ہی امریکی سی آئی اے کی پروردہ پروپیگنڈہ مشینری کوخوب تیل مالش کر کے استعمال میں لایا گیا۔ ایسی کوششیں شروع کر دی گئیں کہ جولیان کو فوری طورپر کسی نہ کسی طرح سویڈن بدر کردیاجائے تاکہ اس کے خلاف زنا کے مقدمے کو چلایاجاسکے ۔اور یہ سارا کھیل دراصل اس کھلواڑ کاابتدائیہ ہے جو ابھی ہوناہے ۔سفارتی حلقوں سے یہ بات سامنے لیک ہوچکی ہے کہ اسے سویڈن سے امریکہ منتقل کرنے کی تیاریاں ہو چکی ہیں ۔سویڈن کے تفتیشی ادارے اگرچہ اس کی تردید کرچکے ہیں مگر فرماتے ہیں کہ ایسا ہوابھی تو برطانیہ کی منظوری اور مرضی سے ہوگا۔بات ہی ختم !یورپ میں امریکہ کے سب سے تابعدار اتحادی برطانیہ کی مرضی کے بغیر یہ ہے ہی ناممکن ۔ یہ راز بھی ہر کس وناکس پر عیاں ہوچکاہے کہ امریکہ بھرپور کوشش کررہاہے کہ ایسے چورراستے نکالے جائیں کہ جن کی مددسے جولیان کو امریکی قانون کی گرفت میں لے آیا جائے۔اگر اسے امریکہ کے حوالے کردیاجاتاہے تو امریکی اسے عبرت بنانے میں ذرا سی تاخیر نہیں کریں گے۔جولیان کو لندن کی میٹروپولیٹن پولیس کے بدیسی شعبے کی جانب سے ایک یورپی وارنٹ گرفتاری ملنے کے بعد لندن کے ایک پولیس سٹیشن میں طلب کر کے گرفتار کیاگیا۔جہاں سے وہ عدالت میں پیش ہوا جہاں اس نے اپنی شناخت ،اپنی تاریخ پیدائش کا بتایا اور کہا کہ میں کسی طور بے دخلی نہیں چاہتا۔اس موقع پر برطانوی حکومت نے عوام کے سامنے اپنی غیرجانبداری اور ساکھ قائم کرنے کیلئے 10ڈاؤننگ سٹریٹ سے یہ اعلان جاری کیا کہ یہ پولیس کی اپنی کاروائی ہے جس کا برطانیہ کی حکومت یا اس کی کسی وزارت سے کوئی سروکار نہیں ہے ۔یوں اس نے اپنا ہاتھ صاف کرنے اور رکھنے کی کوشش کے بعد،جولیان کو بھیڑیوں کے جھرمٹ میں پھینک دیا۔اس عدالتی کاروائی اور حکومتی صفائی کے بعد جولیان کو وینڈزورتھ کی جیل میں ڈال دیاگیا تاکہ برطانیہ عظمیٰ کی میزبانی سے لطف اندوزہوسکے۔جہاں اسے تنہائی میں رکھاگیا۔نہ تو کوئی کتاب ،نہ کوئی ملاقاتی،نہ کوئی اخبار رسالہ،نہ ہی ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتاتھا۔ایک ایسے آدمی کے ساتھ کہ جس پر ابھی کوئی ایک الزام بھی ثابت نہیں ہوا،اس قسم کا سلوک کم سے کم غیر معمولی قراردیاجاسکتاہے۔بالآخر عدالت نے بے پناہ دباؤ کے باعث جولیان کی ضمانت لے لی ۔ اوروہ بھی سخت شرائط کے ساتھ گھر میں نظربند رہنے کی صورت میں۔ جمہوری حقوق پر حملہ ماضی میں محنت کش طبقے کی جدوجہد سے ہونے والی حاصلات کے خلاف حکمران طبقات کے حملوں کے دفاع کے ضمن میں جمہوری حقوق کا دفاع کرنا ایک اہم ترین فریضہ ہے اور ہوتاہے۔ان حملوں کے ذریعے حکمران طبقات وقت کو صدیوں پیچھے لے جانا چاہتے ہیں۔ایسے ہی حملے اجرتوں اور معیارِزندگی پر بھی کئے جارہے ہیں۔تعلیم،رہائش،علاج معالجے اور دیگر سماجی سہولتوں میں کٹوتیاں بھی اسی حملے کا ہی ایک حصہ ہیں۔