ٹرمپ کی سیاست کے حقیقی معنی کیا ہیں؟ ایک کمیونسٹ تجزیہ

یورپ پر ایک بھوت منڈلا رہا ہے۔ یہ خوفناک عفریت اچانک ظاہر ہوا ہے، جیسے کسی سیاہ جادو کے ذریعے، کسی شیطانی قوت نے جہنم کی تاریک ترین گہرائیوں سے اسے بلا کر زمین کے نیک لوگوں کو عذاب میں مبتلا کرنے، ان کی نیندیں حرام کرنے اور ان کے بھیانک ترین خوابوں کو حقیقت بنانے کے لیے بھیجا ہو۔

[یہ مضمون درج ذیل زبانوں میں بھی پڑھا جا سکتا ہے: انگریزی، ہسپانوی، سادہ چینی، عربی، یونانی، سویڈش، پرتگالی]

اس عفریت کا سب سے خوفناک پہلو یہ ہے کہ کوئی بھی اسے مکمل طور پر سمجھنے یا وضاحت کرنے کے قابل نہیں۔ یہ ایک ایسی ناقابلِ مزاحمت فطری قوت کے طور پر ظاہر ہوا ہے، جو ہر چیز کو اپنے ساتھ بہا کر لے جا رہا ہے۔ حیران کن طور پر مختصر وقت میں، اس نے دنیا کے سب سے امیر اور طاقتور ملک پر اپنی گرفت مضبوط کر لی ہے۔

تمام طاقتور اور بااثر قوتیں،’اصولوں پر قائم عالمی نظام‘کے تمام محافظ، مقدس اقدار کے سبھی رکھوالے – سب نے اس شیطانی بلا کو شکست دینے کے لیے اپنی طاقتیں اکٹھی کر لی ہیں۔

ہمارا ”آزاد“ میڈیا، جسے آزادی اور اظہارِ رائے کا سب سے بڑا محافظ سمجھا جاتا ہے، جمہوریت، آزادی اور قانون کی حکمرانی کے دفاع میں ایک متحد محاذ کے طور پر میدان میں اترا۔

لیکن سب ناکام ہو چکے ہیں۔

اس بھوت کا نام ہے: ڈونلڈ جے ٹرمپ۔

حکمران طبقے کے اوسان خطا

حکمران طبقے کے مکمل ذہنی دیوالیہ پن کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ سرمایہ داری کے معمار موجودہ حالات کو سمجھنے سے قاصر ہیں، مستقبل کی کوئی ٹھوس پیشین گوئی کرنا تو دور کی بات ہے۔

یہ ذہنی زوال یورپ کے سیاسی رہنماؤں میں اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے۔ انہوں نے کبھی عظیم سمجھے جانے والے اس براعظم کو معاشی، ثقافتی اور عسکری زوال کی دلدل میں دھکیل دیا ہے، یہاں تک کہ اب وہ مکمل بے بسی کی تصویر بن چکا ہے۔

دہائیوں تک امریکی سامراج کے مفاد میں سب کچھ قربان کرنے کے بعد، اور واشنگٹن کے فرمانبردار رہنے کی ذلت آمیز عادت ڈالنے کے بعد، وہ اب خود کو اپنے پرانے اتحادیوں کی بے وفائی کے نتیجے میں تنہا محسوس کر رہے ہیں۔

یوکرین میں ذلت آمیز شکست اور روس کو ختم کرنے کے بے بنیاد خوابوں کے بکھرنے کے بعد، ان کی حماقت پوری طرح عیاں ہو چکی ہے۔ اس کے برعکس، اب وہ ایک طاقتور اور دوبارہ ابھرتے ہوئے روس کے سامنا کھڑے ہیں، جو جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ہے اور جس کی فوج برسوں کی جنگی تربیت کے بعد پہلے سے زیادہ مضبوط ہو چکی ہے۔

اس نازک موڑ پر، وہ اچانک اس طاقت کے سائے سے محروم ہو گئے ہیں، جسے ان کے دفاع کے لیے آنا تھا۔ اب وہ اندھادھند اِدھر اُدھر بھاگ رہے ہیں، اور انتہائی عجلت میں یوکرینی صدر ولادیمیر زیلینسکی کے لیے اپنی غیر متزلزل وفاداری کا اظہار کرنے کے لیے بے چین نظر آ رہے ہیں۔

وہ وائٹ ہاؤس کے مکین (ٹرمپ) کے خلاف چیخ و پکار کر رہے ہیں، جسے وہ اپنی اس اچانک بربادی کا واحد ذمہ دار سمجھتے ہیں۔

لیکن یہ سارا شور و غوغا دراصل اس بات کا اظہار ہے کہ ان کے اوسان خطا ہو چکے ہیں، جو کہ درحقیقت شدید خوف کا نتیجہ ہے – ایک اندھا، ناقابلِ برداشت اور خالص خوف۔ اس جعلی بہادری کے پیچھے، درحقیقت یہ لیڈران خوف کے عالم میں مفلوج ہو چکے ہیں، جیسے کوئی خرگوش کسی آتی ہوئی کار کی ہیڈلائٹس کی روشنی سے اندھا ہو جاتا ہے۔

اصل وجہ کیا ہے؟

اگر ہم شکایات کے شور و غوغے، احتجاج اور الزامات کو ایک لمحے کے لیے نظر انداز کریں اور میڈیا کی ہیجان انگیزی سے لبریز دبیز دھند کے پار حقیقت تلاش کرنے کی کوشش کریں، تو سچائی کا ایک مدھم سا خاکہ ابھرنے لگتا ہے۔

ہر ذی شعور شخص کے لیے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ اتنی بڑی بحرانی کیفیت کسی ایک فرد کا کام نہیں ہو سکتی، چاہے وہ کتنا ہی غیر معمولی صلاحیتوں کا حامل کیوں نہ ہو۔ یہ ایک ایسی ”وضاحت“ ہے جو درحقیقت کچھ بھی واضح نہیں کرتی۔ یہ سیاسی سائنس سے زیادہ کالے جادو اور شیطانی طاقتوں کی دنیا کے زمرے میں آتی ہے۔

دی گارڈین نے قیامت خیز انداز میں لکھا:

”ٹرمپ کے تحت، عالمی ایجنڈا بدل جائے گا، چاہے ہمیں یہ پسند ہو یا نہ ہو۔ موسمیاتی تباہی کے خلاف جنگ کو شدید نقصان پہنچے گا، عالمی تعلقات مزید سودے بازی پر مبنی ہو جائیں گے، یوکرین کی روسی جارحیت کے خلاف جنگ پیٹھ میں خنجر گھونپے جانے کے مترادف ہوگی، اور تائیوان خود کو چینی بندوق کی نالی کے سامنے پائے گا۔ دنیا بھر میں لبرل جمہوریتیں، بشمول برطانیہ، اپنے اپنے ٹرمپ کی طرح کے لیڈروں کے حملوں کی زد میں آئیں گی، جو سوشل میڈیا کے ذریعے جھوٹ پر مبنی پراپیگنڈے سے طاقت حاصل کریں گے۔

”امریکی ووٹروں نے اس ہفتے ایک خوفناک اور ناقابلِ معافی جرم کیا ہے۔ ہمیں یہ کہنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرنی چاہیے کہ انہوں نے ان اصولوں اور مشترکہ اخلاقی اقدار سے منہ موڑ لیا ہے، جنہوں نے 1945ء کے بعد سے دنیا کو عمومی طور پر بہتری کی طرف گامزن کیا تھا۔ امریکی عوام نے فیصلہ کر لیا ہے کہ ٹرمپ ’عجیب و غریب‘ نہیں ہے، جیسا کہ ایک وقت میں کہا جا رہا تھا، بلکہ وہ مکمل طور پر مین سٹریم سیاسی لیڈر ہے۔ منگل کے روز، ووٹرز بڑی تعداد میں نکلے اور عجیب و غریب طریقے سے ووٹ ڈالے۔ اب امریکیوں کو اس کے نتائج بھگتنا ہوں گے۔“ (دی گارڈین، 6 نومبر 2024)

بس یہی ہے اصل معاملہ! دی گارڈین، جو لبرل منافقت کی سب سے بدترین مثال ہے، سارا الزام امریکی عوام پر ڈال رہا ہے، جنہوں نے آزاد اور منصفانہ انتخابات میں ایک ایسے امیدوار کو منتخب کر کے ”ناقابلِ معافی گناہ“ کیا، جو دی گارڈین کو پسند نہیں تھا۔

مگر اس ”گمراہی“ کی وضاحت کیسے کی جائے؟ دی گارڈین ہمیں پوری سنجیدگی کے ساتھ یہ باور کرانے کی کوشش کر رہا ہے کہ یہ سب امریکی عوام کی ”عجیب و غریب“ ذہنیت کا نتیجہ ہے۔ اور ”عجیب و غریب“ سے مراد وہ تمام خیالات ہیں، جو دی گارڈین کے مدیران کی تعصبانہ سوچ سے میل نہیں کھاتے۔

اصل میں ان کا مطلب یہ ہے کہ امریکی ووٹرز – یعنی لاکھوں عام محنت کش مرد و خواتین – ووٹ ڈالنے کے اہل ہی نہیں، کیونکہ وہ ”فطری طور پر عجیب و غریب“ ہیں۔

دی گارڈین کی زبان میں سیدھے الفاظ میں کہا جائے تو تمام امریکی عوام پیدائشی طور پر نسل پرستی، اقلیتوں سے نفرت اور سرمایہ دارانہ لبرل ازم کے اصولوں سے انجان ہونے کی بیماری میں مبتلا ہیں۔ اس لیے وہ فطری طور پر جمہوریت سے نفرت اور فسطائیت کی طرف مائل ہیں، جس کی سب سے بڑی علامت، ظاہر ہے، ڈونلڈ ٹرمپ ہے۔

مگر یہ ”عجیب و غریب“ سوچ آئی کہاں سے؟ کیا یہی امریکی ووٹرز اس وقت بھی ”عجیب و غریب“ تھے جب انہوں نے جو بائیڈن یا اوباما کو ووٹ دیا تھا؟ اُس وقت تو وہ مکمل ہوش و حواس میں تھے، ہیں نا! تو پھر اب کیا بدلا ہے؟

اصل عجیب و غریب چیز امریکی عوام کا طرزِ عمل نہیں، بلکہ وہ مضحکہ خیز ذہنی قلابازیاں ہیں جو لبرل نام نہاد صحافیوں کا چھوٹا سا طبقہ لگاتا ہے – وہ طبقہ جو خود کو جمہوریت کا سب سے بڑا چیمپئین سمجھتا ہے، لیکن جیسے ہی انتخابات کے نتائج ان کی خواہشات کے خلاف جاتے ہیں، ان کی جمہوری وابستگی دھری کی دھری رہ جاتی ہے۔

ان کی ”جمہوریت“ کی تعریف دراصل یہی ہے: انتخابات کی حمایت تب تک کی جا سکتی ہے، جب تک کہ ان کے نتائج ہمیں پسند آئیں۔ اگر ایسا نہ ہو تو انتخابات ہی کو مسترد کر دیا جائے۔ اس سوچ کی ایک حالیہ مثال رومانیہ کے صدارتی انتخابات میں دیکھی جا سکتی ہے، جہاں دسمبر میں پہلے مرحلے کے نتائج کو محض اس وجہ سے کالعدم قرار دے دیا گیا کہ ایک ایسا امیدوار جیت گیا تھا، جو حکمران اشرافیہ کو پسند نہیں تھا۔ نہ صرف یہ کہ نتائج منسوخ کر دیے گئے، بلکہ کالِن جیورجیوسکو کو مئی میں ہونے والے دوبارہ انتخابات میں حصہ لینے سے بھی روک دیا گیا۔

اس جمہوری قتلِ عام کو برسلز میں یورپی یونین کی قیادت کی مکمل حمایت حاصل تھی، اور یقینی طور پر دی گارڈین نے بھی اس پر جوش و خروش کے ساتھ جشن منایا ہوگا۔ کیونکہ یہی تو وہ طریقہ ہے جس سے ڈونلڈ ٹرمپ جیسے لوگوں کو انتخابات جیتنے سے روکا جا سکتا ہے!

