ایرانی صدر کا دورہ بولیویا ۔ ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو Urdu Share TweetUrdu translation of Ahmadinejad visits Bolivia: the real face of the Iranian regime (November 30, 2009)چنگاری ڈاٹ کام،11.12.2009۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ،، ذیل میں ہم بولیویا میں عالمی مارکسی رحجان کے ایرانی صدرکے دورے پر جاری ہونے والااعلامیہ شائع کر رہے ہیں۔ عالمی مزدورتحریک خصوصاًلاطینی امریکہ کے انقلاب کے حوالے سے یہ مضمون سنجیدہ مطالعے کامتقاضی ہے،، ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایران کے صدراحمدی نژادکے پچھلے ہفتے بولیویاکے دورے نے ملکی اور غیر ملکی رجعتی ذرائع ابلاغ کے مکروہ پروپیگنڈے کو عیاں کردیاہے۔ اس ضمن میں بہت کچھ کہااور لکھا گیاہے۔ اس حوالے سے غالباًسب سے زیادہ گھناﺅنا مضمون جو سامنے آیاہے وہ ”وال سٹریٹ جرنل“ میں ماریا انستشیا گارڈی کاہے۔ یہ مضمون”بولیویا میں جمہوریت کاخاتمہ“ کے عنوان سے شائع ہواہے۔ اسی قسم کے مواد و موضوعات پر اور بھی بہت کچھ بولیویا کے سرمایہ دارمیڈیا میں سامنے آیاہے۔ یہاں بولیویا میں انقلاب کی جستجو اور جدوجہد میں سرگرداں ہم سب ساتھی کارکن، امریکی سامراج کے ایجنٹوں اوراشرافیہ کے دلال یہاں کے مقامی میڈیا مالکان کی اس بیہودہ اورشرمناک مہم کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہیں جو وہ یہاں کی اشرافیہ کی دلالی اور خوشنودی کےلئے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ محترمہ گارڈی صاحبہ جو بولیوےا میں ”آمریت“ کارونا روتی چلی آرہی ہیں، انہیں کسی طور یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اپنے اس قسم کے کھوکھلے آدرشوں کو انقلابیوں کے خلاف اس طرح بددیا نتی سے استعمال کریں۔ یہ وہی محترمہ ہیں جنہوں نے اپریل دو ہزار دو میں وینزویلا میں ہونے والی فوجی بغاوت کی بڑھ چڑھ کر حمایت کی تھی۔ اور پھر یہاں بولیویا میں ہزاروں بے گناہ معصوم انسانوں کے خون میں اپنے ہاتھ رنگنے والے آمرمیسا کہ جو سوئی گیس کی نجکاری کے خلاف احتجاج کرنے والے اپنے ہی ملک کے درجنوںکارکنوںکے قتل ناحق کا ذمہ دار تھا، وہ بھی ان محترمہ کی آنکھوں کا تارا رہا ہے ۔ اور ابھی حال ہی مےں موصوفہ نے ہنڈراس مےں ایک منتخب جمہوری صدر کا تختہ الٹنے والی بغاوت کی بھی پرزور حمایت کی تھی۔ ہمارے لئے یہ بات ناقابل فہم اور ناقابل قبول ہے کہ سرمایہ دار میڈیااور ان کے دانشور کس منہ سے اس قسم کی تنقید کرتے ہیں حالانکہ یہ اس خطے میں مسلط رہنے والی سبھی عوام دشمن آمریتوں کے کھلے عام اور سدابہارحمایتی رہے ہیں۔ اور یہ لوگ عوام کی اکثریت کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی ایوا موراےلس کی حکومت کے خلاف پچھلے سال ستمبر میں بغاوت کی کوششوں کے بھی حامی رہے ہیں۔ وہ دن اب چلے گئے ہیں کہ جب بولیویا کے بارے میں پالیسیاں اور فیصلے یا تو واشنگٹن میں یا پھربولیویا کے دارالحکومت لاپازمیں قائم امریکی سفارت خانے کے اندر طے کئے جاتے تھے۔ یہ بولیویا کا بنیادی حق ہے کہ وہ اپنی تجارت یا دوسرے سفارتی معاملات اپنی منشااور اپنے مفاد کے تحت طے کرے اور ان پر عملدرآمدکرے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ انقلابی مارکس وادیوں کے طور پر ہمیں تصویر کے دوسرے رخ پر بھی شدید تشویش اور تحفظات ہیں جو کہ یہاں احمدی نژاد کے ہمارے ملک کے دورے کے حوالے سے سامنے لایا جارہاہے۔ یہ کہا اور بتایا جارہاہے کہ ایران کی احمدی نژادکی حکومت ” سامراج مخالف “ اور ”انقلابی“ حکومت ہے۔ اور یہ بھی کہا جارہاہے کہ بولیویا کو اپنی حکمت عملی اور پالیسی کو کثیر الجہتی رکھنا چاہئے یعنی کھلے الفاظ میں یہ کہ ” دشمن کا دشمن دوست ہے“ کی پالیسی اختیارکی جائے ۔ یہاں ہم یہ بات واضح کردینا ضروری سمجھتے ہیں کہ ایران کی احمدی نژاد کی حکومت کو انقلابی سمجھنا اور قراردینا ہی سب سے بڑی نادانی اورغلطی ہے۔ انیس سو اناسی مےں ایران میں ہونے والا انقلاب یقینی طور پر ایک کامیاب عوامی انقلاب تھا۔ اس انقلاب میں ایران کے محنت کش طبقے نے مکمل جوش وجذبے کے ساتھ حصہ لیاتھا۔ اس انقلاب میں نوجوانوں کسانوں اور خواتین نے بھی بھرپور شرکت کی تھی۔ ایران کے مکروہ اور مردود شہنشاہ کے تخت کاحتمی فیصلہ تیل کے مزدوروں کی عام ہڑتال نے ہی کیاتھا ۔ اس دوران لاکھوںمزدوروںنے ایران کے اندر ہر جگہ ہر کارخانے میں مزدوروں کی کونسلیں قائم کرلی تھیں اور ان کونسلوں نے سبھی معاملات اپنے ہاتھوں میں لے لئے تھے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ ایران کے لاکھوں کسانوں نے بڑے زمینداروں کی جاگیروں کا کنٹرول سنبھال لیاتھا(آج ویساہی یہاں بولیویا میں کسانوں نے کیاہواہے)۔ جبکہ طالبعلموں نے ایران کے سبھی تعلیمی اداروں کو اپنی کونسلوں کے ذریعے چلاناشروع کردیاتھا۔ یہ سب کونسلیں جمہوری طور پر منتخب ہوئی تھیں۔ اور یوں وہاں اس اشرافیہ کی حاکمیت کو اکھاڑ کر پھینک دیاگیاتھا جو کہ ان پر نسلوں سے مسلط چلی آرہی تھی۔ اسی طرح ایرانی فوجیوں نے بھی اپنی جمہوری کونسلیں قائم کر لی تھیں اور انہوں نے ظالم اور بدعنوان افسروں کا قلع قمع کرنا شروع کردیاتھا۔ استحصال کا شکار چلی آنی والی مظلوم قومیتوں(کرد، عرب اور آذیری وغیرہ)نے بھی اپنی آزادی حاصل کر لی تھی۔ یوں اجتماعی طور پر ایران کے عوام نے سامراج کی گماشتگی کو تہس نہس کرڈالاتھا۔ تاہم ایران کی موجودہ حکومت اور طرز حکمرانی کاآغازوارتکاز انیس سو اناسی سے انیس سو تراسی کے عرصے کے دوران ہواتھا۔ اسی عرصے کے دوران ہی بنیاد پرست سخت گیر ملاﺅں کی مرضی اور سازش سے ایرانی انقلاب کو بتدریج مگر ایک واضح بدترین جبروتشددکے ذریعے تہہ تیغ کیا جانے لگا۔ اور پھر کچھ ہی سالوں کے اندر ایران کے انقلاب کا گلا گھونٹ دیاگیا ۔ زمینیں اورجائیدادیں اشرافیہ کو واپس کر دی گئیں۔ اور وہاں کام کرنے والوں کو بے دخل کردیاگیا ۔ فیکٹریوں میں کام کرنے والی مزدوروں کی کونسلوں کو ختم کرکے ان کی جگہ اسلامی شورائیت مسلط کر دی گئی۔ اس کے بعد مزدوروں کے کسی بھی قسم کے احتجاج اور ہڑتال کرنے پر پابندی لگا دی گئی۔ سارے ایران پر ایک مخصوص قسم کی اسلامی حکومت نافذ کر دی گئی۔ جس کے تحت خاص طور پر خواتین کے حقوق کو بری طرح سلب کرلیاگیا۔ اور صرف وہی نہیں بلکہ ساری ایرانی آبادی پر ایک نظریاتی آمریت مسلط کر دی گئی۔ ایرانی مزدوروں نوجوانوں کسانوں خواتین اور مظلوم قومیتوں کی اس شاندار اورتاریخی انقلابی کامیابی کا انتہائی سہولت اور آسانی کے ساتھ متعصب و تنگ نظر ملاﺅں کے ہاتھوں منتقل ہوجانا کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا اوریہ کسی طور بھی انقلاب کرنے والے عوام کی غلطی نہیں تھی بلکہ اس میں سراسر ساری ذمہ داری انقلاب کی قیادت پر ہی عائد ہوتی ہے ۔ جنہوں نے یہ سوچا اور تصور کرلیاکہ ہمیں مسلم ملاﺅں کے ساتھ ایک یونائٹڈفرنٹ بنالینا چاہئے جن کی قیادت آیت اللہ خمینی کر رہاتھااور جوکہ ان کے نزدیک ”سامراج مخالف “ تھا۔ اپنی اس بھیانک اور مہلک غلطی کا انہیں بدترین خمیازہ بھی بھگتنا پڑا۔ اگلے چارسالوں کے دوران، بائیں بازو پرحملے شروع کردیے گئے، طاقت واقتدار جو کہ محنت کش طبقے اورعوم کے ہاتھوں میں تھی اور جس کا کردارو معیار مکمل اور حقیقی معنوں میں سامراج مخالف تھا، اس ملا اشرافیہ کے ہاتھوں مرتکزہوتی چلی گئی۔ انقلاب اورانقلابیوں کے قتل کے اس عمل کو مقدس اور جائزقراردینے کی نیت سے ملا اشرافیہ نے فوری طورپر ہی سامراج مخالفت کا بہروپ دھارلیا۔ اس سلسلے میں امریکی سفارتخانے پر قبضے کی سازش منظم کی گئی اور ساتھ ہی عراق کے خلاف جنگ بھی چھیڑ دی گئی تاکہ سامراج دشمنی کے اس بہروپ کو دنیا کے سامنے مستندکرایاجاسکے۔ انیس سو تراسی تک ایران میںبائیں بازو کی سبھی پارٹیوں پر پابندی لگا دی گئی۔ اس کے باوجود کہ ان کا خمینی کے ساتھ بزعم خویش ”یونائٹڈفرنٹ“ بھی قائم تھا۔ اس عرصے میں مختلف گروپوں سے منسلک تیس ہزار سے زیادہ اصلاح پسندوں، قوم پرستوں اور انقلابیوںکو موت کے گھاٹ اتار دیاگیا۔ موجودہ ایرانی ا سلامی حکومت اورطرز حکمرانی کی بنیادیں اسی خونریز انقلاب دشمنی پر استوار ہیں۔ چنانچہ یہ حکومت کسی حوالے کسی اعتبار کسی طورپر بھی کوئی انقلابی یا عوامی حکومت نہیں ہے بلکہ اس کی جڑیں اور بنیادیں انقلاب کے بے رحمانہ قتل پر مبنی ہیں۔ حالیہ دنوں میں ایران کے اندر انقلابی نوجوانوں ، محنت کشوںاور کسانوں پر جس طرح سے اس وحشی حکومت نے جبروتشدد کا بازار گرم کر رکھا ہے اس نے ہر قسم کے بنیادی حقوق کی دھجیاں اڑا کے رکھ دی ہیں۔ اس سال جب کوئی دوہزار کے قریب مزدورکارکنوں نے تہران میں یوم مئی کا پروگرام کرنا چاہاتو پولیس نے ان پر بدترین تشدد کیا اور پچاس کے قریب مزدوروں کو گرفتار کرلیاگیا جن میں سے کئی ابھی تک قیدمیں رکھے ہوئے ہیں۔ اس وقت ایران میں لاکھوں محنت کشوں کو کئی مہینوں سے ان کی تنخواہیں اور اجرتیں نہیں دی گئی ہیں ۔ اور جب وہ اس جائز مطالبے کےلئے کوئی احتجاج یا مظاہرہ کرتے ہیں تو ریاست ان پروحشیوں کی طرح ٹوٹ پڑتی ہے۔ ادھر ہمارے ہاں بولیویا میں عوامی حکومت انقلابی پالیسی کے طورپرگیس، پانی اور دیگر عوامی اداروں کی کر دی جانے والی نجکاری کے خلاف مضبوطی سے اقدامات کر رہی ہے جبکہ اس کے بر عکس ایران کی احمدی نژاد حکومت انتہائی شدومد کے ساتھ عوامی اداروں کی نجکاری کرتی چلی جارہی ہے۔ اگست دو ہزار سات کے دوران ہی اس حکومت نے ایک سو ستاسٹھ اداروں کو نجکاری کی بھےنٹ چڑھاےاہے جبکہ ستمبر دو ہزار آٹھ کے دوران اس نے مزید دو سو تیس ادارے نجی سرمایہ داروں کو بیج ڈالے ہیں۔ ان اداروں میں ٹیلی کمیونیکشن، اصفہان مبارک سٹیل ملز، اصفہان پیٹر و کیمیکل کمپنی اور کردستان سیمنٹ جیسے اہم اور بنیادی ادارے شامل ہیں۔ نجکاری ہونے والی اس طویل فہرست میں ملک کا سب سے بڑا پیٹروکیمیکل کمپلیس بھی، ملک کے سب سے بڑے بینک، تیل اور گیس کی بڑی کمپنیاں اور انشورنس کمپنیاںشامل ہیں۔ اس دوران جبکہ احمدی نژاد حکومت اپنے عوام کی ذلتوں اور مسائل سے توجہ ہٹانے کےلئے امریکہ اور سامراج کی نام نہاد مخالفت کا ڈھنڈوراپیٹتی چلی آرہی ہے۔ یہ کسی طور بھی اپنے ”اعلان کردہ دشمن“ کے خلاف سرگرم اور جدوجہد کرنے والوں کا زبانی کلامی ساتھ بھی دینے سے گریزاں ہے جس پر یہ اٹھتے بیٹھتے نکتہ چینی کرتی رہتی ہے۔ عراق پر امریکی جارحیت کے معاملے میں بھی ایرانی حکومت نے مجرمانہ چپ سادھے رکھی اور صرف اس لئے کہ اس کی مخالف حکومت اور ریاست ، اس سامراجی جارحیت کے نتیجے میں کمزورہورہی تھی۔ اور یوں عراق پر ہونے والی اس سامراجی جارحیت کو خطے میں اپنی برتری اور سطوت قائم کرنے کا موقع بنایاگیا۔ اپنے ہمسایہ ملک میں سامراجی جارحیت کے خلاف شروع ہونے والی قومی آزادی کی انقلابی جدوجہد کو منظم کرنے اور اسے تقویت دینے کی بجائے ایران کی اس نام نہاد سامراج مخالف اور خودساختہ انقلابی حکومت نے اس قومی آزادی کی جدوجہد میں رخنے ڈالنے کا سلسلہ شروع کردیااور اسے مذہب ومسلک کی رجعتی بنیادوںپر کاٹنا اورتقسیم کرنا شروع کردیا۔ یہ سب وہ حالات اور وجوہات ہیں جو کہ ایران میں ایک نئی اور خالص انقلابی تحریک کی ابتداکا سبب بنی ہیں ۔ جو کہ ایران پر مسلط ملاشاہی اور احمدی نژاد کی عوام دشمن حکومت کے خلاف برسرپیکار ہو چکی ہے ۔ احمدی نژاد کی نئی حکومت ایک واضح انتخابی فراڈ کے نتیجے میں قائم ہوئی ہے ۔ اور جو کہ اس فراڈ کے خلاف ہونے والے احتجاج کو وحشیانہ طریقے سے کچلتی چلی آرہی ہے۔ بطور انقلابی کے ہم یہ بات واضح طورپر کہہ رہے ہیں کہ سامراج کسی بھی ملک میں کوئی مداخلت یا جارحیت کرتا ہے یا کرے گا، چاہے وہ ایران ہی کیوں نہ ہو،ہم اس کی مخالفت بھی کرتے ہیں اور مذمت و مزاحمت بھی۔ ہم نے اپنے ملک بولیویا مےں بھی سامراجی مداخلت کو روکا ہے۔ اور آگے بھی روکیں گے۔ لیکن ہم یہ بھی یہاں واضح اعلان کرنا چاہتے ہیں کہ انقلاب اور ردانقلاب کو غلط ملط کرنا بھی کسی طور ایک بھیانک اور مہلک غلطی سے کم نہیں ہوگا۔ ہم بولیویا کے مزدوروں کے اصلی اور سچے اتحادی اور ساتھی ایران کے مزدور ، نوجوان ، کسان اور خواتیں ہیںجو کہ اپنے بنیادی حقوق کےلئے میدان عمل میں اترے ہوئے ہیں۔ ایران میں مظلوم و محروم قومیتوں کے استحصال کا خاتمہ ، ٹریڈیونین سرگرمیوں کے بنیادی حق کی بحالی جس میں ہڑتال کرنے ، جلسہ جلوس منظم کرنے کا حق شامل ہیں، اور ان کے ساتھ ہر انسان کےلئے روٹی ، روزگارعلاج اور تعلیم کے مفت حق کی یہ جدوجہد ہمارے تعلقات کی نوعیت اور کیفیت کی اصل کسوٹی ہے۔ بولیویا کی حکومت کو سنجیدگی اور سختی سے اپنی سفارتی اور تجارتی تعلقات بارے پالیسی کوانقلابی خارجہ پالیسی کے تحت سرانجام دینا چاہئے ۔ یہی ہمارا طرہ امتیاز ہے اور ہونا چاہئے ۔ ”کمانڈر“ کے نام اور لقب سے مقبول ایوامورایلس کی حکومت جسے بولیویا کے شہروں اور دیہاتوںکے کروڑوں انسانوں کی تائید وحمایت حاصل ہے ، کو کسی طور پر بھی احمدی نژاد کی ردانقلابی اور رجعتی حکومت کے بارے کسی بھی خوش فہمی یا خوش گمانی کا شکار نہیں ہونا چاہئے ۔ ایران کی حکومت وہ حکومت ہے جو کہ اپنے مزدوروں نوجوانوں کسانوں اور خواتین کو ان کے بنیادی جمہوری حقوق مانگنے پر تہہ تیغ کرتی چلی آرہی ہے۔ ایک حقیقی اور موثرعالمی پالیسی کو لازمی طورپر محنت کشوںکسانوں اور مظلوم قوموں کے اتحاد اور ان کے ساتھ ےکجہتی کا حامل ہونا چاہئے ۔ اور اسے واضح طورپر بینکا روں ، سرمایہ داروں، اور عالمی سامراجیوں کے خلاف ہونا چاہئے ۔ ایک انقلاب کےلئے درکار خارجہ پالیسی کو محض ہر اس ملک یا ایسی حکومت کے ساتھ سفارتی تعلق رکھنا جو امریکہ مخالف ہونے کے ڈھنڈورے پر ہی قائم ہو اورحالانکہ عملی طورپر اس کا کردار، اپنے ہی ملک کے محنت کش طبقے نوجوانوں کسانوں اور مظلوموں کے خلاف ہو ، یہ پالیسی نہ صرف سراسر غلط ہے بلکہ یہ عملی طور پر لاطینی امریکہ کے اندر جاری بولیویرین انقلاب کےلئے خطرناک بھی ثابت ہوسکتی ہے ۔