لیکن ان سبھی حملوں کے ساتھ ساتھ ہی محنت کشوں کے جدوجہد سے حاصل کردہ جمہوری حقوق کو بھی تاراج کرنے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ وہ اپنے معیارِزندگی کے خلاف ہونے والے حملوں کے دفاع کی جدوجہد سے روکے جا سکیں۔’’جمہوری‘‘برطانیہ کے اندرہڑتال کے حقوق پر اس قدر سخت پابندیاں عائدکی جاچکی ہیں کہ کئی شعبوں میں تو اس کا ہونا ہی بعید ازامکان ہوچکاہے۔یہ قوانین رجعتی تھیچر حکومت کی جانب سے متعارف اور مسلط کئے گئے تھے لیکن جنہیں بعد میں بلیر کی لیبر حکومت نے بھی قائم دائم رکھا اور ان کو ختم کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ دہشت گردی کے خاتمے کے نام نہاد قانون کے بعد سے توشہریوں کے عمومی حقوق غصب کر لیے گئے ہیں۔جس کے تحت پولیس کو بے پناہ اختیارات تفویض کر دیئے گئے ہیں کہ وہ کسی بھی وقت کسی بھی شہری کو روک سکتی ہے اور گرفتار کرکے28دنوں تک کیلئے کسی عدالتی حکم کے بغیر قید میں بھی رکھ سکتی ہے۔ لبرل ازم کی حدود اس سب کچھ کا آخر کیا مقصدہے؟جیسا کہ رجعتی میڈیا چیخ وپکار کر رہاہے کہ یہ تو جی مغربی تہذیب وتمدن اعلی ٰ و ارفع جمہوری اقدار کا تختہ گول کرنے کی کوئی سازش ہے۔کیا واقعی ایسا ہے ؟کیا جولیان ایک خطرناک انقلابی ہے ؟یاکیا وہ ایک مارکس وادی ہے کہ جس سے سرمائے کی سلطنت کو خطرات لا حق ہو گئے ہیں؟ایسے ہی کچھ جولیان کا خاکہ اور تصور تراشااور بنایا جارہاہے لیکن ایسی کوئی بات ہی نہیں ہے۔اسانجے نہ تو کوئی انقلابی نہ ہی مارکسی!لیکن اس میں کچھ صفات ضرور موجودہیں۔کہ جن کی بدولت اس نے واشنگٹن کی سبھی کرنیوں اور کرتوتوں کو جو کہ خفیہ رکھے جارہے تھے ، کھلے عام افشاکردیاہے۔اس نے سارے میکنزم کو عام کردیاہے۔اور یہی جی ہاں صرف یہی ایک جرم ہے جس کیلئے جولیان کواس قدر ذلت اورہزیمت کا سامناکرنا پڑ رہاہے۔حکمرانوں کے کانوں کے پردے پھاڑ دینے والی اس ویب سائٹ نے واضح اعلان کیاہے کہ وہ اپنے بانی کے خلاف کی جانے والی کسی بھی مذموم کوشش کے آگے سرنہیں جھکائے گی۔خود جولیان نے بھی اسی عزم اور ارادے کا اعلان کیاہے۔وکی لیکس نے اعلان کیاہے کہ وہ امریکی سفارتی دستاویزات شائع کرتی رہے گی۔اس کے ترجمان نے کہا ہے کہ ’’کسی قسم کی دھونس دھاندلی ہمیں نہیں روک سکے گی۔یہ انکشافات عام کئے جاتے رہیں گے۔ہم نہیں رکیں گے نہ ہی جھکیں گے ،نہ کسی قانونی و عدالتی دھونس سے نہ ہی کارپوریٹ بدمعاشیوں سے‘‘۔ وکی لیکس کا سٹاف لندن کے ایک دفتر میں منتقل ہوچکاہے ۔جہاں کئی ہفتوں سے جولیان ان دستاویزات کے اجرا کے کام کی نگرانی کرتارہاہے۔ایسا سٹاف طلب کیا گیا ہے کہ جو جولیان کی رہائش گاہ کی نہ تو نشاندہی کر سکے اور نہ ہی موبائل فون استعمال کرسکے کہ جس سے ان کا پتہ لگایا جاسکے۔ یہ سبھی اقدامات سبھی ترقی پسند حلقوں کی جانب سے خوش آئند قرار دیئے جائیں گے ۔