واہ بھئی واہ! جمہوریت زندہ باد!

فاشزم آ گیا، فاشزم آ گیا!

ابتداء ہی سے میڈیا نے شور شرابے سے بھرپور ایک مہم چلائی، جس میں ٹرمپ کو فاشسٹ قرار دیا گیا۔ ذیل میں چند اخباری سرخیاں پیش کی جا رہی ہیں، جو اس پراپیگنڈے کی واضح مثال ہیں:

لی موند: ”ٹرمپ کے بطور صدر پہلے چند ہفتے ہی یہ احساس دلانے کے لیے کافی تھے کہ امریکہ کا فاشزم کی طرف جھکاؤ کوئی ڈراؤنا خواب نہیں، بلکہ ایک حقیقت بنتا جا رہا ہے۔“

نیو سٹیٹس مین: ”کیا امریکہ فاشزم کے خلاف مزاحمت کر سکتا ہے؟“

دی نیویارکر: ”ڈونلڈ ٹرمپ کے فاشسٹ ہونے کا مطلب کیا ہے؟“

دی گارڈین: ”ٹرمپ کا نیو فاشزم آ چکا ہے۔ اسے روکنے کے لیے یہ دس اقدامات کریں۔“

یہی راگ مختلف سیاسی و عسکری شخصیات نے بھی الاپا۔ مارک ملی، جو امریکی فوج کا ریٹائرڈ جنرل اور جوائنٹ چیفس آف سٹاف کا سابق چیئرمین تھا، نے خبردار کرتے ہوئے کہا:

”یہ تاریخ کا سب سے خطرناک شخص ہے۔ پہلے مجھے شک تھا کہ اس کی ذہنی حالت بگڑ رہی ہے، لیکن اب مجھے مکمل یقین ہو گیا ہے کہ وہ سراسر فاشسٹ ہے۔ یہ شخص ہمارے ملک کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن چکا ہے۔“

کمالا ہیرس نے بھی اس بات سے اتفاق کیا کہ ٹرمپ فاشسٹ ہے، اگرچہ جو بائیڈن نے نرمی برتتے ہوئے اسے صرف ”نیم فاشسٹ“ قرار دیا۔

اس کے باوجود بائیڈن بارہا خبردار کر چکا ہے کہ ٹرمپ جمہوریت کے لیے خطرہ ہے – اور یہ رائے ایریزونا کے اٹارنی جنرل جیسے دیگر حکومتی اہلکاروں نے بھی دی، جن کے مطابق: ”ہم آمریت کے دہانے پر کھڑے ہیں۔“

اینتھونی اسکاراموچی، جو مختصر مدت کے لیے وائٹ ہاؤس کے پریس سیکریٹری کے طور پر خدمات انجام دے چکا ہے، نے مزید کھل کر بات کی اور کہا: ”یہ حرام زادہ فاشسٹ ہے – بلکہ فاشسٹوں کا بھی باپ ہے۔“

متوقع طور پر، نام نہاد ”بائیں بازو“ کی کئی معروف شخصیات بھی اس بے ہنگم شور میں شامل ہو گئیں۔ الیگزینڈریا اوکاسیو کورٹیز (جسے اکثر ”سوشلسٹ ڈیموکریٹ“ کہا جاتا ہے) نے ماتم کرتے ہوئے کہا:

”ہم ایک آمرانہ حکومت کے دہانے پر ہیں۔ یہ ہے اکیسویں صدی کے فاشزم کی ابتدائی شکل۔“

یوں یہ شور مسلسل جاری ہے، روزانہ ایک ہی راگ الاپا جا رہا ہے۔ اس مہم کا مقصد واضح ہے: ایک بات کو اتنی بار دہرایا جائے کہ آخر کار لوگ اسے سچ ماننے لگیں۔ یہ زبردست پراپیگنڈا بے تحاشہ شور تو مچاتا ہے، لیکن روشنی کی ایک کرن بھی پیدا نہیں کرتا۔

فاشزم کیا ہے؟

یہ بات بالکل واضح ہے کہ یہاں فاشزم کی اصطلاح کسی سائنسی تعریف کے طور پر استعمال نہیں کی جا رہی، بلکہ محض ایک بازاری گالی کے طور پر برتی جا رہی ہے – تقریباً ”حرامزادہ“ یا اسی قسم کے کسی اور تضحیک آمیز لفظ کے مترادف۔

ایسی گالم گلوچ بعض لوگوں کے لیے جذباتی سکون کا باعث بن سکتی ہے۔ اس سے ناراض اور مایوس افراد کو اپنا غصہ نکالنے کا موقع ملتا ہے، اور وہ اس وہم میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ انہوں نے آزادی کے لیے کوئی بڑا کارنامہ انجام دے دیا ہے، یا اپنے سیاسی مخالف پر شاندار فتح حاصل کر لی ہے۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسی فتوحات عملی طور پر کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔ اس قسم کی زبان کی سختی درحقیقت بے بسی سے جنم لینے والے غصے کا اظہار ہے۔ جب کسی ناپسندیدہ دشمن کو حقیقت میں کوئی نقصان پہنچانے کی سکت نہ ہو، تو محض دور کھڑے ہو کر اس پر دشنام طرازی کرنے سے وقتی تسلی تو حاصل ہو سکتی ہے، مگر یہ کسی حقیقی سیاسی یا نظریاتی کامیابی کا متبادل نہیں ہو سکتا۔

جو لوگ ڈان کیخوٹے کی طرح خیالی دشمنوں کے خلاف جنگیں لڑنے کے بجائے حقیقی دشمنوں کے خلاف اصل معرکوں میں دلچسپی رکھتے ہیں، ان کے لیے سنجیدہ اور مؤثر ہتھیاروں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور کسی حقیقی کمیونسٹ کے لیے سب سے پہلی شرط سائنسی طریقہ کار پر سختی سے کاربند رہنا ہے۔

مارکسزم ایک سائنس ہے۔ اور دیگر تمام علوم کی طرح، اس کی بھی ایک سائنسی اصطلاحات پر مشتمل لغت ہے۔ الفاظ جیسے ’فاشزم‘ اور ’بوناپارٹ ازم‘ ہمارے لیے محض گالی یا سیاسی مخالف پر چسپاں کرنے والے کھوکھلے لیبل نہیں، بلکہ مخصوص تاریخی اور طبقاتی معانی رکھتے ہیں۔

مارکسی نقطہ نظر سے، فاشزم ایک ردِ انقلابی تحریک ہے۔ یہ ایک عوامی تحریک ہوتی ہے جو زیادہ تر لمپن پرولتاریہ اور غصے سے بپھری ہوئی چھوٹی بورژوازی پر مشتمل ہوتی ہے۔ اسے محنت کش طبقے کو کچلنے اور توڑنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، تاکہ ایک مکمل آمرانہ ریاست قائم کی جا سکے، جہاں بورژوازی اقتدار ایک فاشسٹ بیوروکریسی کے حوالے کر دیتی ہے۔

فاشسٹ ریاست کی سب سے نمایاں خصوصیت انتہائی مرکزیت اور مکمل ریاستی کنٹرول ہوتا ہے، جس میں بینکوں اور بڑی اجارہ داریوں کو تحفظ دیا جاتا ہے، مگر ایک طاقتور ریاستی بیوروکریسی کے ذریعے ان پر سخت کنٹرول بھی رکھا جاتا ہے۔ ٹراٹسکی اپنی تحریر ”قومی سوشلزم کیا ہے؟“ میں وضاحت کرتا ہے:

”جرمن فاشزم، اطالوی فاشزم کی طرح، چھوٹی بورژوازی کے کندھوں پر سوار ہو کر اقتدار میں آیا، جسے اس نے محنت کش طبقے کی تنظیموں اور جمہوری اداروں کو تباہ کرنے کے لیے استعمال کیا۔ لیکن اقتدار میں آنے کے بعد، فاشزم چھوٹی بورژوازی کی حکومت نہیں ہوتی۔ بلکہ یہ درحقیقت اجارہ دار سرمایہ داروں کی بے رحم ترین آمریت ہوتی ہے۔“

یہ فاشزم کی عمومی خصوصیات ہیں۔ لیکن اگر ان کا موازنہ ٹرمپ ازم کی نظریاتی بنیادوں اور عملی مواد سے کیا جائے تو کیا نتیجہ نکلے گا؟ ہم پہلے ہی ڈونلڈ ٹرمپ کی ایک حکومت کا تجربہ کر چکے ہیں، جس کے بارے میں ڈیموکریٹس اور لبرل اسٹیبلشمنٹ نے مسلسل چیخ و پکار کی کہ یہ جمہوریت کا خاتمہ کر دے گی۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔

کوئی ایسی بڑی پیش رفت نہیں ہوئی جس سے ہڑتال اور احتجاج کے حق کو محدود کیا جاتا، اور نہ ہی آزاد ٹریڈ یونینز کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی۔ انتخابات معمول کے مطابق منعقد ہوئے، اور تمام تر ہنگامے کے باوجود، ٹرمپ کی جگہ جو بائیڈن نے ایک الیکشن کے ذریعے لے لی۔ ٹرمپ کی پہلی حکومت کے بارے میں جو بھی رائے قائم کی جائے، مگر اسے کسی بھی پہلو سے فاشزم سے جوڑنا سراسر بے بنیاد ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ جمہوریت پر اصل حملہ بائیڈن اور ڈیموکریٹس نے کیا۔ انہوں نے غیرمعمولی حد تک جا کر ٹرمپ کو عدالتی مقدمات میں الجھا دیا تاکہ کسی بھی قیمت پر اسے مجرم ثابت کر کے جیل بھیجا جائے اور اگلے انتخابات میں صدر کے امیدوار کے طور پر کھڑا ہونے سے روکا جائے۔

میڈیا کو ایک مسلسل پراپیگنڈے میں جھونک دیا، جس میں کردار کشی اور نفرت انگیز مہم چلوائی گئی۔ ایسا ماحول پیدا کیا کہ ٹرمپ پر کم از کم دو قاتلانہ حملے ہوئے۔ وہ خوش قسمتی سے بچ گیا، حالانکہ اس نے اسے خدا کی طرف سے حفاظت قرار دیا۔

رجعتی یوٹوپیا

ٹرمپ ازم کی نظریاتی بنیادیں – اگر انہیں نظریہ کہا جا سکے تو – فاشزم سے کوسوں دور ہیں۔ طاقتور ریاست کے قیام کی خواہش کے برعکس، ڈونلڈ ٹرمپ کا نظریاتی ماڈل آزاد منڈی کی سرمایہ داری ہے، جس میں ریاست کا کردار کم سے کم ہو، یا بالکل نہ ہو۔

ٹرمپ کی پالیسیوں کا خاکہ فرینکلن روزویلٹ (نیو ڈیل کے بانی) سے زیادہ تھیوڈور روزویلٹ (پہلی عالمی جنگ سے پہلے کے صدر) کی معاشی پالیسیوں سے مماثلت رکھتا ہے۔

10 جنوری کو Le Monde میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں لکھا گیا:

”ہوا میں ایک مانوس سی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ 7 جنوری کو، ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے اتحادیوں کو حیران کر دیا جب اس نے پانامہ نہر پر دوبارہ قبضہ کرنے یا گرین لینڈ خریدنے کے لیے طاقت کے استعمال کو خارج از امکان قرار دینے سے انکار کر دیا۔ اس بیان کے ذریعے، نو منتخب صدر نے 20ویں صدی کے اوائل میں امریکی سامراج کے پرانے رجحانات کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کی۔