ان میں سب سے پہلے اور آگے مارکس وادی ہوں گے۔ جمہوری حقوق کیلئے جدوجد سرمایہ دارانہ نظام اور سامراجیت کے خلاف جدوجہد کا جزولاینفک ہے ۔کین لوچ جو کہ ادارےKesکا ڈائریکٹر ہے ،نے کہا ہے کہ ’’میرا یہ پختہ خیال ہے کہ جولیان نے جو کچھ بھی کیا ہے وہ ایک بہت بڑی عوامی خدمت ہے۔میں یہ سمجھتا اور مانتاہوں کہ ہمیں وہ سب کچھ جاننے کا حق ہے جو کہ ہم پر حکمرانی کرنے والے کرتے ہیں‘‘۔اور یہی تو اس سارے قضیے کی اصل جڑہے‘‘۔ جولیان ہرگز بورژوا جمہوریت کو نہیں اکھاڑ پھینکنا چاہتا تھا۔کیونکہ وہ اس پر یقین رکھتاآرہاہے۔وہ جو کچھ دیکھناچاہتا یا کرناچاہتا تھا یا ہے وہ یہ ہے کہ وہ جمہوریت کو مزید بہتر مزید ذمہ دار کرنا اور دیکھنا چاہتاہے ۔لیکن یہی اس کی غلطی اور غلط فہمی ہے۔ وہ ایک لبرل انسان ہے اور جمہوریت پر اعتماد رکھتاہے۔ لیکن سرمائے کے تحت جمہوریت محض یکطرفہ،نامکمل اور منتشر کردارکی حامل ہواکرتی ہے۔یہ اپنی اصل میں محض نام کی جمہوریت ہواکرتی ہے ۔یہ صرف ایک نقاب ہوتا ہے کہ جسے مالیاتی سرمائے کے عالمی جگادریوں یعنی بڑے بینکوں اور بڑی عالمی اجارہ داریوں نے اپنے اپنے چہروں پر چپکایا ہوا ہوتا ہے۔ کہیں بھی ،کبھی بھی کسی آمریت نے اپنے پنجے ایسے نیچے دورتک نہیں گاڑے تھے اور نہ ہی کبھی ایسی دیوہیکل طاقت کسی کو کبھی نصیب ہوئی تھی جتنی امریکہ کو ملی۔ یہ ایک خام خیالی ہے کہ عام اخلاقی اقدار کو سامراجی سفارتکاری پر فوقیت دی جائے۔سامراج سے یہ مطالبہ کیا جائے کہ وہ دیانتداری کا احترام کرے ،عدل وانصاف کا بول بالاکرے اور رکھے اور یہ کہ وہ بین الاقوامی قانون کی پاسداری کو اپنا شیوہ بنائے تاکہ ملک اپنے مسائل احسن و خوبی سے طے اور حل کر سکیں!یہ تو ایسے ہے جیسے آپ نیم کے درخت سے انگوروں کی درخواست کریں۔جمہوری حقوق کیلئے کی جانے والی ہر مستقل جدوجہد کو لازمی طورپرخود کو بینکوں اور عالمی اجارہ داریوں کے خلاف جدوجہد میں ڈھالنا ہوگا۔یہی وہ ادارے ہیں جو کہ دنیا بھر میں کہیں بھی موجود جمہوری حکومتوں سے کہیں زیادہ طاقتور ہیں۔امریکہ کی جتنی بھی داخلی و خارجی پالیسیاں ہیں وہ سب کی سب انہی بڑے بینکوں اور عالمی اجارہ داریوں کے مفادات کے تحت ہی مرتب اور مسلط کی جاتی ہیں۔صرف امریکہ ہی نہیں ہر ملک کا یہی حال ہے ۔طبقاتی جدوجہد سے وابستہ ہر ایک باشعور کارکن کا یہ فرض ہے کہ وہ انکشاف شدہ دستاویزات کا باریک بینی سے مطالعہ کرتا رہے تاکہ وہ بورژوا سفارتکاری اور اس کے پیچھے موجود حقیقی مفادات کا درست ادراک حاصل کرسکے جسے یہ حکمران اپنی خارجہ پالیسی کا نام دیتے چلے آرہے ہیں ۔اوریہ ہر سچے سوشلسٹ کا بنیادی فریضہ ہے کہ وہ جولیان پر ہونے والے ہر ایک سامراجی حملے اور ہزیمت کے دفاع کیلئے اس کا ساتھ دے۔ اس نے سچ بیان کرنے کا جرم کیا ہے ۔جس سے جھوٹوں کی دنیا بھڑک اٹھی ہے۔