وہ ”سنہری دور“ جس کا آغاز امریکی خانہ جنگی کے بعد ہوا، وہی ہے جس کا خواب ٹرمپ دیکھتا ہے۔ یہ ایک ایسا دور تھا جب: بے پناہ دولت کے انبار لگائے گئے، بڑے پیمانے پر بدعنوانی پھیلی ہوئی تھی، امریکی صنعت کے تحفظ کے لیے تجارتی رکاوٹیں قائم کی گئیں، آمدنی پر ٹیکس کا تصور تک موجود نہیں تھا۔

سب سے بڑھ کر، سامراجی یلغار کے ذریعے امریکہ نے مغربی کرہ ارض (Hemmisphere) میں اپنی بالادستی قائم کرنے کی کوشش کی۔ اسی دور میں امریکہ نے 1867ء میں روس سے الاسکا خریدا، 1898ء میں کیوبا، پورٹو ریکو، اور فلپائن پر حملہ کر کے سپینی استعمار سے ”آزادی“ دلوائی، پانامہ نہر کھودی، جو 1914ء میں مکمل ہوئی۔“

دوسرے الفاظ میں، ڈونلڈ ٹرمپ ایک ایسی خیالی امریکی ریاست کا تصور رکھتا ہے جو پہلی عالمی جنگ سے پہلے موجود تھی۔ ایک ایسا امریکہ، جہاں سرمایہ داری پھلتی پھولتی تھی، منافعوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوتا تھا، ریاست آزاد منڈی میں کوئی مداخلت نہیں کرتی تھی، امریکہ اپنی طاقت استعمال کر کے میکسیکو، پانامہ، اور پورے مغربی نصف کرے (Hemisphere) پر اپنی دھاک بٹھا سکتا تھا، سپینی نوآبادیات کو کیوبا سے بے دخل کر کے وہاں امریکی تسلط قائم کیا جا سکتا تھا۔

یہ ماڈل چاہے جتنا بھی دلکش دکھے، اس کا فاشزم سے کوئی خاص تعلق نہیں۔ بلکہ حقیقت میں، یہ ایک ایسا خواب ہے جو 21ویں صدی کی حقیقت سے مکمل طور پر لاتعلق ہے۔

تھیوڈور روزویلٹ کا دور وہ وقت تھا جب سرمایہ دارانہ نظام بطور ترقی پسندانہ کردار کرنے کی صلاحیت سے مکمل طور پر محروم نہیں ہوا تھا۔ امریکہ ایک ابھرتی ہوئی نئی صنعتی طاقت تھی۔ امریکی معیشت نے یورپ کی پرانی طاقتوں پر برتری حاصل کرنی شروع کر دی تھی۔

لیکن تب سے ایک پورا عہد گزر چکا ہے۔ آج امریکہ ایک زوال پذیر سامراجی طاقت ہے، جو اندرونی و بیرونی بحرانوں سے دوچار ہے۔ عالمی سطح پر طاقتوں کا توازن مکمل طور پر بدل چکا ہے۔ ٹرمپ کی کوشش ماضی کے امریکہ کو زندہ کرنے کی ہے، جو حقیقت میں اب ممکن نہیں۔ لہٰذا، یہ سب ایک رجعتی یوٹوپیا ہے – ایک ایسا خواب جو کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔

ہم اس بحث پر بعد میں واپس آئیں گے۔ لیکن سب سے پہلے، ہمیں ٹرمپ کے ”پراسرار اُبھار“ کی وضاحت کے لیے بائیں اور دائیں بازو کی جانب سے کی جانے والی غلط بیانیوں سے نمٹنا ہوگا۔

غلط طریقہ کار

”درست نظریاتی سمت کی عملی اہمیت سب سے زیادہ اُس وقت نمایاں ہوتی ہے جب سماجی تصادم شدید ہو، سیاسی تبدیلیاں تیز ہوں، اور حالات میں اچانک تبدیلیاں رونما ہو رہی ہوں۔۔۔ایسے ہی ادوار میں عبوری اور درمیانی صورتحال ابھرتی ہیں جو روایتی سانچوں کو بکھیر دیتی ہیں اور ہمیں دُگنے نظریاتی ارتکاز کی ضرورت ہوتی ہے۔ مختصر یہ کہ اگر پرامن اور ’نامیاتی‘ ادوار میں (جنگ سے پہلے) چند تیار شدہ نظریاتی تجریدات کے سہارے چلا جا سکتا تھا، تو آج ہر نیا واقعہ ہمیں جدلیات کے سب سے اہم اصول کی طرف متوجہ کرتا ہے: ’سچائی ہمیشہ ٹھوس ہوتی ہے۔“‘ (’بوناپارٹ ازم اور فاشزم‘، لیون ٹراٹسکی، 1934ء)

بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ جب بائیں بازو کے افراد کسی نئے سیاسی یا سماجی رجحان کا سامنا کرتے ہیں – جو تمام موجودہ اصولوں اور تعریفوں سے مطابقت نہیں رکھتا – تو وہ کسی آسان لیبل کی تلاش میں لگ جاتے ہیں۔ اور جیسے ہی ایک موزوں لیبل ہاتھ آ جاتا ہے، وہ ثبوت اکٹھا کرنے میں مصروف ہو جاتے ہیں تاکہ ثابت کر سکیں کہ یہ رجحان درحقیقت اسی زمرے میں آتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ: اوہ ہاں! میں جانتا ہوں کہ یہ کیا ہے، یہ فاشزم ہے! نہیں، یہ تو بوناپارٹ ازم ہے! یا پھر جو بھی اُن کے ذہن میں آئے وہ ہے۔ یہ غلط طریقہ ہے! یہ جدلیاتی مادیت کے اصولوں کے بالکل برعکس ہے اور ہمیں کچھ نہیں بتاتا۔ یہ محض سُستی سے بھرپور سوچ کی ایک مثال ہے – ایک آسان حل تلاش کرنے کی کوشش، جو درحقیقت کسی نئے اور پیچیدہ سوال کا جواب دینے کے بجائے اسے مزید الجھا دیتی ہے۔

یہ طریقہ کسی بھی مسئلے کو واضح کرنے کے بجائے لوگوں کی توجہ اصل مسائل سے ہٹا دیتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ہم مصنوعی بحثوں میں الجھ جاتے ہیں جو اصل سوالات کا جواب دینے کے بجائے مزید الجھن پیدا کر دیتی ہیں۔

لینن نے اپنی ’فلسفیانہ نوٹ بکس‘ میں جدلیاتی مادیت کے بنیادی اصول کو یوں بیان کیا: ”اصل چیز کو دیکھو، مثالوں یا غیر ضروری بحثوں میں نہ الجھو۔“

یہی جدلیاتی طریقہ کار کا نچوڑ ہے۔ اس کے برعکس، وہ طریقہ جس میں کسی چیز پر محض ایک لیبل چسپاں کر دیا جائے اور یہ سمجھ لیا جائے کہ اب ہم نے اسے مکمل طور پر سمجھ لیا ہے – یہ غیر سائنسی اور ناقص سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔

میرے ایک اچھے دوست جان پیٹرسن نے مجھ سے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ ایک ”مظہر (Phenomenon)“ ہے۔ یہ بات بالکل درست ہے۔ ہمیں ٹرمپ کو زبردستی کسی تاریخی شخصیت کے سانچے میں فٹ کرنے کی ضرورت نہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ، بس ڈونلڈ ٹرمپ ہے! ہمیں اسے ویسا ہی لینا چاہیے جیسا کہ وہ ہے اور اس کا تجزیہ محض عمومی خیالات کی بنیاد پر نہیں بلکہ ٹھوس حقائق کی روشنی میں کرنا چاہیے۔

بوناپارٹ ازم؟

ٹراٹسکی کے مضمون ”بوناپارٹ ازم اور فاشزم“ میں بوناپارٹ ازم کی ایک نہایت جامع اور درست مارکسی تعریف دی گئی ہے:

”ایک حکومت جو قوم سے بالاتر ہو جاتی ہے، خلا میں معلق نہیں ہوتی۔ موجودہ حکومت کا اصل محور پولیس، بیوروکریسی اور فوجی اشرافیہ کے ذریعے چلتا ہے۔ یہ درحقیقت ایک فوجی-پولیس آمریت ہے جو کسی بھی پارلیمانی نقاب میں نہیں چھپی ہوتی۔ لیکن ایک ایسی حکومت جہاں تلوار ہی قوم کا حاکم و ثالث ہو – یہی اصل میں بوناپارٹ ازم ہے۔“

بوناپارٹ ازم مختلف شکلوں میں ظاہر ہو سکتا ہے، لیکن اس کا اصل جوہر ہمیشہ ایک فوجی آمریت ہی ہوتا ہے۔

”جرمنی: واحد راستہ“ میں ٹراٹسکی بوناپارٹ ازم کے ابھرنے کی وضاحت یوں کرتا ہے:

”جیسے ہی دو سماجی طبقوں – امیروں اور غریبوں، استحصال کرنے والوں اور استحصال زدہ طبقے – کے درمیان کشمکش انتہائی سطح پر پہنچتی ہے، تو بیوروکریسی، پولیس اور فوج کے تسلط کی راہ ہموار ہو جاتی ہے۔ یوں حکومت معاشرے سے ’آزاد‘ ہو جاتی ہے۔“

یہ وضاحت بالکل واضح ہے۔ مگر کیا اس کا اطلاق موجودہ امریکی صورتحال پر ہوتا ہے؟ ہرگز نہیں! یہ بالکل واضح ہے کہ حکمران طبقہ بوناپارٹ ازم یا فاشزم کی طرف تبھی رجوع کرتا ہے جب کوئی اور راستہ باقی نہ بچے۔ کیا امریکہ میں واقعی ایسی صورت حال ہے؟ ہاں، یہ درست ہے کہ امریکی معاشرے میں شدید تناؤ موجود ہے اور پورا نظام عدم استحکام کا شکار ہے۔

لیکن یہ کہنا کہ طبقاتی جدوجہد اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ سرمایہ داری کے خاتمے کا خطرہ ہے اور حکمران طبقہ فوجی آمریت مسلط کرنے پر مجبور ہو گیا ہے – یہ محض خام خیالی ہے۔ ابھی ہم اس مرحلے پر نہیں پہنچے، بلکہ اس کے قریب بھی نہیں ہیں۔

کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ امریکہ کی موجودہ صورتحال میں بوناپارٹ ازم کے کچھ عناصر موجود ہیں۔ ایسا ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ بات تو پھر تقریباً ہر بورژوا جمہوری حکومت کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے۔

برطانیہ میں ٹونی بلیئر کے دور میں، پارلیمانی اختیار عملی طور پر منتخب پارلیمنٹ سے نکل کر کابینہ کے پاس چلا گیا، اور پھر کابینہ سے نکل کر چند غیر منتخب مشیروں اور بیوروکریٹس کے ہاتھ میں چلا گیا۔ یہاں واضح طور پر ایسے عناصر نظر آ رہے ہیں جن کی بنیاد پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ ”پارلیمانی بوناپارٹ ازم“ ہے۔

لیکن، محض چند علامتوں کی بنیاد پر کسی مظہر کو مکمل طور پر بوناپارٹ ازم قرار دینا غلطی ہو گی۔ آپ یہ کہہ سکتا ہے کہ ٹرمپ ازم میں بونا پارٹزم کے عناصر موجود ہیں۔ ہاں، آپ یہ کہہ سکتے ہیں۔ مگر چند عناصر ایک مکمل طور پر پوری آب و تاب کے ساتھ موجود مظہر کی نمائندگی نہیں کرتے۔

ہیگل نے ”فینامنولوجی Phenomenology“ میں لکھا:

”اگر ہم ایک مضبوط بلوط کے درخت کو اس کی گھنی شاخوں اور پھیلے ہوئے پتوں کے ساتھ دیکھنا چاہتے ہیں، تو ہمیں صرف اس کا بیج دیکھ کر مطمئن نہیں ہو جانا چاہیے۔“

یہ غلط طریقہ لامتناہی غلطیوں کی طرف لے جاتا ہے۔ پہلے، آپ کسی مظہر پر بیرونی تعریف لاگو کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پھر آپ ہر قیمت پر اس سے چمٹے رہتے ہیں۔ اور آپ اسے جائز ثابت کرنے کے لیے تاریخ سے ہر قسم کی ’چالاک‘ مثالیں گھسیٹ کر لاتے ہیں۔

پھر، جیسے رات کے بعد دن آتا ہے، کوئی اور آ کر کہتا ہے: نہیں، نہیں، یہ بوناپارٹزم نہیں ہے۔ اور وہ بھی اتنے ہی ’چالاک‘ حقائق پیش کرتا ہے تاکہ ثابت کیا جا سکے کہ بوناپارٹزم درحقیقت کچھ اور ہے۔

دونوں اپنی جگہ درست بھی ہیں اور غلط بھی۔ جب ہم اس قسم کی گول گول گھومتی بحث میں داخل ہوتے ہیں تو کہاں پہنچتے ہیں؟ بالکل ویسے جیسے کوئی کتا اپنی ہی دُم پکڑنے کی کوشش کر رہا ہو—ہم کہیں نہیں پہنچتے۔

یہ درست ہے کہ تاریخی مماثلتوں کا درست استعمال بعض اوقات وضاحت فراہم کر سکتا ہے، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ بنیادی طور پر مختلف مظاہر کو بغیر سوچے سمجھے اور میکانیکی طور پر جوڑ دینا صرف الجھن پیدا کرنے کا یقینی نسخہ ہے۔

مثال کے طور پر، میرے خیال میں روس میں پیوٹن کے اقتدار کو ایک بورژوا بوناپارٹسٹ حکومت کہنا بالکل مناسب ہوگا۔ یہ ایک مددگار تاریخی مماثلت کی مثال ہے۔ لیکن ٹرمپ کے معاملے میں معاملہ زیادہ پیچیدہ ہے۔

مسئلہ یہ ہے کہ بوناپارٹزم ایک بہت ہی لچکدار اصطلاح ہے۔ یہ بہت سے مختلف اقسام کے طرزِ حکمرانی پر لاگو ہو سکتی ہے، جن میں سب سے کلاسیکی تصور وہ ہے جہاں اقتدار تلوار کے زور پر چلایا جاتا ہے۔

واشنگٹن میں موجودہ ٹرمپ حکومت، اپنی تمام تر عجیب و غریب خصوصیات کے باوجود، اب بھی ایک بورژوا جمہوریت ہے۔

یہی وہ مخصوص خصوصیات ہیں جن کا ہمیں تجزیہ کرنا اور وضاحت کرنی ہے۔ اور چونکہ، دیانت داری کے ساتھ، ہم تاریخ—قدیم یا جدید—میں کسی ایسی چیز کو تلاش کرنے میں ناکام ہیں جو اس سے ذرا بھی مشابہت رکھتی ہو، اور چونکہ ہمارے پاس کوئی پہلے سے تیار شدہ تعریف بھی نہیں جو اس پر پوری بیٹھ سکے، تو ہمارے پاس صرف ایک ہی راستہ بچتا ہے: سوچنا شروع کرنا۔

سرمایہ داری کا بحران

عظیم فلسفی سپینوزا نے کہا تھا کہ فلسفے کا کام نہ رونا ہے، نہ ہنسنا، بلکہ سمجھنا ہے۔ اگر ہمیں ڈونلڈ ٹرمپ کو سمجھنا ہے، تو ہمیں شیطانیت کے خیالی تصورات کو ترک کر کے حقیقت پر مبنی تجزیہ کرنا ہوگا۔

سب سے پہلے، جو کچھ بھی وہ ہو، ٹرمپ کوئی مافوق الفطرت قوتوں والا شیطانی وجود نہیں ہے۔ وہ بھی ایک عام انسان ہی ہے – بشرطیکہ ایک امریکی ارب پتی کو عام انسان کہا جا سکتا ہو۔ اور تاریخ میں کسی بھی اہم شخصیت کی طرح، اس کے اقتدار میں آنے کی حقیقی وجوہات کو سماج میں جاری معروضی عوامل سے جوڑ کر ہی سمجھا جا سکتا ہے۔

ٹرمپ کا عروج کسی اتفاقی واقعے کا نتیجہ نہیں ہے، بلکہ اسے 21ویں صدی کے آغاز میں دنیا کی معروضی صورتحال کے تناظر میں دیکھنا ہوگا۔

تاریخ کا سب سے اہم موڑ 2008ء کا مالیاتی بحران تھا، جس نے پورے سرمایہ دارانہ نظام کو ہلا کر رکھ دیا۔ یہ نظام دیوالیہ ہونے کے دہانے پر پہنچ گیا تھا۔ جب لیہمن برادرز بینک دیوالیہ ہوا، تو میں آج بھی اس لمحے کو یاد کر سکتا ہوں جب بینکاروں نے کھلے عام خوف کا اظہار کیا تھا کہ چند مہینوں میں انہیں سڑکوں پر لیمپ پوسٹوں سے لٹکایا جائے گا۔

یہ خوف بے بنیاد نہیں تھے۔ حقیقت یہ تھی کہ تمام معروضی حالات ایک سوشلسٹ انقلاب کے لیے تیار تھے۔ یہ صرف اس لیے روکا جا سکا کہ ریاست نے فوری طور پر بینکوں کو کھربوں ڈالر کے عوامی پیسے سے سہارا دیا۔

یہ اقدام پچھلے تیس سالوں سے سرمایہ دارانہ معیشت کے علمبرداروں کی طرف سے دیے جانے والے تمام معاشی نظریوں کی کھلی تردید تھا۔ یہ تمام ماہرین اس بات پر متفق تھے کہ ریاست کو معیشت میں کوئی کردار ادا نہیں کرنا چاہیے۔ آزاد منڈی کو اس کے حال پر چھوڑ دینا چاہیے، کیونکہ وہ خود تمام مسائل حل کر لے گی۔

مگر جب فیصلہ کن گھڑی آئی تو یہ نظریہ غلط ثابت ہوا۔ سرمایہ دارانہ نظام کو صرف ریاستی مداخلت نے بچایا۔ لیکن اس سے نئے تضادات پیدا ہوئے، جو بے پناہ اور بالآخر ناقابلِ برداشت قرضوں کی صورت میں ظاہر ہوئے۔

2008ء سے، سرمایہ دارانہ نظام اپنی تاریخ کے گہرے ترین بحران میں ہے۔ یہ مسلسل ایک تباہی سے دوسری تباہی کی طرف گرتا رہا ہے۔ ہر موڑ پر، حکومتوں نے ایک ہی غیر ذمہ دارانہ پالیسی اپنائی: خسارے کی مالی معاونت (Deficit Financing)، یعنی خود کو بحران سے نکالنے کے لیے پیسہ چھاپنا۔

اپنی ناک سے آگے نہ دیکھ سکنے والے سرمائے کے ماہرینِ حکمتِ عملی، بورژوا معیشت دانوں کا تباہ حال قبیلہ اور سیاسی اسٹیبلشمنٹ کے دیوالیہ سیاستدان سب یہ فرض کیے بیٹھے تھے کہ یہ صورتحال ہمیشہ کے لیے جاری رہے گی – یعنی نئے نوٹ چھاپ کر پیسے کی لامحدود رسد، سستے قرضوں کا بے انتہا بہاؤ، کم افراطِ زر اور کم سود کی شرحیں۔ لیکن وہ غلط تھے۔

اس کے نتیجے میں تضاد پر تضاد جمع ہوتا گیا – جو مستقبل میں ایک بہت بڑے بحران کی زمین تیار کر رہا تھا۔

میں نے اس وقت پیش گوئی کی تھی کہ سرمایہ دار طبقے کی تمام کوششیں جو وہ معاشی توازن بحال کرنے کے لیے کرے گا، وہ صرف سماجی اور سیاسی توازن کو تباہ کرنے کا باعث بنیں گی۔ اور بالکل یہی کچھ ہوا۔

ایک پورے عرصے کے دوران، مختلف ممالک میں پنڈولم تیزی سے بائیں جانب جھک گیا۔ اس کا اظہار ایک کے بعد ایک ریڈیکل بائیں بازو کی تحریکوں کے عروج میں ہوا: سپین میں پوڈیموس، یونان میں سائریزا، امریکہ میں برنی سینڈرز، اور سب سے بڑھ کر، برطانیہ میں جیرمی کوربن۔ لیکن اس سب نے صرف بائیں بازو کی اصلاح پسندی کی حدود کو بے نقاب کیا۔

آئیے، سپراس کی مثال لیں۔ ساری یونانی عوام اس کے پیچھے کھڑی تھی تاکہ برسلز کی جانب سے مسلط کردہ کٹوتیوں کی مخالفت کی جا سکے۔ لیکن وہ جھک گیا۔ نتیجہ کیا نکلا؟ دائیں بازو کی طرف جھکاؤ۔

اسی طرح سپین میں بھی ہوا۔ پوڈیموس نے ابتدا میں خود کو ایک بہت ریڈیکل بائیں بازو کی جماعت کے طور پر پیش کیا۔ لیکن اس کے رہنماؤں نے ’ذمہ داری‘ دکھاتے ہوئے سوشلسٹ پارٹی کے ساتھ اتحاد کر لیا، جس کے نتائج پہلے سے طے شدہ تھے۔

امریکہ میں، برنی سینڈرز نے صفر سے آغاز کر کے ایک ایسی عوامی تحریک کھڑی کر دی جو واضح طور پر ایک سوشلسٹ متبادل کی تلاش میں تھی۔ اس کے پاس ڈیموکریٹس اور ریپبلکنز کے خلاف ایک مضبوط بائیں بازو کا متبادل بنانے کا پورا موقع تھا۔ لیکن آخر میں، وہ ڈیموکریٹک پارٹی کی اسٹیبلشمنٹ کے سامنے جھک گیا، اور موقع ضائع ہو گیا۔

سب سے واضح مثال برطانیہ میں دیکھنے کو ملی، جہاں سینڈرز کی طرح، جیرمی کوربن اچانک سے ابھرا اور ایک طاقتور بائیں بازو کی عوامی تحریک کے زور پر لیبر پارٹی کی قیادت تک پہنچ گیا۔ کوربن نے یہ تحریک خود نہیں بنائی، لیکن وہ سماج میں موجود غصے اور بے چینی کا ایک محور بن گیا۔

اس نے حکمران طبقے کو حیران اور خوفزدہ کر دیا۔ وہ کھلے عام کہنے لگے کہ لیبر پارٹی پر ان کا کنٹرول ختم ہو چکا ہے۔ اور واقعی ایسا ہی ہونا چاہیے تھا۔

لیکن فیصلہ کن گھڑی میں، کوربن دائیں بازو کے پارلیمانی لیبر قیادت کے خلاف کارروائی کرنے میں ناکام رہا، جس نے بورژوا میڈیا کی مدد سے اس کے خلاف ایک شدید مہم منظم کی۔

بالآخر، کوربن دائیں بازو کے سامنے جھک گیا اور اپنی بزدلی کی قیمت چکائی – جو درحقیقت بائیں بازو کی اصلاح پسندی کی حیاتیاتی کمزوری کی عکاس ہے۔

ٹرمپ اور کوربن

یہاں ہمیں ڈونلڈ ٹرمپ اور جیرمی کوربن کے درمیان ایک نمایاں فرق نظر آتا ہے۔ ٹرمپ کو بھی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے شدید حملے کا سامنا کرنا پڑا، حتیٰ کہ ریپبلکن پارٹی کی قیادت بھی اس کے خلاف تھی۔ لیکن اس نے وہی کیا جو کوربن کو کرنا چاہیے تھا۔ اس نے اپنی حمایت یافتہ عوامی بنیاد کو متحرک کیا اور پرانی ریپبلکن قیادت کے خلاف کھڑا کر دیا، جسے بالآخر پیچھے ہٹنے پر مجبور ہونا پڑا۔

یقینا، اس سے یہ حقیقت نہیں بدلتی کہ ٹرمپ ایک رجعت پسند بورژوا سیاستدان تھا۔ لیکن یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس نے وہ جرات اور عزم دکھایا جس کی کوربن میں واضح طور پر کمی تھی۔

ٹرمپ نے نام نہاد سیاسی درستگی (Political Correctness) اور شناخت کی سیاست (Identity Politics) کے لیے مکمل تحقیر کا مظاہرہ کیا، جسے بدقسمتی سے بائیں بازو کے اصلاح پسندوں نے مکمل طور پر قبول کر لیا ہے۔ یہی چیز کوربن کے معاملے میں تباہ کن ثابت ہوئی۔

جب دائیں بازو نے کوربن پر مبینہ یہود دشمنی (antisemitism) کا الزام لگایا (جو سراسر بے بنیاد تھا)، تو وہ فوراً پیچھے ہٹ گیا۔ وہ رجعت پسند صیہونی لابی اور پوری برطانوی حکمران اشرافیہ کے لیے ایک آسان شکار بن گیا اور شناخت کی سیاست کے زہر میں جکڑا ہوا ایک بے بس مظلوم بن کر رہ گیا۔

اگر کوربن نے وہی کیا ہوتا جو ٹرمپ نے کیا، تو وہ یہود دشمنی کے الزام کا ڈٹ کر سامنا کرتا، اپنی عوامی حمایت کو متحرک کرتا اور لیبر پارٹی کی دائیں بازو کی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ایک ہمہ گیر جدوجہد شروع کرتا، پارٹی کو گلی سڑی رجعتی قوتوں سے پاک کر دیتا۔

اگر اس نے ایسا کیا ہوتا تو اس کی جیت یقینی تھی۔ لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ لیبر پارٹی کا دایاں بازو حملے پر اتر آیا، بائیں بازو کو پارٹی سے بے دخل کر دیا – حتیٰ کہ خود کوربن کو بھی نکال دیا – اور پارٹی کو مکمل طور پر پاک صاف کر دیا۔ اس کا نتیجہ سٹارمر (Starmer) کی جیت کی صورت میں نکلا اور یوں کوربنزم کا تجربہ مکمل تباہی پر منتج ہوا۔

یہی تجربہ بار بار دہرایا جا چکا ہے۔ اور ہر بار، بائیں بازو کے رہنماؤں نے انتہائی افسوسناک کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے اپنی حمایت یافتہ عوام کو مایوس کیا اور اقتدار دائیں بازو کے حوالے کر دیا۔

یہی وہ حقیقت ہے – اور یہی اکیلی حقیقت ہے – جو پنڈولم کے دائیں جانب جھکنے کی وضاحت کرتی ہے۔ بائیں بازو کی بزدلانہ پسپائی کے پیش نظر، یہ مکمل طور پر ناگزیر تھا۔

جو لوگ اس حقیقت پر نوحہ خوانی کر رہے ہیں اور ٹرمپ یا دیگر دائیں بازو کے شعبدہ بازوں کے عروج پر ماتم کر رہے ہیں، کرتے رہیں۔ ہمارا جواب یہ ہے: شکایتیں بند کرو! یہ سب تمہاری اپنی ذمہ داری ہے۔ تمہیں وہی ملا جس کے تم حقدار تھے۔ اور اب ہم سب کو اس کے نتائج کی قیمت چکانی پڑے گی۔

ٹرمپ حقیقت میں کس کی نمائندگی کرتا ہے؟

آئیے وہاں سے بات شروع کریں جس کا سب کو پتہ ہے۔ اس بات پر سب کا اتفاق ہوگا کہ ڈونلڈ ٹرمپ ایک رجعتی بورژوا سیاستدان ہے۔ یہ کہنے کی بھی ضرورت نہیں۔ اسی طرح، ہمیں یہ دہرانے کی بھی ضرورت نہیں کہ کمیونسٹ کسی بھی طور پر اس کی حمایت نہیں کرتے۔

لیکن محض یہ واضح حقیقت بیان کر دینا ٹرمپ اور ٹرمپ ازم کے تجزیے میں ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھاتا۔ مثال کے طور پر، کیا یہ کہنا درست ہوگا کہ ڈونلڈ ٹرمپ اور جوزف بائیڈن میں کوئی فرق نہیں؟

یہ بات تو واضح ہے کہ وہ دونوں بورژوا سیاستدان ہیں اور بنیادی طور پر اسی طبقاتی مفاد کے لیے کھڑے ہیں۔ اس لحاظ سے، کوئی کہہ سکتا ہے کہ وہ سب ایک جیسے ہیں۔ لیکن یہ بات تو اندھے کو بھی نظر آ سکتی ہے کہ ان دونوں میں نہایت سنجیدہ اور گہرا فرق ہے – بلکہ ایک وسیع خلیج حائل ہے۔

یہ حقیقت کہ آخرکار یہ دونوں بورژوا سیاستدان ہیں اور بالآخر ایک ہی طبقے کے مفادات کی نمائندگی کرتے ہیں، اس بات کو رد نہیں کرتی کہ اسی طبقے کے مختلف دھڑوں کے درمیان شدید تضادات پیدا ہو سکتے ہیں۔ حقیقت میں، اس قسم کے تضادات ہمیشہ موجود رہے ہیں۔

بورژوازی کے لیے مرکزی مسئلہ یہ ہے کہ وہ ماڈل جس نے کئی دہائیوں تک سرمایہ داری کی کامیابی کو بظاہر یقینی بنایا تھا، اب ناقابلِ واپسی حد تک ٹوٹ چکا ہے۔

عالمگیریت (Globalization) کا جو عمل انہیں ایک طویل عرصے تک قومی منڈیوں کی حد بندیوں سے نجات دلاتا رہا، وہ اب اپنی آخری حدوں تک پہنچ چکا ہے۔ اس کے برعکس، اب معاشی قوم پرستی (Economic Nationalism) کا ابھار ہو رہا ہے۔ ہر سرمایہ دار طبقہ اپنی قومی منڈیوں کے مفادات کو دوسرے ممالک کے خلاف آگے بڑھا رہا ہے۔ آزاد تجارت (Free Trade) کا دور ختم ہو رہا ہے اور اس کی جگہ تجارتی محصولات (Tariffs) اور تجارتی جنگوں (Trade Wars) کا دور آ چکا ہے۔

ماضی کی یادوں میں گم رہنے والے مایوس لوگ پرانے نظام کے خاتمے کا ماتم کر رہے ہیں، لیکن ڈونلڈ جے ٹرمپ اسے ایک جنونی مذہبی کے جوش و خروش کے ساتھ قبول کرتا ہے۔ چنانچہ، اس نے عالمی نظام کو الٹ کر رکھ دیا ہے، جس سے کمزور اقوام میں غم و غصہ اور مایوسی پھیل گئی ہے۔

اسی لیے، ڈونلڈ ٹرمپ پر یورپ میں اس کے سابقہ’اتحادی‘ لعنتیں بھیج رہے ہیں اور اپنی تمام مصیبتوں کا ذمہ دار اسے ٹھہرا رہے ہیں۔ لیکن اس نے یہ حالات ایجاد نہیں کیے۔ وہ محض اس صورتحال کا سب سے زیادہ انتہا پسند اور مستقل مزاج نمائندہ اور حمایتی ہے۔

لبرل ازم کا دیوالیہ پن

طویل عرصے تک، حکمران طبقہ اور اس کے سیاسی نمائندے مغرب میں ایک جعلی ترقی پسند چہرہ فروخت کرتے رہے تاکہ طبقاتی حاکمیت کی حقیقت کو چھپا سکیں۔ انہوں نے نام نہاد شناخت کی سیاست کو مہارت کے ساتھ ردِ انقلابی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔

اور’بایاں بازو‘، جو کسی بھی مضبوط نظریاتی بنیاد سے محروم تھا، اس بکواس کو جوں کا توں قبول کر گیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ محنت کش طبقے کی نظروں میں اپنی ساکھ کھو بیٹھے، جو ان کے بے ہودہ مشغلوں کو حیرت سے دیکھتے رہے – الفاظ کی غیرضروری بحثیں چھیڑنا، اور بار بار نام نہاد سیاسی درستگی (Political Correctness) کی گھسی پٹی باتیں دہرانا، بجائے اس کے کہ وہ محنت کشوں، خواتین اور دیگر مظلوم طبقات کے حقیقی مفادات کے لیے لڑتے۔

چنانچہ جب ڈونلڈ ٹرمپ سامنے آتا ہے اور شناخت کی سیاست اور سیاسی درستگی پر تنقید کرتا ہے، تو یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ وہ لاکھوں عام مرد و خواتین کے جذبات کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے، جن کے دماغ ابھی تک مابعد جدیدیت (Postmodernism) کی بیماری سے مکمل طور پر مفلوج نہیں ہوئے۔

کیا لبرلز جمہوریت کا دفاع کرتے ہیں؟

لبرلز کے نزدیک جمہوریت کا ایک نہایت عجیب تصور ہے۔ جیسا کہ ہم نے دیکھا، وہ انتخابات کی حمایت کرتے ہیں – لیکن صرف اس وقت جب ان کا پسندیدہ امیدوار جیتے۔ اگر نتیجہ ان کی مرضی کے خلاف ہو، تو وہ فوراً دھاندلی اور ہر قسم کے مشکوک طریقوں کا واویلا مچانے لگتے ہیں – عام طور پر بغیر کسی ثبوت کے۔

ہم نے یہ منظر 2016ء کے صدارتی انتخابات کے بعد دیکھا، جب ٹرمپ نے ہیلری کلنٹن کو شکست دی۔ ٹرمپ امریکی تاریخ کا پہلا صدر بنا، جسے نہ تو کسی عوامی عہدے کا تجربہ تھا اور نہ ہی کوئی فوجی پس منظر تھا۔

عملاً، ٹرمپ سیاسی اسٹیبلشمنٹ کے باہر سے آنے والا شخص تھا – وہ واشنگٹن کی اس اسٹیبلشمنٹ سے منسلک نہیں تھا، جو دہائیوں سے سیاسی اقتدار پر قابض تھی۔ سیاسی اسٹیبلشمنٹ نے اسے اپنی اجارہ داری کے لیے خطرہ سمجھا اور اسی کے مطابق جمہوریت کو سبوتاژ کرنے اور انتخابی نتائج کو پلٹنے کی کوشش کی۔

ڈیموکریٹس نے ٹرمپ کے خلاف بدنام زمانہ‘رشیا گیٹ’(Russiagate) سکینڈل گھڑا، جس کا واضح مقصد اسے عہدے سے ہٹانا تھا۔

یہ حقیقت میں ایک جمہوری بغاوت کے مترادف تھا۔ جمہوریت کی خلاف ورزی؟ بے شک۔ لیکن اگر کبھی کبھار جمہوریت کے دفاع کے لیے اس کے اصولوں کو پامال کرنا پڑے، تو پھر ایسا ہی سہی!

بعد میں، انہوں نے ہر ممکن طریقے سے کوشش کی کہ ڈونلڈ ٹرمپ دوبارہ صدر نہ بن سکے۔ انہوں نے ایک قانونی طوفان کھڑا کر دیا، جس کا مقصد ٹرمپ کو جیل میں ڈالنا تھا۔

ٹرمپ کے خلاف چار مقدمے دائر کیے گئے، جن میں بدنام زمانہ سٹورمی ڈینیئلز کیس، جارجیا میں انتخابی مداخلت کا الزام اور مار-اے-لاگو میں خفیہ دستاویزات رکھنے کا معاملہ شامل تھا۔

اس کے علاوہ، ٹرمپ انتظامیہ پر 100 سے زائد مقدمات دائر کیے گئے۔

میڈیا کو بھی اس مہم میں مکمل طور پر جھونک دیا گیا۔ لیکن یہ تمام کوششیں بری طرح ناکام ہوئیں۔ ان الزامات نے الٹا ٹرمپ کی عوامی حمایت میں اضافہ کر دیا۔ اس کا حتمی نتیجہ 5 نومبر 2024ء کے صدارتی انتخابات میں نکلا۔

1900ء کے بعد سب سے زیادہ ووٹر ٹرن آؤٹ میں سے ایک کے ساتھ، ٹرمپ نے 77,284,118 ووٹ حاصل کیے، جو 49.8 فیصد تھے – امریکی تاریخ میں کسی بھی امیدوار کے لیے دوسرا سب سے زیادہ ووٹ (پہلا بائیڈن کا 2020ء میں تھا)۔

ٹرمپ نے تمام سات سوئنگ سٹیٹس جیت لیں۔ یہ محض ایک انتخابی جیت نہیں تھی؛ بلکہ ایک فیصلہ کن فتح تھی۔ یہ لبرل ڈیموکریٹک اسٹیبلشمنٹ کا مکمل مسترد ہونا تھا۔

یہ بددیانت میڈیا کے لیے بھی ایک زبردست جھٹکا تھا، جو پوری طرح کملا ہیرس کی حمایت کر رہا تھا۔

روزانہ شائع ہونے والے اخبارات میں، 54 نے ہیرس کی حمایت کی، جبکہ صرف 6 نے ٹرمپ کی حمایت کی۔ تمام ہفتہ وار اخبارات میں سے، 121 نے ہیرس کا ساتھ دیا، جبکہ صرف 11 ٹرمپ کے حق میں تھے۔

اس سب کی وضاحت کیسے کی جائے؟

ٹرمپ اور محنت کش طبقہ

یہ بات قابل توجہ ہے کہ ڈالے گئے ووٹوں کی طبقاتی ترکیب میں واضح فرق تھا۔ جہاں ہیرس نے اُن ووٹرز کی اکثریت حاصل کی جو 1 لاکھ ڈالر یا اس سے زیادہ کماتے ہیں، وہیں ٹرمپ نے ان ووٹرز کی اکثریت حاصل کی جو 50 ہزار ڈالر سے کم کماتے ہیں۔ لہٰذا اس میں قطعی کوئی شک نہیں کہ لاکھوں امریکی محنت کشوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کو ووٹ دیا۔

اس میں کوئی حیران کن یا ’عجیب‘ بات نہیں۔ ٹرمپ کی محنت کش طبقے میں مقبولیت کی مادی بنیاد موجود ہے۔ بیورو آف لیبر سٹیٹکس کے مطابق، 1980ء کی دہائی کے اوائل سے لے کر آج تک امریکی محنت کشوں کی حقیقی اجرت یا تو جوں کی توں رہی ہے یا کم ہوئی ہے، خاص طور پر جب نوکریاں دوسرے ممالک میں منتقل کر دی گئیں۔ اسی طرح، اکنامک پالیسی انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ کے مطابق، 1970ء کی دہائی کے آخر سے لے کر اب تک نچلے اور درمیانی آمدنی والے گھرانوں کی اجرت میں کوئی خاص اضافہ نہیں ہوا، جبکہ رہائش اور بنیادی ضروریات کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا۔

امریکہ کے بہت سے شہروں میں ایسی بدحالی اور غربت پائی جاتی ہے جو لاطینی امریکہ، افریقہ یا ایشیا کے غریب ترین شہروں سے مشابہت رکھتی ہے۔ اور یہ غربت چند ہاتھوں میں مجتمع سب سے زیادہ بے ہودہ دولت کے ساتھ موجود ہے، جیسی کہ پچھلے سو سال میں نہیں دیکھی گئی۔

لیکن یہ سب کچھ بظاہر متوسط طبقے کے ’ترقی پسندوں‘ کو نظر ہی نہیں آتا۔ سیاسی اسٹیبلشمنٹ اور اونچی تنخواہوں والے صحافیوں اور تجزیہ نگاروں کا پورا دھڑا شناخت کی سیاست کے زہر میں اتنا مگن تھا کہ وہ مستقل طور پر محنت کش عوام کے حقیقی مسائل کو نظر انداز کرتے رہے، چاہے وہ سیاہ فام ہوں یا سفید فام، مرد ہوں یا عورت، سیدھے ہوں یا ہم جنس پرست۔

اس کی ایک عام مثال وہ احمقانہ اصرار ہے، جس کے تحت ’سیاسی درستگی‘کے دیوانے ’لاتینکس(Latinx)‘ جیسی اصطلاحات کو فروغ دے رہے تھے تاکہ صنفی شمولیت کا پرچار کیا جا سکے۔ لیکن پیو ریسرچ کے مطابق، صرف 4 فیصد ہسپانوی بولنے والے لوگ اس اصطلاح کو استعمال کرتے ہیں، جبکہ 75 فیصد کہتے ہیں کہ اسے کبھی استعمال نہیں کرنا چاہیے۔

اس صورتحال نے ڈونلڈ ٹرمپ جیسے دائیں بازو کے جذباتی رہنماؤں کے لیے راستہ ہموار کر دیا، تاکہ وہ ان کروڑوں لوگوں کے غصے کو آواز دے سکیں جو خود کو واشنگٹن کی لبرل اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں نظر انداز شدہ محسوس کر رہے تھے۔

اسی کے نتیجے میں، 2024ء میں ٹرمپ نے اپنے حامیوں کی بنیاد کو وسعت دی اور سیاہ فام اور لاطینی محنت کش طبقے سے جڑنے میں کامیاب رہا۔

یہ بذات خود ’بائیں بازو‘ کے رہنماؤں، جیسے کہ برنی سینڈرز، کی غداری کا براہ راست نتیجہ تھا۔ انہوں نے لبرلز کے خلاف کوئی واضح متبادل پیش کرنے میں ناکامی دکھائی اور یوں دائیں بازو کے جذباتی سیاستدانوں، جیسے کہ ٹرمپ، کے لیے دروازے کھول دیے۔

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ حالیہ برسوں تک، ’محنت کش طبقہ‘ جیسی اصطلاح مرکزی پارٹیوں کی انتخابی مہم میں شاذ و نادر ہی نظر آتی تھی۔ سب سے زیادہ جرات مند بائیں بازو کے سیاستدان بھی عموماً ’متوسط طبقہ‘ کہہ کر بات کو گول کر دیتے تھے۔ عملی طور پر، امریکی محنت کش طبقہ جیسے ختم ہو چکا تھا!

شاید کہیں کوئی استثنیٰ موجود ہو، لیکن یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ ڈونلڈ ٹرمپ – جو ایک ارب پتی اور دائیں بازو کا رہنما ہے – وہ واحد شخص تھا جس نے اپنی تقاریر میں محنت کش طبقے کے مفادات کا دفاع کرنے کا دعویٰ کیا۔ بالکل یہ کہا جا سکتا ہے کہ ٹرمپ وہ واحد شخص تھا جس نے دوبارہ امریکی سیاست میں محنت کشوں کو مرکزیت دی۔

ہمیں یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ یہ محض لفاظی اور کھوکھلی نعرہ بازی ہے۔ نہ ہی ہمیں یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ ٹرمپ یہ سب کچھ اپنے مفادات کے تحت کر رہا تھا، جو کہ لازمی طور پر اس طبقے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں جس سے وہ خود تعلق رکھتا ہے۔

یہ سب ہمیں بخوبی معلوم ہے۔ لیکن یہ اہم بات نہیں۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ لاکھوں محنت کش امریکی ووٹروں کے لیے یہ بالکل واضح نہیں تھا۔ اور اگر ہم اس حقیقت کو نظر انداز کریں گے، تو یہ ہماری اپنی تباہی ہوگی۔

ٹرمپ کس کے مفادات کا دفاع کرتا ہے؟

کسی بھی سوچنے والے شخص کے لیے ٹرمپ کے بارے میں ہمارا مؤقف سمجھنا مشکل نہیں ہونا چاہیے۔ یہ حقیقت میں نہایت سادہ ہے۔ ہم کہتے ہیں:

یہ ارب پتی شخص اپنے طبقے کے مفادات کا دفاع کرتا ہے۔ جو کچھ بھی وہ کہتا ہے، وہ بالآخر اس کے اپنے مفاد اور امیر طبقے – بینکاروں اور سرمایہ داروں – کے مفاد میں ہوگا۔ جیسے رات کے بعد دن آتا ہے، اسی طرح یہ حقیقت بھی واضح ہے کہ ان کے مفادات کبھی بھی محنت کش طبقے کے مفادات نہیں ہو سکتے۔

تاہم، محنت کشوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے وہ بعض اوقات ایسی باتیں کرے گا جو بظاہر ان کے لیے قابل فہم اور معقول محسوس ہوں گی۔ جب وہ نوکریوں، روزگار، گرتی ہوئی اجرتوں اور بڑھتی ہوئی قیمتوں کی بات کرتا ہے، تو اس سے فطری طور پر اُسے مثبت جواب ملتا ہے۔

اور ممکن ہے کہ وہ جو کچھ کہے، اس میں سے ایک دو باتیں درست بھی ہوں۔ درحقیقت، ٹرمپ نے ایک بار اعتراف کیا تھا کہ اس نے سینڈرز کی تقاریر سے کئی خیالات لیے اور انہیں محنت کشوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا۔

بلاشبہ، ٹرمپ ایک رجعتی بورژوا سیاستدان ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ ہر دوسرے رجعتی بورژوا سیاستدان جیسا ہی ہے۔ بلکہ، اس کا اپنا مخصوص نظریہ، نقطہ نظر، پالیسی اور حکمت عملی ہے، جو کئی بنیادی پہلوؤں میں جو بائیڈن اور اس کے گروہ کی پوزیشنوں سے مختلف ہے۔

بعض معاملات میں، اس کے خیالات کسی حد تک ہمارے مؤقف سے مشابہہ معلوم ہو سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، یوکرین کی جنگ کے بارے میں اس کا مؤقف، USAID کے خاتمے کا فیصلہ، یا نام نہاد ’ووک ازم‘ کی مخالفت۔ یہ کوئی نئی بات نہیں کہ بعض اوقات بورژوا سیاستدانوں کے بیانات اور ہمارے خیالات میں کسی نہ کسی سطح پر مماثلت پائی جا سکتی ہے۔ اس حوالے سے ٹراٹسکی پہلے ہی وضاحت کر چکا ہے۔

مئی 1938ء میں، اس نے ”سوچنا سیکھو – بعض انتہائی بائیں بازو کے کارکنان کے لیے ایک دوستانہ مشورہ“ کے عنوان سے ایک مضمون لکھا۔

اس میں ہم درج ذیل الفاظ پڑھتے ہیں:

”سو میں سے نوے معاملات میں، محنت کش طبقہ وہاں منفی نشان لگاتا ہے جہاں بورژوازی مثبت نشان لگاتی ہے۔ لیکن دس معاملات میں وہ مجبور ہو جاتا ہے کہ وہ بھی وہی نشان لگائے جو بورژوازی لگاتی ہے، مگر اپنے مخصوص مہر کے ساتھ، جس میں بورژوازی پر اس کا عدم اعتماد ظاہر ہوتا ہے۔ محنت کش طبقے کی پالیسی کسی بھی طرح خودکار طور پر بورژوازی کی پالیسی کے الٹ نہیں ہوتی – اگر ایسا ہوتا تو ہر فرقہ پرست ایک عظیم حکمت عملی ساز بن جاتا؛ نہیں، انقلابی پارٹی کو ہر لمحہ داخلی اور خارجی صورتحال کا آزادانہ تجزیہ کرتے ہوئے وہ فیصلے لینے ہوتے ہیں جو محنت کش طبقے کے مفادات سے سب سے زیادہ ہم آہنگ ہوں۔ یہ اصول جنگ کے زمانے پر بھی لاگو ہوتا ہے اور امن کے دور پر بھی۔“

چاہے ٹرمپ کبھی کبھار درست بات بھی کرے، وہ ہمیشہ اپنے طبقاتی مفادات کے نقطہ نظر سے اور رجعتی مقاصد کے لیے ایسا کرتا ہے، جن کا ہم سے کوئی تعلق نہیں۔

سب سے بنیادی بات یہ ہے کہ ہم ہمیشہ طبقاتی مؤقف کو اولین اہمیت دیتے ہیں۔ اسی وجہ سے، ہمارے لیے یہ بالکل ناقابل قبول ہے کہ ہم کسی بھی صورت میں ٹرمپ کی پالیسیوں سے خود کو منسلک کریں۔ یہ ایک سنگین غلطی ہوگی۔

لیکن اس سے بھی بڑی غلطی – بلکہ جرم – یہ ہوگا کہ ہم ایک لمحے کے لیے بھی ان نام نہاد ’لبرل‘ اور ’جمہوری‘ بورژوا عناصر کے ساتھ کھڑے ہوں، جن کے ٹرمپ پر حملے محض رجعتی بورژوا اسٹیبلشمنٹ کے مفادات کے تحت کیے جا رہے ہیں، جس کے خلاف ٹرمپ فی الوقت جنگ کر رہا ہے۔

کم تر برائی؟

اگر آپ فاشزم، بوناپارٹ ازم اور جمہوریت کے مبینہ خطرے جیسے الزامات کے آگے جھکنا شروع کر دیں، تو یہ ایک ایسی ڈھلوان پر لے جائے گا جہاں بالآخر آپ ’کم تر برائی‘ کے نظریے کو قبول کرنے لگیں گے۔ اور یہ بلاشبہ سب سے بڑا خطرہ ہے۔

کیا یہ کہنا درست ہوگا کہ بائیڈن کی حکومت نے ٹرمپ کے مقابلے میں کوئی ترقی پسند کردار ادا کیا؟ یہی وہ طریقہ تھا جس کے ذریعے اسے بیچا گیا۔ اور نام نہاد بائیں بازو نے اسے قبول بھی کر لیا۔

وہ یہ دلیل دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ ٹرمپ جمہوریت کا دشمن ہے۔ لیکن اگر کوئی بائیڈن کے گروہ کے وحشیانہ طرزِ عمل کا معائنہ کرے تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اس نے آخر تک جمہوریت کے لیے مکمل حقارت کا مظاہرہ کیا۔

بائیڈن کی اسرائیل کی جانب سے غزہ پر حملے کے لیے نام نہاد ’ناقابلِ علیحدگی‘ حمایت کو دیکھیں – جس کی وجہ سے اسے ’جینو سائیڈ جو (Genocide Joe)‘ کا لقب ملا۔ یا پھر اس کی ’جمہوری (پارٹی)‘ انتظامیہ کی جانب سے اجتماع کے حق کو کھلے عام دبانے کو دیکھیں، جب سینکڑوں طلبہ کو فلسطین کے ساتھ یکجہتی میں پُرامن احتجاج کرنے پر وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور ملک بھر میں 3200 گرفتاریاں ہوئیں۔

بائیڈن نے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ امریکہ کی تاریخ کا سب سے زیادہ ”یونین نواز صدر“ ہوگا، لیکن اس نے ریلوے مزدوروں کے ہڑتال کے حق کو کچل دیا۔ اس نے ٹرمپ دور کی جبری ملک بدریوں کے خاتمے کا عہد کیا تھا، مگر بالآخر اپنے پیشرو سے بھی زیادہ غیر قانونی تارکین وطن کو ملک بدر کیا۔ یہ فہرست طویل ہے۔

آخر تک، بائیڈن اقتدار سے چمٹا رہا، حالانکہ اس کی اپنی جماعت نے اسے نااہل قرار دے کر صدارتی امیدوار کی حیثیت سے ہٹا دیا تھا۔

یہاں تک کہ جب عوام کی بھاری اکثریت نے ڈیموکریٹس کے خلاف ووٹ دیا، تب بھی اس نے اپنے صدارتی اختیارات کا استعمال جاری رکھا اور کھلم کھلا تخریب کاری کے اقدامات کیے تاکہ جمہوری طور پر منتخب امیدوار، ٹرمپ، کو نقصان پہنچایا جا سکے، اور یہاں تک کہ امریکہ کو روس کے ساتھ جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کیا۔

یہ تصور کرنا مشکل ہے کہ جمہوریت اور امریکی عوام کی اکثریت کی رائے کے لیے اس سے زیادہ کھلا مذاق اور کیا ہو سکتا ہے۔ پھر بھی، یہ بدمعاش اور اس کا گروہ آمریت کے مبینہ خطرے کے خلاف جمہوریت کے محافظ بننے کا ڈھونگ رچاتا رہا!

بائیڈن اور اس کے گروہ کی دیگر بہت سی کارروائیاں ٹرمپ کے کسی بھی عمل سے کہیں زیادہ رجعتی، تباہ کن اور وحشیانہ تھیں۔ یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے۔ پھر بھی، ہمیں بائیں بازو میں ایسے لوگ ملتے ہیں جو دلیل دیتے ہیں کہ ’جمہوریت کے دفاع‘ کے لیے ٹرمپ کے خلاف ڈیموکریٹس کی حمایت کرنا زیادہ بہتر ہے۔

ہمیں کسی ڈوبتے ہوئے جہاز سے چمٹے رہنے کی ضرورت نہیں، بلکہ، اس کے برعکس، اپنی پوری قوت سے اسے ڈبونے میں مدد دینی چاہیے۔ ہماری پالیسی لبرلز اور ان کی نام نہاد جمہوریت میں سراب پیدا کرنا نہیں، بلکہ اسے ایک مکروہ دھوکہ اور فریب کے طور پر بے نقاب کرنا ہے۔

”فرانس کہاں (Whither France)“ میں، ٹراٹسکی وضاحت کرتا ہے کہ نام نہاد ’کم تر برائی‘ کی پالیسی درحقیقت محنت کش طبقے کے ساتھ ایک سنگین دھوکہ اور غداری ہے:

”محنت کشوں کی پارٹی کو دیوالیہ پارٹی کو بچانے کی ناممکن کوشش میں نہیں الجھنا چاہیے۔ اس کے برعکس، اسے اپنی پوری قوت سے عوام کو ریڈیکل اثر و رسوخ سے آزاد کرانے کے عمل کو تیز کرنا چاہیے۔“ (نوٹ: ’یڈیکل‘ پارٹی 1930ء کی دہائی میں فرانس میں ایک لبرل جماعت تھی جو اقتدار میں تھی۔)

یہ آج ہمارے لیے بہترین نصیحت ہے۔ ٹرمپ کی رجعت پسندی کے خلاف لڑتے ہوئے، ہم کسی بھی حالت میں دیوالیہ ’لبرل‘ ڈیموکریٹس سے وابستہ نہیں ہو سکتے۔

محنت کشوں تک پہنچنے کا رستہ تلاش کرو!

عبوری ادوار، جیسے کہ وہ دور جس میں ہم آج جی رہے ہیں، لازمی طور پر الجھن کو جنم دیتے ہیں۔ ہمیں اکثر نئے اور پیچیدہ مظاہر کا سامنا کرنا پڑے گا جن کی تاریخ میں کوئی واضح مثال نہیں ملتی۔

متوازن رہنے کے لیے ضروری ہے کہ ہمیشہ بنیادی اصولوں کو مضبوطی سے تھامے رکھا جائے اور کسی بھی وقتی واقعے سے راستہ نہ بھٹکنے دیا جائے۔ موجودہ صورتحال کا سب سے نمایاں پہلو یہ ہے کہ ایک طرف تو معروضی حالات ایک انقلابی حل کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

اس کے امکانات موجود ہیں۔ مگر فی الحال کوئی ایسی قوت نہیں جو ان امکانات کو حقیقت میں بدل سکے۔ لہٰذا، فی الوقت، یہ امکانات صرف امکانات ہی رہ جاتے ہیں۔

عوام بحران سے نکلنے کی راہ تلاش کر رہے ہیں۔ وہ ایک کے بعد دوسرے پارٹی لیڈر کو آزماتے ہیں، لیکن جلد ہی انہیں تمام موجودہ جماعتوں کی خامیاں نظر آ جاتی ہیں۔ یہی سیاسی عدم استحکام کی وضاحت کرتا ہے، جو انتخابی میدان میں بائیں سے دائیں اور پھر واپس بائیں کی شدت سے جھولتی ہوئی صورتحال میں نظر آتا ہے۔

بائیں بازو کی کسی بھی طرح کی رہنمائی کے بغیر، راستہ ہر قسم کی عجیب و غریب گمراہیوں اور ٹرمپ جیسے موقع پرستوں کے لیے کھلا ہوتا ہے۔

یہ لوگ تیزی سے ابھرتے ہیں اور عوام کے غصے اور بے چینی کو آواز دیتے ہیں۔ مگر حقیقت سے ٹکراؤ بالآخر مایوسی کا سبب بنتا ہے، جو ردعمل کے طور پر عوام کو دوسری سمت میں جھکنے پر مجبور کرتا ہے۔

اگر ہم ان واقعات کو محض منفی نظر سے دیکھیں، تو ہم صورتحال کو مکمل طور پر غلط سمجھ رہے ہوں گے۔ عوام مایوس ہیں اور انہیں اپنے مسائل کے فوری حل درکار ہیں۔ ایسے میں ڈونلڈ ٹرمپ جیسے لوگ انہیں وہی پیش کرتے نظر آتے ہیں جو وہ چاہتے ہیں۔

ہمیں اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور محض ان تحریکوں کو ’انتہائی دائیں بازو‘کہہ کر رد نہیں کرنا چاہیے (جو کہ بذات خود ایک بے معنی اصطلاح ہے)۔ بلاشبہ، ایسی تحریکوں میں رجعتی عناصر موجود ہوتے ہیں، لیکن ان کی وسیع عوامی بنیاد اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ وہ متضاد سماجی بنیاد رکھتی ہیں۔

کسی بھی ملک کے محنت کشوں تک پہنچنے کے لیے ضروری ہے کہ انہیں ویسا ہی لیا جائے جیسے وہ ہیں – نہ کہ جیسے ہم چاہتے ہیں کہ وہ ہوں۔ محنت کشوں کے ساتھ مکالمہ کرنے کے لیے، ہمیں ان کے موجودہ شعور کی سطح سے آغاز کرنا ہوگا۔ کوئی بھی اور طریقہ صرف ناکامی اور بے اثری کا نسخہ ہے۔

اگر ہم کسی ایسے مزدور سے مفید مکالمہ کرنا چاہتے ہیں جو ٹرمپ کے بارے میں غلط فہمیوں کا شکار ہو، تو ہمیں اپنی بات چیخ و پکار یا فاشزم جیسے الزامات سے شروع نہیں کرنی چاہیے۔ بلکہ ہمیں صبر سے ان کے دلائل سننے چاہئیں، ان نکات پر اتفاق کرنا چاہیے جن پر اتفاق ممکن ہو، اور پھر مہارت کے ساتھ یہ سوال اٹھانا چاہیے کہ کیا واقعی ایک دولت مند ارب پتی کاروباری شخص محنت کش طبقے کے مفادات کا دفاع کر سکتا ہے؟

یقیناً، اس مرحلے پر ہمارے دلائل لازمی طور پر کامیاب نہیں ہوں گے۔ عمومی طور پر، محنت کش طبقہ مباحثوں سے نہیں، بلکہ اپنے تجربات سے سیکھتا ہے۔ اور ٹرمپ کی حکومت کا تجربہ ایک بہت تکلیف دہ سیکھنے کا عمل ہوگا۔

لہٰذا، جب ہم ٹرمپ کے حامی مزدوروں سے بات کریں، تو ہمیں دوستانہ رویہ اپنانا چاہیے، ان امور پر اتفاق کرنا چاہیے جہاں ممکن ہو، اور پھر مہارت سے ٹرمپ ازم کی حدود کو واضح کرنا چاہیے اور سوشلسٹ متبادل کو پیش کرنا چاہیے۔ وقت کے ساتھ، تضادات واضح ہو جائیں گے۔ تاہم، اس کے باوجود، ٹرمپ سے متعلق غلط فہمیاں کچھ عرصے تک برقرار رہیں گی۔

ٹرمپ کے بینر تلے اکٹھے ہونے والے ایماندار محنت کشوں کے ساتھ جارحانہ اور دشمنی پر مبنی رویہ اختیار کر کے کچھ بھی حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ یہ طریقہ نہ صرف غیر مؤثر ہے بلکہ نقصان دہ بھی ہے، اور یہ ہمیں کہیں نہیں لے کر جائے گا۔

تاریخ میں بے شمار مثالیں موجود ہیں کہ محنت کش جب پہلی بار سیاست میں قدم رکھتے ہیں تو انتہائی پسماندہ اور حتیٰ کہ رجعتی خیالات رکھتے ہیں، مگر پھر حالات کے اثر سے تیزی سے مخالف سمت میں حرکت کرتے ہیں۔

1905ء کے انقلاب کے آغاز میں روس کے مارکس وادی ایک چھوٹی اور تنہا اقلیت تھے۔ روسی محنت کشوں کی اکثریت سیاسی طور پر پسماندہ تھی اور بادشاہت اور چرچ کے بارے میں غلط فہمیوں کا شکار تھی۔

سینٹ پیٹرزبرگ میں محنت کشوں کی زبردست اکثریت فادر گیپون کی قیادت میں تھی، جو درحقیقت پولیس کے ساتھ مل کر کام کر رہا تھا۔ جب مارکس وادیوں نے زار (بادشاہ) کے خلاف پمفلٹ بانٹے تو محنت کشوں نے انہیں پھاڑ دیا، یہاں تک کہ بعض اوقات انقلابیوں پر تشدد بھی کیا۔

مگر 9 جنوری کے خونی اتوار کے واقعات کے بعد، سب کچھ تبدیل ہو گیا۔ وہی محنت کش جو کل تک پمفلٹ پھاڑ رہے تھے، اب انقلابیوں کے پاس جا کر اسلحہ مانگ رہے تھے تاکہ زار کا تختہ الٹ سکیں۔

امریکہ میں بھی ایسی ایک مثال ملتی ہے، جو شاید کم ڈرامائی ہو مگر نہایت معنی خیز ہے۔ 1930ء کی دہائی میں جب ایک نوجوان مزدور فیریل ڈوبز پہلی بار سیاست میں آیا، تو وہ ایک پکا ریپبلکن تھا۔

مگر شدید طبقاتی جدوجہد کے تجربے نے اسے سیدھا دائیں بازو کے ریپبلکنزم سے انقلابی ٹراٹسکی ازم کی طرف دھکیل دیا، اور بعد میں وہ منیپولس کی ٹیمسٹر بغاوت (Teamster Rebellion) میں ایک قائدانہ کردار ادا کرنے لگا۔

امریکہ میں طبقاتی جدوجہد کا طوفانی دور شروع ہونے والا ہے۔ ہم مستقبل میں ایسی بے شمار مثالیں دیکھیں گے، اور آج جو مزدور ٹرمپ یا اس جیسے دیگر موقع پرستوں کے پیچھے جا رہے ہیں، وہ آنے والے واقعات کی بنیاد پر سوشلسٹ انقلاب کے بینر تلے جیتے جا سکتے ہیں۔

بظاہر، ٹرمپ کی تحریک بہت مضبوط اور تقریباً ناقابلِ شکست نظر آتی ہے۔ مگر یہ محض نظر کا دھوکہ ہے۔ حقیقت میں، یہ ایک نہایت متنوع (heterogeneous) تحریک ہے جو گہرے تضادات سے بھری ہوئی ہے۔ جلد یا بدیر، یہ تضادات کھل کر سامنے آئیں گے۔

ٹرمپ کے لبرل مخالفین امید کر رہے ہیں کہ اس کی معاشی پالیسیوں کی ناکامی عوامی مایوسی اور حمایت کے زوال کا سبب بنے گی۔ ایسی ناکامی کی پیشگوئی کرنا کوئی مشکل کام نہیں۔ پہلے ہی اس کے نافذ کردہ تجارتی محصولات (tariffs) کے خلاف جوابی اقدامات کیے جا رہے ہیں، جو بالآخر صنعتی شعبوں میں روزگار کے خاتمے اور فیکٹریوں کی بندش کی صورت میں ظاہر ہوں گے۔

تاہم، ٹرمپ کی تحریک کے جلد خاتمے کی پیشگوئیاں قبل از وقت ہیں۔ وہ لوگ جو پہلے بالکل مایوس ہو چکے تھے، ٹرمپ نے ان لاکھوں لوگوں میں زبردست امیدیں اور توقعات پیدا کی ہیں۔ ایسی غلط فہمیاں اتنی گہری اور طاقتور ہیں کہ وہ ایک کے بعد ایک دھچکے اور وقتی مایوسیوں کو برداشت کر سکتی ہیں۔

ٹرمپ کی اشتعال انگیز بیان بازی کا جادو ختم ہونے میں وقت لگے گا۔ لیکن جلد یا بدیر، یہ جادو ٹوٹے گا۔ اور جتنا زیادہ وقت محنت کشوں کو یہ سمجھنے میں لگے گا کہ ان کے طبقاتی مفادات کی نمائندگی نہیں کی جا رہی، اتنا ہی شدید ردِعمل ہوگا۔

ڈونلڈ ٹرمپ اب کافی بوڑھا ہو چکا ہے۔ اور اگر وہ کسی قاتل کی گولی سے بچ بھی گیا، تو قدرت کا قانون آخرکار اسے آ لے گا۔ کسی بھی صورت میں، اس کا دوبارہ صدر بننا مشکل نظر آتا ہے – چاہے قوانین میں تبدیلی کر کے اسے اجازت دے دی جائے۔

ٹرمپ ازم کو ڈونلڈ ٹرمپ کی شخصیت کے بغیر تصور کرنا ناممکن ہے۔ یہ دراصل اس کی کرشماتی شخصیت اور عوام کو متحرک کرنے کی مہارت ہے جو اس کی متنوع تحریک کو جوڑے رکھتی ہے۔ جیسے ہی یہ عنصر ختم ہوگا، اندرونی تضادات ابھر آئیں گے، قیادت میں بحران پیدا ہوگا اور انتشار جنم لے گا۔

جے ڈی وینس ٹرمپ کا سب سے ممکنہ جانشین لگتا ہے، لیکن اس کے پاس ٹرمپ جیسی زبردست اتھارٹی اور کرشمہ نہیں ہے۔ تاہم، وہ ایک ذہین شخص ہے اور حالات کے مطابق مختلف سمتوں میں جا سکتا ہے۔ حتمی نتیجے کی پیشگوئی کرنا مشکل ہے۔

میکینکس کا ایک مشہور اصول ہے: ہر عمل کا ایک مساوی اور مخالف ردِعمل ہوتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ مبالغہ آرائی کا ماہر ہے۔ اس کی اشتعال انگیز تقریریں حد سے باہر ہوتی ہیں۔ وہ ہر وعدے کو حیرت انگیز، شاندار، عظیم اور بے مثال قرار دیتا ہے۔ اور جب آخرکار مایوسی جنم لے گی، تو وہ بھی اسی شدت کی ہوگی۔

کسی نہ کسی مرحلے پر، اس کی تحریک طبقاتی بنیادوں پر تقسیم ہو جائے گی۔ جب محنت کش طبقہ اس سے علیحدہ ہونا شروع کرے گا، تو شدت پسند چھوٹے سرمایہ دار عناصر آپس میں جڑ جائیں گے اور ایک ایسی تنظیم کی بنیاد رکھیں گے جو حقیقی معنوں میں فاشسٹ یا بوناپارٹسٹ ہوگی۔

اس افراتفری سے، تیسری جماعت کی تشکیل کی طرف ایک ناقابلِ مزاحمت رجحان ابھرے گا۔ ابتدائی طور پر، یہ ایک مبہم اور غیر واضح تحریک ہوگی – ضروری نہیں کہ یہ بائیں بازو یا ترقی پسند نظریات کی حامل ہو۔ لیکن حالات کا اپنا ایک منطقی بہاؤ ہوتا ہے۔

بہت سے محنت کش، جو ٹرمپ کے تجربے سے اپنا ہاتھ جلا چکے ہوں گے، ایک نئے متبادل کی تلاش میں ہوں گے۔ ایسا متبادل جو ان کے غصے اور امراء و اسٹیبلشمنٹ سے ان کی شدید نفرت کو زیادہ درست انداز میں ظاہر کرے۔ درحقیقت، یہ نفرت سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ان کے فطری غصے کا ناپختہ اظہار ہے، جو انہیں تیزی سے بائیں بازو کی جانب دھکیلے گا۔

یہ قطعی ناقابلِ تصور بات نہیں کہ امریکہ میں مستقبل کی کمیونسٹ تحریک کے سب سے دلیر، قربانی دینے والے اور سرکردہ انقلابی کارکن وہی محنت کش ہوں گے جو پہلے ٹرمپ ازم کے زیرِ اثر آ چکے ہوں گے، اور پھر اس سے درست نتائج اخذ کر چکے ہوں گے۔ ہم تاریخ میں ایسی بے شمار مثالیں دیکھ چکے ہیں۔

آخر میں، میں ایک بات واضح کرنا چاہتا ہوں۔ جو کچھ میں نے یہاں پیش کیا ہے، یہ کوئی حتمی تجزیہ نہیں، اور نہ ہی مستقبل کی کوئی تفصیلی پیشگوئی ہے۔ ایسا کرنے کے لیے مارکسی طریقہ نہیں، بلکہ ایک جادوئی چھڑی درکار ہوگی – جو بدقسمتی سے ابھی تک ایجاد نہیں ہوئی۔

میرے پاس موجود مشاہداتی حقائق کی بنیاد پر، میں نے ایک محتاط تجزیہ پیش کیا ہے، لیکن یہ صرف ایک علمی اندازہ ہی ہو سکتا ہے۔ موجودہ صورتحال ایک نہایت پیچیدہ مساوات کی طرح ہے، جس کے کئی ممکنہ حل ہو سکتے ہیں۔ وقت ہی ان خلا کو پُر کرے گا اور ہمیں جواب دے گا۔ تاریخ ہمیں بہت سی حیرتیں دکھائے گی۔ اور یہ ضروری نہیں کہ وہ سب بری ہوں۔

Join us

If you want more information about joining the RCI, fill in this form. We will get back to you as soon as possible.